Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

QURAN & REVEALED SCRIPTURES قرآن اور الہامی کتب





الله نے آدم سے لیے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک انسانوں کی ہدایت کے لیئے پیغمبر بھیجے جوصرف اپنی قوم کی رہنمائی کے  لیئے تھے اور ان کا پیغام خاص زمانے، قوم اور علاقے کےلحاظ سے محدود تھا، ان پیغمبروں پر ہدایت وحی کی صورت نازل فرمائی، پرانی کتب اور صحیفے وقت کے ساتھ محفوظ نہ رہے کیونکہ وہ دائمی نہیں تھے-  جب انسانیت ترقی کے مناسب مرحلہ تک پہنچ گئی تو چودہ سو سال قبل الله نے آخری رسول پر اپنی آخری کتاب ، قرآن ،٢٣ سال کے عرصہ میں نازل فرمائی- قرآن پاک دنیاکی واحد مقدس کتاب ہےجو اپنی اصل نازل شدہ حالت میں بنی نوع انسانیت کی رہنمائی کے لئے دستیاب ہے اورہمیشہ دستیاب رہے گی کیونکہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خد اٹھا رکھی ہے:
"بےشک یہ (کتاب) نصیحت ہمیں نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں" (قرآن ;15:9)
قرآن ہی صرف ایک ایسی مقدس کتاب الہی ہے جس کوچودہ سو سال سے ہر عمر، قومیت، رنگ، نسل اور مختلف پیشہ ورمسلمان کثیر تعداد میں (ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان،طالب علم، مزدور، علماء اور عام لوگ)تمام دنیا میں حفظ کرتے ہیں- اس وجہ سے قرآن درست طریقے سے نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آیا ہے - اگر تمام دنیا کی کتابیں ختم ہو جایئں تو قرآن وہ واحد کتاب ہے جس کو بیک وقت تمام دنیا کے ہر علاقہ میں فوری طور پر دوبارہ اصل حالت میں لکھا جا سکتا ہے کیونکہ مسلمانوں کے ہر گاؤں، شہر میں حفاظ قرآن موجود ہوتے ہیں، جو مل کر قرآن کو دوبارہ پیش کر سکتے ہیں- اگرچہ مسیحی تعداد میں زیادہ ہیں مگر قرآن دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے. پیو ریسرچ سینٹر (Pew Research Centre) کی رپورٹ کے مطابق اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھنے والا مذہب ہے۔ اگر اس کی موجودہ ترقی کی شرح 2050 کے بعد بھی برقرار رہی تو 2070 تک دنیا میں سب سے زیادہ لوگ مسلم کمیونٹی کے ہوں گے، جن کی کل تعداد 2.8 ارب ہوگی-
قرآن - ابدی نشانی (معجزہ)

قدیم دور میں، اللہ تعالیٰ نےاپنے رسولوں کو ان کی رسالت کے ثبوت کے طور پرمعجزات عطا کیا کرتا تھا، بہت سے لوگ ان پر یقین رکھتے مگر کئی لوگ ان کا انکار کرتے- معجزہ کو انسانی منطق اوردلیل پرسبقت حاصل تھی۔ عام تعریف معجزہ کی یہی ہے کہ ہر وہ چیز جو عام زندگی کے بر خلاف ہو اور جس کی انسان کے پاس کوئی تشریح نہیں ہوتی۔ بعض جاہل لوگ نبیوں سے عجیب و غریب مطالبات کرتے:
"نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی؟ ایسی ہی باتیں اِن سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تہے اِن سب (اگلے پچھلے گمراہوں) کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں یقین لانے والوں کے لیے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کر چکے ہیں" ( قرآن2:118)
اسی وجہ سے ان رسولوں اور انبیاء کو اللہ کی طرف سے ان کی رسالت و نبووت کے ثبوت کے طور پر ان حالات کے مطابق معجزات عطا کیئے جاتے رہے، مگرلوگوں کی شدید جہالت اورگمراہی کی وجہ سے ان کے اثرات دیر پا نہ تھے - کچھ لوگوں نے معجزات کو جادو کہہ کر مسترد کر دیا- حضرت موسی علیہ السلام اسرائیلیوں کو مصر سے محیرالعقول معجزات اور عجائبات کے بعد نکال کر لائے، لیکن مصیبت سے نجات کے فورا بعد ہی اسرائیلی نافرمان ہو گئے اور بچھڑے کی پرستش میں ملوث ہو گئے-اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے الله کی طاقت سے بہت معجزات دیکھائےمگر یہودیوں نے آپ کا انکار کیا- الله کا ارشاد ہے:
"اور ہم نے اس لیےمعجزات بھیجنے موقوف کر دیےکہ پہلوں نے انہیں جھٹلایا تھا اور ہم نے ثمود کو اونٹنی کا کھلا ہوا معجزہ دیا تھا پھر بھی انہوں نے اس پر ظلم کیا اور یہ معجزات تو ہم محض ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں"( قرآن17:59)-
الله کا طریقه ہے کہ اگر لوگ ثبوت کے طور پر معجزات کا مطالبہ کریں، اور جب معجزات ظہور پزیر ہونے کے بعد،ایمان لانے سے انکار کریں تو وہ الله کی طرف سے سزا اور عذاب کے مستحق ہوتے ہیں، ان پر مختلف طرح سے عذاب نازل ہوتا ہے- مگر بائبل (انجیل) میں معجزات کو سچائی کے ثبوت سے مستثنیٰ قرار دیا. حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :
"کئی جھوٹے نبی آکر بہت سے لوگوں کو فریب دینگے۔(متی24:11)؛
"خدا کے منتخب لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے ممکن ہے جھوٹے مسیح اورجھوٹے نبی آئینگےاورمعجزےظاہر کرینگے۔ان وجوہات کی بناء پر باخبر رہو۔ ان تمام باتوں کے واقع ہو نے سے پہلے ان تمام کے بارے میں تم کو انتباہ کرتا ہوں۔"(مرقس 13:22،23)
"تیرے ہی نام سے ہم نےبد رُوحوں کو چھڑایا ہے اور مختلف غیر معمولی کا موں کو انجام دیا ہے۔ لیکن میں صاف طور پر ان سے کہہ دوں گاکہ اے بد کار لوگو!مجھ سے دور ہو جاؤمیں نے تمہیں کبھی نہیں جا نا ؟"( متی 7:22،23)

