Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم


علم دین سے متعلق سوال کرنے والے کو دین کی صحیح بات نہ بتلانا یا دین کی معلومات حاصل کرنے سے متعلق و سائل (مثلاً کتابوں وغیرہ) کا انکار کردینا سخت وعید اور گناہ کا باعث ہے، اسی طرح دین کے صحیح مسائل کو اس کی جانکاری کے باوجود چھپانا اور لوگوں کے سامنے واضح نہ کرنا باعث گناہ ہے۔ 

 الله  کے احکام  اور ہدایت کو چھپانا ممنوع  ہے- (قرآن 2:159)(2:174),  (3:187)

اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡتُمُوۡنَ مَآ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَيِّنٰتِ وَالۡهُدٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِى الۡكِتٰبِۙ اُولٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰعِنُوۡنَۙ ۞ 
(القرآن الکریم - سورۃ نمبر 2 البقرة ، آیت نمبر159))
ترجمہ:
بیشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کردیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔ (2:159)
 إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَـٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٤﴾ 
 حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے (2:174)
 جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دینویں فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں
واذا اخذ اللہ میثاق الذین اوتو الکتب لتبینۃ للناس ولا تکتمونہ  (3:187)
ان اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلائو جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا  (3:187)
جن لوگوں کا دینی لحاظ سے معاشرہ میں کچھ مقام ہوتا ہے اور ان کی اتباع کی جاتی ہے۔ مثلاً علماء، پیرو مشائخ، واعظ اور مصنفین وغیرہ ایسے حضرات اگر اللہ تعالیٰ کے واضح احکام اور ہدایات کو چھپائیں تو اس کا نتیجہ چونکہ عام گمراہی اور فساد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لہذا یہ لوگ بدترین قسم کے مجرم ہوتے ہیں جو اپنے گناہ کے بار کے علاوہ اپنے بیشمار متبعین کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر پر اٹھاتے ہیں۔ لہذا ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے۔
علماء  یہود و نصاری کا شیوہ ہے کہ وہ اللہ کے کلام میں جو بات ان کے نظریات کے برخلاف ہو اس کو چھپاتے ہیں،   جیسے کہ تورات و انجیل میں رسول اللہ ﷺ کی واضح خوش خبری اور صفات بیان ہیں مگر وہ اسے چھپاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں اس لئیے ان پر لعنت ہے۔ اب بہت سے مسلمان علماء بھی ان کی روش پر چل پڑے ہیں- 
اس  آیت  (2:159) کے الفاظ عام ہیں، اس میں وہ مسلم علماء بھی شامل ہیں جو قرآن و سنت کی بات جانتے ہوئے اسے چھپا جاتے ہیں اور اپنے فرقے کی بات کو دین ظاہر کرکے بیان کردیتے ہیں۔ 
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡتُمُوۡنَ مَآ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَيِّنٰتِ وَالۡهُدٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِى الۡكِتٰبِۙ اُولٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰعِنُوۡنَۙ ۞ 
(القرآن الکریم - سورۃ نمبر 2 البقرة ، آیت نمبر 159)
ترجمہ:
بیشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کردیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔
ایسے لوگ جو کلام اللہ ، حق کو چھپاتے ہیں ان پر لعنت کی گئی ہے ۔ 
اَللَّعْنَۃُ“ کا اصل معنی ”اَلطَّرْدُ“ یعنی دور دفع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت سے مراد ملعون شخص کو اپنے پاس سے اور اپنی رحمت سے دورکرنا ہے اور دوسرے تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت سے مراد اللہ تعالیٰ سے اسے دور کرنے کی دعا کرنا ہے۔ لعنت کرنے والوں سے مراد تمام مومن جن و انس اور فرشتے ہیں۔ (طبری)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
مَن سُءِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہٗ ثُمَّ کَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ

”جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جسے وہ جانتا ہے، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔“
[ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : 2649۔ أحمد : 2؍263، ح : 7588۔ أبو داوٗد : 3658، عن أبی ہریرۃ ؓ و صححہ الألبانی]
 حضرات فقہاء نے فرمایا کہ یہ وعید اس صورت میں ہے جب کہ اس کے سوا کوئی دوسرا آدمی مسئلہ کا بیان کرنے والا وہاں موجود نہ ہو اور اگر دوسرے علماء بھی موجود ہوں تو گنجائش ہے کہ یہ کہہ دے کہ دوسرے علماء سے دریافت کرلو (قرطبی، جصاص)
 دوسری : بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ جس کو خود صحیح علم حاصل نہیں اس کو مسائل و احکام بتانے کی جرأت نہیں کرنا چاہئے،
تیسرا مسئلہ : یہ معلوم ہوا کہ علم کو چھپانے کی یہ سخت وعید انہیں علوم و مسائل کے متعلق ہے جو قرآن وسنت میں واضح بیان کئے گئے ہیں اور جن کے ظاہر کرنے اور پھیلانے کی ضرورت ہے وہ باریک اور دقیق مسائل جو عوام نہ سمجھ سکیں بلکہ خطرہ ہو کہ وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں گے تو ایسے مسائل و احکام کا عوام کے سامنے بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے اور وہ کتمان علم کے حکم میں نہیں ہے آیت مذکورہ میں لفظ من البینات والھدے سے اسی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے
 ایسے ہی مسائل کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ تم اگر عوام کو ایسی حدیثیں سناؤ گے جن کو وہ پوری طرح نہ سمجھ سکیں تو ان کو فتنہ میں مبتلا کردو گے (قرطبی)
 اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے انہوں نے فرمایا کہ عام لوگوں کے سامنے صرف اتنے ہی علم کا اظہار کرو جس کو ان کی عقل وفہم برداشت کرسکے کیا تم یہ چاہتے ہو کہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تکذیب کریں کیونکہ جو بات ان کی سمجھ سے باہر ہوگی ان کے دلوں میں اس سے شبہات وخدشات پیدا ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس سے انکار کر بیٹھیں، اس سے معلوم ہوا کہ عالم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مخاطب کے حالات کا اندازہ لگا کر کلام کرے جس شخص کے غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو اس کے سامنے ایسے مسائل بیان ہی نہ کرے اسی لئے حضرات فقہاء بہت سے مسائل کے بیان کے بعد لکھ دیتے ہیں مما یعرف ولا یعرف یعنی یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اہل علم کو خود تو سمجھ لینا چاہئے مگر عوام میں پھیلانا نہیں چاہئے، 
ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : 
لا تمنعوا الحکمۃ اہلھا فتظلموھم ولا تضعوھا فی غیر اہلھا فتظلموھا۔ 
یعنی حکمت کی بات کو ایسے لوگوں سے نہ روکو جو اس بات کے اہل ہوں اگر تم نے ایسا کیا تو ان لوگوں پر ظلم ہوگا اور جو اہل نہیں ہیں ان کے سامنے حکمت کی باتیں نہ رکھو کیونکہ اس صورت میں اس حکمت پر ظلم ہوگا،
 امام قرطبی نے فرمایا کہ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی کافر کو جو مسلمانوں کے مقابلہ میں مناظرے کرتا ہو یا کوئی مبتدع گمراہ جو لوگوں کو اپنے غلط خیالات کی طرف دعوت دیتا ہو اس کو علم دین سکھانا اس وقت تک جائز نہیں جب تک یہ ظن غالب نہ ہوجائے کہ علم سکھانے سے اس کے خیالات درست ہوجائیں گے، اسی طرح کسی بادشاہ یا حاکم وقت کو ایسے مسائل بتلانا جن کے ذریعہ وہ رعیت پر ظلم کرنے کا راستہ نکال لیں جائز نہیں اسی طرح عوام کے سامنے احکام دین میں رخصتیں اور حیلوں کی صورتیں بلا ضرورت بیان نہ کرنا چاہئے جس کی وجہ سے وہ احکام دین پر عمل کرنے میں حیلہ جوئی کے عادی بن جائیں (قرطبی)
اگر کسی مسئلہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہو اور عوام میں فتنہ و فساد کا خوف ہو تو اسے عوام کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہاں مقصود حق کا چھپانا نہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوہریرہ ؓ کو ”لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ“ پر جنت کی بشارت عام لوگوں کو بیان کرنے سے منع کردیا تھا۔ [ مسلم، الإیمان، باب الدلیل علی أن من۔۔ : 31 ] 
 (لیکن حضرت  ابو ہریرہ نے فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل نہ کیا، اسے بیان کردیا اور یہ بات آج بھی کتابوں میں موجود ہے، اور مسلسل بیان ہو رہی ہے، لوگوں میں شدید غلط فہمی پھیل چکی ہے کہ ؛ کلمہ گو پر دوزِخ حرام ہے، اور قرآنی تعلیمات کے برخلاف حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پامال کرتے نظر آتے ہیں،  عملی طور پر اس ایک حدیث سے لگتا ہے جیسے پورا قرآن ہی منسوِخ ہوگیا ہو ، (معاز اللہ ) استغفراللہ ایسا سوچنا بھی غلط ہے - مزید تفصیل : نجات، بخشش، ایمان اور اعمال – مغالطے

 حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) بہت حدیثیں بیان کرتا ہے (حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ اگر کتاب اللہ میں یہ دو آیتیں نہ ہوتیں (البقرہ ، آیت نمبر ١٥٩۔ ١٦٠) تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ (بخاری، کتاب العلم، باب حفظ العلم)
اور حضرت علی (رضی اللہ ) ؓ نے فرمایا : 
”لوگوں سے وہ بات بیان کرو جسے وہ سمجھ سکیں، کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھوٹا کہا جائے ؟“
[ بخاری، العلم، باب من خص بالعلم قومًا۔۔ ، قبل ح : 127 ] 
اور عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : 
”تم کسی قوم کو ایسی بات بیان کرو گے جس تک ان کی عقلیں نہ پہنچتی ہوں تو ضرور ان میں سے کسی کے لیے وہ فتنہ بنے گی۔“ 
[ مسلم، المقدمۃ، باب النہی عن الحدیث بکل ما سمع : 14؍5 ]
--------------------
کتمان علم سے نہی کا بیان قول باری ہے:
 ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینات والھدی ﴿البقرة: ١٥٩﴾
( جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں) 
 إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَـٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٤﴾ 
 حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے (2:174)
 جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دینویں فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں
واذا اخذ اللہ میثاق الذین اوتو الکتب لتبینۃ للناس ولا تکتمونہ  (3:187)
ان اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلائو جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا 3:187)
 یہ تمام آیتیں لوگوں کے سامنے علوم دین کو واضح کرنے کی موجب ہیں اور علوم دین کو چھپانے سے روکتی ہیں۔ یہ آیتیں چونکہ منصوص علیہ کے بیان کے لزول پر دلالت کرتی ہیں اس لئے یہ مدکول علیہ علم کو بیان کرنا بھی واجب کرتی ہیں۔ ارشاد باری ہے یکتمون ما انزلنا من البینت والھدی۔ یہ حکم اللہ سبحانہ کے تمام احکام کو شامل ہے کیونکہ ” الھدیٰ “ کا اسم سب کو شامل ہے اور قول باری یکتمون ما انزل اللہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس بارے میں نص یا دلیل کی جہت سے علم میں آنے والے احکام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ قول باری لتبینتہ ولا تکتمونہ تمام احکامات کے لئے عام ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے علم میں آنے والے احکامات بھی ان آیات کے تحت ہیں۔
جو شخص کسی حکم کا علم رکھتا ہو اسے چاہیے کہ دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔
 خبر دار تم کتمان علم سے ہمیشہ بچتے رہو کیونکہ کتمان علم ہلاکت ہے۔ علم کو بیان کرنے کے سلسلے میں اس آیت کی نظریہ قول باری ہے اگرچہ اس میں علم کو چھپانے والے کے لیے کسی وعید کا ذکر نہیں ہے:
 وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ  (9:122)
اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے (9:122)

