Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

علماء حق اور علماء سوء، عالموں کو رب بنانا

قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ؕ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ (39:9﴾

کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں (39:9)

سچا علم دراصل معرفت الہی کا نام ہے۔ سچائی تک پہنچنے کا نام ہے۔ اور ایساعلم انسانی بصیرت کو کھول دیتا ہے۔ اور یوں ایک عالم ان حقائق تک رسائی حاصل کرلیتا ہے جو اس وجود میں ہوتی ہے۔ علم ان معلومات کا نام نہیں ہے جو ذہین میں جمع ہوجائیں اور جن سے کوئی سچا اصول اور کوئی سچی حقیقت ذہین نشین نہ ہو۔ اور نہ محسوسات کے علاوہ کوئی حقیقت ذہن میں بیٹھی ہو۔ یہ ہے صحیح راستہ علم حقیقی اور اس حقیقت کا جو دل و دماغ کو منور کردیتی ہے۔ یہی ہے اللہ کا مطیع فرمان ہونا۔ دل کا حساس ہونا اور آخرت اور اللہ کئ فضل وکرم کی امیدواری اور یہ ہے اللہ کا خوف اور اللہ کے سامنے ڈرے اور سہمے رہنا۔ علم اور حقیقی علم یہی ہے اور اس طرح عقلیت پیدا ہوتی ہے وہ دیکھنے والی اور سننے والی اور جس چیز کو وہ پاتی ہے اس سے فائدہ اٹھانے والی ہوتی ہے اور یوں اس قسم کا علم ان مشاہدات کے پیچھے حقیقت عظمیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ انفرادی تجربات کو علم کہتے ہیں اور صرف ان چیزوں کو معلومات کہتے ہیں جو نظر آتی ہیں۔

انما یتذکر اولوا الالباب (39: 9) ” نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں “۔ >>>

علماء حق اور علماء سوء، عالموں کو رب بنانا

یعنی کھلے دلوں والے ، جن کی بصیرت کے دروازے راہوں اور جو ظواہرو مشاہد کے پیچھے جھانک سکتے ہوں۔ وہ لوگ عقلمند ہیں اور وہی لوگ ہر چیز میں اللہ کے نشانات دیکھ کر اللہ کے سامنے جوابدہی کے یقین کو بھول نہیں جاتے۔ ان دو تصویروں کے بعد اہل ایمان کو مخاطب کیا جاتا ہے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور اچھے کام کریں اور اس مختصر زندگی میں طویل زندگی کے لیے کچھ کما کر اور سجا کر چھوڑیں۔ ..

علماء کرام انبیاء عظام کے وارث ہوتے ہیں انبیاء کے بعد علماء ہی کامرتبہ null آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اِنَّ الْعُلَمَاءَ ورثَةُ الانبیاءِ وانَّ الانبیاءَ لَمْ یورِّثو دِیْنَارًا ولاَ دِرْہَمًا وانَّمَا وَرَّثُوالْعِلْمَ فَمَنْ اخَذَہُ اَخْذَ بحظٍ وَافِرٍ“علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء دینار و درہم کے وارث نہیں بناتے ہیں وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں جس نے دین کا علم حاصل کرلیا اس نے پورا حصہ پالیا۔

قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے ، اس لیے اللہ کو پہچاننے کے لیے اس سے بہترین ذریعہ اور کچھ نہیں ہوسکتا ،مختلف انداز میں اور مختلف نشانیاں بیان کر کے قرآن اللہ کی ذات و صفات اور قدرت کاملہ کا تعارف کراتا ہے ، لہٰذا اس کتاب کا جتنا زیادہ مطالعہ کیاجائے اتنی ہی اللہ کی معرفت حاصل ہوگی اور اللہ کی جتنی زیادہ معرفت حاصل ہوگی اتنا ہی بندہ اللہ سے ڈرے گا۔ اس کتاب کا پڑھنا اور پڑھاناعلمائے کرام کا خاص مشغلہ ہے\ جس کی وجہ سے یہ اللہ کے بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں ، خود اللہ تعالیٰ اس کی گواہی دیتا ہے: ﴿إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ العُلَمَاءُ ﴾(سورة الفاطر: 28) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ نے کئی مقامات پر ان کو تحفہٴ قدرو منزلت سے نوازا ہے، بنی آدم میں ایک اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے ، حتیٰ کہ اللہ نے جب اپنی شان وحدانیت( کلمہ توحید) کے لیے گواہ بنانا چاہا تو جہاں گواہی کے لیے اپنی ذات کا انتخاب فرمایا وہیں فرشتوں اور بنی نوع انسان میں سے صرف علماء کو گواہی کے لیے منتخب کیا، جویقیناً انتہائی شرف و فضل کی بات ہے ﴿شَہِدَ اللّٰہُ أَنَّہُ لا إلٰہَ إلاہُوَ وَالْمَلٰئِکَةُ وَأُولُوا العِلْمِ قَائِماً بِالقِسْطِ، لاإلٰہَ إلا ھُوَالعَزِیْزُ الْحَکِیْم﴾ (سورةآل عمران:18) اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ،یہی شہادت فرشتوں اور سب اہل علم نے دی ہے ،وہ انصاف پہ قائم ہے ، اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی اللہ نہیں ہے۔

