Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

اسلام کا غلبہ


اسلام دین کامل ہے جس پر عمل کرکہ مسلمانوں نے ماضی میں نظریاتی ، سیاسی و فوجی غلبہ حاصل کیا۔ غلبہ دراصل نظریاتی، فکری، روحانی ہے، سیاسی ، عسکری غلبہ ایک نتیجہ ہے جو مستقل نہیں ہوتا  کیونکہ یہ مسلمانوں کے اعمال پر منحصر ہے- قرآن کا اقوام کا قانون عروج و زوال  ہے: 
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ (قرآن 13:11)
الله لوگوں کی حالت کو تبدیل نہیں کرتا  جب تک وہ خود اپنے (نفس) کی حالت کو نہ بدلے“(قرآن 13:11)
 وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے (8:53)
عروج و زوال ملسمانوں پر بحیثیت قوم بدعملی کی وجہ سے ہوتا ہے اسلام ایک دین ہے نظریہ ہے جس کو زوال نہیں صرف غلبہ ہے جو ہمیشہ سے قائم ہے- 
نظریاتی اور فکری غلبہ مضبوط اور دیر پا ہوتا ہے، اللہ کا فرمان ہے: ،
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا (48:28)
It is He who sent His Messenger with guidance and the religion of truth to manifest it over all religion. And sufficient is Allah as Witness.(48:28)
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کرے ، اور اللہ تعالٰی کافی ہے گواہی دینے والا ۔(48:28)  >>>>>
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ (9:33)
It is He who has sent His Messenger with guidance and the religion of truth to manifest it over all religion, although they who associate others with Allah dislike it.(9:33)
اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک برا مانیں ۔ (9:33)
 آپ ( صلعم ) کی بعثت کا مقصد اسلام کی نظریاتی اور سیاسی بالادستی ہے- اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے رسول اس لیے بھیجا ہے کہ ساری دنیا کو مسلمان بنا کے چھوڑے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ دنیا میں جو جو دین یا نظام ہائے زندگی رائج ہیں ان سب پر بلحاظ عقل اور دلیل و حجت اسلام کی بالادستی قائم ہوجائے۔ مثلاً دور نبوی میں یہودیت ایک دین تھا۔ عیسائیت، مجوسیت، منافقت، صائبیت، مشرکین کا دین۔ ان سب ادیان کے عقائد الگ الگ تھے۔ اور انہی عقائد کی مناسبت سے ان کا پورے کا پورا نظام زندگی ترتیب پاتا تھا۔ رسول کی بعثت کا مقصد اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ ان تمام باطل ادیان کے نظام ہائے زندگی پر اسلام کی برتری اور بالادستی قائم کر دے۔ اور عقل اور دلیل و حجت کے لحاظ سے اسلام کی یہ برتری اور بالادستی آج تک قائم ہے۔ بیرون عرب ادیان باطل کی مثالیں۔ ہندو ازم، سکھ ازم، بدھ ازم، جمہوریت اور اشتراکیت وغیرہ ہیں۔ ایسے سب ادیان پر اسلام کی برتری اور بالادستی کو بہ دلائل ثابت کرنا علمائے اسلام کا فریضہ ہے۔ یہ تو نظریاتی برتری ہوئی۔ اور سیاسی برتری کے لحاظ سے بھی اللہ نے اسے کئی صدیوں تک غالب رکھا۔ بعد میں جب مسلمانوں میں اخلاقی انحطاط اور انتشار رونما ہوا تو مسلمانوں سے یہ نعمت چھین لی گئی۔ اور اس کا اصول یہ ہے کہ جب تک اور جہاں تک مسلمان اپنے نظام زندگی اسلامی نظریات کے مطابق ڈھالیں گے اسی حد تک مسلمانوں کو غیر مسلم اقوام پر سیاسی بالادستی اور برتری حاصل ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں بالقوۃ یہ استعداد موجود ہے کہ وہ سیاسی طور پر بھی تمام غیر مسلم اقوام اور نظریات پر غلبہ حاصل کرے۔ اگرچہ مسلمانوں کی عملی کوتاہیوں کی وجہ سے یہ استعداد بالفعل منظر عام پر نہ آسکتی ہو۔
