گناہ اور بخشش- ضابطہ الہٰی:
اللہ انسانی کمزوریوں سے اگاہ ہے ، رحمان اور رحیم ہے ، لہٰذا اگر اہل ایمان ان کبیرہ گناہوں سے پاکدامن رہیں جن سے روک دیا گیا ہے تواللہ مومنین کی برائیاں معاف فرما دیں گے ، چھوٹی چھوٹی لغزشیں اور انسانیت کی کمزوریاں معاف ہیں- اللہ اکا فرمان ہے:
وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى ﴿٣١﴾ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ ﴿53:31,32﴾
مالک آسمان و زمین بےپرواہ مطلق شہنشاہ حقیقی عادل خالق حق و حق کار اللہ تعالیٰ ہی ہے ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دینے والا نیکی پر نیک جزا اور بدی پر بری سزا دہی دے گا اس کے نزدیک بھلے لوگ وہ ہیں جو اس کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں سے بڑے بڑے گناہوں اور بدکاریوں و نالائقیوں سے الگ رہیں ان سے بہ تقاضائے بشریت اگر کبھی کوئی چھوٹا سا گناہ سرزد ہو بھی جائے تو پروردگار پردہ پوشی کرتا ہے اور معاف فرما دیتا ہے- جو بڑے بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں، الا یہ کہ کچھ قصور اُن سے سرزد ہو جائے بلاشبہ تیرے رب کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے وہ تمھیں اُس وقت سے خوب جانتا ہے جب اُس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ابھی جنین ہی تھے پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے ﴿53:31,32﴾
جیسے اور آیت میں ہے
( اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا 31) 4- النسآء:31)
اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے پاکدامن رہے جن سے تمہیں روک دیا گیا ہے تو ہم تمہاری برائیاں معاف فرما دیں گے ، یہاں بھی فرمایا مگر چھوٹی چھوٹی لغزشیں اور انسانیت کی کمزوریاں معاف ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں مراد اس سے شرک کے علاوہ گناہ ہیں ۔ ابن زبیر فرماتے ہیں دو حدوں کے درمیان حد زنا اور عذاب آخرت ہے ، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر وہ چیز جو دو حدوں کے درمیان حد دنیا اور حد آخرت نمازیں اس کا کفارہ بن جاتی ہیں اور وہ ہر واجب کر دینے والی سے کم ہے حد دنیا تو وہ ہے جو کسی گناہ پر اللہ نے دنیاوی سزا مقرر کر دی ہے اور اس کی سزا دنیا میں مقرر نہیں کی ۔ تیرے رب کی بخشش بہت وسیع ہے ہر چیز کو گھیر لیا ہے اور تمام گناہوں پر اس کا احاطہ ہے جیسے فرمان ہے:
( اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا 31) 4- النسآء:31)
اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے پاکدامن رہے جن سے تمہیں روک دیا گیا ہے تو ہم تمہاری برائیاں معاف فرما دیں گے ، یہاں بھی فرمایا مگر چھوٹی چھوٹی لغزشیں اور انسانیت کی کمزوریاں معاف ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں مراد اس سے شرک کے علاوہ گناہ ہیں ۔ ابن زبیر فرماتے ہیں دو حدوں کے درمیان حد زنا اور عذاب آخرت ہے ، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر وہ چیز جو دو حدوں کے درمیان حد دنیا اور حد آخرت نمازیں اس کا کفارہ بن جاتی ہیں اور وہ ہر واجب کر دینے والی سے کم ہے حد دنیا تو وہ ہے جو کسی گناہ پر اللہ نے دنیاوی سزا مقرر کر دی ہے اور اس کی سزا دنیا میں مقرر نہیں کی ۔ تیرے رب کی بخشش بہت وسیع ہے ہر چیز کو گھیر لیا ہے اور تمام گناہوں پر اس کا احاطہ ہے جیسے فرمان ہے:
آیت ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53) 39- الزمر:53)
اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جان پر اسراف کیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ بڑی بخشش والا اور بڑے رحم والا ہے.
[ماخوز ،تفسیر ابن کثیر]
اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جان پر اسراف کیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ بڑی بخشش والا اور بڑے رحم والا ہے.
[ماخوز ،تفسیر ابن کثیر]
خبردار تم اپنے نفس کو پاک نہ کہو اپنے نیک اعمال کی تعریفیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ اپنے آپ سراہنے نہ لگو جس کے دل میں رب کا ڈر ہے اسے رب ہی خوب جانتا ہے:
( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ ۭ بَلِ اللّٰهُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا 49) 4- النسآء:49)
کیا تو نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جو اپنے نفس کی پاکیزگی آپ بیان کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ یہ اللہ کے ہاتھ ہے جسے وہ چاہے برتر اعلیٰ اور پاک صاف کر دے کسی پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا ۔ محمد بن عمرو بن عطا فرماتے ہیں میں نے اپنی لڑکی کا نام برہ رکھا تو مجھ سے حضرت زینت بنت ابو سلمہ نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس نام سے منع فرمایا ہے خود میرا نام بھی برہ تھا جس پر آپ نے فرمایا تم خود اپنی برتری اور پاکی آپ نہ بیان کرو تم میں سے نیکی والوں کا علم پورے طور پر اللہ ہی کو ہے لوگوں نے کہا پھر ہم اس کا کیا نام رکھیں ؟ فرمایا زینب نام رکھو مسند احمد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے کسی ایک شخص کی بہت تعریفیں بیان کیں آپ نے فرمایا افسوس تو نے اس کی گردن ماری کئی مرتبہ یہی فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں گمان فلاں کی طرف سے ایسا ہے حقیقی علم اللہ کو ہی ہے پھر اپنی معلومات بیان کرو خود کسی کی پاکیزگیاں بیان کرنے نہ بیٹھ جاؤ ۔ ابو داؤد اور مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان کے سامنے ان کی تعریفیں بیان کرنا شروع کر دیں اس پر حضرت مقداد بن اسود اس کے منہ میں مٹی بھرنے لگے اور فرمایا ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا حکم ہے کہ تعریفیں کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ۔ [تفسیر ابن کثیر]