علمائے حق کی خاصیت یہ ہے کہ وہ دین اسلام پر استقامت کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں ، حق بات کہنے میں تأمل سے کام نہیں لیتے ، شرعی مسائل کی وضاحت میں کسی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے ، قرآنی آیات اور اقوال رسول صلی الله علیہ وسلم کوباطل کی ملمع سازی ، جاہل کی بیجا تاویل اورغلو پسند حضرات کی تحریف سے بچاتے ہیں ، ان کی ان حرکتوں کو بلا خوف وخطر لوگوں کے سامنے لاکر ان کے ناپاک عزائم کا قلع قمع کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے بہترین گفتگو وہ ہوتی ہے جو دین ودعوت پر مبنی ہو ۔ علمائے کرام کی پوری زندگی دین ودعوت کے ارد گرد گھومتی ہے ، امامت وخطابت،دعوت و تبلیغ ، تعلیم و تدریس ، پندو نصیحت ، وعظ و ترغیب سب کا مقصد اللہ کے بندوں کو اللہ سے قریب کرنا ہے ، لہٰذا ان کی بات سب سے قیمتی اور عنداللہ محبوب ہوتی ہے ، سورة فصلت آیت 33 میں اللہ فرماتاہے: ﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَولاً مِمَّنْ دَعَا إلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إنَّنِی مِنَ المُسْلِمِیْن﴾․ اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ ہم سب پر لازم ہے کہ علمائے کرام کا احترام کریں ، انھیں ان کا مقام دیں ، ان پر طعن و تشنیع نہ کریں ، ان کی عزت سے نہ کھیلیں ، اگر کوئی غلطی سرزد ہوتو ان کے لیے ہدایت کی دعا کریں۔ حضرت عبادہ بن صامت  سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”لَیسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یُجِلَّ کَبِیْرَنَا، وَلَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا، وَلَمْ یَعْرِف لِعَالِمِنَا حَقَّہ“ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بڑوں کو بڑا نہ سمجھے ، چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور عالموں کے حق کو نہ پہچانے۔

علماء یہود و نصاری نے اپنے فرائض سے غفلت کی اور گمراہی کا راستہ اختیار کیا جس قرآن نے ذکر کیا ہے کچھ مسلمان علماء بھی ان کی تقلید کر رہے ہیں:

اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا

اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡۤا اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ سُبۡحٰنَہٗ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿9:31﴾

They have taken their scholars and monks as lords besides Allah , and [also] the Messiah, the son of Mary. And they were not commanded except to worship one God; there is no deity except Him. Exalted is He above whatever they associate with Him.(9:31)

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے ﴿9:31﴾

اس کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہوجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ آیت سن کر عرض کیا کہ یہود و نصاریٰ نے تو اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کی، پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انہوں نے ان کو رب بنا لیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن یہ بات تو ہے نا، کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا، اس کو انہوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کردیا اس کو حرام ہی سمجھا۔ یہی ان کی عبادت کرنا ہے ' (صحیح ترمذی) وہ کتاب اللہ کو دیکھتے تک نہ تھے بس جو کچھ ان کے علماء و مشائخ کہہ دیتے اسے اللہ کا حکم سمجھ لیتے تھے جبکہ ان کے علماء و مشائخ کا یہ حال تھا کہ تھوڑی سی رقم لے کر بھی فتوے ان کی مرضی کے مطابق دے دیا کرتے تھے۔