ایک دور تھا جب بادشاہ کا دین ہی عوام کا دین ہوتا تھا ، کسی نیے دین یا مذھب کی گنجائش نہ تھی ، اسلام کے مبلغین پر ظلم کیا جاتا ، قتل کر دیا جاتا ، لہٰذا ضروری تھا کہ اس فتنہ کا خاتمہ ہو تاکہ عوام تک اسلام  کا پیغام پہنچایا جا سکے- اس دور کے مروجہ طریقہ کے مطابق فتوحات ہوئیں مگر زبردستی نہیں تبلیغ سے اسلام پھیلا ، ورنہ اسپین سے صدیوں کے بعد مسلمان بیدخل نہ ہوتے اگر سب آبادی کو زبردستی مسلمان بنایا ہوتا- 
جہاں مسلمانوں نے نظریاتی کام کیا جیسے مشرق بعید انڈونیشیا ، ملا ئشیا، افریقی ممالک وہاں آج بھی ان کا وجود قائیم ہے جبکہ سپین میں سیاسی غلبہ ختم ہونے پر مسلمانوں کا وجود بھی ختم ہو گیا ۔  منگول تاتاری اپنی فوجی برتری کے باوجود  اسلام کی نظریاتی طاقت کے آگے مسخر ہوگئے تھے-
موجودہ دور میں مسلمان ٹیکنالوجی میں پیچھے ہیں اور جدید اسلحہ پر کفار کی اجارہ داری ہے مزید معاشی طور پر بھی کفار کا غلبہ ہے مگر نظریاتی اور فکری طور پر اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
جدید ڈیجیٹل کمیونیکیشن نے دعوہ کا کام  آسان کردیا ہے، دنیا میں اسلام تیزی سے پھیلتا دین ہے جو اس کی نظریاتی برتری کا مظہر ہے ۔ 
مسلم کی جدوجہد مسلسل ہے آج موبائل ، لیپ ٹاپ ، کمپیوٹر سے کفار تک قران کا پیغام پہنچا کر ان کے ذہین فتح کرنا مشکل نہیں- 
سیاسی ، فوجی ، معاشی ، ٹیکنولوجی اور دوسرے علوم میں برتری کی کوشش کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سوشل میڈیا کو دعوه کے لیے نظریاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہو گا تاکہ دنیا میں اسلام کا پیغام امن  و سلامتی ہر کونے میں پہنچے اور انسانیت الله کی اطاعت کرکہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل  سکے-  فتنہ انگیزی اور دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں-
مظلوم انسانوں کی مدد کے لیے اسلامی حدود کے مطابق جہاد فی سبیل اللہ  (قتال ، حرب ، جنگ ) کا آپشن اسلامی حہکومتوں کے پاس موجود ہے نہ کہ غیر ذمہ دار لشکروں اور گروہوں کے پاس - 
قران کے زریعہ جہاد کبیرہ (25:52) :  https://flip.it/jHC70o 
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]
  1. https://quransubjects.blogspot.com/2019/11/dawah.html
  2. اقوام کا عروج و زوال -  قرآن کا قانون…  https://quransubjects.blogspot.com/2019/11/Nations.html
  3. https://paighampakistan.wordpress.com/paigham-e-pakistan/islami-jamhorya/jihad/
  4. https://paighampakistan.wordpress.com/paigham-e-pakistan/islami-jamhorya/pakistan-dehshatgardi/
  5. #Quran #Islam  #Dominate #Muslims #Dawah #Jihad
~~~~~~~~
قرآن مجید نے تین مقامات پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ :
” اللہ “ نے اپنا رسول ہدایت اور دین کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے تاکہ دین اسلام تمام باطل ادیان پر غالب آجائے۔ 
اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے حق غالب کرنے پر قادر ہے اور اس کی گواہی اپنے رسول اور دین کے بارے میں کافی ہے۔
دین کے غلبے کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ دین اسلام کا کوئی قانون اور مسئلہ ایسا نہیں جسے دلائل کی بنیاد پر جھوٹا یا ناقابل عمل ثابت کیا جاسکے۔ دین ہمیشہ دلائل اور حقائق کی بنیاد پر ہر دور کے باطل نظریات پر غالب رہا ہے اور رہے گا۔ البتہ مسلمانوں کے سماجی اور سیاسی غلبے کے لیے شرط یہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک ہی غالب رہیں گے جب تک یہ دین کے تقاضے پورے کرتے رہیں گے۔
” بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ “ کے الفاظ مفہوم کے لحاظ سے آپس میں مترادف ہیں۔ جس ہدایت کے ساتھ ” اللہ “ نے اپنے رسول کو بھیجا ہے اس کی تشریح دین ہے اور اس کی اساس ” اللہ “ کی توحید ہے۔
دین کا مقصد ہدایت اور راہنمائی کرنا ہے۔ دوسرے مقام پر اسی کو صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ (الفاتحہ : ٥) ” بِالْھُدیٰ “ سے مراد وہ راہنمائی اور بصیرت ہے جس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو دین سمجھایا اور اس کا نفاذ فرمایا۔ جہاں تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین حق کے غلبہ کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور دین کو جزیرۃ العرب جو موجدہ جغرافیہ کے مطابق سعودی عرب، یمن، کو یت، بحرین، مسقط، سلطنت عمان اور متحدہ عرب امارات کا پورے رقبہ پر مشتمل تھا، اس پر غالب فرمایا۔ اس سیاسی، اخلاقی، جہادی اور دینی غلبہ کے اثرات تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کی طرف پیش قدمی فرمائی تو رومی جو اس دور کی واحد سیاسی قوت تھے وہ آپ کے سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکے۔ (ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ) (الصف : ٩) ” وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے دوسرے ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ “ (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ) (التوبہ : ٣٣) ” وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کردے، خواہ مشرک لوگ برا سمجھتے رہیں۔ “ (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی باللّٰہِ شَہِیْدًا) (الفتح : ٢٨) ” وہ اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ “ (کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ) (المجادلہ : ٢١) ” اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے یقیناً اللہ زبردست اور غالب ہے۔ “ ” یہ تو محض تمہاری خوشی اور اطمینان قلب کے لیے ہے ورنہ مدد تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جو غالب، حکمت والا ہے۔ “ (آل عمران : ١٢٦) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دین آسان ہے کوئی شخص اسلام پر غالب نہیں آسکتا بلکہ دین ہی غالب ہوگا۔ اجروثواب کا راستہ اور میانہ روی اختیار کرو، لوگوں کو خوشخبریاں دو ، صبح و شام اور رات کے کچھ حصے میں اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتے رہو۔ “ (رواہ البخاری : باب الدین یسر) (اَلْاِسْلَامُ یَعْلَمُوْ وَلَا یُعْلیٰ ) (ارواء الغلیل حدیث نمبر : ١٢٦٨) ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔ “ اس غلبے کے نتیجے میں مسلمان دنیا میں تقریباً ایک ہزار سال تک سیاسی، اخلاقی اور علمی طور پر غالب رہے۔ مسائل ١۔ اللہ نے اپنے رسول کو دین اور ہدایت کے ساتھ اس لیے بھیجا تاکہ دین حق تمام ادیان باطلہ پر غالب آجائے۔ ٢۔ رسول اور دین اسلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور دین کو غالب فرمایا : ١۔ وہ ذات جس نے رسول کو مبعوث کیا تاکہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے۔ (الفتح : ٢٨) ٢۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خالصتاً اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ : ١٩٣) ٣۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ (آل عمران : ١٦٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرنے پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٥۔ کتنی قلیل جماعتیں جو ” اللہ “ کے حکم سے کثیر جماعتوں پر غالب آئیں۔ ( البقرۃ : ٢٤٩) ٦۔ ” اللہ “ کا وعدہ ہے کہ میں اپنے رسولوں کو ضرور غالب کروں گا۔ (المجادلہ : ٢١) ( المومنوں : ٥٥) ...{فہم القرآن ، میاں محمد جمیل }
~~~~~~~~~

اسلام کا غلبہ اور  فتنہ کا خاتمہ 

فتنہ کسی معاشرے کے اندر باطل کے غلبے کی کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے اس معاشرے کے لوگوں کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ 
لہٰذا یہ جنگ اب اس وقت تک جاری رہے گی جب تک باطل مکمل طور پر مغلوب اور اللہ کا دین پوری طرح سے غالب نہ ہوجائے۔ اللہ کے دین کا یہ غلبہ جزوی طور پر بھی قابل قبول نہیں بلکہ دین کل کا کل اللہ کے تابع ہونا چاہیے۔

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَاتِلُوۡهُمۡ حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ وَّيَكُوۡنَ الدِّيۡنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ‌ۚ فَاِنِ انْـتَهَوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞ 
(القرآن الکریم - سورۃ نمبر 8 الأنفال, آیت نمبر 39)
ترجمہ:
اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اسے خوب دیکھنے والا ہے۔

”فِتْنَةٌ“ کے لفظی معنی آگ میں تپانے اور آزمانے کے ہیں۔ فتنہ کسی معاشرے کے اندر باطل کے غلبے کی کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے اس معاشرے کے لوگوں کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ 

لہٰذا یہ جنگ اب اس وقت تک جاری رہے گی جب تک باطل مکمل طور پر مغلوب اور اللہ کا دین پوری طرح سے غالب نہ ہوجائے۔ اللہ کے دین کا یہ غلبہ جزوی طور پر بھی قابل قبول نہیں بلکہ دین کل کا کل اللہ کے تابع ہونا چاہیے۔
غلبہ سیاسی،  فوجی ، نظریاتی ، فکری، روحانی بھی ہو سکتا ہے یہ حالات پر منحصر ہے۔ موجودہ دور میں مسلمان ٹیکنالوجی میں پیچھے ہیں اور جدید اسلحہ پر کفار کی اجارہ داری ہے مزید معاشی طور پر بھی کفار کا غلبہ ہے مگر نظریاتی اور فکری طور پر اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتے ، جدید ڈیجیٹل کمیونیکیشن نے دعوہ کا کام  آسان کردیا ہے، دنیا میں اسلام تیزی سے پھیلتا دین ہے جو اس کی نظریاتی برتری کا مظہر ہے ۔ مسلم کی جدوجہد مسلسل ہے آج موبائل ، لیپ ٹاپ ، کمپیوٹر سے کفار تک قران کا پیغام پہنچا کر ان کے ذہین فتح کرنا مشکل نہیں-  منگول تاتاری اپنی فوجی برتری کے باوجود  اسلام کی نظریاتی طاقت کے آگے مسخر ہوگئے تھے۔   
  
اس وقت تک کفار سے لڑتے رہو جب تک کسی شخص کے اسلام لانے پر مشرکوں کی اسے ستانے اور آزمائش میں ڈالنے کی قوت ختم نہیں ہوجاتی اور تمام دنیا سے شرک کا غلبہ ختم نہیں ہوتا۔ اس لیے صحیح احادیث میں فتنہ کا معنی شرک بھی آیا ہے۔ 
مگر اس سے مراد زبردستی مسلمان بنانا اور مشرکین و کفار کو ختم کرنا نہیں، فرمایا : 
لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ[ البقرۃ : 256 ] 
”دین میں کوئی زبردستی نہیں۔“
کیونکہ پھر کفار کے جزیہ دینے کی نوبت ہی نہیں آسکتی، بلکہ اس وقت تک لڑتے رہنا ہے جب تک ایمان لانے والوں کے راستے میں کفار کے رکاوٹ بننے کی قوت ختم نہیں ہوتی، پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ نہیں ہوتا اور کفر پر اصرار کی صورت میں جزیہ دے کر اسلام کی برتری تسلیم نہیں کرتے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (191، 193، 217) اور توبہ (29)۔
وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ : یعنی تمام دینوں پر اسلام کا غلبہ ہوجائے۔
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کرتا رہوں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت اور محمد رسول اللہ ﷺ کی شہادت دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، پھر جب وہ یہ کچھ کرلیں تو انھوں نے اپنے خون اور اموال مجھ سے محفوظ کرلیے، مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔“ [ بخاری، الإیمان، باب فإن تابوا و أقاموا۔۔ : 25، عن عبداللہ بن عمرو ؓ۔ مسلم : 22 ]
جب کفار اسلام لے آئیں تو تمہارے لیے ان کا ظاہر کافی ہے۔ اگر وہ دل سے مسلمان نہیں ہوئے یا چھپ کر کوئی غلط کام کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ظاہری اور باطنی اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے، وہ خود نمٹ لے گا۔

وَقٰتِلُوۡهُمۡ حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ وَّيَكُوۡنَ الدِّيۡنُ لِلّٰهِ‌ؕ فَاِنِ انتَهَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِيۡنَ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 193)
ترجمہ:
تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں ، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں۔
تفسیر:
یہاں فتنہ کا لفظ اوپر کے معنی سے ذرا مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے۔ سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر ”فتنے“ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لیے ہو، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو۔ پھر جب ہم لفظ ”دین“ کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی ”اطاعت“ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو کسی کو بالا تر مان کر اس کے احکام و قوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ سوسائٹی کی وہ حالت، جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی و فرماں روائی قائم ہو، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے، فتنے کی حالت ہے اور اسلامی جنگ کا مطمح نظریہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو، جس میں بندے صرف قانون الہٰی کے مطیع بن کر رہیں۔
باز آجانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آجانا نہیں، بلکہ فتنہ سے باز آجانا ہے۔
کافر، مشرک، دہریے، ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے، رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمائش اور نصیحت کریں گے مگر اس سے لڑیں گے نہیں۔ لیکن اسے یہ حق ہرگز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو غیر از خدا کسی کا بندہ بنائے۔ اس فتنے کو دفع کرنے کے لیے حسب موقع اور حسب امکان، تبلیغ اور شمشیر، دونوں سے کام لیا جائے گا اور مومن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا، جب تک کفار اپنے اس فتنے سے باز نہ آجائیں۔ 
اور یہ جو فرمایا کہ اگر وہ باز آجائیں، تو ”ظالموں کے سوا کسی پر دست درازی نہ کرو“ ، تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جب نظام باطل کی جگہ نظام حق قائم ہوجائے، تو عام لوگوں کو تو معاف کردیا جائے گا، لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہل حق بالکل حق بجانب ہوں گے، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں نظام حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کردی ہو، اگرچہ اس معاملے میں بھی مومنین صالحین کو زیب یہی دیتا ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں اور فتحیاب ہو کر ظالموں سے انتقام نہ لیں۔ مگر جن کے جرائم کی فہرست بہت ہی زیادہ سیاہ ہو ان کو سزا دینا بالکل جائز ہے اور اس اجازت سے خود نبی ﷺ نے فائدہ اٹھایا ہے، جن سے بڑھ کر عفو و درگزر کسی کے شایان شان نہ تھا۔ چناچہ جنگ بدر کے قیدیوں میں سے ععقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کا قتل اور فتح مکہ کے بعد آپ کا 17 آدمیوں کو عفو عام سے مستثنیٰ فرمانا اور پھر ان میں سے چار کو سزائے موت دینا اسی اجازت پر مبنی تھا۔(تفہیم القران )

یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جہاد کا اصل مقصد کسی کو اسلام پر مجبور کرنا نہیں ہے
یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں کوئی شخص کفر پر اصرار کرے تب بھی جزیہ کے ذریعے اسلامی حکومت کے قوانین کی اطاعت کرکے اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے، لیکن جزیرۂ عرب کا حکم مختلف ہے، یہ وہ ملک ہے جہاں رسول کریم ﷺ کو براہ راست بھیجا گیا اور جہاں کے لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور آپ ﷺ کی تعلیمات براہ راست سنیں، ایسے لوگ اگر ایمان نہ لائیں تو پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کے زمانوں میں انہیں عذاب عام کے ذریعے ہلاک کیا گیا، آنحضرت ﷺ کے زمانے میں عذاب عام موقوف فرما دیا گیا، لیکن یہ حکم دیا گیا کہ جزیرۂ عرب میں کوئی کافر مستقل شہری کی حیثیت میں نہیں رہ سکتا، یہاں اس کے لئے تین ہی راستے ہیں یا اسلام لائے یا جزیرۂ عرب سے باہر چلا جائے یا جنگ میں قتل ہوجائے۔
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~

Popular Books