 قدیم زمانے میں نبیوں کے معجزات، جن کو اس دور کے لوگوں نے دیکھا، دلیل اور حجت بن سکتے تھے مگر آج کے زمانہ میں ان کو ثابت نہیں کیا جاسکتا- موجودہ دور کے بہت سے عیسائی اور یہودی، بائبل کےانبیاء کی طرف سےمعجزات پر یقین نہیں رکھتے، وہ ان کو دیومالائی داستانیں اور قصے سمجھتے ہیں، کچھ لوگ عقلی اورسائنسی دلائل کے ذریعے معجزات کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں- حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) الله کے آخری پیغمبر تھے، ان کو پوری بنی نوع انسانی کی ابدی ہدایت کے لیئے بھیجا گیا:
"اے محمدؐ، کہو کہ "اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے"(قرآن 7:158)
آخری پیغمبرکے لیئے معجزہ بھی ایسا ہونا چاہیئے جو ابدی، ہر زمانہ کے لیئے- اسلامی تاریخ اور روایات میں درج ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے کئی معجزات ظہور پزیر ہوئے،جن پر مسلمان ایمان رکھتے ہیں- مگر الله تعالی نے حکمت الہی سے اپنے آخری رسول اور نبی کے ذریعے ہمیشہ رہنے والی نشانی (معجزہ) قرآن نازل فرمایا جسے کہیں بھی کوئ شخص خود پڑھ کر فیصلہ کر سکتا ہے کہ یہ قرآن، اللہ کا سچا کلام ہے جوابدی دنیا تک انسانیت کے لئے رہنمائی، روشنی اور حکمت کی آخری کتاب ہے:

 ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ
 یہ کتاب، اس میں کوئی شک نہیں، (برائی سے ) بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔ (قرآن ( 2:2)
"اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کر دوں"(قرآن6:19)
"اور جب آپ کوئی معجزه ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے تو وه لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزه کیوں نہ ﻻئے؟ آپ فرما دیجئے! کہ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پروردگار کی طرف سے میرے پاس آتا ہے۔ یہ (قرآن) تمہارے پروردگار کی جانب سے دانش وبصیرت اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے""(قرآن 7:203)

کائنات کے مقصد، تخلیق اور وجود کی وجہ، اساس اور منطقی دلائل قرآن کائنات کے مقصد، تخلیق اور وجود کی وجہ، اساس اور منطقی دلائل فراہم کرتا ہے- یہ خدا کی ابدی نشانی اور اس کے آخری پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سچائی کا کھلا ثبوت ہے:
"اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے"(قرآن ؛ 16:125)
 الله فرماتا ہے:
"اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آ چکی ہے اور ہم نےتمہاری طرف ایک ظاہر روشنی اتاری ہے سو جو لوگ الله پر ایمان لائے اور انھوں نے الله کومظبوط پکڑا انہیں الله اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور اپنے تک ان کو سیدھا راستہ دکھائے گا"(قرآن 4:174، 175)
 قرآن پاک میں چھ ہزارسے زائد آیات ( نشانیاں) ہیں، قرآن کی ہرآیت ہمارے رب کی طرف سے ایک نشانی ہے ، جو اس کے موجد کی عظمت کی شہادت ہے- یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) 'امی' (ناخواندہ) تھے:

"وہ لوگ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں اور جو نبی امی ہے جسے اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ ان کو نیکی کا حکم کرتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اوران کے لیے سب پاک چیزیں حلا ل کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے ان کے بوجھ اور وہ قیدیں اتارتا ہے جو ان پر تھیں سو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی حمایت کی اور اسے مدد دی اور اس کے نور کے تابع ہو ئے جو اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے یہی لوگ نجات پانے والے ہیں"( قرآن 7:157)
قرآن وحی ہے جو عربی میں نازل ہوا، اس کی بلاغت اور خوبصورتی بے مثال ہے،جو ایک ان پڑھ کے منہ سے نکلا (29:12 یسعیاہ)
یہ ایک معجزہ ہے
حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوت اور 'قرآن'(لوگوں سے وہی کہے گا جو میرا حکم ہو گا) کی پیشنگوئی کا ذکر بائبل میں موجود ہے: "میں تمہا ری طرح ایک نبی اُن کے لئے بھیج دوں گا وہ نبی انہی لوگوں میں سے کو ئی ایک ہو گا۔ میں اسے وہ سب بتا ؤں گا جو اسے کہنا ہو گا اور وہ لوگوں سے وہی کہے گا جو میرا حکم ہو گا۔ یہ نبی میرے نام پر بولے گا اور جب وہ کچھ کہے گا تب اگر کو ئی شخص میرے احکام کو سننے سے انکار کرے گا تو میں اس شخص کو سزا دو ں گا۔" (استثنا18:18,19)
 قرآن کا عالمگیر چیلنج کہ؛
'ایک بھی آیت قرآن کی طرح پیدا کرکہ دکھاؤ ، ابھی تک لا جواب ہے اور لاجواب رہے گا (قرآن؛ 2: 23)
قرآن ایک معجزہ : https://bit.ly/QuranMojza
 قرآن اور سائنس
یہ ایک طویل موضوع ہے جس پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں- قرآن الله کا کلام ہے جو وحی کے زریعہ نازل ہوا- اس کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے کسی ترقی پزیر سائنسی علم کی مدد لینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے- ہم سب جانتے ہے کہ کئی مرتبہ سائنس طے شدہ نظریات کے خلاف جاتی ہے اس لئے سائنس سے متعلق قرآنی آیات کو سمجھنے لئے صرف تسلیم شدہ سائنسی حقائق کو ہی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ سائنسی طور پرغیرثابت شدہ، قیاسات، تخمینوں اور مفروضوں سے لا حاصل بحث سے گریز بہتر ہے- قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق گزشتہ چند صدیوں کے دوران آشکار ہوئے- سائنس ایک ترقی پزیر علم ہے، علمی معلومات میں اضافہ قیامت تک جاری رہے گا- اب تک سائینس کا علم اس درجہ انتہا تک نہیں پہنچا کہ وہ قرآن میں سائینس کے متعلق بیان کردہ تمام معلومات کی تصدیق کر سکے- ممتاز سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق اگرفرض کریں کہ قرآن میں جو سائینس کے متعلق ذکر کیا گیا ہےاس کا 80 فی صد 100 فیصد درست ثابت ہو چکا ہے ،جبکہ بقیہ 20 فی صد کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کھا جا سکتا کیونکہ ابھی تک سائینس کا علم اس درجہ تک نہیں پہنچ سکا کہ وہ باقی 20 فیصد پر کچھ کہہ سکے - آج تک معلوم محدود سائینسی علم کی بنیاد پر کوئی شخص یقین کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس بقیہ 20 کا صرف ایک فیصد یا قرآن کی کوئی ایک آیت غلط ہے- لہٰذا, اگر 80 فیصد قرآن 100 فیصد درست ثابت ہو چکا اور بقیہ 20 فی صد غلط ثابت نہیں ہو سکا تو منطقی طور پر یہ کھا جا سکتا ہے کہ باقی فی صد بھی درست ہی ہو گا-

 قرآن 'سائنس' کی کتاب نہیں بلکہ (signs) 'نشانیوں' (آیات) کی کتاب ہے- قرآن میں ایک ہزار سے زائد ایسی آیات موجود ہیں جو سائنس کے مختلف موضوعات،مثلا فلکیات، طبیعیات، جغرافیہ، ارضیات، حیاتیات، نباتیات، حیوانیات، طب، فزیالوجی،رویان شناسی، سمندری علوم اور جنرل سائنس وغیرہ سے متعلق ہیں-ان آیات میں بیان کردہ حقائق حیرت انگیز طور پر جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں- چودہ سوسال قبل جب وحی کا نزول ہورہا تھا انسانوں کا علم ان موضوعات پرعنقا یا بہت محدود تھا, اللہ نے فرمایا :
"ہم انہیں نشانیاں دکھائیں گے آفاق و کائنات میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (اللہ) بالکل حق ہے۔" ( 41:53 قرآن)
 فلکی طبیعیات کے ماہرین ابتدائے کائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے اور جس کا جانا پہچانا نا م ’’بگ بینگ‘‘ یعنی عظیم دھماکا ہے۔ بگ بینگ کے ثبوت میں گزشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرین فلکیات و فلکی طبیعیات کی جمع کردہ معلومات موجود ہیں۔ بگ بینگ ماڈل میں ایک خیال ہے جس کے مطابق ابتداء میں شاید یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی، (جسے Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر ایک عظیم دھماکا یعنی بگ بینگ ہوا، جس کا نتیجہ منظم کہکشائوں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشا ئیں تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔ کائنا ت کی ابتداء اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔ قرآن پاک درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنا ت کے متعلق بتایا گیا ہے:
’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا(Big Bang) ، اور ہم نے (پہلے) ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے‘‘(قرآن 21:30)
 "پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا اُس نے آسمان اور زمین سے کہا "وجود میں آ جاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو" دونوں نے کہا "ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح"(قرآن41:11)
’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘(قرآن 47:51)
جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا" (قرآن 87:2)
 لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے"( قرآن49:13)
 بچے کا حمل سے پیدائش تک پیچیدہ عمل ترتیب کےساتھ حال ہی میں دریافت ہوا ہے جو درست طریقے سے قرآن میں بیان کیا گیا- (قرآن ;23:13-14)

سوال اٹھتا ہے کہ؛ کس طرح 1400 سال قبل ایک ان پڑھ شخص جس کی پرورش تہذیب اور علم کے مراکز سے بہت دورپسماندہ عرب صحرائی علاقہ میں ہوئی ہو، ایسی درست سائینسی معلومات مہیا کرے جو دورحاضر میں دریافت ہوئی ہوں؟ یہ صرف الله ، واحد خالق کائنات ہے جودرست سائینسی معلومات مہیا کر سکتا ہے- لہٰذا اگرقرآن میں سائینسی معلومات کا تذکرہ درست ہے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن میں موجود غیر طبیعاتی،غیبی اور روحانی معلومات مثلآ ؛ الله کا وجود، فرشتے، ايمان بالآخرة (حیات بعد ازموت،انصاف، فیصلے، جنت، جہنم، روح اور انسانوں کی حتمی تقدیر) بھی درست ہیں- ( https://goo.gl/z0jlXa) انسان قرآن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اگر وہ اس پر غور و فکر کریں ( قرآن 38:29)- الله فرماتا ہے:
" کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی"( قرآن 4:82)
 قرآن کی بہت سی پیشنگوئیاں پوری ہوئیں جن کی صداقت تاریخی روایات ، تازہ ترین تحقیق اور آثار قدیمہ سے حاصل ثبوتوں سے ثابت ہوئی- قرآن میں ربط حیرت انگیز ہےجو اس کے کلام الہی ہونے کو ثابت کرتا ہے- قرآن میں موجود بے شمار'اندرونی شواہد' ثبوت فراہم کرتا ہے، ایک مثال پیش ہے: قرآن ایک مختصر جملے میں عیسائیوں کو آدم کے متعلق یاد دلاتا ہے:
جس کا نہ باپ تھا نہ ماں، اس طرح آدم خدا کا بیٹا نہیں بن جاتا، اس طرح سے آدم اور عیسیٰ میں مماثلت ہے کہ وہ کچھ نہیں سےکچھ، یعنی الله کے غلام بن گئے-(قرآن ;3:59)
عیسی اور آدم علیہ السلام میں ایک مساوات قائم کی گئی جس کے لیئے عربی لفظ (مثل) استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب کے 'مماثلت'- کھا گیا کہ عیسی اور آدم برابر ہیں- قرآن میں انڈیکس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ نام 'عیسیٰ' قرآن میں 25 مرتبہ آیا ہے اس طرح سے نام 'آدم' بھی 25 مرتبہ آیا ہے-
 ڈاکٹرگیری ملر اپنی کتاب (' 'Amazing Quran) میں اس پر مزید اضافہ کرتے ہیں کہ اگر اس طریقه کو مزید بڑھائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں 8 جگہ قرآن کی آیات میں ذکر ہوتا ہے کہ فلاں چیز فلاں کی طرح ہے، اس مماثلت (مثل) پر مزید تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک کا ذکر 110 مرتبہ ہے تو اس کے مماثلت چیز یا بات کا ذکر بھی 110مرتبہ پایا جاتا ہے- اس طرح سے سکرپٹ میں 'ربط' پیدا کرنا آج کے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دور میں بھی خاصہ مشکل ہے، مگر 1400سال قبل اس کا تصور بھی محال ہے کہ ایک ان پڑھ شخص 23 سال کے طویل عرصہ میں مختلف جگہوں، مقامات اور مختلف حالات میں چھوٹے اور بڑے ٹکروں میں کتاب لکھوا رہا ہو، جب اچانک مومنین یا کفارکے سوالات کے جواب میں وحی نازل ہو رہی ہو! یہ حیرت انگیز ہے، کوئی شک نہیں کہ قرآن ایک زندہ معجزہ ہے جو خالق واحد، الله کے وجود کا کھلا ثبوت ہے-
 قرآن خدا کی واحدنیت کی طرف مدلل طریقه سے توجہ مبذول کراتا ہے- کچھ آیات یہاں پیش ہیں: الله پر بغیر دیکھے ایمان : (7:143 قرآن) ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿2:3﴾ یہ اللہ کی کتاب ہے، اس مںل کوئی شک نہںَ ہدایت ہےبرائی سے بچنے والے لوگوں کے لے (2) جو غیب پر ایمان لاتے ہں ، نماز قائم کرتے ہں ، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس مںْ سے خرچ کرتے ہںے (2:3قرآن)

قرآن اور قدم الہامی کتب، تورات و انجیل  
 تورات بائیبل کی پہلی پانچ کتابوں کے اندر مندرج ہے ، اور انجیل نئے عہد نامہ کی اناجیل اربعہ کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ ان کے اندر پائی جاتی ہے ۔ 
The Torah is part of first five books of the Old Testament, and the Injil (Gospel), to mean the four Gospels of the New Testament, even though those books form a part of it.....
نَزَّلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ اَنۡزَلَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ۙ﴿۳﴾ مِنۡ قَبۡلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنۡزَلَ الۡفُرۡقَانَ  ؕ​ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ  ​ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍؕ‏  0

 جس نے آپ پر حق کے ساتھ اس کتاب کو نازل فرمایا  جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے اسی نے اس سے پہلے تورات اور انجیل کو اتارا تھا ۔  اس سے پہلے لوگوں کو ہدایت کرنے والی بنا کر اور قرآن بھی اسی نے اتارا جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالٰی غالب ہے ، بدلہ لینے والا ۔[سورة آل عمران 3  آیت: ,4,3]  
He has sent down upon you, [O Muhammad], the Book in truth, confirming what was before it. And He revealed the Torah and the Gospel. for the guidance of mankind; and He has also revealed the Criterion (Quran, to distinguish truth from falsehood). A severe chastisement lies in store for those who deny the signs of Allah. Allah is All-Mighty; He is the Lord of Retribution.[ Surat Aal e Imran: 3 Verse: 3,4]. [ Surat Aal e Imran: 3 Verse: 3,4]
عام طور پر لوگ تورات سے مراد بائیبل کے پرانے عہد نامے کی ابتدائی پانچ کتابیں اور انجیل سے مراد نئے عہد نامے کی چار مشہور انجیلیں لے لیتے ہیں ۔ اس وجہ سے یہ الجھن پیش آتی ہے کہ:

کیا فی الواقع یہ کتابیں کلام الٰہی ہیں؟ 

کیا واقعی قرآن ان سب باتوں کی تصدیق کرتا ہے جو ان میں درج ہیں؟

 لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ تورات بائیبل کی پہلی پانچ کتابوں کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ ان کے اندر مندرج ہے ، اور انجیل نئے عہد نامہ کی اناجیل اربعہ کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ ان کے اندر پائی جاتی ہے ۔ 
دراصل تورات سے مراد وہ احکام ہیں ، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے لے کر ان کی وفات تک تقریباً چالیس سال کے دوران میں ان پر نازل ہوئے ۔ ان میں سے دس احکام تو وہ تھے ، جو اللہ تعالیٰ نے پتھر کی لوحوں پر کندہ کر کے انہیں دیے تھے ۔ باقی ماندہ احکام کو حضرت موسیٰ نے لکھوا کر اس کی ١۲ نقلیں بنی اسرائیل کے ١۲ قبیلوں کو دے دی تھیں اور ایک نقل بنی لاوِی کے حوالے کی تھی تاکہ وہ اس کی حفاظت کریں ۔ اسی کتاب کا نام ” تورات“ تھا ۔ یہ ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے بیت المقدس کی پہلی تباہی کے وقت تک محفوظ تھی ۔ اس کی ایک کا پی جو بنی لاوی کے حوالے کی گئی تھی ، پتھروں کی لوحوں سمیت ، عہد کے صندوق میں رکھ دی گئی تھی اور بنی اسرائیل اس کو ”توریت“ ہی کے نام سے جانتے تھے ۔ لیکن اس سے ان کی غفلت اس حد کو پہنچ چکی تھی کہ یہودیہ کے بادشاہ یوسیاہ کے عہد میں جب ہیکل سلیمانی کی مرمت ہوئی تو اتفاق سے سردار کاہن ( یعنی ہیکل کے سجادہ نشین اور قوم کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا ) خلقیاہ کو ایک جگہ توریت رکھی ہوئی مل گئی اور اس نے ایک عجوبے کی طرح اسے شاہی منشی کو دیا اور شاہی منشی نے اسے لے جا کر بادشاہ کے سامنے اس طرح پیش کیا ، جیسے ایک عجیب انکشاف ہوا ہے ( ملاحظہ ہو ۲- سلاطین ، باب ۲۲-آیت ۸ تا ١۳ ) ۔
یہی وجہ ہے کہ جب بخت نَصَّر نے یروشلم فتح کیا اور ہیکل سمیت شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، تو بنی اسرائیل نے تورات کے وہ اصل نسخے ، جو ان کے ہاں طاق نسیاں پر رکھے ہوئے تھے اور بہت تھوڑی تعداد میں تھے ، ہمیشہ کے لیے گم کر دیے ۔ پھر جب عزر اکاہن ( عزیر ) کے زمانے میں بنی اسرائیل کے بچے کھچے لوگ بابل کی اسیری سے واپس یروشلم آئے اور دوبارہ بیت المقدس تعمیر ہوا ، تو عزرا نے اپنی قوم کے چند دوسرے بزرگوں کی مدد سے بنی اسرائیل کی پوری تاریخ مرتب کی ، جو اب بائیبل کی پہلی ١۷ کتابوں پر مشتمل ہے ۔ اس تاریخ کے چار باب ، یعنی خروج ، احبار ، گنتی اور استثنا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سیرت پر مشتمل ہیں اور اس سیرت ہی میں تاریخ نزول کی ترتیب کے مطابق تورات کی وہ آیات بھی حسب موقع درج کر دی گئی ہیں ، جو عزرا اور ان کے مددگار بزرگوں کو دستیاب ہو سکیں ۔ پس دراصل اب تورات ان منتشر اجزا کا نام ہے ، جو سیرت موسیٰ علیہ السلام کے اندر بکھرے ہوئے ہیں ۔ 

ہم انہیں صرف اس علامت سے پہچان سکتے ہیں کہ اس تاریخی بیان کے دوران میں جہاں کہیں سیرت موسوی کا مصنف کہتا ہے کہ خدا نے موسیٰ سے یہ فرمایا ، یا موسیٰ نے کہا کہ خداوند تمہارا خدا یہ کہتا ہے ، وہاں سے تورات کا ایک جز شروع ہوتا ہے اور جہاں پھر سیرت کی تقریر شروع ہو جاتی ہے ، وہاں وہ جز ختم ہوجاتا ہے ۔

 بیچ میں جہاں کہیں کوئی چیز بائیبل کے مصنف نے تفسیر و تشریح کے طور پر بڑھا دی ہے ، وہاں ایک عام آدمی کے لیے یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ آیا یہ اصل تورات کا حصہ ہے ، یا شرح و تفسیر ۔ تاہم جو لوگ کتب آسمانی میں بصیرت رکھتے ہیں ، وہ ایک حد تک صحت کے ساتھ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ ان اجزا میں کہاں کہاں تفسیری و تشریحی اضافے ملحق کر دیے گئے ہیں ۔ قرآن انہیں منتشر اجزا کو ”تورات“کہتا ہے، اور انہیں کی وہ تصدیق کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان اجزا کو جمع کر کے جب قرآن سے ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے ، تو بجز اس کے کہ بعض بعض مقامات پر جزوی احکام میں اختلاف ہے، اصولی تعلیمات میں دونوں کتابوں کے درمیان یک سرمو فرق نہیں پایا جاتا ۔ آج بھی ایک ناظر صریح طور پر محسوس کر سکتا ہے کہ یہ دونوں چشمے ایک ہی منبع سے نکلے ہوئے ہیں ۔

 اسی طرح انجیل دراصل نام ہے ان الہامی خطبات اور اقوال کا ، جو مسیح علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری ڈھائی تین برس میں بحیثیت نبی ارشاد فرمائے ۔ وہ کلمات طیبات آپ کی زندگی میں لکھے اور مرتب کیے گئے تھے یا نہیں ، اس کے متعلق اب ہمارے پاس کوئی ذریعہ معلومات نہیں ہے ۔ ممکن ہے بعض لوگوں نے انہیں نوٹ کر لیا ہو ، اور ممکن ہے کہ سننے والے معتقدین نے ان کو زبانی یاد رکھا ہو ۔ بہرحال ایک مدت کے بعد جب آنجناب کی سیرت پاک پر مختلف رسالے لکھے گئے ، تو ان میں تاریخی بیان کے ساتھ ساتھ وہ خطبات اور ارشادات بھی جگہ جگہ حسب موقع درج کر دیے گئے ، جو ان رسالوں کے مصنفین تک زبانی روایات اور تحریری یادداشتوں کے ذریعے سے پہنچے تھے۔ 
آج متی ، مرقس ، لوقا اور یوحنا کی جن کتابوں کو اناجیل کہا جاتا ہے ، دراصل انجیل وہ نہیں ہیں ، بلکہ انجیل حضرت مسیح کے وہ ارشادات ہیں ، جو ان کے اندر درج ہیں ۔ ہمارے پاس ان کو پہچاننے اور مصنفین سیرت کے اپنے کلام سے ان کو ممیز کرنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جہاں سیرت کا مصنف کہتا ہے کہ مسیح نے یہ فرمایا یا لوگوں کو یہ تعلیم دی ، صرف وہی مقامات اصل انجیل کے اجزا ہیں ۔ قرآن انہیں اجزا کے مجموعے کو ”انجیل“ کہتا ہے اور انہیں کی وہ تصدیق کرتا ہے ۔ آج کوئی شخص ان بکھرے ہوئے اجزا کو مرتب کر کے قرآن سے ان کا مقابلہ کر کے دیکھے ، تو وہ دونوں میں بہت ہی کم فرق پائے گا اور جو تھوڑا بہت فرق محسوس ہوگا ، وہ بھی غیر معتصبانہ غور و تامل کے بعد بآسانی حل کی جا سکے گا ۔[تفہیم القرآن ]
--------------------

یہود و نصاری کا کتاب الله کو نظر انداز کرکہ دوسری کتب کو ترجیح  

حضرت موسی علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی مگر تلمود یہودیوں کی مقدس کتاب بن چکی ہے جو کہ توریت کی تفسیر ہے اور یہودیوں کی من پسند بہت ساری بحثیں اس میں موجود ہیں جو توریت میں نہیں ہیں یہودیوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے حتیٰ کہ یہودی تلمود کے مطالعہ کو توریت کی تلاوت پر ترجیح دیتے ہیں اور اس پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ تلمود ، میسورہ پبلی کیشنز (73 جلدوں) کا اسکاٹسٹن ایڈیشن۔

تورات میں 304,805 الفاظ ہیں اور تلمود 10 ملین الفاظ ، ایک کروڑ تک الفاظ ہیں ..

یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو- ان کی تحریروں کورسول کی وحی کے ساتھ مقدس کتب میں شامل رکھا ہے-

چار اناجیل کےساتھ سینٹ پال کے 13 اوردوسرے رہنماؤں سے 10 منسوب کتب اور خطوط کو "عہد نامہ جدید" [New Testament] کہا جاتا ہے- چارانجیل اور حواریوں سے منسوب 23 دوسری کتب اور خطوط ملا کر عہد نامہ جدید میں ٹوٹل 27 کتب ہیں-
تحقیق کے مطابق "عہد نامہ جدید" میں 7،959 آیات ہیں ، جن میں سے صرف 1،599 مسیح علیہ السلام کے اقوال ہیں, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد ہے
نئے عہد نامے میں الفاظ کی تعداد 181،253 ہے۔ ان میں سے صرف 36،450 الفاظ مسیح کے الفاظ ہیں - بمشکل 20 فیصد سے زیادہ۔
امریکی صدر تھامس جیفرسن نے 1820 میں چاروں ا نجیلوں سے حصرت عیسی علیہ السلام کے ارشادات کو اکٹھا کیا تواسے کیا ملا ؟ سرخ الفاظ والی بائبل آپ بھی پڑھ سکتے ہیں ... بغیر کسی کی مدد کے آپ کو معلوم ہو گا مسیح علیہ السلام آپ سے کچھ کہ رہے ہیں ..
یہود و نصاری کی نافرمانیوں کا ذکر ملسمانوں کے لے باعث  عبرت ہے-

ایک  اندازہ کے مطابق
  1. قرآن مجید کی آیات: 6236
  2. قرآن حرف: 320015 / 340740
  3. قرآن کے الفاظ: 77439
  4. قرآن مجید کے ابواب: 114
  5. اب صرف قرآن ہی، محفوظ کتاب ہدایت ہے
الله نے قرآن کو بہترین حدیث کہا (الأعراف 7:185) اور قرآن کے علاوہ کسی اور حدیث پر ایمان سے تین مرتبہ منع فرمایا ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)- خلفاء راشدین نے قرآن کے بعد احادیث کی کتابت سے منع کر دیا اور اس حکم پر پہلی صدی تک عمل ہوا -

احادیث کی کل تعداد کا صحیح اندازہ کرنا مشکل ہے، اور محدثین کے اس میں مختلف اقوال بھی ہیں، ایک اندازہ کے مطابق احادیث کی تعداد پچیس ہزار سے بھی زائد ہوسکتی ہے- اگر 25000 ہزار احادیث کےاتحریری مواد 125000 آیات کے تحریری مواد کے قریب برابرہے، توقرآن و احادیث کے مجموعہ کو[ 6236 +125000] 131000 آیات کے قریب تحریری مواد سمجھ سکتے ہیں-
نتیجہ, قرآن و حدیث کے مجموعی تحریری مواد کےمشمولات میں قرآن صرف 5%, اور احادیث 95% ہیں, یہ ایک اندازہ کی حد تک حساب کتاب ہے-
اسی طرح قرآن کی آیات کا تناسب اگر متواتر احدیث / سنت متواتر (113) سے کریں تو ٹوٹل تحریری مواد کا 8%, اور قرآن 92% بنتا ہے جو کہ حقیقت پسندانہ تناسب ہے -
ایک طرف کتاب الله ، قرآن اور اس کے ساتھ 51/75 کتب احادیث، اس کی تفصیل بیان کرنے اور سمجھانے کے لیے- یہ تناسب بائبل میں مسیح علیہ السلام سے منسوب اقوال, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد سے بھی کم ہے-
اللہ قرآن میں فرماتے ہیں :
" اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟" (54:17,22,32,40)
" ہم نے اس (قرآن) کو تمہاری زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں" ( 44:58)

اوو قرآن اور سنت کی طرف >>> پڑہیں >>>> 
Total verse in Quran = 6236
One Parah                  = 208
Jews related verses    = 401    About 2 Parahs 
Christians related      = 169    About 0.8 Parah
Jews, Christian Combined= [401+169]-29=541 =2.6 Parah 

Jews/ Children of Israel / People of The Book/ Moses and other messengers
  1. The word(s) "jew" appears 129 time(s) in 115 verse(s) in Quran in Mohsin Khan translation.
  2. The word(s) "children of israel" appears 50 time(s) in 49 verse(s) in Quran in Mohsin Khan translation.
  3. The word(s) "moses" appears 201 time(s) in 189 verse(s) in Quran in Mohsin Khan translation.
  4. The word(s) "jacob" appears 23 time(s) in 19 verse(s) in Quran in Mohsin Khan translation.
  5. The word(s) "اہل کتاب" (پیپ (People of the book, Jews & Chrsitians) appears 31 time(s) in 29 verse(s) in Quran in Urdu (Fateh Jalandhry جالندہری ) translation.
  6. Jews related references in Quran (estimated): Total: 434 times in 401 verses
Comeback to Quran & Sunnah – Reclaiming The Original Islam – A Research : https://wp.me/pbruvK-nw
.........................................


The Torah is generally taken to signify the first five books of the Old Testament, and the Injil (Gospel), to mean the four Gospels of the New Testament, even though those books form a part of it. This has sometimes caused people to wonder if these books were indeed revealed by God. If they are accepted as revealed, one may wonder if the Qur'an really verifies their contents as this verse says. The fact is, however, that the Torah is not identical with the first five books of the Old Testament even though those books form a part of the Torah. Likewise, the Injil is not identical with the four Gospels of the New Testament.

The fact is that the Torah, in the Qur'anic usage, signifies the revelations made to Moses (peace be on him), in about forty years, from the time he was appointed a Prophet until his death. These include the Ten Commandments', which were handed over to him inscribed on stone tablets. Moses took down the rest of the revealed injunctions and handed over one copy to each of the twelve tribes of Israel, and one copy to the Levites for safe keeping. It is this book which was known as the Torah and it existed until the first destruction of Jerusalem. The copy entrusted to the Levites was put beside the Ark of the Covenant along with the Commandment tablets, and the Israelites knew it as the Torah. The Jews, however, neglected the Book: during the reign of Josiah the King of Judah the Temple of Solomon was under repair and the high priest, Hilkiah, chanced to find the Book lying in the construction area. He gave it to the King's secretary, Shaphan, who in turn took it to the King as if it were a strange find (see 2 Kings 22: 8-13).



Hence, when the Babylonian King, Nebuchadnezzar, conquered Jerusalem and razed it and the Temple of Solomon to the ground, the Israelites lost for ever the few original copies of the Torah which they possessed, and which they had consigned to obscurity. At the time of Ezra the priest, some Israelites returned from captivity in Babylon, and when Jerusalem was rebuilt the entire history of Israel, which now comprises the first seventeen books of the Old Testament, was recorded by Ezra with the assistance of some other elders of the community. Four of these books, Exodus, Leviticus, Numbers and Deuteronomy, consist of a biographical narrative of Moses. In this biography those verses of the Torah available to Ezra and the other elders are also recorded and in the contexts in which they were revealed. The present Torah, therefore, comprises those fragments of the original book which are interspersed throughout the biography of Moses (composed in the manner described above).


In locating these fragments of the original Torah there are certain expressions which help us. These are interspersed between the different pieces of biographical narration and usually open with words such as: 'Then the Lord said to Moses', and 'Moses said, the Lord your God commands you.' These expressions, then, are fragments of the original Torah. When the biographical narration re-commences, however, we can be sure that the fragment of the true Torah has concluded. Wherever authors and editors of the Bible have added anything of their own accord, by way of either elaboration or elucidation, it has become very difficult for an ordinary reader to distinguish the original from the explanatory additions. Those with insight into Divine Scripture, however, do have the capacity to distinguish between the original revealed fragments and the later, human interpolations.

It is these scattered fragments of the original revealed Book which the Qur'an terms as the Torah, and it is these which it confirms. When these fragments are compared with the Qur'an, there is no difference between the two as regards the fundamental teachings. Whatever differences exist relate to legal matters and are of secondary importance. Even today a careful reader can appreciate that the Torah and the Qur'an have sprung from one and the same Divine source.

Likewise, Injil signifies the inspired orations and utterances of Jesus (peace be on him), which he delivered during the last two or three years of his life in his capacity as a Prophet. There are no certain means by which we can definitively establish whether or not his statements were recorded during his lifetime. It is possible that some people took notes of them and that some followers committed them to memory. After a period of time, however, several treatises on the life of Jesus were written. The authors of these treatises recorded, in connection with the biographical account, those sayings of his which they had received from the previous generation of co-religionists, in the form of either oral traditions or written notes about events in his life. As a result the Gospels of Matthew, Mark, Luke and John are not identical with the Injil. Rather, the Injil consists of those statements by Jesus which form part of these Gospels. Unfortunately we have no means of distinguishing the fragments of the original Injil from the pieces written by the authors themselves. All we can say is that only those sections explicitly attributed to Jesus, for example in statements such as: 'And Jesus said' and 'And Jesus taught', constitute the true Injil. It is the totality of such fragments which is designated as the Injil by the Qur'an, and it is the teachings contained in these fragments that the Qur'an confirms. If these fragments are put together and compared with the teachings of the Qur'an one notices very few discrepancies between the two, and any discrepancies that are found can be resolved easily by unbiased reflection.[Theem ul Quran]


OLD SCRIPTURES BIBLE TORAH 

QURAN 

Popular Books