رہے ان کے عالم اور درویش تو انھیں رب بنانے والے کچھ لوگ تو وہ تھے جو واقعی کائنات میں ان کا حکم چلنے کا عقیدہ رکھتے تھے، جس طرح آج کل بعض مسلمان پیروں، فقیروں کو سجدہ کرتے، ان سے اولاد، حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہیں اور یہ باطل عقیدہ رکھتے ہیں کہ کائنات کو قطب، ابدال اور اوتاد چلا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ان پہلوں ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں-

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحیح اور صریح فرمان : ” ہر نشہ آور حرام ہے “ کے باوجود کھجور اور انگور کے سوا کسی بھی چیز سے بنی ہوئی نشہ آور چیز کو حلال قرار دے لیا، زنا کو حلالہ کہہ کر حلال کرلیا، اجرت پر لائی عورت سے زنا پر حد معاف کردی، تیز دھار آلے اور آگ کے سوا جان بوجھ کر کسی بھی طریقے سے قتل کردینے پر قصاص ختم کردیا، بادشاہ وقت سے اللہ تعالیٰ کی کئی حدود بالکل ہی معاف کردیں، چور کے چوری کے مال پر ملکیت کے خالی دعوے سے، جس پر وہ کوئی دلیل بھی نہ دے، چوری کی حد ختم کردی، گانے بجانے اور رقص کو مشائخ کے کہنے پر معرفت اور روح کی غذا قرار دے لیا اور بعض مشائخ و علماء نے عوام سے یہ بیعت لینا شروع کردی کہ ہمارا ہر حکم، خواہ وہ قرآن و حدیث کے موافق ہو یا مخالف، تم مانو گے۔ بتائیے ان مسلمانوں کے احبارو رہبان کو رب بنانے میں کیا کسر رہ گئی؟

احبار یہود کے علماء کو کہتے ہیں اور رھبان نصاریٰ کے پادریوں کو اسلامی اور عیسائی قدیمی تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جب بولس یہودی اور عیسائیوں کی لڑائی ہوئی اور اس لڑائی میں یہودیوں کا غلبہ ہوا تو نصاریٰ کے پادریوں نے اس وقت ترک دنیا کر کے جنگلوں کا رہنا اختیار کرلیا تھا اس واسطے ان کا لقب درویش مشہور ہوگیا یہودی اور نصاریٰ کے علماء نے بعضے حکم تورات اور انجیل کے برخلاف دے رکھے تھے جن حکموں کے سبب سے تورات اور انجیل پر عمل کرنا بند ہوگیا تھا۔ اسی واسطے فرمایا کہ جب ان لوگوں نے اللہ کے حکموں کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور پادریوں کے حکموں کو مانا تھا وہی عالم اور پادری گویا ان کے خدا ہیں۔ تورات میں بدکار مرد اور عورت کے سنگسار کرنے کا حکم ہے لیکن یہودی کے علماء نے تورات کے برخلاف ایسے مرد اور عورت کا منہ کالا کرنے اور کچھ کوڑے مار دینے کا فتویٰ دے رکھا تھا جس پر یہودی لوگ عمل کرتے تھے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبداللہ (رض) بن عمر اور ابوہریرہ (رض) کی روایتوں میں جس طرح ختنہ کرنے کا حکم ہے اسی طرح تورات کے سفر احبار کے اٹھارویں باب میں بھی ختنہ کرنے کا حکم ہے اس حکم کی تعمیل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ختنہ جو کرایا اس کا عیسائیوں کو اقرار ہے مگر حضرت عیسیٰ اور حواریوں کے زمانہ کے بعد بعضے عیسائی علماء کی عقلی وجوہات کی بنا پر اس حکم کی تعمیل عیسائیوں میں باقی نہیں رہی۔ ایک بھوکے حواری کے خواب پر سب حرام خنزیر بھی حلال ہو گیا-

