Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

صحابہ اکرام ( رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ )


 امام سجاد(ع) سے سوال ہوا کہ : "اور ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کی کدورت نکال دیں گے اور وہ بھائیوں کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے (قرآن آیت 15:47ترجمہ)

کیا یہ آیت ابوبکر، عمر و علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی؟

امام نے جواب دیا: ہاں یہ ان کی توصیف میں نازل ہوئی۔ کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں تَیْم، عَدِی اور بنی ہاشم کے قبیلوں کے درمیان دشمنی تھی لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد بھائی چارے کو قبول کیا۔ ایسا ہی ہوا ایک روز ابوبکر درد حاضره میں مبتلا ہوا تو علی نے اسے مساج کیا تا کہ اسے اس درد س نجات حاصل ہو۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ( واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۲)

فرقہ واریت کی ایک وجہ صحابہ اکرام کے درمیان سیاسی اختلافات ہیں- اب وہ الله کے پاس ہیں اور الله نے قرآن میں فرما دیا کہ ان کے درمیان ساری کدورتین ختم کر دے گا اور وہ جنت میں بھائیوں کی طرح رہیں گے- تو مسلمان ایک دوسرے سے ان اختلافات کی بنیاد پر نفرت میں کیوں مبتلا ہیں؟


یقیناً الله کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ‎﴿٤٥﴾‏ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ ‎﴿٤٧﴾‏ لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ ‎﴿٤٨﴾

بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گے، (ان سے کہا جائے گا:) ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف ہو کر داخل ہو جاؤ، اور ہم وہ ساری کدورت باہر کھینچ لیں گے جو (دنیا میں) ان کے سینوں میں (مغالطہ کے باعث ایک دوسرے سے) تھی، وہ (جنت میں) بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے، انہیں وہاں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ ہی وہ وہاں سے نکالے جائیں گے(قرآن.الحجر 15:45,46,47,48)

صحابی کے اصل معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں؛ لیکن یہ اسلام کی ایک مستقل اور اہم اصطلاح ہے ،اصطلاحی طور پر صحابی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنھوں نے بحالت ایمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔

صحابی وہ شخص جس نے بحالتِ ایمان نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور اسلام پر وفات پائی، اگرچہ درمیاں میں ارتداد پیش آگیا ہو۔ صحابی لفظ واحد ہے، اس کی جمع صحابہ ہے۔ مذکر کے لیے صحابی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جبکہ مؤنث واحد کے لیے صحابیہ اور جمع کے لیے صحابیات کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

صحابی کی تعریف مبہم ہے اور نہیں معلوم قداست کے دائرے میں کون کون لوگ شامل ہیں لیکن اکثر نے صحابہ کے وسیع معنی کو اختیار کیا ہے- صحابہ سے مراد کون لوگ ہیں جن کے اطراف تقدس کا دائرہ کھینچا گیا ہے ، اس سلسلہ میں علماء نے اختلاف کیا ہے ۔

١۔ بعض علماء  نے اس دائرے کو اس قدر وسیع کردیا ہے کہ جس نے بھی اپنی حیات میں رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی زیارت کی ہو وہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کا صحابی ہے !اس تعبیر کو بخاری نے ذکر کیا ہے من صحب رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم) او رآہ من المسلمین فھو من اصحابہ

اسی طرح  امام احمد ابن حنبل نے اس دائرے کو وسیع سمجھا ہے اصحاب رسول اللہ کل من صحبہ شھرا او یوما او ساعة او رآہ ؛ ہر وہ شخص رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کا صحابی ہے جس نے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی مصاحبت میں ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھنٹہ گذارا ہو یا انہیں دیکھا ہو !

٢۔لیکن بعض علماء  جیسے قاضی ابوبکر محمد بن الطیب نے صحابہ کی تعریف کو محدود کرتے ہوئے کہا ہے :
 اگرچہ لفظ صحابہ کا مفہوم عام ہے لیکن امت صرف اسی کو صحابی مانتی ہے جوایک قابل ملاحظہ مدت تک حضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کی مصاحبت سے برخوردار رہا ہو لہذا اس شخص کوصحابی رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) نہیں کہا جاسکتا جو رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے ساتھ ایک گھنٹہ رہاہو یا چند قدم ساتھ ساتھ رہا ہو یا آپ (صلی الله علیه و آله وسلم)سے کوئی حدیث سنی ہو ۔

٣۔ بعض علماء جیسے سعید بن المسیب نے اس تعریف کو اور بھی محدود کرتے ہوئے کہا ہے :
 صحابی رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جس نے کم از کم ایک یا دوسال رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے ساتھ گذارے ہوں نیز ایک یا دو اسلامی لڑائیوں میں رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے ہمراہ شرکت کی ہو ۔
ابوزرعہ رازی کا قول ہے کہ آپ کی وفات کے وقت جن لوگوں نے آپ کو دیکھا اور آپ سے حدیث سنی ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی(تجرید:/3) جن میں مرد اور عورت دونوں شامل تھے اوران میں ہر ایک نے آپ سے روایت کی تھی (مقدمہ اصابہ :3)۔ 
ابن فتحون نے ذیل استیعاب میں اس قول کو نقل کرکے لکھا ہے کہ ابوزرعہ نے یہ تعداد صرف ان لوگوں کی بتائی ہے جو رواۃ حدیث میں تھے، لیکن ان کے علاوہ صحابہؓ کی جو تعداد ہو گی وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگی (مقدمہ اصابہ :3)
 بہرحال اکابر صحابہ کے نام ان کی تعداد اوران کے حالات تو ہم کو صحیح طورپر معلوم ہیں، لیکن ان کے علاوہ اور صحابہ کی صحیح تعداد نہیں بتا سکتے۔ اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ خود صحابہ کے زمانہ میں مشاغل دینیہ نے صحابہ کو یہ موقع نہ دیا کہ وہ اپنی تعداد کو محفوظ رکھیں (مقدمہ اسد الغابہ :3)۔ اس کے علاوہ اکثر صحابہ صحرا نشین بدوی تھے، اس لیے ایسی حالت میں ان کا گمنام رہنا ضروری تھا۔(مقدمہ اصابہ :4)

 اللہ کن سے راضی ہوا  ( رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ )

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿التوبہ ۱۰۰﴾
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے ۔(قرآن 9:100)

 اور وہ مہاجر اور ترک وطن کرنے والے اور مہاجرین کی مدد کرنے والے انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمانی کے قبول کرنے میں سبقت کی اور جنہوں نے اخلاص کے ساتھ دعوت ایمانی کو قبول کرنے میں مہاجروں و انصار کا اتباع کیا اور مہاجرین و انصار کی پیروی کی اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے ایسے باغ تیارکررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ انعامات کا حصول سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یعنی وہ مہاجرین و انصار جو ایمان لانے میں مقدم اور سابق (سسبقت) ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نما ز پڑھی ہو خواہ وہ ہوں جو جنگِ بدر سے پہلے مسلمان ہوئے ہوں تمام امت میں یہی لوگ سابق اور قدیم ہیں اس کے بعد خواہ وہ صحابہ (رض) ہوں یعنی غیرمہاجرین و انصار یا تابعین اور تبع تابعین ہوں یا ان کے بعد کے لوگ ہوں علی فرقِ مراتب سب ہی کم و بیش اس بشارت میں شریک ہیں اگرچہ مراتب اور درجات کی نوعیت میں فرق ہوگا۔ جنگِ بدرتک جو مسلمان ہوئے وہ قدیم ہیں اور باقی ان کے تابع (Kashf ur Rahman,by Ahmed Saeed Dehlvi) 

 آیت (١٠٠) سے معلوم ہوا اس امت کے بہترین طبقے تین ہیں :

(ا) مہاجرینن میں سے سابقون الاولون یعنی مکہ کے وہ حق پرست جنہوں نے دعوت حق کی قبولیت میں سبقت کی اور سب سے پہلے ایمان لائے۔ پھر صلح حدیبیہ سے پہلے کہ غربت و مصیبت کا زمانہ تھا اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی۔ بالاتفاق سب سے پہلے ایمان لانے والی ہستی حضرت خدیجہ کی تھی۔ ان کے بعد گھر کے آدمیوں میں سے حضرت علی، (ک دس برس سے زیادہ عمر کے نہ تھے) اور زید بن حارثہ ایمان لائے اور باہر کے آدمیوں میں حضرت ابوبکر، حضرت ابوبکر ہجرت مدینہ میں بھی اسبق ہیں کہ خود آنحضرت کے ساتھی تھی۔

(ب) انصار میں سے سابقون الاولون یعنی مدینہ کے وہ حق شناس جنہوں نے عین اس وقت جبکہ تمام جزیر عرب داعی حق کو جھٹلا رہا تھا اور خود اس کے اہل ون اس کے قتل و ہلاکت کے درپے تھے دعوت حق قبول کی اور عقبہ اولی اور ثانیہ میں بیعت کا ہاتھ بڑھایا۔ پہلی بیعت میں سات آدمی تھی، اور یہ اعلان نبوت سے گیارہویں برس ہوئی۔ دوسری میں ستر مرد تھے اور دو عورتیں اور یہ پہلی سے ایک برس بعد ہوئی۔ پیغمبر اسلام نے دوسری بیعت والوں کے ساتھ ابو زرارہ بن مصعب کو بغرض تعلیم بھیج دیا تھا۔ کچھ لوگ ان کے جانے پر ایمان لائے اور کچھ اس وقت جب خود آنحضرت نے ہجرت فرمائی۔

(ج) وہ لوگ جو ان دونوں جماعتوں کے قدم بہ قدم چلے اور گو بعد کو آئے لیکن ان کا شمار پہلوں ہی کے ساتھ ہوا۔ چونکہ بعد کو ایمان لانے والوں میں بعض منافق اور کچے دل کے آدمی بھی تھے اس لیے باحسان کی قید لگا دی۔ یعنی وہ جنہوں نے راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کی۔

تاریخ اسلام میں مہاجرین و انصار کی جماعت کا یہی مقام ہے۔ اسی لیے (السابقون الاولون) سے زیادہ ان کے وصف میں کچھ کہنا ضروری نہ ہوا۔ کیونکہ یہاں اسبقیت و اولیت سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ [ترجمان القرآن تفسیر مولاناابو الکلام آزاد]

ان میں تمام مسلمان جو بعد میں آج تک یا قیامت تک "سابقون الاولون " کا خلوص دل ( احسان) سے اتباع کرتے ہیں، شامل ہو جاتے ہیں یہ الله کا خاص احسان ، تحفہ ہے کہ جو لوگ بعد میں پیدا ہوں اور وہ الله سے شکوہ کریں کہ یا الله ہمارے اختیار میں نہ تھا کہ ہم رسول الله صلعم کے دوڑ میں پیدا ہوتے اور ان کے صحابہ میں شامل ہونے کا اعزاز پا سکتے ہم محروم راہ گئے- تو اللہ نے انصاف کیا اور سب کے لئے یہ موقع فراہم کر دیا-

اور جو مسلمان اس دور میں موجود تھے مگر اپنی کمزوریوں کی وجہ سے "سابقون الاولون " کا خلوص دل (احسان) سے اتباع نہ کر سکے ، دنیا کی لذتوں، مال و دولت، حوس اقتداراور گناہوں میں مبتلا ہوگۓ وہ ان میں شامل کیسے ہو سکتے ہیں؟ بھر حال ان پر طعن و طشنیع بھی مناسب نہیں ان کا معامله الله پر چھوڑیں اور ان کے غلط اقدامات کی نہ حمایت کریں نہ اتباع کریں- الله ان کی بخشش فرمایے-


چودہ  نقیب  
قول باری ہے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے
لفظ نقیب نقب سے ماخوذ ہے جس کے معنی بڑے سوراخ کے ہیں۔ کسی کو نقیب القوم اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے احوال پر نظر رکھتا ہے اور ان کے پوشیدہ خیالات و امور سے مطلع رہتا ہے۔ اسی مفہوم کی بنا پر قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والوں کے سردار کو نقیب کہا جاتا ہے۔
حسن کا قول ہے کہ نقیب کفیل اور ذمہ دار کو کہتے ہیں انہوں نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ نقیب اس کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ وہ اپنے متعلقہ لوگوں کے احوال، ان کے امور، ان کے صلاح و فساد اور ان کی استقامت اور کج روی سے باخبر رہ کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع فراہم کرے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار پر بارہ نقیب اسی معنی میں مقرر فرمائے تھے۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ امین کو نقیب کہتے ہیں-
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ہر نبی کو اس کی امت میں سے سات نقیب دیے گئے تھے اور مجھے چودہ(14) دیے گئے ہیں جو یہ ہیں: 
1 علی المرتضی، 2 حسن، 3 حسین، 4 جعفر، 5 حمزہ، 6 ابوبکر، 7 عمر، 8 مصعب بن عمیر، 9 بلال، 10 سلمان، 11 عمار، 12 عبد اللہ بن مسعود، 13 مقداد، 14 حذیفہ بن یمان  [ ترمذی  3785 ،مستدرک عن علی بن ابی طالب]

تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡ‌ۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡ‌ۚ وَلَا تُسۡئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ  ۞ 
القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة, آیت نمبر 141
ترجمہ:
وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر چکے اُن کی کمائی اُن کے لیے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لیے تم سے اُن کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہوگا"
"They were a people that have passed away. For them is what they earned and for you is what you earn. And you will not be questioned as to what they did." (Quran;2:141).

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (59:10)

اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے (59:10)

Those who became believers after them say, "Our Lord, forgive us and our brethren who preceded us to the faith, and keep our hearts from harboring any hatred towards those who believed. Our Lord, You are Compassionate, Most Merciful."(Quran;59:10)

’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا او رجنہوں نے پناہ دی اور مد دپہنچائی یہی لوگ سچے مومن ہیں ،ان کیلئے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔‘‘ ( الانفال74)۔ ’’

لیکن خود رسول اللہ اور ان کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائی والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں،انہی کیلئے اللہ نے وہ جنتیں تیار کی ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘ ( التوبہ88،89)۔ ’’

یقینا اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کررہے تھے ، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔‘‘ ( الفتح 18)۔

صحیح بخاری میں نبی کریم کا فرمان ہے: ’’ میرے صحابہ کو برا نہ کہو (3مرتبہ آپ نے فرمایا ) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو نہ ان کے مد (یعنی آدھا کلو) اور نہ ہی ان کے نصف کے برابر پہنچ سکتا ہے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں نبی کریم کا ارشاد ہے :

’’جس نے میرے صحابہ پر سب وشتم کیا ،اس پر اللہ، اس کے فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘ نیز آپ نے فرمایا : ’’میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ،میرے بعد انہیں ہدفِ تنقید نہ بنانا۔ ‘‘( سنن ترمذی )

قاضی، ابوالفضل، عیاض بن موسیٰ، یحصبی (476- 544ھ) فرماتے ہیں :
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی عزت و تکریم کی جائے، ان کا حق پہچانا جائے، ان کی اقتدا کی جائے، ان کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے لیے استغفار کیا جائے، ان کے مابین ہونے والے اختلافات میں اپنی زبان بند رکھی جائے، ان کے دشمنوں سے عداوت رکھی جائے، ان کے خلاف مؤرّخین کی (بے سند) خبروں، مجہول راویوں کی بیان کردہ روایات، گمراہ فرقوں  اور بدعتی لوگوں کی پھیلائی ہوئی من گھڑت کہانیوں کو نظر انداز کیا جائے، جن سے ان کی شان میں کمی ہوتی ہو۔ ان کے مابین فتنوں پر مبنی جو اختلافات ہوئے ہیں، ان کو اچھے معنوں پر محمول کیا جائے اور ان کے لیے بہتر عذر تلاش کیے جائیں، کیونکہ وہ لوگ اسی کے اہل ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی برا تذکرہ نہ کیا جائے، نہ ان پر کوئی الزام دھرا جائے، بلکہ صرف ان کی نیکیاں، فضائل اور ان کی سیرت کے محاسن بیان کیے جائیں۔ اس سے ہٹ کر جو باتیں ہوں، ان سے اپنی زبان کو بند رکھا جائے۔“ [الشفا بتعريف حقوق المصطفٰي : 612,611/2]

 بعض لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام کو انہی مشاجرات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور لوگوں کو بھی ان سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا، وغیرہ۔

حالانکہ یہ صحابہ کرام کا باہمی معاملہ تھا، جس کو اللہ رب العالمین نے معاف فرما دیا ہے اور ان سے راضی ہو گیا ہے۔ ائمہ اہل سنت نے مشاجرات صحابہ کے حوالے سے روایات تو اپنی کتابوں میں درج کی ہیں، لیکن ان کی بنا پر کسی بھی صحابی پر طعن و تنقید نہیں کی۔  قرآن و سنت کی نصوص اور صحابہ کرام کے معاملے کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے -

بتقاضائے بشریت صحابہ کرام سے ایسی باتوں کا صدور باعث ملامت نہیں (کیوں؟) جیسا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا :

فَقَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْکَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ
’’ اے امیرالمومنین ! میرے اور اس جھوٹے، سیاہ کار، دھوکہ باز اور خائن کے مابین فیصلہ صادر فرما دیں۔“ [صحيح مسلم : 1757، صحيح البخاري : 3094، مختصرا]

کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان الفاظ کی بنا پر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی وہی معاملہ کرناجائز ہے جو معاملہ بعض لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کرتے ہیں ؟ 

حضرت علی (رضی الله) اور عبداللہ بن عبّاس (رضی الله) کے اختلافات؛ ابن عبّاس کی بصرہ سے مکّہ روانگی 
ابن عباس (رض) کو حضرت علی (رض) کی جانب سے بصرہ کا گورنر معین کیا گیا تھا۔  بعض نقل قول کے مطابق امام علی (رض) کی حکومت کے اواخر میں آپ پر بیت المال میں خرد برد کا الزام لگا اور آپ نے بصرہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور مکہ روانہ ہو گئے۔ (حوالہ: بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۳۹) /تفصیل :  تاریخ طبری)

حق یہ ہے کہ صحابہ کرام معصوم عن الخطا نہیں تھے، لیکن ہم مشاجرات صحابہ میں احترام  کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام اصحاب رسول کی محبت پر قائم رکھے۔​

رسول الله کی وراثت کی تقسیم کا معاملہ: حضرت عباس (رض) کا حضرت علی (رض)  توہین آمیز سلوک اور حضرت عمر (رض) کا تاریخی فیصلہ
عبداللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، جویریہ، مالک، حضرت زہری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت مالک بن اوس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا میں دن چڑھے آپ کی خدمت میں آگیا حضرت مالک فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ گھر میں خالی تخت پر چمڑے کا تکیہ لگائے بیٹھے ہیں (فرمایا کہ اے مالک) تیری قوم کے کچھ آدمی جلدی جلدی میں آئے تھے میں نے ان کو کچھ سامان دینے کا حکم کردیا ہے اب تم وہ مال لے کر ان کے درمیان تقسیم کردو میں نے عرض کیا اے امیر المومنین! آپ میرے علاوہ کسی اور کو اس کام پر مقرر فرما دیں آپ نے فرمایا اے مالک تم ہی لے لو اسی دوران (آپ کا غلام) یرفاء اندر آیا اور اس نے عرض کیا اے امیر المومنین! 
حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت زبیر اور حضرت سعد رضوان اللہ علیھم اجمعین حاضر خدمت ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا ان کے لئے اجازت ہے وہ اندر تشریف لائے پھر وہ غلام آیا اور عرض کیا کہ حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ تشریف لائے ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا اچھا انہیں بھی اجازت دے دو

 حضرت عباس کہنے لگے: 
يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْکَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ
اے امیر المومنین میرے اور اس جھوٹے گناہ گار دھوکے باز خائن کے درمیان فیصلہ کر دیجئے

 لوگوں نے کہا ہاں اے امیر المومنین ان کے درمیان فیصلہ کردیں اور ان کو ان سے راحت دلائیں حضرت مالک بن اوس کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ ان دونوں حضرات یعنی عباس اور حضرت علی ؓ نے ان حضرت کو اسی لئے پہلے بھیجا ہے
 حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں تمہیں اس ذات کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم (پیغمبروں) کے مال میں سے ان کے وارثوں کو کچھ نہیں ملتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے سب کہنے لگے کہ جی ہاں پھر حضرت عمر ؓ، حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ میں تم دونوں کو قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں بنایا جاتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا جی ہاں
 حضرت عمر ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک خاص بات کی تھی کہ جو آپ ﷺ کے علاوہ کسی سے نہیں کی حضرت عمر ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو دیہات والوں کے مال سے عطا فرمایا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ہی حصہ ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی ہے یا نہیں پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے تم لوگوں کے درمیان بنی نضیر کا مال تقسیم کردیا ہے اور اللہ کی قسم آپ ﷺ نے مال کو تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور ایسے بھی نہیں کیا کہ وہ مال خود لے لیا ہو اور تم کو نہ دیا ہو یہاں تک کہ یہ مال باقی رہ گیا تو رسول اللہ ﷺ اس مال میں سے اپنے ایک سال کا خرچ نکال لیتے پھر جو باقی بچ جاتا وہ بیت المال میں جمع ہوجاتا پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم کو یہ معلوم ہے انہوں نے کہا جی ہاں پھر اسی طرح حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کو قسم دی انہوں نے بھی اسی طرح جواب دیا لوگوں نے کہا کیا تم دونوں کو اس کا علم ہے انہوں نے کہا جی ہاں 
حضرت عمر ؓ نے فرمایا جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا میں رسول اللہ ﷺ کا والی ہوں اور تم دونوں اپنی وراثت لینے آئے ہو حضرت عباس ؓ تو اپنے بھتیجے کا حصہ اور حضرت علی ؓ اپنی بیوی کا حصہ ان کے باپ کے مال سے مانگتے تھے حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے مال کا کوئی وراث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور تم ان کو جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن سمجھتے ہو؟
 اور اللہ جانتا ہے کہ وہ سچے نیک اور ہدایت یافتہ تھے اور حق کے تابع تھے
پھر حضرت ابوبکر ؓ کی وفات ہوئی اور میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کا ولی بنا اور تم نے مجھے بھی جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن خیال کیا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا، نیک، ہدایت یافتہ ہوں اور میں اس مال کا بھی والی ہوں اور پھر تم میرے پاس آئے تم بھی ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے
تم نے کہا کہ یہ مال ہمارے حوالے کردیں میں نے کہا کہ میں اس شرط پر مال تمہارے حوالے کر دوں گا کہ اس مال میں تم وہی کچھ کرو گے جو رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے اور تم نے یہ مال اسی شرط سے مجھ سے لیا
پھر حضرت عمر ؓ نے ان سے فرمایا کیا ایسا ہی ہے ان دونوں حضرات نے کہا جی ہاں حضرت عمر ؓ نے فرمایا تم دونوں اپنے درمیان فیصلہ کرانے کے لئے میرے پاس آئے ہو اللہ کی قسم میں قیامت تک اس کے علاوہ اور کوئی فیصلہ نہیں کروں گا اگر تم سے اس کا انتظار نہیں ہوسکتا تو پھر یہ مال مجھے لوٹا دو]
صحیح مسلم - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 4577,  صحيح البخاري : 3094، فرق]
 ۔۔۔۔۔۔....
صحابہ کرام کے باہمی اختلافات ہوتے رہتے تھے اور تلخ کلامیاں بھی،  جن  کو اللہ رب العالمین نے معاف فرما دیا ہے اور ان سے راضی ہو گیا ہے۔ ائمہ اہل سنت نے مشاجرات صحابہ کے حوالے سے روایات تو اپنی کتابوں میں درج کی ہیں، لیکن ان کی بنا پر کسی بھی صحابی پر طعن و تنقید نہیں کی  سلف صالحین ہی قرآن و سنت کی نصوص اور صحابہ کرام کے معاملے کو بہتر طور پر سمجھتے تھے۔
بتقاضائے بشریت صحابہ کرام سے ایسی باتوں کا صدور باعث ملامت نہیں  جیسا کہ  سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا :
يا أمير المؤمنين، اقض بيني وبين هٰذا الكاذب، الآثم، الغادر، الخائن
’’ اے امیرالمومنین ! میرے اور اس جھوٹے، سیاہ کار، دھوکہ باز اور خائن کے مابین فیصلہ صادر فرما دیں۔“ 
کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان الفاظ کی بنا پر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی وہی معاملہ کرناجائز ہے جو معاملہ بعض لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کرتے ہیں؟ 

حق یہ ہے کہ صحابہ کرام معصوم عن الخطا نہیں تھے ، لیکن ہم مشاجرات صحابہ میں عقل واحترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے-

’’ اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کی بنا پر کسی بھی صحابی پر طعن کرنا حرام ہے، اگرچہ کسی کو ان میں سے اہل حق کی پہچان ہو بھی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اجتہادی طور پر یہ لڑائیاں کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اجتہاد میں غلطی کرنے والے سے درگزر فرمایا ہے، بلکہ اسے ایک اجر ملنا بھی ثابت ہے اور جو شخص حق پر ہو گا، اسے دو اجر ملیں گے۔“ [فتح الباري : 34/13]
اس روایتی نظریہ کی کیا بنیاد ہے؟ کیا خلیفه وقت سے بغاوت،( رسول اللہ صلعم کے حکم کے خلاف) اجتہاد ہے؟ یا اجتہاد فکری. علمی  معا ملات پر ہوتا ہے؟  ان سوالات کو اگلے حصہ میں دیکھتے ہیں -

کیا صحابہ اکرام  کو الله تعالی کے قانون سے استثنئ حاصل ہے؟

الله تعالی کا فرمان ہے:

ليس بأمانيكم ولا اماني أهل الكتاب من يعمل سوء يجزبه (قرآن: 4:123)

"تمہاری اور اہل کتاب کی خواہشات کے مطابق فیصلہ نہیں ہوگا ، جو شخص بھی کسی بُرائی کا ارتکاب کرے گا اُسے اس کا بدلہ مل کر رہے گا ۔(قرآن: 4:123)

سستی نجات کا عقیدہ 

 شیطان جن راہوں سے انسان کو گمراہ کرتا ہے ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر سستی نجات کا عقیدہ ہے۔ تو اس میدان میں مسلمان یہود و نصاریٰ سے بھی دو ہاتھ آگے ہی ہوں گنے اس  آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی خرافات کی تردید کرتے ہوئے نجات کی صحیح راہ بیان فرمائی اور وہ راہ اللہ تعالیٰ کا قانون جزا و سزا ہے۔ یہ قانون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور اس قانون کی قابل ذکر دفعات یہ ہیں : 

لله تعالی کا قانون 

(١) ہر انسان کو صرف وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ہو، برے عمل کا بدلہ برا ہوگا اور اچھے عمل کا اچھا۔

(٢) جزا و سزا کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں

(٣) اگر کسی نے چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی کی ہوگی تو بھی اس کا اسے ضرور بدلہ ملے گا اللہ کسی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی نظر انداز نہیں فرمائے گا۔ کسی کی ذرہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔ 

(٤) قیامت کے دن کوئی بھی شخص خواہ وہ اس کا پیر ہو یا کوئی قریبی رشتہ دار ہو دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا 

(٥) یہ ناممکن ہے کہ زید کے گناہ کا بار بکر کے سر ڈال دیا جائے

(٦) شفاعت کے مستحق صرف گناہگار موحدین ہوں گے وہ بھی ان شرائط کے ساتھ کہ اللہ جس کے حق میں خود سفارش چاہے گا اسی کے حق میں کی جاسکے گی اور جس شخص کو سفارش کرنے کی اجازت دے گا صرف وہی سفارش کرسکے گا۔ 

اس قانون کے علاوہ نجات کی جتنی راہیں انسان نے سوچ رکھی ہیں، وہ سب شیطان کی بتلائی ہوئی راہیں ہیں۔ ان کا کچھ فائدہ نہ ہوگا البتہ یہ نقصان ضرور ہوگا کہ انسان ایسی امیدوں کے سہارے دنیا میں گناہوں پر اور زیادہ دلیر ہوجاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی کہ قیامت کے دن لوگوں کے ایسے من گھڑت سہارے کسی کام نہ آسکیں گے جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکیں-[ تفسیر قرآن ، مولانا عبدلرحمان کیلانی ]

 قانون شریعت 

دنیا میں اللہ ںے قانون شریعت نافز کر رکھا ہے جس سے کسی کو استثنا حاصل نہیں، اگر کوئی چوری یا خیانت کرے تو اس کی سزا بھگتے گا -  رسول اللہ ﷺ  ںے فرمایا :

"اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں"(البخاری:3475)

صحابہ اکرام سے اگر کوئی بُرائی، گناہ ، جرم  سرزد ہو تو اسے اجتہادی غلطی کہ کر درگزر نہیں کیا جایا سکتا- اجتہادی غلطی کا تعلق فکری اور نظری مسائل سے ہوتا ہے ، جب اعمال میں غلطی رونما ہو ایک مرتبہ یا  بار بار تو اسلام کی اصطلاح میں اسے جرم، گناہ و معصیت کہا جاتا ہے ۔ پھر جرم،  گناہ و معصیت کا مرتکب کوئی اہل بیت ہو، صحابی ہو یا غیر صحابی ، یکساں طور پر مستحق تعذیر ہے جیسا کہ بالا حدیث سے صاف ظاہر ہے- لیکن مسلمانوں کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ ان پر لعن طعن کریں تبرا بازی کریں- اگر آن کو اس دنیا میں سزا مل گئی تو ٹھیک ورنہ معامله اللہ کے سپرد آخرت میں انصاف ہو گا- 

 رسول اللہ ﷺ ںے حضرت حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ ، حمنہ بنت جحش (رضی الله) کو حد قذف میں کوڑے لگائے حالانکہ یہ صحابی تھے، مسطح (رضی الله)  بدری صحابی ہے، حسان شاعر اسلام ہے، اور حمنہ بنت جحش نبی اکرم کی سالی ہے ام المؤمنین زینب بنت جحش کی سگی بہن اور صحابیہ ہے ۔

ماعز اسلمی کو عادی بدکار ہونے کی سزا دیتے ہوئے سنگسار کردیا گیا ، یہ بھی صحابی تھے ۔

حضرت عمر (رضی الله)  نے اپنے سالے اور ام المؤمنین حفصہ (رضی الله)  کے سگے ماموں ابن مظعون کو شراب کی حد میں اسی کوڑے مارے ، جبکہ یہ بدری صحابی تھے ۔

اسلامی قانون نے صحابی کی کوئی رعایت نہیں کی اور جرم و گناہ پر تعذیر و حد نافذ کی گئی- خلیفه  کی اطاعت کا  رسول اللہ ﷺ  ںے خاص طور پر حکم وصیت کیا، خلیفہ وقت کی حکم عدولی بغاوت ہے اجتہاد نہیں- 

عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا :ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں ، اور دل کانپ گئے ، پھر ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے ، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے [ابن ماجہ, 42 ,  ابی داود 4607 ، ترمزی 2676 وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)]

شراب پینے پر صحابہ کو سزا

قدامہ بن مظعون (رضی الله) 

ابن ہشام نے اپنی کتاب ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ میں ابن اسحاق کے حوالہ سے اوائل بعثت محمدی میں دین اسلام کی طرف لپکنے والے اصحاب رسول کی فہرست دی ہے۔ ان اصحاب کی ترتیب میں جنھیں قرآن مجید نے ’اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘ کا نام دیا ہے ،حضرت قدامہ بن مظعون کا نمبرچودھواں ہے۔ حضرت قدامہ بن مظعون کو حبشہ و مدینہ، دونوں ہجرتوں کا شرف حاصل ہوا۔

قدامہ بن مظعون کے بارے میں صحیح بخاری کی روایت ہے کہ

أَنَّ عُمَرَ اسْتَعْمَلَ قُدَامَةَ بْنَ مَظْعُونٍ عَلَى الْبَحْرَیْنِ وَکَانَ شَهِدَ بَدْرًا

قدامہ بن مظعون کو حضرت عمر نے بحرین کا گورنر بنایا اور یہ بدری صحابہ میں سے ہیں(صحیح بخاری کتاب المغازی باب شہود الملائکۃ بدرا حدیث نمبر ۳۷۰۹)

اور جناب بخاری اپنی ایک اور کتاب التاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں کہ

794 - قدامة بن مظعون الجمحى القرشى له صحبة.

کہ قدامہ بن مظعون صحابی رسول ہے، ( التاریخ الکبیر ج ۷ ص ۱۷۸)

ابن سعد نے طبقات الکبری میں لکھا ہے کہ

وشهد قدامة بدرا وأحدا والخندق والمشاهد کلها مع رسول الله صلى الله علیه و سلم

قدامہ نے رسول اللہ کے ساتھ بدر ، احد ، خندق اور تمام جنگوں میں شرکت کی ہے۔(الطبقات الکبری ج ۳ ص ۴۰۱)

قدامہ بن مظعون کا شراب پینے کا واقعہ:

حضرت عمر نے قدامہ بن مظعون کو بحرین کا حاکم مقرر کیا تھا وہاں سے جارود عبدی حضرت عمر کے پاس آیا اور کہا کہ قدامہ نے شراب پی اور نشہ میں مست ہوگئے میں چونکہ دیکھا کہ ایک حد خدا کی حدود سے معطل ہوتی ہے لہذا میرے اوپر حق تھا کہ میں آپ کو اس کی اطلاع دوں حضرت عمر نے کہا کہ کوئی گواہ بھی تمھارے ساتھ ہے؟ جارود نے کہا کہ ابوھریرہ۔ حضرت عمر نے ابوھریرہ کو بلایا اور کہا کہ تم کیا گواہی دیتے ہو ، ابوھریرہ نے کہا میں نے شراب پیتے نہیں دیکھا ہاں یہ دیکھا کہ نشہ کی حالت میں وہ قے کررہے تھے ۔ حضرت عمر نے کہا کہ تم نے صاف گواہی نہیں دی۔ پھر قدامہ کو لکھا کہ تم بحرین سے چلے آو چنانچہ وہ آئے ، جارود نے پھر حضرت عمر سے کہا کہ اس شخص پر حد جاری کرو حضرت عمر نے کہا کہ اب اپنی زبان بند کرو ورنہ میں تمھیں سزا دوں گا جارود نے کہا کہ اے عمر خدا کی قسم یہ انصاف نہیں ہے کہ تمہارے چچا کا بیٹا شراب پیے اور سزا مجھ کو دو، ابوھریرہ نے کہا اگر آپ کو ہماری شہادت میں شک ہے تو قدامہ کی بیوی ولید کی بیٹی سے پوچھیئے، حضرت عمر نے اس کو بلوا بھیجا اور اس سے پوچھا اس نے اپنے شوھر کے خلاف گواہی دی حضرت عمر نے قدامہ سے کہ اب میں تم پر حد جاری کروں گا۔ قدامہ نے کہا بالفرض اگر میں پیتا بھی تو جیسا کہ یہ لوگ بیان کرتے ہیں تب بھی آپ لوگوں کو میرے اوپر حد جاری کرنے کا اختیار نہ تھا حضرت عمر نے پوچھا کیوں؟ قدامہ نے کہا دیکھیے اللہ تعالی فرماتا ہے لیس علی الذین آمنوا و عملوا الصالحات جناح فیما طعموا اذا مااتقوا ۔۔۔ حضرت عمر نے کہا کہ تم اس آیت کا مطلب غلط سمجھے ہو اگر تم تقوی کرتے تو اللہ کی حرام کی ہوئی چیز سے پرہیز رکھتے۔ بالاخر حضرت عمر نے حکم دیا کہ قدامہ پر حد جاری کرو، اس واقعے سے قدامہ کو حضرت عمر سے رنج ہوا اور انہوں نے ترک کلام کردیا۔ ( اسد الغابہ ج ۱ ص ۹۰۷)

قدامہ بن مظعون کے شراب پینے کا واقعہ مندرجہ ذیل کتب میں بھی موجود ہے،

مصنف عبدالرزاق کتاب الاشربہ باب من حد من اصحاب النبی، سنن النسائی الکبری کتاب الاشربہ والحد فیھا باب من وجد منہ ریح شراب او لقی سکران،التاریخ الصغیر للبخاری ج ۱ ص ۴۳ باب من مات فی خلافۃ ابی بکر او قریبا منہ، الطبقات الکبری ج ۵ ص ۵۶۰ باب تسمیۃ من کان بالبحرین من اصحاب رسول اللہ، استیعاب ج ۱ ص ۳۹۴، الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج ۵ ص ۴۲۴، سیر اعلام النبلا ج ۱ ص ۱۶۱

-------------

بدری صاحب حضرت نعیمان بن عمرو انصاری پر بھی حد لگائی گئی 

ایوب بن ابو تمیمہ سختیانی کا کہنا ہے کہ بدری صحابہ میں سے حضرت قدامہ بن مظعون کے علاوہ کسی پر شرب خمر کی حد جاری نہیں کی گئی۔ ابن اثیر کہتے ہیں: یہ بات درست نہیں ،ایک اور بدری صاحب حضرت نعیمان بن عمرو انصاری پر بھی حد لگائی گئی (بخاری، رقم ۶۷۷۵)۔ بخاری کی مذکورہ روایت کے متن ’أن النبي أتي بنعیمان او ابن نعیمان و ہو سکران‘ (نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس نعیمان یا ان کے بیٹے کو نشہ کی حالت میں لایا گیا) کو دیکھا جائے تو باپ بیٹا، دونوں میں سے کسی ایک کااس واقعہ سے متعلق ہونا محتمل ہے۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ حضرت نعیمان نہیں، بلکہ ان کا بیٹا شراب کارسیا تھااور اس پر چار بار بادہ نوشی کی حد جاری کی گئی۔ابن حجر کا اصرار ہے کہ شراب نوشی کا واقعہ حضرت نعیمان ہی سے متعلق ہے۔وہ دلیل میں ابن مندہ کی روایت پیش کرتے ہیں جس میں حضرت نعیمان کا نام صراحت سے مذکورہے

 کیا صحابی معصوم من الخطأ ہوتا ہے؟

اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ ہر صحابی :معصوم من الخطأ" (Infallable) ہوتا ہے ، نجات یافتہ ہے اور مرحوم و مغفور ہے ۔ نہ جانے یہ عجیب و غریب اصول کہاں سے گھڑ لیا گیا کہ محض صحابی  رسول اللہ ﷺ  ہونا نجات اخروی کا ضامن ہے اور ایک صحابی کو یہ تحفظ کہاں سے مل گیا کہ وہ اس اعزاز کی بنا پر جُرم کی پاداش سے بچ جائے گا، اگر ایسا کوئی تحفظ صحابہ کے لیے موجود ہوتا تو  رسول اللہ ﷺ  مذکورہ صحابہ کو سزا نہ دیتے اور حضرت عمر بدری صحابی کو کوڑے نہ مارتے ، رہ گئی آخرت کی بات تو ہر ایک کو الله تعالی کے قانون عدل اور مغفرت سے گذرنا ہوگا ( إن اللہ علی کل شيء قدیر)

 

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میں اس قسم کے حقوق یافتہ طبقہ کا کوئی وجود نہیں ہے ، اسلام کا اپنا مزاج بھی اس امتیاز کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ جس کتاب مقدس میں خود پیغمبر سے یہ کہہ دیا گیا ہو کہ :

قل لا ادري ما يفعل بي ولا بكم  (46:9)

اے پیغمبر آپ کہہ دیجیے کہ مجھے کچھ خبر نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے 

 

 اس کی رو سے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے افراد جرم و گناہ میں ملوث ہوں ان ہو پروانہ مغفرت عطا کردیا جائے جبکہ پیغمبر اور قران تو کہے کہ مجھے اپنے اور تمہارے بارے میں کچھ خبر نہیں کہ کیا ہونے والا ہے لیکن ان کو خبر لگ گئی کہ کیا ہونے والا ہے،  "رضی اللہ عنہ" اعزازکا حقدار کون ہے اس کا اصل ری للہ کو ہی معلوم ہے لیکن قرآن کی آیت 9:100 سے کچھ صحابہ کا بہترین اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ  السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ کون کون  ہیں کیونکہ سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور ان کو قبول کرننے والے پہلے انصارکا سب کو معلوم ہے- لیکن ان کا (وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ) خلوص دل سے ( بِاِحۡسَانٍ) اتباع ( اتَّبَعُوۡہُمۡ) کرنے والے کون تھے؟ ہم صرف اندازے لگا سکتے ہیں دل کے معاملات صرف الله کو معلوم ہیں کہ کون کون منافق تھا اور کون کون صرف مسلمان تھا مگر مکمل طور پر "  السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ" کے راستہ پر نہ تھے ، وہ اس لسٹ " ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ" میں کیسے شامل ہو سکتے ہیں اور کس کو غائب کا علم ہوا؟ 

پیغمبر اکرم کے صحابہ کرام قابل احترام اور لائق صد تکریم ہیں لیکن ہر وہ شخص جس نے ایمان کی حالت میں پیغمبر کو دیکھا ہو وہ شرف صحابیت سے مشرف کیسے ہوسکتا ، یہ مفہوم لغت عرب کے لحاظ سے بھی صحیح نہیں اور شرع کی رُو سے بھی صحیح نہیں- اگر علماء نے کچھ اصطلاحیں وضع کرلی ہیں تو بغیر واضح ثبوت کے انہیں کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟

ہر کس و ناکس پر صحابی کا اطلاق موزوں نہیں ( تلویح تفتازانی ، مطبوعہ مصر )

 

صحابی کون ؟

جن نفوس قدسیہ کی آنکھوں نے حضور پُر نور کو دیکھا، پیغمبر کی شب و روز کی محفلوں اور صحبتوں نے جن کی سیرت و کردار کو نکھارا تھا اور جن کی زندگی کا یہ انداز مرتے دم تک قائم رہا ، جنہوں نے پیغمبر کی زندگی میں اور پیغمبر کی وفات کے بعد پیغمبر کے اسوہ حسنہ کو حرز جان بنا ئے رکھا ۔ جو پیغمبر کی اتباع کو سرمایہ حیات سمجھتے رہے اور ہمیشہ اس پر گامزن رہے ، جو نہ کبھی وقت کے ساتھ بہے اور نہ ہی وقتی مصلحتوں اور ہنگاموں نے انُکے پائے عزیمت و استقامت میں کوئی لغزش پیدا کی ، بلاشبہ ایسے لوگ اس کائنات کے سب سے زیادہ معزز لوگ اور قابل احترام و تکریم ہیں ، یہی ہیں جن کے متعلق قران نے کہا: 

والسابقون الاولون من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم باحسان رضي الله عنهم ورضوا عنه واعد لهم جنات 

جو حضرات مکہ کے تیرہ سال میں اسلام قبول کر کہ  رسول اللہ ﷺ کا مشکل وقت میں ساتھ دیا، حجرتیں کیں، انصار جنہوں ںے ان کا ساتھ دیا- بدر تک کے اصحاب یقینی طور پر اس اعزاز کے مستحق ہیں کہ انھیں "رضي الله عنهم" فرمایا- لیکن یہ الله تعالی کی طرف سے آخرت کا اعزاز ہے، کچھ کو  رسول اللہ ﷺ  ۓ جنت کی بشارت بھی دی لیکن  دنیا میں وہ سب قانون شریعت کے پابند ہیں جس طرح کوئی بھی مسلمان-

لیکن جن لوگوں نے پیغمبر کے اسوہ کو فراموش کردیا، دنیا کی لذتوں کو اپنا مشغلہ بنا لیا ، عیش و عشرت کی ہنگامہ آرائیوں میں مبتلا ہوکر سنت نبوی سے منحرف ہوگئے- 

نہ مہاجر نہ انصار اور نہ ہی مہاجرین و انصار کی اتباع بالاحسان کی ان کے لیے اجر و انعام کا وعدہ باقی نہ رہا ، وہ بہر حال اپنے  عمال کا نتیجہ بھگتیں گے کہ یہی آئین و دستور خدا وندی ہے اور ولن تجد لسنة الله تبديلا - 

 صحابہ کا ایک گروہ اور حوض کوثر 

ایسوں ہی کے لیے بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

عن  أبي هريرة  أنه كان يحدث  أن رسول الله  صلى الله عليه وسلم  قال يرد علي يوم القيامة رهط من أصحابي  فيحلئون  عن الحوض فأقول يا رب أصحابي فيقول إنك لا علم لك بما أحدثوا بعدك إنهم ارتدوا على أدبارهم  القهقرى

میرے صحابہ کا ایک گروہ قیامت کے دن میرے سامنے آئے گا مگر انہیں حوض سے ہٹا دیاجائے گا ، میں عرض کروں گا اے میرے رب یہ تو میرے صحابی ہیں ، جواب دیا جائے گا کہ آپ کو خبر نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کچھ کیا ، یہ اپنے قول و قرار سے پھر گئے تھے۔ بخاری ہی کی دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں : فاقول سُحقا سُحقا لمن غیر بعدی ؛ میں کہوں گا انہیں مجھ سے دور لے جاؤ کہ انہوں نے میرے بعد میرے راستے سے انحراف کر لیا تھا ۔

 معیار حق  رسول اللہ ﷺ 

نیک نفس اور پاکباز صحابہ قابل احترام ضرور ہیں لیکن معیار حق وہ بھی نہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہی صرف معیار حق ہے ، پیغمبر کے علاوہ کوئی شخصیت نہ معیار حق ہے اور نہ ہی اس کا قول و فعل حجت بن سکتا ہے ، اسلام نے اس سلسلہ میں اس قدر احتیاط کی ہے کہ پیغمبر کی اطاعت کے لیے بھی ؛ معروف ؛ کی شرط کو لازم قرار دیا ، حدیث میں آتا ہے کہ نبی علیہ السلام جب کسی شخص سے بیعت لیتے تو فرماتے : الطاعة في معروف ؛ کہ تم پر میری اطاعت معروف کی حد تک واجب ہوگی۔

لیکن ہماری بدقسمتی کی یہ حالت ہے کہ ہم نے پیغمبر کی ذات کو چھوڑ کر باقی سب کو حق و عدل کا معیار قرار دے لیا ہے اور شخصیت پرستی کی لعنت میں اس حد تک مبتلا ہوچکے ہیں کہ جہاں واقعات و شواہد اور نصوص قطعیہ موجود ہوں وہاں بھی نظر سب سے پہلے اُس شخصیت کی طرف اُٹھتی ہے جو ہماری عقیدتوں کا مرکز ہو، اور ہم سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی رائے اس بارے میں کیا ہے ، اور وہ اس معاملے میں کیا موقف رکھتا ہے ۔

کتاب اللہ 

 رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: 

دوروا مع الکتاب حیث دار ( بھیقی ) جس طرف کتاب الہی کارُخ ہو اُسی طرف گھوم جاؤ

 یعنی الله تعالی کے قانون کو مرکزی نقطہ بنا کر خود اس کے مطابق چلو،لیکن ہم کتاب کو گُھماتے ہیں یا ہوا کے رُخ چلنے کے عادی ہیں یا جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے ہم قائل ہیں یا پھر اندھا دُھند تقلید ہمارا شعار ہے ۔

شخصیت پرستی 

مشہور محدث ابن جوزی اپنی مشہور کتاب ؛ تلبیس ابلیس میں اس روش سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وا علم ان عموم اصحاب المذاهب يعظم في قلوبهم الشخص فيتبعون قوله من غير تدبر بما قال و هذا عين الضلال لان النظر ينبغي ان يكون الي القول لا الي المقائل كما قال علي عليه السلام لحارث بن حوطه وقد قال الاتظن انا نظن ان طلحة والزبير كانا علي باطل ؟ فقال لا يا حارث ، انه ملبوس عليك ، ان الحق لايعرف بالرجال اعرف الحق تعرف لاهله ؛

یہ بات ذہن نشین رہے کہ اصحاب مذاہب کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ جس کے معتقد ہوتے ہیں اس کی بات کو سوچے سمجھے بغیر قبول کر لیتے ہیں اور یہ صریحاً گمراہی ہے کیونکہ قائل سے زیادہ قول پر نظر رکھنی چاہیے ، جیسا کہ حضرت علی  (رضی الله) نے حارث بن حوطہ کی اس بات کے جواب میں کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ طلحہ و زبیر کو ہم غلطی پر سمجھنے لگ جائیں ؟ بللہ یہ فرمایا تھا : حارث تمہیں دھوکہ ہوا ہے ، یاد رکھو حق انسانوں کے ذریعہ نہیں پہچانا جاتا بلکہ حق کے ذریعے اہل حق پہچانے جاتے ہیں-
صحابہ پرجائز تنقید

ومطلق السب لغير الأنبياء لا يستلزم الكفر لأن بعض من كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم كان ربما سب بعضهم بعضا ولم يكفر أحدا بذلك ولأن أشخاص الصحابة لا يجب الإيمان بهم بأعيانهم فسب الواحد لا يقدح في الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر

امام حافظ ابن تیمیہ الدمشقی

امام ابن تیمیہ (سلفیوں کے شیخ الاسلام) نے اپنی کتاب الصارم المسلول صفحہ 579 (پہلے طبا سعدہ مصر کی طرف سے شائع) میں صحابہ کی توہین کرنے والے کے کفر پر دلائل دیتے ہوئے لکھا ہے:

انبیاء کے علاوہ کسی اور کی مطلق توہین کفر کے مرتکب نہیں ہے، اس لیے کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے، ان میں سے بعض نے ایک دوسرے کی توہین کی ہو اور اس کے لیے کسی کو کافر قرار نہیں دیا، اور کیونکہ صحابہ کرام کی ہستیوں پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے، لہٰذا کسی کی توہین خدا، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان کو کمزور نہیں کرتی۔

فتوی عمر بن عبدالعزيز

ومن ذلك كتاب عمر بن عبدالعزيز إلى عامله بالكوفة وقد استشاره في قتل رجل سب عمر رضي الله عنه فكتب إليه عمر إنه لا يحل قتل امرئ مسلم بسب أحد من الناس إلا رجلا سب رسول الله صلى الله عليه وسلم فمن سبه فقد حل دمه

عمر بن عبدالعزیز کا خط کوفہ میں اپنے نمائندے کو ان کے استفسار کے جواب میں کہ کیا وہ کسی ایسے شخص کو قتل کرے جس نے عمر رضی اللہ عنہ کو گالی دی ہو؟ اس نے (عمر بن عبدالعزیز) نے اسے جواب دیا: "کسی مسلمان کو گالی دینے کی وجہ سے قتل کرنا جائز نہیں ہے، سوائے اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی جائے۔ پس اگر کسی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دی تو اس کا خون مباح ہے۔(عدالت کے زریعہ )

1. الشفاء با شرح حقوق مصطفٰی، جلد 1۔ 2، صفحہ 325، بریلی میں شائع ہوا۔

2. سلالہ الرسالہ ملا علی قاری، صفحہ 18، اردن میں شائع ہوا۔

3. الطبقات الکبریٰ، جلد 1۔ 5، صفحہ 369، بیروت میں شائع ہوا۔

علامہ ابن حجر المکی الحثیمی۔

مصر کے مشہور محدث علامہ شہاب الدین احمد بن حجر الہیثمی لکھتے ہیں:اور مجھے کسی عالم کا کوئی قول نہیں ملا کہ کسی صحابی کو گالی دینے سے قتل واجب ہو جاتا ہے اور ابن منذر کہتے ہیں کہ میں کسی ایسے شخص کو بھی نہیں جانتا جو  رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی کو گالی دینے والے کو قتل کرنا (عدالت کے زریعہ) سمجھتا ہو۔ اللہ (ص)صوائق محرقہ، صفحہ 255، طبع مکتبہ القاہرہ، مصر

 

Some of the scholars explained in detail what is meant by hating the Sahaabah. They said: If a person hates some of them for some worldly reason, then that is not kufr and hypocrisy, but if it is for a religious reason, because they were the companions of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him), then undoubtedly this is hypocrisy. 

 

Shaykh al-Islam Ibn Taymiyah said: 

If a person slanders them in a way that does not impugn their good character or religious commitment, such as describing one of them as being stingy or cowardly or lacking in knowledge or not being an ascetic and so on, then he deserves to be rebuked and disciplined, but we do not rule him to be a kaafir because of that. This is how the words of those who were not regarded as kaafirs by the scholars are to be understood.  

If a person curses them and slanders them in general terms, this is an area of scholarly dispute, depending on whether this cursing is motivated by mere feelings or religious doctrines. If a person goes beyond that and claims that they apostatized after the death of the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him), apart from a small group of no more than ten or so individuals, or that most of them rebelled and did evil, then there is no doubt that such a person is a kaafir, because he has denied what is stated in more than one place in the Qur’aan, that Allaah was pleased with them and praised them.

 

Indeed whoever doubts that such a person is a kaafir is himself a kaafir, because this implies that those who transmitted the Qur’aan and Sunnah were kaafirs or evildoers and that the best of this ummah which is described in the verse “You are the best of peoples ever raised up for mankind” [Aal ‘Imraan 3:110 – interpretation of the meaning] – the first generation – were mostly kaafirs and hypocrites. It implies that this ummah is the worst of nations, and that the first generations of this ummah are the most evil. No doubt this is blatant kufr, the evidence for which is quite clear. 

Hence you will find that most of those who proclaim such views will sooner or later be shown to be heretics. Heretics usually conceal their views, but Allaah has punished some of them to make an example of them, and there are many reports that they were turned into pigs in life and in death. The scholars have compiled such reports, such as al-Haafiz al-Saalih Abu ‘Abd-Allaah Muhammad ibn ‘Abd al-Waahid al-Maqdisi, in his book al-Nahi ‘an Sabb al-Ashaab in which he narrated the punishments that befell such heretics. 

 

In conclusion, there are some groups of those who slander the Sahaabah concerning who them is no doubt that they are kaafirs, others who cannot be judged to be kaafirs, and others concerning whom there is some doubt regarding that. 

Al-Saarim al-Maslool ‘ala Shaatim al-Rasool, p. 590-591. 


 The reason for the scholarly dispute on this issue is if a person slanders a specific person it may be for some personal reason, or he may hate someone for a worldly reason etc. This does not imply that he is a kaafir. But undoubtedly if he hates one of the two Shaykhs because he was a companion of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him), then this is kufr, and indeed hating any of the Sahaabah who was lower in status than two Shaykhs just because he was a companions of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) is also definitely kufr.  

Fataawa al-Subki, 2/575. 

https://islamqa.info/en/answers/45563/ruling-on-hating-the-sahaabah

If abusing Sahaba is Kufr, then was Muaviya ibn Abu Sufiya a Kafir, as he made abusing of Sahabi Ali ibn Abu Talib mandatory in 41AH?

https://www.quora.com/If-abusing-Sahaba-is-Kufr-then-was-Muaviya-ibn-Abu-Sufiya-a-Kafir-as-he-made-abusing-of-Sahabi-Ali-ibn-Abu-Talib-mandatory-for-Alhe-Sunnah-wal-Jamaa-in-41AH


Popular Books