Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

مسلمانوں میں گمراہی کے اسباب


مسلمانوں جو کہ کلمہ گو ہیں، الله کی آخری کتاب ھدایت  کے وارث ہیں مگرپھر بھی گمراہی عام ہے- اس کی وجوہ معلوم کرنا  مشکل نہیں- ایمان کے چھ ارکان میں آخری کتاب (قرآن) اور آخرت پر ایمان بھی شامل ہے- قرآن سے ھدایت ملتی ہے اور آخرت میں حساب کتاب  اعمال کے مطابق  سزا و جزا جس سے مسلمانوں کو دوسری قوموں سے اہم استثنا ہے کہ مشرک اور کفار کا جہنم ابدی ٹھکانہ ہے جبکہ مومنین اپنے اعمال صالح کے مطابق سیدھے جنت میں یا سزا کاٹنے کے بعد، الله کی رحمت سے اور رسول اللہﷺ کو جن لوگوں کی شفاعت کی الله اجازت عطا فرمایے توپھرجنت میں جا سکیں گے- دنیا میں استغفار اور توبہ کے دروازے کھلے ہیں جن سے فائدہ اٹھانے کی بجایے آخرت میں کسی شارٹ کٹ کی توقع کرنا کہاں کی عقلمندی ہے- احادیث کے مطابق گناہگار مسلمانوں کی شفاعت جہنم میں کوئلہ بن جانے کے بعد شروع ہو گی اور خیانت کرنے والوں (یعنی حقوق العباد کے مجرم) کی شفاعت سے رسول اللہﷺ  انکار فرما دیں گے، یہ ہے خلاصہ تفصیل اس< لنک> پر- 
 تو پھر گمراہی کیوں؟ 
مسلم معاشرہ میں گمراہی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قرآن ، کتاب ھدایت کی بجایے صرف تلاوت اور ثواب تک محدود ہو کر مھجور (متروک العمل) ہو چکا ہے اور آخرت کا عقیده کلمہ گو پر دوزخ حرام اور رسول اللہﷺ  کی طرف سے شفاعت کے متضاد اور غیر قرانی  عقائد و نظریات سے بے اثر(neutralize) کر دیا گیا ہے-
اخروی فلاح اُسی شخص کو حاصل ہو گی جو صراطِ مستقیم پر ہو گا، جو شخص ہدایت کو پا لیتا ہے وہ حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ اس کے مدمقابل کوئی شخص خواہ کتنا بھی مادی عروج کیوں حاصل نہ کر لے‘ اگر وہ نعمتِ ہدایت سے محروم ہے تو اس کی عاقبت اور انجام انتہائی دردناک ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کے مطالعے سے ہمیں بہت سے ایسے لوگوںـ کا پتا چلتا ہے جو نعمتِ ہدایت سے محروم ہونے کی وجہ سے ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گر گئے۔
 دنیا میں ہدایت کے راستے پر چلنے والے لوگ نہ صرف یہ کہ اخروی سربلندی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ دنیا میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو نیک نامی عطا فرمائی اور ان کے کردار اور عمل کو آنے والی نسلوں کے لیے ایک نمونہ بنا دیا۔ 
ہدایت کی نعمت 
مسلم اکثریت مسلمان اس لیے ہے کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوے اور اس نعمت کی قدر سے نہ واقف ہیں- الله کسی کو زبردستی ھدایت نہیں دیتا، یہ حاصل کرنا پڑتی ہے- سورہ فاتحہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی نعمت کی طلب کا ذکر کیاہے۔ کتاب وسنت میں ہدایت کی اہمیت بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس کی اہمیت کوپہچاننے سے قاصر ہے- جو لوگ ھدایت کی خواہش نہیں رکھتے الله ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے وہ کو ھدایت کی بات سن نہیں سکتے ، ان کے کان ، دماغ ، سوچ پر گمراہی کے قفل پر جاتے ہیں- جیسے لوہے پی زنگ لگ جاتا ہے-  ان پراللہ اور رسول اللہﷺ  کی باتیں اثر نہیں کرتیں کیونکہ جاہل علماء، پیر ، مشائخ کو وہ اپنا نجات دھندہ سمجھتے ہیں جو ان کو نظر و نیاز کے عوض جنت میں لیے جایے گا- مگر وہاں الله فرمایےگا :
"لو اب تم ایسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا ۔ جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا ‘ وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو ‘ اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے ۔ تمہارے آپس میں سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے "(ترجمہ، سورة الأنعام 94)
"اُس وقت وہ لوگ جنہوں نے ایمان لا کر نیک طرز عمل اختیار ( آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ) کیا ہے اپنے اجر پورے پورے پائیں گے اور اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر عطا فرمائے گا، اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے اُن کو اللہ دردناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی و مددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے (4:173) 
تکبر ، غرور ، ہٹ دھرمی 
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۭ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِهَا ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ۭذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ ١٤٦؁[ 7:146]
"جو لوگ زمین میں ناحق غرور/ تکبر کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیر دوں گا۔ اگر یہ سب نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہ لائیں ۔ اور اگر راستی کا راستہ دیکھیں تو (اپنا) راستہ نہ بنائیں ۔ اور اگر گمراہی کی راہ دیکھیں تو اسے راستہ بنا لیں ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے غفلت کرتے رہے"۔

كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَؕ
اِسی طرح ہم نے اس (ذکر)کو مجرموں کے دلوں میں گزارا ہے۔ (سورة الشُّعَرَآء 26:102)
 یعنی یہ قرآن اہل حق کے دلوں کی طرح تسکین روح اور شفائے قلب بن کر مجرموں کے اندر نہیں اترتا بلکہ ایک گرم لوہے کی سلاخ بن کر اس طرح گزرتا ہے کہ وہ  مجرم سیخ پا ہوجاتے ہیں اور اس کے مضامین پر غور کرنے کے بجائے اس کی تردید کے لیے حربے ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں۔