پڑھیں : سینٹ پال ، سینٹ پطرس کے خواب >>>

ان بعضے عیسائی علماء سے مقصود وہی بولس یہودی اور اس کے ساتھی ہیں یہ قصہ ایک جگہ بیان ہے کہ بولس (پال / Palul) پہلے یہودی تھا اور پھر فریب سے عیسائی ہوا اور شریعت عیسوی کے بہت سے احکام میں اس بولس کے سبب سے خراب پڑگئی اس نے تو شریعت موسوی کو منسوخ کردیا۔ اس آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ بعضے عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کہتے ہیں بولس کے وقت کی بعض تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں میں یہ مسئلہ بھی اسی بولس نے پھیلایا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ یہودی نصارا کے علماء نے اکثر ایسے فتوے دئیے جس سے تورات اور انجیل کے احکام متروک العمل ہوگئے اسی کا ذکر اس آیت میں ہے صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک حدیث سورة النساء میں گزر چکی ہے جس میں عبداللہ بن حذافہ (رض) کا قصہ ہے وہ حدیث اس آیت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حاکموں اور علماء کی اطاعت شریعت کی حد تک جائز ہے شریعت کی حد کے باہر نہیں انجیل یوحنا کی سترہویں باب کے حوالہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول گزر چکا ہے جس میں انہوں نے اللہ کو اپنا معبود اور اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہا ہے جو عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا خدا کا بیٹا کہتے ہیں ان کے قائل کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہی قول کافی ہے-

آج بھی پوپ کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ جو چاہے فیصلہ کرے۔ جیسا کہ اس نے ایک فرمان کے ذریعے سے یہودیوں کو دو ہزار سال پرانے اس الزام سے بری کردیا ‘ کہ انہوں نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو سولی پر چڑھایا تھا۔ گویا اسے تاریخ تک کو بدل دینے کا اختیار ہے ‘ اسی طرح وہ کسی حرام چیز کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے سکتا ہے۔ اس طرح کے تصورات ہمارے ہاں اسماعیلیوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کا امام حاضر معصوم ہوتا ہے اور اسے اختیار حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال کر دے اور جس چیز کو چاہے حرام کر دے۔ اس طرح انہوں نے شریعت کو ساقط کردیا ہے۔ تاہم یہ معاملہ بالخصوص گجرات (انڈیا) کے علاقے میں بسنے والے اسماعیلیوں کا ہے ‘ جبکہ ہنزہ میں جو اسماعیلی آباد ہیں ان کے ہاں شریعت موجود ہے ‘ کیونکہ یہ پرانے اسماعیلی ہیں جو باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔ گجرات (انڈیا) کے علاقہ میں اسماعیلیوں نے جب مقامی آبادی میں اپنے نظریات کی تبلیغ شروع کی تو انہوں نے وہی کیا جو سینٹ پال نے کیا تھا۔ انہوں نے شریعت کو ساقط کردیا اور ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق اوتار کا عقیدہ اپنا لیا۔ مقامی ہندو آبادی میں اپنے نظریات کی آسان ترویج کے لیے انہوں نے حضرت علی (رض) کو دسویں اوتار کے طور پر پیش کیا (ہندوؤں کے ہاں نو اوتار کا عقیدہ رائج تھا) ۔ لہٰذا دشتم اوتار کا عقیدہ مستقل طور پر ان کے ہاں رائج ہوگیا۔ اس کے علاوہ ان کے حاضر امام کو مکمل اختیار ہے کہ وہ شریعت کے جس حکم کو چاہے منسوخ کر دے ‘ کسی حلال چیز کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال کر دے۔ “ امام رازی اپنے استاد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ میری نظر سے ایسے مقلدین گزرے ہیں جن کے سامنے ان کے مسلک کے خلاف قرآن مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں گئیں۔ تو انھوں نے ان کی طرف التفات نہ کیا الٹے حیرت سے میری طرف دیکھتے رہے کہ ان کے مسلک کے خلاف یہ کیسی آیات ہیں۔

مزید پڑھیں رسول اللہ ﷺ وصیت  (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )  کا انکار اور بدعت..... 

لوگ علماء کی اس طرح تعظیم کرتے تھے جس طرح رب کی کی جاتی ہے اس لئے کہ انہیں دیکھ کر لوگ ان کے آگے سجدے میں گرپڑتے تھے۔ اللہ کے سوا کوئی اور اس نوعیت کی تعظیم کا مستحق نہیں ہوتا۔ جب انہوں نے اپنے احبار و رہبان کی اس طرح تعظیم شروع کردی تو ان پر یہ حکم عائد کردیا گیا کہ انہوں نے ان لوگوں کو اپنا رب بنالیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ فرمان بالکل پورا ہوا کہ تم ہو بہو پہلے لوگوں کے نشان قدم پر چل پڑو گے، پھر ہر گروہ کے اپنے پیشوا کی غلط باتوں پر ڈٹ جانے سے مسلمانوں میں ایسا شگاف پڑا جو قرآن و حدیث کی طرف واپس آنے کے بغیر کبھی پر نہیں ہوسکتا۔ ” اِتَّسَعَ الْخَرْقُ عَلَی الرَّاقِعِ “ کی صورت پیدا ہوگئی ہے کہ شگاف پیوند لگانے والے کی بساط سے بھی زیادہ کھلا ہوگیا