کیا تو نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جو اپنے نفس کی پاکیزگی آپ بیان کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ یہ اللہ کے ہاتھ ہے جسے وہ چاہے برتر اعلیٰ اور پاک صاف کر دے کسی پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا ۔ محمد بن عمرو بن عطا فرماتے ہیں میں نے اپنی لڑکی کا نام برہ رکھا تو مجھ سے حضرت زینت بنت ابو سلمہ نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس نام سے منع فرمایا ہے خود میرا نام بھی برہ تھا جس پر آپ نے فرمایا تم خود اپنی برتری اور پاکی آپ نہ بیان کرو تم میں سے نیکی والوں کا علم پورے طور پر اللہ ہی کو ہے لوگوں نے کہا پھر ہم اس کا کیا نام رکھیں ؟ فرمایا زینب نام رکھو مسند احمد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے کسی ایک شخص کی بہت تعریفیں بیان کیں آپ نے فرمایا افسوس تو نے اس کی گردن ماری کئی مرتبہ یہی فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں گمان فلاں کی طرف سے ایسا ہے حقیقی علم اللہ کو ہی ہے پھر اپنی معلومات بیان کرو خود کسی کی پاکیزگیاں بیان کرنے نہ بیٹھ جاؤ ۔ ابو داؤد اور مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان کے سامنے ان کی تعریفیں بیان کرنا شروع کر دیں اس پر حضرت مقداد بن اسود اس کے منہ میں مٹی بھرنے لگے اور فرمایا ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا حکم ہے کہ تعریفیں کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ۔ [تفسیر ابن کثیر]
مفسرین اور ائمہ و فقہاء کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ یہ آیت اور سورہ نساء آیت 31؛
"اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جا رہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے" [ سورہ نساء آیت 31 ]
صاف طور پر گناہوں کو دو بڑی اقسام پر تقسیم کرتی ہیں، ایک کبائر، دوسرے صغائر۔ اور یہ دونوں آیتیں انسان کو امید دلاتی ہیں کہ اگر وہ کبائر اور فواحش سے پرہیز کرے تو اللہ تعالیٰ صغائر سے در گزر فرمائے گا۔ اگر چہ بعض اکابر علماء نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ کوئی معصیت چھوٹی نہیں ہے بلکہ خدا کی معصیت بجائے خود کبیرہ ہے ۔ لیکن جیساکہ امام غزالیؒ نے فرمایا ہے ، کبائر اور صغائر کا فرق ایک ایسی چیز ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ جن ذرائع معلومات سے احکام شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے وہ سب اس کی نشاندہی کرتے ہیں-
"اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جا رہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے" [ سورہ نساء آیت 31 ]
صاف طور پر گناہوں کو دو بڑی اقسام پر تقسیم کرتی ہیں، ایک کبائر، دوسرے صغائر۔ اور یہ دونوں آیتیں انسان کو امید دلاتی ہیں کہ اگر وہ کبائر اور فواحش سے پرہیز کرے تو اللہ تعالیٰ صغائر سے در گزر فرمائے گا۔ اگر چہ بعض اکابر علماء نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ کوئی معصیت چھوٹی نہیں ہے بلکہ خدا کی معصیت بجائے خود کبیرہ ہے ۔ لیکن جیساکہ امام غزالیؒ نے فرمایا ہے ، کبائر اور صغائر کا فرق ایک ایسی چیز ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ جن ذرائع معلومات سے احکام شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے وہ سب اس کی نشاندہی کرتے ہیں-
یہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بڑے گناہ اور چھوٹے گناہ میں اُصُولی فرق کیا ہے۔ قرآن اور سُنت میں غورسے ایسا معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم بالصواب)
تین چیزیں ہیں جو کسی فعل کو بڑا گناہ بناتی ہیں:
(١) حقوق العباد :
کسی کی حق تلفی ، خواہ وہ خدا ہو جس کا حق تلف کیا گیا ہو ، یا والدین ہوں، یا دُوسرے انسان، یا خود اپنا نفس۔ پھر جس کا حق جتنا زیادہ ہے اسی قدر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اسی بنا پر گناہ کو ”ظلم“ بھی کہا جاتا ہے اور اِسی بنا پر شرک کو قرآن میں ظلمِ عظیم کہا گیا ہے۔
(۲) حقوق الله :
اللہ سے بے خوفی اور اس کے مقابلہ میں استکبار، جس کی بنا پر آدمی اللہ کے امر ونہی کی پروا نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے قصداً وہ کام کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے، اور عمداً اُن کاموں کو نہ کرے جن کا اُس نے حکم دیا ہے۔ یہ نافرمانی جس قدر زیادہ ڈھٹائی اور جسارت اور ناخداترسی کی کیفیت اپنی اندر لیے ہوئے ہوگی اسی قدر گناہ بھی شدید ہوگا اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ”فسق“ اور ”معصیت“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
(۳) حقوق الله اورحققوق العباد
اُن روابط کو توڑنا اور اُن تعلقات کو بگاڑنا جن کے وصل و استحکام اور درستی پر انسانی زندگی کا امن منحصر ہے، خواہ یہ روابط بندے اور خدا کے درمیان ہوں یا بندے اور بندے کے درمیان ۔ پھر جو رابطہ جتنا زیادہ اہم ہے اور جس کے کٹنے سے امن کو جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور جس کے معاملہ میں مامونیت کی جتنی زیادہ توقع کی جاتی ہے ، اسی قدر اس کو توڑنے اور کاٹنے اور خراب کرنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ مثلاً زنا اور اس مختلف مدارج پر غور کیجیے۔ یہ فعل فی نفسہ ١ نظامِ تمدّن کو خراب کرنے والا ہے اس لیے بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے ، مگر اس کی مختلف صُورتیں ایک دُوسرے سے گناہ میں شدید تر ہیں۔ شادی شدہ انسان کا گناہ کرنا بن بیاہے کی بہ نسبت زیادہ سخت گناہ ہے۔ منکوحہ عورت سے گناہ کرنا غیر منکوحہ سے کرنے کی بہ نسبت قبیح تر ہے۔ ہمسایہ کے گھر والوں سے زنا کرنا غیر ہمسایہ سے کرنےکی بہ نسبت زیادہ بُرا ہے۔ محرّمات مثلاً بہن یا بیٹی یا ماں سے زنا کرنا غیر عورت سے کرنے کی بہ نسبت اشنع ہے۔ مسجد میں گناہ کرنا کسی اور جگہ کرنے سے اشدّ ہے۔ ان مثالوں میں ایک ہی فعل کی مختلف صُورتوں کے درمیان گناہ ہونے کی حیثیت سے مدارج کا فرق انہی وجُوہ سے ہے جو اُوپر بیان ہوئے ہیں۔ جہاں مامونیت کی توقع جس قدر زیادہ ہے، جہاں انسانی رابطہ جتنا زیادہ مستحقِ احترام ہے، اور جہاں اس رابطہ کو قطع کرنا جس قدر زیادہ موجبِ فساد ہے، وہاں زنا کا ارتکاب اسی قدر زیادہ شدید گناہ ہے۔ اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ”فجور“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ [تفہیم القرآن]
اگلے صفحہ پر ...... کوئی بوجھ اٹھا نے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا: .... ایصال ثواب ......