حق پسند شخص اس بات پر غور کرتا ہے کہ الله اور رسول اللہﷺ کی نسبت سے جوبات اس کے سامنے پیش کی جا رہی ہو اور ٹھنڈے دل سے غور کرتا ہے کہ یہ معقول بات ہے۔ اور جو شخص متکبر ، مغرور، ہٹ دھرم ہوتا ہے اور نہ ماننے کا ارادہ کر لیتا ہے وہ اصل مضمون پر توجہ نہیں دیتا بلکہ اسے رد کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے ۔ اس کے سامنے بات خواہ کسی طریقے سے پیش کی جائے ۔ وہ بہرحال اسے جھٹلانے کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ پیدا کر لے گا-
موجودہ حالات پر کتاب وسنت  کی روشنی سے غور کیا جائے تو گمراہی کے متعدد اسباب سامنے آتے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ قرآن و سنت کو اولین ترجیح نہ دینا 
  (i)احادیث کا غلط استعمال 
  (ii) قرآن کی تعلیمات کو حدیث سے منسوخ/ تبدیل  کرنا / جنت صرف کلمہ پرکیا اعمال صالح  کی ضرورت نہیں؟ 
  (iii) قرآن کے عقیده شفاعت کی احادیث سے تحریف / تبدیلی کی کوشش 
2.علماء اور مذہبی رہنماؤں کی ہر بات کو بلا چون و چراں ماننا
   (i) کتمان حق (آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا )
3.۔ بدعة گمراہی (وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’) اور خواہشات نفس کی پیروی
4 ۔ جاہل اور ان پڑھ  میں  فرق 
5. عقل و شعورکا استعمال نہ کرنا 
6  آباواجداد کی اندھی تقلید
7۔ سرداروں کی غیر مشروط پیروی
8 ۔ بری صحبت
9 ۔ اکثریت کی اندھی پیروی
10. حب مآل و دنیا ,  شہرت
11. امر بلمرروف و نہی عن المنکرنہ کرنا  

1۔ قرآن و سنت کو اولین ترجیح نہ دینا  اور احادیث کا غلط استعمال 

اسلام کی بنیاد قرآن پر ہے ، جو اطاعت رسول اللہﷺ  اور ان کے اسوہ حسنہ کو رول ماڈل قرار دیتا ہے- تو اسلام  کے تمام عقائد و نظریات ، ایمان، عبادات  کی بنیاد قرآن و سنت رسول اللہﷺ  کے واضح احکام جن کا صرف ایک مطلب ہوتا ہے ، تاویلوں سے دوسرے معنی پر نہیں اصل احکام (قرآن 3:7) کی بنیاد پر ہی لازم ہے-  اس کو چھوڑنا گمراہی کا راستہ ہے- مزید تفصیلات کے لیے ملاحضہ ہو:

تحریف قرآن 
کلام اللہ میں تحریف یہود کا شیوہ رہا ہے- امت مسلمہ کے بہت سے علماء و مشائخ بھی بدقسمتی سے قرآن میں معنوی تحریف کے مرتکب ہیں۔ 

اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ (قرآن  2:75)

"کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی" ۔(قرآن  2:75)

تحریف لفظی، سے مراد قرآن کی لفظی اعتبار سے کمی یا زیادتی ہے۔ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآن لفظی اعتبار سے حجت اور معجزہ ہے۔ اس لئے اپنے نزول سے ابھی تک اس میں زیر و زبر کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے- البتہ کچھ افراد ہر زمانے میں تفسیریا ترجمہ کرتے ہونے اپنے عقیده و نظریات کے مطابق تشریح کر تے ہیں- اس طرح کی تحریف کہ ’انہوں نے حرفوں کو تو قائم رکھا مگر ان کے حدود میں تبدیلی کر دی (یعنی معنی بدل دیا)[7] اسے معنوی تحریف کہیں گے-

تفسیر بہ رای سے مراد یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کو اپنی تمایلات اور شخصی عقیدہ یا گروہی عقیدہ کے مطابق معنی و تفسیر کرے یا ان پر تطبیق کرے حالانکہ اس پر کوئی قرینہ یا شاھد موجود نہ ہو ایسا کرنے والا وقعیت میں قرآن کے حضور میں تابع اور اس کا مطیع نہیں ہے بلکہ وہ قرآن کو اپنا تابع بنانا چاہتا ہے اور اگر وہ قرآ ن مجید پر کاملا ً ایمان رکھتا تو ہر گز ایسا نہیں کرتا ۔ اگر ہر شخص اپنی میلان کے مطابق اس کے معنی اور تفسیر کرنے لگے گا تو ہر باطل عقیدہ قرآن کے اوپر تطبیق دیا جانے لگے گا ۔ ایک ایسی کوشش قرآن کے زریعہ پکڑی جو قرآن کا معجزہ ہے:

تحریف قرآن کی قرآن سے پکڑ : قرآن کا زندہ معجزہ: : https://bit.ly/Tehreef-Quran

*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبوں میں  پڑھا کرتے تھے

ويقول‏:‏ ‏"‏أما بعد؛ فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهدى هدى محمد، صلى الله عليه وسلم، وشر الأمور محدثاتها، وكل بدعة ضلالة‏"‏ ثم يقول‏:‏ ‏"‏أنا أولى بكل مؤمن من نفسه‏.‏ من ترك مالاً فلأهله، ومن ترك ديناً أو ضياعاً فإلي وعلى‏"‏ ‏(‏‏‏رواه مسلم‏)‏‏‏

*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبوں میں  پڑھا کرتے تھے :*

فإن خير الحديث كتاب الله و خير الهدى هدى محمد ة شر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة 

'' یقینا بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور، بدترین عمل اسلام میں نئے طریقوں کا تعارف ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ''۔( رواه مسلم , مشكوة  كتاب الإيمان , باب الإعتصام بالكتاب والسنة )

"کتاب حدیث" سے گمراہی 

رسول اللہﷺ  نے فرمایا :

کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم للخطيب]]

رسول اللہﷺ  نے جب احدیث لکھنے اور کتابت کی ممانعت فرمائی اور کچھ کو کمزوری حفظ پی ذاتی نوٹس کی اجازت دی اور بہت کو نہ دی لیکن ساتھ ہی حدیث کی پہچان کا میعار / اصول بھی بتلا دینے کہ قرآن ، سنت اور عقل کے مطابق ہو تو قبول ، ورنہ مسترد (مکمل تفصیلحدیث کے گمشدہ بنیادی اہم اصول) - ان اصولوں کے برخلاف کتب حدیث لکھنے والوں نے اپنا ہے اسناد کا میعار بنا لیا ،  رسول اللہﷺ کی ھدایت کی حکم عدولی کا نتیجہ گمراہی ہے-