حرام وحلال کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنا لیا ہے اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں کو تحلیل وتحریم کا منصب دے رکھا ہے اور ان کے اقوال کے مقابلے میں وہ نصوص قرآن و حدیث کو بھی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

تحلیل و تحریم کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اسلام کے دعویداروں میں بعض فرقے ایسے ہیں جو تحلیل و تحریم میں اور احکام کو منسوخ کرنے اور بدلنے میں اور عبادت کے طریقے تجویز کرنے میں اپنے امام اور مجتہد کو با اختیار سمجھتے ہیں اور اپنے امام/ مجتہد کو قرآن و حدیث کا پابند نہیں سمجھتے۔ ان کا امام اور مجتہد جو کچھ کہتا ہے اسی کو مانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔ قرآن کی تصریحات اور تعلیمات ان کے نزدیک بےحیثیت ہیں۔ ایسے فرقوں کے کفر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ تصریحات قرآنیہ کو کوئی وزن نہیں دیتے ان کے نزدیک امام/مجتہد کو سب کچھ اختیار ہے جن لوگوں نے ان کا مذہب ایجاد کیا ہے انہوں نے اپنے ہاتھ میں تحلیل و تحریم کے اختیارات رکھنے کے لیے اپنے عوام کو یہ عقیدہ بتایا اور سمجھایا ہے کہ امام/مجتہد ہی سب کچھ ہے۔ ان کا امام جب چاہے نماز جمعہ جاری کر دے اور جب چاہے منسوخ کردے۔ اور اسی طرح دیگر امور میں بھی ان کے یہاں یہی صورت حال ہے۔ ایک بہائیہ فرقہ ہے جسے اسلام سے خارج کر دیا گیا ہے ۔ ان کے ہاں بھی دین اسلام سے ہٹ کر فرائض اور محرمات کی تفصیلات ہیں۔ اور بعض معاصی کی تعزیرات انہوں نے خود سے مقرر کی ہیں جو ان کے بعض رسالوں کو دیکھ کر مطالعہ میں آئیں- ایک شخص چکڑا لوی تھا اس نے نماز کی ترتیب اور ترکیب اور طریقہء عبادت اپنے پاس سے تجویز کیا تھا۔ یہ سب ان لوگوں کی گمراہی ہے

فائدہ : اب دور حاضر میں جبکہ آزاد منش لوگ اسلامی احکام پر چلنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور دشمنان اسلام سے متاثر ہیں، کہتے ہیں کہ حضرات علماء کرام جمع ہو کر میٹنگ کریں، اور اسلامی احکام کے بارے میں غور و فکر کریں اور فلاں فلاں احکام کو بدل دیں یا ہلکا کردیں اور فلاں فلاں حرام چیزوں کو حلال قرار دے دیں۔ یہ ان لوگوں کی جہالت اور حماقت کی بات ہے۔ اگر علماء ایسا کرنے بیٹھیں گے تو کافر ہوجائیں گے اور اگر کسی حرام چیز کو حلال قرار دے دیں گے تو ان کے حلال کردینے سے حلال نہ ہوگی۔ حرام چیزوں کو مباح قرار دینے والے قسم کے لوگ جو نام نہاد عالم کہلاتے ہیں انہوں نے بعض محرمات کو حلال کہہ دیا ہے ان کے کہنے اور لکھنے سے وہ چیزیں حلال نہیں ہوگئیں۔ خوب سمجھ لیا جائے۔

مزید پڑھیں : قرآن ، 
رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین کے خلاف اجماع  : https://bit.ly/Shytani-Ijmaa

علم ہونے کے باوجود اس پر عمل نہ کرنا​

مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ ۚ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٥سورة الجمعة​)

جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو۔ اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ (ایسے) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا (سورة الجمعة 5)​

