Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

غیر اللہ کو سجدہ حرام




قرآن میں سورہ یوسف میں لفظ " سجدہ " سے بکثرت لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے، حتی کہ ایک گروہ نے تو اسی سے استدلال کر کے بادشاہوں اور پیروں کے لیے سجدہ تحیۃ اور سجدہ تعظیمی کا جواز نکال لیا
دوسرے لوگوں کو اس قباحت سے بچنے کے لیے اس کی یہ توجیہ کرنی پڑی کہ اگلی شریعتوں میں صرف سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام تھا، باقی رہا وہ سجدہ جو عبادت کے جذبہ سے خالی ہو تو وہ اللہ کے سوا دوسروں کو بھی کیا جاسکتا تھا، البتہ شریعت محمدی میں ہر قسم کا سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام کردیا گیا۔
https://QuranSubjects.blogspot.com
" بادشاہ کے ملازموں نے کہا آخر تو کیوں ہامان کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے ؟ ہم بھی آدمی ہیں مگر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں، اس نے جواب دیا تم لوگ نادان ہو، کیا ایک فانی انسان جو کل خاک میں مل جانے والا ہے اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس کی بڑائی مانی جائے ؟

کیا میں اس کو سجدہ کروں جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا، کل بچہ تھا آج جوان ہے کل بوڑھا ہوگا اور پرسوں مر جائے گا؟

 نہیں میں تو اس ازلی و ابدی خدا ہی کے آگے جھکوں گا جو حی وقیوم ہے۔ وہ جو کائنات کا خالق اور حاکم ہے، میں تو بس اسی کی تعظیم بجا لاؤں گا، اور کسی کی نہیں "۔ (تلمود)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَرَفَعَ اَبَوَيۡهِ عَلَى الۡعَرۡشِ وَخَرُّوۡا لَهٗ سُجَّدًا‌ۚ ...
 (القرآن - سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 100)
ترجمہ:
"(شہر میں داخل ہونے کے بعد)اس (یوسف علیہ السلام ) نے اپنے والدین کو اُٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جُھک گئے ۔۔"

سجدہ کا مفہوم

ساری غلط فہمیاں دراصل اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ لفظ "سجدہ " کو موجودہ اسلامی اصطلاح کا ہم معنی سمجھ لیا گیا، یعنی ہاتھ، گھٹنے اور پیشانی زمین پر ٹکانا، 

حالانکہ سجدہ کے اصل معنی محض جھکنے کے ہیں اور یہاں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے، قدیم تہذیب میں یہ عام طریقہ تھا (اور آج بھی بعض ملکوں میں اس کا رواج ہے) کہ کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے، یا کسی کا استقبال کرنے کے لیے، یا محض سلام کرنے کے لیے سینے پر ہاتھ رکھ کر کسی حد تک آگے کی طرف جھکتے تھے،

اسی جھکاؤ کے لیے عربی میں سجود اور انگریزی میں (Bow) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، بائیبل میں اس کی بکثرت مثالیں ہم کو ملتی ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ طریقہ آداب تہذیب میں شامل تھا، چناچہ حضرت ابراہیم کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خیمہ کی طرف تین آدمیوں کو آٹے دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لیے دوڑے اور زمین تک جھکے۔ عربی بائیبل میں اس موقع پر جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں 
فلما نظر رکض لاستقبالھم من باب الخیمۃ و سجد الی الارض (تکوین 18۔ 3) 
پھر جس موقع پر یہ ذکر آتا ہے کہ بنی حت نے حضرت سارہ کے دفن کے لیے قبر کی زمین مفت دی وہاں اردو بائٰیبل کے الفاظ یہ ہیں ابرھام نے اٹھ کر اور بنی حت کے آگے جو اس ملک کے لوگ ہیں، آداب بجا لاکر ان سے یوں گفتگو کی، اور جب ان لوگوں نے قبر کی زمین ہی نہیں بلکہ ایک پورا کھیت اور ایک غار نذر میں پیش کردیا تب ابرھام اس ملک کے لوگوں کے سامنے جھکا،
 مگر عربی ترجمہ میں ان دونوں مواقع پر آداب بجا لانے اور جھکنے کے لیے سجدہ کرنے ہی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ 
فقام ابراہیم و سجد لشعب الارض لبنی حت (تکوین 23۔ 7) 
فسجد ابراہیم امام شعب الارض (23۔ 12) 
انگریزی بائیبل میں ان مواقع پر جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں:
Bowed himself toward thee ground 
Bowed himself to the people of the land and Abraham bowed
اس مضمون کی مثالیں بڑی کثرت سے بائیبل میں ملتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سجدے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جو اب اسلامی اصطلاح کے لفظ " سجدہ " سے سمجھا جاتا ہے۔
جن لوگوں نے معاملہ کی اس حقیقت کو جانے بغیر اس کی تاویل میں سرسری طور پر یہ لکھ دیا ہے کہ اگلی شریعتوں میں غٰیر اللہ کو تعظیمی سجدہ کرنا یا سجدہ تحیۃ بجالانا جائز تھا انہوں نے محض ایک بےاصل بات کہی ہے۔
اگر سجدے سے مراد وہ چیز ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سجدہ کہا جاتا ہے، تو وہ خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت میں کبھی کسی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں رہا ہے۔