Related:
- وفات، میت ، نماز جنازہ ، تعزیت
- اسلام میں وراثت، ہبہ اور وصیت کے احکام Law of Inheritance in Islam
- ایصال ثواب – نجات، بخشش
- نجات، بخشش، ایمان اور اعمال
کوئی بوجھ اٹھا نے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا:
أَفَرَأَيْتَ الَّذِي تَوَلَّىٰ ﴿٣٣﴾ وَأَعْطَىٰ قَلِيلًا وَأَكْدَىٰ ﴿٣٤﴾ أَعِندَهُ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرَىٰ ﴿٣٥﴾ أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَىٰ ﴿٣٦﴾ وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ ﴿٣٧﴾ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ﴿٣٨﴾ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿٣٩﴾ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ ﴿٤٠﴾ (قرآن 53:34,40)پھر اے نبیؐ ، تم نے اُس شخص کو بھی دیکھا جو راہ ِ خدا سے پھر گیا اور تھوڑا سا دے کر رُک گیا ۔ کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھ رہا ہے؟ کیا اُسے اُن باتوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جو موسٰیؑ کے صحیفوں اور اُس ابراہیمؑ کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہیں جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟ ”یہ کہ کوئی بوجھ اٹھا نے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے. اور یہ کہ اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی اور اس کی پوری جزا اسے دی جائے گی،اور یہ کہ آخر کا پہنچنا تیرے رب ہی کے پاس ہے، اور یہ کہ اُسی نے ہنسایا اور اُسی نے رلایا، (قرآن 53:34,40)
اگر بھٹکنے والے گمراہ انسان نے سابقہ آسمانی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوتا تو اسے اپنی اس غلط اندیشی کا علم ہوجاتا ۔ صحف: صحیفہ کی جمع ہے۔ صحف موسی سے مراد تورات ہے جو متعدد اسفار پر مشتمل ہے۔ یہ محرف شکل میں آج بھی موجود ہے ۔ صحف ابراہیم سے مراد وہ آسمانی کتاب ہے جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئی تھی۔ اس وقت اس کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا۔ اس کے اہم مضامین کے بارے میں قرآن کریم نے ہی کچھ بتایاہے ۔ صحف ابراہیم کا ذکر قرآن کریم میں دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک اس مقام پر، دوسری مرتبہ سورۃ الاعلیٰ کی آخری آیت میں ۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر بھی صحیفے نازل ہوئے تھے۔ ان دو مقامات پر ان تعلیمات کا اشارتاً ذکر کردیا جو ان میں مندرج تھیں۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے یہ قانون رائج تھا کہ اگر ایک شخص کسی کو قتل کرتا تو قاتل کی سزا اس کے باپ، اس کے بیٹے، اس کے بھائی اور اس کی بیوی یا اس کے غلام کو بھی دی جاتی، ان میں سے کسی کو پکڑ کر قتل کردیا جاتا۔ قال البغوی عن عکرمۃ عن ابن عباس قال کانوا قبل ابراہیم (علیہ السلام) یا خوذون الرجل بذنب غیرہ وکان الرجل یقتل بقتل ابیہ وابنہ واخیہ وامرتہ وعبدہ ۔ جب آپ مبعوث ہوئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سنایا:
'الا تزر وازرۃ وزر اخری' کہ کسی کا گناہ کسی دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا۔
یوں اس ظالمانہ قانون کا قلع قمع ہوا۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ کسی سابق رسول کی شریعت کا یہ مسئلہ تھا۔ بلکہ یہ ان کے دور جاہلیت کا ایک رواج تھا جو صدیوں سے ان میں چلا آرہا تھا اور کبھی کسی نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کی تھی۔ بعینہ اس طرح جیسے حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ اگر کسی غریب قبیلے کا غلام یا عورت طاقت ور قبیلے کے کسی فرد کو قتل کردیتی تو طاقت ور قبیلہ بطور قصاص اس قاتل غلام یا عورت کو قتل کر کے مطمئن نہ ہوتا، بلکہ عورت کے بجائے ان کے کسی مرد اور غلام کے بجائے ان کے کسی آزاد مرد کو قتل کیا جاتا۔
'الحر بالحر والعبد بالعبد الایۃ 'نازل ہوئی تو جہالت کے اس ظالمانہ دستور کا خاتمہ ہوا۔ بظاہر بعض آیتیں اور حدیثیں اس آیت سے متعارض معلوم ہوتی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد ہے:
من سن سنۃ سیئۃ فلہ وزرھا وزر من عمل بھا الی یوم القیامۃ ۔ اخرجہ احمد ومسلم من حدیث جریر ابن عبداللہ یعنی امام احمد اور مسلم نے جریر بن عبداللہ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جو شخص برا طریقہ رائج کرتا ہے اس پر اس کا بوجھ بھی لادا جائے گا اور قیامت تک جو لوگ اس طریقے کو اختیار کریں گے، ان کا بوجھ بھی اس پر لادا جائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ دوسروں کے گناہ کا بوجھ بھی کسی پر لاد دیا جاتا ہے ، حالانکہ آیت اس کی نفی کرتی ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ چونکہ یہ شخص قیامت تک آنے والے بدکاروں کی بدکاری کا سبب بنا ہے، اس لیے وہ ان بدکاریوں میں شریک ہے۔ اسی کی سزا اسے ملے گی۔ یہ نہیں کہ ان بدکاروں کو کوئی سزا نہ دی جائے گی اور ان سب کی سزا اس شخص کو دی جائے گی۔
دوسری حدیث ہے جس کے راوی ابن عمر ہیں:
اذا انزل اللہ بقوم عذابا اصاب العذاب من کان فیہ ثم بعثوا علی اعمالہم (متفق علیہ) یعنی جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ عذاب نازل کرتا ہے تو اس قوم کے تمام افراد (نیک وبد) اس عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں پھر قیامت کے دن وہ اپنے اعمال کے مطابق قبوں سے اٹھائے جائیں گے ۔
اس حدیث سے بھی یہ معلوم ہوا کہ عذاب ان لوگوں پر بھی نازل ہوتا ہے جو مجرم نہیں ہوتے، حالانکہ آیت اس کی تردید کرتی ہے، تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے جو لوگ ان جرائم کا ارتکاب نہیں کیا کرتے تھے، لیکن مجرموں کو منع بھی نہیں کرتے تھے، بلکہ خاموشی سے ان گناہوں کو دیکھتے رہتے تھے، ان کی یہ خاموشی ان کا گناہ تھا جس کی وجہ سے وہ اس عذاب میں مبتلا کیے گئے۔
حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک حدیث جو سنن اربعہ میں مروی ہے اس میں یہ تصریح موجود ہے کہ جب لوگ ظالم کو دیکھتے ہیں اور ظلم سے اس کا ہاتھ نہیں پکڑ لیتے تو ان پر بھی عذاب نازل ہوگا۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جب انسان فوت ہوتا ہے اور اس کے رشتہ دار ماتم کرتے ہیں تو ان کے ماتم کرنے کے گناہ کا عذاب اس میت کو دیا جاتا ہے ۔
یہ حدیث بھی اس آیت کے منافی ہے ۔ اس کے بارے میں علما فرماتے ہیں کہ میت کو اس وقت عذاب ہوگا جب یا تو وہ وصیت کرجائے کہ مجھ پر ماتم کرنا یا اسے معلوم تھا کہ اس کے گھر والے اس کے مرنے پر ماتم کریں گے اور اس نے ان کو منع نہیں کیا ۔ اب یہ عذاب اس کے اپنے گناہ کا ہوگا۔
بہرحال اس آیت سے معلوم ہوگیا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسی علیہما السلام کے صحیفوں میں جو یہ حکم نازل ہوا تھا وہ شریعت محمدیہ میں بھی باقی ہے۔ کسی کے گناہ کے بدلے میں کسی دوسرے کو سزا نہیں دی جائے گی۔ ہر شخص اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے۔
غلط فہمی کا ازالہ:
یہ حکم صحف موسی اور ابراہیم علیہما السلام میں بھی موجود تھا اور شریعت اسلامیہ میں بھی یہ قانون باقی ہے، لیکن بعض کج فہموں نے اس آیت کو ایسے معانی پہنائے ہیں جن سے متعدد دوسری آیات کی تردید اور تکذیب ہوتی ہے، اس لیے ہمیں بڑے اطمینان سے ان باطل معانی کا جائزہ لینا چاہیے اور اس کے حقیق مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ یہ طریقہ کسی طرح بھی مستحسن نہیں کہ ایک آیت کی ایسی من مانی تشریح کی جائے جس سے متعدد آیات کی تغلیط ہوتی ہو۔اشتراکی ذہنیت رکھنے والے جو محنت کو ضرورت سے زیاہ اہمیت دیتے ہیں وہ اس آیت کا یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ ہر انسان صرف اسی چیز کا حقدار ہے جو اس نے اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کی ہو اور اپنے اس نظریے کو قرآن کریم کی اس آیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہمیں ان سے کسی بحث کی ضرورت نہ تھی۔ ہر شخص اپنی پسند کے مطابق جس نظریے کو چاہے اپنائے۔ ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے ، لیکن اپنے من گھڑت نطریات کو قرآن کی طرف منسوب کرنا ایک ایسی زیادتی ہے جس پر خاموش رہنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔
میراث کا شرعی قانون ، زکوۃ، صدقات، مسلمانوں کے لیے استغفار
کیا قرآن کریم کی متعدد آیات میں میراث کے احکام مذکور نہیں؟ باپ کے مرنے کے بعد اولاد کو جو جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ ورثہ میں ملتی ہے ، کیا اس میں ان کی محنت اور کوشش کا کوئی دخل تھا؟ایسی جائیداد کا قرآن نے انہیں کامل مالک ٹھہرایا ہے، خصوصا بچیاں یا شیر خوار بچے جنہوں نے کسی طرح بھی اس جائیداد کے بنانے میں کوئی حصہ نہیں لیا، وہ بھی وارث ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زکوۃ، صدقات جب کوئی شخص کسی مستحق کو دیتا ہے تو مستحق اس کا کاملک مالک بن جاتا ہے ۔ اس میں ہر قسم کا تصرف کر سکتا ہے ، حالانکہ اس نے اس مال کے کما نے میں ایک قدم تک نہیں اٹھایا۔ آیت کا یہ خود ساختہ مفہوم اختیار کر کے کیا یہ لوگ ان صدہا آیات پر قلم تنسیخ پھیر دیں گے جن میں میراث وصیت، زکوۃ، صدقات اور ہبہ کے احکام مذکور ہیں۔
اشتراکی اذہان کے علاوہ ایک اور فرقہ گزرا ہے جو تاریخ اسلام میں معتزلہ کے نام سے مشہور ہے۔ انہوں نے اس آیت کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ کسی کے عمل کا ثواب کسی دوسرے انسان کو نہیں پہنچ سکتا ۔ ہر شخص کو انہی اعمال کا اجر ملے گا جو اس نے خود کیے ہیں، کیونکہ قرآن کریم کی اس آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ لیس للانسان الا ما سعیٰ۔
مسلمانوں کے لیے استغفار
ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر کسی کا عمل کسی کے لیے نفع بخش نہیں ہے تو قرآن کریم کی متعدد آیات میں مسلمانوں کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا ہے اور متعدد آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ فرشتے مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش کی دعائیں مانگی ہیں۔ اگر استغفار اور دعاؤں کا میت کو کوئی نفع نہیں پہنچتا تو پھر ان لا حاصل کاموں میں انبیاء اور ملائکہ کو کیوں وقت ضائع کرتے رہے اور ہمیں مسلمان بھائیوں کے لیے دعائے مغفرت کا کیوں حکم دیا گیا ہے ۔ ساری امت مسلمہ نماز جنازہ ادا کرتی ہے۔ اس میں کسی فرقہ کی تخصیص نہیں۔ یہ نماز جنازہ بھی دعائے مغفرت ہے۔ اگر یہ بےسود اور لا حاصل ہے تو اس تکلف کو بجا لانے کا اسلام نے کیوں حکم دیا۔ معتزلہ کے اس مفہوم کو اگر صحیح تسلیم کرلیا جائے تو قرآن کریم کی کثیر التعداد آیتیں بےمعنی ہو کر رہ جاتی ہیں-
اگلا صفحہ .....
Pages ( 2 of 3 ): « Previous1 2 3 Next »
------------------
قرآن کی معتد د آیات میں واضح ہے کہ نجات، بخشش صرف ایمان اور اچھے اعما ل کی بنیاد پر ہو گی:
" اور یہ لوگ بھلائی سے پہلے تم سے برائی کے جلد خواستگار (یعنی طالب عذاب ہیں) حالانکہ ان سے پہلے عذاب (واقع) ہو چکے ہیں۔ اور تمہارا پروردگار لوگوں کو باوجود انکی بے انصافیوں کے معاف کرنے والا ہے اور بیشک تمہارا پروردگار سخت عذاب دینے والا ہے۔ " (13:6 الراعد)
ابن ابی حاتم میں ہے اس میں ہے اس آیت کے اترنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ تعالٰی کا معاف فرمانا اور درگزر فرمانا نہ ہوتا تو کسی کی زندگی کا لطف باقی نہ رہتا اور اگر اس کا دھمکانا ڈرانا اور سما کرنا نہ ہوتا تو ہر شخص بےپرواہی سے ظلم وزیادتی میں مشغول ہو جاتا. (تفسیر ابن كثیر)
(قرآن ; 103:2-3, 32:19, 42:22, 30:45, 31:8-9, 47:12, 18:107, 5:11, 22:23, 56,40)
اس کے ساتھ اللہ کا انصاف ، رحم ، فضل اور شفاعت (صرف اللہ کی اجازت سے).