یہودونصاری میں سے وہ لوگ جن پر تورات کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی اور انکو حکم تھا کہ وہ تورات کی تعلیم حاصل کریں اور اس پر عمل کریں انہوں نے اس ذمہ داری کو اٹھایا نہ پورا کیا تو ان کے لیے کوئی فضیلت نہیں اور ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس کی پیٹھ پر علمی کتابوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہو کیا یہ گدھا ان کتابوں سے مستفید ہوسکتا ہے جو اس کی پیٹھ پر لاد دی گئی ہی؟ کیا اس سبب سے اسے کوئی فضیلت ہوسکتی ہے یا اس کا نصیب تو بس ان کتابوں کو اٹھانا ہے ؟ یہ مثال اہل کتاب کے ان علما کی ہے جو تورات کے احکامات پر عمل نہیں کرتے جن میں جلیل ترین عظیم ترین حکم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اتباع کا حکم، آپ کی بعثت کی بشارت اور آپ جو قرآن لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانے کا حکم ہے، پس جس کا یہ وصف ہو وہ ناکامی اور خسارے اور اس کے خلاف حجت کے قائم ہونے کے سوا کیا فائدہ حاصل کرسکتا ہے ؟ یہ مثال ان کے احوال کےعین مطابق ہے۔

علماء کرام انبیاء عظام کے وارث ہوتے ہیں انبیاء کے بعد علماء ہی کامرتبہ ہے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اِنَّ الْعُلَمَاءَ ورثَةُ الانبیاءِ وانَّ الانبیاءَ لَمْ یورِّثو دِیْنَارًا ولاَ دِرْہَمًا وانَّمَا وَرَّثُوالْعِلْمَ فَمَنْ اخَذَہُ اَخْذَ بحظٍ وَافِرٍ“ علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء دینار و درہم کے وارث نہیں بناتے ہیں وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں جس نے دین کا علم حاصل کرلیا اس نے پورا حصہ پالیا۔

علماء کرام انبیاء عظام کے وارث ہوتے ہیں انبیاء کے بعد علماء ہی کامرتبہ ہے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اِنَّ الْعُلَمَاءَ ورثَةُ الانبیاءِ وانَّ الانبیاءَ لَمْ یورِّثو دِیْنَارًا ولاَ دِرْہَمًا وانَّمَا وَرَّثُوالْعِلْمَ فَمَنْ اخَذَہُ اَخْذَ بحظٍ وَافِرٍ“(۱۲) علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء دینار و درہم کے وارث نہیں بناتے ہیں وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں جس نے دین کا علم حاصل کرلیا اس نے پورا حصہ پالیا۔

کتمان علم ​

وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ﴿١٨٧ سورة آل عمران​)

اور اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں، تو پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے بہت کم قیمت پر بیچ ڈالا۔ ان کا یہ بیوپار بہت برا ہے (3:187)

حسد​

وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿البقرة: ١٠٩﴾​

ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے محض حسد وبغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں، تم بھی معاف کرو اور چھوڑو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لائےئے۔ یقیناً اللہ تعالے ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے (2:109)

عھد شکنی​

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿المائدة: ١٣﴾​

پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرمادی اور ان کے دل سخت کردیئے کہ وه کلام کو اس کی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے، ان کی ایک نہ ایک خیانت پر تجھے اطلاع ملتی ہی رہے گی ہاں تھوڑے سے ایسے نہیں بھی ہیں پس توانہیں معاف کرتا جا اور درگزر کرتا ره، بےشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (5:13)

سود کھانا​

فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ كَثِيرًا ﴿١٦٠﴾ وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٦١ سورة النساء​)

جو نفیس چیزیں ان کے لئے حلال کی گئی تھیں وه ہم نے ان پر حرام کردیں ان کے ظلم کے باعث اور اللہ تعالیٰ کی راه سے اکثر لوگوں کو روکنے کے باعث (160) اور سود جس سے منع کئے گئے تھے اسے لینے کے باعث اور لوگوں کا مال ناحق مار کھانے کے باعث اور ان میں جو کفار ہیں ہم نے ان کے لئے المناک عذاب مہیا کر رکھا ہے (4:161)

رشوت لینا​

وَتَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿المائدة: ٦٢﴾​

آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثر گناه کے کاموں کی طرف اور ظلم وزیادتی کی طرف اور مال حرام کھانے کی طرف لپک رہے ہیں، جو کچھ یہ کر رہے ہیں وه نہایت برے کام ہیں (5:62)

