شرک گناہ عظیم:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۱۶﴾ اسے اللہ تعالٰی قطعًا نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ، ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔ [سورة النساء 4 آیت: 116]
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾
یقیناً اللہ تعالٰی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سِوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک مُقّرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بُہتان باندھا ۔ [سورة النساء 4 آیت: 48]
Indeed, Allah does not forgive association with Him, but He forgives what is less than that for whom He wills. And he who associates others with Allah has certainly fabricated a tremendous sin. [ Surat un Nissa: 4 Verse: 48]
یہود و نصاریٰ دونوں ہی مشرک تھے۔ اگرچہ دعویٰ توحید کا کرتے تھے اور شرک ہی سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر وعید سنا دی ہے کہ یہ ناقابل معافی جرم ہے۔
شک اللہ تعالیٰ اس بات کو (سزا دے کر بھی) نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے (بلکہ ہمیشہ دائمی سزا میں مبتلا رکھیں گے) اور اس کے سوا اور جتنے گناہ ہیں (خواہ صغیر ہوں یا کبیرہ) جس کے لئے منظور ہوگا (بلا سزا) وہ گناہ بخش دیں گے، (البتہ اگر وہ مشرک مسلمان ہوجائے تو پھر مشرک ہی نہ رہا اب وہ سزا دائمی بھی نہ رہے گی) اور (وجہ اس شرک کے نہ بخشنے کی یہ ہے کہ) جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا (جو اپنے عظیم ہونے کی وجہ سے قابل مغفرت نہیں۔ ) (اے مخاطب) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا (یعنی تعجب کے قابل ہیں) جو اپنے کو مقدس بتلاتے ہیں (ان کے بتلانے سے کچھ نہیں ہوتا) بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں مقدس بتلا دیں (یہ البتہ قابل اعتبار ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن میں مومن کو مقدس بتلا چکے ہیں، جیسے سورة سبح اسم میں اشقی یعنی کافر کے مقابل ہمیں مومن کی نسبت فرمایا، قد افلح من تزکی پس وہی مقدس ہوگا نہ کہ کفر کرنے والے جیسے یہود ہیں) اور (ان یہود کو قیامت میں اس جھوٹے دعوے کا جس کا سبب کفر کو ایمان سمجھنا ہے، جو سزا ہوگی اس سزا میں) ان پر دھاگے کی برابر بھی ظلم نہ ہوگا (یعنی وہ سزا ان کے جرم سے زیادہ نہیں ہے، بلکہ ایسے جرم پر ایسی ہی سزا لائق ہے، ذرا) دیکھ لو (اس دعویٰ میں) یہ لوگ اللہ پر کیسی جھوٹی تہمت لگاتے ہیں (کیونکہ جب وہ باوجود کفر کے اللہ کے ہاں مقبول ہونے کے مدعی ہیں تو اس سے صاف لازم آتا ہے کہ کفر اللہ کے ہاں پسندیدہ ہے، حالانکہ یہ محض تہمت ہے، اس لئے کہ تمام شرائع میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تصریح فرما دی ہے کہ کفر ہمارے نزدیک سخت ناپسند اور مردود ہے) اور یہی بات (کہ خدا پر تہمت لگائی جائے) صریح مجرم ہونے کے لئے کافی ہے (پھر کیا ایسی صریح بڑی بات پر ایسی سزا کچھ ظلم و زیادتی ہے۔ )
اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں جو عقائد ہیں اس طرح کا کوئی عقیدہ کسی مخلوق کے لئے رکھنا یہ شرک ہے-
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۱۶﴾ اسے اللہ تعالٰی قطعًا نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ، ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔ [سورة النساء 4 آیت: 116]
Indeed, Allah does not forgive association with Him, but He forgives what is less than that for whom He wills. And he who associates others with Allah has certainly gone far astray. [Surat un Nissa: 4 Verse: 116]
شرک کی کی چند صورتیں :
١.علم میں شریک ٹھہرانا :۔ یعنی کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر ہے، نجومی، پنڈت سے غیب کی خبریں دریافت کرنا یا کسی بزرگ کے کلام میں فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کہ خبر ہوگئی یا
٢.کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔
٣.اشراک فی التصرف :۔ یعنی کسی کو نفع یا نقصان کا مختار سمجھنا کسی سے مرادیں مانگنا، روزی اور اولاد مانگنا۔
٤.عبادت میں شریک ٹھہرانا : کسی کو سجدہ کرنا، کسی کے نام کا جانور چھوڑنا، چڑھاوا چڑھانا، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کی قرب یا مکان کا طواف کرنا،
٥.الله کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول یا رسم کو ترجیح دینا کسی کے روبرو رکوع کی طرف جھکنا
٦.کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا،
٧.دنیا کے کاروبار کو ستاروں کی تاثیر سے سمجھنا اور کسی مہینہ کو منحوس سمجھنا وغیرہ -
[معارف القرآن] صرف اللہ کو پکار ،صرف وہی واحد حاجت روا ہے
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شرک گناہ عظیم:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾
یقیناً اللہ تعالٰی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سِوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک مُقّرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بُہتان باندھا ۔ [سورة النساء 4 آیت: 48]
وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَخۡلُقُوۡنَ شَيۡـئًا وَّهُمۡ يُخۡلَقُوۡنَؕ ۞ اَمۡوَاتٌ غَيۡرُ اَحۡيَآءٍ ۚ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ اَيَّانَ يُبۡعَثُوۡنَ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 16 النحل, آیت نمبر 20-21)
ترجمہ:
اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں ۞ مردہ ہیں نہ کہ زندہ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا۞
یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جا رہی ہے وہ فرشتے، یا جن، یا شیاطین، یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ اصحاب قبور ہیں۔
اس لیے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں، ان پر اَمْواتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت علماؤں کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لیے
مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ
کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کردیتے ہیں۔
اب لا محالہ اس آیت میں اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین
داتا، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز، گنج بخش، اور نامعلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کردیتے ہیں۔
س کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیت عرب کی تعریف سے اس کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔
کون پڑھا لکھا نہیں جانتا ہے کہ عرب کے متعدد قبائل، ربیعہ، کلب، تغلِب، قُضَاعَہ، کِنانہ، حَرث، کعب، کِندَہ وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے، اور یہ دونوں مذاہب بری طرح انبیاء اولیاء اور شہدا کی پرستش سے آلودہ تھے۔
پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا۔ بخاری میں ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ ودّ ، سُواع، یغوث، یعُوق، نسر، یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت ہے کہ اساف اور نائلہ دونوں انسان تھے۔ اسی طرح کی روایات لات اور مناۃ اور عُزّیٰ کے بارے میں موجود ہیں۔ اور مشرکین کا یہ عقیدہ بھی روایات میں آیا ہے کہ لات اور عزّیٰ اللہ کے ایسے پیارے تھے کہ اللہ میاں جاڑا لات کے ہاں اور گرمی عزّیٰ کے ہاں بسر کرتے تھے۔ سُبْحٰنَہ وَ تَعَالیٰ عَمَّا یَصِفُوْن (تفہیم القرآن)
نوٹ: وہ بزرگ نیک ہستیاں سچے مسلمان اور موحد تھے ، شرک کی نہیں توحید کی تعلیم دیتے تھے۔ ان کی قبر پر ان کی بخشش اور درجات کی بلندی کی دعا کرنا چاہئیے اور اپنی حاجات کے لئیے صرف اللہ کو پکاریں ، اللہ سے مانگیں ۔
ایک روائیت ہے کہ: تم میں ہر کوئی اپنی حاجات اپنے رب سے مانگے یہاں تک کہ جب جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اس سے مانگے۔"
"یہ نہ کہے جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں لیکن یوں کہے جو اللہ چاہیں پھر آپ چاہیں۔"
ہر قسم کے نفع و نقصان کا مالک مشکل کشا اور حاجر روا صرف اللہ کی ذات ہے کائنات میں سے کوئی فرد بھی کسی سے نفع و نقصان کامالک نہیں.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بات سمجھا دی کہ آپ کی امت میں سے کوئی شخص بھی خواہ وہ نیک ہو یا بد، امیر ہو یا غریب، حکمران ہو یا رعایا، الغرض کوئی بھی کسی کی قسمت کا مالک نہیں۔ ہر قسم کا اختیار اللہ کے پاس ہے وہی مختار کل، مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔
( Reference : https://urdufatwa.com/view/1/21342)