Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

خواہش نفس ، شیطان، مذہبی پیشواؤں, کے غلام ، شرک Selfish Desires


 إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١١٦﴾

اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہوسکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا (4:116)

Indeed, Allah does not forgive association with Him, but He forgives what is less than that for whom He wills. And he who associates others with Allah has certainly gone far astray. (4:116)

Have you seen the one who takes as his god his own desire? Then would you be responsible for him? Or do you think that most of them hear or reason? They are not except like livestock. Rather, they are [even] more astray in [their] way.  (25:43,44)

ا س آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں : 
١۔ شرک ناقابل معافی جرم ہے جسے اللہ کسی صورت میں بھی معاف نہیں کرے گا۔ 
٢۔ کیسے گناہوں کی معافی کی توقع ہوسکتی ہے :۔ دوسرے گناہوں کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ معاف ہوجائیں گے۔ اللہ جس کو چاہے اور جونسا گناہ چاہے معاف کردینے کا اختیار رکھتا ہے اور چاہے تو ان پر مواخذہ بھی کرسکتا ہے۔ گناہ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں یا ایک ہی گناہ میں دو قسم کے حقوق ہوتے ہیں۔ ایک اللہ کا حق، دوسرے بندوں کا حق، اللہ جسے چاہے اپنا حق معاف کر دے اور جسے چاہے نہ کرے مگر بندوں کے حقوق کی ادائیگی لازمی ہے تب ہی اللہ اپنا حق بھی معاف کرے گا۔ بندوں کا حق خواہ اس دنیا میں ادا کردیا جائے یا ان سے معاف کرا لیا جائے یا اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے حقدار کو بدلہ اپنی طرف سے ادا کر دے۔ بہرحال بندوں کے حقوق کی معافی کے بعد اللہ کے حق کی معافی کی توقع ہوسکتی ہے۔ 
٣۔ اور تیسری بات یہ کہ شرک ہی سب سے بڑی گمراہی ہے۔ شرک کو ہی ایک دوسرے مقام پر ظلم عظیم کہا گیا ہے

الله کے علاوہ معبود بنانا 

إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيدًا ﴿١١٧﴾ لَّعَنَهُ اللَّـهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴿١١٨﴾ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّـهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا ﴿١١٩﴾ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿١٢٠﴾ أُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيصًا ﴿سورة النساء ٤:١٢١﴾

وہ اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو معبود بناتے ہیں وہ اُس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں (117) جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے (وہ اُس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں) جس نے اللہ سے کہا تھا کہ "میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا (118) میں انہیں بہکاؤں گا، میں انہیں آرزوؤں میں الجھاؤں گا، میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رد و بدل کریں گے" اس شیطان کوجس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سرپرست بنا لیا وہ صریح نقصان میں پڑ گیا (119) وہ اِن لوگوں سے وعدہ کرتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے، مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں (120) اِن لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے خلاصی کی کوئی صورت یہ نہ پائیں گے (4:121)

شیطان کو اس معنی میں تو کوئی بھی معبود نہیں بناتا کہ اس کے آگے مراسم پرستش ادا کرتا ہو اس کو الوہیت کا درجہ دیتا ہو ، البتہ اسے معبود بنانے کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کی باگیں شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے ۔ اور جدھر جدھر وہ چلاتا ہے ادھر ادھر چلتا ہے گویا کہ یہ اس کا بندہ ہے اور وہ اس کا خدا ، اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے احکام کی بے چون وچرا اطاعت اور اندھی پیروی کرنے کا نام بھی عبادت ہے اور جو شخص اس طرح کی اطاعت کرتا ہے وہ دراصل اس کی عبادت بجا لاتا ہے-
مشرکوں میں شرک کی جملہ اقسام پائی جاتی ہیں :۔ شرک کی موٹی موٹی تین اقسام ہیں اور وہ تینوں ہی اس جملہ میں آگئی ہیں مثلاً
(١) شرک فی الذات۔ اس لحاظ سے مشرکین اپنی دیویوں کو اللہ کی بیویاں اور بیٹیاں سمجھتے تھے اور ان دیویوں کے ناموں سے ہی یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے جیسے الٰہ سے لات اور عزیز سے عزی وغیرہ 
(٢) شرک فی الصفات۔ اللہ کی یہ صفت ہے کہ جہاں سے بھی اسے کوئی شخص پکارے وہ اس کی فریاد سنتا ہے اور مشرکین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ دیویاں ان کی فریاد سنتی ہیں 
(٣) شرک فی العبادت۔ قرآن کی تصریح کے مطابق کسی کو اس عقیدہ سے پکارنا کہ وہ اس کی فریاد سن کر اس کی مشکل دور کرسکتا ہے یا اسے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اس کی عین عبادت ہے اور مشرکین بھی ایسا ہی عقیدہ رکھ کر دیویوں کو پکارتے تھے اور یہ صریح شرک ہے۔ نیز وہ اپنی دیویوں کے سامنے عبادت کے وہ سب مراسم بجا لاتے تھے جو صرف اللہ کے لیے سزا وار ہیں۔
 ابلیس کا انسانوں کو گمراہ کرنے کا دعویٰ :۔
شیطان کو پکارنا اس لحاظ سے ہے کہ انسان کو شرک کی جتنی راہیں سجھائی ہیں سب شیطان ہی نے سجھائی ہیں۔ گویا ایسا عقیدہ رکھ کر خواہ کسی کو بھی پکارا جائے وہ پکار بھی شیطانی ہے اور شیطان ہی کو پکارنے کے مترادف ہے اگرچہ سب لوگ شیطان کو اللہ کا باغی اور سرکش سمجھ کر ظاہری طور پر گالیاں ہی دیتے ہیں-