ابن کثیر ، طبری ، بغوی اوردیگر مفسرین کا کہنا ہے کہ '' سحت '' سے مراد رشوت ہے

نافرمانی ، ظلم کرنا اور برائی سے نہ روکنا​

لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾ كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٧٩ سورة المائدة​)

بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت) داؤد (علیہ السلام) اور (حضرت) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وه نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے (78) آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وه کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وه بہت برا تھا :5:79)​

اکابر پرستی​

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿التوبة: ٣١﴾​

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وه پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے (9:31)

غلو فی الدین​

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ ﴿٧٧﴾​

کہہ دیجیئے اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو اور زیادتی نہ کرو اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکا بھی چکے ہیں اور سیدھی راه سے ہٹ گئے ہیں (5:77)​

مسلمان علماء 

" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔

یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔

مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔

اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)

افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:

”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ” 

دو بھوکے بھیڑئیے، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔   (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)
----  ---
علمائے کرام کی شان میں کوتاہیاں اور ان کے حقوق میں کمی کی وجوہات :
1. سب سے پہلی اور بڑی وجہ شرعی علوم کی حقیقت و اہمیت اوراس کے حاملین کے مقام ومرتبہ سے ناواقفیت ہے ، جب کہ کائنات کے خالق نے اس علم کا سیکھنا فرض قرار دیا ہے اور علماء کو انبیاء ورسل کا وارث بنایا ہے۔

2. نام نہاد دانش مند و ں کا بلاواسطہ کتابوں کو استاذ بنالینا ہے اور علماء کی طرف مراجعت کو یکسر نظرانداز کرنا ہے ، جب کہ قرآن وحدیث میں وارد احکام کو سمجھنے کے لیے عقل و دانش کے علاوہ ان علماء و فقہاء کی ضرورت ہے جنہوں نے قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے وہ سارے علوم حاصل کیے ہیں جن کا جاننا ضروری ہے ، مثلاً نحو و صرف ، لغت ، بلاغت،  اصول تفسیر ، اصول حدیث ، اصول فقہ ، سیرت ، تاریخ ، علم اسناد حدیث اور اسماء الرجال وغیرہ ، اسی وجہ سے امام شافعی  نے فرمایا کہ جو شخص کتابوں کی ورق گردانی سے علم حاصل کرے گا وہ اللہ کے دیے گئے احکامات کو ضائع کردے گا۔(آداب العلماء والمتعلمین)

3. تحصیل علم شرعی کی ایک خاص حد تک پہنچنے سے پہلے حاملین علم شرعی کا فتوے اور دینی مسائل کی دنیا میں آجانا ہے ،جب کہ وہ خود بھی ﴿فَاسْئَلوا أَہلَ الذِّکْرِ إن کُنْتُمْ لا تَعْلَمُون﴾ (سورة الأنبیاء:7) کے مخاطب ہیں اور ابوداودو ابن ماجہ کی حدیث ”إنَّمَا شِفَاءُ العَی السُوٴال“ ان کے لیے بھی وارد ہوئی ہے۔

4. حقیقی عالم کے وجود کی قلت ہے اور یہ پورے عالم کے لیے لمحہٴ فکریہ ہے ، کیوں کہ حدیث میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس دنیا سے علم اٹھانا چاہیں گے تویکایک نہیں اٹھائیں گے، بلکہ دھیرے دھیرے علمائے کرام کو اٹھائیں گے، جس کی وجہ سے علم خود بخود اٹھ جائے گا ، نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اور معاملہ جاہلوں کے ہاتھ میں آجائے گا ، ان سے دینی مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ اپنی رائے سے مسائل بتائیں گے ، نتیجتاً خود بھی گم راہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گم راہ کریں گے۔
5.دشمنانِ اسلام کا مختلف وسائل و ذارئع سے علمائے کرام کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ہے، تاکہ شرعی علوم کے سوتے خشک ہوجائیں ، عوام و خواص کا ان سے رابطہ کم ہوجائے اور دین اسلام بجائے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کے موسم خزاں کا شکار ہو جائے ۔

 تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟  (قرآن٢:٤٤)


#Islam #Muslims
~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا"
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." 
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...اور مشرکوں کی طرح فرقہ واریت اختیار کرکہ دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے

Popular Books