(i)  نبی کریم  ﷺ  نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (البخاری: حدیث نمبر: 5022)
(ii) حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم  نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی 2906)
(iii) خطبہ حہج ہزاروں کوگوں بے سنا، نبی کریم  ﷺ نے فرمایا :
- "میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو گے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔ (اچھا بتاؤ) تم سے قیامت کے روز میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تمہارا جواب کیا ہو گا؟“ لوگوں نے کہا: ہم گواہی دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا حکم پہنچا دیا، حق ادا کر دیا، اور نصیحت کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا، پھر لوگوں کی طرف جھکایا، اور فرمایا: ”اے اللہ! تو گواہ رہ، اے اللہ! تو گواہ رہ“۔ [ صحیح مسلم 2950، ابی داوود 1905]
کچھ میں کتاب اللہ اور سنت اور ایک میں کتاب الله اور اہل بیت کا ذکر ہے- مگر قرآن ہر حدیث میں مذکور ہے پہلے نمبر پر -
(iv) غیرثابت وغیرمعروف احادیث  پھیلانے والے اور دین میں نئی باتیں نکالنے والے جدید لوگوں سے نہ بچنا۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ، وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ»
ترجمہ:
آخر زمانہ میں جھوٹے دجال لوگ ہوں گے تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جن کو نہ تم نے نہ تمہارے آباؤ اجداد نے سنا ہوگا تم ایسے لوگوں سے بچے رہنا مبادا وہ تمہیں گمراہ اور فتنہ میں مبتلا نہ کردیں۔
(صحیح مسلم)  [مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 151]
ایک روایت میں ہے:
يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَعْرِفُوا۔۔۔
یعنی:ایسی احادیث لائیں گے جن کو تم نہیں جانتے پہچانتے ہوگے۔۔۔
[الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي، صفحة ٤٢٩، الجزء الأول والثاني من فوائد ابن بشران:99، كتاب العلم-أبو طاهر السلفي:159]
یعنی ان جدید جاہلوں سے بچو، جو نبی ﷺ کے متعلق ایسی نئی باتیں پھیلائیں گے جو ہم سے صحابہ تک والوں کی معلومات میں مشہور/محفوظ نہ ہوگی۔
(i)احادیث کا غلط استعمال 
(ii) قرآن کی تعلیمات کو حدیث سے منسوخ/ تبدیل  کرنا / جنت صرف کلمہ پر اعمال صالح  کی ضرورت نہیں؟ 
قرآن کے مطابق جنت / کامیابی صرف ایمان اور عمل صالح. حق کی تلقین اور صبر (سورہ العصر اور ٨٨ آیات ) سے ممکن ہے، جبکہ کچھ احادیث صرف دل سے  کلمہ  پر دوزخ حرام کر تی ہیں اس طرح تو قرآن کی تعلیمات منسوخ کیسے ہو سکتی ہیں، یہ لوگوں میں بدکاری اور گناہ کو فروغ دینا ہے- اور یہ کہنا  کہ رسول (ص) نے اس کو چھپانے کا فرمایا ، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سب ھدایت بتلا دی ، خطبہ حجج میں ا علان کیا کہ الله کا پیغام پہنچا دیا گواہ رہنا- 
  (iii) قرآن کے عقیده شفاعت کی احادیث سے تحریف / تبدیلی : اس کی تفصیل اس لنک پر [شفاعت یا شریعت ]
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: يَأْتُونَكُمْ بِبِدَعٍ مِنَ الْحَدِيثِ
یعنی: ۔۔۔ وہ لائیں گے تمہارے پاس نئی نئی باتیں حدیث میں سے۔۔۔  [مسند أحمد:8580(8596)، البدع لابن وضاح:65+71]
یعنی وہ جھوٹے دجال فتنہ باز لوگ ایسا بھی کریں گے کہ حدیث سے اپنے نئے نظریات وطریقے نکالیں گے اور اسے دین کا حکم یا ثواب کا کام کہہ کر لوگوں کو گمراہ کریں گے۔

2۔ علماء، مشائخ ، درویشوں اور مذہبی رہنماؤں کی ہر بات کو بلا چون و چراں ماننا
جس طرح انسان کواپنے والدین سے والہانہ محبت ہوتی ہے اسی طرح انسان کو اپنے مذہبی رہنماؤں سے بھی بہت زیادہ عقیدت ہوتی ہے۔ یہ عقیدت انسان کو کئی مرتبہ اس سطح پر پہنچا دیتی ہے کہ وہ ان کی کسی بھی بات کو نظر انداز کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتا۔ 
انسان کو اپنے مذہبی رہنماؤں کا ادب واحترام کرنا چاہیے لیکن جہاں پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات ہو وہاں پر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی بات ہی کو ترجیح دینی چاہیے۔
 اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام ِ حمید میں یہوود نصاریٰ کے اس چلن کا ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے مذہبی رہنماؤں کی شان میں غلو کرتے ہوئے ان کو منصبِ ربوبیت تک پہنچا دیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 31میں ارشاد فرماتے ہیں:
''انہوں نے بنا لیا ہے اپنے علماء اور درویشوں کو (اپنا) رب اللہ کے سوا ...."
 اُمتِ مسلمہ کویہود ونصاریٰ کے طرزِ عمل سے عبرت حاصل کرنا چاہیے اور علماء کے احترام کے باوجود اللہ اور رسولﷺ کی بات ہی کو جملہ معاملات پر فوقیت دینی چاہیے۔ 

" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)
اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)

"تم لوگوں کی ر ہنما ئی کرتے ہو، لیکن تم خود اندھے ہو. تم تو دوسروں کے شربت میں مچھر پکڑتے ہو اور خود اونٹ نگل جاتے ہو"; یہ بات حضرت عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو 2020 سال قبل کہی۔
‏ آج یہی، حال ہمارے اکثر علما ء اور دانشوروں کا ہے، ہمیں یہود ونصاریٰ کے گمراہ کن طرزِ عمل سے عبرت حاصل کرنا چاہیے جس سے بچنے کی الله اوررسول ﷺ نے تاکید کی-
علماء کا احترام اپنی جگہ مگر فوقیت صرف اللہ اور رسولﷺ کے احکام کی ہے-
اکثرعلماء، عبادات کے علاوہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے دوسرے واضح اہم بنیادی احکامات کو چھوڑ کر اپنے احکام پر ہم سے عمل کروا رہے ہیں، نام الله اور رسول اللہ ﷺ کا لگاتے ہیں- کتمان حق ، معنوی تحریف قرآن اور رسولﷺ کے فرامین کے مطابق اصول حدیث کو چھوڑ کر اپنے میعار سے کمزور، ضعیف احادیث کو صحیح بنا کر گمراہ کن عقائد و نظریات اور شریعت میں بدعات کی ملاوٹ سے اسلام کی روح اوراصل چہرہ صدیوں سے مسسخ کرکھا ہے- وہ لوگ جو خود گمراہی کی دلدل اور کیچڑمیں لتھڑے ہونے ہیں وہ مسلمانوں کو بھی گمراہی کے راستہ سے جہنم کی طرف لے جا رہے ہیں- اسلام ایک سادہ عام فہم دین کو یہود کی طرح پیچیدہ، تضادات کو شامل کردیا تاکہ دین پر ان کی فرقہ وارانہ اجارہ داری قائم رہے- قرآن کو مہجور (ترک العمل) بنا کر صرف تلاوت تک محدود کر دیا جس کا ذکر قرآن نے کیا - یہ سب کچھ اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی ہے:
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14﴾     
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا  ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿قران :4:14﴾ 
ہر انسان انفرادی طور پر الله کو جواب دہ ہے- ہم سب الله کے پاس اکیلے پیش ہوں گے اور یہ گمراہ کرنے والے لوگ کچھ مدد نہ کر سکیں گے بلکہ خود سزا بھگت رہے ہوں گے-
الله کا فرمان ہے:
"لو اب تم ایسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا ۔ جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا ‘ وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو ‘ اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے ۔ تمہارے آپس میں سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے "(ترجمہ،سورة الأنعام, 6:94)
مسلمانوں کو الله اور رسول اللہ ﷺ کے درست واضح پیغام کی یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ اب بھی وقت ہے سنبھل جایئں:
وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۱۳۲)
الله  اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے (قرآن: 3:132)
الله کے سامنے اکیلے پسش ہونا ہے اور خود جواب دینا ہو گا :
"لو اب تم ایسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا ۔ جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا ‘ وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو ‘ اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے ۔ تمہارے آپس میں سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے "(سورة الأنعام, 6:94)

