صرف الله ہی حقیقی رزاق ہے
سب مخلوق کا رزق الله ہی کے ذمہ ہے ….
١.وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ يَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ
’’اور زمین میں کوئی چلنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی کے ذمہ ہے اور وہ اس کے قیام اور اس کے دفن کیے جانے کی جگہ کو جانتا ہے ۔سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے ۔‘‘ (ھود:6)
٢.وَ كَاَيِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اَللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَ اِيَّاكُمْ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (العنکبوت:20)
’’کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق نہیں اُٹھائے پھرتے، اللہ ہی انہیں اور تمہیں رزق دیتا ہے وہ سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
٣.وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُمْ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا(الاسراء:31)
’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم ہی انھیںاور تمھیں رزق دیتے ہیں۔ بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔
٤. قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ يُّخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ مَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ (یونس:۳۱)
’’فرما دیں کون ہے جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یا کون ہے جو تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ؟ اور کون ہے جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے؟ وہ فوراً کہیں گے ’’ اللہ‘‘ تو فرما دیں پھر کیا تم ڈرتے نہیں ؟ ‘‘
’’اللہ‘‘ کے علاوہ کوئی حقیقی رازق نہیں، رزق صرف الله سے مانگو:
٥. اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْكًا اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْهُ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (العنکبوت: 17)
’’تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم جھوٹ گھڑ رہے ہو،حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے، اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر ادا کرو ۔ تم اسی کی طرف پلٹ کرجانے والے ہو۔‘‘
٦. وَ يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ شَيْـًٔا وَّ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ
’’اور اللہ کے سواان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں آسمانوں اور زمین سے رزق دینے کے مالک ہیں اورنہ وہ اس کا اختیار رکھتے ہیں۔‘‘(النحل:73)
٧. یاَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لا اِلٰهَ اِلَّا هُوَفَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ (فاطر:۳)
’’اے لوگو !تم پرجو اللہ کے انعامات ہیں انہیں یاد رکھو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو۔‘‘
٨. مَا اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَا اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ (الذاریات:58 ,57، :51)
’’میں اُن سے رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ یقیناً اللہ ہی رزق دینے والا ہے وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ ‘‘
یہ عام مشاہدہ ہے کہ آسمانوں اور زمین ، سمندر میں رزق ، خوراک جنوروں، نباتات ، معدنیات وغیرہ کی شکل میں دستیاب ہے - ان کو پیدا کرنے والا کون ہے ؟ صرف الله ... اب اگر کوئی انسان اس رزق کو اپنی کوشش سے حاصل کرتا ہے اور دوسرے انسانوں کو مہیا کرتا ہے، جیسے کسان زمین سے فصل حاصل کرتا ہے، مچھیرے دریا ،سمندر سے مچھلیاں پکڑتے ہیں اور دوسروں کو مہیا کرتے ہیں تو وہ مجازی طور پر رزاق کہلا سکتے ہیں مگر اصل رزاق تو الله ہے جو فصل کو بیج سے پیدا کرتا ہے ، مچھلیوں کو پیدا الله کرتا ہے ... تما رزق جو ملتا ہے اس کا خالق الله ہے ، ووہی اصل اور بڑا رزاق ہے-
جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالٰی غالب ہے ، بدلہ لینے والا ۔[سورة آل عمران 3 آیت: ,4]
یہ عام مشاہدہ ہے کہ آسمانوں اور زمین ، سمندر میں رزق ، خوراک جنوروں، نباتات ، معدنیات وغیرہ کی شکل میں دستیاب ہے - ان کو پیدا کرنے والا کون ہے ؟ صرف الله ... اب اگر کوئی انسان اس رزق کو اپنی کوشش سے حاصل کرتا ہے اور دوسرے انسانوں کو مہیا کرتا ہے، جیسے کسان زمین سے فصل حاصل کرتا ہے، مچھیرے دریا ،سمندر سے مچھلیاں پکڑتے ہیں اور دوسروں کو مہیا کرتے ہیں تو وہ مجازی طور پر رزاق کہلا سکتے ہیں مگر اصل رزاق تو الله ہے جو فصل کو بیج سے پیدا کرتا ہے ، مچھلیوں کو پیدا الله کرتا ہے ... تما رزق جو ملتا ہے اس کا خالق الله ہے ، ووہی اصل اور بڑا رزاق ہے-
جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالٰی غالب ہے ، بدلہ لینے والا ۔[سورة آل عمران 3 آیت: ,4]
سوشل میڈیا پرایک فوٹو پوسٹ دیکھی، جس کی تفصیل درج ذیل ہے :
…………………..
وَاللَّـهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
اور الله رزق دینے والوں میں سب سے بہتر رزق دینے والا ہے
خَيْرُ کا معنی ہے بہتر رزاق کا معنی رزق دینے والا ، رازق کی جمع رازقین ہے
اور وہ الرَّازِقِينَ کون سے ہیں ؟ جن کو اللہ رازقین رہا ہے ؟
تمام منافقین کو چیلنج ہے؟ حق بتا سکتے ہو تو بتاؤ - بہتر رزاق الله مگر جن کو الله "رازقین" کہ رہا ہے ان کو کیوں چھپا رہے ہو؟
الله کو کیوں جھوٹا کہ رہے ہو؟ یہ کہہ کر کہ اللہ کے علاوہ کوئی رزاق نہیں -
جب الله رزاق مانتا ہے تو پھر تم منافقین لوگوں کیوں انکار کرتے ہو ؟
یہ آیت قرآن سے نکال سکتے ہو تو نکال کر دکھاؤ
……………….
تجزیہ :
اس پوسٹ کا لکھاری گمنام ہے. مشکوک ہے کہ کیا وہ ملحد ہے یا کوئی اسلام دشمن ، غیرمسلم اکثر اس قسم کی پوسٹ کرتے ہیں- گمنام لکھاری کی پوسٹ سے یہ پوائنٹس ملتے ہیں :
١.قرآن کی آیت کا نمبر، ریفرنس نہیں
٢.پوسٹ کرنے والے کا کوئی اتا پتہ نہیں … گمنام …
٣.پوسٹ کرنے والا یہ ظاہرنہیں کرتا ہے کہ … الله کے علاوہ "رازقین " کون ہیں ؟
٤.وہ مخاطب پر (جو اس سے متفق نہیں) منافقین کا فتوی جاری کرتا ہے اور چیلنج بھی کرتا ہے
٥. الزام لگاتا ہے (استغفراللہ) کہ : الله کو کیوں جھوٹا کہ رہے ہو ؟ یہ کہ کر کہ اللہ کے علاوہ کوئی رزاق نہیں !
٦.جب الله رزاق مانتا ہے تو پھر تم منافقین لوگوں کیوں انکار کرتے ہو ؟
٧. دعوی کرتا ہے کہ : یہ آیت قرآن سے نکال سکتے ہو تو نکال کر دکھاؤ
علماء یہود و نصاری کی تقلید :
مسیحیت کےسکالرز کا عام معمول ہےکہ وہ اپنے خود ساختہ من گھڑت عقائد اور نظریات کی توجیح اور سپورٹ حاصل کرنے کے لیے، بائبل اور خاص طور پر انجیل (چار) کی کچھ آیات کو سیاق و سباق اور بائبل کے غیر متنازعہ توحیدی نظریہ کو پس پشت رکھ کر اپنی مرضی کی تشریح کرتے ہیں- اس طرح وہ مشرکانہ مسیحی نظریہ تثلیث کو بائبل سے ثابت کرنے کی مذموم نا کام کوشش کرتے ہیں - سینکڑوں سال کی مسیحی تاریخ میں ہمیسشہ توحید پرست مسیحی موجود رہے ہیں اور آج بھی خاصی تعداد میں ہیں جو ماورا بائبل نظریہ تثلیث کو مسترد کرکہ توحید خالص پر قائم ہیں- یہود کے علماء کا بھی یہی تحریف کلام الله کا طریقه رہا ہے- عبداﷲ بن سبا ء یمنی یہودی ایک سربرآوردہ عالم تھا اس نے اسلام کے ابتدائی دور میں کلام الله میں تحریف کی سازش کی اور گمراہ کن نظریات اسلام میں داخل کرنے کی سازش کی، جو آج تک جاری ہے- تفصیل ...[....]