دراصل اس جگہ جس ردوبدل کو شیطانی فعل قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لئے خدا نے اسے پیدا نہیں کیا ہے اور کسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لئے خدا نے اسے پیدا کیا ہے ۔ بالفاظ دیگر وہ تمام افعال جو انسان اپنی اور اشیاء کی فطرت کے خلاف کرتا ہے اور وہ تمام صورتیں جو وہ منشائے فطرت سے گریز کے لئے اختیار کرتا ہے اس آیت کی رو سے شیطان کی گمراہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں مثلا عمل قوم لوط ، ضبط ولادت ، رہبانیت ، برہمچرج ، مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنانا ، مردوں کو خواجہ سرا بنانا ، عورتوں کو ان خدمات سے منحرف کرنا جو فطرت نے ان کے سپرد کی ہیں اور انہیں تمدن کے ان شعبوں میں گھسیٹ لانا جن کے لئے مرد پیدا کیا گیا ہے یہ اور اس طرح کے دوسرے بے شمار افعال جو شیطان کے شاگرد دنیا میں کررہے ہیں دراصل یہ معنی رکھتے ہیں کہ یہ لوگ خالق کائنات کے ٹھیرائے ہوئے قوانین کو غلط سمجھتے ہیں اور ان میں اصلاح فرمانا چاہتے ہیں ۔

 علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (9:31)

انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31)

اہل کتاب کا اپنے علماء ومشائخ کو رب بنانا :۔ ان اہل کتاب کا دوسرا شرک یہ تھا کہ حلت و حرمت کے اختیارات انہوں نے اپنی علماء و مشائخ کو سونپ رکھے تھے۔ حالانکہ یہ اختیار صرف اللہ کو ہے۔ وہ کتاب اللہ کو دیکھتے تک نہ تھے بس جو کچھ ان کے علماء و مشائخ کہہ دیتے اسے اللہ کا حکم سمجھ لیتے تھے جبکہ ان کے علماء و مشائخ کا یہ حال تھا کہ تھوڑی سی رقم لے کر بھی فتوے ان کی مرضی کے مطابق دے دیا کرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو رب کا درجہ دے رکھا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :۔ سیدنا عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ کے پاس آیا میری گردن میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ نے فرمایا عدی ! اس بت کو پرے پھینک دو ۔ اور میں نے آپ کو سورة برأت کی یہ آیت پڑھتے سنا 
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 31؀) 9 ۔ التوبہ :31)
 پھر آپ نے فرمایا وہ لوگ ان مولویوں اور درویشوں کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب یہ مولوی اور درویش کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو وہ حلال جان لیتے اور جب حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھ لیتے تھے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) یہ دونوں آیات دراصل ان سے پہلی آیت کی تشریح کے طور پر آئی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ اہل کتاب اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ یعنی ایسے طرح طرح کے شرک کی موجودگی میں اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کوئی معنی نہیں رکھتا۔

وَ يَوْمَ يَقُوْلُ نَادُوْا شُرَكَآءِيَ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَ جَعَلْنَا بَيْنَهُمْ مَّوْبِقًا 
پھر کیا کریں گے یہ لوگ اُس روز جبکہ اِن کا ربّ اِن سے کہے گا کہ پکارو اب اُن ہستیوں کو جنھیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے۔  یہ اُن کو پکاریں گے ، مگر وہ اِن کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کر دیں گے (18:52)

اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے احکام اور رہنمائی کا اتباع کرنا در اصل اس کو خدائی میں اللہ کا شریک ٹھیرانا ہے ، خواہ آدمی اس دوسرے کو زبان سے خدا کا شریک قرار دیتا ہو یا نہ قرار دیتا ہو۔ بلیہ اگر آدمی ان دوسری ہستیوں پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی امر الہٰی کے مقابلے میں ان کے اوامر کا اتباع کر رہا ہو تب بھی وہ شرک کا مجرم ہے۔ چنانچہ یہاں شیاطین کے معاملے میں آپ علانیہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر ایک ان پر لعنت کرتا ہے ، مگر اس لعنت کے باوجود جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں ، قرآن ان سب کی یہ الزام دے رہا ہے کہ تم شیاطین کو خدا کا شریک بنائے ہوئے ہو۔ یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ شرک عملی ہے اور قرآن اس کو بھی شرک ہی کہتا ہے-

اب ملاحضہ فرمائیں مسلمانوں میں یہ شرک کیسے داخل ہو چکا ہے :

رسول   صلی الله علیہ وسلم  نے الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ کی سنت پر عمل کا حکم دیا:
” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔  پس میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں )  نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)

رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-(صحیح ابن ماجہ#٩٧،و انظر الحدیث ٤٠٦٩ ، صحیح ااصحیحہ ١٢٣٣، و تراجیع البانی ٣٧٧، صحیح الضعیف سنن ترمزی #٣٨٠٥)
 سیدنا صدیق اکبر کے بعد امت کی راہنمائی کا فریضہ سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔ 
قرآن کی کتابت کے باوجود حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی الله نے احادیث کی کتابت کا بندوبست نہیں کیا کیونکہ وہ فوائد سے زیادہ نقصان کو سمجھتے تھے- حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے  500 احادیث کے ذخیرہ کو تلف کر دیا-
حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) نے اپنی خلافت کے دوران ایک مرتبہ احادیث کو تحریر کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی. انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابہ اکرام سے مشورہ کیا، انہوں نے ایسا کرنے سے اتفاق کیا لیکن حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) ہچکچاہٹ میں رہے اور پورا ایک مہینہ الله سے رہنمائی اور روشنی کی دعا کرتے رہے بلآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کام نہیں کیا جایے گا اور فرمایا کہ: “سابق لوگوں نے اللہ کی کتابوں کو نظر انداز کیا اور صرف نبیوں کی سنت پرپر توجہ مرکوز کی، میں اللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے درمیان الجھن کا امکان قائم نہیں کرنا چاہتا- اس کے بعد انہوں نے تمام صوبوں کے مسلمانوں کو ہدایت کی: “جس کسی کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے متعلق تحریری دستاویز ہے وہ اسے تتلف کردے”.
عبداللہ بن یسار کہتے ہیں ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ انہوں نے فرمایا یا جس کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں ہو کہ وہ گھر لوٹ کر جائے آئے تو اسے مٹا ڈالے لے لے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں [ حدیث کی تاریخ نخبۃالفکر، ابن حجر عسقلانی]
حضرت (عمر رضی الله ) کا فیصلہ خلفاء راشدین کی سنت بن گیا - سنت رسول ﷺ، عملی طور پر تواتر سے مسلمانوں سے اجتماعی طور پر نسل در نسل متقل ہوتی رہی ہیر یں کیونکہ یہ کسی ایک فرد یا چند افراد نہیں مسلمانوں نے اجتماعی طور پررسول  صلی الله علیہ وسلم  سے براہ راست حاصل کی جس میں کسی ابہام یا شک کی گنجائش نہیں - اسی لیے سنت  رسول  صلی الله علیہ وسلم  کا درجہ قطعی ہے، صحیح، حسن یا ضعیف نہیں ، سنت  متواتر کا درجہ قرآن کے قریب ترین ہے اس کا انکار کفر ہے- 
تیسری صدی حجرہ میں حضرت عمر کے حکم اورخلفاء راشدین کی سنت،  جس کوسختی سے پکڑنے کا حکم رسول  صلی الله علیہ وسلم  نے دیا تھا اس کے برخلاف احادیث کی مشہور کتب مدون ہوئیں جو قرآن کے ساتھ اہمیت اختیار کر گیئں، جیسا کہ پہلی امتوں نے کیا-
یہ بات  بہت اہم ہے کیونکہ یہ اقدام قرآن ، رسول الله  صلی الله علیہ وسلم   اور سنت خلفاء رشدین کے برعکس ہوا- اس کی شرعی حثیت کیا ہے ؟  مزید پڑہیں ....[......] 

اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنانے والے :

   أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا ﴿٤٣﴾أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا ﴿٤٤﴾
کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے (25:43,44)

یعنی جو شخص اللہ کے بجائے اپنی خواہش نفس کا بندہ یا غلام بن جائے اور اللہ کے احکام کے بجائے اپنی خواہش نفس کی بات ماننے کو ترجیح دے تو ایسے شخص کے راہ راست پر آنے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں، نہ ہی آپ ایسے ہوا پرستوں کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں۔ قرآن کے اندر بیان ہے جو بات فوراً ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے خواہش نفس کی اتباع بھی شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ 

خواہش نفس کی اتباع ایک ایسا عام مرض ہے جس میں کافر و مشرک تو درکنار، مومن و مسلم اور عوام و خواص سب ہی تقریباً متبلا ہوتے ہیں۔ مثلاً عام لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ شریعت کے احکام میں سے آسان اور ان کے من پسند ہوں ان پر تو عمل کرلیتے ہیں اور جو مشکل ہوں تو طبیعت کو گراں معلوم ہوتے ہوں انھیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ حقیقتاً شریعت کے متبع نہیں ہوتے بلکہ اپنی خواہشات کے متبع ہوتے ہیں اور خواص یا علماء کی اتباع ہوائے نفس یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات کی تاویل کرلیتے جو ان کی۔۔ طبع ہو اور انھیں پسند ہو، بعض غلط استنباط کرکے اور غلط فتوے دے کر دنیا کا مال بٹورتے ہیں۔ پھر جو اور زیادہ ذہین طبع ہوتے ہیں وہ عوام میں کوئی بدعی عقیدہ رائج کرکے عوام کی توجہ کا مرکز بننا چاہتے ہیں اور نئے فرقہ کی بنیاد رکھ دیتے ہیں جس کی تہہ میں حب مال و باہ میں سے کوئی نہ کوئی جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور کافر جو انبیاء کی مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ قرآن کا بھی مفہوم یہ ہوتا ہے کہ انھیں جو مقام معاشرہ میں حاصل ہے وہ ان سے چھن نہ جائے۔ اور مشرکوں کی اتباع خواہش کا تو پوچھنا ہی کیا۔ آج ایک پتھر اچھا معلوم بنا تو اسے پوجنے لگے کل دوسرا اس سے خوبصورت پتھر مل گیا تو پہلے کو چھوڑ کر اس کے آگے سر جھکا دیا۔ یا کسی شخص نے کسی ولی کے مزاد سے متلعق کوئی کرامت یا حاجت روائی کا قصہ بیان کردیا تو اس کے مزاد پر نذریں نیازیں دینا شروع کردیں۔ پھر کسی اس سے بڑے بزرگ کے مزار کے حالات سے متاثر ہوئے تو اپنی ساری نیاز مندیاں ادھر منتقل کردیں۔ غرضیکہ جس طرح انسانوں کی بیشمار اقسام ہیں۔ اسی طرح وہ ان کی خواہش نفس اور اتباع کی بھی بیشمار اقسام ہیں اور رسول بھلا ان ہر طرح کے لوگوں کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری کیسے اٹھا سکتے ہیں ؟ 
 أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے
 ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔
وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120]  اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔
وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ 
وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ 
قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ 
وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ 
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50]
اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔
The triliteral root hā wāw yā (ه و ي) occurs 38 times in the Quran, in five derived forms:
  1. eight times as the form I verb hawā (هَوَىٰ)
  2. once as the form X verb is'tahwat (ٱسْتَهْوَتْ)
  3. 17 times as the noun ahwā (أَهْوَآء)
  4. 11 times as the noun hawā (هَوَآء)
  5. once as the active participle hāwiyat (هَاوِيَة)
خواہش نفس کا خدا بنا لینے سے مراد اس کی بندگی کرنا ہے ، اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بت کو پوجنا یا کسی مخلوق کو معبود بنانا ۔ حضرت ابو امامہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماتحت ظل السمآء من الٰہ یعبد من دون اللہ تعالیٰ اعظم عند اللہ عزوجل من ھوی یتبع ، اس آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جا رہے ہیں ان میں اللہ کے نزدیک بد ترین معبود وہ خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جا رہی ہو ۔ ( طبرانی ) ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الکہف ، حاشیہ 50 ۔ 
جو شخص اپنی خواہش کو عقل کے تابع رکھتا ہو اور عقل سے کام لے کر فیصلہ کرتا ہو کہ اس کے لیے صحیح راہ کون سی ہے اور غلط کونسی ، وہ اگر کسی قسم کے شرک یا کفر میں مبتلا بھی ہو تو اس کو سمجھا کر سیدھی راہ پر لایا جا سکتا ہے ، اور یہ اعتماد بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ راہ راست اختیار کرنے کا فیصلہ کر لے گا تو اس پر ثابت قدم رہے گا ۔ لیکن نفس کا بندہ اور خواہشات کا غلام ایک شتر بے مہار ہے ۔ اسے تو اس کی خواہشات جدھر جدھر لے جائیں گی وہ ان کے ساتھ ساتھ بھٹکتا پھرے گا ۔ اس کو سرے سے یہ فکر ہی نہیں ہے کہ صحیح و غلط اور حق و باطل میں تمیز کرے اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرے ۔ پھر بھلا کون اسے سمجھا کر راستی کا قائل کر سکتا ہے ۔ اور بالفرض اگر وہ بات مان بھی لے تو اسے کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنا دینا تو کسی انسان کے بس میں نہیں ہے [تفہیم القرآن ]
......................

الله کی کتاب پر ایمان اور نفس 

.اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالٰی اس سے پوری طرح باخبر ہے  (4:135)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ  ضَلٰلًۢا  بَعِیۡدًا ﴿۱۳۶﴾
 اے ایمان والو! اللہ تعالٰی پر اس کے رسول (  صلی اللہ علیہ وسلم  ) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول  (  صلی اللہ علیہ وسلم  ) پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل فرمائی گئی ہیں ،  ایمان لاؤ!  جو شخص اللہ تعالٰی سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔  (4:136)
 O you who have believed, believe in Allah and His Messenger and the Book that He sent down upon His Messenger and the Scripture which He sent down before. And whoever disbelieves in Allah , His angels, His books, His messengers, and the Last Day has certainly gone far astray.  [ Surat un Nissa: 4 Verse: 136]
.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50)
اب اس قرآن کے بعد کس حدیث  پر ایمان لائیں گے؟ ( المرسلات 77:50)

کفر کرنے کے بھی  دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ  آدمی صاف صاف انکار کر دے۔ دوسرے یہ کہ زبان سے تو مانے مگر دل سے نہ مانے ، یا اپنے رویّے سے ثابت کر دے کہ وہ جس چیز کو ماننے کا دعویٰ کر رہا ہے فی الواقع اسے نہیں مانتا۔ یہاں کفر سے یہ دونوں معنی مراد ہیں اور آیت کا مقصُود لوگوں کو اس بات پر متنبّہ کرنا ہے کہ اسلام کے اِن اساسی عقیدوں کے ساتھ کفر کی اِن دونوں اقسام میں سے جس قسم کا برتاؤ بھی آدمی اختیار کرے گا ، اس  کا نتیجہ حق سے دوری اور باطل کی روہوں میں سر گشتگی و نا مرادی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

 ایمان لانے والوں سے کہنا کہ ایمان لاؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن دراصل یہاں لفظ ایمان دو الگ معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ ایمان لانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی انکار کے بجائے اقرار کی راہ اختیار کرے ، نہ ماننے والوں سے الگ ہو کر ماننے والوں میں شامل ہو جائے ۔
 اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو مانے اسے سچے دل سے مانے ۔ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ مانے ۔
اپنی فکر کو ، اپنے مذاق کو ، اپنی پسند کو ، اپنے رویے اور چلن کو ، اپنی دوستی اور دشمنی کو ، اپنی سعی و جہد کے مصرف کو بالکل اس عقیدے کے مطابق بنالے جس پر وہ ایمان لایا ہے ۔
 خطاب ان تمام مسلمانوں سے ہے جو پہلے معنی کے لحاظ سے ”ماننے والوں“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ اور ان سے مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ دوسرے معنی کے لحاظ سے سچے مومن بنیں-
References/ links

بسم اللہ 

Popular Books