* کتمان حق (آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا )

 الله  کے احکام  اور ہدایت کو چھپانا ممنوع  ہے- (قرآن 2:159)(2:174),  (3:187)

اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡتُمُوۡنَ مَآ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَيِّنٰتِ وَالۡهُدٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِى الۡكِتٰبِۙ اُولٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰعِنُوۡنَۙ ۞ 
(القرآن الکریم - سورۃ نمبر 2 البقرة ، آیت نمبر159))
ترجمہ:
بیشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کردیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔ (2:159)
 إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَـٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٤﴾ 
 حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے (2:174)

واذا اخذ اللہ میثاق الذین اوتو الکتب لتبینۃ للناس ولا تکتمونہ   (3:187)
ان اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلائو جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا  (3:187)

علماء  یہود و نصاری کا شیوہ ہے کہ وہ اللہ کے کلام میں جو بات ان کے نظریات کے برخلاف ہو اس کو چھپاتے ہیں،   جیسے کہ تورات و انجیل میں رسول اللہ ﷺ کی واضح خوش خبری اور صفات بیان ہیں مگر وہ اسے چھپاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں اس لئیے ان پر لعنت ہے۔ اب بہت سے مسلمان علماء بھی ان کی روش پر چل پڑے ہیں- 
اس  آیت  (2:159)  کے الفاظ عام ہیں، اس میں وہ مسلم علماء بھی شامل ہیں جو قرآن و سنت کی بات جانتے ہوئے اسے چھپا جاتے ہیں اور اپنے فرقے کی بات کو دین ظاہر کرکے بیان کردیتے ہیں۔ 
جن لوگوں کا دینی لحاظ سے معاشرہ میں کچھ مقام ہوتا ہے اور ان کی اتباع کی جاتی ہے۔ مثلاً علماء، پیرو مشائخ، واعظ اور مصنفین وغیرہ ایسے حضرات اگر اللہ تعالیٰ کے واضح احکام اور ہدایات کو چھپائیں تو اس کا نتیجہ چونکہ عام گمراہی اور فساد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لہذا یہ لوگ بدترین قسم کے مجرم ہوتے ہیں جو اپنے گناہ کے بار کے علاوہ اپنے بیشمار متبعین کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر پر اٹھاتے ہیں۔ لہذا ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے۔ مزید >>>>

3 ۔ بدعة گمراہی (وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’) اور خواہشات نفس کی پیروی

رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی:

" ---- جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے [ابن ماجہ:42، ابی داوود 4607, ترمزی 266]

جب رسول اللہ ﷺ ا کے بعد انبیاء گذشتہ کی سنتوں اور طریقوں کو اختیار کرنے کی بھی گنجائش نہیں تو بعد کے کسی انسان کی خود تراشیدہ خواہشات وبدعات کو اپنانے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ دین کے نام پر خود تراشیدہ رسوم وبدعات کی سخت مذمت کی گئی ہے اور ضلالت وگمراہی فرمایا گیاہے-

 اکابر امت فرماتے ہیں کہ دین میں کسی نئی بدعت کی ایجاد در پردہ رسالت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیمات) پر تنقید ہے، کیونکہ بدعت کے ایجاد کرنے والا گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ایجاد کردہ بدعت کے بغیر دین نامکمل ہے اور یہ کہ نعوذ باﷲ! اللہ   ورسول ﷺ کی نظر وہاں تک نہیں پہنچی، جہاں اس بدعت پرست کی پہنچی ہے، یہی وجہ ہے کہ بدعت کے ایجاد کرنے کو دین اسلام کے منہدم کردینے سے تعبیر فرمایا، حدیث میں ہے:

’’مَنْ وَقَّرَ صاحبَ بدعۃٍ فقد أعان علی ہدم الإسلام‘‘۔ (مشکوٰۃ،ص:۳۱).

ترجمہ:۔’’جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم وتوقیر کی، اس نے اسلام کے منہدم کرنے پر مدد کی‘‘

بدعہ پر مزید تفصیل : >>>


انسان کی خواہشات بھی کئی مرتبہ اس کو راہِ ہدایت سے بھٹکا دیتی ہیں اور انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز اور ناجائز راستے میں تفریق کیے بغیر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر قسم کے ذرائع استعمال کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ النازعات میں طغیانی کے راستے پر چلنے والے ناکام لوگوں کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا بھی ذکرکیا جو قیامت کے دن کامیاب ہوں گے۔ ناکام لوگ وہ ہیں جنہوں نے طغیانی کا راستہ اختیار کیا اور کامیاب وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی خواہشات کو دبا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نازعات کی آیات نمبر 37سے 41 میں ارشاد فرماتے ہیں:
''پس رہا (ناکام) جس نے سرکشی کی۔ اور اس نے ترجیح دی دنیوی زندگی کو۔ تو بے شک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔ اور رہا وہ (کامیاب) جو ڈرگیا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکا (اپنے) نفس کو (بُری) خواہش سے اور بے شک جنت ہی (اس کا )ٹھکانہ ہے‘‘
تکبر ، تعصب اور حسد بھی گمرآہی کے اسباب میں شامل ہے-