امام شا فعئی سوره العصرکو قرآن کا خلاصہ قرار دیتے ہیں. آپ نے فرم یا کہ اگر صرف سوره العصر (١٠٣) نازل ہوتی تو بھی کافی تھی:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
وَالْعَصْرِ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾
زمانے کی قسم (1) انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے (2) سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے (103:3)
بہت سے احادیث سے یہ تاثرملتا ہے کہ نجات، بخشش کے لیےصرف ایمان ہی کافی ہے. تمام کلمہ گو (مسلمان)، حضرت محمدﷺ کی امت کے لوگ جنت میں جاییں گنے چاہے وہ کتنے ہی گناہ گار ہوں.
<<کتابت حدیث>>
کلمہ طیبہ پڑھنے سے انسان دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور اسے ایمان کی دولت میسر آ جاتی ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ میں ہے : آپ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو رہے تھے۔ پس میں تیسری بار حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو چکے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہے، اسی اعتقاد پر اس کا خاتمہ ہو جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔ مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب من مات لا يشرک باﷲ شيئًا دخل الجنة و من مات مشرکا دخل النار، 1 : 95، رقم : 94 لیکن اس حدیث میں کلمہ طیبہ پڑھنے سے مراد احوال و اعمال کی اصلاح کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا ہے۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد احوال و اعمال کی اصلاح کو نظرانداز کرنا اﷲ کی گرفت کا باعث بنتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًاo
’’جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اور نہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگارo‘‘( النساء، 4 : 123)
اگر کسی کلمہ گو شخص نے اپنے گناہوں پر توبہ کی اور اس کی توبہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوگئی تو وہ کلمہ گو شخص جنت میں جائے گا۔ یا اﷲ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو پھر وہ کلمہ گو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔ http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/221/
ایک مشہور حدیث کے مطابق اگرچہ مسلمان زانی یا چورہو! (زنا اور چوری گناہ کبیرہ ہیں) پھر بھی وہ جنت میں جائے گا.
اب ایک طرف قرآن کی واضح آیات بہت بڑی تعداد میں ہیں اور دوسری طرف احادیث جو بظاھر قرآن کی واضح آیات کو منسوخ کرتی نظر آتی ہیں. یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ مذھب اسلام کی بنیاد کا معاملہ ہے.
علماء کے مطابق احادیث کو قران کی روشنی میں سمجھنا چاہیے. دل سے کلمہ پڑھنے کا مطلب ہے کہ اسلام کے احکام پر دل و جان سے عمل کرے صرف زبانی اقرار کافی نہیں.
اگر صرف کلمہ زبان سے ادا کیا جائے تو یہ کافی نہیں.دنیاوی، قانونی طور پر وہ مسلمان سمجھا جایے گا مگر اس کو اپنے عمل سے بھی مسلمان ثابت کرنا ہو گا.
گناہ، ثواب ، حلال ، حرام ،آخرت ، حساب کتاب ، جزا ، سزا . انصاف ، حقوق اللہ ، حقوق العباد وغیرہ ایک طرف اور ایمان (زبانی اقرار، کلمہ شہادہ) دوسری طرف اسلام کے چھ بنیادی عقاید، اورپانچ ستون پر عمل کرنا ہو گا.
تحقیق سے معلوم ہوا کہ علماء مختلف تاویلیں پیش کرتے ہیں - کچھ تاویلیں عقل ودانش کے سادہ معیار سے بھی بعید معلوم ہوتی ہیں.
حدیث مسلم بمطابق حضرت ابوحریرہ ، جس میں رسول اللہﷺ دل سے کلمہ گو (مسلمانوں) کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں، حضرت عمر(رضی اللہ) کی درخواست پر کہ مسلمان ظاہری الفاظ سے غلط مطلب سمجھ لیں گنے، ان کو اچھے اعمال کرنے دیں، آپ نے فرمایا کرنے دیں (اچھے عمل کرنے دیں) (مسلم حدیث 50 ، کتاب الایمان). حضرت عمر(رضی اللہ) کی اس پیغام کو عام کرنے سے منع کرنے کی درخواست رسول اللہﷺ نے قبول کر لی.
رسول اللہﷺ نے جس بات کو عام کرنے سے منع فرما دیا پھر رسول اللہﷺ کے ارشاد کے خلاف آج تک اس کی تشسہیرکرکہ کنفیوژن پھیلایا جاتا ہے؟
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ (13:6 الراعد)
<<ملاحظہ ... کتابت حدیث>>
حضرت عمر (رضی اللہ) نے جس خدشہ کا اظھار کیا تھا وھی کھلم کھلا ہو رہا ہے.لوگ ظاہری طور پر اپنی مرضی کا مطلب نکال کر اچھےاعمال کرنا ضروری نہیں سمجھتے بس کلمہ ادا کرنا نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں جو درست نہیں.
کیا یہ اللہ کے فرمان (سورة الحشر 59:7) کی کھلی خلاف درزی نہیں؟
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ(29:2 سورة العنكبوت)
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ "ہم ایمان لائے " اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟(29:2 سورة العنكبوت)
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٧﴾
جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے (سورة الحشر 59:7)
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)
مسیحیت میں نجات کے کیے "ایمان" کو کافی سمجھا جاتا ہے. (ان کے ایمان کی تفصیل معلوم ہے).یہودی اپنے آپ کو اللہ کی خاص قوم اور جنت کا حقدار سمجھتے ہیں. اگر عذاب آیا بھی تو صرف تھوڑا.
اسلام "ایمان اور اعما ل" نجات کی بنیاد کی وجہ سے مسیحیت سے مختلف ہے.
جب قران کی واضح تعلیمات اور احکام کے خلاف صرف ایمان کی بنیاد پر نجات کا نظریہ پیش کیا جاتا ہے تو عام مسلمان اس کو کامیابی اور جنت کی کنجی سمجھ کر گناہ کرنے کو معیوب نہیں سمجھتا. دانشور اور علماء عوام کو نادانستہ طور پر گناہ اور تباہی کی دنیا میں دھکیل رہے ہیں.