قرآن کا بنیادی تھیم توحید خالص اور رد شرک سے بھر پور ہے - قرآن کا کوئی قاری، مسلمان ہو یا غیر مسلم، وہ قرآن سے کوئی مشرکانہ نظریہ نہیں نکال سکتا- قرآن میں الفاظ کی تحریف ممکن نہیں، اس کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہے۔(الحجر15:9) لہٰذا جن کے دل ودماغ میں کھوٹ ہے وہ مسیحی و یہود کے راستہ پر چل کر اپنے خود ساختہ من گھڑت مشرکانہ عقائد اور نظریات کی توجیح اور سپورٹ حاصل کرنے کے لیے، قرآن کی کچھ آیات کو سیاق و سباق اورقرآن کے غیر متنازعہ توحیدی نظریہ کو پس پشت رکھ کر اپنی مرضی کی مشرکانہ تشریح کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جس کو بآسانی قرآن مسترد کرتا ہے :
تفہیم قرآن کا اہم ترین ،بنیادی اصول :
تفہیم قرآن کا اہم ترین ،بنیادی اصول :
"وہی اللہ تعالٰی ہے جس نے تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں ۔ [سورة آل عمران 3 آیت: 7]
اس آیت مبارکہ میں ٤ اہم نقاط ہیں . فتنہ ، فتور اور گمراہی سے بچاؤ کا نسخہ اللہ نے بتلا دیا نقطۂ نمبر ١، واضح مضبوط آیتیں اصل کتاب ہیں ان پر عمل کرنا ہے :
١. واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں
٢. بعض متشابہ آیتیں ہیں جن کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا
٣.جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے-
٤.پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں-
متشابہ آیات کون سی ہیں؟ اس پر علماء کی تشریحات ہیں ، مگر "واضح مضبوط آیتیں، جو اصل کتاب ہیں" ان پر کوئی شک کی گنجائش نہیں - اگر الله کہتا ہے کہ :
یاَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لا اِلٰهَ اِلَّا هُوَفَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ (فاطر:۳)
’’اے لوگو !تم پرجو اللہ کے انعامات ہیں انہیں یاد رکھو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو۔‘‘
اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ (الذاریات:58 ,57، :51)
’’ یقیناً اللہ ہی رزق دینے والا ہے وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔‘
تو اس کے بعد بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ کوئی الله کے علاوہ کسی اور کو رزاق مان کر شرک کا مرتکب ٹھہرے- اگر ایسا کرے گا ان کے دلوں میں کجی ہے فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے-
متشابہات میں تصرف و تاویل نہیں کرنی چاہئے ۔ ان سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ایمان کو آزماتا ہے جیسے حلال حرام سے آزماتا ہے ، انہیں باطل کی طرف لے جانا اور حق سے پھیرنا چاہئے ۔متشابہات کی بحث کو فی الحال ملتوی کریں اور صرف "واضح مضبوط آیات جو اصل کتاب ہیں" کو پکڑ لیں تو کبھی گمراہ نہ ہوں گے- اگر آپ جنگل میں جا رہے ہیں راستہ بھول گیے اور آپ کو ایک سڑک ملتی ہے جس پر لکھا ہے آپ کی منزل کے شہر کا نام اور ٹریفک بھی جا رہی ہے .. ساتھ ہی ایک دوسرا راستہ ہے جس پر کوئی نشان نہیں، مشکوک ہے .. تو آپ کس راہ کو اختیار کریں؟
اسی یہود و نصاری کے طریقه کو مرزا غلام احمد قادیانی نے ختم نبوت پر قران کی سورة الأحزاب آیت 40 میں لفظ " خَاتَمَ النَّبِيِّينَ" پر آزمایا تاکہ وہ اپنی جھوٹی نبوت کا جواز گھڑ سکے مگر اس کا جھوٹ قران و سنت کے دلائل سے رد کر دیا گیا- اس کے ملعون پیروکار کفر کی گندگی میں زندگی گزار رہے ہیں-
- جو کوئی شخص قرآن کی لفظی یا معنوی تحریف کا مرتکب ہو گا اس کا انجام آخرت میں جو ہوگا تو ہوگا ، مگر اس دنیا میں بھی لعنت ، ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہ ملے گا-
- قرآن کے متعلق الله نے واضح کر دیا کہ :
- قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ کلام حق ہے (آل عمران 3:60)
- قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
- قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)
- اس کلام کو اللہ نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔(الحجر15:9)
- قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)
- اور اپنے پروردگار کی کتاب جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے(18:27قرآن)
- قرآن کو واضح عربی کتاب کہا گیا کہ لوگ سمجھ سکیں (یوسف12:1,2)۔
- باطل نہ اس کلام کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ (الفصلت 41:42)
- یہ کتاب میزان ہے۔ یعنی وہ ترازو ہے جس میں رکھ کر ہر دوسری چیز کی قدر وقیمت طے کی جائے گی۔ (الشوریٰ42:17)
- یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 25:1)
- تمام سلسلہ وحی پر مہیمن یعنی نگران ہے۔ (المائدہ5:48)
- قرآن کریم لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔ (البقرہ2:213)“
- اور جب انہیں ان کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے ہوکر ان پر گر نہیں پڑتے (بلکہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں)۔ (قرآن25:73)
- یہی وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)
- جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالٰی غالب ہے ، بدلہ لینے والا ۔[سورة آل عمران 3 آیت: ,4]
…………………..
وَاللَّـهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
اور الله رزق دینے والوں میں سب سے بہتر رزق دینے والا ہے
خَيْرُ کا معنی ہے بہتر رزاق کا معنی رزق دینے والا ، رازق کی جمع رازقین ہے
اور وہ الرَّازِقِينَ کون سے ہیں ؟ جن کو اللہ رازقین رہا ہے ؟
تمام منافقین کو چیلنج ہے؟ حق بتا سکتے ہو تو بتاؤ - بہتر رزاق الله مگر جن کو الله "رازقین" کہ رہا ہے ان کو کیوں چھپا رہے ہو؟
الله کو کیوں جھوٹا کہ رہے ہو؟ یہ کہہ کر کہ اللہ کے علاوہ کوئی رزاق نہیں -
جب الله رزاق مانتا ہے تو پھر تم منافقین لوگوں کیوں انکار کرتے ہو ؟
یہ آیت قرآن سے نکال سکتے ہو تو نکال کر دکھاؤ
----------------
تین جڑ، الفاظ rā zāy qāf (ر، ز، ق) قرآن مجید میں 123 مرتبہ پائے گئیے ہیں , چار اخذ کردہ شکلوں میں:
(١).فارم کے طور پر 61 بار میں فعل رزق (رَزَقَ)
(٢).ایک بار اسم رزا ق (رَززَّاق) کے طور پر
(٣) 55 مرتبہ بطور اسم (رِزْق)
(٤). 6 مرتبہ بطور فعال شریک (رَّٰزِقِين)
(٤). 6 مرتبہ بطور فعال شریک (رَّٰزِقِين)
Active participle
(5:114) l-rāziqīna (of) the providers وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
(15:20) birāziqīna providers وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ
(22:58) l-rāziqīna (of) the Providers لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًا وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
(23:72) l-rāziqīna (of) the Providers أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
(34:39) l-rāziqīna (of) the Providers وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
(62:11) l-rāziqīna (of) the Providers قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
See Also ....[ ........]
الرَّازِقِينَ ٦ آیات:
١. قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّـهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿المائدة: ١١٤﴾
اس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی "خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تو بہترین رازق ہے" (5:114)
٢. وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ ﴿الحجر: ٢٠﴾
اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کیے، تمہارے لیے بھی اور اُن بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو (15:20)
٣. وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّـهُ رِزْقًا حَسَنًا وَإِنَّ اللَّـهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿الحج: ٥٨﴾
اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر قتل کر دیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھّا رزق دے گا اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے (22:58)
٤. أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿المؤمنون: ٧٢﴾
کیا تُو ان سے کچھ مانگ رہا ہے؟ تیرے لیے تیرے رب کا دیا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے (23:72)
٥. قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿سبإ: ٣٩﴾
اے نبیؐ، ان سے کہو، "میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اُس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے (34:39)
٦. وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّـهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّـهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿الجمعة: :62:11﴾
اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے (62:11)
الله کی صفات اور انسانی صفات کا فرق :
اسماء حسنہ الله کی صفات ہیں … الله کے 99 صفاتی نام:
الرحمن ٭الرحيم ٭ الملك ٭ القدوس ٭ السلام ٭ المؤمن٭ المهيمن٭ ٭العزيز ٭ الجبار ٭ ٭المتكبر ٭ الخالق ٭ البارئ ٭ المصور ٭ الغفار ٭ القهار ٭ الوهاب ٭ الرزاق ٭ الفتاح ٭ العليم ٭ ٭القابض ٭ الباسط ٭ الخافض ٭ الرافع ٭ المعز ٭ المذل ٭ السميع ٭ البصير ٭ الحكم ٭ العدل٭ ٭اللطيف ٭ الخبير ٭ ٭الحليم ٭ العظيم ٭ الغفور ٭ الشكور ٭ العلي ٭ الكبير٭ الحفيظ ٭ المقيت ٭ ٭الحسيب ٭ الجليل ٭ الكريم ٭ الرقيب ٭ المجيب ٭ الواسع ٭ الحكيم ٭ ٭الودود٭ المجيد٭ الباعث ٭ ٭الشهيد ٭ الحق ٭ الوكيل ٭ القوي ٭ المتين ٭ ٭الولي ٭ الحميد ٭ المحصي ٭ المبدئ ٭ المعيد ٭ ٭المحيي ٭ المميت ٭ الحي ٭ ٭القيوم ٭ الواجد ٭ الماجد ٭ الواحد ٭ الأحد ٭ الصمد ٭ القادر ٭ ٭المقتدر٭ ٭المقدم ٭ المؤخر٭ الأول ٭ الآخر ٭ الظاهر ٭ الباطن ٭ الوالي٭ المتعالي ٭ ٭البر٭ ٭التواب ٭ المنتقم ٭ العفو ٭ الرءوف ٭ مالك الملك ٭ ذو الجلال والإكرام ٭ الرب ٭ المقسط ٭ ٭الجامع٭ الغني ٭ المغني ٭ المانع٭ الضار٭ ٭النافع٭ النور ٭ الهادي ٭ البديع ٭ الباقي ٭ ٭الوارث٭ الرشيد٭ الصبور٭
وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ [ الصافات : ٩٦ ]
” حالانکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو" [ الصافات : ٩٦ ]
رازق ، صانع ، موجِد ، مُعطی اور ایسی ہی دوسری بہت سی صفات ایسی ہیں جو اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں مگر مجازاً بندوں کی طرف بھی منسوب ہو جاتی ہیں ۔ مثلاً ہم ایک شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کے روزگار کا بندوبست کر دیا ، یا اس نے یہ عطیہ دیا ، یا اس نے فلاں چیز بنائی یا ایجاد کی ۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے "خیر الرازقین" کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ یعنی جن جن کے متعلق تم گمان رکھتے ہو کہ وہ روزی دینے والے ہیں ان سب سے بہتر روزی دینے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔ .[تفہیم القرآن]
اسی طرح اگر متمول سخی لوگوں میں رزق تقسیم کرتا ہے ،کسان ، زمیندار ،زمین سے رزق حاصل کرتا ہے مگر اصل رزاق تو الله ہے جو بیج و پھاڑ کر فصل نکلتا ہے ، آج تک کوئی ایک ایٹم تخلیق نہ کر سکا .. الله کی پیدا شدہ اشیاء سے نئی نئی ایجادات کرتے ہیں مگر خود بغیر اللہ کی تخلیق شدہ اشیاء کے کچھ بھی نہیں بنا سکتے- تو خالق حقیقی اور رزاق حقیقی کون ہے ؟ الله صرف الله !