4. جہالت

جاہل اور ان پڑھ میں بہت فرق ہے -  جاہل باعلم، عالم ، سکالر ہوتا ہے ہوتا ہے مگر اس کا باعلم ہونا، سکالر ہونا  اس سمیت کسی کے کام نہیں آتا۔ ان پڑھ لاعلم ہوتا ہے مگر حصولِ علم سے لاعلمی کا مداوا کرلیتا ہے۔ ان پڑھ جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ جاہل سکالر سمجھتا ہے کہ وہ سب جانتا ہے۔ علم حلم پیدا کرتا ہے۔ جہل غرورِ علم پیدا کرتا ہے۔ جاہل بصارت کو بصیرت سمجھتا ہے اورعالم بصیرت کو بصارت بنا دیتا ہے۔ ان پڑھ اکبرِ اعظم ہوسکتا ہے مگر جاہل ترقی کرکے جاہلِ اعظم ہوجاتا ہے۔ان پڑھ اگر پڑھ لکھ جائے تو امکان ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اس راہ پر لگادے، لیکن جاہل کو پیر رکھنے کی بھی جگہ مل جائے تو وہ علم کی ہری بھری کھیتی اجاڑنے کے لیے بہت ہے۔
عمربِن ہشام مشرکینِ مکّہ کاسردار تھا، مشرکین کے تمام قبائل میں اُسے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا-عمرو ابن ِہشام قریش میں ابو الحکم ( دانش کا باپ ) کے لقب سے جانا جاتا تھا۔ مگر اسی ابوالحکم نے اپنی کور چشمی کے سبب دربارِ رسول سے ابو جہل کا لقب پایا۔

 بہت سے لوگ صراطِ مستقیم کی اہمیت سے لا علمی کی وجہ سے غافل ہوتے ہیں۔ دنیاوی معاملات میں اس حد تک جذب ہو جاتے ہیں کہ دینی حقائق کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسلام ہمیں توازن کا حکم دیتا ہے اور بیک وقت دین ودنیا میں ترقی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ دنیاوی معاملات کو ترجیح دیتے ہوئے دینی معاملات کو یکسر نظر انداز کر دینے والے لوگ آخرت میں ناکام اور نامراد ٹھہریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا ذکر سورہ روم کی آیت نمبر 7میں کچھ یوں فرماتے ہیں :
''وہ جانتے ہیں ظاہرکو دنیوی زندگی سے اور آخرت سے (بالکل)وہ غافل ہیں۔‘‘
اسی حقیقت کا بیان سورہ کہف کی آیات نمبر 103سے 106میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ بڑے واضح انداز میں کچھ یوں فرماتے ہیں:
'کہہ دیجئے کیا ہم خبر دیں تمہیں زیادہ خسارہ پانے والوں کی‘ اعمال کے اعتبار سے وہ لوگ جو (کہ) ضائع ہوگئی ان کی کوشش دنیوی زندگی میں‘ حالانکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا تو ضائع ہو گئے ان کے اعمال‘ سو نہیں ہم قائم کریں گے ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن ‘‘

 5. عقل و شعورکا استعمال نہ کرنا :
انسان کی دیگر مخلوقات سے برتری عقل کے استعمال کی بدولت  ہے، اوراس وجہ سے ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے ذہانت کا مالک بنایا ہے۔ کتاب اللہ میں بکثرت مقامات پر اس پر بڑا زوردیا گیا ہے۔ رب تعالیٰ نے الکتاب سے استفادہ کے لئے جن دو شرطوں کو مقدم کیا ہے، اُن میں سے ایک تو یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی سب سے بڑی نعمت یعنی اُسے بخشی گئی:
1) عقل یا ذہانت یا عقل عام کو استعمال میں لائے اور
2)  دوسرے یہ کہ رسول اللہ کے پیش کردہ نظام اور اُن کے اخلاق و کردار کی پیروی اور ان کے اُسوہٴ حسنہ کی اتباع کرے۔ سنت و احکام رسول پر عمل میں کسی اگر ، مگر ، حجت ، تاویل کو آڑے نہ آنے دے-کیونکہ  الله اور رسول الله  ﷺ کی نافرمانی کی سزا ابدی جہنم ہے جو کہ کفر کی سزا ہے:
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14﴾     
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا  ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿قران :4:14﴾ 


عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا۔ (قرآن 2:269)

لفظ عقل جسے ہم عقل عام Common Sense یا انسانی ذہانت بھی کہہ سکتے ہیں، قرآن  کا لفظ ہےجو کتاب اللہ میں تقریباً اُنتالیس مرتبہ، اور مخلتف انداز میں 49 مرتبہ استعمال ہوا ہے– کلام اللہ میں بار بار جو الفاظ آتے ہیں لعلکم تعقلون، افلا تعقلون، لقوم یعقلون، فہم لا یعقلون، اکثرہم لا یعقلون، ان الفاظ پر مشتمل آیتیں انسانی عقل کو بھی اور انسانی ذہانت Intellect کو بھی دعوت دیتی ہیں، تاکہ ہم میں سوچ کا عمل جاری و ساری ہوجائے۔ کامن سنس کے استعمال کی ہماری عادت بنے۔ اس طرح ہم انسانی عقل کی قدر و قیمت کے ساتھ اس کے استعمال کا سلیقہ بھی سیکھ لیں۔ انسانی سوچ کا یہ عمل دراصل اس کی ساری ترقیات کا ضامن ہے۔ دنیوی ترقی کا دارومدار بھی اسی پر ہے اور اپنی ہمیشہ کی زندگی کی ترقی کے رازہائے دست بستہ بھی اسی فکر و عمل کے ذریعے کھلنے شروع ہوں گے۔ شرط یہ ہے کہ عقل کو کتاب اللہ اوراسوة الرسول صلى الله علیہ وسلم کی روشنی میں استعمال کیا جائے، چاہے معاملاتِ دنیا ہوں کہ معاملاتِ دینی۔ مزید >>>>
لوگوں سے ان کی عقل کے بقدر حدیث بیان نہ کرنا۔ ہر سنی سنائی بات بیان نہ کرنا۔
أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ: مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا، لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ، إِلَّا كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً.[مسلم:1/11]
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ جب تم لوگوں سے ایسی احادیث بیان کروگے جہاں ان کی عقول نہ پہنچ سکیں تو بعض لوگوں کے لئے یہ فتنہ کا باعث بن جائے گی یعنی وہ گمراہ ہوجائیں گے اس لئے ہر شخص سے اس کی عقل کے موافق بات کرنی چاہیے۔

6۔ آباواجداد کی اندھی تقلید:
ہر انسان کو اپنے آبائو اجداد کے ساتھ محبت ہوتی ہے اور یہ محبت اس کو کئی مرتبہ اس سطح پر بھی لے جاتی ہے کہ وہ اللہ کے دین اور اس کے واضح احکامات کے مقابلے پر اپنے آباؤ اجداد کی بات کو ترجیح دینے پر آمادہ وتیار رہتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے گمراہی کے اس سبب کا ذکر قرآن مجید کے متعدد مقامات پر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ زخرف کی آیات نمبر 23تا 24میں ارشاد فرماتے ہیں:

''اور اسی طرح ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا مگر اس (بستی) کے خوشحال لوگوں نے کہا: بے شک ہم نے پایا اپنے آباؤ اجدادکو ایک طریقے پر اور بے شک ہم ان کے قدموں کے نشانات کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ اس (ڈرانے والے) نے کہا اور کیا (بھلا) اگر میں لے آؤں تمہارے پاس زیادہ ہدایت والے طریقے کو (اُس) سے جس پر تم نے پایا اپنے آباؤ اجداد کو۔ انہوں نے کہا: بے شک ہم جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو‘ انکار کرنے والے ہیں‘‘۔

اسی طرح سورہ بقرہ میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے گمراہی کے اس سبب کو بڑے ہی واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 170میں ارشاد فرماتے ہیں: 

'اور جب کہا جائے ان سے پیروی کرو (اس چیز کی) جو نازل کی ہے اللہ نے (تو) کہتے ہیں بلکہ ہم پیروی کریں گے (اس راہ کی) جس پر ہم نے پایا ہے اپنے آبائواجداد کو ،اگرچہ ہوں ان کے آبائواجداد نہ سمجھتے کچھ (بھی) اور نہ ہی وہ سیدھے راستے پر ہوں‘‘۔ 

7. سرداروں کی غیر مشروط پیروی:

 بہت سے لوگ اپنے سرداروں اور سیاسی رہنماؤں کی بات کو بھی غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اور شخصیت پرستی میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ان کے مقابلے پر کتاب وسنت کی تعلیمات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔
 اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیات 66 تا 67 میں اس حقیقت کو واضح فرمایا :'
'جس دن اُلٹ پلٹ کیے جائیں گے اُن کے چہرے آگ میں وہ کہیں گے: اے کاش ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی اور ہم نے اطاعت کی ہوتی رسول کی، اور وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور بڑوں کی تو انہوں نے گمراہ کر دیاہمیں(سیدھے )راستے سے‘‘۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا أَخَافُ عَلَی أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ۔
بیشک مجھے اپنی امت پر گمراہ کرنے والے رہنماؤں Leaders کا ڈر ہے۔ [ترمذی:2229، ابوداؤد:4252]

8۔ بری صحبت:

انسان کی گمراہی کا ایک بڑا سبب بری صحبت بھی ہے۔ بہت سے لوگ سیدھے راستے سے فقط بری صحبت کی وجہ سے بھٹک جاتے ہیں۔ بری صحبت کی وجہ سے انسان کے افکار، نظریات اور اعمال میں منفی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن ایسے لوگوں کی ناکامی کا ذکر سورہ فرقان کی آیات نمبر 27سے 29میں کچھ یوں فرماتے ہیں: 
''اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا ظالم اپنے ہاتھوں کو‘ کہے گا: اے کاش میں اختیار کرتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے بربادی! کاش میں نہ بناتا فلاں کو دلی دوست۔ بلاشبہ یقینا اس نے گمراہ کر دیا (اس) ذکر (یعنی قرآن) سے اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس ‘‘۔

اولادوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے والدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحبت پر نظر رکھیں تاکہ بچہ غلط صحبت کی وجہ سے گمراہی کا شکار نہ ہو جائے۔ 

9۔ اکثریت کی پیروی:

 عوام اور دانشوروں کی اکثریتی رائے کو ملکی معاملات میں اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن جب اکثریت کی رائے وحی الٰہی سے متصادم ہو تو ایسے موقع پر اکثریت کی رائے کی پیروی کرنا یقینا انسان کی گمراہی کا ایک بڑا سبب ہے۔سورہ انعام کی آیت نمبر116میں ارشاد ہوا: '
'اور اگر آپ اطاعت کریں اکثر کی جو زمین میں ہیں (تو) وہ آپ کو بہکا دیں گے اللہ کے راستے سے۔نہیں وہ پیروی کرتے مگر (اپنے) گمان کی اور نہیں ہیں وہ مگر اٹکل دوڑاتے‘‘
10. حب مآل و شہرت ، دنیا 
افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:
”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ”
"دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔   (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)

11. امر بلمرروف و نہی عن المنکرنہ کرنا  
صرف اپنے آپ میں مست ہونا اور نیکی کی تلقین اور بدی سے روکنے کی کوئی کوشش نہ کرنا- 
کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ عَنۡ مُّنۡکَرٍ فَعَلُوۡہُ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۷۹﴾
"آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وہ بہت برا تھا ۔" (قرآن : 5:79)
 برائی کو دیکھتے ہوئے برائی سے نہ روکنا، بہت بڑا جرم اور لعنت غضب الہی کا سبب ہے۔ حدیث میں بھی اس جرم پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " سب سے پہلا نقص جو بنی اسرائیل میں داخل ہوا یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو برائی کرتے ہوئے دیکھتا تو کہتا، اللہ سے ڈر اور یہ برائی چھوڑ دے، یہ تیرے لیے جائز نہیں۔ لیکن دوسرے روز پھر اسی کے ساتھ اسے کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے میں کوئی عار یا شرم محسوس نہ ہوتی، (یعنی اس کا ہم نوالہ وہ ہم پیالہ وہم نشین بن جاتا) درآں حالیکہ ایمان کا تقاضا اس سے نفرت اور ترک تعلق تھا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان آپس میں عداوت ڈال دی اور وہ لعنت الہی کے مستحق قرار پائے۔ پھر فرمایا کہ : 
 ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے، یا پھر قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنے ہاں سے عذاب بھیج دے، پھر تم اس سے دعا کرو گے تو وہ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا۔ “ [ أحمد : ٥؍٣٨٨، ح : ٢٣٣٦٣۔ ترمذی، : ٢١٦٩، وحسنہ الترمذی والألبانی ]
صدیوں سے قرآن  اور رسول اللہﷺ  کے احکام کی خلاف درزی کھلم کھلا جاری ہے اور کسی کو روکنے کی توفیق نہ ہوئی . کیوں؟