 حجاج نے عطاء سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص کسی بات کا علم رکھتا ہو اور پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اسے آگ کی لگام پہنا دی گئی ہوگی۔ 
اگر یہاں یہ کہاجائے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ زیر بحث آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی تھی جب انہوں نے اپنی کتابوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو چھپالیا ؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایک سبب آیت کے عموم کے دائرے کو ان تمام صورتوں اور احکامات تک وسیع کردینے میں رکاوٹ نہیں بنتا جنہیں مذکورہ آیت اپنے ضمن میں لے لے۔ حکم کا مدار لفظ ہے سبب نہیں۔ الہ یہ کہ ایسی کوئی دلالت قائم ہوجائے جس سے صرف سبب پر اقتصار کرنا واجب قرار پائے۔ زیر بحث آیات سے ان اخبار کو قبول کرنے کے سلسلے میں استدلال کیا جاتا ہے جو اس درجہ تک پہنچ نہ سکے جہاں پہنچ کر وہ سننے والوں کے لیے امور دین کے اندر ایجاب علم کا ذریعہ بن جائیں۔ 
دلیل یہ ارشاد باری ہے : 
ان الذین یکتمون ما انز اللہ من الکتب۔
 نیز ارشاد ہے :
واذا اخذ اللہ میثاق الذین اوتو الکتب
 یہ آیات ایک طرف کتمان علم سے نہی کی اور دوسری طرف اظہار علم سے وقوع بیان کی متقضی ہیں۔ اگر سامعین پر انہیں قبول کرلینا لازم نہ ہوتا تو ان کی خبر دینے والا اللہ کے احکام بیان کرنے والا قرار نہ پاتا۔ اس لیے کہ جو خبر کسی حکم کو واجب نہ کرے اسے بیان کرنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔
 اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جن لوگوں کو کتمان علم سے منع کیا گیا ہے وہ جب بھی اپنے چھپائے ہوئے علم کا اظہار کرکے اس کی خبر دے دیں اسی وقت سننے والوں پر اس خبر کے متقضا پر عمل پیرا ہونا لازم ہوجائے گا۔ 
اس بات پر سیاق خطاب میں یہ قول باری دلالت کرتا ہے۔ ( البتہ جو لوگ اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلیں اور جو کچھ چھپاتے ہیں اسے بیان کرنے لگیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس میں دئی ہوئی خبر سے متعلق عمل کے لزوم پر کوئی دلالت نہیں ہے اور یہ کہنا درست ہے کہ علم کو چھپانے والوں میں سے ہر ایک کو کتمان سے روک دیا گیا تھا تو ا س کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لیے کہ انہیں کتمان سے اس لیے روکا گیا تھا کہ کتمان پر ان کا گٹھ جوڑ ہوسکتا تھا اور جو لوگ کتمان پر گٹھ جوڑ کرسکتے ہیں وہ اپنی طرف سے کوئی بات بنانے پر بھی گٹھ جوڑ کرسکتے ہیں۔ اس لیے ان کی خبر علم کا موجب نہیں ہوسکتی جبکہ آثار کی دلالت اس امر پر ہے کہ ایسی خبر قبول کرلی جائے جو اس درجے پر نہ پہنچی ہو جہاں وہ علم کا موجب نہ بنتی ہو جس کی خبر دی گئی ہے۔ 
علاوہ ازیں معترض نے جب بات کا دعویٰ کیا ہے اس کے پاس اپنے دعوے کی صداقت کے لیے کوئی دلیل اور برہان موجود نہیں ہے۔ زیر بحث آیات کے ظواہر اس بات کو قبول کرلینے کے متقضی ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے کیونکہ اس کے ذریعے اللہ کے دیے ہوئے حکم کا بیان عمل میں آ جاتا ہے۔ 
زیر بحث آیت میں ایک اور حکم بھی ہے۔ وہ یہ کہ آیت چونکہ اظہار علم کے لزوم اور اس کے کتمان کے ترک پر دلالت کرتی ہے اس لئے وہ اس پر اجرت لینے کے جواز کے امتناع پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ ایک شخص پر جس فعل کا کرنا لازم ہو اس پر اجرت کا استحقاق جائز نہیں ہوتا۔
آپ نہیں دیکھتے کہ اسلام لانے پر اجرت کا استحقاق درست نہیں ہے۔ روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں نے اپنی قوم کو سو بکریاں اس غرض سے دی ہیں کہ وہ اسلام لے آئیں۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری سو بکریاں تمہیں واپس ہوجائیں گی اور اگر یہ لوگ اسلام نہ لائے تو ہم ان کے ساتھ جنگ کریں گے۔
 اس پر ایک اور جہت سے دلالت ہورہی ہے وہ یہ کہ ارشاد باری ہے : ان الذین یکتمون ما انزل اللہ من الکتب ویشترون بہ ثمناً قلیلاً ( جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دینوی فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں) آیت کا ظاہر اظہار اور کتمان دونوں پر اجرت لینے سے روکتا ہے، اس لیے کہ مذکورہ آیت کا آخری حصہ اللہ کے احکام پر معاوضہ وصول کرنے کی ہر صورت کے لیے مانع ہے۔ کیونکہ لغت میں ثمن معاوضہ اور بدل کو کہتے ہیں۔ عمر بن ابی ربیعہ کا شعر ہے ؎ ان کنت حاولت دنیا اور ضیت بھا فما اصبت بترک الحج من ثمن ( اگر تم نے دنیا حاصل کرنے کا ارادہ کیا یا دنیا پر رضا مند ہوگئے تو تمہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لئے کہ حج کا فریضہ چھوڑنے پر تمہیں کوئی معاوضہ اور بدل ہاتھ نہیں آیا) درج بالا وضاحت سے تعلیم قرآن نیز علوم دین سکھانے پر اجرت ینے کا بطلان ثابت ہوگیا۔ ...  
.......
~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...اور مشرکوں کی طرح فرقہ واریت اختیار کرکہ دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کو واپسی میں ہے  .. مگر کیسے >>>>>>

Popular Books