قرآن واضح کرتا ہے کہ جو شخص اللہ کی خوشنودی اور دنیا و آخرت میں کامیابی چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ اسلام کی تمام بنیادی نظریات کو دل سے قبول کرے اور پوری دیانت داری سے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے. اللہ اور رسولﷺ کی کی نافرمانی سے بچے. اس کو چاہے کہ اس دنیا کی بجایے آخرت کی فکر کرے. اللہ کی کتاب ایسے لوگوں کو آخرت میں کامیابی کی ضمانت نہیں دیتی جو ان شرایط پر پورا نہیں اترتے، اللہ کا ارشاد ہے:
"پھر جب وہ ہنگامہ عظیم برپا ہوگا جس روز انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا جنت اس کا ٹھکانا ہوگی " ( سورة النازعات 79:35-41)
مسلمانوں کو چاہے کہ گمراہ کن نظریات سے با ھر نکلیں اور اپنی طرف سے پوری کوشش کریں کہ آخرت میں کامیاب ٹھریں اور اس کے لیے ایمان کے ساتھ نیک اعمال کریں، پھر بھی اگر کچھ کمی کوتاہی کی وجہ سے رہ جائے تو اللہ کی رحمت اور بخشش کا طلبگار ہو، یقینا اللہ ایسے ایمان والوں کو مایوس نہیں کرے گا-
-----------------
حق گوئی۔ ان الدین یکتمون ما انزلنا ۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ حق تعالی فرماتے ہیں کہ جو لوگ شرعی مسائل اور حق کی باتوں کو جان بوجھکر چھتاتے ہیں اس پر لعنت ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ فرمایا رسول مقبول ﷺ نے کہ اگر کوئی شرعی مسئلہ کو جانتے ہوئے بھی نہ بتلائے ، قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام پہنائی جائیگی۔ حضرت ابو حریرہ فرماتے ہیں کہ اگریہ آیت کریمھ نہ ہوتی تو تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا۔ حق بات اور شرعی مسئلہ بیان کرنے والے پر جن و انس ، چرند و پرند غرضیکہ سب مخلوق مغفرت کی دعائیں مانگتی ہیں۔ حضور ﷺ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا کسی شخص کو لوگونکی ہیبت حق بات کہنے سے نہ روکے ۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر ملاحضہ کریں:
Reference:
-------------------------------------------
کیا کلمہ پڑھنے والا جنتی ہے ؟
|
|
﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾ (النساء:۴۸)
﴿إِن تَجْتَنِبُوا۟ كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّـَٔاتِكُمْ﴾ (النساء:٣١)
﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾ (المائدۃ:۷۲)
﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ (النحل:۴۴)
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشوری: ۱۱)
﴿وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ (الاخلاص:۴)
﴿إِنَّا كُلَّ شَىْءٍ خَلَقْنَـٰهُ بِقَدَرٍ﴾ (القمر:٤٩)
﴿وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ﴾ (یونس:۱۸)
﴿قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّۭا﴾ (التوبه:٨١)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہےیہ حدیث صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ جو شخص‘‘لا الہ الا اللہ’’دل کے اخلاص کے ساتھ پڑھےگاوہ جنت میں داخل ہوگا خواہ ابتداءیا پھر کبیرہ گناہوں کی سزاپانے کے بعد‘‘لا الہ الا اللہ’’کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان الفاظ مبارکہ کہنے والاپکاموحد ہو اورشرک سے بالکلیہ اجتناب کرنے والا ہواس کی تائید قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے ہوتی ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
‘‘یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ شرک معاف نہیں فرمائے گا ہاں شرک کے علاوہ دیگر گناہ(کبیرہ) جسے چاہےمعاف فرمادے ۔’’
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص بھی مشرک نہیں وہ اللہ تعالی کی مغفرت سے بالکل مایوس نہیں گناہ کبیرہ کی قیداس لیے لگائی گئی ہے کہ قرآن کریم میں ہے کہ:
‘‘یعنی اگرآپ لوگ ان کبیرہ گناہوں سے جن کے ارتکاب سے تمہیں روکاگیا ہے بچتے رہوگے توہم تمہاری چھوٹی چھوٹی برائیوں کو مٹادیں گے۔’’
اورابتداء یا کچھ سزاپانےکی بات اس لیے کہی گئی اگر﴿وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾کامطلب یہ لیے جائے کہ شرک کے علاوہ دیگر گناہوں میں کچھ گناہ اللہ سبحانہ وتعالی اصلاکبھی بھ معاف نہیں فرمائے گاتوپھر شرک اوردیگرگناہوں میں کچھ فرق نہ رہا۔یعنی اگرکچھ گنہگاروں کو جہنم میں خلوداورابدی سزاملے گی اورکبھی بھی انہیں اس سے نکلنا نصیب نہ ہوگاتوپھر شرک اوروہ کبیرہ گناہ سزاکے اعتبارسےبرابرہوئے نہ مشرک کی مغفرت اورنہ ہی(مشرک کے علاوہ)دیگرمرتکبین کبیرہ کی مغفرت ان کے لیے بھی ابدی سزااوران کے لیےبھی ابدی سزا۔لہذا﴿وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾کاصاف اورواضح مطلب ہے کہ شرک کے علاوہ دیگر کبیرہ گناہوں کے مرتکبین میں سے کچھ کو توابتداہی میں معافی مل جائے گی اورکچھ (جن کے لیے اللہ سبحانہ وتعالی کی حکمت وعدل کا تقاضا ہے کہ انہیں سزاملنی چاہیئے)اپنے گناہوں کی سزاپاکربلآخران کی بخشش ہوجائے گی اورانہیں جہنم سے نکال کرجنت میں داخل کردیا جائے گا۔انہیں جہنم کی ابدی سزانہیں ملے گی۔اس بارے میں صحیحین دیگر کتب احادیث میں بے شماراحادیث مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بالآخروہ سب لوگ جہنم سے نکالے جائیں گے جنہوں نے کوئی بھی نیکی اصلا نہ کی ہوگی اورایسی روایات حدتواترکوپہنچتی ہیں جن کا انکارنہیں کیا جاسکتا۔
علاوہ ازیں قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت کریمہ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:
‘‘یعنی جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرےگاتواللہ تعالیٰ اس پر جنت کوحرام قراردے دیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔’’
اس آیت کریمہ میں بھی اشارہ ہے کہ غیر مشرک کے لیے جنت ہمیشہ کے لیے حرام نہیں اگرچہ مشیت ایزدی کے مطابق کچھ وقت کے لیے جہنم میں چلا بھی گیالیکن بالآخر اللہ تعالی کے فضل وکرم سے جنت میں داخل ہوجائے گااس کے لیے جنت ہمیشہ کے لیے حرام نہیں۔
بہرحال جنت ہمیشہ کے لیے حرام صرف مشرکین کے لیے ہے۔
یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیئے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
‘‘اورہم نے تیری طرف کتاب اتاری ہے تاکہ لوگوں کو کھول کھول کربیان کرے جوان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔’’
یعنی قرآن حکیم کی تبیین اورتوضیح اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول اکرمﷺکے سپردکی ہے ۔لہذا مذکوربالااحادیث مبارکہ سورہ نساء اورمائدہ کی آیات کی ہی تشریح وتوضیح ہیں لہذاانہیں قبول کرنا ضروری ولازمی ہے۔باقی رہی یہ بات کہ ‘‘لا الہ الا اللہ’’کا مطلب کیا ہے؟توحید کا مفہوم کیا اورشرک کسے کہتے ہیں یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ سمجھنی چاہیئے اس کے لیےذیل میں کچھ تفصیل سے وضاحت کی جارہی ہے۔بعون الله سبحانه وتعالي وحسن توفيقه-
‘‘لا الہ الا اللہ’’كا مطلب ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں اورپوری مخلوق میں کوئی بھی ہستی ایسی نہیں چاہے وہ فرشتہ ہویا نبی یا کوئی اورمخلوق جواللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ ذات میں صفات میں ،افعال واختیارات میں اورکائنات کے نظام کو چلانے میں شریک وندنہیں اورنہ ہی اللہ تعالی کا کوئی کفووہم پلہ ہے اورنہ ہی اللہ تعالی کی مثل کوئی چیز ہے۔
‘‘اس کے مثل کوئی چیز نہیں وہ سننے والا دیکھنے والاہے۔’’
‘‘اورنہ ہی اس کا کوئی ہم پلہ ہے۔’’
صحیح معنی میں‘‘لا الہ الا اللہ’’پر کامل ایمان رکھنے والاوہ شخص ہے جو اللہ تعالی پر ایمان اس طرح رکھے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنی ذات وصفات واسماء وافعال کے اعتبارسے وحدہ لاشریک لہ ہے،یعنی خالق مالک رازق اولا عطاکرنےوالابیماری سے شفایاب کرنے والا،عالم الغیب ،ہرشے پر قادرجس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔کسی چیز کو حرام یا حلال قراردینے کا اختیاررکھنے والا،بندوں کی دعاوں کو قبول کرنے والا،عبادات کی جمیع انواع واقسام کا مستحق ،مرادیں پوری کرنے والا،نفع ونقصان اورزندگی وموت کا مالک ،ہر لمحہ اپنی مخلوق کی ہر ضرورت کو پوراکرنےوالا،ان کا محافظ ونگہبان وغیرہ وغیرہ صفات صرف اورصرف اللہ تعالی کے ساتھ ہی خاص ہیں کوئی بھی ہستی اس کائنات میں ان صفات میں اللہ تعالی کی شریک وثانی نہیں ہے۔اس طرح موحد ہونے اورشرک سے براءت کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ موحد اللہ تعالی سبحانہ وتعالی کی تقدیر(یعنی اللہ کو ماضی،حال ،مستقبل،سب کا علم ہے جو کچھ ہوچکا اورجوہورہا ہےاورجو آئندہ ہوگا سب کچھ جانتا ہے اورجوکچھ ہوایا ہوگا سب ہی اس کے بنائے ہوئے منصوبہ کے مطابق عمل میں آرہا ہے۔)پرایمان رکھتاہواسی طرح تمام انبیاءورسل اورکتب سماوی پر ایمان رکھے کہ اللہ تعالی ابتداءہی سے انبیاء ورسل اورکتب کو بھیج رہا ہے اوریہ سلسلہ سیدنا وامامنامحمدرسول اللہﷺاورقرآن کریم پر آکرختم ہوا ہے اسی طرح آخرت کے دن پرایمان بھی ضروری ہے یعنی ایک دن سب انسان زندہ ہوکراللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے اوراپنے اعمال کے مطابق جزوسزاپائیں گے نتیجہ جنت یا جہنم کی صورت میں ان کے سامنے واضح ہوجائے گا۔اسی طرح ایک موحد کو ملائکہ علیہم السلام پر ایمان لانا لازمی امر ہے۔اسی طرح جن اشیاء یا اوامروعبادات کو اللہ تعالی نے فرض قراردیاہے ان کی فرضیت پرایمان رکھتا ہو،مثلا نماز،روزہ وغیرہ اورجن اشیاء کو اس نے حرام وناجائزقراردیا ہے ان کو حرام اورناجائزسمجھتارہے۔یہ سب امورتوحید اورایک موحد کے لیے لازمی ہیں ان میں سے اگرکسی ایک کا بھی انکارکرتاہے یا اللہ تعالی کی صفات جو اس کے ساتھ خاص ہیں ان میں کسی کو شریک سمجھتا ہے۔مثلا اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ کسی اورکو عالم الغیب یامشکل کشاسمجھتا ہے تووہ مشرک ہے موحد ہرگزنہیں ،اس کا‘‘لا الہ الا اللہ’’پر عمل نہیں۔اللہ تعالی کے ساتھ ذات صفات میں کسی کو شریک کرنے والے کامشرک ہونا توظاہروعیاں ہے لیکن انبیاء ورسل ،کتب ،ملائکہ علیہم السلام اورتقدیراوربعث بعدالموت،جزاوسزا،جنت وجہنم ان پر ایمان نہ رکھنے والے اورانکارکرنے والے اوراسی طرح فرائض کی فرضیت کا انکارکرنے والے یا حرام کو حلال جاننے والے یا حرام نہ سمجھنے والے کو مشرک اس لیے کہا جاتاہے کہ رسل وپیغمبروں اورکتابوں کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں انہیں بھیجتارہاہوں اوریہ سلسلہ میں نے محمد رسول اللہﷺاورقرآن پر ختم کردیا۔
فرشتوں کے متعلق فرمایا:یہ اللہ تعالی کی ایسی برگزیدہ مخلوق ہیں جہ ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں اورنافرمانی نہیں کرتے ،اسی طرح تقدیر کے متعلق بے شمارآیات واحادیث وارد ہوئی ہیں لیکن یہاں ایک ہی آیت پر اکتفاکیا جاتا ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
‘‘بے شک ہم نے ہرچیز کو ایک مقرراندازے پر پیداکیا ہے۔’’