اختتامیہ 
"تم لوگوں کی ر ہنما ئی کرتے ہو، لیکن تم خود اندھے ہو. تم تو دوسروں کے شربت میں مچھر پکڑتے ہو اور خود اونٹ نگل جاتے ہو"; یہ بات حضرت عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو 2020 سال قبل کہی۔
‏ آج یہی، حال ہمارے اکثر علما ء اور دانشوروں کا ہے، ہمیں یہود ونصاریٰ کے گمراہ کن طرزِ عمل سے عبرت حاصل کرنا چاہیے جس سے بچنے کی الله اوررسول ﷺ نے تاکید کی-
علماء کا احترام اپنی جگہ مگر فوقیت صرف اللہ اور رسولﷺ کے احکام کی ہے-
اکثرعلماء، عبادات کے علاوہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے دوسرے واضح اہم بنیادی احکامات کو چھوڑ کر اپنے احکام پر ہم سے عمل کروا رہے ہیں، نام الله اور رسول اللہ ﷺ کا لگاتے ہیں- کتمان حق ، معنوی تحریف قرآن اور رسولﷺ کے فرامین کے مطابق اصول حدیث کو چھوڑ کر اپنے میعار سے کمزور، ضعیف احادیث کو صحیح بنا کر گمراہ کن عقائد و نظریات اور شریعت میں بدعات کی ملاوٹ سے اسلام کی روح اوراصل چہرہ صدیوں سے مسسخ کرکھا ہے- وہ لوگ جو خود گمراہی کی دلدل اور کیچڑمیں لتھڑے ہونے ہیں وہ مسلمانوں کو بھی گمراہی کے راستہ سے جہنم کی طرف لے جا رہے ہیں- اسلام ایک سادہ عام فہم دین کو یہود کی طرح پیچیدہ، تضادات کو شامل کردیا تاکہ دین پر ان کی فرقہ وارانہ اجارہ داری قائم رہے- قرآن کو مہجور (ترک العمل) بنا کر صرف تلاوت تک محدود کر دیا جس کا ذکر قرآن نے کیا - یہ سب کچھ اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی ہے:
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14﴾     
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا  ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿قران :4:14﴾ 
ہر انسان انفرادی طور پر الله کو جواب دہ ہے- ہم سب الله کے پاس اکیلے پیش ہوں گے اور یہ گمراہ کرنے والے لوگ کچھ مدد نہ کر سکیں گے بلکہ خود سزا بھگت رہے ہوں گے-
الله کا فرمان ہے:
"لو اب تم ایسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا ۔ جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا ‘ وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو ‘ اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے ۔ تمہارے آپس میں سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے "(ترجمہ،سورة الأنعام, 6:94)
"رساله تجديد الاسلام" کا مقصد یہ ہےکہ مسلمانوں کو الله اور رسول اللہ ﷺ کے درست واضح پیغام کی یاد دہانی کرانا کہ اب بھی وقت ہے سنبھل جایئں:
وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۱۳۲)
الله  اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے (قرآن: 3:132)
 گمراہی سے اللہ کی پناہ مانگو 
سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے:
« اللهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِعِزَّتِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْ تُضِلَّنِي، أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ يَمُوتُونَ »
یعنی اے پروردگار ! میں تیرا فرمانبردار ہو گیا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر بھروسا کیا اور تیری طرف رجوع کیا اور تیری مدد سے دشمنوں سے لڑا۔ اے مالک میرے ! میں تیری عزت کی پناہ مانگتا ہوں کوئی برحق معبود نہیں سوائے تیرے، اس بات سے کہ تو بھٹکا دے مجھ کو، تو وہ زندہ ہے جو کبھی نہیں مرتا، جن اور آدمی مرتے ہیں۔[صحیح مسلم:2717 مسند احمد:2748، صحیح ابن حبان:898]
الله ہی ہدایت دیتا ہے اپنے نور سے جسے چاہے [سورۃ النور:35،تفسیر ابن القیم:ص393]
تکبر ، غرور ، ہٹ دھرمی 
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۭ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِهَا ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ۭذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ  [7:146]
"جو لوگ زمین میں ناحق غرور/ تکبر کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیر دوں گا۔ اگر یہ سب نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہ لائیں ۔ اور اگر راستی کا راستہ دیکھیں تو (اپنا) راستہ نہ بنائیں ۔ اور اگر گمراہی کی راہ دیکھیں تو اسے راستہ بنا لیں ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے غفلت کرتے رہے"۔

حق پسند شخص اس بات پر غور کرتا ہے کہ الله اور رسول اللہﷺ کی نسبت سے جوبات اس کے سامنے پیش کی جا رہی ہو اور ٹھنڈے دل سے غور کرتا ہے کہ یہ معقول بات ہے۔ اور جو شخص متکبر ، مغرور، ہٹ دھرم ہوتا ہے اور نہ ماننے کا ارادہ کر لیتا ہے وہ اصل مضمون پر توجہ نہیں دیتا بلکہ اسے رد کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے ۔ اس کے سامنے بات خواہ کسی طریقے سے پیش کی جائے ۔ وہ بہرحال اسے جھٹلانے کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ پیدا کر لے گا-
گمراہی کے ان اسباب کو اگر اچھے طریقے سے سمجھ لیاجائے تو یقینا انسان گمراہی کے راستے سے محفوظ ہو کر صراطِ مستقیم پر چل سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو گمراہی سے بچ کر صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین!

اسلام سچا دین ہے اور قرآن سچی کتاب ھدایت ہے سنت  اور احادیث کا خزانہ موجود ہے جس کو رسول اللہﷺ کے میعار اور اصولوں کے مطبق مرتب کرنے کی فوری اشد ضرورت ہے- مسلمانوں کو کسی خوف کے بغیرقرآن اور دین اسلام کی تعلیم اور تحقیق کو جدید خطوط پر منظم کرنے اورمعاشرہ کے ہر طبقہ میں عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دین اسلام پرفرقہ وار، متشدد، جاہل، فتنہ و فسادی، تنگ نظر افراد اور گروہوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو- مہذب ، تعلیم یافتہ، محققین کی اسلام کو اشد ضرورت ہے تاکہ پوری دنیا کو قرآن اور اسلام کے ابدی پیغام حق سے مسخر کیا جا سکے:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳۳﴾
"وہی توہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو سب مذہبوں پر غالب کردے خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوارہو" (قرآن: 9:33)
اگر یہ کام . یہ انویسٹمنٹ (investment) پاکستانی مسلمان نہیں کرے گا تو کوئی اور کرے گا، یہ ہونا ہی ہے لازم---- امریکہ اور مغرب میں نو مسلم بہت جوش و خروش سے تحقیقی کا م کر رہے ہیں اور وہ پھر لیڈ لے جائیں گے ---
(اے مسلمانو ! ) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہوں “ (2:143)
اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے (47:38 قرآن)

http://raahedaleel.blogspot.com/2019/02/blog-post_20.html
[گمراہی کے اسباب(علامہ ابتسام الہٰی ظہیر) سے کچھ مواد شامل ہے ]

