اس دنیا میں وقوع پزیر ہرعمل واقعہ قدرت کے مشہورقوانین کے ذریعہ کنٹرول ہوتاہے۔ کسی قوم کے عروج و زوال کا بھی یہی حال ہے۔ قرآن اس قانون کو اہمیت دیتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ (قرآن 13:11)
“الله لوگوں کی حالت کو تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے (نفس) کی حالت کو نہ بدلے“(قرآن 13:11)
مسلمان دنیا کی عظیم طاقتور قوم بن گیے تو بتدریج انہوں نے قرآن سے تعلق کم کر دیا اور مادہ پرستی کا شکار ہو گیے- مسلمان بھی یہود کی طرح اس غلط فہمی شکار ہو گینے کہ وہ الله کی خاص قوم ہیں جو سب سے برتر ہیں- وہ یہ بھول گیے کہ تمام کامیابیاں ، عزت و مرتبہ الله اور کتاب الله کی اطاعت سے مشروط ہیں:
” جب ابراہیم ( علیہ السلام ) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا عرض کرنے لگے میری اولاد کو فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں” (2:124)
” اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو” (2:40)
” اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو” (2:40)
“اور اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نےمقرر فرمائے اور اللہ تعالٰی نے فرمادیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالٰی کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں ، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا” (5:12)
بنی اسرائیل ہو بنی اسماعیل ، تمام کامیابیاں اور اللہ رحمتیں ، اللہ اور کتاب الله کی اطاعت سے مشروط ہیں- جب مسلمانوں نے بھی یہود کی طرح نافرمانی راستہ چنا تو ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گیئی ، اور اب حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہوا؟ یہود کو موجودہ حالت ، امریکہ اور مغرب کی مرھون منت ہے اور ان کی دنیوی علوم میں ترقی و محنت مگرآخرت میں خسارہ:
“اور اپنی نگاہیں ہرگز چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں آزمالیں تیرے رب کا دیا ہوا ہی ( بہت ) بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے”(20:131)
یہ الله کے عام قانون cause and effect کے مطابق ہے, کفار کو بھی دنیاوی کامیابیاں ملتی ہیں مگر آخرت میں کچھ نہیں مگر خسارہ- یہ قانون واضح ہے :
“کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کر چکے ہیں جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وہ قوت نہیں دی اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں ۔ پھر ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈالا اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کر دیا” (6:6)
اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے (47:38 قرآن)
“حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی “(13:11 قرآن)
“آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکوکار ہوں” ۔ (11:117)
” تیرا رب کسی ایک بستی کو بھی اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان کی کسی بڑی بستی میں اپنا کوئی پیغمبر نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنا دے اور ہم بستیوں کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں جب کہ وہاں والے ظلم و ستم پر کمر کس لیں” (28:59)
فَہَزَمُوۡہُمۡ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۟ ۙ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۵۱﴾
چناچہ اللہ تعالٰی کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی اور ( حضرت ) ( داؤد علیہ اسلام ) کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا اور اللہ تعالٰی نے داؤد ( علیہ السلام ) کو مملکت و حکمت اور جتنا کچھ چاہا علم بھی عطا فرمایا ۔ اگر اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ تعالٰی دنیا والوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے ۔ [سورة البقرة 2 آیت: 251]