بائیبل میں ذکر آتا ہے کہ بابل کی اسیری کے زمانے میں جب اخسویرس بادشاہ نے ہامان کو اپنا امیر الامرا بنایا اور حکم دیا کہ سب لوگ اس کو سجدہ تعظیمی بجا لایا کریں تو مرد کی جو بنی اسرائیل کے اولیاء میں سے تھے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا (آستر 3 1۔ 2) 

تلمود میں اس واقعہ کی شرح کرتے ہوئے اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے 
" بادشاہ کے ملازموں نے کہا آخر تو کیوں ہامان کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے ؟ ہم بھی آدمی ہیں مگر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں، اس نے جواب دیا تم لوگ نادان ہو، کیا ایک فانی انسان جو کل خاک میں مل جانے والا ہے اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس کی بڑائی مانی جائے ؟

کیا میں اس کو سجدہ کروں جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا، کل بچہ تھا آج جوان ہے کل بوڑھا ہوگا اور پرسوں مر جائے گا؟

 نہیں میں تو اس ازلی و ابدی خدا ہی کے آگے جھکوں گا جو حی وقیوم ہے۔ وہ جو کائنات کا خالق اور حاکم ہے، میں تو بس اسی کی تعظیم بجا لاؤں گا، اور کسی کی نہیں "۔

یہ تقریر نزول قرآن سے تقریبا ایک ہزار برس پہلے ایک اسرائیلی مومن کی زبان سے ادا ہوئی ہے اور اس میں کوئی شائبہ تک اس تخیل کا نہیں پایا جاتا کہ غیر اللہ کو کسی معنی میں بھی " سجدہ " کرنا جائز ہے۔(تفہیم القرآن)

Mis-Translation as Worship?

Hebrews had various traditions of paying homage and respect, which may be confused to mean ‘worship’. Some have been mentioned in the Bible: Bowing frequently to the ground (Genesis;33:3-4); Falling prostrate on the ground (Esther;8:3; Mathew;2:11; Luke;8:41); Embracing and kissing the feet (Mathew;28:9; Luke;7:38,45); Kissing the dust (Psalms;72:9; Isaiah;49:23). Some example are: And there came two angels to Sodom at even; and Lot sat in the gate of Sodom: and Lot seeing them rose up to meet them; and he bowed himself with his face toward the ground;”(Genesis;19:1); “And he lift up his eyes and looked, and, lo, three men stood by him: and when he saw them, he ran to meet them from the tent door, and bowed himself toward the ground,”(Genesis;18:2); “And the old man said, Peace be with thee; howsoever let all thy wants lie upon me; only lodge not in the street.”(Judges;19:20).

It is reasoned that Jesus is divine because he accepted the worship of some of his followers. Conversely, a closer look at the texts indicates that this view is based on dubious translation and misinterpretation. The term “worship” is found in the narrative mentioned in ‘King James Version’ and ‘The Revised Standard Version’, about three wise men who came from the East. They were reported to have said, “Where is the baby born to be the king of the Jews? We saw his star when it came up in the east, and we have come to worship him.”(Matthew;2:2). The word translated as worship, form the ancient Greek script is ‘pros-koo-neh’-o’(proskune>w-proskun’ew) probably derivative of Koo’-Ohn (ku>wn-ku’wn);a primary word; a dog, “hound”, literal or figurative) dog (meaning to kiss, like a dog licking his master’s hand); to fawn or crouch to, i.e. (literal or figurative) prostrate oneself in homage (do reverence to, adore): worship. A careful look at the narrative in perspective reveal that the wise men of east came to see the ‘King of Jews’, not the ‘God of Jews’, the logical meanings of the Greek word ‘proskune>w-proskun’ew’ should be Prostrate Oneself In Homage (do reverence to, adore) as customary done in the East to the kings. The men of East did not say; ‘Where is the baby born to be the God of the Jews? Had they instead of king said ‘God of Jews’, the possibility to WORSHIP him would have had some rationale.