رسالہ تجدید السلام 

حقائق قرآن و سنت ، احدیث اور تاریخ سے ریفرینسز/ لنکس کے ساتھ تاکہ آپ خود فوری طور پرتصدیق کریں:
1.
اصول علم الحديث : https://bit.ly/Hadith-Basics
2 معجزہ قرآن: https://bit.ly/Tehreef-Quran
3مصادر السلام: https://bit.ly/Islamic-Sources
4. ایمان : https://bit.ly/Aymaan
5. شفاعت: https://bit.ly/Shfaat
6. ربا، آسان قرآنی حل@ https://SalaamOne.com/Riba
7.رسالہ تجدید الاسلام: https://bit.ly/Tejdeed-Islam
8. نجات : https://bit.ly/Najaat
@ ربا کا مسلہ ابھی حل ہو سکتا ہے قرآن کے مطابق، لیکن یہ ان کے مفاد میں نہیں، مسلہ زندہ رہے، عدلیہ بھی شامل ہے، لوگوں کوسود خوری کے گناہ میں رکھ کر گالیاں دیتے رہیں ان کی پاکیزگی کا بھرم بنا رہے-

~~~~~~~~~

بغیر علم کے دوسروں کو گمراہ کرنا

آجکل سوشل میڈیا پر اہل علم کے ساتھ ساتھ  لا تعداد "لاعلم عالم" ملتے ہیں جن کے نظریات گمراہی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ قرآن وسنت سے "واضح دلیل" کے بغیر کسی بات کو قبول نہ کریں، واضح دلیل کے لئیے سورہ آل عمران آیت 7 کا بغور مطالعہ کریں "اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ" ہی اسلام کی بنیاد ہیں،  تاویلیں، تفسیریں اور ماخوز opinion   کسی کی زاتی رائیے ہو سکتی ہے جس کے درست یا غلط ہونے کے امکانات ہیں اس لئیے حجت نہیں۔ قرآن نے گمراہی کے تمام راستے( 3:7 ) میں بند کر دئیے مگر بڑے بڑے علماء بھی اس کو نظرانداز کرتے ہیں اور اپنی تفسیروں اور تاویلوں کی بنیاد پر فرقے بناتے ہیں

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لِيَحۡمِلُوۡۤا اَوۡزَارَهُمۡ كَامِلَةً يَّوۡمَ الۡقِيٰمَةِ‌ۙ وَمِنۡ اَوۡزَارِ الَّذِيۡنَ يُضِلُّوۡنَهُمۡ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ‌ؕ اَلَا سَآءَ مَا يَزِرُوۡنَ ۞ 
(القرآن - سورۃ نمبر 16 النحل ,آیت نمبر 25)
ترجمہ:
تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے بوجھ پورے اٹھائیں اور کچھ بوجھ ان کے بھی جنھیں وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں۔ سن لو ! برا ہے جو بوجھ وہ اٹھا رہے ہیں۔ 

لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (38، 39) اور سورة عنکبوت (12، 13)

 ابوہریرہ ؓ سے روایت 'مسلم' نے مذکور کی کہ: ”جو شخص ہدایت کے کسی کام کی طرف دعوت دے اس کے لیے ان لوگوں کے اجر جتنا اجر ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے اجروں میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا اور جو شخص گمراہی کے کسی کام کی طرف دعوت دے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جتنا گناہ ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔“
آدم ؑ کے قاتل بیٹے پر قیامت تک کے ہر ناجائز قتل کا بوجھ اس کی مثال ہے۔ دیکھیے سورة مائدہ (31، 32)۔
یہ اللہ تعالیٰ کا عین عدل ہے کہ گمراہ کرنے والے اپنے گناہوں کا (جو انھوں نے خود کیے) کامل بوجھ اٹھائیں گے اور جن کو گمراہ کیا ان کے سارے بوجھ نہیں بلکہ کچھ بوجھ اٹھائیں گے۔ ”ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ“ میں ”مِنْ“ تبعیض کے لیے ہے، یعنی ان کے صرف ان گناہوں کو جو انھوں نے ان کے کہنے پر کیے۔ (شعراوی) 

 يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ : اس سے "اندھی" تقلید کا رد نکلتا ہے، کیونکہ اندھی تقلید علم کی ضد ہے اللہ اور رسول کی بات دین میں دلیل اور علم ہے،  یہاں بغیر علم گمراہ کرنے والوں اور ان کے پیچھے چل کر گمراہ ہونے والوں میں سے کسی کا عذر تقلید قبول نہیں ہوگا۔ ابن قیم ؓ نے فرمایا :
اَلْعِلْمُ مَعْرِفَۃُ الْھُدٰی بِدَلِیْلِہِ، مَا ذَاکَ وَالتَّقْلِیْدُ یَسْتَوِیَانِ، إِذْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ أَنَّ مُقَلِّدًا ، لِلنَّاسِ وَالْأَعْمٰی ھُمَا سِیَّانٖ
علم ہدایت کو اس کی دلیل (قرآن و سنت) کے ساتھ پہچاننے کا نام ہے۔ یہ اور اندھی تقلید کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔
تقلید 
کوئی عالم اپنی یا کسی فرد کی تقلید کرنے کی ترغیب نہیں دے سکتا ، تقلید صرف رسول الله صلعم کی ہے، جن کو قرآن نے  نمونہ قرار دیا ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہے- مختلف ائمہ اپنی تحقیق اور علم کی بنیاد پر رسول الله صلعم کی تعلیمات پیش کرتے ہیں یہ ان ائمہ کی تقلید نہیں بلکہ رسول الله  صلعم کی ہی تقلید کی کوشش ہے کیونکہ ہر عام مسلمان عالم نہیں ہوتا نہ ہی وہ زیادہ تحقیق کر سکتا ہے مگر یہ تو معلوم کر سکتا ہے کہ جس امام کی تعلیمات کو قرآن و وہ سنت رسول الله صلعم سمجھ کر قبول کر رہا ہے اس کی علمی دینی حثیت کیا ہے؟ ہر کسی کو یہ مرتبہ نہیں مل سکتا صدیوں کے بعد کسی جید عالم ، امام کی علمی حیثیتت  و مقام کا تعین ہو سکتا ہے- اس لیے اندھی تقلید اور تقلید کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے جب بھی کسی معامله میں کسی عالم ، امام سے منسوب کسی تعلیم پر شک ہو تو قرآن و سنت کی روشنی میں مزید تحقیق کی جاسکتی ہے کسی انسانی غلطی کی درستی کی گنجائش ہے- 
 
آجکل سوشل میڈیا پر لا تعداد اس قسم کے "لاعلم عالم" ملتے ہیں جن کے نظریات گمراہی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ قرآن وسنت سے "واضح دلیل" کے بغیر کسی بات کو قبول نہ کریں، واضح دلیل کے لئیے سورہ آل عمران آیت 7 کا بغور مطالعہ کریں "اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ" ہی اسلام کی بنیاد ہیں،  تاویلیں، تفسیریں اور ماخوز opinion   کسی کی زاتی رائیے ہو سکتی ہے جس کے درست یا غلط ہونے کے امکانات ہیں اس لئیے حجت نہیں۔ قرآن نے گمراہی کے تمام راستے( 3:7 ) میں بند کر دئیے مگر بڑے بڑے علماء بھی اس کو نظرانداز کرتے ہیں-

#Quran #Islam #Muslims
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~

Popular Books