اللہ تعالیٰ کی کئی صفات ایسی ہیں جن انسانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً حقیقی رازق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مگر ہر انسان اپنے بال بچوں کو رزق مہیا کرتا ہے۔ مالک اپنے ملازموں کو رزق عطا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب ایسی صورت ہو تو اللہ کے لئے کوئی مزید امتیازی صفت بھی استعمال ہوگی۔ گویا اگر انسان کسی کا رزاق ہوسکتا ہے تو اللہ "خیر الرازقین" ہے یعنی سب کو رزق دینے والا بھی ہے اور بہتر رزق دینے والا بھی ہے۔ اسی طرح اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے تو انسان بھی "تخلیق و ایجاد "کرتا ہے۔ اس نسبت سے انسان کو "موجد اور خالق" تو کہہ سکتے ہیں مگر "احسن الخالقین" اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ [عبدالرحمان کیلانی 34:39]
رازقین جمع لانا اس اعتبار سے ہے کہ جو لوگ ظاہر میں اپنے ہاتھ سے دیتے دلاتے ہیں ان کو مجازا رازق قرار دے دیا گیا، اور چونکہ اللہ تعالیٰ رازق حقیقی ہے اس لئے اس کا خیر الرازقین ہونا ظاہر ہے۔[مولانا اشرف علی تھانوی ]
العلی” آسما الحسنہ میں شامل ہے اور یہ نام “علی” استعمال میں عام مقبول ہے ۔ اسی طرح اکثر آسما الحسنہ پر نام رکھے جاتے ہین۔ یہ اللہ کے صفاتی نام ہیں جب “ال” لگایا جاتا ہے تو اللہ سے مخصوص ہوجاتا ہے، لامحدود معنی میں، ورنہ سادہ محدود عربی نام رہ جاتا ہے ۔۔ کسی انسان کا نام مجازی معنی میں ہوتا ہے ۔۔
اللہ ، ذاتی نام ہے اللہ کا ، اس کا کوئی مجازی مطلب نہی۔ صرف اللہ کے لئیے مخصوص ہے ، اللہ ، نام کوئی مسلمان نہیں رکھتا جب تک کوئی اور نام ساتھ نہ ہو ۔۔ جیسے عبداللہ ، اللہ کا غلام ۔۔۔ اگر کوئی اللہ پکارا جائیے تو شرک بن جاتا ہے ۔۔۔ مگر علی ، کہیں تو شرک نہیں سمجھا جاتا ۔
ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے صفاتی ناموں پر (محدود) نام رکھنا “ال” کے بغیر جائیز سمجھا جاتا ہے-
فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾
".. برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے" ۔ [سورة المؤمنون 23 آیت: 14]
فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ ، خلق و تخلیق کے اصلی معنے کسی چیز کو ازسرنو بغیر کسی مادہ سابقہ کے پیدا کرنا ہے جو حق تعالیٰ جل شانہ، کی مخصوص صفت ہے۔ اس معنے کے اعتبار سے خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے کوئی دوسرا شخص فرشتہ ہو یا انسان کسی ادنیٰ چیز کا خالق نہیں ہو سکتا۔ لیکن کبھی کبھی یہ لفظ خلق و تخلیق صنعت کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور صنعت کی حقیقت اس سے زائد نہیں کہ اللہ جل شانہ نے جو مواد اور عناصر اس جہان میں اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرما دیئے ہیں ان کو جوڑ توڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ مرکب کر کے ایک نئی چیز بنادی جائے یہ کام ہر انسان کرسکتا ہے اور اسی معنے کے لحاظ سے کسی انسان کو بھی کسی خاص چیز کا خالق کہہ دیا جاتا ہے۔ خود قرآن کریم نے فرمایا تَخْلُقُوْنَ اِفْكًا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ ، ان تمام مواقع میں لفظ خلق مجازی طور پر صنعت کے معنے میں بولا گیا ہے۔ اسی طرح یہاں لفظ خٰلِقِيْنَ بصیغہ جمع اسی لئے لایا گیا ہے کہ عام انسان جو اپنی صنعت گری کے اعتبار سے اپنے کو کسی چیز کا خالق سمجھتے ہیں اگر ان کو مجازاً خالق کہا بھی جائے تو اللہ تعالیٰ ان سب خالقوں یعنی صنعت گروں میں سب سے بہتر صنعت کرنے والے ہیں۔ واللہ اعلم [معا رف القرآن ]
خَالِقِیْنَ یہاں ان صالحین کے معنی میں ہے۔ جو خاص خاص مقداروں میں اشیا کو جوڑ کر کوئی ایک چیز تیار کرتے ہیں۔ یعنی ان تمام صنعت گروں میں، اللہ جیسا بھی کوئی صنعت گر ہے جو اس طرح کی صنعت کاری کا نمونہ پیش کرسکے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے۔ پس سب سے زیادہ خیر و برکت والا وہ اللہ ہی ہے، جو تمام صنعت کاروں سے بڑا اور سب سے اچھا صنعت کار ہے۔ …
یہاں ” خَلْقٌ“ کا لفظ ظاہری شکل و صورت بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِاِذْنِيْ ) [ المائدۃ : ١١٠ ] ” اور جب تو مٹی سے پرندے کی شکل کی مانند میرے حکم سے بناتا تھا۔ “ اور جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا : ( أَحْیُوْا مَا خَلَقْتُمْ ) [ بخاري، البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ۔۔ ٢١٠٥، عن عائشۃ (رض) ] ” تم نے جو خلق کیا ہے اسے زندہ کرو۔ “ پیدا کرنے اور زندگی بخشنے کے معنی میں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ” اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ “ کے لفظ میں انسان کے حسن و جمال کی طرف بھی واضح اشارہ ہے۔ (بقاعی)
مثال #2
اَتَدۡعُوۡنَ بَعۡلًا وَّ تَذَرُوۡنَ اَحۡسَنَ الۡخَالِقِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾ۙ
کیا تم بعل ( نامی بت ) کو پکارتے ہو؟ اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو؟ [سورة الصافات 37 آیت: 125]
احسن الخالقین “ (سب سے اچھا خالق) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ کوئی دوسرا بھی خالق ہوسکتا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جن جھوٹے معبودوں کو تم نے خالق قرار دیا ہوا ہے وہ ان سب سے اونچی شان والا ہے۔ (قرطبی) اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں خالق اور صانع (بنانے والا) کے معنے میں استعمال ہوا ہے، یعنی وہ تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے، اس لئے کہ دوسرے صناع صرف اتنا ہی تو کرتے ہیں کہ مختلف اجزاء کو جوڑ کر کوئی چیز تیار کرلیتے ہیں، کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا ان کے بس سے باہر ہے، اور اللہ تعالیٰ معدوم اشیاء کو وجود بخشنے پر قدرت ذاتی رکھتا ہے۔ (بیان القرآن) غیر اللہ کی طرف تخلیق کی صفت منسوب کرنا جائز نہیں : یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ” خلق “ کے معنی پیدا کرنے کے ہیں، جس کا مطلب ہے کسی شے کو عدم محض سے قدرت ذاتی کے بل پر وجود میں لانا۔ اس لئے یہ صفت اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، کسی اور کی طرف اس کی نسبت جائز نہیں، لہٰذا ہمارے زمانے میں جو رواج چل پڑا ہے کہ اہل قلم کے مضامین، شاعروں کے شعر اور مصوروں کی تصویروں کو ان کی ” تخلیقات “ کہہ دیا جاتا ہے وہ بالکل جائز نہیں، اور نہ اہل قلم کو ان مضامین کا خالق کہنا درست ہے۔ خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا، اس لئے ان کے رشحات قلم کو ” کاوش “ یا مضمون وغیرہ کہنا چاہئے ” تخلیق “ نہیں۔ .[معارف القرآن ]
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اور بھی کوئی پیدا کرنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب پیدا کرنے والوں سے بہتر فرمایا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کو جوڑ کر کوئی چیز بنانے پر بھی ” خلق “ کا لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً انسان لوہے وغیرہ سے مشینیں اور موٹریں وغیرہ بنا لیتا ہے، مگر ان سب میں وہ اللہ کے بنائے ہوئے مادے کا محتاج ہے۔ اس لیے اس کی بنائی ہوئی ہر چیز بھی اللہ ہی کی (خلق) پیدا کردہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ [ الصافات : ٩٦ ]
” حالانکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو"
البتہ ابتدا میں کسی چیز کو پیدا کرنا یا چیزیں جوڑ کر ان میں روح ڈال دینا صرف اس پاک پروردگار کا کام ہے۔ (حج : ٧٣)
" لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے ، گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے بڑا بودا ہے طلب کرنے والا اور بڑا بودا ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے[ سورة الحج 22 آیت: 73]
اس لیے اسے ” اَحْسَنَ الْخَالِقِيْنَ “ فرمایا [عبدل السلام بھٹوی ]
مثال #3
قرآن میں 4 مرتبہ "أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ " (تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے") اور 2 مرتبہ "خَيْرُ الرَّاحِمِينَ" ہے
اگر اللہ "أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ " (ت سب سے بڑھ کر رحیم ہے") تو کیا رحیم بھی ہیں ؟ ظاہر ہے کہ الله سب سے بڑا رحمان ہے ، با قی دوسرے اچھے انسانوں کی طرف اشارہ ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں -
1. قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿الأعراف: ١٥١﴾
2. قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِن قَبْلُ فَاللَّـهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿يوسف: ٦٤﴾
3. قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّـهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿يوسف: ٩٢﴾
4. وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿الأنبياء: ٨٣﴾
5. إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ ﴿المؤمنون: ١٠٩﴾
6. وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ ﴿المؤمنون: ١١٨﴾
مثال # 4
قرآن مجید میں "رب" کا لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کچھ افراد کے لیے بھی استعمال ہوا ہے:
حضرت یوسف علیہ السلام قیدخانے میں ایک شخص سے بادشاہِ مصر کے بارے میں کہا:
وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ.
اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد آجائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجۃً یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہے۔ (يُوْسُف، 12: 42)
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ.
اور (یہ تعبیر سنتے ہی) بادشاہ نے کہا: یوسف (علیہ السلام) کو (فورًا) میرے پاس لے آؤ، پس جب یوسف (علیہ السلام) کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے کہا: اپنے بادشاہ کے پاس لوٹ جا اور اس سے (یہ) پوچھ (کہ) ان عورتوں کا (اب) کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے؟ بیشک میرا رب ان کے مکرو فریب کو خوب جاننے والا ہے۔(يُوْسُف، 12: 50)
مذکورہ بالا آیات میں ’رب‘ کا لفظ بادشاہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ درج ذیل آیت میں رب کا لفظ بیک وقت اللہ تعالیٰ اور والدین کے لیے آیا ہے۔
وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا.
اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجزو انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا (بَنِيْ إِسْرَآئِيْل، 17: 24)
مطلقاً "رب" کا لفظ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی مستعمل ہے کیونکہ وہی ذات حقیقی مربی و مالک ہے اور اسی کی ملکیت و پرورش ساری کائنات پر علیٰ الاطلاق ہے۔ مگر مجازاً "رب" کا لفظ تربیت دینے والے، پرورش کرنے والے اور بادشاہ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے.
پس قرآن سے حقیقی اور مجازی صفات کا فرق ثابت ہوتا ہے -
پس قرآن سے حقیقی اور مجازی صفات کا فرق ثابت ہوتا ہے -
مثال # 5
اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ﴿٣:٥٤﴾
بنی اسرائیل (مسیح کے خلاف) خفیہ تدبیریں (منصوبے) کرنے لگے جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے (3:54)
وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ﴿٨:٣٠﴾
وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے (8:30)
(مکر) عربی زبان میں لطیف اور خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں اور اس معنی میں یہاں اللہ تعالیٰ (خیرُ الْماکِرِیْنَ ) کہا گیا گویا یہ مکر (برا) بھی ہوسکتا ہے اگر غلط مقصد کے لئے ہو اور خیر (اچھا) بھی ہوسکتا ہے اگر اچھے مقصد کے لئے ہو.
اردو زبان کے محاورات میں مکر صرف سازش اور بری تدبیر اور حیلہ کے لئے بولا جاتا ہے، اس سے عربی محاورات پر شبہ نہ کیا جائے، اسی لئے یہاں خدا کو |" خیر الماکرین |" کہا گیا- [ تفسیر عثمانی]
لفظ مکر کے معنی عربی لغت میں یہ ہیں کہ کسی حیلہ و تدبیر کے ذریعہ اپنے مقابل شخص کو اس کے ارادہ سے روک دیا جائے۔ پھر اگر یہ کام کسی نیک مقصد سے کیا جائے تو یہ مکر محمود اور اچھا ہے اور کسی برے مقصد سے کیا جائے تو مذموم اور برا ہے اس لئے یہ لفظ انسان کے لئے بھی بولا جاسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے بھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کے لئے صرف ایسے ماحول میں استعمال ہوتا ہے جہاں کلام کے سیاق اور تقابل کے ذریعہ مکر مذموم کا شبہ نہ ہوسکے ( مظہر ی) [معارف قرآن مفتیمحمد شفیع]
مثال # 6
مجازی رزاق :
اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسانوں کی زندگی کے مختلف مراحل مقرر کیے ہیں اسی طرح اس نے لوگوں کے درمیان جسمانی، روحانی اور معاشرتی اعتبار سے امتیازات قائم فرمائے ہیں ۔ایسے ہی اس نے معاشی حوالے سے لوگوں کے درمیان فرق قائم کیا ہے۔ تا کہ لوگ ایک دوسرے کی ضرورت بن کر زندگی بسر کریں۔ ایک شخص زمیندار ہے دوسرا اس کا مزارع، ایک کارخانہ دار ہے دوسرا اس کا ورکر، ایک مالدار ہے دوسرا اس کا ملازم گویا کہ معاشی اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے پر برتری عنایت فرمائی ہے۔ ملازم کے بغیر مالدار کا کاروبار آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کاریگر اور ورکر کے بغیر فیکٹری کا پہیہ جام ہو جاتا ہے۔مزارع کے بغیر زمین میں زراعت نہیں ہو سکتی۔ یہی اسباب رزق کی کمی وبیشی کا سبب ثابت ہوتے ہیں۔ ایک ملازم کو مالک سے تنخواہ ملتی ہے ، وہ اس کا رزاق بظاھر لغوی، مجازی معنی میں ہے مگر اصل سب سے بڑا رزاق تو الله ہے جو سب کو رزق دیتا ہے -
اسی طرح رزاق مجازی تو بہت ہیں مگر اصل رزاق … " الرزاق " صرف الله ہے کوئی شریک نہیں ، لہٰذ جب دعا کرو عبادت کروتو صرف الله سے ہی مانگو جو شہ رگ سے بھی قریب ہے :
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اُس سے قریب ہیں (50:16)
قرآن کی آیات کا قرآن کے بنیادی نظریات ، خاص طور پھر توحید ، شرک کے خلاف اپنی مرضی کا مطلب نکانا گمراہی ہے .. قرآن کا سب سے بڑا موضوع توحید ہے اورشرک کا ابطال ہے .. جس سے قرآن بھرا پڑا ہے …
صرف الله ہی حقیقی رزاق ہے
سب مخلوق کا رزق صرف الله کے ذمہ ہے ….
١.وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ يَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ
’’اور زمین میں کوئی چلنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی کے ذمہ ہے اور وہ اس کے قیام اور اس کے دفن کیے جانے کی جگہ کو جانتا ہے ۔سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے ۔‘‘ (ھود:6)
٢.وَ كَاَيِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اَللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَ اِيَّاكُمْ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (العنکبوت:20)
’’کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق نہیں اُٹھائے پھرتے، اللہ ہی انہیں اور تمہیں رزق دیتا ہے وہ سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
٣.وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُمْ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا(الاسراء:31)
’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم ہی انھیںاور تمھیں رزق دیتے ہیں۔ بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔
٤. قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ يُّخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ مَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ (یونس:۳۱)
’’فرما دیں کون ہے جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یا کون ہے جو تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ؟ اور کون ہے جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے؟ وہ فوراً کہیں گے ’’ اللہ‘‘ تو فرما دیں پھر کیا تم ڈرتے نہیں ؟ ‘‘
’’اللہ‘‘ کے علاوہ کوئی رازق نہیں:
٥. اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْكًا اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْهُ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (العنکبوت: 17)
’’تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم جھوٹ گھڑ رہے ہو،حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے، اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر ادا کرو ۔ تم اسی کی طرف پلٹ کرجانے والے ہو۔‘‘
٦. وَ يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ شَيْـًٔا وَّ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ
’’اور اللہ کے سواان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں آسمانوں اور زمین سے رزق دینے کے مالک ہیں اورنہ وہ اس کا اختیار رکھتے ہیں۔‘‘(النحل:73)
٧. یاَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لا اِلٰهَ اِلَّا هُوَفَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ (فاطر:۳)
’’اے لوگو !تم پرجو اللہ کے انعامات ہیں انہیں یاد رکھو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو۔‘‘
٨. مَا اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَا اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ (الذاریات:57، 58)
’’میں اُن سے رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ یقیناً اللہ ہی رزق دینے والا ہے وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ ‘‘
ان آیات قرآن سے ثابت ہے کہ رزق صرف اللہ سے مانگنا ہے- اگر ایسا کرو گے تو اللہ کے فرمان کے خلاف ہوگا، شرک ہو گا-
جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالٰی غالب ہے ، بدلہ لینے والا ۔[سورة آل عمران 3 آیت: ,4]