اورآخرت کے متعلق بھی پورے قرآن مجید میں جابجاوعظ ونصیحتیں موجود ہیں بعینہ اسی طرح نماز،روزہ وغیرہ کے متعلق قرآن کریم میں موجود ہے کہ یہ فرائض ہیں۔حرام اشیاءکی مکمل توضیح قرآن کریم اوراحادیث مبارکہ میں موجودہے اب اگرکوئی شخص ان کو ماننے سےانکارکرتا ہے تواس کا صاف مطلب ہےکہ وہ اللہ تعالی کو (معاذاللہ ثم معاذاللہ)جھوٹا سمجھتاہےاورجھوٹ نقص،عیب وخامی ہے اوراللہ سبحانہ وتعالی ہرعیب ونقص سےقطعاپاک ہےاسماء الحسنی میں ایک اسم‘‘السلام’’ہےاورایک اسم مبارک‘‘القدوس’’بھی ہےجن کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی ہرعیب ونقص سے باعتبارذات وصفات پاک ہے۔عیب اورنقص مخلوقات کاخاصہ ہے لہذا جوشخص
اللہ تعالی کو نعوذ باللہ جھوٹا سمجھتا ہے تو اس نے واضح طورپر اللہ تعالی کومخلوق کے ساتھ مشابہ قراردیا اوریہی توشرک ہے اس پر خوب غوروتدبرکریں۔ہاں جو شخص مذکورہ بالاصفات وغیرہ وغیرہ سب پر ایمان رکھتا ہے اورفرائض کی فرضیت بھی تسلیم کرتا ہے اورتمام ممنوعات وناجائز کاموں کو حرام وناجائز جانتا ہے لیکن بتقاضائے بشریت فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی وسستی کاارتکاب کرتا ہے یا محرمات میں سے کسی حرام کام ارتکاب کربیٹھتاہے یہ مشرک نہیں بلکہ موحد ہی ہے ،البتہ اسے فاسق وگنہگارکہا جائے گااورایساشخص اگرتوبہ نصوحہ کرتا ہے اوراپنے کیئے پر نادم ہوتا ہے اورآئندہ بازرہتا ہے اورمزید اپنی اصلاح کرتاہے تو اس کا وہ گناہ اللہ تعالی کے ارشادموجب معاف ہوجاتا ہے لیکن اگرکوئی شخص بغیر معافی طلب کیے اس دنیا سے رخصت ہوگیا توپھراللہ تعالی کی مشیت کے ماتحت رہے گا چاہے اسےاپنے فضل عظیم سے معاف کردے اورجنت میں داخل کردے یا چاہے اسے گناہوں سےپاک صاف کرنے کے لیے کچھ وقت جہنم میں داخل کرے پھر اپنی نظر کرم سے معاف کرکےجنت میں داخل کردے۔یہ ہے صحیح مطلب ‘‘لا الہ الا اللہ’’کا اوریہی ہے صحیح وحقیقی موحد اورشرک سے بیزاراوربری باقی عوام بلکہ کچھ خواص بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اس حدیث شریف کا مطلب ہے کہ صرف زبان سے یہ الفاظ ‘‘لا الہ الا اللہ’’اداکردینے سے آدمی پکاموحد بن جاتا اوراس کے لیے جنت میں جانے کے لیے بھی الفاظ ادااکردینے کافی ہیں‘‘لا الہ الا اللہ’’کا زبان سے ورد کرنے کے بعدچاہے وہ پیروں کی پوجا کرے اورقبوں قبروں کاطواف کرتا پھرے اوران پرسجدہ کرتا رہے اورمردوں سے مرادیں مانگتا پھرے نماز وغیرہ کی فرضیت کا انکارکرتا رہے،محرمات،زنا،چوری ،شراب نوشی،جوا،سود،رشوت وغیرہ وغیرہ کوحلال سمجھتا رہے اورایمان کے اجزاءکاانکارکرےپھر بھی وہ موحد ہے اورجنت کا ٹھیکیدارہےتویہ احمقوں کی دنیا میں رہتا ہے آج کل کے نام نہاد مسلمان بزرگوں کی قبروں کی پوجاکرنےکے بعد بھی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔حالانکہ مکہ مکرمہ کے کفاربتوں کی پرستش کرتےتھے اورجن بتوں کی پوجاکرتے وہ صلحاء وبزرگان دین کے مجسمےتھے وہ ان کے پوجنے سےیہ سمجھتے تھے کہ ان مجسمین کی ارواح خوش ہوکراللہ تعالی کے ہاں ہماری سفارش کریں گے۔
‘‘اوروہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔’’
یعنی اس وقت کے کفارصالحین کے مجسموں کی پرستش کرتے تھے اورآج کل کےمسلمان انہی صالحین کی قبروں کو پوجتے ہیں خداراسوچیں کہ ان دونوں میں آخر کیا فرق ہے؟
لیکن وہ کفاراوریہ مسلمان فیاللعجب،اس کے برعکس اگران الفاظ (یعنی جس نے‘‘لا الہ الا اللہ’’کہا وہ جنت میں داخل ہوگا)کا مطلب یہی ہے کہ صرف زبان سے یہ الفاظ اداکردیئے جائیں باقی جومن میں آئے کرتا پھرے وہ مسلمان ہے اورپکا موحد ہے اورجنت کی ٹکٹ اس کے ہاتھ لگ گئی ہے توپھر سوچنے کی زحمت کی جائے کہ پھر ایسے آسان وسہل اسلام لانے سے ابولہب ،ابوجہل اوردیگر کفارکوکیا چیز مانع تھی جب کہ وہ انہیں تویہی الفاظ اداکردینے تھے باقی من مانیاں کرنے سے کوئی چیز انہیں مانع نہ تھی بلکہ جو کچھ بھی کرتے پھرتےان کے اسلام پر ذرابھربھی کوئی اثرنہ پڑتابلکہ جنت میں جانا بھی ان کے لیے آسان تھا پھرآخر وہ یہ الفاظ کہہ کردائرہ اسلام میں کیونکر داخل نہ ہوئے؟اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کی زبان عربی تھی ‘‘لا الہ الا اللہ’’کے معنی ومفہوم کو خوب جانتے تھے اوران کے تقاضوں کو بھی سمجھتے تھے کہ صرف یہ الفاظ کہنے کافی نہیں بلکہ ان الفاظ کے کہنے کے بعد ان کے معنی ومفہوم پر کام یقین واعتقادرکھنا ہوگااوراپنی زندگی انہی کلمات کے معنی ومفہوم پر عمل کرتے ہوئے اوران کی تقاضائے ومتمنات کو پوراکرتے ہوئے گزارنی پڑے گی اوریہی وہ بات تھی جو ان کے لیے مشکل تھی جو وہ نہ کرسکے اس وجہ سے وہ اسلام وایمان سے محروم رہے آخر ہمارےآج کل کے مسلمان نے جنت کو اتنا سستا کس بناپرسمجھ رکھا ہے ۔هَاتُوا۟ بُرْهَـٰنَكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ!
خلاصہ کلام:۔۔۔۔۔۔کہ ایک موحد کا جو صحیح طور پر توحید پر مستقیم ہے وہ خواہ صالح ہویاگنہگارلیکن جنت میں بہرحال ضرورداخل ہوگا خواہ ابتداءبغیر کسی سزاوعذاب کے بھگتنے کے خواہ بالآخر مقررہ مدت کے عذاب بھگتنے کے بعد لیکن یہ بات ہرسچے مومن کو ذہن میں رکھنی چاہیئےکہ جہنم کی آگ کی حرارت وتپش اس
دنیا وی آگ سے کئی گنا زیادہ ہے ارشادربانی ہے:
‘‘یعنی آپ کہہ دیں کہ جہنم کی آگ سخت گرم ہے۔’’
اس کی تشریح صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایاکہ تمہاری یہ دنیا والی آگ جہنم کی آگ کا ستروں حصہ ہے۔ صحيحبخاري:كتاب بدءالخلق’باب صفة الناروانهامخلوقة’رقم الحديث٢٣٦٥.
|
Pages ( 2 of 3 ): « Previous1 2 3 Next »
مزید پڑھیں: