Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

بین الاقوامی معاہدات, امن اور خیانت: قرآن کے احکام



قومی سطح پر دشمن کی طرف سے جنگ بندی ، امن کے معاہدہ کی خلاف ورزی کے مسئلے کا حل قرآن نے بتایا کہ،  اے نبی ﷺ ! اگر آپ کو کسی قوم یا قبیلے کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں آپ ان کے معاہدے کو علی الاعلان منسوخ abrogate کردیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اخلاق کے جس معیار پر دیکھنا چاہتا ہے اس میں یہ ممکن نہیں کہ بظاہر معاہدہ بھی قائم رہے اور اندرونی طور پر ان کے خلاف اقدام کی منصوبہ بندی بھی ہوتی رہے ‘ بلکہ ایسی صورت میں آپ ﷺ کھلم کھلا یہ اعلان کردیں کہ آج سے میرے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ 
اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کے عَلانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا ۔(8:58)

مولانا مودودی رح نے 1948 ء میں جہاد کشمیر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اسی قرآنی حکم کی روشنی میں کیا تھا ‘ کہ ہندوستان کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات کے ہوتے ہوئے ( اقوام متحدہ کی کشمیر کے پرامن حل کی قرارداوں کو قبول کرکہ ) یہ اقدام قرآن اور شریعت کی رو سے غلط ہے اور اسلام کے نام پر بننے والی مملکت کی حکومت کو ایسی پالیسی زیب نہیں دیتی۔

پاکستان کو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی پالیسی کا کھلم کھلا اعلان کرنا چاہیے۔ میز کے اوپر باہمی تعاون کے معاہدے کرنا ‘ دوستی کے ہاتھ بڑھانا اور میز کے نیچے سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا دنیا داروں کا وطیرہ تو ہوسکتا ہے اہل ایمان کا طریقہ نہیں۔ مولانا مودودی رح کی یہ رائے اگرچہ اس آیت کے عین مطابق تھی مگر اس وقت ان کی اس رائے کے خلاف عوام میں خاصا اشتعال پیدا ہوگیا تھا۔ 
(بیان القران ، ڈاکٹر اسرار احمد، رح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنۡ قَوۡمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذۡ اِلَيۡهِمۡ عَلٰى سَوَآءٍ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡخَآئِنِيۡنَ  ۞ (سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 58)
ترجمہ:
*اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کے عَلانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا ۔*
تفسیر:
اس آیت کے رو سے ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اگر کسی شخص یا گروہ یا ملک سے ہمارا معاہدہ ہو اور ہمیں اس کے طرز عمل سے یہ شکایت لاحق ہوجائے کہ وہ عہد کی پابندی میں کوتاہی برت رہا ہے، یا یہ اندیشہ پیدا ہوجائے کہ وہ موقع پاتے ہی ہمارے ساتھ غداری کر بیٹھے گا، تو ہم اپنی جگہ خود فیصلہ کرلیں کہ ہمارے اور اس کے درمیان معاہدہ نہیں رہا اور یکایک اس کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا شروع کردیں جو معاہدہ نہ ہونے کہ صورت ہی میں کیا جاسکتا ہو۔

اس کے برعکس ہمیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو ہم کوئی مخالفانہ کاروائی کرنے سے پہلے فریق ثانی کو صاف صاف بتادیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب معاہدہ باقی نہیں رہا، تاکہ فسخ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو حاصل ہے ویسا ہی اس کو بھی ہوجائے اور وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ معاہدہ اب بھی باقی ہے۔ 

اسی فرمان الہٰی کے مطابق نبی ﷺ نے اسلام کی بین الاقوامی پالیسی کا یہ مستقل اصول قرار دیا تھا کہ ؛
من کان بینہ وبین قوم عھد فلا یحلن عقدہ حتی ینقضی امدھا او ینبذ الیھم عل سواء۔”
جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو اسے چاہیے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے عہد کا بند نہ کھولے۔ یا نہیں تو ان کا عہد برابری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرف پھینک دے“۔

 پھر اسی قاعدے کو آپ نے اور زیادہ پھیلا کر تمام معاملات میں عام اصول یہ قائم کیا تھا کہ:
لا تخن من خانک
”جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر“۔

اور یہ اصول صرف وعظوں میں بیان کرنے اور کتابوں کی زینت بننے کے لیے نہ تھا بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کی پابندی کی جاتی تھی۔ 

چناچہ ایک مرتبہ جب امیر معاویہ نے اپنے عہد بادشاہی میں سرحد روم پر فوجوں کا اجتماع اس غرض سے کرنا شروع کیا کہ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی یکایک رومی علاقہ پر حملہ کردیا جائے تو ان کی اس کاروائی پر عمرو بن عنبَسَہ صحابی ؓ نے سخت احتجاج کیا اور نبی ﷺ کی یہی حدیث سنا کر کہا کہ معاہدہ کی مدت کے اندر یہ معاندانہ طرز عمل اختیار کرنا غداری ہے۔ آخر کار امیر معاویہ کو اس اصول کے آگے سر جھکا دینا پڑا اور سرحد پر اجتماع فوج روک دیا گیا۔

یک طرفہ فسخ معاہدہ اور اعلان جنگ کے بغیر حملہ کردینے کا طریقہ قدیم جاہلیت میں بھی تھا اور زمانہ حال کی مہذب جاہلیت میں بھی اس کا رواج موجود ہے۔ چناچہ اس کی تازہ ترین مثالین جنگ عظیم دائیم  میں روس پر جرمنی کے حملے اور ایران کے خلاف روس و برطانیہ کی فوجی کاروائی میں دیکھی گئی ہیں۔ عموماً اس کاروائی کے لیے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ حملہ سے پہلے مطلع کردینے سے دوسرا فریق ہوشیار ہوجاتا اور سخت مقابلہ کرتا، یا اگر ہم مداخلت نہ کرتے تو ہمارا دشمن فائدہ اٹھا لیتا لیکن اس قسم کے بہانے اگر اخلاقی ذمہ داریوں کو ساقط کردینے کے لیے کافی ہوں تو پھر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی بہانے نہ کیا جاسکتا ہو۔
ہر چور، ہر ڈاکو، ہر زانی، ہر قاتل، ہر جعلساز اپنے جرائم کے لیے ایسی ہی کوئی مصلحت بیان کرسکتا ہے۔

لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہ لوگ بین الاقوامی سوسائٹی میں قوموں کے لیے ان بہت سے افعال کو جائز سمجھتے ہیں جو خود ان کی نگاہ میں حرام ہیں جب کہ ان کا ارتکاب قومی سو سائٹی میں افراد کی جانب سے ہو۔