The worship as related to God, is mentioned in an other place in Bible: “We know that God hears not sinners: but if any man be a worshipper of God, and do his will, him he hears. Since the world began it was never heard that any one opened the eyes of a man born blind. If this man were not from God, he could do nothing.”(John;9:31-33). Here besides calling Jesus as a man from God, the word ‘worshipper of God’ is used which is translation of Greek  word ‘qeosebh>v-theh-os-eb-ace’; (derived from qeo>v and se>bomai); meaning: reverent of God, i.e. pious – worshipper of God. Hence proper world for worship-related with God in Greek is ‘qeosebh>v-theh-os-eb-ace’ and not proskune>w,- pros-koo-neh’-o. In continuation of same narrative, the miraculously cured blind man said: “And he said, Lord, I believe. And he worshipped him.”(John;9:38). The word worshipped used here for Jesus, is the translation of Greek word proskune>w,- pros-koo-neh’-o also used in verse Matthew;2:2, explained above, meaning Prostrate Oneself In Homage  and not qeosebh>v- ‘theh-os-eb-ace’; used to express reverence and – worship of God.[Translations from; ‘Greek Dictionary of The New Testament’; by James Strong, S.T.D., LL.D.]

The comparison of different translations of verse 9:38 of the Gospel according to John is self-explanatory:

  1. “And he said, Lord, I believe. And he worshipped him” (King John’s Version)
  2. “He said, “Lord, I believe”; and he worshiped him”(Revised Standard Version)
  3. “And he said, I believe, Lord: and he did him homage”(Darby Translation: by John Nelson Darby)
  4. “I believe, Sir,” he said. And he threw himself at his feet.”(By Richard Francis Weymouth)
  5. “and he said, “I believe, sir,’ and bowed before him.” (Young’s Bible 1863: By Robert Young).

The most accurate and relevant translations is found at serial 5), ‘Young’s Bible Translation New Testament 1863 Version: Translated by Robert Young who translated ‘proskune>w,- pros-koo-neh’-o’ as bowed and not as worship.

In “The American Bible”, the scholarly translators added a footnote that: ‘This verse, omitted in important MSS (manuscripts), may be an addition for a baptismal liturgy. This verse is not found in important ancient manuscripts containing this Gospel. It is probably a later addition made by Church scribes for use in baptismal services’. George M. Lamsa, a renowned authority on the Bible and its original language, elucidate; ‘The Aramaic word seg-eed’, worship, also means to bend or to kneel down[cgid, seg-eed’; (Aramaic) worship, corresponding to Hebrew; cagad, saw-gad’; to prostrate oneself (in homage), fall down].

Easterners in greeting each other generally bowed the head or bent down. …‘He worshipped him’ does not imply that he worshipped Jesus in a manner as God is worshipped. Such an act would have been regarded as blasphemous and a breach of the First Commandment in the eyes of the Jews, and the man might have been stoned. But he knelt before him in token of homage and gratitude.’ Hence it is appropriate to understand the word worship used in the context for Jesus in the translations of New Testament, to mean   ‘bowed in homage and gratitude’. Jesus Preached to Worship only One God:

Reference: Trinity, Divinity of Jesus | Faith Forum (wordpress.com)

1. https://QuranSubjects.blogspot.com 
2. https://youtu.be/MtuF2N2Utz4
🌹🌹🌹
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]
قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)

#Quran #Islam #Muslims #Hadith #Bidah #بدعة
[11:53 am, 08/12/2020] Brig AftabKhan (r): أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

رَبِّ قَدۡ اٰتَيۡتَنِىۡ مِنَ الۡمُلۡكِ وَ عَلَّمۡتَنِىۡ مِنۡ تَاۡوِيۡلِ الۡاَحَادِيۡثِ‌ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ اَنۡتَ وَلِىّٖ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ‌ ۚ تَوَفَّنِىۡ مُسۡلِمًا وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَ ۞ 
ترجمہ:
اے میرے ربّ، تُو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تُو ہی دُنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔“
(القرآن - سورۃ نمبر 12 يوسف , آیت نمبر 101)

اَنۡتَ وَلِىّٖ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ‌
تُو  (اللہ ) ہی دُنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، 
تَوَفَّنِىۡ مُسۡلِمًا وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَ 
میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔“
اللہ کا دین اسلام ہے اور اس پر ایمان والے مومنین صرف مسلمان ہیں۔ 
SalaamOne.com/muslim-only
~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~

Popular Books