So they defeated them by permission of Allah , and David killed Goliath, and Allah gave him the kingship and prophethood and taught him from that which He willed. And if it were not for Allah checking [some] people by means of others, the earth would have been corrupted, but Allah is full of bounty to the worlds. [Surat ul Baqara: 2 Verse: 251]
بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں ، اللہ تعالٰی صبر والوں کے ساتھ ہے ۔[2:249]مسلمانوں کو کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرنے کے لیے پہلے قرآن پر عمل کرنا ہو گا، اور پھر باقی معاملات کو درست کرنا ہوگا جو اقوام کے عروج و زوال کی وجہ ہیں-
“تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا” (20:123)
”اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ اس کے افراد اپنے آپ کو نہ بدلیں۔“ (13:11)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بھی بتادیا کہ جو افراد اور قومیں ذاتی تعیش کے لیے کمزوروں اور مظلوموں پر ظلم ڈھاتی ہیں اور عیش و عشرت میں مبتلا ہوکر انسانیت سے گرجاتی ہیں تو انہیں ہوسکتا ہے کچھ مدت کے لیے ڈھیل مل جائی، وہ اس لیے کہ شاید اپنی سرشت سے باز آجائیں، لیکن اگر وہ اپنی روش تبدیل نہیں کرتیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ہلاک کردیتا ہی:
“آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکوکار ہوں” (11:117)
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ان چیزوں کی بھی صراحت کے ساتھ نشاندہی کردی ہے جو کہ تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ فرمایا کہ:
”لوگوں کے لیے زینت رکھی گئی ہے عورتوں، بیٹیوں اور چاندی سونے کے اکٹھے کیے ہوئے ڈھیروں اور نشان کیے ہوئے گھوڑوں، چوپایوں اور کھیتوں کی محبت میں، یہ تو دنیوی زندگی کی متاع ہے اور اللہ کے یہاں اس سے بہتر پناہ گاہ ہے۔“ (3:14)
یہ وہ چیزیں ہیں جو انسانی فساد کا باعث ہیں۔ یہ چیزیں ہیں جو حرص و ہوس، لذت طلبی، عیش کوشی اور حصول زر میں اس طرح مبتلا کردیتی ہیں کہ انسان خودغرض ہوجاتا ہی، اور اس کی خودغرضی بدترین ظلم و استحصال، بے حیائی اور بے غیرتی میں ظاہر ہوتی ہی، اور پھر یہ ذہنیت صرف چند افراد تک محدود نہیں رہتی بلکہ پوری قوم کو اس طرح گمراہی میں مبتلا کردیتی ہے کہ قوم کے اندر احساسِ زیاں ختم ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم نے اسی احساس کے فقدان کو بنی اسرائیل کی ہلاکت و بربادی کا سبب بتایا اور قرآن حکیم میں اس کی نشاندہی کی:
تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں بہت بری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں (62) کیوں اِن کے عُلما٫ اور مشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے؟ یقیناً بہت ہی برا کارنامہ زندگی ہے جو وہ تیار کر رہے ہیں (5:62,63)
” بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داﺅد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کرائی گئی، اس لیے کہ انہوں نے سرکشی کی اور وہ حد سے گزر جاتے تھی، وہ ایک دوسرے کو برے افعال سے نہ روکتے تھے۔“ (5:78)
آخری آیت کی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث منقول ہے جو قرآن کے مقصد کی مزید تشریح کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بنی اسرائیل میں جب بدکاری پھیلنے لگی تو حال یہ تھا کہ ایک شخص اپنے بھائی، دوست یا ہمسایہ کو برا کام کرتے دیکھتا تو اس کو منع کرتا کہ اے شخص خدا کا خوف کر۔ مگر اس کے بعد وہ اسی شخص کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتا اور بدی کا مشاہدہ اس کو اس بدکار شخص کے ساتھ میل جول اور کھانے پینے میں شرکت سے نہ روکتا۔ جب ان کا یہ حال ہوگیا تو ان کے دلوں پر ایک دوسرے کا اثر پڑگیا اور اللہ نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا اور ان کے نبی داﺅد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی۔“ راوی کہتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے تو جوش میں آکر اٹھ بیٹھے اور فرمایا:
”قسم ہے اس ذات ِپاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہی، تم پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم دو اور بدی سے روکو اور جس کو برافعل کرتے دیکھو اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے راہِ راست کی طرف موڑ دو اور اس معاملے میں ہرگز رواداری نہ برتو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر بھی ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا اور تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر کی۔“
مذکورہ بالا آیت اور حدیث میں قوموں کی تباہی کا ایک اور اصول بتایا گیا ہے کہ جب پوری قوم مفاسد کا شکار ہوجاتی ہے اور اس قوم کے نیک لوگ بھی برائیوں سے سمجھوتا کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے تو لعنت و ملامت ان کا مقدر ٹھیرتی ہے۔ کوئی قوم مقصد ِذلیل میں مبتلا ہوجائی، اس میں اخلاقی زوال انتہا کو پہنچ جائے اور ایمانی جرا ¿ت ختم ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کی بداعمالیوں کی پکڑ کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ:
”اور جب ہم کسی آبادی کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو اس کے دولت مندوں کی تعداد میں اضافہ کردیتے ہیں، اس لیے وہ فسق و فجور میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اب اس پر ہمارا قانونِ فطری منطبق ہوجاتا ہے اور ہم اس کو تباہ کردیتے ہیں۔“ (17:16)
”بنی اسرائیل میں جب بدکاری پھیلنے لگی تو حال یہ تھا کہ ایک شخص اپنے بھائی، دوست یا ہمسایہ کو برا کام کرتے دیکھتا تو اس کو منع کرتا کہ اے شخص خدا کا خوف کر۔ مگر اس کے بعد وہ اسی شخص کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتا اور بدی کا مشاہدہ اس کو اس بدکار شخص کے ساتھ میل جول اور کھانے پینے میں شرکت سے نہ روکتا۔ جب ان کا یہ حال ہوگیا تو ان کے دلوں پر ایک دوسرے کا اثر پڑگیا اور اللہ نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا اور ان کے نبی داﺅد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی۔“ راوی کہتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے تو جوش میں آکر اٹھ بیٹھے اور فرمایا:
”قسم ہے اس ذات ِپاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہی، تم پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم دو اور بدی سے روکو اور جس کو برافعل کرتے دیکھو اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے راہِ راست کی طرف موڑ دو اور اس معاملے میں ہرگز رواداری نہ برتو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر بھی ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا اور تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر کی۔“
مذکورہ بالا آیت اور حدیث میں قوموں کی تباہی کا ایک اور اصول بتایا گیا ہے کہ جب پوری قوم مفاسد کا شکار ہوجاتی ہے اور اس قوم کے نیک لوگ بھی برائیوں سے سمجھوتا کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے تو لعنت و ملامت ان کا مقدر ٹھیرتی ہے۔ کوئی قوم مقصد ِذلیل میں مبتلا ہوجائی، اس میں اخلاقی زوال انتہا کو پہنچ جائے اور ایمانی جرا ¿ت ختم ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کی بداعمالیوں کی پکڑ کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ:
”اور جب ہم کسی آبادی کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو اس کے دولت مندوں کی تعداد میں اضافہ کردیتے ہیں، اس لیے وہ فسق و فجور میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اب اس پر ہمارا قانونِ فطری منطبق ہوجاتا ہے اور ہم اس کو تباہ کردیتے ہیں۔“ (17:16)
.مسلمانوں کے زوال کے بنیادی طور پر تین برے اسباب ہیں:
1. قرآن سے لا تعلقی :
مسلمان کتاب الٰہی کے حامل بنائے گئے تھے۔ یہ محض کتاب نہیں ہے۔ یہ خدا کی میزان ہے جو اِس لیے نازل کی گئی ہے کہ دین کے معاملے میں تمام حق و باطل کا فیصلہ اِسی پر تول کر کیا جائے۔ مسلمان اپنے تمام اختلافات اِس کے سامنے پیش کریں اور جو فیصلہ اِس کی بارگاہ سے صادر ہو جائے، بے چون و چرا اُسے قبول کر لیں۔ یہ اُن کے علم و عمل کا مرکز ہو۔ ایمان و عقیدہ اور دین و شریعت کے تمام معاملات میں یہی مرجع بنے، ہر تحقیق، ہر راے اور ہر نقطہ نظر کو ہمیشہ اِس کے تابع رکھا جائے، یہاں تک کہ خدا کے پیغمبروں کی کوئی بات بھی اِس پر حکم نہ سمجھی جائے، بلکہ ہر چیز پر اِسی کو حکم مانا جائے۔ گذشتہ کئی صدیوں سے مسلمان بدقسمتی سے کتاب الٰہی کی یہ حیثیت اپنے علم و عمل میں برقرار نہیں رکھ سکے۔ چنانچہ اقبال کے الفاظ میں ‘خوار از مہجوریِ قرآں شدی’ * کا مصداق بن کر رہ گئے ہیں۔
2. قانون علت و معلول کو نظر انداز کرنا :
دنیا عالم اسباب ہے، سبب والنتيجہ (cause and effect) کا قانون قدرت ہے – اسباب زیادہ تر سائنسی علوم میں انسان کی مہارت سے پیدا ہوتے ہیں۔ الله نے اپنے جو خزانے زمین و آسمان میں مدفون رکھے ہوئے ہیں، وہ اِسی مہارت سے نکالے جا سکتے ہیں۔ انسان کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عروج و زوال تو ایک طرف، اُس کے مرنے اور جینے کا انحصار بھی بیش تر اِنھی علوم میں مہارت پر رہا ہے۔ آگ کی دریافت اور پہیے کی ایجاد سے لے کر دور جدید کے حیرت انگیز انکشافات تک یہ حقیقت تاریخ کے ہر صفحے پر ثبت ہے۔ مسلمانوں کو اِن علوم سے دل چسپی تو ہوئی، مگر اُن کے ذہین عناصر کا اشتغال زیادہ تر فلسفہ اور تصوف سے رہا، حالاں کہ اِس کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ فلسفہ و تصوف جن سوالات سے بحث کرتے ہیں، خدا کی کتاب حتمی حجت کی حیثیت سے اُن کا جواب لے کر نازل ہو چکی تھی۔ اِن علوم کے ساتھ اشتغال نے مسلمانوں کو خدا کی کتاب سے بھی بے گانہ رکھا اور سائنسی علوم سے بھی۔ پرانے مدرسوں میں وہ اب بھی فلسفہ و تصوف کے وہی مباحث دہرا رہے ہیں جو ‘علم لا ينفع’ ** کی بہترین مثال ہیں۔ چنانچہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور وہ تصویر حیرت بنے ہوئے ہیں۔
3.اخلاقی پستی:
مسلمانوں نے اپنی اخلاقی تربیت سے شدید غفلت برتی ہے۔ یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ جھوٹ، بددیانتی، غبن، خیانت، چوری، غصب، ملاوٹ، سود خوری، ناپ تول میں کمی، بہتان طرازی، وعدے کی خلاف ورزی، سفلی علوم سے اشتغال، ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق، قبروں کی پرستش، مشرکانہ رسوم، بے ہودہ تفریحات اور اِس نوعیت کے دوسرے جرائم اُن کے معاشروں میں اِس قدر عام ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ بنی اسرائیل کے یہی جرائم تھے جن کی بنا پر خدا کے نبیوں نے اُن پر لعنت کی تھی اور وہ ہمیشہ کے لیے خدا کی رحمت سے دور کر دیے گئے۔ مسلمان بھی اِسی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اُن کی تصویر دیکھنا ہو تو انجیل کے صفحات میں دیکھ لی جا سکتی ہے، جہاں سیدنا مسیح علیہ السلام نے بنی اسرائیل اور اُن کے علما و احبار، دانش وروں اور ارباب حل و عقد کی فرد قراردادجرم بیان کی ہے۔ اُن کے درودیوار، گلیاں اور بازار، سب پکارتے ہیں ” یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود”۔
مسلمانوں کا زوال اِن اسباب سے ہوا ہے۔ وہ انحطاط و زوال کی اِس حالت سے نکلنا چاہتے ہیں تو نہ قتال سے کچھ ہو سکتا ہے، نہ مزاحمت کی تحریکوں سے۔ سرنگا پٹم سے افغانستان تک پچھلے دو سو سال کی تاریخ اِس کی گواہی دیتی ہے۔ اِس سے نکلنے کے لیے اُنھیں وہ اسباب دور کرنا ہوں گے جو اُن کے زوال کا باعث بنے ہیں، ورنہ یہی ذلت و نکبت اور محکومی ہمیشہ اُن کا مقدر رہے گی۔ خدا کا قانون بے لاگ ہے۔ وہ اُس کی زد میں آچکے ہیں۔ وہ جب دوسروں سے لڑ کر اِس سے نکلنا چاہتے ہیں تو درحقیقت خدا سے لڑ رہے ہوتے ہیں جس نے اپنے ‘اولی باس شدید’بندے اُن پر مسلط کر دیے ہیں۔ یہ خدا کا عذاب ہے۔ اِس سے بچنے کے راستے وہ نہیں ہیں جو اُن کے مذہبی اور سیاسی رہنما اور بزعم خود مجاہدین اُنھیں بتا رہے ہیں۔ اِن راستوں پر چل کر نہ وہ بڑی طاقتوں کا اثرورسوخ اپنے ملکوں میں ختم کر سکتے ہیں، نہ فلسطین اور کشمیر سے یہودوہنود کو نکال سکتے ہیں۔ وہ قرآن اور بائیبل، دونوں میں انبیا علیہم السلام کی دعوت کا مطالعہ کریں۔ خدا کے پیغمبر بابل کی اسیری کے زمانے میں آئے ہوں یا رومی حکمرانوں کے دور میں، اُنھوں نے کبھی یہ راستے اپنی قوم کو نہیں بتائے۔ وہ اپنی قوم کے جرائم اُسے بتاتے تھے، یہ دوسروں کے جرائم ڈھونڈنے اور اُنھیں بُرا بھلا سنانے کو اپنا ہنر سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اُسے ابتدا سے انتہا تک دیکھ لیجیے۔ بابل اور روم کے حکمرانوں کے خلاف آپ مذمت کا ایک لفظ اُس میں نہیں دیکھیں گے، بلکہ ہر جگہ بنی اسرائیل کی فرد قرار داد جرم دیکھیں گے۔ یہی فرد جرم اِس وقت مسلمانوں کو بھی سنانے کی ضرورت ہے، اِس لیے کہ خدا کا جو وعدہ بنی اسرائیل سے تھا، وہی مسلمانوں سے ہے کہ:
تم میرے عہد کو پورا کرو، میں تمھارے ساتھ اپنے عہد کو پورا کروں گا۔(2:40)
الله کی رحمت منتظر ہے، لیکن اِنھی راستوں پر چلتے رہے توالله کے عذاب کا تازیانہ پیٹھ پر برستا رہے گا۔ فاعتبروا يا اولی الابصار۔ ( ماخوز - پروفیسر محمد شکیل صدیقی)
لہذا افراد اور بالآخر قوم کی حالت کو تبدیل کرنے کے لیے قرآن مجید کے ذریعہ مسلمانوں کو جہاد کبیرہ (وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا) کرنا ہو گا۔ اس جدوجہد کا “اآغاز” ایک آسان ، قابل عمل طریقہ سے کیا جا سکتا ہے… […….. ]
تم میرے عہد کو پورا کرو، میں تمھارے ساتھ اپنے عہد کو پورا کروں گا۔(2:40)
الله کی رحمت منتظر ہے، لیکن اِنھی راستوں پر چلتے رہے توالله کے عذاب کا تازیانہ پیٹھ پر برستا رہے گا۔ فاعتبروا يا اولی الابصار۔ ( ماخوز - پروفیسر محمد شکیل صدیقی)
لہذا افراد اور بالآخر قوم کی حالت کو تبدیل کرنے کے لیے قرآن مجید کے ذریعہ مسلمانوں کو جہاد کبیرہ (وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا) کرنا ہو گا۔ اس جدوجہد کا “اآغاز” ایک آسان ، قابل عمل طریقہ سے کیا جا سکتا ہے… […….. ]
-------------------------
INDEX
- مسلمانوں کا عروج و زوال (مقالہ )
- زوال کے بنیادی اسباب
- کیا غلط ہوا؟ (اقتباسات) برنارڈ لیوس ترجمہ
- قرآن قانون :عروج, زوال مولانا ابوالکلام آزاد (کتاب)
- امت مسلمہ مسلسل زوال پزیر کیوں؟
- عروج و ترقی-حکمت
- Quran – On Rise and Fall of Nations
- Misconceptions
- What Went Wrong? [Excepts from book By Bernard Lewis]
- Lessons From History: by Dr Israr Ahmad
- Lessons from History – Durant
- The Rise and Fall of the Great Powers: By Paul Kennedy [Summary]
- Rise of Jews, Christian Zionism and Israel [Thesis]
- The Decline Of The Ottoman Empire, 1566–1807
- Islamic Education System & Learning
- Muslim Revival Methodology
QURAN SUBJECTS INDEX
NATIONS
- Law of Rise and Fall of Nations:
- Perished Nations
- Pharaoh, 7:104-137, 8:52, 8:54, 10:75-90, 11:97, 14:6, 20:24, 20:43, 20:56, 20:60, 20:78, 23:46, 26:10-66, 27:12, 28:3-42, 29:39, 38:12, 40:24-46, 43:46-85, 44:17, 44:31, 50:13, 51:38-40, 54:41-42, 66:11, 69:9, 73:15-16, 79:17-25, 85:18
- Hud, 7:65-72, 11:50-57, 11:89, 26:124-138, 46:21-25
- Iram, 89:7-8
- Madyan (Midian), 7:85-93, 9:70, 11:84-96, 15:78, 20:40, 22:44, 26:176, 26:160-173, 27:54-57, 28:22-23, 28:45, 29:36, 50:14
- Canaan, 5:12
- Al Rass, 25:38, 50:13
- Azar, 6:74
- Baal, 37:125
- Tubba, 44:37, 50:14
- Byzantines, 30:2-4
- Bakkah
- first temple, 3:96
- Beasts, 6:38, 22:18, 25:49, 36:71, 42:11, 43:12, 45:4
- Bedouin, 9:90-99, 9:101-106, 33:20, 48:11, 48:16, 49:14
- Borders (jurisdictional boundaries), 8:72
- punishment of, 3:11, 20:78-79, 26:66, 28:40, 43:55, 44:24, 51:40, 89:18
- torture by and deliverance from, 2:49, 17:103