اس موقع پر جان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی قانون صرف ایک صورت میں بلا اطلاع حملہ کرنے کو جائز رکھتا ہے، اور وہ صورت یہ ہے کہ فریق ثانی علی الاعلان معاہدہ کو توڑ چکا ہو اور اس نے صریح طور پر ہمارے خلاف معاندانہ کاروائی کی ہو۔ ایسی صورت میں یہ ضروری نہیں رہتا کہ ہم اسے آیت مذکورہ بالا کے مطابق فسخ معاہدہ کا نوٹس دیں، بلکہ ہمیں اس کے خلاف بلا اطلاع جنگی کاروائی کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے یہ استثنائی حکم نبی ﷺ کے اس فعل سے نکالا ہے کہ قریش نے جب بنی خزاعہ کے معاملہ میں صلح حُدَیبیہ کو اعلانیہ توڑ دیا تو آپ نے پھر انہیں فسخ معاہدہ کا نوٹس دینے کی کوئی ضرورت نہ سمجھی، بلکہ بلا اطلاع مکہ پر چڑھائی کردی۔ لیکن اگر کسی موقع پر ہم اس قاعدہ استثناء سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو لازم ہے کہ وہ تمام حالات ہمارے پیش نظر رہیں جن میں نبی ﷺ نے یہ کاروائی کی تھی، تاکہ پیروی ہو تو آپ کے پورے طرز عمل کہ ہو نہ کہ اس کے کسی ایک مفید مطلب جزء کی۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ؛ 
اولاً ، قریش کی خلاف ورزی عہد ایسی صریح تھی کہ اس کے نقض عہد ہونے میں کسی کلام کا موقع نہ تھا۔ خود قریش کے لوگ بھی اس کے معترف تھے کہ واقعی معاہدہ ٹوٹ گیا ہے۔ انہوں نے خود ابو سفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا تھا جس کے صاف معنی یہی تھے کہ ان کے نزدیک بھی عہد باقی نہیں رہا تھا۔ تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ناقض عہد قوم کو خود بھی اپنے نقض عہد کا اعتراف ہو۔ البتہ یہ یقیناً ضروری ہے کہ نقض عہد بالکل صریح اور غیر مشتبہ ہو۔ 
ثانیاً ، نبی ﷺ نے ان کی طرف سے عہد ٹوٹ جانے کے بعد پھر اپنی طرف سے صراحتہ یا اشارةً و کنایہ یتہ ایسی کوئی بات نہیں کی کہ جس سے یہ ایماء نکلتا ہو کہ اس بدعہدی کے باوجود آپ ابھی تک ان کو ایک معاہد قوم سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کے معاہدانہ روابط اب بھی قائم ہیں۔ تمام روایات بالاتفاق یہ بتاتی ہیں کہ جب ابوسفیان نے مدینہ آکر تجدید معاہدہ کی درخواست پیش کی تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔
ثالثاً ، قریش کے خلاف جنگی کاروائی آپ نے خود کی اور کھلم کھلا کی۔ کسی ایسی فریب کاری کا شائبہ تک آپ کے طرز عمل نہیں پایا جاتا کہ آپ نے بظاہر صلح اور بباطن جنگ کا کوئی طریقہ استعمال فرمایا ہو۔ 
یہ اس معاملہ میں نبی ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے، لہٰذا آیت مذکورہ بالا کے حکم عام سے ہٹ کر اگر کوئی کاروائی کی جاسکتی ہے تو ایسے ہی مخصوص حالات میں کی جاسکتی ہے اور اسی سیدھے سیدھے شریفانہ طریقہ سے کی جاسکتی ہے جو حضور نے اختیار فرمایا تھا۔

مزید براں اگر کسی معاہد قوم سے کسی معاملہ میں ہماری نزاع ہوجائے اور ہم دیکھیں کہ گفت و شنید یا بین الاقوامی ثالثی کے ذریعہ سے وہ نزاع طے نہیں ہوتی، یا یہ کہ فریق ثانی اس کو بزور طے کرنے پر تلا ہوا ہے، تو ہمارے لیے یہ بالکل جائز ہے کہ ہم اس کو طے کرنے میں طاقت استعمال کریں لیکن آیت مذکورہ بالا ہم پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ ہمارا یہ استعمال طاقت صاف صاف اعلان کے بعد ہونا چاہیے اور کھلم کھلا ہونا چاہیے۔ چوری چھپے ایسی جنگی کاروائیاں کرنا جن کا علانیہ اقرار کرنے کے لیے ہم تیار نہ ہوں، ایک بد اخلاقی ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو نہیں دی ہے۔ (تفہیم القرآن)
..........
(القرآن - سورۃ نمبر 9 التوبة, آیت نمبر 1-8)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖۤ اِلَى الَّذِيۡنَ عَاهَدتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞ فَسِيۡحُوۡا فِى الۡاَرۡضِ اَرۡبَعَةَ اَشۡهُرٍ وَّاعۡلَمُوۡۤا اَنَّكُمۡ غَيۡرُ مُعۡجِزِى اللّٰهِ‌ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مُخۡزِى الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ۞ وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖۤ اِلَى النَّاسِ يَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَكۡبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِىۡۤءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ‌ ۙ  وَ رَسُوۡلُهٗ‌ ؕ فَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَهُوَ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ ‌ۚ وَاِنۡ تَوَلَّيۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّكُمۡ غَيۡرُ مُعۡجِزِى اللّٰهِ‌ ؕ وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِعَذَابٍ اَ لِيۡمٍۙ ۞ اِلَّا الَّذِيۡنَ عَاهَدتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ثُمَّ لَمۡ يَنۡقُصُوۡكُمۡ شَيۡئًـا وَّلَمۡ يُظَاهِرُوۡا عَلَيۡكُمۡ اَحَدًا فَاَتِمُّوۡۤا اِلَيۡهِمۡ عَهۡدَهُمۡ اِلٰى مُدَّتِهِمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَّقِيۡنَ ۞ فَاِذَا انْسَلَخَ الۡاَشۡهُرُ الۡحُـرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِكِيۡنَ حَيۡثُ وَجَدْتُّمُوۡهُمۡ وَخُذُوۡهُمۡ وَاحۡصُرُوۡهُمۡ وَاقۡعُدُوۡا لَهُمۡ كُلَّ مَرۡصَدٍ‌ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوۡا سَبِيۡلَهُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞ وَاِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ اسۡتَجَارَكَ فَاَجِرۡهُ حَتّٰى يَسۡمَعَ كَلَامَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبۡلِغۡهُ مَاۡمَنَهٗ‌ ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَعۡلَمُوۡنَ  ۞ كَيۡفَ يَكُوۡنُ لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ عَهۡدٌ عِنۡدَ اللّٰهِ وَعِنۡدَ رَسُوۡلِهٖۤ اِلَّا الَّذِيۡنَ عَاهَدتُّمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ‌ ۚ فَمَا اسۡتَقَامُوۡا لَـكُمۡ فَاسۡتَقِيۡمُوۡا لَهُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَّقِيۡنَ ۞ كَيۡفَ وَاِنۡ يَّظۡهَرُوۡا عَلَيۡكُمۡ لَا يَرۡقُبُوۡا فِيۡكُمۡ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً‌ ؕ يُرۡضُوۡنَـكُمۡ بِاَفۡوَاهِهِمۡ وَتَاۡبٰى قُلُوۡبُهُمۡ‌ۚ وَاَكۡثَرُهُمۡ فٰسِقُوۡنَ‌ۚ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 9 التوبة, آیت نمبر 1-8)
ترجمہ:
اعلان براءت ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ان لوگوں کی جانب جن سے (اے مسلمانو !) تم نے معاہدے کیے تھے مشرکین میں سے ۞ تو گھوم پھر لو اس زمین میں چار ماہ تک اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ بھی کہ اللہ کافروں کو رسوا کر کے رہے گا ۞ اور اعلان عام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے لوگوں کے لیے حج اکبر کے دن کہ اللہ بری ہے مشرکین سے اور اس کا رسول ﷺ بھی تو اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم روگردانی کرو گے تو سن رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور (اے نبی ﷺ !) بشارت دے دیجیے ان کافروں کو دردناک عذاب کی ۞ سوائے ان مشرکین کے جن سے (اے مسلمانو !) تم نے معاہدے کیے تھے) پھر انہوں نے کچھ کمی نہیں کی تمہارے ساتھ اور نہ تمہارے خلاف مدد کی کسی کی بھی یقیناً اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۞ پھر جب یہ محترم مہینے گزر جائیں تو قتل کرو ان مشرکین کو جہاں پاؤ اور پکڑو ان کو اور گھیراؤ کرو ان کا اور ان کے لیے ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کرلیں نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ۞ اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ ﷺ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پر پہنچا دو یہ اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے۞ ؏
کیسے ہوسکتا ہے مشرکین کے لیے کوئی عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ؟ سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا تھا مسجد حرام کے پاس تو جب تک وہ تمہارے لیے (اس پر) قائم رہیں تم بھی ان کے لیے (معاہدے پر) قائم رہو۔ بیشک اللہ متّقین کو پسند کرتا ہے ۞ کیسے (کوئی معاہدہ قائم رہ سکتا ہے ان سے !) جبکہ اگر وہ تم پر غالب آجائیں تو ہرگز لحاظ نہیں کریں گے تمہارے بارے میں کسی قرابت کا اور نہ عہد کا جبکہ ان کے دل (اب بھی) انکاری ہیں اور ان کی اکثریت فاسقین پر مشتمل ہے ۞(القرآن - سورۃ نمبر 9 التوبة, آیت نمبر 1-8)
۔۔۔۔۔۔۔
خیانت سے مراد ہے معاہد قوم سے نقص عہد کا خطرہ، اور (برابری کی حالت میں) کا مطلب ہے کہ انہیں با قاعدہ مطلع کیا جائے کہ آئندہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ تاکہ دونوں فریق اپنے اپنے طور پر اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہوں، کوئی ایک فریق لا علمی اور مغالطے میں نہ مارا جائے۔
یعنی یہ نقص عہد اگر مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو تو یہ خیانت ہے جسے اللہ پسند نہیں فرماتا۔ 

حضرت معاویہ اور رومیوں کے درمیان معاہدہ تھا جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب آئی تو حضرت معاویہ نے روم کی سرزمین کے قریب اپنی فوجیں جمع کرنی شروع کردیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی رومیوں پر حملہ کردیا جائے اور عمر بن عبسہ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے ایک حدیث رسول بیان فرمائی اور اسے معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیا جس پر حضرت معاویہ نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ (احسن البیان)

Kashmir Analysis & Options (English)* http://salaamone.com/kashmir

تازہ ترین نکتہ آفرینی یہ ہے کہ کشمیر کے لیے پاکستان نے آج تک آخر کیا ہی کیا ہے؟

آئیے آج اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

 ۱۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان نے پہلی جنگ کشمیر کے لیے لڑی۔ جوناگڑھ اور مناوادر بھی پاکستان کا حصہ تھے جن پر بھارت نے قبضہ کر لیا تھا لیکن پاکستان کی عسکری قوت اس وقت اس قابل نہ تھی کہ بھارت کے خلاف جوابی کارروائی کرتی۔اس وقت کی پاکستان کی فوجی قوت کا احوال اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل گریسی کے اس خط میں موجود ہے جس کا ذکر کل کے کالم میں کیا گیا ہے۔ لیکن کشمیر کا معاملہ آیا تو اسی بے سروسامانی کے باوجود پاکستان نے جنگ کی ورنہ بھارت پورے کشمیر کو جونا گڑھ ، حیدر آباد اور مناوادر کی طرح ہڑپ کر چکا ہوتا۔ 

2۔ مسئلہ کشمیر ایک مسئلے کے طور پر اقوام متحدہ میں پہنچا تو اس کی وجہ بھی پاکستان تھا ۔مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جانا والا بھلے بھارت ہو لیکن اس کے پیچھے پاکستان کی عسکری کارروائی تھی۔یہ نہ ہوتی تو بھارت اقوام متحدہ کے تکلف میں نہ پڑتا۔جونا گڑھ مناوادر اور حیدر آباد کی طرح اسے بھی ہضم کر جاتا۔

 3۔ مسئلہ کشمیر آج تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے تو اس کی وجہ بھی پاکستان ہے۔ سلامتی کونسل نے30 جولائی 1996 کو ایک غیر رسمی میٹنگ میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے خارج کر دیا تھا۔اور صرف اتنی سی گنجائش دی تھی کہ اگر کسی ملک کو اعتراض ہوا تو مسئلہ کشمیر کو ایک سال کے لیے عبوری طور پر ایجنڈے پر رکھ لیا جائے گا لیکن اس ایک سال میںاگر سلامتی کونسل نے اس مسئلے پر غور نہ کیا تو ایک سال کے بعد اسے خود بخود سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج تصور کیا جائے گا۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ااور کامیاب لابنگ کے ذریعے اس فیصلے کو کالعدم قرار دلوایا۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان نے اس اصول کو بھی طے کروا دیا کہ پاکستان کی رضامندی کے بغیر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے خارج نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آج آرٹیکل 370 کے خاتمے اور وادی کو بھارت میں شامل کر لینے کے بھارتی فیصلے کے باوجود قانونی پوزیشن یہی ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے اور مسئلہ کشمیر ابھی تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور اسے یک طرفہ طور پر وہاں سے اب خارج بھی نہیںکیا جا سکتا تو یہ پاکستان ہی کی سفارتی کامیابی ہے ۔

 4۔آپریشن جبرالٹر کا آپ نے نام سنا ہو گا۔یہی آپریشن بعض حلقوں کی جانب سے 1965 کی جنگ کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ موقف کس حد تک درست ہے اس پر پھر کبھی بات کریں گے لیکن اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ آپریشن جبرالٹر جیسا بڑا اقدام پاکستان نے آزادی کشمیر کی خاطر اٹھایا تھا۔یہ آپریشن نیپال یا بھوٹان کے لیے نہیں تھا۔یہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے تھا۔ 

5 ۔کارگل کی جنگ کس لیے تھی؟ آپ حکمت عملی کے باب میں اس کے بارے مین جو رائے مرضی رکھیں لیکن اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ کارگل کی لڑائی مسئلہ کشمیر ہی کے تناظر میں لڑی گئی۔

6۔ لائن آف کنٹرول پر آئے روز فائرنگ بھی ہوتی ہے اور شہادتیں بھی ہوتی ہیں۔اس سارے تنازعے کا محور بھی کشمیر ہی ہے۔

7۔ پاکستان کی سفارت کاری میں کشمیر کو ایک بنیادی اور مرکزی اہمیت رہی ہے۔ او آئی سی پاکستان نے کشمیر پر حمایت کے سوا کیا مانگا؟ او آئی سی مسلم دنیا کا سب سے بڑا فورم ہے۔ 1969ء میں رباط کانفرنس میں جب بھارت کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا تو پاکستان نے او آئی سی کا ہی بائیکاٹ کر دیا۔ او آئی سی کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اب بھی او آئی سی سے پاکستان کا کوئی گلہ ہے تو وہ کشمیر ہی کے حوالے سے ہے۔

 یہ پاکستان ہی تھا جس نے او آئی سی سے کشمیر پر رابطہ گروپ بنوایا۔ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں اگر کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی کے حوالے سے رپورٹ پیش ہوتی ہے اور اس میں بھارت کے خلاف روانڈا کمیشن کے طرزپر کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کیا یہ پاکستان کی سفارت کاری کے بغیر ہی ہو جاتا ہے؟ بہتر کی گنجائش اب بھی موجود ہے اور کمی کوتاہی بھی بہت سی ہے لیکن یہ کہنا کہ پاکستان نے کشمیر کے لیے کیا ہی کیا ہے ، نرم سے نرم الفاظ میں خبث باطن ہے ۔اور اس خبث باطن کا ظہور ہم ہر موقع پر دیکھتے ہیں۔یہ ایک پورا بیانیہ ہے جس کا رہنما اصول یہ ہے کہ دنیا کی ہر خرابی پاکستان میں ہے اور دنیا کے ہر مسئلے کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ چھ ستمبر ہو تو یہ اس میں سے شکست برآمد فرما لے گا۔ 

چودہ اگست کا موقع ہو تو یہ قیام پاکستان پر اعتراضات شروع کر دے گا۔ یوم کشمیر آئے گا تو یہ سارا زور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے پر لگا دے گا۔ خطے میں بھارت سے کوئی مسئلہ ہو یا افغانستان سے ، اس گروہ کے ہاں اتفاق پایا جاتا ہے کہ اس کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ پاکستان فاٹا میں کارروائی نہ کرے تو یہ کہتے ہیں پاکستان طالبان سے ملا ہوا ہے اور پاکستان کارروائی کر دے تو یہ حقوق انسانی کے عنوان سے ریاست کے خلاف مہم شروع کر دیتے ہیں۔ ایک طر ف یہ کہیں گے پاکستان کشمیر کا مسئلہ حل ہی نہیں ہونے دیتا اور دوسری جانب یہ طعنے دیتے ہیں کہ اب پاکستان لڑ کیوں نہیں رہا، یہ تو کشمیر کا سودا کر چکا ہے۔ یہ امن کی آشا ااور جنگ کے رجز ایک ہی سر میں پڑھنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں بنیادی اصول ایک ہی ہے : پاکستان جو کرتا ہے غلط کرتا ہے اور اس کے پڑوسی جو کرتے ہیں ٹھیک کرتے ہیں۔ [آصف محمود 92 نیوز ]
#Pakistan #Kashmir 


کشمیر ، جہاد ، تجزیہ و آپشنز 


*#1/18 موجودہ عالمی  ماحول*
 *Prevalent Global Security Environments*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#environments

#2/18. *اکیسویں صدی کی صلیبی جنگیں* 
http://salaamone.com/kashmir-ur/#crusade

#3/18. *ٹرمپ ۔۔۔ یہودی تھرڈ  ٹیمپل، “بنیاد پرست مسیحی” اور صیہونیت* 
http://salaamone.com/kashmir-ur/#3rdTemple

برنارڈ لیوس پلان ۔۔ پاکستان اور مشرق وسطی کے لئیے 
https://salaamone.com/bernard-lewis-plan-middle-east/
P
#4/18 *امریکہ اسرائیل۔ ہندوستان کا گٹھ جوڑ*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#nexusپ

#5/18 *غزوہ ہند*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#GhazwaHind

#6/18 *کشمیر*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#Kashmir

#7/18 *آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین میں ترمیم*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#AJKconstitutionAmended

#8/18 *کشمیر پر بین الاقوامی رد عمل*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#International

#9/18 *مسلم  امہ روحانی نظریہ ؟*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#Ummah 

#10/18 *جہاد اور قتال (لڑائی ، جنگ)*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#Jihad-Qital

#11/18 *جہاد (قتال، جنگ )ریاست کی ذمہ داری*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#JihadByState

#12/18 *جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#Jihad-Virtues

#13/18 *اسلام میں بین القوامی اور باہمی  معاہدات کا احترام*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#HonourAgreements

#14/18 *انڈیا کا معاہدوں پر عمل درآمد سے انکار *
http://salaamone.com/kashmir-ur/#India-Flout-Agreements

#0 *مقبوضہ کشمیر اور  "ہائیبرڈ جہاد"*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#Hybrid-Jihad

#16/18,0 *کشمیر ,جہاد اور آپشنز*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#Jihad-Options

# 17/18 *عوام کے لئیے جہاد کےانفرادی ، فوری عملی  اقدام*
http://salaamone.com/kashmir-ur/#Simple-Steps

#18/18 *کشمیر آپشنز - اختتامیہ.Conclusion* 
http://salaamone.com/kashmir-ur/#Conclusion
 
پڑھیں ۔۔۔۔
اردو https://salaamone.com/kashmir-ur/
 English : http://salaamone.com/kashmir
#Kashmir #Pakistan #Jihad #Quran

Popular Books