اَعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرّجیم
بسم الله الرحمن الرحيم
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ اس کی ہٹ دھرمی پر گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا- ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ پر اہل بیت، خلفاء راشدین واصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین پر- .دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی (ضَلَالَۃٌ) ہے- جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑناIt is an effort to acquaint the reader with certain matters which he should grasp at the very outset so as to achieve a more than superficial understanding of the Holy Book. Secondly aim is to clarify those disturbing questions that commonly arise in the mind of the reader during the study of the Qur'an. Keep reading ..[..........]
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ 0 الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ 0 الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ 0 مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ0 إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ 0 اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 0 صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (سورة الفاتحة 1:1,7)
"اللہ کے نام سےشروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانےوالا ہے- سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو عالمین( تمام جہانوں) کی پرورش فرمانے والا ہے - نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے- روزِ جزا کا مالک ہے - (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں - ہمیں سیدھا راستہ دکھا - ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا (سورة الفاتحة 1:1,7)
سورۃ فاتحہ نہ صرف قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں سب سے پہلی سورت ہے ؛ بلکہ یہ پہلی وہ سورت ہے جو مکمل طور پر نازل ہوئی، اس سے پہلے کوئی سورت پوری نہیں نازل ہوئی تھی ؛ بلکہ بعض سورتوں کی کچھ آیتیں آئی تھیں، اس سورت کو قرآن کریم کے شروع میں رکھنے کا منشأ بظاہر یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہو اسے سب سے پہلے اپنے خالق ومالک کی صفات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ایک حق کے طلب گار کی طرح اسی سے ہدایت مانگنی چاہیے ؛ چنانچہ اس میں بندوں کو وہ دعا سکھائی گئی ہے جو ایک طالب حق کو اللہ سے مانگنی چاہیے، یعنی سیدھے راستے کی دعا، اس طرح اس سورت میں صراط مستقیم یا سیدھے راستے کی جو دعا مانگی گئی ہے
پورا قرآن اس کی تشریح ہے کہ وہ سیدھاراستہ کیا ہے؟
عربی کے قاعدے سے رحمن کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت وسیع ( Extensive) ہو، یعنی اس رحمت کا فائدہ سب کو پہنچتا ہو اور رحیم کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت زیادہ (Intensive) ہو، یعنی جس پر ہو مکمل طور پرہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا میں سب کو پہنچتی ہے، جس سے مومن کافر سب فیضیاب ہو کر رِزق پاتے ہیں اور دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور آخرت میں اگرچہ کافروں پر رحمت نہیں ہوگی ؛ لیکن جس کسی پر (یعنی مومنوں پر) ہوگی، مکمل ہوگی کہ نعمتوں کے ساتھ کسی تکلیف کا کوئی شائبہ نہیں ہوگا۔ رحمن اور رحیم کے معنی میں جو یہ فرق ہے اس کو ظاہر کرنے کے لئے رحمن کا ترجمہ سب پر مہربان اور رحیم کا ترجمہ بہت مہربان کیا گیا ہے۔ [مفتی تقی عثمانی] احادیث میں اس کا نام >>>
سورۃ فاتحہ نہ صرف قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں سب سے پہلی سورت ہے ؛ بلکہ یہ پہلی وہ سورت ہے جو مکمل طور پر نازل ہوئی، اس سے پہلے کوئی سورت پوری نہیں نازل ہوئی تھی ؛ بلکہ بعض سورتوں کی کچھ آیتیں آئی تھیں، اس سورت کو قرآن کریم کے شروع میں رکھنے کا منشأ بظاہر یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہو اسے سب سے پہلے اپنے خالق ومالک کی صفات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ایک حق کے طلب گار کی طرح اسی سے ہدایت مانگنی چاہیے ؛ چنانچہ اس میں بندوں کو وہ دعا سکھائی گئی ہے جو ایک طالب حق کو اللہ سے مانگنی چاہیے، یعنی سیدھے راستے کی دعا، اس طرح اس سورت میں صراط مستقیم یا سیدھے راستے کی جو دعا مانگی گئی ہے
پورا قرآن اس کی تشریح ہے کہ وہ سیدھاراستہ کیا ہے؟
عربی کے قاعدے سے رحمن کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت وسیع ( Extensive) ہو، یعنی اس رحمت کا فائدہ سب کو پہنچتا ہو اور رحیم کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت زیادہ (Intensive) ہو، یعنی جس پر ہو مکمل طور پرہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا میں سب کو پہنچتی ہے، جس سے مومن کافر سب فیضیاب ہو کر رِزق پاتے ہیں اور دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور آخرت میں اگرچہ کافروں پر رحمت نہیں ہوگی ؛ لیکن جس کسی پر (یعنی مومنوں پر) ہوگی، مکمل ہوگی کہ نعمتوں کے ساتھ کسی تکلیف کا کوئی شائبہ نہیں ہوگا۔ رحمن اور رحیم کے معنی میں جو یہ فرق ہے اس کو ظاہر کرنے کے لئے رحمن کا ترجمہ سب پر مہربان اور رحیم کا ترجمہ بہت مہربان کیا گیا ہے۔ [مفتی تقی عثمانی] احادیث میں اس کا نام >>>
” فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ ، اَلصَّلَاۃُ ، سُوْرَۃُ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ، سُوْرَۃُ الْحَمْدِ ، اَلسَّبْعُ الْمَثَانِیْ ، اَلْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ ، اُمُّ الْقُرْآنِ “ اور ” اُمُّ الْکِتَابِ “ آیا ہے، جیسا کہ فاتحہ کے فضائل کی احادیث میں آ رہا ہے۔ اسماء کی کثرت سورت کے معانی و مطالب کی کثرت کی دلیل ہے۔ اس کا نام ” اَلسَّبْعُ الْمَثَانِیْ “ اس لیے ہے کہ یہ سات آیات ہیں جو ہر نماز (فرض ہو یا نفل) کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں، نماز کے علاوہ بھی کثرت سے پڑھی جاتی ہیں۔[ ماخوز-عبدالرحمان کیلانی]
سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اوّل کی تین آیات میں اللہ پاک کی تعریف اور اسم ذات اور اللہ پاک کی بڑی بڑی صفات ذکر کی گئی ہیں جو دیگر صفات کمالیہ کو بھی شامل ہیں۔ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں۔ اس دعویٰ کو واضح اور ثابت کرنے میں مذکورہ صفات کو بڑا دخل ہے یعنی جو ذات پاک ایسی ایسی صفات سے متصف ہے ظاہر ہے کہ ہر تعریف کی مستحق ہے۔ جتنی تعریفیں آج تک ہوئی ہیں یا آئندہ دنیا و آخرت میں ہوں گی درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تعریف کسی نے کی ہے یا آئندہ کوئی کرے گا اس کا اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہونا تو ظاہر ہے اور جو تعریفیں اس کی مخلوق کی کی جاتی ہیں یا آئندہ کی جائیں گی یا گزشتہ تمام زمانوں میں ہوچکی ہیں وہ بھی درحقیقت اللہ پاک کی ہی تعریفیں ہیں کیونکہ ہر صاحب کمال کو اس نے وجود بخشا ہے اور کمال سے نوازا ہے اور کمال اور صاحب کمال کی پرورش فرمائی ہے اور اپنی رحمت سے ان کمالات کو باقی رکھا ہے۔ لِلّٰہِ میں لام اختصاص اور استحقاق کے لیے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ محمود حقیقی اور مستحق حمد اللہ تعالیٰ ہی ہے اگر کوئی اللہ کی حمد نہ کرے تو اس کی محمودیت حقیقیہ میں ذرا فرق نہیں آتا۔ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کا معنی اور مطلب : رَبٌّ عربی زبان میں بمعنی مالک آتا ہے اور بمعنی پروردگار (پالنے والا) بھی آتا ہے (معالم التنزیل) یہاں دونوں معنی درست ہیں۔ اللہ پاک تمام جہانوں کے مالک ہیں اور پالنے والے بھی۔ الْعٰلَمِیْنَ عالم کی جمع ہے۔ عالم (بروزن فاعل بفتح العین) علم سے لیا گیا ہے۔ عربی قاعدہ کی رو سے فاعل کا وزن مادۂ اشتقاق کے آلہ کے لیے آتا ہے عالم کا مادۂ اشتقاق علم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق عالم ہے۔ اس لیے کہ اپنے خالق (پیدا کرنے والے) کے معلوم ہونے کا ذریعہ ہے۔ یوں تو ساری مخلوق بہ حیثیت مخلوق کے ایک عالم ہے لیکن مخلوق کی بیشمار قسمیں ہیں۔ ہر قسم کو علیحدہ علیحدہ عالم قراد دیکر جمع (عالمین) لائی گئی گویا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ خدائے پاک کے جاننے اور پہچاننے کے لیے ایک عالم (بلکہ اس کا ایک ذرہ بھی) کافی ہے لیکن عالم اتنے زیادہ اور بیشمار ہیں کہ ان کو دیکھ کر اگر کوئی کوڑھ مغز بد باطن خدائے پاک کو نہ پہچانے تو اس کی محرومی، بدنصیبی، جہالت کی بھی تردید ہے جو بعض مخلوقات کو معبود مانتے ہیں اور خالق کو چھوڑ کر مخلوق و مملوک کے سامنے جبین نیاز رکھتے ہیں۔ مقاتل بن حیان نے فرمایا کہ عالم اسی ہزار ہیں، چالیس ہزار خشکی میں اور چالیس ہزار سمندر میں۔ حضرت وہب بن منبہ (رض) نے فرمایا کہ عالموں کی تعداد اٹھارہ ہزار ہے لیکن صحیح بات وہ ہے جو جناب کعب الاحبار نے فرمائی کہ عالموں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا انہوں نے اپنے استدلال میں یہ آیت تلاوت فرمائی : (وَ مَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ الاَّ ھُوَ ) (معالم التنزیل ص ٤٠ ج ١) اللہ جل شانہ، سارے جہانوں کا خالق بھی ہے اور مالک بھی۔ اور پرورش کرنے والا بھی اس نے صرف وجود ہی نہیں دیا بلکہ مخلوق کو زندہ رکھنے کے اسباب بھی پیدا فرمائے۔ وہ رزق بھی دیتا ہے کھلاتا پلاتا بھی ہے ہر فرد تک رزق پہنچاتا ہے۔ جب کھانے والارزق کھا لیتا ہے تو وہ اس رزق کو پچاتا ہے۔ جس سے جسم بڑھتا ہے خون پیدا ہوتا ہے رگوں میں دوڑتا ہے اور یہ سب بقائے حیات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ جتنے بھی اسباب معاش ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمائے ہیں۔ ان سب سے شان ربوبیت اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔ نئی نئی تحقیقات سے اجسام کے پلنے بڑھنے کے جو راز منکشف ہوئے ہیں انسانی عقل و شعور کے لیے بہت حیرت ناک ہیں۔ زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کو دیکھا جائے۔ طرح طرح کے غلے پھل اور میوے مختلف سبزیاں ترکاریاں وجود میں آرہی ہیں انسان اور جانور ان کو کھاتے ہیں اور پرورش پاتے ہیں۔ جس کا جو رزق مقرر ہے وہ اس کو ضرور پہنچ کر رہتا ہے ایک براعظم کی پیدا شدہ چیزیں دوسرے براعظم کے لوگ کھاکر اور استعمال کرکے جی رہے ہیں۔ پالنے کے مفہوم میں صرف جسمانی، غذائیں ہی نہیں آتیں بلکہ ہر وہ چیز آجاتی ہے جو زندگی اور بقا کا ذریعہ ہو۔ اجسام کی پرورش کے ساتھ روح کی پرورش بھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو زندگی کے لیے اصل چیز ہے اور جو معیشت کے آلات اور اسباب ہیں اور جو جسم کے اعضاء اور جوارح ہیں۔ یہ سب پرورش کا ذریعہ ہیں۔ [تفہیم القرآن]
سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اوّل کی تین آیات میں اللہ پاک کی تعریف اور اسم ذات اور اللہ پاک کی بڑی بڑی صفات ذکر کی گئی ہیں جو دیگر صفات کمالیہ کو بھی شامل ہیں۔ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں۔ اس دعویٰ کو واضح اور ثابت کرنے میں مذکورہ صفات کو بڑا دخل ہے یعنی جو ذات پاک ایسی ایسی صفات سے متصف ہے ظاہر ہے کہ ہر تعریف کی مستحق ہے۔ جتنی تعریفیں آج تک ہوئی ہیں یا آئندہ دنیا و آخرت میں ہوں گی درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تعریف کسی نے کی ہے یا آئندہ کوئی کرے گا اس کا اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہونا تو ظاہر ہے اور جو تعریفیں اس کی مخلوق کی کی جاتی ہیں یا آئندہ کی جائیں گی یا گزشتہ تمام زمانوں میں ہوچکی ہیں وہ بھی درحقیقت اللہ پاک کی ہی تعریفیں ہیں کیونکہ ہر صاحب کمال کو اس نے وجود بخشا ہے اور کمال سے نوازا ہے اور کمال اور صاحب کمال کی پرورش فرمائی ہے اور اپنی رحمت سے ان کمالات کو باقی رکھا ہے۔ لِلّٰہِ میں لام اختصاص اور استحقاق کے لیے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ محمود حقیقی اور مستحق حمد اللہ تعالیٰ ہی ہے اگر کوئی اللہ کی حمد نہ کرے تو اس کی محمودیت حقیقیہ میں ذرا فرق نہیں آتا۔ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کا معنی اور مطلب : رَبٌّ عربی زبان میں بمعنی مالک آتا ہے اور بمعنی پروردگار (پالنے والا) بھی آتا ہے (معالم التنزیل) یہاں دونوں معنی درست ہیں۔ اللہ پاک تمام جہانوں کے مالک ہیں اور پالنے والے بھی۔ الْعٰلَمِیْنَ عالم کی جمع ہے۔ عالم (بروزن فاعل بفتح العین) علم سے لیا گیا ہے۔ عربی قاعدہ کی رو سے فاعل کا وزن مادۂ اشتقاق کے آلہ کے لیے آتا ہے عالم کا مادۂ اشتقاق علم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق عالم ہے۔ اس لیے کہ اپنے خالق (پیدا کرنے والے) کے معلوم ہونے کا ذریعہ ہے۔ یوں تو ساری مخلوق بہ حیثیت مخلوق کے ایک عالم ہے لیکن مخلوق کی بیشمار قسمیں ہیں۔ ہر قسم کو علیحدہ علیحدہ عالم قراد دیکر جمع (عالمین) لائی گئی گویا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ خدائے پاک کے جاننے اور پہچاننے کے لیے ایک عالم (بلکہ اس کا ایک ذرہ بھی) کافی ہے لیکن عالم اتنے زیادہ اور بیشمار ہیں کہ ان کو دیکھ کر اگر کوئی کوڑھ مغز بد باطن خدائے پاک کو نہ پہچانے تو اس کی محرومی، بدنصیبی، جہالت کی بھی تردید ہے جو بعض مخلوقات کو معبود مانتے ہیں اور خالق کو چھوڑ کر مخلوق و مملوک کے سامنے جبین نیاز رکھتے ہیں۔ مقاتل بن حیان نے فرمایا کہ عالم اسی ہزار ہیں، چالیس ہزار خشکی میں اور چالیس ہزار سمندر میں۔ حضرت وہب بن منبہ (رض) نے فرمایا کہ عالموں کی تعداد اٹھارہ ہزار ہے لیکن صحیح بات وہ ہے جو جناب کعب الاحبار نے فرمائی کہ عالموں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا انہوں نے اپنے استدلال میں یہ آیت تلاوت فرمائی : (وَ مَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ الاَّ ھُوَ ) (معالم التنزیل ص ٤٠ ج ١) اللہ جل شانہ، سارے جہانوں کا خالق بھی ہے اور مالک بھی۔ اور پرورش کرنے والا بھی اس نے صرف وجود ہی نہیں دیا بلکہ مخلوق کو زندہ رکھنے کے اسباب بھی پیدا فرمائے۔ وہ رزق بھی دیتا ہے کھلاتا پلاتا بھی ہے ہر فرد تک رزق پہنچاتا ہے۔ جب کھانے والارزق کھا لیتا ہے تو وہ اس رزق کو پچاتا ہے۔ جس سے جسم بڑھتا ہے خون پیدا ہوتا ہے رگوں میں دوڑتا ہے اور یہ سب بقائے حیات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ جتنے بھی اسباب معاش ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمائے ہیں۔ ان سب سے شان ربوبیت اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔ نئی نئی تحقیقات سے اجسام کے پلنے بڑھنے کے جو راز منکشف ہوئے ہیں انسانی عقل و شعور کے لیے بہت حیرت ناک ہیں۔ زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کو دیکھا جائے۔ طرح طرح کے غلے پھل اور میوے مختلف سبزیاں ترکاریاں وجود میں آرہی ہیں انسان اور جانور ان کو کھاتے ہیں اور پرورش پاتے ہیں۔ جس کا جو رزق مقرر ہے وہ اس کو ضرور پہنچ کر رہتا ہے ایک براعظم کی پیدا شدہ چیزیں دوسرے براعظم کے لوگ کھاکر اور استعمال کرکے جی رہے ہیں۔ پالنے کے مفہوم میں صرف جسمانی، غذائیں ہی نہیں آتیں بلکہ ہر وہ چیز آجاتی ہے جو زندگی اور بقا کا ذریعہ ہو۔ اجسام کی پرورش کے ساتھ روح کی پرورش بھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو زندگی کے لیے اصل چیز ہے اور جو معیشت کے آلات اور اسباب ہیں اور جو جسم کے اعضاء اور جوارح ہیں۔ یہ سب پرورش کا ذریعہ ہیں۔ [تفہیم القرآن]
...................................
قرآن کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے
قرآن کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے ایک عام ناظر اُن باتوں سے اچھی طرح واقف ہو جائے جن کو ابتدا ہی میں سمجھ لینے سے فہمِ قرآن کی راہ آسان ہو جاتی ہے، ورنہ یہ باتیں دورانِ مطالعہ میں بار بار کھٹکتی ہیں اور بسا اوقات محض اِن کو نہ سمجھنے کی وجہ سے آدمی برسوں تک معانیء قرآن کی سطح ہی پر گھُومتا رہتا ہے، گہرائی میں اُترنے کا راستہ اُسے نہیں ملتا۔ اور اُن سوالات کا جواب پہلے ہی دے دیا جائے جو قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرتے وقت بالعمُوم لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔ میں اس مقدمہ میں صرف اُن سوالات کا جواب دُوں گا جو خود میرے ذہن میں اوّل اوّل پیدا ہوئے تھے، یا جن سے بعد میں مجھ کو سابقہ پیش آیا۔ [مقدمہ، تفہیم القرآن- از سید ابواعلیٰ مودودی]قرآن کے متعلق الله نے واضح کر دیا کہ :
- قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ کلام حق ہے (آل عمران 3:60)
- قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
- قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)
- اس کلام کو اللہ نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔(الحجر15:9)
- قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)
- اور اپنے پروردگار کی کتاب جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے(18:27قرآن)
- قرآن کو واضح عربی کتاب کہا گیا کہ لوگ سمجھ سکیں (یوسف12:1,2)۔
- باطل نہ اس کلام کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ (الفصلت 41:42)
- یہ کتاب میزان ہے۔ یعنی وہ ترازو ہے جس میں رکھ کر ہر دوسری چیز کی قدر وقیمت طے کی جائے گی۔ (الشوریٰ42:17)
- یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 25:1)
- تمام سلسلہ وحی پر مہیمن یعنی نگران ہے۔ (المائدہ5:48)
- قرآن کریم لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔ (البقرہ2:213)“اور جب انہیں ان کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے ہوکر ان پر گر نہیں پڑتے (بلکہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں)۔ (قرآن25:73)
- یہی وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)
---------------------
قرآن کی تفاسیر میں " تفہیم القرآن" کو ایک مقام حاصل ہے - جناب سید ابواعلیٰ مودودی صاحب کی یہ تحریر قرآن فہمی کے لیے ایک بہترین گائیڈ ہے -عام طور پر ہم جن کتابوں کے پڑھنے کے عادی ہیں، ان میں ایک متعین موضوع پر معلومات ، خیالات اور دلائل کو ایک خاص تصنیفی ترتیب کے ساتھ مسلسل بیان کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر جب ایک ایسا شخص جو قرآن سے ابھی تک اجنبی رہا ہے ، پہلی مرتبہ اس کتاب کے مطالعے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ یہ توقع لیے ہوئے آگے بڑھتا ہے کہ ”کتاب“ ہونے کی حیثیت سے اس میں بھی عام کتابوں کی طرح پہلے موضوع کا تعیّن ہوگا، پھر اصل مضمون کو ابواب اور فصول میں تقسیم کر کے ترتیب وار ایک ایک مسئلے پر بحث کی جائے گی، اور اسی طرح زندگی کے ایک ایک شعبے کو بھی الگ الگ لے کر اس کے متعلق احکام و ہدایات سلسلہ وار درج ہوں گی۔ لیکن جب وہ کتاب کھول کر مطالعہ شروع کرتا ہے تو یہاں اسے اپنی توقع کے بالکل خلاف ایک دُوسرے ہی اندازِ بیان سے سابقہ پیش آتا ہے جس سے وہ اب تک بالکل نا آشنا تھا۔ یہاں وہ دیکھتا ہے کہ کہ اعتقادی مسائل، اخلاقی ہدایات، شرعی احکام، دعوت، نصیحت، عبرت،تنقید،ملامت،تَخْوِیْف، بِشارت، تسلّی،دلائل، شواھد، تاریکی قصّے، آثارِ کائنات کی طرف اشارے، بار بار ایک دُوسرے کے بعد آرہے ہیں۔ ایک ہی مضمون مختلف طریقوں سے مختلف الفاظ میں دُہرایا جارہاہے۔ ایک مضمون کے بعد دُوسرا اور دُوسرے کے بعد تیسرا اچانک شروع ہو جاتا ہے، بلکہ ایک مضمون کے بیچ میں دوسرا مضمون یکایک آجاتا ہے۔ مخاطَب اور مُتَکَلِّم بار بار بدلتے ہیں اور خطاب کا رُخ رہ رہ کر مختلف سمتوں میں پھرتا ہے۔ بابوں اور فصلوں کی تقسیم کا کہیں نشان نہیں۔ تاریخ ہے تو تاریخ نگاری کے انداز میں نہیں۔ فلسفہ و مابعد الطِّبیعیّات ہیں تو منطق و فلسفہ کی زبان میں نہیں۔ انسان اور موجوداتِ عالم کا ذکر ہے تو عُلُمِ طبیعی کے طریقے پر نہیں۔ تمدّن و سیاست اور معیشت ومعاشرت کی گفتگو ہے تو عُلُومِ عمران کے طرز پر نہیں۔ قانونی احکام اور اُصُولِ قانون کا بیان ہے تو مقنّنوں کے ڈھنگ سے بالکل مختلف ۔ اخلاق کی تعلیم ہے تو فلسفہء اخلاق کے سارے لٹریچر سے اس کا انداز جدا۔ یہ سب کچھ اپنے سابق کتابی تصوّر کے خلاف پا کر آدمی پریشان ہو جاتا ہے اور اُسے یوں محسُوس ہونے لگتا ہے کہ یہ ایک غیر مُرتّب، غیر مَرْ بُوط، مُنتشر کلام ہے جو اوّل سے لے کر آخر تک بے شمار چھوٹے بڑے مختلف شذرات پر مشتمل ہے،مگر مسلسل عبارت کی شکل میں لکھ دیا گیا ہے۔مخالفانہ نقطہء نظر سے دیکھنے والا اسی پر طرح طرح کے اعتراضات کی بنا پر رکھ دیتا ہے۔ اور موافقانہ نقطہء نظر رکھنے والا کبھی معنی کی طرف سے آنکھیں بند کر کے شکوک سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی اس ظاہری بے ترتیبی کی تاویلیں کر کے اپنے دل کو سمجھا لیتا ہے، کبھی مصنوعی طریقے سے ربط تلاش کر کے عجیب عجیب نتائج نکالتا ہے ، اور کبھی”نظریہء شذرات“ کو قبول کر لیتا ہے جس کی وجہ سے ہر آیت اپنے سیاق و سباق سے الگ ہو کر ایسی معنی آفرینیوں کی آماج گاہ بن جاتی ہے جو قائل کے منشاء کے خلاف ہوتی ہیں
____________
پھر ایک کتاب کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پڑھنے والے کو اس کا موضوع معلوم ہو ، اس کے مقصد و مدّعا اور اس کے مرکزی مضمُون کا علم ہو، اس کے اندازِ بیان سے واقفیت ہو، اس کی اصطلاحی زبان اور اس کے مخصُوص طرزِ تعبیر سے شناسائی ہو، اور اس کے بیانات اپنی ظاہری عبارت کے پیچھے جن احوال و معاملات سے تعلق رکھتے ہوں و ہ بھی نظر کے سامنے رہیں۔ عام طور پر جو کتابیں ہم پڑھتے ہیں ان میں یہ چیزیں بآسانی مل جاتی ہیں ، اس لیے ان کے مضامین کی تہ تک پہنچنے میں ہمیں کوئی بڑی زحمت نہیں ہوتی۔ مگر قرآن میں یہ اُس طرح نہیں مِلتیں جس طرح ہم دُوسری کتابوں میں انہیں پانے کے عادی رہے ہیں۔ اس لیے ایک عام کتاب خواں کی سی ذہنیّت لے کر جب ہم میں کا کوئی شخص قرآن کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو اسے کتاب کے موضوع ، مدّعا اور مرکزی مضمُون کا سُراغ نہیں ملتا، اس کا اندازِ بیان اور طرزِ تعبیر بھی اُسے کچھ اجنبی سا محسُوس ہوتا ہے، اور اکثر مقامات پر اس کی عبارات کا پس منظر بھی اُس کی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ متفرق آیات میں حکمت کے جو موتی بکھرے ہوئے ہیں ان میں کم و بیش مستفید ہونے کے باوجود آدمی کلام اللہ کی اصلی رُوح تک پہنچنے سے محرُوم رہ جاتا ہے اور علمئ کتاب حاصل کرنے کے بجائے اس کو کتاب کے محض چند منتشر نِکات و فوائد پر قناعت کر لینی پڑتی ہے۔ بلکہ اکثر لوگ جو قرآن کا مطالعہ کر کے شُبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان کے بھٹکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فہم کتاب کے ان ضروری مبادی سے ناواقف رہتے ہوئے جب وہ قرآن کو پڑھتے ہیں تو اس کے صفحات پر مختلف مضامین انہیں بِکھرے ہوئے نظر آتے ہیں، بکثرت آیات کا مطلب اُن پر نہیں کھُلتا، بہت سی آیات کو دیکھتے ہیں کہ بجائے خود نورِ حکمت سے جگمگا رہی ہیں مگر سیاقِ عبارت میں بالکل بے جوڑ محسُوس ہوتی ہیں، متعدّد مقامات پر تعبیرات اور اسلوبِ بیان کی ناواقفیت انہیں اصل مطلب سے ہٹا کر کسی اور ہی طرف لے جاتی ہے، اور اکثر مواقع پر پس منظر کا صحیح علم نہ ہونے سے شدید غلط فہمیاں پیش آتی ہیں۔
قرآن ایک معجزہ : https://bit.ly/QuranMojza
وہ اس گمان کے ساتھ مطالعہ شروع کرتا ہے کہ وہ”مذہب کے موضوع پر ایک کتاب“پڑھنے چلا ہے۔”مذہب کا موضوع“ اور ”کتاب“، ان دونوں کا تصوّر اس کے ذہن میں وہی ہوتا ہے جو بالعمُوم ”مذہب“ اور ”کتاب“ کے متعلق ذہنوں میں پایا جاتا ہے۔ مگر جب وہاں اُسے اپنے ذہنی تصوّر سے بالکل ہی مختلف ایک چیز سے سابقہ پیش آتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس سے مانوس نہیں کر سکتا اور سر رشتہ ء مضمون ہاتھ نہ آنے کے باعث بین السّطوریوں میں بھٹکنا شروع کر دیتا ہے جیسے وہ ایک اجنبی مسافر ہے جو کسی نئے شہر کی گلیوں میں کھو گیا ہے۔ اس گم گشتگی سے وہ بچ جائے اگر اسے پہلے ہی یہ بتا دیا جائے کہ تم جس کتاب کو پڑھنے جا رہے ہو وہ تمام دنیا کے لٹریچر میں اپنے طرز کی ایک ہی کتاب ہے ، اس کی ”تصنیف“ دُنیا کی ساری کتابوں سے بالکل مختلف طور پر ہوئی ہے، اپنے موضوع اور مضمون اور ترتیب کے لحاظ سے بھی وہ ایک نرالی چیز ہے، لہٰذا تمہارے ذہن کا وہ ”کتابی “سانچہ جو اب تک کی کُتب بینی سے بنا ہے، اس کتاب کے سمجھنے میں تمہاری مدد نہ کرے گا بلکہ اُلٹا مزاحم ہوگا۔ اسے سمجھنا چاہتے ہو تو اپنے پہلے سے قائم کیے ہوئے قیاسات کو ذہن سے نکال کر اس کی عجیب خصُوصیات سے شناسائی حاصل کرو۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے ناظر کو قرآن کی اصل سے واقف ہو جانا چاہیے۔ وہ خواہ اس پر ایمان لائے یا نہ لائے، مگر اس کتاب کو سمجھنے کے لیے اسے نقطہء آغاز کے طور پر اس کی وہی اصل قبول کرنی ہوگی جو خود اس نے اور اس کے پیش کرنے والے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان کی ہے۔ اور وہ یہ ہے:
۱۔ خدا وندِ عالم نے ، جو ساری کائنات کا خالق اور مالک اور فرمانروا ہے، اپنی بے پایاں مملکت کے اِس حصّے میں ، جسے زمین کہتے ہیں، انسان کو پیدا کیا۔ اُسے جاننے اور سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں دیں۔ بَھلائی اور بُرائی کی تمیز دی۔ انتخاب اور ارادے کی آزادی عطا کی۔ تصرّف کے اختیارات بخشے۔ اور فی الجُملہ ایک طرح کی خود اختیاری دے کر اسے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا۔
۲۔ اس منصب پر انسان کو مقرر کرتے وقت خداوندِ عالم نے اچھی طرح اس کے کان کھول کر یہ بات اس کے ذہن نشین کر دی تھی کہ تمہارا اور تمام جہان کا مالک ، معبُود اور حاکم میں ہوں۔ میری اس سلطنت میں نہ تم خود مختار ہو، نہ کسی دُوسرے کے بندے ہو، اور نہ میرے سوا کوئی تمہاری اطاعت و بندگی اور پرستش کا مستحق ہے۔ دنیا کی زندگی جس میں تمہیں اختیارات دے کر بھیجا جا رہا ہے دراصل تمہارے لیے ایک امتحان کی مدّت ہے جس کے بعد تمہیں میرے پاس واپس آنا ہوگا اور میں تمہارے کام کی جانچ کر کے فیصلہ کر وں گا کہ تم میں سے کون امتحان میں کامیاب رہا ہے اور کون ناکام۔ تمہارے لیے صحیح رویّہ یہ ہے کہ مجھے اپنا واحد معبُود اور حاکم تسلیم کرو۔ جو ہدایت میں بھیجوں اس کے مطابق دنیا میں کام رو، اور دنیا کو دارالامتحان سمجھتے ہوئے اس شعور کے ساتھ زندگی بسر کرو کہ تمہارا اصل مقصد میرے آخری فیصلے میں کامیاب ہونا ہے۔ اس کے برعکس تمہارے لیے ہر وہ رویّہ غلط ہے جو اس سے مختلف ہو۔ اگر پہلا رویّہ اختیار کرو گے ( جسے اختیار کرنے کے لیے تم آزاد ہو) تو تمہیں دنیا میں اطمینان حاصل ہوگا اور جب میرے پاس پلٹ کر آ ؤ گے تو میں تمہیں ابدی راحت و مسرّت کو وہ گھر دُوں گا جس کا نام جنّت ہے۔ اور اگر دُوسرے کسی رویّہ پر چلو گے ( جس پر چلنے کے لیے بھی تم کو آزادی ہے) تو دُنیا میں تم کو فساد اور بے چینی کا مزا چکھنا ہو گا اور دنیا سے گزر کر عالمِ آخرت میں جب آ ؤ گے تو ابدی رنج و مصیبت کے اُس گڑھے میں پھینک دیے جا ؤ گے جس کا نام دوزخ ہے۔
۳۔ یہ فہمائش کر کے مالکِ کائنات نے نوعِ انسانی کو زمین میں جگہ دی اور اس نوع کے اوّلین افراد (آدم اور حوّا) کو وہ ہدایت بھی دے دی جس کے مطابق انہیں اور ان کی اولاد کو زمین میں کام کرنا تھا۔ یہ اوّلین انسان جہالت اور تاریکی کی حالت میں پیدا نہیں ہوئے تحے بلکہ خدا نے زمین پر ان کی زندگی کا آغاز پُوری روشنی میں کیا تھا۔ وہ حقیقت سے واقف تھے۔ انہیں ان کا قانونِ حیات بتا دیا گیا تھا۔ اُن کا طریقِ زندگی خدا کی اطاعت( یعنی اسلام ) تھا، اور وہ اپنی اولاد کو یہی بات سکھا کر گئے کہ وہ مطیعِ خدا (مُسلم) بن کر رہیں۔ لیکن بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ انسان اس صحیح طریقِ زندگی (دین) سے منحرف ہو کر مختلف قسم کے غلط رویّوں کی طرف چل پڑے۔ انہوں نے غفلت سے اس کو گم بھی کیا اور شرارت سے اس کو مَسْخ بھی کر ڈالا۔ انہوں نے خدا کے ساتھ زمین و آسمان کی مختلف انسانی اور غیر انسانی ، خیالی اور مادّی ہستیوں کو خدائی میں شرید ٹھہرا لیا۔ اُنہوں نے خدا کے دیے ہوئے علم ِ حقیقت (العلم) میں طرح طرح کے اوہام اور نظریوں اور فلسفوں کی آمیزش کر کے بے شمار مذاہب پیدا کر لیے۔ انہوں نے خدا کے مقرر کیے ہوئے عادلانہ اُصُولِ اخلاق و تمدّن (شریعت) کو چھوڑ کر یا بگاڑ کر اپنی خواہشاتِ نفس اور اپنے تعصّبات کے مطابق ایسے قوانین ِ زندگی گھڑ لیے جن سے خدا کی زمین ظلم سے بھر گئی۔ ۴۔ خدا نے جو محدُود خود اختیاری انسا ن کو دی تھی اس کے ساتھ یہ بات مطابقت نہ رکھتی تھی کہ وہ اپنی تخلیقی مداخلت سے کام لے کر ان بگڑے ہوئے انسانوں کو زبردستی صحیح رویّہ کی طرف موڑ دیتا۔ اور اس نے دنیا میں کام کرنے کے لیے جو مہلت اس نوع کے لیے اور اس کی مختلف قوموں کے لیے مقرر کی تھی اس کے ساتھ یہ بات بھی مطابقت نہ رکھتی تھی کہ اس بغاوت کے رُونما ہوتے ہی وہ انسانوں کو ہلاک کر دیتا۔ پھر جو کام ابتدائے آفرینش سے اُس نے اپنے ذمّہ لیا تھا وہ یہ تھا کہ انسان کی خوداختیاری کو برقرار رکھتے ہوئے اُس کی مہلتِ عمل کے دوران میں، اُس کی رہنمائی کا انتظام وہ کرتا رہے گا۔ چنانچہ اپنی اِس خود عائد کردہ ذمّہ داری کو ادا کرنے کے لیے اس نے انسانوں ہی میں سے ایسے آدمیوں کو استعمال کرنا شروع کیا جو اُس پر ایمان رکھنے والے اور اس کی رضا کی پیروی کرنے والے تھے۔ اس نے ان کو اپنا نمائندہ بنایا۔ اپنے پیغامات ان کے پاس بھیجے۔ ان کو علمِ حقیقت بخشا۔ انہیں صحیح قانونِ حیات عطا کیا۔ اور انہیں اس کام پر مامور کیا کہ بنی آدم کو اُسی راہِ راست کی طرف پلٹنے کی دعوت دیں جس سے وہ ہٹ گئے تھے۔ ۵۔ یہ پیغمبر مختلف قوموں اور مُلکوں میں اُٹھتے رہے۔ ہزار ہا برس تک ان کی آمد کا سلسلہ چلتا رہا۔ ہزار ہا کی تعداد میں وہ مبعوث ہوئے۔ اُن سب کا ایک ہی دین تھا ، یعنی وہ صحیح رویّہ جو اوّل روز ہی انسان کو بتا دیا گیا تھا۔ وہ سب ایک ہی ہدایت کے پیرو تحے، یعنی اخلاق و تمدّن کے وہ اَزَلی و اَبَدی اُصُول جو آغاز ہی میں انسان کے لیے تجویز کر دیے گئے تھے۔ اور اُن سب کا ایک ہی مِشن تھا، یعنی یہ کہ اِس دین اور اِس ہدایت کی طرف اپنے ابنائے نعو کو دعوت دیں، پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں ان کو منظم کر کے ایک ایسی اُمّت بنائیں جو خود اللہ کے قانون کی پابند ہو اور دنیا میں قانونِ الہٰی کی اطاعت قائم کر نے اور اِس قانون کی خلاف ورزی روکنے کے لیے جدّوجہد کرے۔ ان پیغمبروں نے اپنے اپنے دور میں اپنے اِس مشن کو پُوری خوبی کے ساتھ ادا کیا، مگر ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ انسانوں کی ایک کثیر تعداد تو ان کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ ہی نہ ہوئی اور جنہوں نے اُسے قبول کر کے اُمّتِ مُسْلِمہ کی حیثیت اختیار کی و ہ رفتہ رفتہ خود بگڑتے چلے گئے حتّٰی کہ ان میں سے بعض اُمتیں ہدایتِ الہٰی کو بالکل ہی گم کر بیٹھیں ، اور بعض نے خدا کے ارشادات کو اپنی تحریفات اور آمیزشوں سے مَسْخ کر دیا۔ ۶۔ آخر کا ر خداوندِ عالم نے سرزمینِ عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُسی کام کے لیے مبعوث کیا جس کے لیے پچھلے انبیاء آتے رہے تھے۔ اُن کے مخاطب عام انسان بھی تھے اور پچھلے انبیاء کے بگڑے ہوئے پیرو بھی۔ سب کو صحیح رویّہ کی طرف دعوت دینا، سب کو ازسرِ نو خدا کی ہدایت پہنچا دینا اور جو اس دعوت و ہدایت کو قبول کر یں اُنہیں ایک ایسی اُمّت بنا دینا اُن کا کام تھا جو ایک طرف خود اپنی زندگی کا نظام خدا کی ہدایت پر قائم کرے اور دُوسری طرف دنیا کی اصلاح کے لیے جدّوجہد کرے۔۔۔۔ اسی دعوت اور ہدایت کی کتاب یہ قرآن ہے جو اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔
قرآن کی یہ اصل معلوم ہو جانے کے بعد ناظرین کے لیے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ اس کتاب کا موضوع کیا ہے، اس کا مرکزی مضمُون کیا ہے، اور اس کا مدّعا کیا ہے۔ اُس کا موضوع انسان ہے
اِس اِعتبار سے کہ بلحاظِ حقیقت ِ نفس الامری اُس کی فلاح اور اُس کا خُسران کس چیز میں ہے۔ اُس کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہر بینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے سبب سے انسان نے خدا اور نظامِ کائنات اور اپنی دُنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں، اور اُن نظریات کی بنا پر جو رویّے اختیار کر لیے ہیں وہ سب حقیقت ِ نفسُ الامری کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کُن ہیں۔ حقیقت وہ ہے جو انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بتا دی تھی۔ اور اس حقیقت کے لحاظ سے انسان کے لیے وہی رویّہ درست اور خوش انجام ہے جسے پچھلے صفحات میں ہم ” صحیح رویّہ“ کے نام سے بیان کر چکے ہیں۔ اُس کا مدّعا انسان کو اُس صحیح رویّہ کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اُس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے جسے انسان اپنی غفلت سے گُم اور اپنی شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے۔ اِن تین بنیادی اُمور کو ذہن میں رکھ کر کوئی شخص قرآن کو دیکھے تو اسے صاف نظر آئے گا کہ یہ کتاب کہیں اپنے موضوع اور اپنے مدّعا اور مرکزی مضمُون سے بال برابر بھی نہیں ہٹی ہے۔ اوّل سے لے کر آخر تک اس کے مختلف النّوع مضامین اس کے مرکزی مضمُون کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے ایک ہار کے چھوٹے بڑے رنگ برنگ جواہر ہار کے رشتے میں مربوط و منسلک ہوتے ہیں۔ وہ زمین و آسمان کی ساخت پر ، انسان کی خلقت پر، آثارِ کائنات کے مشاہدات اور گزری ہوئی قوموں کے واقعات پر گفتگو کرتا ہے، مختلف قوموں کے عقائد و اخلاق اور اعمال پر تنقید کرتا ہے، مابعد الطّبیْعی امور و مسائل کی تشریح کرتا ہے، اور بہت سی دُوسری چیزوں کا ذکر بھی کرتا ہے، مگراس لیے نہیں کہ اسے طبیعیات یا تاریخ یا فلسفے یا کسی اور فن کی تعلیم دینی ہے ، بلکہ اس لیے کہ اسے حقیقتِ نفس الامری کے متعلق انسان کی غلط فہمیاں دُور کرنی ہیں، اصل حقیقت لوگوں کے ذہن نشین کرنی ہے، خلافِ حقیقت رویّہ کی غلطی و بد انجامی واضح کرنی ہے، اور اُس رویّہ کی طرف دعوت دینی ہے جو مطابقِ حقیقت اور خوش انجام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر چیز کا ذکر صرف اُس حد تک اوار اُس انداز میں کرتا ہے جو اس کے مدّعا کے لیے ضروری ہے، ہمیشہ ان چیزوں کا ذکر بقدرِ ضرورت کرنے کے بعد غیر متعلق تفصیلات کو چھوڑ کر اپنے مقصد اور مرکزی مضمُون کی طرف رجوع کرتا ہے، اور اس کا سارا بیان انتہائی یکسانی کے ساتھ”دعوت“ کے محور پر گھومتا رہتا ہے۔
مگر قرآن کے طرزِ بیان اور اس کی ترتیب اور اس کے بہت سے مضامین کو آدمی اُس وقت تک اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ اِس کی کیفیت ِ نزول کو بھی اچھی طرح نہ سمجھ لے۔
یہ قرآن اس نوعیّت کی کتاب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اِسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ اِسے شائع کر کے لوگوں کو ایک خاص رویّہ کی طرف بُلائیں ۔ نیز یہ اس نوعیّت کی کتاب بھی نہیں ہے کہ اس میں مصنّفانہ انداز پر کتاب کے موضوع اور مرکزی مضمُون کے متعلق بحث کی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں نہ تصنیفی ترتیب پائی جاتی ہے اور نہ کتابی اُسْلُوب۔ دراصل اِس کی نوعیّت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرب کے شہرِ مکّہ میں اپنے ایک بندے کو پیغمبری کی خدمت کے لیے منتخب کیا اور اُسے حکم دیا کہ اپنے شہر اور اپنے قبیلہ(قریش) سے دعوت کی ابتدا کرے۔ یہ کام شروع کرنے کے لیے آغاز میں جن ہدایات کی ضرورت تھی صرف وہی دی گئیں اور وہ زیادہ تر تین مضمونوں پر مشتمل تھیں: ایک ، پیغمبر کو اس امر کی تعلیم کہ وہ خود اپنے آپ کو اس عظیم الشان کام کے لیے کس طرح تیار کریں اور کِس طرز پر کام کریں۔ دوسرے، حقیقت ِ نفس الامری کے متعلق ابتدائی معلومات اور حقیقت کے بارے میں اُن غلط فہمیوں کی مجمل تردید جو گرد و پیش کے لوگوں میں پائی جاتی تھیں، جن کی وجہ سے اُن کا رویّہ غلط ہو رہا تھا۔ تیسرے، صحیح رویّہ کی طرف دعوت اور ہدایت ِ الہٰی کے اُن بُنیادی اُصُولِ اخلاق کا بیان جن کی پیروی میں انسان کے لیے فلاح و سعادت ہے۔ شروع شروع کے یہ پیغامات ابتدائے دعوت کی مناسبت سے چند چھوٹے چھوٹے مختصر بولوں پر مشتمل ہوتے تھے جن کی زبان نہایت شستہ، نہایت شیریں، نہایت پُر اثر اور مخاطب قوم کے مذاق کے مطابق بہترین ادبی رنگ لیے ہوئے ہوتی تھی تاکہ دلوں میں یہ بول تیر و نشتر کی طرح پیوست ہو جائیں، کان خود بخود ان کے ترنُّم کی وجہ سے ان کی طرف متوجّہ ہوں، اور زبانیں ان کے حُسنِ تناسب کی وجہ سے بے اختیار ہو کر اُنہیں دُہرانے لگیں۔ پھر ان میں مقامی رنگ بہت زیادہ تھا۔ اگرچہ بیان تو کی جارہی تھیں عالمگیر صداقتیں مگر ان کے لیے دلائل و شواہد اور مثالیں اُس قریب ترین ماحول سے لی گئی تھیں جس سے مخاطب لوگ اچھی طرح مانوس تھے۔ اُنہی کی تاریخ، انہی کی روایات، انہی کے روز مرّہ مشاہدہ میں آنے والے آثار اور انہی کی اعتقادی و اخلاقی اور اجتماعی خرابیوں پر ساری گُفتگو تھی تاکہ وہ اس سے اثر لے سکیں۔
دعوت کا یہ ابتدائی مرحلہ تقریباً چار پانچ سال تک جاری رہا ، اور اس مرحلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا ردِّ عمل تین صُورتوں میں ظاہر ہوا:
(۱) چند صالح آدمی اس دعوت کو قبول کر کے اُمّتِ مسلمہ بننے کے لیے تیار ہو گئے۔
(۲) ایک کثیر تعداد جہالت یا خود غرضی یا آبائی طریقے کی محبّت کے سبب سے مخالفت پر آمادہ ہو گئی۔
(۳) مَکّے اور قریش کی حُدُود سے نِکل کر اس نئی دعوت کی آواز نسبتا زیادہ وسیع حلقے میں پہنچنے لگی۔
یہاں سے اس دعوت کا دُوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں اسلام کی اِس تحریک اور پُرانی جاہلیت کے درمیان ایک سخت جاں گُسل کشمکش برپا ہوئی جس کا سلسلہ آٹھ نو سال تک چلتا رہا۔
نہ صرف مکّے میں، نہ صرف قبیلہء قریش میں ، بلکہ عرب کے بیشتر حِصّوں میں بھی جو لوگ پُرانی جاہلیّت کو برقرار رکھنا چاہتے تھے وہ اس تحریک کو بزور مٹا دینے پر تُل گئے۔ اُنہوں نے اسے دبانے کے لیے سارے حربے استعمال کر ڈالے۔ جھُوٹا پروپیگنڈا کیا، الزامات اور شُبہات اور اعتراضات کی بُوچھاڑ کی، عوام الناس کے دلوں میں طرح طرح کی وسوسہ اندازیاں کیں، ناواقف لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سُننے سے روکنے کی کوششیں کیں، اِسلام قبول کرنے والوں پر نہایت وحشیانہ ظلم و ستم ڈھائے، ان کا معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کیا، اور ان کو اتنا تنگ کیا کہ ان میں سے بہت سے لوگ دو دفعہ اپنے گھر چھوڑ کر حبش کی طرف ہجرت کر جانے پر مجبور ہوئے اور بالآخر تیسری مرتبہ ان سب کو مدینےکی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ لیکن اس شدید اور زوز افزوں مزاحمت کے با وجود یہ تحریک پھیلتی چلی گئی۔ مکّے میں کوئی خاندان اور کوئی گھر ایسا نہ رہا جس کے کسی نہ کسی فرد نے اِسلام قبول نہ کر لیا ہو۔ بیشتر مخالفینِ اسلام کی دُشمنی میں شِدّت اور تلخی کی وجہ یہی تھی کہ ان کے اپنے بھائی، بھتیجے، بیٹے، بیٹیاں، بہنیں اور بہنوئی دعوتِ اسلام کے نہ صرف پیرو بلکہ جاں نثار حامی ہوگئے تھے اور ان کے اپنے دل و جگر کے ٹکڑے ہی ان سے برسرِ پیکار ہونے کو تیار تھے۔ پھر لُطف یہ ہے کہ جو لوگ پُرانی جاہلیت سے ٹوٹ ٹوٹ کر اس نوخیز تحریک کی طرف آرہے تھے وہ پہلے بھی اپنی سوسائیٹی کے بہترین لوگ سمجھے جاتے تھے ، اور اس تحریک میں شامل ہونے کے بعد وہ اِتنے نیک، اتنے راستباز اور اتنے پاکیزہ اخلاق کے انسان بن جاتے تھے کہ دنیا اُس دعوت کی برتری محسُوس کیے بغیر نہیں سکتی تھی جو ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور انہیں یہ کچھ بنا رہی تھی۔ اس طویل اور شدید کشمکش کے دوران میں اللہ تعالیٰ حسبِ موقع اور حسبِ ضرورت اپنے نبی پر ایسے پُرجوش خطبے نازل کرتا رہا جن میں دریا کی سی روانی، سیلاب کی سی قوت اور تیز و تند آگ کی سی تاثیر تھی۔
اُن خطبوں میں ایک طرف اہل ایمان کو اُن کے ابتدائی فرائض بتائے گئے، ان کے اندر جماعتی شعُور پیدا کیا گیا، انہیں تقویٰ اور فضیلتِ اخلاق اور پاکیزگی ء سیرت کی تعلیم دی گئی ، ان کو دینِ حق کی تبلیغ کے طریقے بتائے گئے ، کامیابی کے وعدوں اور جنّت کی بشارتوں سے ان کی ہمّت بندھائی گئی، انہیں صبر و ثبات اور بلند حوصلگی کے ساتھ اللہ کی راہ میں جدّوجہد کرنے پر اُبھارا گیا اور فدا کاری کا ایسا زبر دست جوش اور ولولہ اُن میں پیدا کیا گیا کہ وہ ہر مصیبت جھیل جانے اور مخالفت کے بڑے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
دُوسری طرف مخالفین اور راہِ راست سے منہ موڑنے والوں اور غفلت کی نیند سونے والوں کو اُن قوموں کے انجام سے ڈرایا گیا جن کی تاریخ سے وہ خود واقف تھے، اُن تباہ شدہ بستیوں کے آثار سے عبرت دلائی گئی جن کے کھنڈروں پر شب و روز اپنے سفروں میں اُن کا گزر ہوتا تھا ، توحید اور آخرت کی دلیلیں اُن کھلی کھلی نشانیوں سے دی گئیں جو رات دن زمین اور آسمان میں اُن کی آنکھوں کے سامنے نمایاں تھیں اور جن کو وہ خود اپنی زندگی میں بھی ہر وقت دیکھتے اور محسُوس کرتے تھے، شرک اور دعوائے خود مختاری اور انکارِ آخرت اور تقلیدِ آبائی کی غلطیاں ایسے بیّن دلائل سے واضح کی گئیں جو دل کو لگنے اور دماغ میں اُتر جانے والے تھے۔ پھر ان کے ایک ایک شبہ کو رفع کیا گیا، ایک ایک اعتراض کا معقول جواب دیا گیا، ایک ایک اُلجھن جس میں وہ خود پڑے ہوئے تھے یا دُوسروں کو اُلجھانے کی کوشش کرتے تھے، صاف کی گئی، اور ہر طرف سے گھیر کر جاہلیّت کو ایسا تنگ پکڑا گیا کہ عقل و خرد کی دُنیا میں اس کے لیے ٹھہرنے کی کوئی جگہ باقی نہ رہی۔ اس کے ساتھ پھر اُن کو خدا کے غضب اور قیامت کی ہولناکیوں اور جہنّم کے عذاب کا خوف دلایا گیا، ان کے بُرے اخلاق اور غلط طرزِ زندگی اور جاہلانہ رسُوم اورحق دشمنی اور مومن آزاری پر انہیں ملامت کی گئی، اور اخلاق و تمدّن کے وہ بڑے بڑے بنیادی اُصول ان کے سامنے پیش کیے گئے جن پر ہمیشہ سے خدا کی پسندیدہ صالح تہذیبوں کی تعمیر ہوتی چلی آرہی ہے۔ یہ مرحلہ بجائے خود مختلف منزلوں پر مشتمل تھا جن میں سے ہر منزل میں دعوت زیادہ وسیع ہوتی گئی، جِدّوجہد اور مزاحمت زیادہ سخت ہوتی گئی، مختلف عقائد اور مختلف طرزِ عمل رکھنے والے گروہوں سے سابقہ پیش آتا گیا ، اور اسی کی مطابق اللہ کی طرف سے آنے والے پیغامات میں مضامین کا تَنَوُّع بڑھتا گیا۔۔۔۔ یہ ہے قرآن مجید کی مکّی سُورتوں کا پس منظر۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اور بیشتر متّبعینِ اسلام ہجرت کر کے مدینے پہنچ گئے۔ اِس طرح یہ دعوت تیسرے مرحلے میں داخل ہوئی۔
اِس مرحلے میں حالات کا نقشہ بالکل بدل گیا۔ اُمّتِ مُسْلِمَہ ایک باقاعدہ ریاست کی بنا ڈالنے میں کامیاب ہو گئی۔ پُرانی جاہلیّت کے عَلم برداروں سے مُسَلَّح مقابلہ شروع ہوا ۔ پچھلے انبیاء کی اُمّتوں (یہود و نصاریٰ) سے بھی سابقہ پیش آیا۔ خود اُمّتِ مسلمہ کے اندرونی نظام میں مختلف قسم کے منافق گھُس آئے اور ان سے بھی نمٹنا پڑا۔ اور دس سال کی شدید کشمکش سے گزر کر آخرِ کار یہ تحریک کامیابی کی اس منزل پر پہنچی کہ سارا عرب اس کے زیرِ نگیں ہو گیا اور عالمگیر دعوت و اصلاح کے دروازے اس کے سامنے کھُل گئے۔ اِس مرحلے کی بھی مختلف منزلیں تھیں اور ہر منزل میں اِس تحریک کی مخصُوص ضرورتیں تھیں۔ اِن ضرورتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تقریریں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر نازل ہوتی رہیں جن کا انداز کبھی آتشیں خطابت کا، کبھی شاہانہ فرامین و احکام کا، کبھی مُعَلِّمانہ درس و تعلیم کا، اور کبھی مُصْلِحانہ افہام و تفہیم کا ہوتا تھا۔ ان میں بتایا گیا کہ جماعت اور ریاست اور مَد نیّتِ صالحہ کی تعمیر کس طرح کی جائے، زندگی کے مختلف شُعبوں کو کن اُصُول و ضوابط پر قائم کیا جائے ، مُنافقین سے کیا سلوک ہو، ذِمّی کافروں سے کیا برتا ؤ ہو، اہلِ کتاب سے تعلقات کی کیا نوعیت رہے، برسرِ جنگ دُشمنوں اور مُعَاہِد قوموں کے ساتھ کیا طرزِ عمل اختیار کیا جائے، اور مُنَظَّم اہلِ ایمان کا یہ گروہ دنیا میں خداوندِ عالم کی خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے اپنے آپ کو کس طرح تیار کرو۔ اِن تقریروں میں ایک طرف مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی جاتی تھی، ان کی کمزوریوں پر تنبیہ کی جاتی تھی ، ان کو راہِ رخدا میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اُبھارا جاتا تھا، ان کو شکست اور فتح ، مصیبت اور راحت، بدحالی اور خوش حالی، امن اور خوف، غرض ہر حال میں اس کے مناسب اخلاقیات کا درس دیا جاتا تھا، اور انہیں اس طرح تیار کیا جاتا تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد آپ کے جانشین بن کر اس دعوت و اصلاح کے کام کو انجام دے سکیں۔ دُوسری طرف اُن لوگوں کو جو دائرہ ایمان سے باہر تھے، اہلِ کتاب ، منافقین ، کُفّار و مُشْرِ کین ، سب کو ان کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے سمجھنانے ، نرمی سے دعوت دینے، سختی سے ملامت اور نصیحت کرنے، خدا کے عذاب سے ڈرانے اور سبق آموز واقعات و احوال سے عبرت دلانے کی کوشش کی جاتی تھی ، تاکہ ان پر حُجّت تمام کر دی جائے۔ یہ ہے قرآن مجید کی مَدنِی سُورتوں کا پس منظر۔
اِس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید ایک دعوت کے ساتھ اُترنا شروع ہوا ، اور وہ دعوت اپنے آغاز سے لے کر اپنی انتہائی تکمیل تک تئیس سال کی مدّت میں جن جن مرحلوں اور جن جن منزلوں سے گزرتی رہی، ان کی مختلف النَّوع ضرورتوں کے مطابق قرآن کے مختلف حصّے نازل ہوتے رہے۔
ظاہر ہے کہ ایسی کتاب میں وہ تصنیفی ترتیب نہیں ہو سکتی جو ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے لیے کسی مقالے میں اختیار کی جاتی ہے ۔ پھر اس دعوت کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ قرآن کے جو چھوٹے اور بڑے حصّے نازل ہوئے وہ بھی رسالوں کی شکل میں شائع نہیں کیے جاتے تھے، بلکہ تقریروں کی شکل میں بیان کیے جاتے اور اسی شکل میں پھیلائے جاتے تھے، اس لیے ان کا اُسْلُوب بھی تحریری نہ تھا بلکہ خطابت کا اُسْلُوب تھا۔
پھر یہ خطابت بھی ایک پروفیسر کے لیکچروں کی سی نہیں بلکہ ایک داعی کے خطبوں کی سی تھی جسے دل اور دماغ، عقل اور جذبات ، ہر ایک سے اپیل کرنا ہوتا ہے، جس کو ہر قسم کی ذہنیتوں سے سابقہ پیش آتا ہے، جسے اپنی دعوت و تبلیغ اور عملی تحریک کے سلسلے میں بے شمار مختلف حالتوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر ممکن پہلو سے اپنی بات دلوں میں بٹھانا، خیالات کی دُنیا بدلنا، جذبات کا سیلاب اُٹھانا، مخالفتوں کا زور توڑنا، ساتھیوں کی اصلاح و تربیت کرنا اور ان میں جوش اور عزم اُبھارنا، دشمنوں کو دوست، اور منکروں کو مُعترف بنایا، مخالفین کی حُجَّت مُنْقَطع کرنا اور ان کی اخلاقی طاقت کا اِسْتیصال کر دینا، غرض اُسے وہ سب کچھ کرنا ہوتا ہے جو ایک دعوت کے عَلم بردار اور ایک تحریک کے رہنما کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے اللہ نے اس کام کے سلسلے میں اپنے پیغمبر پر جو تقریریں نازل فرمائیں اُن کا طرزِ خطابت وہی تھا جو ایک دعوت کے مناسبِ حال ہوتا ہے ، اُن میں کالج کے لیکچروں کا سا انداز تلاش کرنا صحیح نہیں ہے۔
ایک دعوت اور عملی تحریک کا فطری اقتضا یہ ہے کہ وہ جس وقت جس مرحلے میں ہو اس میں وہی باتیں کہی جائیں جو اُس مرحلے سے مناسبت رکھتی ہوں، اور جب تک دعوت ایک مرحلے میں رہے بعد کے مراحل کی بات نہ چھیڑی جائے بلکہ اُسی مرحلے کی باتوں کا اِعادہ کیا جاتا رہے، خواہ اس میں چند مہینے لگیں یا کئی سال صرف ہو جائیں۔ پھر اگر ایک ہی قسم کی باتوں کا اعادہ ک ایک ہی عبارت اور ایک ہی ڈھنگ پر کیا جاتا رہے تو کان انہیں سُنتے سُنتے تھک جاتے ہیں اور طبیعتیں اُکتانے لگتی ہیں۔ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر مرحلے میں جو باتیں بار بار کہنی ہوں انہیں ہر بار نئے الفاظ، نئے اسلوب، اور نئی آن بان سے کہا جائے تاکہ نہایت خوش گوار طریقے سے وہ دلوں میں بیٹھ جائیں اور دعوت کی ایک ایک منزل اچھی طرح مستحکم ہوتی چلی جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دعوت کی بُنیاد جن عقائد اور اُصُولوں پر ہو اُنہیں پہلے قدم سے آخری منزل تک کسی وقت اور کسی حال میں نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کا اِعادہ بہرحال دعوت کے ہر مرحلے میں ہوتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے ایک مرحلے میں قرآن کی جتنی سُورتیں نازل ہوئی ہیں ان سب میں با لعمُوم ایک ہی قسم کے مضامین الفاظ اور اندازِ بیان بدل بدل کر آئے ہیں۔ مگر توحید اور صفاتِ الہٰی ، آخرت اور اس کی باز پُرس اور جزا و سزا، رسالت اور ایمان بالکتاب، تقویٰ اور صبر و توکّل اور اسی قِسم کے دُوسرے بُنیادی مضامین کی تکرار پُورے قرآن میں نظر آتی ہے کیونکہ اس تحریک کے کسی مرحلے میں بھی ان سے غفلت گوارا نہیں کی جاسکتی تھی۔ یہ بُنیادی تصوّرات اگر ذرا بھی کمزور ہو جاتے تو اسلام کی یہ تحریک اپنی صحیح رُوح کے ساتھ نہ چل سکتی۔
اگر غور کیا جائے تو اِسی بیان سے سوال بھی حال ہو جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے قرآن کو اُسی ترتیب کے ساتھ کیوں نہ مرتّب کر دیا جس کے ساتھ وہ نازل ہوا تھا؟
اُوپر آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ تئیس سال تک قرآن کا نُز ُول اُس ترتیب سے ہوتا رہا جس ترتیب سے دعوت کا آغاز اور اس کا ارتقاء ہوا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ دعوت کی تکمیل کے بعد ان نازل شدہ اجزاء کے لیے وہ ترتیب کِسی طرح درست نہ ہو سکتی تھی جو صر ف ارتقاء دعوت ہی کے ساتھ مناسبت رکھتی تھی۔ اب تو اُن کے لیے ایک دُوسری ہی ترتیب درکار تھی جو تکمیلِ دعوت کے بعد کی صُورت ِ حال کے لیے زیادہ مناسب ہو۔ کیونکہ ابتداء میں اُس کے مخاطبِ اوّل و ہ لوگ تھے جو اسلام سے نا آشنا ئے محض تھے، اس لیے اُس وقت بالکل نقطہء آغاز سے تعلیم و تلقین شروع کی گئی ۔ مگر تکمیلِ دعوت کے بعد اُس کے مخاطبِ اوّل وہ لوگ ہو گئے جو اس پر ایمان لا کر ایک اُمّت بن چکے تھے اور اُس کام کو جاری رکھنے کے ذمّہ دار قرار پائے تھے جسے پیغمبر نے نظریّے اور عمل، دونوں حیثیتوں سے مکمل کر کے ان کے حوالے کیا تھا۔
اب لامحالہ مُقَدَّم چیز یہ ہوگئی کہ پہلے یہ لوگ خود اپنے فرائض سے ، اپنے قوانینِ حیات سے ، اور اُن فتنوں سے جو پچھلے پیغمبروں کی اُمّتوں میں رُونما ہو تے رہے ہیں، اچھی طرح واقف ہو لیں، پھر اسلام سے بیگانہ دنیا کے سامنے خدا کی ہدایت پیش کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ علاوہ بریں قرآن مجید جس طرز کی کتاب ہے اسے اگر آدمی اچھی طرح سمجھ لے تو اس پر خود ہی یہ حقیقت مُنْکَشِف ہو جائے گی کہ ایک ایک طرح کے مضامین کو ایک ایک جگہ جمع کرنا اِس کتاب کے مزاج ہی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس کے مزاج کا تو تقاضا یہی ہے کہ اس کے پڑھنے والے کے سامنے مَدنی مرحلے کی باتیں مکّی دَور والی تعلیم کے درمیان ، اور مکّی مرحلے کی باتیں مَدنی دَور والی تقریروں کے درمیان ، اور ابتدا کی گفتگو ئیں آخر کی تلقینات کے بیچ میں ، اور آخری دَور کی ہدایات آغازِ کار کی تعلیمات کے پہلو میں بار بار آتی چلی جائیں، تاکہ اسلام کا پورا منظر اور جامع نقشہ اس کی نگاہ میں رہے اور کسی وقت بھی وہ یک رُخا نہ ہونے پائے۔
پھر اگر قرآن کو اس کی نزُولی ترتیب پر مرتب کیا بھی جاتا تو وہ ترتیب بعد کے لوگوں کے لیے صرف اُسی صُورت میں بامعنی ہو سکتی تھی جبکہ قرآن کے ساتھ اس کی پوری تاریخِ نزُول اور اس کے ایک ایک جُزء کی کیفیتِ نزُول و شانِ نزُول لکھ کر لگا دی جاتی اور وہ لازمی طور پر قرآن کا ایک ضمیمہ بن کر رہتی۔ یہ بات اُس مقصد کے خلاف تھی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا یہ مجمُوعہ مرتّب اور محفوظ کرایا تھا۔ وہاں تو پیشِ نظر چیز ہی یہ تھی کہ خالِص کلامِ الہٰی بغیر کسی دُوسرے کلام کی آمیزش کے ، اپنی مختصر صُورت میں مرتب ہو، جسے بچّے، جوان، بُوڑھے، عورت، مرد، شہری ، دیہاتی، عامی ، عالِم، سب پڑھیں ، ہر زمانے میں اور ہر جگہ ہر حالت میں پڑھیں، اور ہر مرتبہء عقل و دانش کااندان کم از کم یہ بات ضرور جان لے کہ اُس کا خدا اُس سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد فوت ہو جاتا اگر اس مجمُوعہ ء کلامِ الہٰی کے ساتھ ایک لمبی چوڑی تاریخ بھی لگی ہوئی ہوتی اور اس کی تلاوت بھی لازم کر دی جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب پر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں، وہ اس کتاب کے مقصد و مُدّعا سے صرف نابلد ہی نہیں ہیں، بلکہ کچھ اس غلط فہمی میں بھی مبتلا معلوم ہوتے ہیں کہ یہ کتاب محض علمِ تاریخ اور فلسفہء عمران کے طلبہ ہی کے لیے نازل ہوئی ہے۔
ترتیبِ قرآن کے سلسلے میں یہ بات بھی ناظرین کو معلوم ہونی چاہیے کہ یہ ترتیب بعد کے لوگوں کی دی ہوئی نہیں ہے، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم ہی نے قرآن کو اس طرح مرتّب فرمایا تھا۔
قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی سُورۃ تازل ہوتی تو آپ اُسی وقت اپنے کاتبوں میں سے کسی کو بُلاتے اور اس کو ٹھیک ٹھیک قلمبند کرانے کے بعد ہدایت فرمادیتے کہ یہ سُورۃ فلاں سُورۃ کے بعد اور فلاں سُورۃ سے پہلے رکھی جائے۔ اسی طرح اگر قرآن کا کوئی ایسا حصّہ نازل ہوتا جس کو مستقل سُورۃ بنانا پیشِ نظر نہ ہوتا، تو آپ ہدایت فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سُورۃ میں فلاں مقام پر درج کیا جائے۔ پھر اس ترتیب سے آپ خود بھی نماز میں اور دُوسرے مواقع پر قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے اور اسی ترتیب کے مطابق صحابہء کرام بھی اس کو یاد کرتے تھے۔ لہٰذا یہ ایک ثابِت شُدہ تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن مجید کا نُز ُول جس روز مکمل ہوا اسی روز اس کی ترتیب بھی مکمل ہوگئی۔ جو اس کا نازِل کرنے والا تھا وہی اس کا مرتّب کرنے والا بھی تھا۔ جس کے قلب پروہ نازل کیا گیا اُسی کے ہاتھوں اسے مرتّب بھی کرا دیا گیا۔ کسی دُوسرے کی مجال نہ تھی کہ اس میں مداخلت کرتا۔
چونکہ نماز ابتداء ہی سے مسلمانوں پر فرض ۱؎ تھی، اور تلاوتِ قرآن کو نماز کا ایک ضروری جُزء قرار دیا گیا تھا، اس لیے نزولِ قرآن کے ساتھ ہی مسلمانوں میں حفظِ قرآن کا سلسلہ جاری ہوگیا اور جیسے جیسے قرآن اُترتا گیا مسلمان اس کو یاد بھی کرتے چلے گئے۔
اس طرح قرآن کی حفاظت کا انحصار صرف کھجور کے اُن پتّوں اور ہڈّی اور جھِلّی کے اُن ٹکڑوں ہی پر نہ تھا جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے کاتبوں سے اس کو قلمبند کرایا کرتے تھے، بلکہ وہ اُترتے ہی بیسیوں، پھر سینکڑوں، پھر ہزاروں، پھر لاکھوں دلوں پر نقش ہو جاتا تھا اور کسی شیطان کے لیے اس کا امکان ہی نہ تھا کہ اس میں ایک لفظ کا بھی ردّو بدل کر سکے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی وفات کے بعد جب عرب میں اِرتدار کا طوفان اُٹھا اور اس کے فرو کرنے کے لیے صحابہء کرام کو سخت خونریز لڑائیاں لڑنی پڑیں، تو ان معرکوں میں ایسے صحابہ کی ایک کثیر تعداد شہید ہوگئی جن کو پُورا قرآن حِفظ تھا۔ اِ س سے حضرت عمر ؓ کو خیال پیدا ہوا کہ قرآن کی حفاظت کے معاملے میں صرفف ایک ہی ذریعے پر اعتماد کر لینا مناسب نہیں ہے ، بلکہ الواحِ قلب کے ساتھ ساتھ صفحاتِ قرطاس پر بھی اس کو محفوظ کرنے کا انتظام کر لینا چاہیے ۔ چنانچہ اس کام کی ضرورت انہوں نے حضرت ابو بکر ؓ پر واضح کی اور انہوں نے کچھ تامّل کے بعد اس سے اتفاق کر کے حضرت زید بن ثابت انصاری ؓ کی، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے کاتب (سیکرٹری) رہ چکے تھے اس خدمت پر مامور فرمایا۔ قاعدہ یہ مقرر کیا گیا کہ ایک طرف تو وہ تمام لکھے ہوئے اجزاء فراہم کر لیے جائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے چھوڑے ہیں،دُوسری طرف صحابہء کرام میں سے بھی جس جس کے پاس قرآن یا اس کا کوئی حصّہ لکھا ہوا ملے، وہ ان سے لے لیا جائے ۲؎ ، اور پھر حفّاظ ِ قرآن سے بھی مدد لی جائے، اور ان تینوں ذرائع کی متّفقہ شہادت پر ، کام صحت کا اطمینان کرنے کے بعد ، قرآن کا ایک ایک لفظ مصحف میں ثبت کیا جائے۔ اس تجویز کے مطابق قرآن مجید کا ایک مستند نسخہ تیار کر کے اُمّ المومنین حضرت حفصہ ؓ کے ہاں رکھوا دیا گیا اور لوگوں کو عام اجازت دے دی گئی کہ جو چاہے اس کی نقل کرے اور جو چاہے اِس سے مقابلہ کر کے اپنے نسخے کی تصیح کر لے۔
عرب میں مختلف علاقوں اور قبیلوں کی بولیوں میں ویسے ہی فرق پائے جاتے تھے جیسے ہمارے ملک میں شہر شہر کی بولی اور ضلع ضلع کی بولی میں فرق ہے، حالانکہ زبان سب کی وہی ایک اُردو یا پنجابی یا بنگالی وغیرہ ہے۔ قرآن مجید اگرچہ نازل اُس زبان میں ہوا تھا جو مَکّہ میں قریش کے لوگ بولتے تھے، لیکن ابتداءً اس امر کی اجازت دے دی گئی تھی کہ دُوسرے علاقوں اور قبیلوں کے لوگ اپنے اپنے لہجے اور محاورے کے مطابق اسے پڑھ لیا کریں، کیونکہ اس طرح معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا،
صرف عبارت اُن کے لیے ملائم ہو جاتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ جب اسلام پھیلا اور عرب کے لوگوں نے اپنے ریگستا ن سے نِکل کر دُنیا کے ایک بڑے حصّے کو فتح کر لیا، اور دُوسری قوموں کے لوگ بھی دائرہءِ اِسلام میں آنے لگے، اور بڑے پیمانے پر عرب و عجم کے اِختلاط سے عربی زبان متاثر ہونے لگی، تو یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر اب بھی دُوسرے لہجوں اور محاوروں کے مطابق قرآن پڑھنے کی اجازت باقی رہی تو اس سے طرح طرح کے فتنے کھڑے ہو جائیں گے۔ مثلاً یہ کہ ایک شخص کسی دُوسرے شخص کو غیر مانوس طریقے پر کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہوئے سُنے گا اور یہ سمجھ کر اس سے لڑ پڑے گا کہ وہ دانستہ کلامِ الہٰی میں تحریف کر رہا ہے۔ یا یہ کہ یہ لفظی اختلافات رفتہ رفتہ واقعی تحریفات کا دروازہ کھول دیں گے۔ یا یہ کہ عرب وعجم کے اختلاط سے جن لوگوں کی زبان بگڑے گی وہ اپنی بگڑی ہوئی زبان کے مطابق قرآن میں تصرّف کر کے اس کے حُسنِ کلام کو بغاڑ دیں گے۔
ان وجوہ سے حضرت عثمان ؓ نے صحابہء کرام کے مشورے سے یہ طے کیا کہ تمام ممالکِ اسلامیہ میں صرف اُس معیاری نسخہء قرآن کی نقلیں شائع کی جائیں جو حضرت ابو بکر ؓ کے حکم سے ضبطِ تحریر میں لایا گیا تھا، اور باقی تمام دُوسرے لہجوں اور محاوروں پر لکھے ہوئے مَصاحف کی اشاعت ممنُوع قرار دے دی جائے۔
آج جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے، یہ ٹھیک ٹھیک اُسی مَصْحَفِ صدّیقی کے مطابق ہے جس کی نقلیں حضرت عثمان ؓ نے سرکاری اہتمام سے تمام دیا ر و امصار میں بھجوائی تھیں۔
اِس وقت بھی دُنیا میں متعدّد مقامات پر قرآن کے وہ مستند نسخے موجود ہیں۔ کسی کو اگر قرآن کی محفوظیّت میں ذرہ برابر بھی شک ہو تو وہ اپنا اطمینان اس طرح کر سکتا ہے کہ مغربی افریقہ میں کسی کتاب فروش سے قرآن کا ایک نسخہ خریدے، اور جاوا میں کسی حافظ سے زبانی قرآن سُن کر اس کا مقابلہ کرے، اور پھر دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں میں حضرت عثمان ؓ کے وقت سے لے کر آج تک مختلف صدیوں کے لکھے ہوئے جو مصاحف رکھے ہیں، ان سے اس کا تقابل کر لے۔ اگر کسی حرف یا شوشے کا فرق وہ پائے تو اس کا فرض ہے کہ دُنیا کو اس سب سے بڑے تاریخی انکشاف سے ضرور مطلع کرے۔ کوئی شک نواز قرآن کے مُنَزّل مِنَ اللہ ہونے میں شک کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، لیکن یہ بات کہ جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے یہ بلا کسی کمی بیشی کے ٹھیک وہی قرآن ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے دُنیا کے سامنے پیش کیا تھا، یہ تو ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی دُوسری چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس قدر قطعیِ الثُّبوت ہو۔ اگر کوئی شخص اس کی صحت میں شک کر تا ہے تو وہ پھر اس میں بھی شک کر سکتا ہے کہ رومن امپائر نامی کوئی سلطنت دُنیا میں رہ چکی ہے، اور کبھی مغل ہندوستان پر حکومت کر چکے ہیں، اور ”نپولین“ نام کا کوئی شخص بھی دنیا میں پایا گیا ہے۔ ایسے ایسے تاریخی حقائق پر شکوک کا اظہار کرنا علم کا نہیں، جہالت کا ثبوت ہے۔
قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی طرف دنیا میں بے شمار انسان بے شمار مقاصد لے کر رجوع کرتے ہیں۔ ان سب کی ضروریات اور اغراض کو پیشِ نظر رکھ کر کوئی مشورہ دینا آدمی کے لیے ممکن نہیں ہے۔
طالبوں کے اس ہجوم میں مجھ کو صرف ان لوگوں سے دلچسپی ہے جو اس کو سمجھنا چاہتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کے خواہشمند ہیں کہ یہ کتاب انسان کے مسائل ِ زندگی میں اس کی کیا رہنمائی کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کو میں یہاں طریقِ مطالعہ ء قرآن کے بارے میں کچھ مشورے دُوں گا اور کچھ ان مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کروں گا جو بالعمُوم انسان کو اس معاملہ میں پیش آتی ہیں۔ کوئی شخص چاہے قرآن پر ایمان رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، بہر حال اگر وہ اس کتاب کو فی الواقع سمجھنا چاہتا ہے تو اوّلیں کام اسے یہ کرنا چاہیے کہ اپنے ذہن کو پہلے سے قائم کیے ہوئے تصوّرات سے ، اور موافقانہ یا مخالفانہ اغراض سے جس حد تک ممکن ہو خالی کرے اور سمجھنے کا خالص مقصد لے کر کھُلے دل سے اس کو پڑھنا شروع کرے۔ جو لوگ چند مخصُوص قسم کے خیالات ذہن میں لے کر اس کتاب کو پڑھتے ہیں وہ اس کی سطروں کے درمیان اپنے ہی خیالات پڑھتے چلے جاتے ہیں، قرآن کی اُن کو ہوا بھی نہیں لگنے پاتی۔ یہ طریقِ مطالعہ کسی کتاب کو پڑھنے کے لیے بھی صحیح نہیں ہے، مگر خصُوصیّت کے ساتھ قرآن تو اس طرز کے پڑھنے والوں کے لیے اپنے معانی کے دروازے کھولتا ہی نہیں۔ پھر جو شخص محض سرسری سی واقفیت بہم پہنچانا چاہتا ہو، اُس کے لیے تو شاید ایک دفعہ پڑھ لینا کافی ہو جائے، لیکن جو اس کی گہرائیوں میں اُترنا چاہے اس کے لیے دوچار دفعہ کا پڑھنا بھی کافی نہیں ہوسکتا۔
اس کو بار بار پڑھنا چاہیے، ہر مرتبہ ایک خاص ڈھنگ سے پڑھنا چاہیے، اور ایک طالب ِ علم کی طرح پنسل اور کاپی ساتھ لے کر بیٹھنا چاہیے تاکہ ضروری نِکات توٹ کر تا جائے۔ اِس طرح جو لوگ پڑھنے پر آمادہ ہوں اُن کو کم از کم دو مرتبہ پُورے قرآن کو صرف اس غرض کے لیے پڑھنا چاہیے کہ ان کے سامنے بحیثیت مجموعی وہ پُورا نظامِ فکر وعمل آجائے جسے یہ کتاب پیش کرنا چاہتی ہے۔ اِس ابتدائی مطالعہ کے دَوران میں وہ قرآن کے پُورے منظر پر ایک جامع نظر حاصل کرنے کی کوشش کریں اور یہ دیکھتے جائیں کہ یہ کتاب کیا بُنیادی تصوّرات پیش کرتی ہے اور پھر ان تصوّرات پر کِس قسم کا نظامِ زندگی تعمیر کرتی ہے۔ اِس اثنا میں اگر کسی مقام پر کوئی سوال ذہن میں کھٹکے تو اس پر وہیں اُسی وقت کوئی فیصلہ نہ کر بیٹھیں بلکہ اسے نوٹ کر لیں اور صبر کے ساتھ آگے مطالعہ جاری رکھیں۔ اغلب یہ ہے کہ آگے کہیں نہ کہیں انہیں اس کا جواب مِل جائے گا۔
اگر جواب مِل جائے تو اپنے سوال کے ساتھ اسے نوٹ کر لیں۔ لیکن اگر پہلے مطالعہ کے دَوران میں انہیں اپنے کسی سوال کا جواب نہ ملے تو صبر کے ساتھ دُوسری بار پڑھیں۔ میں اپنے تجربے کی بنا پر یہ کہتا ہوں کہ دُوسری بار کے غائر مطالعہ میں شاذ و نادر ہی کوئی سوال جواب طلب باقی رہ جاتا ہے۔ اِس طرح قرآن پر ایک جامع نظر حاصل کر لینے کے بعد تفصیلی مطالعہ کی ابتدا کر نی چاہیے۔ اس سلسلے میں ناظر کو تعلیماتِ قرآن کا ایک ایک پہلو ذہن نشین کر کے نوٹ کرتے جانا چاہیے۔
مثلاً وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ انسانیت کا کونسا نمو نہ ہے جسے قرآن پسندیدہ قرار دیتاہے اور کس نمونے کے انسان اس کے نزدیک مبغوض و مردُود ہیں۔ اس مضمُون کو اچھی طرح اپنی گرفت میں لانے کے لیے اس کو چاہیے کہ اپنی کاپی پر ایک طرف”پسندیدہ انسان“ اور دُوسری طرف ”نا پسندیدہ انسان“ کی خصُوصیات آمنے سامنے نوٹ کر تا چلا جائے۔ یا مثلاً وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ قرآن کے نزدیک انسان کی فلاح و نجات کا مدار کن اُمُور پر ہے، اور کیا چیزیں ہیں جن کو وہ انسان کے لیے نقصان اور ہلاکت اور بربادی کا موجب قرار دیتا ہے ۔ اس مضمون کو بھی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ جاننے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی کاپی پر”موجباتِ فلاح“ اور”موجباتِ خُسران“ کے دو عنوانات ایک دُوسرے کے مقابل قائم کر لے اور مطالعہ ءِ قرآن کے دَوران دونوں قسم کی چیزوں کو نوٹ کرتا جائے۔ علیٰ ہٰذ ا القیاس عقائد، اخلاق، حقوق، فرائض، معاشرت، تمدّن، معیشت، سیاست، قانون، نظمِ جماعت، صلح، جنگ اور دُوسرے مسائلِ زندگی میں سے ایک ایک کے متعلق قرآن کی ہدایات کو آدمی نوٹ کر تا چلا جائے، اور یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ ان میں سے ہر ہر شعبے کی مجمُوعی شکل کیا بنتی ہے اور پھر ان سب کو مِلا کر جوڑ دینے سے پُورا نقشہء زندگی کِس قسم کا بنتا ہے۔ پھر جب آدمی کسی خاص مسئلہ ء زندگی کے بارے میں تحقیق کرنا چاہے کہ قرآن کا نقطہ ء نظر اس کے متعلق کیا ہے، تو اس کے لیے عمدہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ اس مسئلے کے متعلق قدیم و جدید لٹریچر کا گہرا مطالعہ کر کے واضح طور پر یہ معلوم کر لے کہ اس مسئلے کے بُنیادی نکات کیا ہیں، انسان نے اب تک اس پر کیا سوچا اور سمجھا ہے، کیا اُمور اس میں تصفیہ طلب ہیں، اور کہاں جا کر انسانی فکر کی گاڑی اٹک جاتی ہے۔ اس کے بعد انہی تصفیہ طلب مسائل کو نگاہ میں رکھ کر آدمی کو قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
میرا تجربہ ہے کہ اس طرح جب آدمی کسی مسئلے کی تحقیق کے لیے قرآن پڑھنے بیٹھتا ہے تو اسے ایسی ایسی آیتوں میں اپنے سوالات کا جواب ملتا ہے جنہیں وہ اس سے پہلے بیسیوں مرتبہ پڑھ چکا ہوتا ہے اور کبھی اس کے حاشیہ ء خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ یہاں یہ مضمون بھی چھُپا ہوا ہے۔
یہ محض نظریّات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام دہ کُرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔
یہ دُنیا کے عام تصوّرِ مذہب کے مطابق ایک نِری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کر لیے جائیں۔
جیسا کہ اس مقدمے کے آغاز میں بتایا جا چکا ہے، یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہء عزلت سے نکال کر خدا سے پھِری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علمبردار ان کفر و فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھر گھر سے ایک ایک سعید رُوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیءحق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔
گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کروائی ۔ ایک فردِ واحد کی پُکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافتِ الہٰیہ کے قیام تک پُورے تئیس سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطِل کی اس طویل و جاں گُسل کشمکش کے دَوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔
اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر و دین اور معرکہء اسلام و جاہلیّت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔
اسے تو پُوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوتِ اِلَی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔
تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نُز ُولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکّے اور حبش اور طاء کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بد و اُحُد سے لے کر حُنَین اور تَبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابُو جَہل اور ابُو لَہَب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہُود بھی آپ کو ملیں گے ، اور سابقینِ اوّلین سے لے کر مئولّفتہ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اَور ہی قسم کا ”سُلوک“ ہے ، جس کو میں ”سُلوکِ قرآنی“کہتا ہوں۔ اِس سُلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے ، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔
اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھُپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی رُوح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے۔ پھر اسی کُلّیہ کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات ، اور زندگی کے مختلف پہلو ؤ ں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اُصُول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اُس وقت تک آہی نہیں سکتے جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔
قرآن کے اس دعوے سے ہر کہ و مہ واقف ہے کہ وہ تمام نَوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے آیا ہے ۔ لیکن جب کوئی شخص اس کو پڑھنے بیٹھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کا رُوئے سخن زیادہ تر اپنے زمانہء نُز ُول کے اہلِ عرب کی طرف ہے۔ اگرچہ کبھی کبھی وہ بنی آدم اور عامۃ النّاس کو بھی پکارتا ہے، لیکن اکثر باتیں وہ ایسی کہتا ہے جو عرب کے مذاق، عرب ہی کے ماحول، عرب ہی کی تاریخ ، اور عرب ہی کے رسم و رواج سے ربط و تعلق رکھتی ہیں۔ اِن چیزوں کو دیکھ کر آدمی سوچنے لگتا ہے کہ جو چیز عام انسانوں کی ہدایت کے لیے اُتاری گئی تھی اس میں وقتی اور مقامی اور قومی عنصر اتنا زیادہ کیوں ہے ؟
اس معاملے کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگ اس شک میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید یہ چیز اصل میں تو اپنے ہم عصر اہلِ عرب ہی کی اصلاح کے لیے تھی، لیکن بعد میں زبر دستی کھینچ تان کر اسے تمام انسانوں کے لیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کتاب ِ ہدایت قرار دے دیا گیا۔
جو شخص یہ اعتراض محض اعتراض کی خاطر نہیں اُٹھاتا، بلکہ فی الواقع اسے سمجھنا چاہتا ہے اُسے میں مشورہ دُوں گا کہ وہ پہلے خود قرآن کو پڑھ کر ذرا اُن مقامات پر نشان لگائے جہاں اُس نے کوئی ایسا عقیدہ، یا خیال ، یا تصوّر پیش کیاہو، یا کوئی ایسا اخلاقی اُصُول ، یا عملی قاعدہ و ضابطہ بیان کیا ہو جو صرف عرب ہی کے لیے مخصُوص ہو، اور جس کو وقت اور زمانے اور مقام نے فی الواقع محدُود کر رکھا ہو؟
محض یہ بات کہ وہ ایک خاص مقام اور زمانے کے لوگوں کو خطاب کر کے ان کے مُشْرِکانہ عقائد اور رُسُوم کی تردید کرتا ہے، اور اُنہی کے گردوپیش کی چیزوں کو موادِ استدلال کے طور پر لے کر توحید کے دلائل قائم کر تا ہے، یہ فیصلہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس کی دعوت اور اس کا اپیل بھی وقتی اور مقامی ہے۔
دیکھنا یہ چاہیے کہ شرک کی تردید میں جو کچھ وہ کہتا ہے کیا وہ دُنیا کے ہر شرک پر اُسی طرح چسپاں نہیں ہوتا جس طرح مُشرکینِ عرب کے شرک پر چسپاں ہوتا تھا؟ کیا انہی دلائل کو ہم ہر زمانے اور ہر ملک کے مشرکین کی اصلاحِ خیال کے لیے استعمال نہیں کر سکتے؟
اور کیا اثباتِ توحید کے لیے قرآن کے طرزِ استدلال کو تھوڑے سے ردّوبدل کے ساتھ ہر وقت ہر جگہ کام میں نہیں لایا جا سکتا؟
اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایک عالمگیر تعلیم کو صرف اس بنا پر وقتی و مقامی قرار دیا جائے کہ ایک خاص وقت میں ایک خاص قوم کو خطاب کر کے وہ پیش کی گئی تھی۔ دُنیا کا کوئی فلسفہ اور کوئی نظامِ زندگی اور کوئی مذہب فکر ایسا نہیں ہے جس کی ساری باتیں از اوّل تا آخر تجریدی طرزِ بیان میں پیش کی گئی ہوں اور کسی متعیّن حالت یا صُورت پر اس کو چسپاں کر کے اُن کی توضیح نہ کی گئی ہو۔ ایسی مکمّل تجرید اوّل تو ممکن نہیں ہے، اور ممکن ہو بھی تو جو چیز اِس طریقے پر پیش کی جائے گی وہ صرف صفحہء کاغذ ہی پر رہ جائے گی ، انسانوں کی زندگی میں اس کا جذب ہو کر ایک عملی نظام میں تبدیل ہونا محال ہے۔ پھر کسی فکری و اخلاقی اور تمدّنی تحریک کو اگر بین الاقوامی پیمانے پر پھیلانا مقصود ہو ، تو اس کے لیے بھی یہ قطعاً ضروری نہیں ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ مفید بھی نہیں ہے، کہ شروع سے اس کو بالکل ہی بین الاقوامی بنانے کی کوشش کی جائے۔ در حقیقت اس کا صحیح عملی طریقہ صرف ایک ہی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ جن افکار اور نظریات اور اُصُولوں پر وہ تحریک انسانی زندگی کے نظام کو قائم کرنا چاہتی ہے، انہیں پُوری قوت کے ساتھ خود اس ملک میں پیش کیا جائے جہاں سے اس کی دعوت اُٹھی ہو، ان لوگوں کے ذہن نشین کیا جائے جن کی زبان اور مزاج اور عادات و خصائل سے اس تحریک کے داعی بخوبی واقف ہوں ، اور پھر اپنے ہی ملک میں ان اُصُولوں کو عملاً برت کر اور ان پر ایک کامیاب نظام ِ زندگی چلا کر دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیا جائے۔ تبھی دُوسری قومیں اس کی طرف توجہ کریں گی اور ان کے ذہین آدمی خود آگے بڑھ کر اسے سمجھنے اور اپنے ملک میں رواج دینے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا محض یہ بات کہ کسی نظامِ فکر و عمل کو ابتداءً ایک ہی قوم کے سامنے پیش کیا گیا تھا، اور استدلال کا سارازور اسی کو سمجھانے اور مطمئن کرنے پر صَرف کر دیا گیا تھا ، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ وہ نظامِ فکر و عمل محض قومی ہے۔ فی الواقع جو خصُوصیات ایک قومی نظام کو ایک بین الاقوامی نظام سے اور ایک وقتی نظام کو ایک ابدی نظام سے ممیّز کرتی ہیں وہ یہ ہیں کہ قومی نظام یا تو ایک قوم کی برتری اور اس کے مخصُوص حقوق کا مدعی ہوتا ہے ، یا اپنے اندر کچھ ایسے اُصُول اور نظریات رکھتا ہے جو دوسری اقوام میں نہیں چل سکتے۔ اس کے برعکس جو نظام بین الاقوامی ہوتا ہے وہ تمام انسانوں کو برابر کا درجہ اور برابر کے حقوق دینے کے لیے تیار ہوتا ہے اور اس کے اُصُولوں میں بھی عالمگیریت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک وقتی نظام لازمی طور پر اپنی بُنیاد کچھ ایسے اُصُولوں پر رکھتا ہے جو زمانے کی چند پلٹیوں کے بعد صریحاً ناقابلِ عمل ہو جاتے ہیں، اور اس کے برعکس ایک ابدی نظام کے اُصُول تمام بدلتے ہوئے حالات پر منطبق ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان خصُوصیات کو نگاہ میں رکھ کر کوئی شخص خود قرآن کو پڑھے اور ان چیزوں کو ذرا متعیّن کرنے کی کوشش کرے جن کی بنا پر واقعی یہ گمان کیا جا سکتا ہو کہ قرآن کا پیش کردہ نظام وقتی اور قومی ہے
مگر جب وہ اسے پڑھتا ہے تو اس میں معاشرت اور تمدّن اور سیاست اور معیشت وغیرہ کے تفصیلی احکام و ضوابط اس کو نہیں ملتے۔
بلکہ وہ دیکھتا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ جیسے فرائض کے متعلق بھی ، جن پر قرآن بار بار اس قدر زور دیتا ہے ، اس نے کوئی ایسا ضابطہ تجویز نہیں کیا ہے جس میں تمام ضروری احکام کی تفصیل درج ہو۔
یہ چیز آدمی کے ذہن میں خلجان پیدا کرتی ہے کہ آخر یہ کس معنی میں ہدایات نامہ ہے۔
اس معاملے میں ساری اُلجھن صرف اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ آدمی کی نگاہ سے حقیقت کا ایک پہلو بالکل اوجھل رہ جاتا ہے، یعنی یہ کہ:
الله نے صرف کتاب ہی نازل نہیں کی تھی بلکہ ایک پیغمبر بھی مبعوث فرمایا تھا۔
اگر اصل اسکیم یہ ہو کہ بس ایک نقشہ ء تعمیر لوگوں کو دے دیا جائے اور لوگ اس کے مطابق خود عمارت بنا لیں ، تو اس صُورت میں بلا شبہ تعمیر کے ایک ایک جزُء کی تفصیل ہم کو ملنی چاہیے۔ لیکن جب تعمیری ہدایات کے ساتھ ایک انجینیئر بھی سرکاری طور پر مقرر کیا جائے اور وہ ان ہدایات کے مطابق ایک عمارت بنا کر کھڑی کر دے ، تو پھر انجینیر اور اس کی بنائی ہوئی عمارت کو نظر انداز کر کے صرف نقشے ہی میں تمام جزئیات کی تفصیل تلا ش کرنا ، اور پھر اسے نہ پاکر نقشے کی نا تمامی کا شکوہ کرنا غلط ہے۔
قرآن جزئیات کی کتاب نہیں ہے بلکہ اُصُول اور کُلّیات کی کتاب ہے۔
اس کا اصل کام یہ ہے کہ نظامِ اسلامی کی فکری اور اخلاقی بنیادوں کو پُوری وضاحت کے ساتھ نہ صرف پیش کرے بلکہ عقلی استدلال اور جذباتی اپیل ، دونوں کے ذریعے سے خوب مستحکم بھی کر دے۔ اب رہی اسلامی زندگی کی عملی صُورت، تو اس معاملے میں وہ انسان کی رہنمائی اس طریقے سے نہیں کرتا کہ زندگی کے ایک ایک پہلو کے متعلق تفصیلی ضابطے اور قوانین بتائے، بلکہ وہ ہر شعبہ ء زندگی کے حُدُود اربعہ بتا دیتا ہے اور نمایاں طور پر چند گوشوں میں سنگِ نشان کھڑے کر دیتا ہے جو اس بات کا تعیّن کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ان شعبوں کی تشکیل و تعمیر کن خُطوُط پر ہونی چاہیے۔
ان ہدایات کے مطابق عملاً اسلامی زندگی کی صُورت گری کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا کام تھا ۔ انہیں معمُور ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ دنیا کو اُس انفرادی سیرت و کردار اور اس معاشرے اور ریاست کا نمونہ دکھا دیں جو قرآن کے دیے ہوئے اُصولوں کی عملی تعبیر و تفسیر ہو۔
ایک اور سوال جو بالعموم لوگوں کے ذہن میں کھٹکتا ہے وہ یہ ہے کہ :
ایک طرف تو قرآن اُن لوگوں کی انتہائی مذمت کرتا ہے جو کتاب اللہ کے آجانے کے بعد تفرقے اور اختلاف میں پڑ جاتے ہیں اور اپنے دین کے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں، اور دُوسری طرف قرآن کے احکام کی تعبیر و تفسیر میں صرف متاخّرین ہی نہیں ، ائمّہ اور تابعین اور خود صحابہ تک کے درمیان اتنے اختلافات پائے جاتے ہیں کہ شاید کوئی ایک بھی احکامی آیت ایسی نہ ملے گی جس کی ایک تفسیر بالکل متفق علیہ ہو ۔
کیا یہ سب لوگ اس مذمت کے مصداق ہیں جو قرآن میں وارد ہو ئی ہیں؟
اگر نہیں تو پھر وہ کون سا تفرقہ و اختلاف ہے جس سے قرآن منع کرتا ہے؟
یہ ایک نہایت وسیع الاطراف مسئلہ ہے جس پر مفصّل بحث کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ یہاں قرآن کے ایک عامی طالبِ علم کی اُلجھن دُور کرنے کے لیے صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ:
قرآن اس صحت بخش اختلاف ِ رائے کا مخالف نہیں جو دین میں متفق اور اسلامی نظامِ جماعت متحد رہتے ہوئے محض احکام و قوانین کی تعبیر میں مخلصانہ تحقیق کی بنا پر کیا جائے، بلکہ وہ مذمت اُس اختلاف کی کرتا ہے جو نفسانیت اور کج نگاہی سے شروع ہو اور فرقہ بندی و نزاعِ باہمی تک نوبت پہنچا دے۔
یہ دونوں قسم کے اختلاف نہ اپنی حقیقت میں یکساں ہیں اور نہ اپنے نتائج میں ایک دُوسرے سے کوئی مشابہت رکھتے ہیں کہ دونوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانک دیا جائے۔
پہلی قسم کا اختلاف تو ترقی کی جان اور زندگی کی رُوح ہے۔ وہ ہر اُس سوسائٹی میں پایا جائے گا جو عقل و فکر رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہو۔ اس کا پایا جانا زندگی کی علامت ہے اور اس سے خالی صرف وہی سوسائٹی ہو سکتی ہے جو ذہین انسانوں سے نہیں بلکہ لکڑی کے کُندوں سے مرکّب ہو۔
رہا دُوسری قسم کا اختلاف ، تو ایک دُنیا جانتی ہے کہ اس نے جس گروہ میں بھی سر اُٹھایا اُس کو پراگندہ کر کے چھوڑا۔ اس کا رُونما ہونا صحتِ کی نہیں بلکہ مرض کی علامت ہے ، اور اس کے نتائج کبھی کسی اُمّت کے حق میں بھی مفید نہیں ہو سکتے ۔
ان دونوں قسم کے اختلافات کا فرق واضح طور پر یوں سمجھیے کہ : ایک صُورت تو وہ ہے جس میں خدا اور رسُول کی اطاعت پر جماعت کے سب لوگ منفق ہوں ،
احکام کا ماخذ بھی بالا تفاق قرآن اور سُنّت کو مانا جائے،
اور پھر دو عالم کسی جُزوی مسئلے کی تحقیق میں ، یا دو قاضی کسی مقدمے کے فیصلے میں ایک دُوسرے سے اختلاف کریں، مگر ان میں سے کوئی بھی نہ تو اس مسئلے کو، اور اس میں اپنی رائے کو مدارِ دین بنائے اور نہ اس سے اختلاف کرنے والے کو دین سے خارج قرار دے، بلکہ دونوں اپنے اپنے دلائل دے کر اپنی حد تک تحقیق کا حق ادا کردیں، اور یہ بات رائے عام پر، یا اگر عدالتی مسئلہ ہو تو ملک کی آخری عدالت پر، یا اگر اجتماعی معاملہ ہو تو نظامِ جماعت پر چھوڑ دیں کہ وہ دونوں رایوں میں سے جس کو چاہیں قبول کر یں، یا دونوں کو جائز رکھیں۔
دُوسری صُورت یہ ہے کہ اختلاف سرے سے دین کی بُنیادوں ہی میں کر ڈالا جائے، یا یہ کہ کوئی عالم یا صُوفی یا مفتی یا متکلّم یا لیڈر کسی ایسے مسئلے میں جس کو خدا اور رسُول نے دین کا بُنیادی مسئلہ قرار نہیں دیا تھا، ایک رائے اختیار کرے اور خواہ مخواہ کھینچ تان کر اس کو دین کا بُنیادی مسئلہ بنا ڈالے، اور پھر جو اس سے اختلاف کرے اس کو خارج از دین و مِلّت قرار دے، اور اپنے حامیوں کا ایک جتھا بنا کر کہے کہ اصل اُمّتِ مُسْلِمہ بس یہ ہے اور باقی سب جہنّمی ہیں، اور ہانک پُکار کر کہے کہ مسلم ہے تو بس اس جتھے میں آجا ورنہ تُو مسلم نہی نہیں ہے۔
قرآن نے جہاں کہیں بھی اختلاف اور فرقہ بندی کی مخالفت کی ہے اُس سے اس کی مراد یہ دُوسری قسم کا اختلاف ہی ہے۔
رہا پہلی قسم کا اختلاف ، تو اس کی متعدّد مثالیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے سامنے پیش آچکی تھیں، اور آپؐ نے صرف یہی نہیں کہ اس کو جائز رکھا، بلکہ اس کی تحسین بھی فرمائی۔ اس لیے کہ وہ اختلاف تو اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ جماعت میں غور و فکر اور تحقیق و تجسّس اور فَہْم و تَفَقُّہ کی صلاحیّتیں موجود ہیں ، اور جماعت کے ذہین لوگوں کو اپنے دین سے اور اس کے احکام سے دلچسپی ہے، اور ان کی ذہانتیں اپنے مسائل ِ زندگی کا حل دین کے باہر نہیں بلکہ اس کے اندر ہی تلاش کرتی ہیں، اور جماعت بحیثیتِ مجُموعی اِس زّرین قاعدے پر عامل ہے کہ اُصُول میں متفق رہ کر اپنی وحدت برقرار رکھے اور پھر اپنے اہلِ علم و فکر کو صحیح حُدُود کے اندر تحقیق و اجتہاد کی آزادی دے کر ترقی کے مواقع بھی باقی رکھے۔ ھٰذا ما عندی و العلم عنداللہ، علیْہ تو کلت والیْہ انیب۔
۱؎ واضح رہے کہ پنج وقتہ نماز تو بعثت کے کئی سال بعد فرض ہوئی ، لیکن نماز بجائے خود اوّل روز ہی سے فرض تھی۔ اسلام کی کوئی ساعت کبھی ایسی نہیں گزری ہے جس میں نماز فرض نہ ہو۔ واپس
۲؎ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی زندگی میں متعدّد صحابہ نے قرآن کو یااس کے مختلف اجزاء کو اپنے پاس قلمبند کر کے رکھ چھوڑا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرات عثمان، علی، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عَمرو بن عاص، سالم مولیٰ حُذَیفہ، زید بن ثابت، مُعاذ بن جَبَّل، اُبَیّ بن کعب، اور ابو زید قیس بن السّکن رضی اللہ عنہم کے ناموں کی تصریح ملتی ہے۔
[تفہیم القرآن- از سید ابواعلیٰ مودودی]
____________
- قرآن کِس قسم کی کتاب ہے؟
- اِس کے نُزوُل کی کیفیت اور اس کی ترتیب کی نوعیت کیا ہے؟
- اس کا موضوعِ گفتگو کیا ہے؟
- اس کی ساری بحث کس مُدّعا کے لیے ہے؟
- کس مرکزی مضمون کے ساتھ اس کے پہ بے شمار مختلف النّوع مضامین وابستہ ہیں؟
- کیا طرزِ استدلال اور کیا طرزِ بیان اس نے اپنے مُدّعا کے لیے اختیار کیا ہے؟
وہ اس گمان کے ساتھ مطالعہ شروع کرتا ہے کہ وہ”مذہب کے موضوع پر ایک کتاب“پڑھنے چلا ہے۔”مذہب کا موضوع“ اور ”کتاب“، ان دونوں کا تصوّر اس کے ذہن میں وہی ہوتا ہے جو بالعمُوم ”مذہب“ اور ”کتاب“ کے متعلق ذہنوں میں پایا جاتا ہے۔ مگر جب وہاں اُسے اپنے ذہنی تصوّر سے بالکل ہی مختلف ایک چیز سے سابقہ پیش آتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس سے مانوس نہیں کر سکتا اور سر رشتہ ء مضمون ہاتھ نہ آنے کے باعث بین السّطوریوں میں بھٹکنا شروع کر دیتا ہے جیسے وہ ایک اجنبی مسافر ہے جو کسی نئے شہر کی گلیوں میں کھو گیا ہے۔ اس گم گشتگی سے وہ بچ جائے اگر اسے پہلے ہی یہ بتا دیا جائے کہ تم جس کتاب کو پڑھنے جا رہے ہو وہ تمام دنیا کے لٹریچر میں اپنے طرز کی ایک ہی کتاب ہے ، اس کی ”تصنیف“ دُنیا کی ساری کتابوں سے بالکل مختلف طور پر ہوئی ہے، اپنے موضوع اور مضمون اور ترتیب کے لحاظ سے بھی وہ ایک نرالی چیز ہے، لہٰذا تمہارے ذہن کا وہ ”کتابی “سانچہ جو اب تک کی کُتب بینی سے بنا ہے، اس کتاب کے سمجھنے میں تمہاری مدد نہ کرے گا بلکہ اُلٹا مزاحم ہوگا۔ اسے سمجھنا چاہتے ہو تو اپنے پہلے سے قائم کیے ہوئے قیاسات کو ذہن سے نکال کر اس کی عجیب خصُوصیات سے شناسائی حاصل کرو۔
________
اس سلسلے میں سب سے پہلے ناظر کو قرآن کی اصل سے واقف ہو جانا چاہیے۔ وہ خواہ اس پر ایمان لائے یا نہ لائے، مگر اس کتاب کو سمجھنے کے لیے اسے نقطہء آغاز کے طور پر اس کی وہی اصل قبول کرنی ہوگی جو خود اس نے اور اس کے پیش کرنے والے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان کی ہے۔ اور وہ یہ ہے:
۱۔ خدا وندِ عالم نے ، جو ساری کائنات کا خالق اور مالک اور فرمانروا ہے، اپنی بے پایاں مملکت کے اِس حصّے میں ، جسے زمین کہتے ہیں، انسان کو پیدا کیا۔ اُسے جاننے اور سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں دیں۔ بَھلائی اور بُرائی کی تمیز دی۔ انتخاب اور ارادے کی آزادی عطا کی۔ تصرّف کے اختیارات بخشے۔ اور فی الجُملہ ایک طرح کی خود اختیاری دے کر اسے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا۔
۲۔ اس منصب پر انسان کو مقرر کرتے وقت خداوندِ عالم نے اچھی طرح اس کے کان کھول کر یہ بات اس کے ذہن نشین کر دی تھی کہ تمہارا اور تمام جہان کا مالک ، معبُود اور حاکم میں ہوں۔ میری اس سلطنت میں نہ تم خود مختار ہو، نہ کسی دُوسرے کے بندے ہو، اور نہ میرے سوا کوئی تمہاری اطاعت و بندگی اور پرستش کا مستحق ہے۔ دنیا کی زندگی جس میں تمہیں اختیارات دے کر بھیجا جا رہا ہے دراصل تمہارے لیے ایک امتحان کی مدّت ہے جس کے بعد تمہیں میرے پاس واپس آنا ہوگا اور میں تمہارے کام کی جانچ کر کے فیصلہ کر وں گا کہ تم میں سے کون امتحان میں کامیاب رہا ہے اور کون ناکام۔ تمہارے لیے صحیح رویّہ یہ ہے کہ مجھے اپنا واحد معبُود اور حاکم تسلیم کرو۔ جو ہدایت میں بھیجوں اس کے مطابق دنیا میں کام رو، اور دنیا کو دارالامتحان سمجھتے ہوئے اس شعور کے ساتھ زندگی بسر کرو کہ تمہارا اصل مقصد میرے آخری فیصلے میں کامیاب ہونا ہے۔ اس کے برعکس تمہارے لیے ہر وہ رویّہ غلط ہے جو اس سے مختلف ہو۔ اگر پہلا رویّہ اختیار کرو گے ( جسے اختیار کرنے کے لیے تم آزاد ہو) تو تمہیں دنیا میں اطمینان حاصل ہوگا اور جب میرے پاس پلٹ کر آ ؤ گے تو میں تمہیں ابدی راحت و مسرّت کو وہ گھر دُوں گا جس کا نام جنّت ہے۔ اور اگر دُوسرے کسی رویّہ پر چلو گے ( جس پر چلنے کے لیے بھی تم کو آزادی ہے) تو دُنیا میں تم کو فساد اور بے چینی کا مزا چکھنا ہو گا اور دنیا سے گزر کر عالمِ آخرت میں جب آ ؤ گے تو ابدی رنج و مصیبت کے اُس گڑھے میں پھینک دیے جا ؤ گے جس کا نام دوزخ ہے۔
۳۔ یہ فہمائش کر کے مالکِ کائنات نے نوعِ انسانی کو زمین میں جگہ دی اور اس نوع کے اوّلین افراد (آدم اور حوّا) کو وہ ہدایت بھی دے دی جس کے مطابق انہیں اور ان کی اولاد کو زمین میں کام کرنا تھا۔ یہ اوّلین انسان جہالت اور تاریکی کی حالت میں پیدا نہیں ہوئے تحے بلکہ خدا نے زمین پر ان کی زندگی کا آغاز پُوری روشنی میں کیا تھا۔ وہ حقیقت سے واقف تھے۔ انہیں ان کا قانونِ حیات بتا دیا گیا تھا۔ اُن کا طریقِ زندگی خدا کی اطاعت( یعنی اسلام ) تھا، اور وہ اپنی اولاد کو یہی بات سکھا کر گئے کہ وہ مطیعِ خدا (مُسلم) بن کر رہیں۔ لیکن بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ انسان اس صحیح طریقِ زندگی (دین) سے منحرف ہو کر مختلف قسم کے غلط رویّوں کی طرف چل پڑے۔ انہوں نے غفلت سے اس کو گم بھی کیا اور شرارت سے اس کو مَسْخ بھی کر ڈالا۔ انہوں نے خدا کے ساتھ زمین و آسمان کی مختلف انسانی اور غیر انسانی ، خیالی اور مادّی ہستیوں کو خدائی میں شرید ٹھہرا لیا۔ اُنہوں نے خدا کے دیے ہوئے علم ِ حقیقت (العلم) میں طرح طرح کے اوہام اور نظریوں اور فلسفوں کی آمیزش کر کے بے شمار مذاہب پیدا کر لیے۔ انہوں نے خدا کے مقرر کیے ہوئے عادلانہ اُصُولِ اخلاق و تمدّن (شریعت) کو چھوڑ کر یا بگاڑ کر اپنی خواہشاتِ نفس اور اپنے تعصّبات کے مطابق ایسے قوانین ِ زندگی گھڑ لیے جن سے خدا کی زمین ظلم سے بھر گئی۔ ۴۔ خدا نے جو محدُود خود اختیاری انسا ن کو دی تھی اس کے ساتھ یہ بات مطابقت نہ رکھتی تھی کہ وہ اپنی تخلیقی مداخلت سے کام لے کر ان بگڑے ہوئے انسانوں کو زبردستی صحیح رویّہ کی طرف موڑ دیتا۔ اور اس نے دنیا میں کام کرنے کے لیے جو مہلت اس نوع کے لیے اور اس کی مختلف قوموں کے لیے مقرر کی تھی اس کے ساتھ یہ بات بھی مطابقت نہ رکھتی تھی کہ اس بغاوت کے رُونما ہوتے ہی وہ انسانوں کو ہلاک کر دیتا۔ پھر جو کام ابتدائے آفرینش سے اُس نے اپنے ذمّہ لیا تھا وہ یہ تھا کہ انسان کی خوداختیاری کو برقرار رکھتے ہوئے اُس کی مہلتِ عمل کے دوران میں، اُس کی رہنمائی کا انتظام وہ کرتا رہے گا۔ چنانچہ اپنی اِس خود عائد کردہ ذمّہ داری کو ادا کرنے کے لیے اس نے انسانوں ہی میں سے ایسے آدمیوں کو استعمال کرنا شروع کیا جو اُس پر ایمان رکھنے والے اور اس کی رضا کی پیروی کرنے والے تھے۔ اس نے ان کو اپنا نمائندہ بنایا۔ اپنے پیغامات ان کے پاس بھیجے۔ ان کو علمِ حقیقت بخشا۔ انہیں صحیح قانونِ حیات عطا کیا۔ اور انہیں اس کام پر مامور کیا کہ بنی آدم کو اُسی راہِ راست کی طرف پلٹنے کی دعوت دیں جس سے وہ ہٹ گئے تھے۔ ۵۔ یہ پیغمبر مختلف قوموں اور مُلکوں میں اُٹھتے رہے۔ ہزار ہا برس تک ان کی آمد کا سلسلہ چلتا رہا۔ ہزار ہا کی تعداد میں وہ مبعوث ہوئے۔ اُن سب کا ایک ہی دین تھا ، یعنی وہ صحیح رویّہ جو اوّل روز ہی انسان کو بتا دیا گیا تھا۔ وہ سب ایک ہی ہدایت کے پیرو تحے، یعنی اخلاق و تمدّن کے وہ اَزَلی و اَبَدی اُصُول جو آغاز ہی میں انسان کے لیے تجویز کر دیے گئے تھے۔ اور اُن سب کا ایک ہی مِشن تھا، یعنی یہ کہ اِس دین اور اِس ہدایت کی طرف اپنے ابنائے نعو کو دعوت دیں، پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں ان کو منظم کر کے ایک ایسی اُمّت بنائیں جو خود اللہ کے قانون کی پابند ہو اور دنیا میں قانونِ الہٰی کی اطاعت قائم کر نے اور اِس قانون کی خلاف ورزی روکنے کے لیے جدّوجہد کرے۔ ان پیغمبروں نے اپنے اپنے دور میں اپنے اِس مشن کو پُوری خوبی کے ساتھ ادا کیا، مگر ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ انسانوں کی ایک کثیر تعداد تو ان کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ ہی نہ ہوئی اور جنہوں نے اُسے قبول کر کے اُمّتِ مُسْلِمہ کی حیثیت اختیار کی و ہ رفتہ رفتہ خود بگڑتے چلے گئے حتّٰی کہ ان میں سے بعض اُمتیں ہدایتِ الہٰی کو بالکل ہی گم کر بیٹھیں ، اور بعض نے خدا کے ارشادات کو اپنی تحریفات اور آمیزشوں سے مَسْخ کر دیا۔ ۶۔ آخر کا ر خداوندِ عالم نے سرزمینِ عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُسی کام کے لیے مبعوث کیا جس کے لیے پچھلے انبیاء آتے رہے تھے۔ اُن کے مخاطب عام انسان بھی تھے اور پچھلے انبیاء کے بگڑے ہوئے پیرو بھی۔ سب کو صحیح رویّہ کی طرف دعوت دینا، سب کو ازسرِ نو خدا کی ہدایت پہنچا دینا اور جو اس دعوت و ہدایت کو قبول کر یں اُنہیں ایک ایسی اُمّت بنا دینا اُن کا کام تھا جو ایک طرف خود اپنی زندگی کا نظام خدا کی ہدایت پر قائم کرے اور دُوسری طرف دنیا کی اصلاح کے لیے جدّوجہد کرے۔۔۔۔ اسی دعوت اور ہدایت کی کتاب یہ قرآن ہے جو اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔
__________
قرآن کی یہ اصل معلوم ہو جانے کے بعد ناظرین کے لیے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ اس کتاب کا موضوع کیا ہے، اس کا مرکزی مضمُون کیا ہے، اور اس کا مدّعا کیا ہے۔ اُس کا موضوع انسان ہے
اِس اِعتبار سے کہ بلحاظِ حقیقت ِ نفس الامری اُس کی فلاح اور اُس کا خُسران کس چیز میں ہے۔ اُس کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہر بینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے سبب سے انسان نے خدا اور نظامِ کائنات اور اپنی دُنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں، اور اُن نظریات کی بنا پر جو رویّے اختیار کر لیے ہیں وہ سب حقیقت ِ نفسُ الامری کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کُن ہیں۔ حقیقت وہ ہے جو انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بتا دی تھی۔ اور اس حقیقت کے لحاظ سے انسان کے لیے وہی رویّہ درست اور خوش انجام ہے جسے پچھلے صفحات میں ہم ” صحیح رویّہ“ کے نام سے بیان کر چکے ہیں۔ اُس کا مدّعا انسان کو اُس صحیح رویّہ کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اُس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے جسے انسان اپنی غفلت سے گُم اور اپنی شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے۔ اِن تین بنیادی اُمور کو ذہن میں رکھ کر کوئی شخص قرآن کو دیکھے تو اسے صاف نظر آئے گا کہ یہ کتاب کہیں اپنے موضوع اور اپنے مدّعا اور مرکزی مضمُون سے بال برابر بھی نہیں ہٹی ہے۔ اوّل سے لے کر آخر تک اس کے مختلف النّوع مضامین اس کے مرکزی مضمُون کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے ایک ہار کے چھوٹے بڑے رنگ برنگ جواہر ہار کے رشتے میں مربوط و منسلک ہوتے ہیں۔ وہ زمین و آسمان کی ساخت پر ، انسان کی خلقت پر، آثارِ کائنات کے مشاہدات اور گزری ہوئی قوموں کے واقعات پر گفتگو کرتا ہے، مختلف قوموں کے عقائد و اخلاق اور اعمال پر تنقید کرتا ہے، مابعد الطّبیْعی امور و مسائل کی تشریح کرتا ہے، اور بہت سی دُوسری چیزوں کا ذکر بھی کرتا ہے، مگراس لیے نہیں کہ اسے طبیعیات یا تاریخ یا فلسفے یا کسی اور فن کی تعلیم دینی ہے ، بلکہ اس لیے کہ اسے حقیقتِ نفس الامری کے متعلق انسان کی غلط فہمیاں دُور کرنی ہیں، اصل حقیقت لوگوں کے ذہن نشین کرنی ہے، خلافِ حقیقت رویّہ کی غلطی و بد انجامی واضح کرنی ہے، اور اُس رویّہ کی طرف دعوت دینی ہے جو مطابقِ حقیقت اور خوش انجام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر چیز کا ذکر صرف اُس حد تک اوار اُس انداز میں کرتا ہے جو اس کے مدّعا کے لیے ضروری ہے، ہمیشہ ان چیزوں کا ذکر بقدرِ ضرورت کرنے کے بعد غیر متعلق تفصیلات کو چھوڑ کر اپنے مقصد اور مرکزی مضمُون کی طرف رجوع کرتا ہے، اور اس کا سارا بیان انتہائی یکسانی کے ساتھ”دعوت“ کے محور پر گھومتا رہتا ہے۔
___________
مگر قرآن کے طرزِ بیان اور اس کی ترتیب اور اس کے بہت سے مضامین کو آدمی اُس وقت تک اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ اِس کی کیفیت ِ نزول کو بھی اچھی طرح نہ سمجھ لے۔
یہ قرآن اس نوعیّت کی کتاب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اِسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ اِسے شائع کر کے لوگوں کو ایک خاص رویّہ کی طرف بُلائیں ۔ نیز یہ اس نوعیّت کی کتاب بھی نہیں ہے کہ اس میں مصنّفانہ انداز پر کتاب کے موضوع اور مرکزی مضمُون کے متعلق بحث کی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں نہ تصنیفی ترتیب پائی جاتی ہے اور نہ کتابی اُسْلُوب۔ دراصل اِس کی نوعیّت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرب کے شہرِ مکّہ میں اپنے ایک بندے کو پیغمبری کی خدمت کے لیے منتخب کیا اور اُسے حکم دیا کہ اپنے شہر اور اپنے قبیلہ(قریش) سے دعوت کی ابتدا کرے۔ یہ کام شروع کرنے کے لیے آغاز میں جن ہدایات کی ضرورت تھی صرف وہی دی گئیں اور وہ زیادہ تر تین مضمونوں پر مشتمل تھیں: ایک ، پیغمبر کو اس امر کی تعلیم کہ وہ خود اپنے آپ کو اس عظیم الشان کام کے لیے کس طرح تیار کریں اور کِس طرز پر کام کریں۔ دوسرے، حقیقت ِ نفس الامری کے متعلق ابتدائی معلومات اور حقیقت کے بارے میں اُن غلط فہمیوں کی مجمل تردید جو گرد و پیش کے لوگوں میں پائی جاتی تھیں، جن کی وجہ سے اُن کا رویّہ غلط ہو رہا تھا۔ تیسرے، صحیح رویّہ کی طرف دعوت اور ہدایت ِ الہٰی کے اُن بُنیادی اُصُولِ اخلاق کا بیان جن کی پیروی میں انسان کے لیے فلاح و سعادت ہے۔ شروع شروع کے یہ پیغامات ابتدائے دعوت کی مناسبت سے چند چھوٹے چھوٹے مختصر بولوں پر مشتمل ہوتے تھے جن کی زبان نہایت شستہ، نہایت شیریں، نہایت پُر اثر اور مخاطب قوم کے مذاق کے مطابق بہترین ادبی رنگ لیے ہوئے ہوتی تھی تاکہ دلوں میں یہ بول تیر و نشتر کی طرح پیوست ہو جائیں، کان خود بخود ان کے ترنُّم کی وجہ سے ان کی طرف متوجّہ ہوں، اور زبانیں ان کے حُسنِ تناسب کی وجہ سے بے اختیار ہو کر اُنہیں دُہرانے لگیں۔ پھر ان میں مقامی رنگ بہت زیادہ تھا۔ اگرچہ بیان تو کی جارہی تھیں عالمگیر صداقتیں مگر ان کے لیے دلائل و شواہد اور مثالیں اُس قریب ترین ماحول سے لی گئی تھیں جس سے مخاطب لوگ اچھی طرح مانوس تھے۔ اُنہی کی تاریخ، انہی کی روایات، انہی کے روز مرّہ مشاہدہ میں آنے والے آثار اور انہی کی اعتقادی و اخلاقی اور اجتماعی خرابیوں پر ساری گُفتگو تھی تاکہ وہ اس سے اثر لے سکیں۔
دعوت کا یہ ابتدائی مرحلہ تقریباً چار پانچ سال تک جاری رہا ، اور اس مرحلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا ردِّ عمل تین صُورتوں میں ظاہر ہوا:
(۱) چند صالح آدمی اس دعوت کو قبول کر کے اُمّتِ مسلمہ بننے کے لیے تیار ہو گئے۔
(۲) ایک کثیر تعداد جہالت یا خود غرضی یا آبائی طریقے کی محبّت کے سبب سے مخالفت پر آمادہ ہو گئی۔
(۳) مَکّے اور قریش کی حُدُود سے نِکل کر اس نئی دعوت کی آواز نسبتا زیادہ وسیع حلقے میں پہنچنے لگی۔
_____________
یہاں سے اس دعوت کا دُوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں اسلام کی اِس تحریک اور پُرانی جاہلیت کے درمیان ایک سخت جاں گُسل کشمکش برپا ہوئی جس کا سلسلہ آٹھ نو سال تک چلتا رہا۔
نہ صرف مکّے میں، نہ صرف قبیلہء قریش میں ، بلکہ عرب کے بیشتر حِصّوں میں بھی جو لوگ پُرانی جاہلیّت کو برقرار رکھنا چاہتے تھے وہ اس تحریک کو بزور مٹا دینے پر تُل گئے۔ اُنہوں نے اسے دبانے کے لیے سارے حربے استعمال کر ڈالے۔ جھُوٹا پروپیگنڈا کیا، الزامات اور شُبہات اور اعتراضات کی بُوچھاڑ کی، عوام الناس کے دلوں میں طرح طرح کی وسوسہ اندازیاں کیں، ناواقف لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سُننے سے روکنے کی کوششیں کیں، اِسلام قبول کرنے والوں پر نہایت وحشیانہ ظلم و ستم ڈھائے، ان کا معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کیا، اور ان کو اتنا تنگ کیا کہ ان میں سے بہت سے لوگ دو دفعہ اپنے گھر چھوڑ کر حبش کی طرف ہجرت کر جانے پر مجبور ہوئے اور بالآخر تیسری مرتبہ ان سب کو مدینےکی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ لیکن اس شدید اور زوز افزوں مزاحمت کے با وجود یہ تحریک پھیلتی چلی گئی۔ مکّے میں کوئی خاندان اور کوئی گھر ایسا نہ رہا جس کے کسی نہ کسی فرد نے اِسلام قبول نہ کر لیا ہو۔ بیشتر مخالفینِ اسلام کی دُشمنی میں شِدّت اور تلخی کی وجہ یہی تھی کہ ان کے اپنے بھائی، بھتیجے، بیٹے، بیٹیاں، بہنیں اور بہنوئی دعوتِ اسلام کے نہ صرف پیرو بلکہ جاں نثار حامی ہوگئے تھے اور ان کے اپنے دل و جگر کے ٹکڑے ہی ان سے برسرِ پیکار ہونے کو تیار تھے۔ پھر لُطف یہ ہے کہ جو لوگ پُرانی جاہلیت سے ٹوٹ ٹوٹ کر اس نوخیز تحریک کی طرف آرہے تھے وہ پہلے بھی اپنی سوسائیٹی کے بہترین لوگ سمجھے جاتے تھے ، اور اس تحریک میں شامل ہونے کے بعد وہ اِتنے نیک، اتنے راستباز اور اتنے پاکیزہ اخلاق کے انسان بن جاتے تھے کہ دنیا اُس دعوت کی برتری محسُوس کیے بغیر نہیں سکتی تھی جو ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور انہیں یہ کچھ بنا رہی تھی۔ اس طویل اور شدید کشمکش کے دوران میں اللہ تعالیٰ حسبِ موقع اور حسبِ ضرورت اپنے نبی پر ایسے پُرجوش خطبے نازل کرتا رہا جن میں دریا کی سی روانی، سیلاب کی سی قوت اور تیز و تند آگ کی سی تاثیر تھی۔
اُن خطبوں میں ایک طرف اہل ایمان کو اُن کے ابتدائی فرائض بتائے گئے، ان کے اندر جماعتی شعُور پیدا کیا گیا، انہیں تقویٰ اور فضیلتِ اخلاق اور پاکیزگی ء سیرت کی تعلیم دی گئی ، ان کو دینِ حق کی تبلیغ کے طریقے بتائے گئے ، کامیابی کے وعدوں اور جنّت کی بشارتوں سے ان کی ہمّت بندھائی گئی، انہیں صبر و ثبات اور بلند حوصلگی کے ساتھ اللہ کی راہ میں جدّوجہد کرنے پر اُبھارا گیا اور فدا کاری کا ایسا زبر دست جوش اور ولولہ اُن میں پیدا کیا گیا کہ وہ ہر مصیبت جھیل جانے اور مخالفت کے بڑے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
دُوسری طرف مخالفین اور راہِ راست سے منہ موڑنے والوں اور غفلت کی نیند سونے والوں کو اُن قوموں کے انجام سے ڈرایا گیا جن کی تاریخ سے وہ خود واقف تھے، اُن تباہ شدہ بستیوں کے آثار سے عبرت دلائی گئی جن کے کھنڈروں پر شب و روز اپنے سفروں میں اُن کا گزر ہوتا تھا ، توحید اور آخرت کی دلیلیں اُن کھلی کھلی نشانیوں سے دی گئیں جو رات دن زمین اور آسمان میں اُن کی آنکھوں کے سامنے نمایاں تھیں اور جن کو وہ خود اپنی زندگی میں بھی ہر وقت دیکھتے اور محسُوس کرتے تھے، شرک اور دعوائے خود مختاری اور انکارِ آخرت اور تقلیدِ آبائی کی غلطیاں ایسے بیّن دلائل سے واضح کی گئیں جو دل کو لگنے اور دماغ میں اُتر جانے والے تھے۔ پھر ان کے ایک ایک شبہ کو رفع کیا گیا، ایک ایک اعتراض کا معقول جواب دیا گیا، ایک ایک اُلجھن جس میں وہ خود پڑے ہوئے تھے یا دُوسروں کو اُلجھانے کی کوشش کرتے تھے، صاف کی گئی، اور ہر طرف سے گھیر کر جاہلیّت کو ایسا تنگ پکڑا گیا کہ عقل و خرد کی دُنیا میں اس کے لیے ٹھہرنے کی کوئی جگہ باقی نہ رہی۔ اس کے ساتھ پھر اُن کو خدا کے غضب اور قیامت کی ہولناکیوں اور جہنّم کے عذاب کا خوف دلایا گیا، ان کے بُرے اخلاق اور غلط طرزِ زندگی اور جاہلانہ رسُوم اورحق دشمنی اور مومن آزاری پر انہیں ملامت کی گئی، اور اخلاق و تمدّن کے وہ بڑے بڑے بنیادی اُصول ان کے سامنے پیش کیے گئے جن پر ہمیشہ سے خدا کی پسندیدہ صالح تہذیبوں کی تعمیر ہوتی چلی آرہی ہے۔ یہ مرحلہ بجائے خود مختلف منزلوں پر مشتمل تھا جن میں سے ہر منزل میں دعوت زیادہ وسیع ہوتی گئی، جِدّوجہد اور مزاحمت زیادہ سخت ہوتی گئی، مختلف عقائد اور مختلف طرزِ عمل رکھنے والے گروہوں سے سابقہ پیش آتا گیا ، اور اسی کی مطابق اللہ کی طرف سے آنے والے پیغامات میں مضامین کا تَنَوُّع بڑھتا گیا۔۔۔۔ یہ ہے قرآن مجید کی مکّی سُورتوں کا پس منظر۔
___________
مکّہ میں اس تحریک کو اپنا کام کرتے ہوئے تیرہ سال گزر چکے تھے کہ یکایک مدینے میں اس کو ایک ایسا مرکز بہم پہنچ گیا جہاں اس کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ عرب کے تمام حصّوں سے اپنے پیرووں کو سمیٹ کر ایک جگہ اپنی طاقت مجتمع کر لے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اور بیشتر متّبعینِ اسلام ہجرت کر کے مدینے پہنچ گئے۔ اِس طرح یہ دعوت تیسرے مرحلے میں داخل ہوئی۔
اِس مرحلے میں حالات کا نقشہ بالکل بدل گیا۔ اُمّتِ مُسْلِمَہ ایک باقاعدہ ریاست کی بنا ڈالنے میں کامیاب ہو گئی۔ پُرانی جاہلیّت کے عَلم برداروں سے مُسَلَّح مقابلہ شروع ہوا ۔ پچھلے انبیاء کی اُمّتوں (یہود و نصاریٰ) سے بھی سابقہ پیش آیا۔ خود اُمّتِ مسلمہ کے اندرونی نظام میں مختلف قسم کے منافق گھُس آئے اور ان سے بھی نمٹنا پڑا۔ اور دس سال کی شدید کشمکش سے گزر کر آخرِ کار یہ تحریک کامیابی کی اس منزل پر پہنچی کہ سارا عرب اس کے زیرِ نگیں ہو گیا اور عالمگیر دعوت و اصلاح کے دروازے اس کے سامنے کھُل گئے۔ اِس مرحلے کی بھی مختلف منزلیں تھیں اور ہر منزل میں اِس تحریک کی مخصُوص ضرورتیں تھیں۔ اِن ضرورتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تقریریں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر نازل ہوتی رہیں جن کا انداز کبھی آتشیں خطابت کا، کبھی شاہانہ فرامین و احکام کا، کبھی مُعَلِّمانہ درس و تعلیم کا، اور کبھی مُصْلِحانہ افہام و تفہیم کا ہوتا تھا۔ ان میں بتایا گیا کہ جماعت اور ریاست اور مَد نیّتِ صالحہ کی تعمیر کس طرح کی جائے، زندگی کے مختلف شُعبوں کو کن اُصُول و ضوابط پر قائم کیا جائے ، مُنافقین سے کیا سلوک ہو، ذِمّی کافروں سے کیا برتا ؤ ہو، اہلِ کتاب سے تعلقات کی کیا نوعیت رہے، برسرِ جنگ دُشمنوں اور مُعَاہِد قوموں کے ساتھ کیا طرزِ عمل اختیار کیا جائے، اور مُنَظَّم اہلِ ایمان کا یہ گروہ دنیا میں خداوندِ عالم کی خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے اپنے آپ کو کس طرح تیار کرو۔ اِن تقریروں میں ایک طرف مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی جاتی تھی، ان کی کمزوریوں پر تنبیہ کی جاتی تھی ، ان کو راہِ رخدا میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اُبھارا جاتا تھا، ان کو شکست اور فتح ، مصیبت اور راحت، بدحالی اور خوش حالی، امن اور خوف، غرض ہر حال میں اس کے مناسب اخلاقیات کا درس دیا جاتا تھا، اور انہیں اس طرح تیار کیا جاتا تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد آپ کے جانشین بن کر اس دعوت و اصلاح کے کام کو انجام دے سکیں۔ دُوسری طرف اُن لوگوں کو جو دائرہ ایمان سے باہر تھے، اہلِ کتاب ، منافقین ، کُفّار و مُشْرِ کین ، سب کو ان کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے سمجھنانے ، نرمی سے دعوت دینے، سختی سے ملامت اور نصیحت کرنے، خدا کے عذاب سے ڈرانے اور سبق آموز واقعات و احوال سے عبرت دلانے کی کوشش کی جاتی تھی ، تاکہ ان پر حُجّت تمام کر دی جائے۔ یہ ہے قرآن مجید کی مَدنِی سُورتوں کا پس منظر۔
_____________
اِس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید ایک دعوت کے ساتھ اُترنا شروع ہوا ، اور وہ دعوت اپنے آغاز سے لے کر اپنی انتہائی تکمیل تک تئیس سال کی مدّت میں جن جن مرحلوں اور جن جن منزلوں سے گزرتی رہی، ان کی مختلف النَّوع ضرورتوں کے مطابق قرآن کے مختلف حصّے نازل ہوتے رہے۔
ظاہر ہے کہ ایسی کتاب میں وہ تصنیفی ترتیب نہیں ہو سکتی جو ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے لیے کسی مقالے میں اختیار کی جاتی ہے ۔ پھر اس دعوت کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ قرآن کے جو چھوٹے اور بڑے حصّے نازل ہوئے وہ بھی رسالوں کی شکل میں شائع نہیں کیے جاتے تھے، بلکہ تقریروں کی شکل میں بیان کیے جاتے اور اسی شکل میں پھیلائے جاتے تھے، اس لیے ان کا اُسْلُوب بھی تحریری نہ تھا بلکہ خطابت کا اُسْلُوب تھا۔
پھر یہ خطابت بھی ایک پروفیسر کے لیکچروں کی سی نہیں بلکہ ایک داعی کے خطبوں کی سی تھی جسے دل اور دماغ، عقل اور جذبات ، ہر ایک سے اپیل کرنا ہوتا ہے، جس کو ہر قسم کی ذہنیتوں سے سابقہ پیش آتا ہے، جسے اپنی دعوت و تبلیغ اور عملی تحریک کے سلسلے میں بے شمار مختلف حالتوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر ممکن پہلو سے اپنی بات دلوں میں بٹھانا، خیالات کی دُنیا بدلنا، جذبات کا سیلاب اُٹھانا، مخالفتوں کا زور توڑنا، ساتھیوں کی اصلاح و تربیت کرنا اور ان میں جوش اور عزم اُبھارنا، دشمنوں کو دوست، اور منکروں کو مُعترف بنایا، مخالفین کی حُجَّت مُنْقَطع کرنا اور ان کی اخلاقی طاقت کا اِسْتیصال کر دینا، غرض اُسے وہ سب کچھ کرنا ہوتا ہے جو ایک دعوت کے عَلم بردار اور ایک تحریک کے رہنما کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے اللہ نے اس کام کے سلسلے میں اپنے پیغمبر پر جو تقریریں نازل فرمائیں اُن کا طرزِ خطابت وہی تھا جو ایک دعوت کے مناسبِ حال ہوتا ہے ، اُن میں کالج کے لیکچروں کا سا انداز تلاش کرنا صحیح نہیں ہے۔
___________
یہیں سے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ قرآن میں مضامین کی اس قدر تکرار کیوں ہے؟ایک دعوت اور عملی تحریک کا فطری اقتضا یہ ہے کہ وہ جس وقت جس مرحلے میں ہو اس میں وہی باتیں کہی جائیں جو اُس مرحلے سے مناسبت رکھتی ہوں، اور جب تک دعوت ایک مرحلے میں رہے بعد کے مراحل کی بات نہ چھیڑی جائے بلکہ اُسی مرحلے کی باتوں کا اِعادہ کیا جاتا رہے، خواہ اس میں چند مہینے لگیں یا کئی سال صرف ہو جائیں۔ پھر اگر ایک ہی قسم کی باتوں کا اعادہ ک ایک ہی عبارت اور ایک ہی ڈھنگ پر کیا جاتا رہے تو کان انہیں سُنتے سُنتے تھک جاتے ہیں اور طبیعتیں اُکتانے لگتی ہیں۔ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر مرحلے میں جو باتیں بار بار کہنی ہوں انہیں ہر بار نئے الفاظ، نئے اسلوب، اور نئی آن بان سے کہا جائے تاکہ نہایت خوش گوار طریقے سے وہ دلوں میں بیٹھ جائیں اور دعوت کی ایک ایک منزل اچھی طرح مستحکم ہوتی چلی جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دعوت کی بُنیاد جن عقائد اور اُصُولوں پر ہو اُنہیں پہلے قدم سے آخری منزل تک کسی وقت اور کسی حال میں نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کا اِعادہ بہرحال دعوت کے ہر مرحلے میں ہوتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے ایک مرحلے میں قرآن کی جتنی سُورتیں نازل ہوئی ہیں ان سب میں با لعمُوم ایک ہی قسم کے مضامین الفاظ اور اندازِ بیان بدل بدل کر آئے ہیں۔ مگر توحید اور صفاتِ الہٰی ، آخرت اور اس کی باز پُرس اور جزا و سزا، رسالت اور ایمان بالکتاب، تقویٰ اور صبر و توکّل اور اسی قِسم کے دُوسرے بُنیادی مضامین کی تکرار پُورے قرآن میں نظر آتی ہے کیونکہ اس تحریک کے کسی مرحلے میں بھی ان سے غفلت گوارا نہیں کی جاسکتی تھی۔ یہ بُنیادی تصوّرات اگر ذرا بھی کمزور ہو جاتے تو اسلام کی یہ تحریک اپنی صحیح رُوح کے ساتھ نہ چل سکتی۔
اگر غور کیا جائے تو اِسی بیان سے سوال بھی حال ہو جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے قرآن کو اُسی ترتیب کے ساتھ کیوں نہ مرتّب کر دیا جس کے ساتھ وہ نازل ہوا تھا؟
اُوپر آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ تئیس سال تک قرآن کا نُز ُول اُس ترتیب سے ہوتا رہا جس ترتیب سے دعوت کا آغاز اور اس کا ارتقاء ہوا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ دعوت کی تکمیل کے بعد ان نازل شدہ اجزاء کے لیے وہ ترتیب کِسی طرح درست نہ ہو سکتی تھی جو صر ف ارتقاء دعوت ہی کے ساتھ مناسبت رکھتی تھی۔ اب تو اُن کے لیے ایک دُوسری ہی ترتیب درکار تھی جو تکمیلِ دعوت کے بعد کی صُورت ِ حال کے لیے زیادہ مناسب ہو۔ کیونکہ ابتداء میں اُس کے مخاطبِ اوّل و ہ لوگ تھے جو اسلام سے نا آشنا ئے محض تھے، اس لیے اُس وقت بالکل نقطہء آغاز سے تعلیم و تلقین شروع کی گئی ۔ مگر تکمیلِ دعوت کے بعد اُس کے مخاطبِ اوّل وہ لوگ ہو گئے جو اس پر ایمان لا کر ایک اُمّت بن چکے تھے اور اُس کام کو جاری رکھنے کے ذمّہ دار قرار پائے تھے جسے پیغمبر نے نظریّے اور عمل، دونوں حیثیتوں سے مکمل کر کے ان کے حوالے کیا تھا۔
اب لامحالہ مُقَدَّم چیز یہ ہوگئی کہ پہلے یہ لوگ خود اپنے فرائض سے ، اپنے قوانینِ حیات سے ، اور اُن فتنوں سے جو پچھلے پیغمبروں کی اُمّتوں میں رُونما ہو تے رہے ہیں، اچھی طرح واقف ہو لیں، پھر اسلام سے بیگانہ دنیا کے سامنے خدا کی ہدایت پیش کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ علاوہ بریں قرآن مجید جس طرز کی کتاب ہے اسے اگر آدمی اچھی طرح سمجھ لے تو اس پر خود ہی یہ حقیقت مُنْکَشِف ہو جائے گی کہ ایک ایک طرح کے مضامین کو ایک ایک جگہ جمع کرنا اِس کتاب کے مزاج ہی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس کے مزاج کا تو تقاضا یہی ہے کہ اس کے پڑھنے والے کے سامنے مَدنی مرحلے کی باتیں مکّی دَور والی تعلیم کے درمیان ، اور مکّی مرحلے کی باتیں مَدنی دَور والی تقریروں کے درمیان ، اور ابتدا کی گفتگو ئیں آخر کی تلقینات کے بیچ میں ، اور آخری دَور کی ہدایات آغازِ کار کی تعلیمات کے پہلو میں بار بار آتی چلی جائیں، تاکہ اسلام کا پورا منظر اور جامع نقشہ اس کی نگاہ میں رہے اور کسی وقت بھی وہ یک رُخا نہ ہونے پائے۔
پھر اگر قرآن کو اس کی نزُولی ترتیب پر مرتب کیا بھی جاتا تو وہ ترتیب بعد کے لوگوں کے لیے صرف اُسی صُورت میں بامعنی ہو سکتی تھی جبکہ قرآن کے ساتھ اس کی پوری تاریخِ نزُول اور اس کے ایک ایک جُزء کی کیفیتِ نزُول و شانِ نزُول لکھ کر لگا دی جاتی اور وہ لازمی طور پر قرآن کا ایک ضمیمہ بن کر رہتی۔ یہ بات اُس مقصد کے خلاف تھی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا یہ مجمُوعہ مرتّب اور محفوظ کرایا تھا۔ وہاں تو پیشِ نظر چیز ہی یہ تھی کہ خالِص کلامِ الہٰی بغیر کسی دُوسرے کلام کی آمیزش کے ، اپنی مختصر صُورت میں مرتب ہو، جسے بچّے، جوان، بُوڑھے، عورت، مرد، شہری ، دیہاتی، عامی ، عالِم، سب پڑھیں ، ہر زمانے میں اور ہر جگہ ہر حالت میں پڑھیں، اور ہر مرتبہء عقل و دانش کااندان کم از کم یہ بات ضرور جان لے کہ اُس کا خدا اُس سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد فوت ہو جاتا اگر اس مجمُوعہ ء کلامِ الہٰی کے ساتھ ایک لمبی چوڑی تاریخ بھی لگی ہوئی ہوتی اور اس کی تلاوت بھی لازم کر دی جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب پر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں، وہ اس کتاب کے مقصد و مُدّعا سے صرف نابلد ہی نہیں ہیں، بلکہ کچھ اس غلط فہمی میں بھی مبتلا معلوم ہوتے ہیں کہ یہ کتاب محض علمِ تاریخ اور فلسفہء عمران کے طلبہ ہی کے لیے نازل ہوئی ہے۔
__________
ترتیبِ قرآن کے سلسلے میں یہ بات بھی ناظرین کو معلوم ہونی چاہیے کہ یہ ترتیب بعد کے لوگوں کی دی ہوئی نہیں ہے، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم ہی نے قرآن کو اس طرح مرتّب فرمایا تھا۔
قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی سُورۃ تازل ہوتی تو آپ اُسی وقت اپنے کاتبوں میں سے کسی کو بُلاتے اور اس کو ٹھیک ٹھیک قلمبند کرانے کے بعد ہدایت فرمادیتے کہ یہ سُورۃ فلاں سُورۃ کے بعد اور فلاں سُورۃ سے پہلے رکھی جائے۔ اسی طرح اگر قرآن کا کوئی ایسا حصّہ نازل ہوتا جس کو مستقل سُورۃ بنانا پیشِ نظر نہ ہوتا، تو آپ ہدایت فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سُورۃ میں فلاں مقام پر درج کیا جائے۔ پھر اس ترتیب سے آپ خود بھی نماز میں اور دُوسرے مواقع پر قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے اور اسی ترتیب کے مطابق صحابہء کرام بھی اس کو یاد کرتے تھے۔ لہٰذا یہ ایک ثابِت شُدہ تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن مجید کا نُز ُول جس روز مکمل ہوا اسی روز اس کی ترتیب بھی مکمل ہوگئی۔ جو اس کا نازِل کرنے والا تھا وہی اس کا مرتّب کرنے والا بھی تھا۔ جس کے قلب پروہ نازل کیا گیا اُسی کے ہاتھوں اسے مرتّب بھی کرا دیا گیا۔ کسی دُوسرے کی مجال نہ تھی کہ اس میں مداخلت کرتا۔
___________
چونکہ نماز ابتداء ہی سے مسلمانوں پر فرض ۱؎ تھی، اور تلاوتِ قرآن کو نماز کا ایک ضروری جُزء قرار دیا گیا تھا، اس لیے نزولِ قرآن کے ساتھ ہی مسلمانوں میں حفظِ قرآن کا سلسلہ جاری ہوگیا اور جیسے جیسے قرآن اُترتا گیا مسلمان اس کو یاد بھی کرتے چلے گئے۔
اس طرح قرآن کی حفاظت کا انحصار صرف کھجور کے اُن پتّوں اور ہڈّی اور جھِلّی کے اُن ٹکڑوں ہی پر نہ تھا جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے کاتبوں سے اس کو قلمبند کرایا کرتے تھے، بلکہ وہ اُترتے ہی بیسیوں، پھر سینکڑوں، پھر ہزاروں، پھر لاکھوں دلوں پر نقش ہو جاتا تھا اور کسی شیطان کے لیے اس کا امکان ہی نہ تھا کہ اس میں ایک لفظ کا بھی ردّو بدل کر سکے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی وفات کے بعد جب عرب میں اِرتدار کا طوفان اُٹھا اور اس کے فرو کرنے کے لیے صحابہء کرام کو سخت خونریز لڑائیاں لڑنی پڑیں، تو ان معرکوں میں ایسے صحابہ کی ایک کثیر تعداد شہید ہوگئی جن کو پُورا قرآن حِفظ تھا۔ اِ س سے حضرت عمر ؓ کو خیال پیدا ہوا کہ قرآن کی حفاظت کے معاملے میں صرفف ایک ہی ذریعے پر اعتماد کر لینا مناسب نہیں ہے ، بلکہ الواحِ قلب کے ساتھ ساتھ صفحاتِ قرطاس پر بھی اس کو محفوظ کرنے کا انتظام کر لینا چاہیے ۔ چنانچہ اس کام کی ضرورت انہوں نے حضرت ابو بکر ؓ پر واضح کی اور انہوں نے کچھ تامّل کے بعد اس سے اتفاق کر کے حضرت زید بن ثابت انصاری ؓ کی، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے کاتب (سیکرٹری) رہ چکے تھے اس خدمت پر مامور فرمایا۔ قاعدہ یہ مقرر کیا گیا کہ ایک طرف تو وہ تمام لکھے ہوئے اجزاء فراہم کر لیے جائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے چھوڑے ہیں،دُوسری طرف صحابہء کرام میں سے بھی جس جس کے پاس قرآن یا اس کا کوئی حصّہ لکھا ہوا ملے، وہ ان سے لے لیا جائے ۲؎ ، اور پھر حفّاظ ِ قرآن سے بھی مدد لی جائے، اور ان تینوں ذرائع کی متّفقہ شہادت پر ، کام صحت کا اطمینان کرنے کے بعد ، قرآن کا ایک ایک لفظ مصحف میں ثبت کیا جائے۔ اس تجویز کے مطابق قرآن مجید کا ایک مستند نسخہ تیار کر کے اُمّ المومنین حضرت حفصہ ؓ کے ہاں رکھوا دیا گیا اور لوگوں کو عام اجازت دے دی گئی کہ جو چاہے اس کی نقل کرے اور جو چاہے اِس سے مقابلہ کر کے اپنے نسخے کی تصیح کر لے۔
___________
عرب میں مختلف علاقوں اور قبیلوں کی بولیوں میں ویسے ہی فرق پائے جاتے تھے جیسے ہمارے ملک میں شہر شہر کی بولی اور ضلع ضلع کی بولی میں فرق ہے، حالانکہ زبان سب کی وہی ایک اُردو یا پنجابی یا بنگالی وغیرہ ہے۔ قرآن مجید اگرچہ نازل اُس زبان میں ہوا تھا جو مَکّہ میں قریش کے لوگ بولتے تھے، لیکن ابتداءً اس امر کی اجازت دے دی گئی تھی کہ دُوسرے علاقوں اور قبیلوں کے لوگ اپنے اپنے لہجے اور محاورے کے مطابق اسے پڑھ لیا کریں، کیونکہ اس طرح معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا،
صرف عبارت اُن کے لیے ملائم ہو جاتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ جب اسلام پھیلا اور عرب کے لوگوں نے اپنے ریگستا ن سے نِکل کر دُنیا کے ایک بڑے حصّے کو فتح کر لیا، اور دُوسری قوموں کے لوگ بھی دائرہءِ اِسلام میں آنے لگے، اور بڑے پیمانے پر عرب و عجم کے اِختلاط سے عربی زبان متاثر ہونے لگی، تو یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر اب بھی دُوسرے لہجوں اور محاوروں کے مطابق قرآن پڑھنے کی اجازت باقی رہی تو اس سے طرح طرح کے فتنے کھڑے ہو جائیں گے۔ مثلاً یہ کہ ایک شخص کسی دُوسرے شخص کو غیر مانوس طریقے پر کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہوئے سُنے گا اور یہ سمجھ کر اس سے لڑ پڑے گا کہ وہ دانستہ کلامِ الہٰی میں تحریف کر رہا ہے۔ یا یہ کہ یہ لفظی اختلافات رفتہ رفتہ واقعی تحریفات کا دروازہ کھول دیں گے۔ یا یہ کہ عرب وعجم کے اختلاط سے جن لوگوں کی زبان بگڑے گی وہ اپنی بگڑی ہوئی زبان کے مطابق قرآن میں تصرّف کر کے اس کے حُسنِ کلام کو بغاڑ دیں گے۔
ان وجوہ سے حضرت عثمان ؓ نے صحابہء کرام کے مشورے سے یہ طے کیا کہ تمام ممالکِ اسلامیہ میں صرف اُس معیاری نسخہء قرآن کی نقلیں شائع کی جائیں جو حضرت ابو بکر ؓ کے حکم سے ضبطِ تحریر میں لایا گیا تھا، اور باقی تمام دُوسرے لہجوں اور محاوروں پر لکھے ہوئے مَصاحف کی اشاعت ممنُوع قرار دے دی جائے۔
آج جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے، یہ ٹھیک ٹھیک اُسی مَصْحَفِ صدّیقی کے مطابق ہے جس کی نقلیں حضرت عثمان ؓ نے سرکاری اہتمام سے تمام دیا ر و امصار میں بھجوائی تھیں۔
اِس وقت بھی دُنیا میں متعدّد مقامات پر قرآن کے وہ مستند نسخے موجود ہیں۔ کسی کو اگر قرآن کی محفوظیّت میں ذرہ برابر بھی شک ہو تو وہ اپنا اطمینان اس طرح کر سکتا ہے کہ مغربی افریقہ میں کسی کتاب فروش سے قرآن کا ایک نسخہ خریدے، اور جاوا میں کسی حافظ سے زبانی قرآن سُن کر اس کا مقابلہ کرے، اور پھر دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں میں حضرت عثمان ؓ کے وقت سے لے کر آج تک مختلف صدیوں کے لکھے ہوئے جو مصاحف رکھے ہیں، ان سے اس کا تقابل کر لے۔ اگر کسی حرف یا شوشے کا فرق وہ پائے تو اس کا فرض ہے کہ دُنیا کو اس سب سے بڑے تاریخی انکشاف سے ضرور مطلع کرے۔ کوئی شک نواز قرآن کے مُنَزّل مِنَ اللہ ہونے میں شک کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، لیکن یہ بات کہ جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے یہ بلا کسی کمی بیشی کے ٹھیک وہی قرآن ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے دُنیا کے سامنے پیش کیا تھا، یہ تو ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی دُوسری چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس قدر قطعیِ الثُّبوت ہو۔ اگر کوئی شخص اس کی صحت میں شک کر تا ہے تو وہ پھر اس میں بھی شک کر سکتا ہے کہ رومن امپائر نامی کوئی سلطنت دُنیا میں رہ چکی ہے، اور کبھی مغل ہندوستان پر حکومت کر چکے ہیں، اور ”نپولین“ نام کا کوئی شخص بھی دنیا میں پایا گیا ہے۔ ایسے ایسے تاریخی حقائق پر شکوک کا اظہار کرنا علم کا نہیں، جہالت کا ثبوت ہے۔
____________
قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی طرف دنیا میں بے شمار انسان بے شمار مقاصد لے کر رجوع کرتے ہیں۔ ان سب کی ضروریات اور اغراض کو پیشِ نظر رکھ کر کوئی مشورہ دینا آدمی کے لیے ممکن نہیں ہے۔
طالبوں کے اس ہجوم میں مجھ کو صرف ان لوگوں سے دلچسپی ہے جو اس کو سمجھنا چاہتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کے خواہشمند ہیں کہ یہ کتاب انسان کے مسائل ِ زندگی میں اس کی کیا رہنمائی کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کو میں یہاں طریقِ مطالعہ ء قرآن کے بارے میں کچھ مشورے دُوں گا اور کچھ ان مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کروں گا جو بالعمُوم انسان کو اس معاملہ میں پیش آتی ہیں۔ کوئی شخص چاہے قرآن پر ایمان رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، بہر حال اگر وہ اس کتاب کو فی الواقع سمجھنا چاہتا ہے تو اوّلیں کام اسے یہ کرنا چاہیے کہ اپنے ذہن کو پہلے سے قائم کیے ہوئے تصوّرات سے ، اور موافقانہ یا مخالفانہ اغراض سے جس حد تک ممکن ہو خالی کرے اور سمجھنے کا خالص مقصد لے کر کھُلے دل سے اس کو پڑھنا شروع کرے۔ جو لوگ چند مخصُوص قسم کے خیالات ذہن میں لے کر اس کتاب کو پڑھتے ہیں وہ اس کی سطروں کے درمیان اپنے ہی خیالات پڑھتے چلے جاتے ہیں، قرآن کی اُن کو ہوا بھی نہیں لگنے پاتی۔ یہ طریقِ مطالعہ کسی کتاب کو پڑھنے کے لیے بھی صحیح نہیں ہے، مگر خصُوصیّت کے ساتھ قرآن تو اس طرز کے پڑھنے والوں کے لیے اپنے معانی کے دروازے کھولتا ہی نہیں۔ پھر جو شخص محض سرسری سی واقفیت بہم پہنچانا چاہتا ہو، اُس کے لیے تو شاید ایک دفعہ پڑھ لینا کافی ہو جائے، لیکن جو اس کی گہرائیوں میں اُترنا چاہے اس کے لیے دوچار دفعہ کا پڑھنا بھی کافی نہیں ہوسکتا۔
اس کو بار بار پڑھنا چاہیے، ہر مرتبہ ایک خاص ڈھنگ سے پڑھنا چاہیے، اور ایک طالب ِ علم کی طرح پنسل اور کاپی ساتھ لے کر بیٹھنا چاہیے تاکہ ضروری نِکات توٹ کر تا جائے۔ اِس طرح جو لوگ پڑھنے پر آمادہ ہوں اُن کو کم از کم دو مرتبہ پُورے قرآن کو صرف اس غرض کے لیے پڑھنا چاہیے کہ ان کے سامنے بحیثیت مجموعی وہ پُورا نظامِ فکر وعمل آجائے جسے یہ کتاب پیش کرنا چاہتی ہے۔ اِس ابتدائی مطالعہ کے دَوران میں وہ قرآن کے پُورے منظر پر ایک جامع نظر حاصل کرنے کی کوشش کریں اور یہ دیکھتے جائیں کہ یہ کتاب کیا بُنیادی تصوّرات پیش کرتی ہے اور پھر ان تصوّرات پر کِس قسم کا نظامِ زندگی تعمیر کرتی ہے۔ اِس اثنا میں اگر کسی مقام پر کوئی سوال ذہن میں کھٹکے تو اس پر وہیں اُسی وقت کوئی فیصلہ نہ کر بیٹھیں بلکہ اسے نوٹ کر لیں اور صبر کے ساتھ آگے مطالعہ جاری رکھیں۔ اغلب یہ ہے کہ آگے کہیں نہ کہیں انہیں اس کا جواب مِل جائے گا۔
اگر جواب مِل جائے تو اپنے سوال کے ساتھ اسے نوٹ کر لیں۔ لیکن اگر پہلے مطالعہ کے دَوران میں انہیں اپنے کسی سوال کا جواب نہ ملے تو صبر کے ساتھ دُوسری بار پڑھیں۔ میں اپنے تجربے کی بنا پر یہ کہتا ہوں کہ دُوسری بار کے غائر مطالعہ میں شاذ و نادر ہی کوئی سوال جواب طلب باقی رہ جاتا ہے۔ اِس طرح قرآن پر ایک جامع نظر حاصل کر لینے کے بعد تفصیلی مطالعہ کی ابتدا کر نی چاہیے۔ اس سلسلے میں ناظر کو تعلیماتِ قرآن کا ایک ایک پہلو ذہن نشین کر کے نوٹ کرتے جانا چاہیے۔
مثلاً وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ انسانیت کا کونسا نمو نہ ہے جسے قرآن پسندیدہ قرار دیتاہے اور کس نمونے کے انسان اس کے نزدیک مبغوض و مردُود ہیں۔ اس مضمُون کو اچھی طرح اپنی گرفت میں لانے کے لیے اس کو چاہیے کہ اپنی کاپی پر ایک طرف”پسندیدہ انسان“ اور دُوسری طرف ”نا پسندیدہ انسان“ کی خصُوصیات آمنے سامنے نوٹ کر تا چلا جائے۔ یا مثلاً وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ قرآن کے نزدیک انسان کی فلاح و نجات کا مدار کن اُمُور پر ہے، اور کیا چیزیں ہیں جن کو وہ انسان کے لیے نقصان اور ہلاکت اور بربادی کا موجب قرار دیتا ہے ۔ اس مضمون کو بھی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ جاننے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی کاپی پر”موجباتِ فلاح“ اور”موجباتِ خُسران“ کے دو عنوانات ایک دُوسرے کے مقابل قائم کر لے اور مطالعہ ءِ قرآن کے دَوران دونوں قسم کی چیزوں کو نوٹ کرتا جائے۔ علیٰ ہٰذ ا القیاس عقائد، اخلاق، حقوق، فرائض، معاشرت، تمدّن، معیشت، سیاست، قانون، نظمِ جماعت، صلح، جنگ اور دُوسرے مسائلِ زندگی میں سے ایک ایک کے متعلق قرآن کی ہدایات کو آدمی نوٹ کر تا چلا جائے، اور یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ ان میں سے ہر ہر شعبے کی مجمُوعی شکل کیا بنتی ہے اور پھر ان سب کو مِلا کر جوڑ دینے سے پُورا نقشہء زندگی کِس قسم کا بنتا ہے۔ پھر جب آدمی کسی خاص مسئلہ ء زندگی کے بارے میں تحقیق کرنا چاہے کہ قرآن کا نقطہ ء نظر اس کے متعلق کیا ہے، تو اس کے لیے عمدہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ اس مسئلے کے متعلق قدیم و جدید لٹریچر کا گہرا مطالعہ کر کے واضح طور پر یہ معلوم کر لے کہ اس مسئلے کے بُنیادی نکات کیا ہیں، انسان نے اب تک اس پر کیا سوچا اور سمجھا ہے، کیا اُمور اس میں تصفیہ طلب ہیں، اور کہاں جا کر انسانی فکر کی گاڑی اٹک جاتی ہے۔ اس کے بعد انہی تصفیہ طلب مسائل کو نگاہ میں رکھ کر آدمی کو قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
میرا تجربہ ہے کہ اس طرح جب آدمی کسی مسئلے کی تحقیق کے لیے قرآن پڑھنے بیٹھتا ہے تو اسے ایسی ایسی آیتوں میں اپنے سوالات کا جواب ملتا ہے جنہیں وہ اس سے پہلے بیسیوں مرتبہ پڑھ چکا ہوتا ہے اور کبھی اس کے حاشیہ ء خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ یہاں یہ مضمون بھی چھُپا ہوا ہے۔
__________
لیکن فہمِ قرآن کی ، اِن ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی رُوح سے پُوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریّات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام دہ کُرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔
یہ دُنیا کے عام تصوّرِ مذہب کے مطابق ایک نِری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کر لیے جائیں۔
جیسا کہ اس مقدمے کے آغاز میں بتایا جا چکا ہے، یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہء عزلت سے نکال کر خدا سے پھِری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علمبردار ان کفر و فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھر گھر سے ایک ایک سعید رُوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیءحق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔
گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کروائی ۔ ایک فردِ واحد کی پُکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافتِ الہٰیہ کے قیام تک پُورے تئیس سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطِل کی اس طویل و جاں گُسل کشمکش کے دَوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔
اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر و دین اور معرکہء اسلام و جاہلیّت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔
اسے تو پُوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوتِ اِلَی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔
تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نُز ُولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکّے اور حبش اور طاء کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بد و اُحُد سے لے کر حُنَین اور تَبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابُو جَہل اور ابُو لَہَب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہُود بھی آپ کو ملیں گے ، اور سابقینِ اوّلین سے لے کر مئولّفتہ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اَور ہی قسم کا ”سُلوک“ ہے ، جس کو میں ”سُلوکِ قرآنی“کہتا ہوں۔ اِس سُلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے ، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔
اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھُپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی رُوح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے۔ پھر اسی کُلّیہ کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات ، اور زندگی کے مختلف پہلو ؤ ں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اُصُول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اُس وقت تک آہی نہیں سکتے جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔
______________
قرآن کے اس دعوے سے ہر کہ و مہ واقف ہے کہ وہ تمام نَوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے آیا ہے ۔ لیکن جب کوئی شخص اس کو پڑھنے بیٹھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کا رُوئے سخن زیادہ تر اپنے زمانہء نُز ُول کے اہلِ عرب کی طرف ہے۔ اگرچہ کبھی کبھی وہ بنی آدم اور عامۃ النّاس کو بھی پکارتا ہے، لیکن اکثر باتیں وہ ایسی کہتا ہے جو عرب کے مذاق، عرب ہی کے ماحول، عرب ہی کی تاریخ ، اور عرب ہی کے رسم و رواج سے ربط و تعلق رکھتی ہیں۔ اِن چیزوں کو دیکھ کر آدمی سوچنے لگتا ہے کہ جو چیز عام انسانوں کی ہدایت کے لیے اُتاری گئی تھی اس میں وقتی اور مقامی اور قومی عنصر اتنا زیادہ کیوں ہے ؟
اس معاملے کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگ اس شک میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید یہ چیز اصل میں تو اپنے ہم عصر اہلِ عرب ہی کی اصلاح کے لیے تھی، لیکن بعد میں زبر دستی کھینچ تان کر اسے تمام انسانوں کے لیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کتاب ِ ہدایت قرار دے دیا گیا۔
جو شخص یہ اعتراض محض اعتراض کی خاطر نہیں اُٹھاتا، بلکہ فی الواقع اسے سمجھنا چاہتا ہے اُسے میں مشورہ دُوں گا کہ وہ پہلے خود قرآن کو پڑھ کر ذرا اُن مقامات پر نشان لگائے جہاں اُس نے کوئی ایسا عقیدہ، یا خیال ، یا تصوّر پیش کیاہو، یا کوئی ایسا اخلاقی اُصُول ، یا عملی قاعدہ و ضابطہ بیان کیا ہو جو صرف عرب ہی کے لیے مخصُوص ہو، اور جس کو وقت اور زمانے اور مقام نے فی الواقع محدُود کر رکھا ہو؟
محض یہ بات کہ وہ ایک خاص مقام اور زمانے کے لوگوں کو خطاب کر کے ان کے مُشْرِکانہ عقائد اور رُسُوم کی تردید کرتا ہے، اور اُنہی کے گردوپیش کی چیزوں کو موادِ استدلال کے طور پر لے کر توحید کے دلائل قائم کر تا ہے، یہ فیصلہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس کی دعوت اور اس کا اپیل بھی وقتی اور مقامی ہے۔
دیکھنا یہ چاہیے کہ شرک کی تردید میں جو کچھ وہ کہتا ہے کیا وہ دُنیا کے ہر شرک پر اُسی طرح چسپاں نہیں ہوتا جس طرح مُشرکینِ عرب کے شرک پر چسپاں ہوتا تھا؟ کیا انہی دلائل کو ہم ہر زمانے اور ہر ملک کے مشرکین کی اصلاحِ خیال کے لیے استعمال نہیں کر سکتے؟
اور کیا اثباتِ توحید کے لیے قرآن کے طرزِ استدلال کو تھوڑے سے ردّوبدل کے ساتھ ہر وقت ہر جگہ کام میں نہیں لایا جا سکتا؟
اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایک عالمگیر تعلیم کو صرف اس بنا پر وقتی و مقامی قرار دیا جائے کہ ایک خاص وقت میں ایک خاص قوم کو خطاب کر کے وہ پیش کی گئی تھی۔ دُنیا کا کوئی فلسفہ اور کوئی نظامِ زندگی اور کوئی مذہب فکر ایسا نہیں ہے جس کی ساری باتیں از اوّل تا آخر تجریدی طرزِ بیان میں پیش کی گئی ہوں اور کسی متعیّن حالت یا صُورت پر اس کو چسپاں کر کے اُن کی توضیح نہ کی گئی ہو۔ ایسی مکمّل تجرید اوّل تو ممکن نہیں ہے، اور ممکن ہو بھی تو جو چیز اِس طریقے پر پیش کی جائے گی وہ صرف صفحہء کاغذ ہی پر رہ جائے گی ، انسانوں کی زندگی میں اس کا جذب ہو کر ایک عملی نظام میں تبدیل ہونا محال ہے۔ پھر کسی فکری و اخلاقی اور تمدّنی تحریک کو اگر بین الاقوامی پیمانے پر پھیلانا مقصود ہو ، تو اس کے لیے بھی یہ قطعاً ضروری نہیں ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ مفید بھی نہیں ہے، کہ شروع سے اس کو بالکل ہی بین الاقوامی بنانے کی کوشش کی جائے۔ در حقیقت اس کا صحیح عملی طریقہ صرف ایک ہی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ جن افکار اور نظریات اور اُصُولوں پر وہ تحریک انسانی زندگی کے نظام کو قائم کرنا چاہتی ہے، انہیں پُوری قوت کے ساتھ خود اس ملک میں پیش کیا جائے جہاں سے اس کی دعوت اُٹھی ہو، ان لوگوں کے ذہن نشین کیا جائے جن کی زبان اور مزاج اور عادات و خصائل سے اس تحریک کے داعی بخوبی واقف ہوں ، اور پھر اپنے ہی ملک میں ان اُصُولوں کو عملاً برت کر اور ان پر ایک کامیاب نظام ِ زندگی چلا کر دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیا جائے۔ تبھی دُوسری قومیں اس کی طرف توجہ کریں گی اور ان کے ذہین آدمی خود آگے بڑھ کر اسے سمجھنے اور اپنے ملک میں رواج دینے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا محض یہ بات کہ کسی نظامِ فکر و عمل کو ابتداءً ایک ہی قوم کے سامنے پیش کیا گیا تھا، اور استدلال کا سارازور اسی کو سمجھانے اور مطمئن کرنے پر صَرف کر دیا گیا تھا ، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ وہ نظامِ فکر و عمل محض قومی ہے۔ فی الواقع جو خصُوصیات ایک قومی نظام کو ایک بین الاقوامی نظام سے اور ایک وقتی نظام کو ایک ابدی نظام سے ممیّز کرتی ہیں وہ یہ ہیں کہ قومی نظام یا تو ایک قوم کی برتری اور اس کے مخصُوص حقوق کا مدعی ہوتا ہے ، یا اپنے اندر کچھ ایسے اُصُول اور نظریات رکھتا ہے جو دوسری اقوام میں نہیں چل سکتے۔ اس کے برعکس جو نظام بین الاقوامی ہوتا ہے وہ تمام انسانوں کو برابر کا درجہ اور برابر کے حقوق دینے کے لیے تیار ہوتا ہے اور اس کے اُصُولوں میں بھی عالمگیریت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک وقتی نظام لازمی طور پر اپنی بُنیاد کچھ ایسے اُصُولوں پر رکھتا ہے جو زمانے کی چند پلٹیوں کے بعد صریحاً ناقابلِ عمل ہو جاتے ہیں، اور اس کے برعکس ایک ابدی نظام کے اُصُول تمام بدلتے ہوئے حالات پر منطبق ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان خصُوصیات کو نگاہ میں رکھ کر کوئی شخص خود قرآن کو پڑھے اور ان چیزوں کو ذرا متعیّن کرنے کی کوشش کرے جن کی بنا پر واقعی یہ گمان کیا جا سکتا ہو کہ قرآن کا پیش کردہ نظام وقتی اور قومی ہے
___________
قرآن کے متعلق یہ بات بھی ایک عام نظر کے کان میں پڑی ہوئی ہوتی ہے کہ یہ ایک مفصّل ہدایت نامہ اور ایک کتابِ آئین ہے ۔ مگر جب وہ اسے پڑھتا ہے تو اس میں معاشرت اور تمدّن اور سیاست اور معیشت وغیرہ کے تفصیلی احکام و ضوابط اس کو نہیں ملتے۔
بلکہ وہ دیکھتا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ جیسے فرائض کے متعلق بھی ، جن پر قرآن بار بار اس قدر زور دیتا ہے ، اس نے کوئی ایسا ضابطہ تجویز نہیں کیا ہے جس میں تمام ضروری احکام کی تفصیل درج ہو۔
یہ چیز آدمی کے ذہن میں خلجان پیدا کرتی ہے کہ آخر یہ کس معنی میں ہدایات نامہ ہے۔
اس معاملے میں ساری اُلجھن صرف اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ آدمی کی نگاہ سے حقیقت کا ایک پہلو بالکل اوجھل رہ جاتا ہے، یعنی یہ کہ:
الله نے صرف کتاب ہی نازل نہیں کی تھی بلکہ ایک پیغمبر بھی مبعوث فرمایا تھا۔
اگر اصل اسکیم یہ ہو کہ بس ایک نقشہ ء تعمیر لوگوں کو دے دیا جائے اور لوگ اس کے مطابق خود عمارت بنا لیں ، تو اس صُورت میں بلا شبہ تعمیر کے ایک ایک جزُء کی تفصیل ہم کو ملنی چاہیے۔ لیکن جب تعمیری ہدایات کے ساتھ ایک انجینیئر بھی سرکاری طور پر مقرر کیا جائے اور وہ ان ہدایات کے مطابق ایک عمارت بنا کر کھڑی کر دے ، تو پھر انجینیر اور اس کی بنائی ہوئی عمارت کو نظر انداز کر کے صرف نقشے ہی میں تمام جزئیات کی تفصیل تلا ش کرنا ، اور پھر اسے نہ پاکر نقشے کی نا تمامی کا شکوہ کرنا غلط ہے۔
قرآن جزئیات کی کتاب نہیں ہے بلکہ اُصُول اور کُلّیات کی کتاب ہے۔
اس کا اصل کام یہ ہے کہ نظامِ اسلامی کی فکری اور اخلاقی بنیادوں کو پُوری وضاحت کے ساتھ نہ صرف پیش کرے بلکہ عقلی استدلال اور جذباتی اپیل ، دونوں کے ذریعے سے خوب مستحکم بھی کر دے۔ اب رہی اسلامی زندگی کی عملی صُورت، تو اس معاملے میں وہ انسان کی رہنمائی اس طریقے سے نہیں کرتا کہ زندگی کے ایک ایک پہلو کے متعلق تفصیلی ضابطے اور قوانین بتائے، بلکہ وہ ہر شعبہ ء زندگی کے حُدُود اربعہ بتا دیتا ہے اور نمایاں طور پر چند گوشوں میں سنگِ نشان کھڑے کر دیتا ہے جو اس بات کا تعیّن کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ان شعبوں کی تشکیل و تعمیر کن خُطوُط پر ہونی چاہیے۔
ان ہدایات کے مطابق عملاً اسلامی زندگی کی صُورت گری کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا کام تھا ۔ انہیں معمُور ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ دنیا کو اُس انفرادی سیرت و کردار اور اس معاشرے اور ریاست کا نمونہ دکھا دیں جو قرآن کے دیے ہوئے اُصولوں کی عملی تعبیر و تفسیر ہو۔
____________
ایک اور سوال جو بالعموم لوگوں کے ذہن میں کھٹکتا ہے وہ یہ ہے کہ :
ایک طرف تو قرآن اُن لوگوں کی انتہائی مذمت کرتا ہے جو کتاب اللہ کے آجانے کے بعد تفرقے اور اختلاف میں پڑ جاتے ہیں اور اپنے دین کے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں، اور دُوسری طرف قرآن کے احکام کی تعبیر و تفسیر میں صرف متاخّرین ہی نہیں ، ائمّہ اور تابعین اور خود صحابہ تک کے درمیان اتنے اختلافات پائے جاتے ہیں کہ شاید کوئی ایک بھی احکامی آیت ایسی نہ ملے گی جس کی ایک تفسیر بالکل متفق علیہ ہو ۔
کیا یہ سب لوگ اس مذمت کے مصداق ہیں جو قرآن میں وارد ہو ئی ہیں؟
اگر نہیں تو پھر وہ کون سا تفرقہ و اختلاف ہے جس سے قرآن منع کرتا ہے؟
یہ ایک نہایت وسیع الاطراف مسئلہ ہے جس پر مفصّل بحث کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ یہاں قرآن کے ایک عامی طالبِ علم کی اُلجھن دُور کرنے کے لیے صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ:
قرآن اس صحت بخش اختلاف ِ رائے کا مخالف نہیں جو دین میں متفق اور اسلامی نظامِ جماعت متحد رہتے ہوئے محض احکام و قوانین کی تعبیر میں مخلصانہ تحقیق کی بنا پر کیا جائے، بلکہ وہ مذمت اُس اختلاف کی کرتا ہے جو نفسانیت اور کج نگاہی سے شروع ہو اور فرقہ بندی و نزاعِ باہمی تک نوبت پہنچا دے۔
یہ دونوں قسم کے اختلاف نہ اپنی حقیقت میں یکساں ہیں اور نہ اپنے نتائج میں ایک دُوسرے سے کوئی مشابہت رکھتے ہیں کہ دونوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانک دیا جائے۔
پہلی قسم کا اختلاف تو ترقی کی جان اور زندگی کی رُوح ہے۔ وہ ہر اُس سوسائٹی میں پایا جائے گا جو عقل و فکر رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہو۔ اس کا پایا جانا زندگی کی علامت ہے اور اس سے خالی صرف وہی سوسائٹی ہو سکتی ہے جو ذہین انسانوں سے نہیں بلکہ لکڑی کے کُندوں سے مرکّب ہو۔
رہا دُوسری قسم کا اختلاف ، تو ایک دُنیا جانتی ہے کہ اس نے جس گروہ میں بھی سر اُٹھایا اُس کو پراگندہ کر کے چھوڑا۔ اس کا رُونما ہونا صحتِ کی نہیں بلکہ مرض کی علامت ہے ، اور اس کے نتائج کبھی کسی اُمّت کے حق میں بھی مفید نہیں ہو سکتے ۔
ان دونوں قسم کے اختلافات کا فرق واضح طور پر یوں سمجھیے کہ : ایک صُورت تو وہ ہے جس میں خدا اور رسُول کی اطاعت پر جماعت کے سب لوگ منفق ہوں ،
احکام کا ماخذ بھی بالا تفاق قرآن اور سُنّت کو مانا جائے،
اور پھر دو عالم کسی جُزوی مسئلے کی تحقیق میں ، یا دو قاضی کسی مقدمے کے فیصلے میں ایک دُوسرے سے اختلاف کریں، مگر ان میں سے کوئی بھی نہ تو اس مسئلے کو، اور اس میں اپنی رائے کو مدارِ دین بنائے اور نہ اس سے اختلاف کرنے والے کو دین سے خارج قرار دے، بلکہ دونوں اپنے اپنے دلائل دے کر اپنی حد تک تحقیق کا حق ادا کردیں، اور یہ بات رائے عام پر، یا اگر عدالتی مسئلہ ہو تو ملک کی آخری عدالت پر، یا اگر اجتماعی معاملہ ہو تو نظامِ جماعت پر چھوڑ دیں کہ وہ دونوں رایوں میں سے جس کو چاہیں قبول کر یں، یا دونوں کو جائز رکھیں۔
دُوسری صُورت یہ ہے کہ اختلاف سرے سے دین کی بُنیادوں ہی میں کر ڈالا جائے، یا یہ کہ کوئی عالم یا صُوفی یا مفتی یا متکلّم یا لیڈر کسی ایسے مسئلے میں جس کو خدا اور رسُول نے دین کا بُنیادی مسئلہ قرار نہیں دیا تھا، ایک رائے اختیار کرے اور خواہ مخواہ کھینچ تان کر اس کو دین کا بُنیادی مسئلہ بنا ڈالے، اور پھر جو اس سے اختلاف کرے اس کو خارج از دین و مِلّت قرار دے، اور اپنے حامیوں کا ایک جتھا بنا کر کہے کہ اصل اُمّتِ مُسْلِمہ بس یہ ہے اور باقی سب جہنّمی ہیں، اور ہانک پُکار کر کہے کہ مسلم ہے تو بس اس جتھے میں آجا ورنہ تُو مسلم نہی نہیں ہے۔
قرآن نے جہاں کہیں بھی اختلاف اور فرقہ بندی کی مخالفت کی ہے اُس سے اس کی مراد یہ دُوسری قسم کا اختلاف ہی ہے۔
رہا پہلی قسم کا اختلاف ، تو اس کی متعدّد مثالیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے سامنے پیش آچکی تھیں، اور آپؐ نے صرف یہی نہیں کہ اس کو جائز رکھا، بلکہ اس کی تحسین بھی فرمائی۔ اس لیے کہ وہ اختلاف تو اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ جماعت میں غور و فکر اور تحقیق و تجسّس اور فَہْم و تَفَقُّہ کی صلاحیّتیں موجود ہیں ، اور جماعت کے ذہین لوگوں کو اپنے دین سے اور اس کے احکام سے دلچسپی ہے، اور ان کی ذہانتیں اپنے مسائل ِ زندگی کا حل دین کے باہر نہیں بلکہ اس کے اندر ہی تلاش کرتی ہیں، اور جماعت بحیثیتِ مجُموعی اِس زّرین قاعدے پر عامل ہے کہ اُصُول میں متفق رہ کر اپنی وحدت برقرار رکھے اور پھر اپنے اہلِ علم و فکر کو صحیح حُدُود کے اندر تحقیق و اجتہاد کی آزادی دے کر ترقی کے مواقع بھی باقی رکھے۔ ھٰذا ما عندی و العلم عنداللہ، علیْہ تو کلت والیْہ انیب۔
____________
۱؎ واضح رہے کہ پنج وقتہ نماز تو بعثت کے کئی سال بعد فرض ہوئی ، لیکن نماز بجائے خود اوّل روز ہی سے فرض تھی۔ اسلام کی کوئی ساعت کبھی ایسی نہیں گزری ہے جس میں نماز فرض نہ ہو۔ واپس
۲؎ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی زندگی میں متعدّد صحابہ نے قرآن کو یااس کے مختلف اجزاء کو اپنے پاس قلمبند کر کے رکھ چھوڑا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرات عثمان، علی، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عَمرو بن عاص، سالم مولیٰ حُذَیفہ، زید بن ثابت، مُعاذ بن جَبَّل، اُبَیّ بن کعب، اور ابو زید قیس بن السّکن رضی اللہ عنہم کے ناموں کی تصریح ملتی ہے۔
[تفہیم القرآن- از سید ابواعلیٰ مودودی]
Source: http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/0_Tafheem.html
It is an effort to acquaint the reader with certain matters which he should grasp at the very outset so as to achieve a more than superficial understanding of the Holy Book. Second, to clarify those disturbing questions that commonly arise in the mind of the reader during the study of the Qur'an.
Section I of XI
We are accustomed to reading books that present information, ideas and arguments systematically and coherently. So when we embark on the study of the Qur'an, we expect that this book too will revolve around a definite subject, that the subject matter of the book too will be clearly defined at the beginning and will then be neatly divided into sections and chapters, after which discussion will proceed in a logical sequence. We likewise expect a separate and systematic arrangement of instruction and guidance for each of the various aspects of human life.
However, as soon as we open the Qur'an, we encounter a hitherto completely unfamiliar genre of literature. We notice that it embodies precepts of belief and conduct, moral directives, legal prescriptions, exhortations and admonition, censure and condemnation of evildoers, warning to the deniers of the Truth, good tidings and words of consolation and good cheer to those who have suffered for the sake of Allah, arguments and corroborative evidence in support of its basic message, allusions to anecdotes from the past and the signs of Allah visible in the universe. Moreover, these myriads subjects alternate without any apparent system; quite unlike the books to which we are accustomed, the Qur'an deals with the same subject over and over again, each time couched in a different phraseology.
The reader also encounters abrupt transitions between one subject matter and another. Audience and speaker constantly change as the message is directed now to one and now to another group of people. There is no trace of the familiar divisions into chapters and sections. Likewise, the treatment of of different subjects is unique. If an historical subject is raised, the narrative does not follow the pattern familiar in historical accounts. In the discussion of philosophical or metaphysical questions, we miss the familiar expressions and terminology of formal logic and philosophy. Cultural and political matters, or questions pertaining to man's social and economic life, are discussed in a way very different from that usual in work of social sciences. Juristic principles and legal injunctions are elucidated, but quite differently from the manner of conventional works. When we come across an ethical instruction, we find its form entirely differs from anything to be found elsewhere in the literature of ethics. The reader may find all this so foreign to his notion of what a book should be that he may become so confused as to feel that the Qur'an is a piece of disorganised, incoherent and
1/17
unsystematic writing, comprising nothing but a disjointed conglomeration of comments of varying lengths put together arbitrarily. Hostile critics use this as a basis for their criticism, while those more favourably inclined resort to far-fetched explanations, or else conclude that the Qur'an consists of unrelated pieces, thus making it amenable to all kinds of interpretations, even interpretations quite opposed to the intent of Allah Who revealed the Book.
Section II of XI
What kind of book, is the Qur'an? In what manner was it revealed? what underlies its arrangement? What is its subject? What is its true purpose? What is the central theme to which its multifarious topics are intrinsically related? What kind of reasoning and style does it adopt in elucidating its central theme? If we could obtain clear, lucid answers to these and other related questions, we might avoid some dangerous pitfalls, thus making it easier to reflect upon and to grasp the meaning and purpose of the Qur'anic verses. If we begin studding the Qur'an in the expectation of reading a book on religion, we shall find it hard, since our notions of religion and of a book are naturally circumscribed by our range of experience. We need, therefore, to be told in advance that this Book is unique in the manner of its composition, in its theme and its contents and arrangement. We should be forewarned that the concept of a book that we have formed from our previous readings is likely to be a hindrance, rather than a help, towards a deep understanding of the Qur'an. We should realise that as a first step towards understanding it we must disabuse our minds of all preconceived notions.
Section III of XI
The student of the Qur'an should grasp, from the outset, the fundamental claims that the Qur'an makes for itself. Whether one ultimately decides to believe in the Qur'an or not, one must recognise the fundamental statements made by the Qur'an and by the man to whom it was revealed, the Prophet Muhammad ( peace be upon him) to be the starting point of one's study. These claims are:
1. The Lord of creation, the Creator and Sovereign of the entire universe, created man on earth (which is merely a part of His boundless realm). He also endowed man with understanding, with the ability to distinguish between the good and evil, with the freedom of choice and volition, and with the power to exercise his latent potentialities. In short, Allah bestowed upon man a kind of autonomy and appointed him His vicegerent on earth.
2. Although man enjoys this status, Allah made it abundantly plain to him that He alone is man's Lord and Sovereign, even as He is the Lord and Sovereign of the whole universe. Man was told that he was not entitled to consider himself independent and that only Allah entitled to claim absolute obedience, service and worship. It was also made clear to man that life in this world, for which he has been placed and invested with a certain honour and authority, was in fact a temporary term, and was meant to test him; that after the end of this earthly life man must return to Allah, Who will judge him on the basis of his performance, declaring who has succeeded and who has failed.
The right way for man is to regard Allah as his only Sovereign and the only object of his worship and adoration, to follow the guidance revealed by Allah, to act in this world in the consciousness that earthly life is merely a period of trial, and to keep his eyes fixed on the ultimate objective - success in Allah's final judgement. Every other way is wrong.
2/17
It was also explained to man that if he choose to adopt the right way of life - and in this choice he was free - he would enjoy peace and contentment in this world and be assigned, on his return to Allah, the Abode of eternal bliss and happiness known as Paradise. Should man follow any other way - although he was free to do so - he would experience the evil effects of corruption and disorder in the life of this world and be consigned to external grief and torment when he crossed the borders of the present world and arrived in Hereafter.
3. Having explained all this, the Lord of the Universe placed man on earth and communicated to Adam and Eve, the first human beings to live on earth, the guidance which they and their offspring were required to follow. These first human beings were not born in a state of ignorance and darkness. On the contrary, they began their life in the broad daylight of divine Guidance. They had intimate knowledge of reality and the Law which they were to follow was communicated to them. Their way of life consisted of obedience to Allah (i.e. Islam) and they taught their children to live in obedience to Him (i.e. to live as Muslims).
In the course of time, however, men gradually deviated from this true way of life and began to follow various erroneous ways. They allowed true guidance to be lost through heedlessness and negligence and sometimes, even deliberately, distorted it out of evil perversity. They associated Allah with a number of beings, human and non-human, real as well as imaginary, and adored them as deities. They adulterer the Allah-given knowledge of reality (al-'ilm in the Qur'anic terminology) with all kinds of fanciful ideas, superstitions and philosophical concepts, thereby giving birth to innumerable religions. They disregarded or distorted the sound and equitable principles of individual morality and of collective conduct (Shari'ah in Qur'anic terminology) and made their own laws in accordance with their base desires and prejudices. As a result, the world became filled with wrong and injustice.
4. It was inconsistent with the limited autonomy conferred upon man by Allah that he should exercise His overwhelming power and compel man to righteousness. It was also inconsistent with the fact that Allah had granted a term to the human species in which to show their worth that He should afflict men with catastrophic destruction as soon as they showed signs of rebellion. Moreover, Allah had undertaken from the beginning of creation that true guidance would be made available to man throughout the term granted to him and that this guidance would be available in a manner consist ant with man's autonomy. To fulfil this self assumed responsibility Allah chose to appoint those human beings whose faith in Him was outstanding and who followed the way pleasing to Him. Allah chose these people to be His envoys. He had His messages communicated to them, honoured them with an intimate knowledge of reality, provided them with the true laws of life and entrusted them with the task of recalling man to the original path from which he had strayed [These men were the Prophets and Messengers of Allah - Ed].
5. These Prophets were sent to different people in different lands and over a period of time covering thousands and thousands of years. They all had the same religion; the one originally revealed to man as the right way for him. All of them followed the same guidance; those principles of morality and collective life prescribed for man at the very outset of his existence. All these Prophets had the same mission - to call man to his true religion and subsequently to organise all those who accepted this message into a community (ummah) which would be bound by the Law Of Allah., which would strive
3/17
to establish its observance and would seek to prevent its violation. All the Prophets discharged their mission creditably in their own time. However, there were always many who refused to accept their guidance and consequently those who did accept it and became a 'Muslim community' [That is, a group of people committed to the true guidance of Allah as revealed to His Prophets. Here the word Muslim is not used in the sense of the followers of the last Messenger of Allah, Muhammad (peace be upon him), but in the wider sense, meaning all those who, at various periods, both before and after the advent of the Last Prophet, committed themselves to live in submission to Allah -Ed] gradually degenerated, causing the Divine Guidance to be lost, distorted or adulterated.
6. At last the Lord of the Universe sent Muhammad (peace be upon him) to Arabia and entrusted him with the same mission that He had entrusted to the earlier Prophets. This Last Messenger of Allah addressed the followers of the earlier Prophets (who had by this time deviated from their original teachings) as well as the rest of humanity. The mission of each Prophet was to call men to the right way of life, to communicate Allah's true guidance afresh and to organise into one community all who responded to his mission and accepted the guidance vouchsafed to him. Such a community was to be dedicated to the two-fold task of moulding its own life in accordance with the Allah's guidance and striving for the reform of the world. The Qur'an is the Book which embodies this mission and guidance, as revealed by Allah to Muhammad (peace be upon him).
Section IV of XI
If we remember these basic facts about the Qur'an it becomes easy to grasp its true subject, its central theme and the objective it seeks to achieve. Insofar as it seeks to explain the ultimate causes of man's success or failure the subject of the Book is MAN.
Its central theme is that concepts relating to Allah, the universe and man which have emanated from man's own limited knowledge run counter to reality. The same applies to concepts which have been either woven by man's intellectual fancies or which have evolved through man's obsession with animal desires. The ways of life which rest on these false foundations are both contrary to reality and ruinous for man. The essence of true knowledge is that which Allah revealed to man when He appointed him as His Vicegerent. Hence, the way of life which is in accordance with reality and conductive to human good is that which we have characterised above as 'the right way'. The real object of the Book is to call people to this 'right way' and to illuminate Allah's true guidance, which has often been lost either through man's negligence and heedlessness or distorted by his wicked perversity.
If we study the Qur'an with these facts in mind it is bound to strike us that the Qur'an does not deviate one iota from its main subject, its central theme and its basic objective. All the various themes occurring in the Qur'an are related to the central theme; just as beads of different colour may be strung together to form a necklace. The Qur'an speaks of the structure of the heavens and the earth and of man, refers to the signs of reality in the various phenomena of the universe, relates anecdotes of bygone nations, criticizes the beliefs, morals and deeds of different people, elucidates supernatural truths and discusses many other things besides. All this the Qur'an does, not in order to provide instruction in physics, history, philosophy or any other particular branch of knowledge, but rather to remove the misconceptions people have about reality and to make that reality manifest
4/17
them.
It emphasizes that the various ways men follow, which are not in conformity with reality, are essentially false, and full of harmful consequences for mankind. It calls on men to shun all such ways and to follow instead the way which both conforms to reality and yields best practical results. This is why the Qur'an mentions everything only to the extent and in the manner necessary for the purposes it seeks to serve. The Qur'an confines itself to essentials thereby omitting any irrelevant details. Thus, all its contents consistently revolve around this call.
Likewise, it is not possible fully to appreciate either the style of Qur'an, the order underlying the arrangement of its verses or the diversity of the subjects treated in it, without fully understanding the manner in which it was revealed.
The Qur'an, as we have noted earlier, is not a book in the conventional sense of the term. Allah did not compose and entrust it in one piece to Muhammad (peace be upon him) so that he could spread its message and call people to adopt an attitude to life consonant with its teachings. Nor is the Qur'an one of those books which discusses their subjects and main themes in the conventional manner. Its arrangement differs from that of ordinary books, and its style is correspondingly different. The nature of this Book is that Allah chose a man in Makkah to serve as His Messenger and asked him to preach His message, starting in its own city (Makkah) and with his own tribe (Quraysh). At this initial stage, instructions were confined to what was necessary at this particular juncture of the mission. Three themes in particular stand out:
Directives were given to the Prophet (peace be upon him) on how he should prepare for his great mission and how he should begin working for the fulfilment of his task. A fundamental knowledge of reality was furnished and misconceptions commonly held by people in tat regard - misconceptions which gave rise to wrong orientation in life - were removed. People were exhorted to adopt the right attitude towards life. Moreover, the Qur'an also elucidated those fundamental principles which, if followed, lead to man's success and happiness.
In keeping with the character of the mission at this stage the early revelations generally consisted of short verses, couched in language of uncommon grace and power, and clothed in a literary style suited to the taste and the temperament of the people to whom they were originally addressed, and whose hearts they were meant to penetrate. The rhythm, melody and vitality of these verses drew rapt attention, as such was their stylistic grace and charm that people began to recite them involuntarily.
The local colour of these early messages in conspicuous, for while the truth s they contained were universal, the arguments and illustrations used to elucidate them were drawn from the immediate environment familiar to the first listeners. Allusions were made to their history and traditions and to the visible traces of the past which had crept into the beliefs, and into the moral and social life of Arabia. All this was calculated to enhance the appeal the message held for its immediate audience. This early stage lasted for four or five years, during which period the following reactions to the Prophet's message manifested themselves:
5/17
1. A few people responded to the call and agreed to join the ummah (comminity) committed, of its own volition, to submit to the Will of Allah.
2. Many people reacted with hostility, either from ignorance or egotism, or because of chauvinistic attachment to the way of life of their forefathers.
3. The call of the Prophet, however, did not remain confined to Makkah or the Quraysh. It began to meet with favourable response beyond the borders of that city and among other tribes.
The next stage of the mission was marked by hard, vigorous struggle between the Islamic movement and the age old Ignorance [ Jahiliyah - The author uses the term Jahiliyah to denote all those world-views and ways of life which are based on the rejection or disregard of the heavenly guidance which is communicated to mankind through the Prophets and Messengers of Allah; the attitude of treating human life - either wholly or partially - as independent of the directives revealed by Allah. For this see the writings of the author, especially 'Islam and Ignorance', Lahore, 1976), and 'A short History of Revivalist Movements in Islam', tr. al-Ashari , III edition, Lahore, 1976 -Ed] of Arabia. Not only were the makkans and the Quraysh bent upon preserving their inherited way of life, they were also firmly resolved to suppress the new movement by force. They stopped at nothing in the pursuit of this objective. They resorted to false propaganda; they spread doubt and suspicion and used subtle, malicious insinuations to sow distrust in people's minds. They tried to prevent people from listening to the message of the Prophet. They perpetrated savage cruelties on those who embraced Islam. They subjected them to economic and social boycott, and persecuted them to such an extent that on two occasions a number of them were forced to leave home and emigrate to Abyssinia, and finally they had to emigrate en masse to Madina.
In spite of this strong and growing resistance and opposition, the Islamic movement continued to spread. There was hardly a family left in Makkah one of whose members at least had not embraced Islam. Indeed, the violence and bitterness of the enemies of Islam was due to the fact that their own kith and kin - brothers, nephews, sons, daughters, sisters, brother-in-law and so on - had not only embraced Islam, but were even ready to sacrifice their lives for its sake. Their resistance, therefore, brought them into conflict with their own nearest and dearest. Moreover, those who had forsaken the age old Ignorance of Arabia included many who were outstanding members of their Society. After embracing Islam, they became so remarkable for their moral uprightness, their veracity and their purity of character that the world could hardly fail to notice the superiority of the message which was attracting people of such qualities.
During the Prophet's long and arduous struggle Allah continued to inspire him with revelations possesing at once the smooth, natural flow of a river, the violent force of a flood and the overpowering effect of a fierce fire. These messages instructed the beleivers in their basic duties, inculcated in them a sense of communicate and belonging, exhorted them to piety, moral excellence and puritgy of character, taught them how to preach the true faith, sustained their spirit by promises of success and Paradise in the Hereafter, arouse them to struggle in the cause of Allah with patience, fortitude and high spirits, and filled their hearts with such zeal and enthusiasm that they were prepared to endure every sacrifice, brave every hardship and face every adversity.
6/17
At the same time, those either bent on opposition, or who had deviated from the right way, or who had immersed themselves in frivolity and wickedness, were warned by having their attentions called to the tragic ends of nations with whose fates they were familiar. They were asked to draw lessons from the ruins of those localities through which they passed every day in the course of their wanderings. Evidence for the unity of Allah and for the existence of After-life was pointed to in signs visible to their own eyes and within the range of their ordinary experience. The weaknesses inherent in polytheism, the vanity of man's ambition to become independent even of Allah, the folly of denying the After-life, the perversity of blind adherence to the ways of one's ancestors regardless of right or wrong, were all fully elucidated with the help of arguments cogent enough to penetrate the minds and hearts of audience.
Moreover, every misgiving was removed, a reasonable answer was provided to every objection, all confusion and perplexity was cleared up, and Ignorance was besieged from all sides till its irrationality was totally exposed. Along with all this went the warning of the wrath of Allah. The people were reminded of the horrors of the Doomsday and the tormenting punishment of the Hell. They were also censured for their moral corruption, for their erroneous ways of life, for their clinging to the ways of Ignorance, for their opposition to Truth and their persecution of the believers. Furthermore, these messages enunciated those fundamental principles of morality and collective life on which all sound and healthy civilizations enjoying Allah's approval had always rested.
This stage was unfolded in several phases. In each phase, the preaching of the message assumed ever wider proportions, as the struggle fort he cause of Islam and opposition to it became increasingly intense and severe, and as the believers encountered people of varying outlooks and beliefs. All these factors had the effect of increasing the variety of the topics in the messages revealed during this period. Such, in brief, was the situation forming the background to the Makkan surahs of the Qur'an.
Section V of XI
For thirteen years the Islamic movement strive in Makkah. It then obtained, in Madina, a haven of refuge in which to concentrate its followers and its strength. The Prophet's movement now centred in its third stage.
During this stage, circumstances changed drastically. The Muslim Community succeeded in establishing a fully-fledged state; its creation was followed by prolonged armed conflict with the representatives of the ancient Ignorance of Arabia. The community also encountered followers of the former Prophets, i.e. Jews and Christians. An additional problem was that hypocrites began to join the fold of Muslim community; their machinations needed to be resisted. After a severe struggle, lasting ten years, the Islamic movement reached a high point of achievement when the entire Arabian peninsula came under its sway and the door was open to the world-wide preaching and reform. This stage, like the preceding one, passed through various phases each of which had its peculiar problems and demands.
It was in the context of these problems that Allah continued to reveal messages to the Prophet. At times these messages were couched in the form of fiery speeches; at other times they were
7/17
characterised by the grandeur and stateliness of majestic proclamations and ordinances. At times they had the air of instructions from a teacher; at others, the style of preaching of reformer. These messages explained how a healthy society, state and civilization could be established and the principles on which the various aspects of human life should be based.
They also dealt with matters directly related to the specific problems facing Muslims. For example, how should they deal with hypocrites (who were harming the Muslims the Muslim community from within) and with the non-Muslims who were living under the care of the Muslim society? How should they relate to the people of the Book? What treatment should be meted out to those with whom the Muslims were at war, and how should they deal with those with whom they were bound by treaties and agreements? How should the believers, as a community, prepare to discharge their obligations as vicegerents of the Lord of Universe? Through the Qur'an the Muslims were guided in questions like these, were instructed and trained, made aware of their weaknesses, urged to risk their lives and property for the cause of Allah, taught the code of morality they should observe in all circumstances of life - in times of victory and defeat, ease and distress, prosperity and adversity, peace and security, peril and danger.
In short, they were being trained to serve as the successors of the mission of the Prophet, with the task of carrying on the message of Islam and bringing about the reform in human life. The Qur'an also addressed itself to those outside the fold of Islam, to the People of the Book, the hypocrites, the unbelievers, the polytheists. Each group was addressed according to its own particular circumstances and attitudes. Sometimes the Qur'an invited them to the true faith with tenderness and delicacy; on other occasions, it rebuked and severely admonished them. It also warned them against, and threatened them with punishment from Allah. It attempted to make them take heed by drawing their attention to instructive historical events. In short, people were left with no valid reason for refusing the call of the Prophet.
Such, briefly, is the background of the Medinan Surahs of the Qur'an.
It is now clear to us that the revelation of the Qur'an began and went hand in hand with the preaching of the message. This message passed through many stages and met with diverse situations from the very beginning and throughout a period of twenty-three years. The different parts of the Qur'an were revealed step by step according to the multifarious, changing needs and requirements of the Islamic movement during these stages. It therefore, could not possibly possess the kind of coherence and systematic sequence expected of doctoral dissertation. Moreover, the various fragments of the Qur'an which were revealed in harmony with the growth of Islamic movement were not published in the form of written treatises, but were spread orally. Their style, therefore, bore an oratorical flavour rather than the characteristics of literary composition.
Furthermore, these orations were delivered by one whose task meant he had to appeal simultaneously to the mind, to the heart and emotions, to the people of different mental levels and dispositions. He had to revolutionize people's thinking, to arouse in them a storm of noble emotions in support of his cause, to persuade his Companions and inspire them with devotion and zeal, and with the desire to improve and reform their lives. He had to raise their morale and steel their determination, turn enemies into friends and opponents into admirers, disarm those out to oppose
8/17
his message and show their position to be morally untenable. In short, he had to do everything necessary to carry out his movement through to a successful conclusion. Orations revealed in conformity with the requirement of a message and movement will inevitably have a style different from that of a professional lecture.
This explains the repetitions we encounter in the Qur'an. The interests of a message and a movement demand that during a particular stage emphasis should be placed only on those subjects which are appropriate at that stage, to the exclusion of matters pertaining to later stages. As a result, certain subjects may require continual emphasis for months or even years. On the other hand, content repetition in the same manner becomes exhausting. Whenever a subject is repeated, it should therefore be expressed in different phraseology, in new forms and with stylistic variations so as to ensure that the ideas and beliefs being put over find their way into the hearts of the people.
At the same time, it was essential that the fundamental beliefs and principles on which the whole movement was based should always be kept fresh in people's minds; a necessity which dictated that they should always be repeated continuously through all stages of the movement. For this reason, certain basic Islamic concepts about the unity of Allah and His Attributes, about the Hereafter, about man's accountability and about reward and punishment, about prophethood and belief in revealed scriptures, about basic moral attributes such as piety, patience, trust in Allah and so on, recur throughout the Qur'an. If these ideas had lost their hold on the minds of the people, the Islamic movement could not have moved forward in its true spirit.
If we reflect on this, it also becomes evident why the Prophet (peace be upon him) did not arrange the Qur'an in the sequence that it was revealed. As we noted, the context in which the Qur'an was revealed in the course of twenty-three years was the mission and the movement of the Prophet; the revelations correspond to the various stages of this mission and movement. Now, it is evident that when the Prophet's mission was completed, the chronological sequence of the various parts of the Qur'an - revealed in accordance with the growth of the Prophet's mission - could in no way be suitable to the changed situation. What was now required was a different sequence in tune with the changed context resulting from the completion of the mission.
Initially, the Prophet's message was addressed to people totally ignorant of Islam. Their instruction had to start with the most elementary things. After the mission had reached to a successful completion, the Qur'an acquired a compelling relevance for those who had decided to believe in the Prophet. By virtue of that belief they had become a new religious community - the Muslim ummah. Not only that, they had been made responsible for carrying on the Prophet's mission, which he had bequeathed to them, in a perfect form, both on conceptual and practical levels. It was no longer necessary for Qur'anic verses to be arranged in chronological sequence. In the changed context, it had become necessary for the bearers of the mission of the Prophet ( peace be upon him) to be informed of their duties and of the true principles and laws governing their lives. They also had to be warned against corruptions which had appeared among the followers of earlier Prophets. All this was necessary in order to equip the Muslims to go out and offer the light of Divine Guidance to the world steeped in darkness.
It would be foreign to the very nature of Qur'an to group together in one place all verses relating to
9/17
specific subject; the nature of the Qur'an requires that the reader should find teachings revealed during the Medinan period interspersed with those of the Makkan period, and vice versa. It requires the juxtaposition of early discourses with instructions from the later period of the life of the Prophet. This blending of the teachings from different periods helps to provide an overall view and an integrated perspective of Islam, and acts as a safeguard against lopsidedness. Furthermore, a chronological arrangement of the Qur'an would have been meaningful to the later generations only if it had been supplemented with explanatory notes and these had to be treated as inseparable appendices to the Qur'an. This would have been quite contrary to Allah's purpose in revealing the Qur'an; the main purpose of its revelation was that all human beings - children and young people, old men and women, town and country dwellers, laymen and scholars - should be able to refer to the Divine Guidance available to them in composite form and providentially secured against adulteration. This was necessary to enable people of every level of intelligence and understanding to know what Allah required of them. This purpose would have been defeated had the reader been obliged solemnly to recite detailed historical notes and explanatory comments along with the Book of Allah.
Those who object to the present arrangement of the Qur'an appear to be suffering from a misapprehension as to its true purpose. They sometimes almost seem under the illusion that it was revealed merely for the benefit of students of history and sociology!
Section VI of XI
The present arrangement of the Qur'an is not the work of later generations, but was made by the Prophet under Allah's directions. Whenever a surah was revealed, the Prophet summoned his scribes, to whom he carefully dictated its contents, and instructed them where to place it in relation to the other Suras. The Prophet followed the same order of suras and verses when reciting during ritual Prayer as on other occasions, and his Companions followed the same practice in memorizing the Qur'an. It is therefore a historical fact that the collection of the Qur'an of the Qur'an came to an end on the very day that its revelation ceased. The One who was responsible for its revelation was also the One who fixed its arrangement. The one whose heart was the receptacle of the Qur'an was also responsible for arranging its sequence. This was far too important and too delicate a matter for anyone else to become involved in.
Since Prayers were obligatory for the Muslims from the very outset of the Prophet's mission,( It should be noted that while five daily Prayers were made obligatory several years after the Prophet was commissioned, Prayers were obligatory from the very outset; not a single moment elapsed when Prayers, as such, were not obligatory in Islam) and the recitation of the Qur'an was an obligatory part of the Prayers, Muslims were committing the Qur'an to memory while its revelation was continued. Thus, as soon as a fragment of the Qur'an was revealed, it was memorized by some of the Companions. Hence the preservation of the Qur'an was not solely dependent on its verses being inscribed on palm leaves, pieces of bone, leather and scraps of parchment - the material used by the Prophet's scribes for writing down Qur'anic verses. Instead those verses came to be inscribed upon scores, then hundreds, then thousands, then hundreds of thousands of human hearts, soon after they had been revealed, so that no scope was left for any devil to alter so much as one word of them.
10/17
When, after the death of Prophet, the storm of apostasy convulsed Arabia and the Companions had to plunge into bloody battles to suppress it, many Companions who had memorized the Qur'an suffered martyrdom. This led 'Umar to plead that the Qur'an ought to be preserved in writing, as well as orally. He therefore impressed the urgency upon Abu Bakr. After slight hesitation, the later agreed and entrusted the task to Zayd ibn Thabit al-ansari, who had worked as a scribe of the Prophet. [For an account of the early history of the Qur'an see Subhi- al salih, Mabahith fi 'Ulum al-Qur'an, Beriut, 1977, pp. 65 ff -Ed]
The procedure decided upon was to try and collect all written pieces of the Qur'an left behind by the Prophet, as well as those in the possession of the Companions. (There are authentic traditions to the effect that several Companions had committed the entire Qur'an, or many parts of it, to writing during the lifetime of the Prophet. Especially mentioned in theis connection are the following Companions of the Prophet: 'Uthman, 'Ali, 'Abd Allah b. Mas'ud, 'Abd Allah b. 'Amr al 'As, Salim the mawla of Hudhayfah, Mu'audh b. Jabal,Ubbay b. Ka'b, and Abu Zayd Qays b. al-Sakan). When all this had been done, assistance was sought from those who had memorized the Qur'an. No verse was incorporated into the Qur'anic codex unless all three sources were found to be complete agreement, and every criterion of verification had been satisfied. Thus an authentic version of the Qur'an was prepared. It was kept in the custody of Hafsah (a wife of the Holy Prophet) and people were permitted to make copies of it and also to use it as the standard of comparison when rectifying the mistakes they might have made in writing down the Qur'an.
In different parts of Arabia and among its numerous tribes their existed a diversity of dialects. The Qur'an was revealed in the language spoken by the Quraysh of Makkah. Nevertheless, in the beginning, people of other areas and other tribes were permitted to recite it according to their own dialects and idioms, since it facilitated its recitation without affecting its substantive meaning. In course of time, in the wake of the conquest of a sizeable part of the world outside of the Arabian peninsula, a large number of non-Arabs entered the fold of Islam. These developments affected the Arabic idiom and it was feared that the continuing use of various dialects in the recitation of the Qur'an might give rise to grave problems. It was possible, for instance, that someone hearing the Qur'an in unfamiliar dialect might pick a fight with the reciter, thinking that the later was deliberately distorting the Word of Allah. It was also possible that such differences might gradually lead to the tampering of the Qur'an itself. It was also not inconceivable that the hybridization of the Arabic language, due to the intermixture between the Arabs and non-Arabs, might lead people to introduce modifications into the Qur'anic text, thus impairing the grace of the Speech of Allah. As a result of such considerations, and after consultations with the Companions of the Prophet, 'Uthman decided that copies of the standard edition of the Qur'an, prepared earlier on the order of Abu Bakr, should be published, and that publication of the Qur'anic text in any other dialect or idiom should be proscribed.
The Qur'an that we possess today corresponds exactly to the edition which was prepared on the orders of Abu Bakr and copies of which were officialy sent, on the orders of 'Uthman, to various cities and provinces. Several copies of this original edition of Qur'an still exist today. Anyone who entertains any doubt as to the authenticity of the Qur'an can satisfy himself by obtaining a copy of the Qur'an from any bookseller, say in West Africa, and then have a hafiz ( memorizer of the Quran) recite it from memory, compare the two, and then compare these with the copies of the Qur'an
11/17
published through the centuries since the time of 'Uthman. If he detects any discrepancy, even in single letter or syllable, he should inform the whole world of his great discovery!
Not even the most sceptical person has a reason to doubt the Qur'an as we know today is identical with the Qur'an which Muhammad (peace be upon him) set before the world; this is an unquestionable, objective, historical fact, and there is nothing in human history on which the evidence is so overwhelmingly strong and conclusive. To doubt the authencity of the Qur'an is like doubting the existence of Roman empire, the Mughals of India, or Napoleon! To doubt historical facts like these is a sign of stark ignorance, not a mark of erudition and scholarship.
Section VII of XI
The Qur'an is a book to which innumerable people turn for innumerable purposes. It is difficult to offer advice appropriate to all. The readers to whom this work is addressed are those who are concerned to acquire a serious understanding of the Book, and who seek the guidance it has to offer in relation to the various problems of life. For such people we have a few suggestions to make, and we shall offer some explanations in the hope of facilitating their study of Qur'an.
Anyone who really wants to understand the Qur'an irrespective of whether or not he believes in it, must divest his mind, as far as possible, of every preconceived notion, bias or prejudice, in order to embark upon his study with an open mind. Anyone who begins to study the Qur'an with a set of preconceived ideas is likely to read those very ideas into the Book. No Book can be profitably studied with this kind of attitude, let alone the Qur'an which refuses to open its treasure-house to such readers.
For those who want only a superficial acquaintance with the doctrines of the Qur'an one reading is perhaps sufficient. For those who want to fathom its depths several readings are not enough. These people need to study the Qur'an over and over again, taking notes of everything that strikes them as significant. Those who are willing to study the Qur'an in this manner should do so at least twice to begin with, so as to obtain a broad grasp of the system of beliefs and practical prescriptions that it offers. In this preliminary survey, they should try to gain an overall perspective of the Qur'an and to grasp the basic ideas which it expounds, and the system of life it seeks to build on the basis of these ideas. If, during the course of this study, anything agitates the mind of the reader, he should note down the point concerned and patiently persevere with his study. He is likely to find that, as he proceeds, the difficulties are resolved. (When a problem has been solved, it is advisable to note down the solution alongside the problem.) Experience suggests that any problem still unsolved after a first reading of the Qur'an are likely to be resolved by a careful second reading.
Only after acquiring a total perspective of the Qur'an should a more detailed study be attempted. Again the reader is well advised to keep noting down the various aspects of the Qur'an's teachings. For instance, he should note the human model the Qur'an extols as praiseworthy, and the model it denounces. It might be helpful to make two columns, one headed 'praiseworthy qualities', the other headed 'blameworthy qualities', and then to enter into the respective columns all that is found relevant in the Qur'an. To take another instance, the reader might proceed to investigate the Qur'anic point of view on what is conductive to human success and felicity, as against what leads to man's ultimate failure and perdition. An efficient way to carry out this investigation would be to note under separate headings, such as 'conductive to success' and 'conductive
12/17
to failure', any relevant material encountered. In the same way, the reader should take down the notes about the Qur'anic teachings on the questions of beliefs, morals, man's rights and obligations, family life and collective behaviour, economic and political life, law and social organization, war and peace, and so on. Then he should use these various teachings to try to develop an image of the Qur'anic teachings vis-a-vis each particular aspect of human life. This should be followed by an attempt at integrating these images so that he comes to grasp the total scheme of life envisaged by the Qur'an.
Moreover, anyone wishing to study in depth the Qur'anic view-point on any particular problem of life should, first of all, study all the significant strands of human thought concerning the problem. Ancient and modern works on the subject should be studied. Unresolved problems where human thinking seems to have got stuck should be noted. The Qur'an should then be studied with these unresolved problems in mind, with a view to finding the solutions the Qur'an has to offer. Personal experience again suggests that anyone who studies the Qur'an in this manner will find his problems solved with the help of verses which he may have read scores of times without it ever crossing his mind that they could have any relevance to the problems at hand.
It should be remembered, nevertheless, that full appreciation of the spirit of the Qur'an demands practical involvement with the struggle to fulfil its mission. The Qur'an is neither a book of abstract theories and cold doctrines which the reader can grasp while seated in a cosy armchair, nor is it merely a religious book like other religious books, the secrets of which can be grasped in seminaries and oratories. On the contrary, it is the blueprint and guidebook of a message, of a mission, of a movement. As soon as this Book was revealed, it drove a quiet, kind-hearted man from his isolation and seclusion, and placed him in a battlefield of life to challenge a world that had gone astray. It inspired him to raise his voice against falsehood, and pitted him in a grim struggle against the standard-bearers of unbelief, of disobedience to Allah, of waywardness and error. One after the other, it sought out everyone who had a pure and noble soul, mustering them together under the standard of the Messenger. It also infuriated all those who by their nature were bent on all mischief and drove them to wage war against the bearers of Truth.
This is the Book which inspired and directed the great movement which began with the preaching of a message by an individual, and continued for no fewer than twenty-three years, until the Kingdom of Allah was truly established on earth. In this long and heart-rending struggle between the Truth and falsehood, this Book unfailingly guided its followers to the eradication of the latter and the consolidation and enthronement of the former. How then could one expect to get to the heart of Qur'anic verses, without so much as stepping upon the field of battle between filth and unbelief, between Islam and Ignorance? To appreciate the Qur'an fully one must take it up and launch into the task of calling people to Allah, making it one's guide at every stage.
Then, and only then, does one meet the various experiences encountered at the time of its revelation. One experiences the initial rejection of the message of Islam by the city of Makka, the persistent hostility leading to the quest for a haven of refuge in Abyssinia, and the attempt to win a favourable response from Ta'if which led, instead, to cruel persecution of the bearer of the Qur'anic message. One experiences also the campaigns of Badr, of Uhad, of Hunayn and of Tabuk. One comes
13/17
face to face with Abu Jahl and Abu Lahab, with hypocrites and Jews, with those who instantly respond to this call as well as those who, lacking clarity of perception and moral strength, were drawn into Islam only at a later stage.
This will be an experience different from any so-called 'mystic experience'. I designate it the 'Qur'anic mystic experience'. One of the characteristics of this 'experience' is that at each stage one almost automatically finds certain Qur'anic verses to guide one, since they were revealed at similar stage and therefore contain the guidance appropriate to it. A person engaged in this struggle may not grasp all the linguistic and grammatical subtleties, he may also miss certain finer points in the rhetoric and semantics of the Qur'an, yet it is impossible for the Qur'an to fail to reveal its true spirit to him.
Again, in keeping with the same principle, a man can neither understand the laws, the moral teachings, and the economic and political principles which the Qur'an embodies, nor appreciate the full import of the Qur'anic laws and regulations, unless he tries to implement them in his own life. Hence the individual who fails to translate the Qur'anic precepts into personal practice will fail to understand the Book. The same must be said of any nation that allows the institutions of its collective life to run contrary to the teachings of Qur'an.
Section VIII of XI
It is well known that the Qur'an claims to be capable of guiding all mankind. Yet the student of the Qur'an finds it generally addressed to the people of Arabia, who lived in the time of its revelation. Although the Qur'an occasionally addresses itself to all mankind its contents are, on the whole, vitally related to the taste and the temperament, the environment and history, and the customs and usages of Arabia. When one notices this, one begins to question why a Book which seeks to guide all mankind to salvation should assign such importance to certain aspects of a particular people's life, and to the things belonging to a particular age and clime. Failure to grasp the real cause of this may lead one to believe that the Book was originally designed to reform the Arabs of the particular age alone, and it is only the people of later times who have forced upon the Book an altogether novel interpretation, proclaiming that its aim is to guide all mankind for all time.
Some might say this with no other purpose then to went their irrational prejudice against Islam. but leaving such people aside, a word may be said to those whose critical comments are motivated by the desire to understand things better. The later would do well to study the Qur'an carefully, noting down any places where they find that it has propounded any doctrine or concept, or laid down some rule for practical conduct, relevant for the Arabs alone and exclusively conditioned by the peculiarities of a certain place or time. If, while addressing the people of certain area at a particular period of time, attempting to refute their polytheistic beliefs and adducing arguments in support of its own doctrine of the unity of Allah, the Qur'an draws upon facts with those people were familiar, this does not warrant the conclusion that its message is relevant only for that particular people or for that particular period of time.
What ought to be considered is whether or not the Qur'anic statements on refutation of the polytheistic beliefs of the Arabs of those days apply as well to other forms of polytheism in other
14/17
parts of world. Can the arguments advanced by the Qur'an in that connection be used to rectify the beliefs of other polytheists? Is the Qur'anic line of argument for establishing the unity of Allah, with minor adaptations, valid and persuasive for every age? If the answers are positive, there is no reason why a universal teaching should be dubbed exclusive to a particular people and merely because it happened to be addressed originally to that people and at that particular period of time. No philosophy, ideology or doctrine consists only of mere abstractions and is totally unrelated to the circumstances in which it developed. Even if such an absolute abstraction were possible it would remain confined to the scraps of paper on which it was written and would fail totally to have an impact on human life.
Moreover, if one wishes to spread any intellectual, moral and cultural movement on an international scale, it is by no means essential, in fact it is not even useful, for it to start on a global scale. If one wishes to propagate certain ideas, concepts and principles as the right bases for human life, one should begin by propagating them vigorously in the country where the message originates, and to the people whose language, temperament, customs and habits are familiar to its proponents. It will thus be possible to transform the lives of the people into a practical model of the message. Only then will it be able to attract the attention of other nations, and intelligent people living elsewhere will also try to understand it and to spread it in their own lands.
Indeed, what marks out a time-bound form an eternal and a particularistic national doctrine from an universal one, is the fact that the former either seek to exalt a people or to claim special privileges for it or else comprises ideas and principles so vitally related to the people's life and tradition as to tender it totally inapplicable to the conditions of other peoples. A universal doctrine, on the other hand, is willing to accord equal rights and status to all, and its principles have an international character in that they are equally applicable to other nations. Likewise, the validity of those doctrines which seek to come to grips merely with questions of a transient and superficial nature is time-bound. If one studies the Qur'an with these considerations in mind, can one really conclude that it has only a particularistic national character, and that its validity is therefore time-bound?
Section IX of XI
Those who embark upon a study of Qur'an often proceed with the assumption that this Book is, as it is commonly believed to be, a detailed code of guidance. However, when they actually read it, they fail to find detailed regulations regarding social, political and economic matters. In fact, they notice that the Qur'an has not laid down detailed regulations even in respect of such oft-repeated subjects as Prayers and Zakah (Purifying alms). The reader finds this somewhat disconcerting and wonders in what sense the Qur'an can be considered a code of guidance.
The uneasiness some people feel about this arises because they forget that Allah did not merely reveal a Book, but that He also designated a Prophet. Suppose some laymen were to be provided with the bare outlines of a construction plan on the understanding that they would carry out the construction as they wished. In such a case, it would be reasonable to expect that they should have very elaborate directives as to how the construction should be carried out. Suppose, however, that along with the broad outline of the plan of construction, they were also provided with a competent engineer to supervise the task. In that case, it would be quite unjustifiable to disregard the work of
15/17
the engineer, on the expectation that detailed directives would form an integral part of the construction plan, and then to complain of imperfection in the plan itself. [This analogy should elucidate the position of the Prophet vis-a-vis the Qur'an, for he clarified and elaborated the Qur'an, supplementing its broad general principles by giving them precise and detailed forms, and incorporating them into practical life, his own as well as that of his followers -Ed].
The Qur'an, to put it succinctly, is a Book of broad general principles rather than of legal minutiae. The Book's main aim is to expound, clearly and adequately, the intellectual and moral foundations of the Islamic programme for life. It seeks to consolidate these by appealing both to man's mind and to his heart. Its method of guidance for practical Islamic life does not consist of laying down minutely detailed laws and regulations. It prefers to outline the basic framework for each aspect of human activity, and to lay down certain guidelines within which man can order his life in keeping with the Will of Allah. The mission of the Prophet was to give practical shape to the Islamic vision of the good life, by offering the world a model of an individual character and of a human state and society, as living embodiments of the principles of the Qur'an.
Section X of XI
The Qur'an is strong in the condemnation of those who indulge in schismatic squabbling after the Book Of Allah has been revealed, so causing a weakening of faith; [See Qur'an 98:4,3:105, 42:14 -Ed] yet there has been considerable disagreement over the correct interpretation of the Qur'anic injunctions, not only among the later scholars, but even among the founders of the legal schools and Successors [The word Successors has been used as the equivalent of Tabiun, i.e. those who benefited from the Companions of the Prophet - Ed]. Indeed, disagreement can be traced back even to the times of the Companions of the Prophet [The word Companions has been used as an equivalent of Sahabah, i.e. those, who in state of belief, enjoyed the companionship of the Prophet( peace be upon him).-Ed]. One can hardly point to a single Qur'anic verse of legal import which has received complete unanimity as regards to its interpretation. One is bound to ask whether the Qur'anic condemnation applies to all who have disagreed in this way. If it does not, then what kind of schism and disagreement does the Qur'an denounce?
This is quite a problem and its ramifications cannot be considered at length here. The reader may rest assure that the Qur'an is not opposed to differences of opinion within the framework of a general agreement on the fundamentals of Islam and broad unity of Islamic community. In addition it is not opposed to disagreement arising from an earnest endeavour to arrive at the right conclusions on a particular subject; the only disagreements condemned by the Qur'an are those arising out of egotism and perversity, leading to mutual strife and hostility.
The two sorts of disagreements are different in character and give rise to different results. The first kind is a stimulus to improvement and the very soul of a healthy society. Differences of this kind are found in every society whose members are endowed with intelligence and reason. Their existence is a sign of life, while their absence serves only to demonstrate that a society is made up not of intelligent men and women but rather of blocks of wood. Disagreements of the second kind, however, are of altogether different character and lead to ruin and destruction of the people among whom they arise. Far from being a sign of health, their emergence is symptomatic of a grave
16/17
sickness.
The first kind of disagreement exists only among scholars who are all agreed that it is their duty to obey Allah and His Prophet. They also agree that the Qur'an and the Sunnah are their main sources of guidance. Thus, when scholarly investigation on some subsidiary question lead two or more scholars to disagree, or when two judges disagree in their judgement, nor the questions on which their opinion has been expressed, as fundamentals of faith. They do not accuse those who disagree with their opinion of having left the fold of true faith. What each does is rather to proffer his arguments showing that he has done his best to investigate the matter thoroughly. It is then left to the courts ( in judicial matters) and to public opinion ( if the matter relates to the community at large) either to prefer whichever opinions seems sounder, or to accept both opinions as equally permissible.
Schism occurs when the very fundamentals are made a matter of dispute and controversy. It may also happen that some scholar, mystic, mufti, or leader pronounces on a question to which Allah and His Messenger have not attached any fundamental importance, exaggerating the significance of the question to such extent that it is transformed into a basic issue of faith. Such people usually go one step further, declaring all those who disagree with their opinion to have forsaken the true faith and set themselves outside the community of true believers. They may go even so far as to organize those who agree with them into a sect, claiming that sect to be identical with the Islamic community, and declaring that everyone who does not belong to it is destined to hell-fire!
Whenever the Qur'an denounces schismatic disagreements and sectarianism, its aim is to denounce this later kind of disagreement. As for disagreements of the first category, we encounter several examples of these even during the life of the Prophet. The Prophet not only accepted the validity of such disagreements, he even expressed his approval of them. For this kind of disagreement shows that the community is not lacking in capacity for thought, for enquiry and investigation, for grasping or wrestling with the problems it faces. It also shows that the intelligent members of the community are earnestly concerned about their religion and how to apply its injunctions to practical problems of human life. It shows too that their intellectual capacities operate within the broad framework of their religion, rather than searching beyond its boundaries for solutions to their problems. And it proves that the community is following the golden path of moderation. Such moderation preserves its unity by broad agreement on fundamentals, and at the same time, provide its scholars and thinkers with full freedom of enquiry so that they may achieve fresh insights and new interpretations within the framework of the fundamental principles of Islam.
Section XI of XI
It is not intended here to survey all the questions that may arise in the mind of a student of Qur'an. Many questions relate to the specific suras or verses, and are explained in the notes to these in various commentaries. This introduction confines itself to basic questions related to the understanding of the Qur'an as a whole.
Source :
تدوینِ قرآن مجید
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کی رہنمائی کے لیتے آخری کتاب ہے، جو آخری نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر ٢٣ سال میں نازل ہوئی، قیامت تک کوئی اور کتاب نازل نہ ہوگی، یہ زندگی کا وہی دستورِ ہے جو اولین مسلمانوں کو رسول الله کے زریعہ ملا تھا، اس میں اصولاً اسی کا اعادہ اور عہد کی تجدید ہے، یہ الله کا عطیہ، مسلمانوں کا مشترکہ روحانی ترکہ ہے، جو تواتر سے نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے، الله نے مسلمانوں کو اس کتاب کا وارث بنایا [سورة فاطر 35 آیت: 32]. اسے دوسری آسمانی کتابوں کا آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہا جا سکتا ہے۔ ابتدائے نزول سے آج تک بلا کسی ادنیٰ تغیر و تبدل کے باقی ہے، اس میں سرِ مو کوئی فرق نہیں آیا، ایک لمحہ کے لیے نہ تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ مسلمان قرآن سے جدا ہوئے-
1. اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآ ن کریم کی حفاظت اپنے ذمہ لیتے ہوۓ فرمایا ہے :
بیشک ہم نے ہی قرآن کی نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں الحجر ( 9 ) ۔
ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :
اللہ تعالی کافرمان ہے کہ بیشک ہم نے ہی ذکر کو نازل فرمایا ہے اور وہ ذکر قرآن ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والےہیں اللہ تعالی نے اس میں یہ فرمایا ہے کہ ہم قرآن کی حفا ظت کرنے والے ہیں کہ کہیں اس میں باطل کا اضافہ نہ کر دیا جاۓ یا پھر اس کے احکام و حدود اور فرائض میں سے کچھ کمی نہ کردی جاۓ ۔ [تفسیر الطبری ( 14 / 8 )]
اور شیخ السعدی رحمہ اللہ تعالی اپنی تفسیر ميں کہتے ہیں کہ :
بیشک ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے یعنی قرآن کو نازل کیا جس میں ہرچيزکے کا ذکر ہے مسائل اورواضحہ دلائل وغیرہ اور اسی طرح اس میں سے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کے لۓ نصحیت بھی ہے ۔
اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں یعنی وقت نزول اور نزول کے بعد بھی ، تو نزول کی حالت میں ہم نے اسے ہر شیطان مردود سے جو کہ چوری چھپے سننے والا ہے سے محفوظ رکھا ہے ، اور نزول کے بعد اللہ تعالی نے اسے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے سینوں میں محفوظ کیا ، اور اللہ تعالی نے اس کے الفاظ کو زیادتی اور نقصان اور اس کے معانی کو تغیر تبدل سے محفوظ رکھا ہے ، تو اس کے معانی میں تحریف کرنے والا کوئ بھی تحریف کرتا ہے تو اللہ تعالی ایسے علماء پیدا فرما دیتا ہے جو کہ حق کو بیان کرتے ہیں ۔
تو اللہ تعالی کی یہ سب سے عظیم نشانی اور نعمت ہے جو کہ اس نےاپنےمومن بندوں پر کی ہوئ ہے ، اور قرآن کی یہ بھی حفاظت ہے کہ اللہ تعالی اس پر عمل کرنے والوں کو ان کے دشمنوں سے محفوظ رکھتا اور ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط نہیں ہونے دیتا ۔ اھـ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن تئیس ( 23 ) برس میں تھوڑا تھوڑا کرکے بوقت ضرورت نازل کیا گیا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
" اور قرآن کو ہم نے تھوڑ تھوڑا کرکے اس لۓ اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائيں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا الاسراء ( 106 ) ۔
شیخ شعدی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :
یعنی : ہم نے یہ قرآن فرق کرنے والا بنا کر نازل کیا ہے جو کہ حق وباطل اورھدایت وگمراہی کے درمیا ن فرق کرنے والا ہے ۔
ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائيں یعنی مہلت کے ساتھ تاکہ وہ اس کے معانی پر غوروفکراور تدبر کر سکیں اور اس کے علوم کا استخراج کریں ۔
اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا تھوڑا تھوڑا کر کے تئیس برس میں نازل کیا ۔ [اھـ تفسیر السعدی ص ( 760 )]
2 - : عرب میں لکھائ اور کتابت بہت ہی کم کی جاتی تھی ، اور اللہ تعالی نے انہیں اسی وصف سے نوازتے ہوۓ فرمایا ہے :
اللہ وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا الجمعۃ ( 2 ) ۔
تو وہ لوگ قرآن کریم کو اپنے سینوں میں حفظ کرتے تھے اور ان میں سے بہت ہی ایسے تھے جو کہ بعض آیات اور سورتیں چمڑے اورباریک پتھروں وغیرہ پر لکھ لیا کرتے تھے ۔
3 - : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں قرآن کریم کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرما دیا تھا ، اور انہیں اپنی کلام لکھنے سے مؤقتا روک دیا تھا حتی کہ صحابہ کرام کی ہمتیں قرآن کریم کے حفظ اور اس کی کتابت پربندھ جاۓ ، اور اس لۓ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا اللہ تعالی کی کلام قرآن کریم کے ساتھ اختلاط نہ ہو جاۓ اور قرآن کریم زیادتی و نقصان سے محفوظ رہے ۔
4 - : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےامین اورفقہاء صحابہ کرام کی ایک جماعت کووحی لکھنے کی ذمہ داری سونپی رکھی تھی ، اور وہ صحابہ اپنے تراجم میں کاتب وحی کے ساتھ اس طرح معروف نہیں جتنے کہ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن عمرو بن عاص اور معاویہ بن ابی سفیان اور زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ تعالی عنہم معروف ہیں ۔
5 - : قرآن کریم سات لغات ولہجات میں اتارا گیا جیسا کہ عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی کی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ صحیح بخاری ( 2287 ) صحیح مسلم ( 818 ) اور یہ لغات اور لہجات فصاحت میں معروف ہیں ۔
6 - : خلیفہ اول ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور تک قرآن کریم صحابہ کرام کے سینوں اور چمڑے وغیرہ پر باقی اور محفوظ رہا ، اس کے بعد مرتدین کے ساتھ لڑائيوں میں بہت سے حفاظ صحابہ کرام شھید ہوگۓ تو ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کو ڈر پیدا ہوا کہ کہیں قرآن کریم صحابہ کرام کے سینوں میں ہے نہ رہ کر ضائع ہو جاۓ ، تو انہوں نے کبار صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ مکمل قرآن کریم کو ایک کتاب میں جمع کیوں نہ کرلیا جاۓ تا کہ وہ ضائع ہونے سے محفوظ رہے ، تو یہ کام انہوں نے حفاظ میں سے زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے ذمہ لگایا ۔
اس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے کچھ یوں کیا ہے :
زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ یمامہ کے بعد میری طرف پیغام بھیجا ( میں جب آیا تو ) عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے پاس دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ عمررضی اللہ تعالی میرے پاس آ کر کہنےلگے کہ جنگ یمامہ میں قرآء کرام کا قتل ( شہادتیں ) بہت بڑھ گیا ہے ، اور مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں دوسرے ملکوں میں بھی قرآء کرام کی شہادتیں نہ بڑھ جائيں جس بنا پر بہت سا قرآن ان کے سینوں میں ان کے ساتھ ہی دفن ہوجائے گا ، اور میری راۓ تو یہ ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا حکم جاری کردیں ۔
تومیں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہا کہ تم وہ کام کیسے کرو گے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟
تو عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم یہ ایک خیر اور بھلائ ہے ، تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ بار بارمیرے ساتھ یہ بات کرتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے اس بارہ میں میرا شرح صدرکردیا ، اور اب میری راۓ بھی وہی ہے جو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے ۔
زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ تم ایک نوجوان اور عقل مند شخص ہو ہم آپ پر کوئ کسی قسم کی تہمت بھی نہیں لگاتے ، اور پھرتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہے ہو ، تو تم قرآن کو تلاش کرکے جمع کرو ۔
زید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کی قسم اگر وہ مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ کوئ پہاڑ منتقل کرنے کا مکلف کرتے تو مجھ پر وہ اتنا بھاری نہ ہوتا جتنا کہ قرآن کریم جمع کرنے کا کام بھاری اور مشکل تھا ، میں کہنے لگا تم وہ کام کیسے کروگے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟ وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ خیر اوربھلائ ہے ، تو ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ بار بار مجھ سے یہ کہتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے میرا بھی شرح صدر کردیا جس طرح ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا شرح صدر ہوا تھا ، تو میں قرآن کریم کو لوگوں کے سینوں اور چھال اور باریک پتھروں سے جمع کرنا شروع کردیا حتی کہ سورۃ التوبۃ کی آخری آیات ابو خزیمۃ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ کسی اور کس پاس نہ پائ لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم ۔۔۔ ( تمہارے پاس ایسا رسول تشریف لایا ہے جو تم میں سے ہے جسے تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں کزرتی ہے ۔۔ ) ۔
تو یہ مصحف ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کی وفات تک ان کے پاس رہے پھر ان کے بعد تاحیات عمر رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس اور ان کے بعد حفصہ بنت عمررضی اللہ تعالی عنہما کے پاس رہے ۔
العسب : کھجور کی ٹہنی کو کہتے ہیں اس کی چھید اس کی چوڑائ میں لکھتے تھے ۔
اور اللخاف ، باریک پتھر کو کہتے ہیں ۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ خود بھی حافظ قرآن تھے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے قرآن کریم کے ثبوت کے لۓ ایک خاص منھج اختیار کیا تو وہ اس وقت تک کوئ آیت نہیں لکھتے تھے کہ جب تک دوصحابی یہ گواہی نہ دے دیں کہ انہوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔
یہ مصحف خلفاء کے ھاتھ میں خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور تک رہا ، اور صحابہ کرام مختلف ممالک میں پھیل چکے اور وہاں وہ قرآن ان سات لہجوں میں ہی پڑھتے تھے جن میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ، تواس طرح ان کے شاگرد اسی طرح پڑھتے جس طرح کہ اس کے شیخ اور استاد نے اسے پڑھایا تھا ۔
جب ایک شاگرد اپنے ہم عصر بھائ کو قرآن کسی اور لہجے میں پڑھتا ہوا دیکھتا وہ اسے غلط کہتا اور اس کا انکار کرتا یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا تو صحابہ کرام کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ تابعین اور ان کے بعد آنے والوں کے درمیان فتنہ نہ پیدا ہوجاۓ اس لۓ انہيں یہ خیال آیا کہ لوگوں کو صرف قریش کے لہجہ پر جمع کردیا جاۓ جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے تاکہ اختلاف کو مٹایا اور اس کی جڑ ہی ختم کردی جاۓ ، عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی اس موافقت کردی ۔
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہما عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آۓ جو کہ آرمینیا اورآذربائجان کو فتح کرنے کے لۓ اہل عراق کے ساتھ مل کر شامیوں سے غزوہ کر رہے تھے حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کو قرآت ميں ان کے اختلاف نے گھبراہٹ میں ڈال دیا تھا ۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے اے امیر المؤمنین اس امت کو کتاب اللہ میں یھودیوں اور عیسائیوں کی طرح اختلاف کرنے سے پہلے ہی پکڑ لیں ، تو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ام المؤمنین حفصہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمیں وہ مصحف دو تاکہ ہم اس کے نسخے تیار کرنے کے بعدیہ مصحف آّ پ کو واپس دے دیا جاۓ گا ، عثمان رضي اللہ تعالی عنہ نے زید بن ثابت ، عبداللہ بن زبیر اور سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ھشام کو مصحف کے نسخے تیار کرنے کا حکم دیا ، اور اس گروہ میں سے تین قریشیوں کو یہ کہا کہ اگر تم اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ قرآن کی کسی چیزمیں اختلاف کرو تو اسے قریش کے لغت میں لکھو کیونکہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے ، توانہوں نے ایسے ہی کیا ۔
جب نسخے تیار ہوچکے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالی کو واپس کردیا ،اور ان نسخوں میں سے ہرایک طرف ایک نسخہ بھیج دیا اور یہ حکم دیا کہ اس نسخہ کے علاوہ ہر مصحف اور صحیفہ جلا دیا جاۓ ۔
ابن شہاب زھری کہتے ہیں کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت رضي اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ زید بن ثابت رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھے مصحف نسخ کرتے وقت سورۃ الاحزاب کی ایک آیت نہ ملی جو کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا جب ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ ہمیں خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے ملی ( من المؤمنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ ) تو ہم نے مصحف میں سورۃ الاحزاب میں ملا دیا ۔
اس طرح اختلاف کی جڑ کاٹ دی گئ اور ایک ہی کلمہ بن اور قرآن کریم لوگوں کے سینوں میں تواتر کے ساتھ محفوظ رہا اور قیامت تک رہے گا ، تو یہی وہ اللہ تعالی کی حفاظت ہے جو اللہ تعالی کے اس فرمان کا مصداق ہے بیشک ہم نے ہی قرآن کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں الحجر ( 9 ) ۔
قرآن ایک معجزہ : https://bit.ly/QuranMojza
۱- سورۂ فاتحہ (کھولنا، آغاز کرنا یا ابتداء کرنا )
۲– سورۂ بقرہ (گائے )
۳- سورۂ آل عمران (عمران کی اولاد)
۴- سورۂ نساء (عورتیں)
۵- سورہ ٔمائدہ (دسترخوان)
۶- سورہ ٔانعام (جانور، مویشی)
۷- سورہ ٔ اعراف (بلندیاں)
۸- سورۂ انفال (اموال غنیمت)
۹- سورۂ توبہ (معافی)
۱۰- یونس (ایک پیغمبر کا نام)
۱۱- سورۂ ہود (ایک پیغمبر کا نام)
۱۲- سورہ ٔ یوسف ( ایک پیغمبر کا نام)
۱۳- سورۂ رعد ( بادل کی گرج)
۱۴- ابراہیم ( ایک پیغمبر کا نام)
۱۵- سورۂ الحجر(ایک مقام کا نام)
۱۶- سورۂ نحل (شہد کی مکھی)
۱۷- سورہ ٔٔبنی اسرائیل (حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد)
۱۸- کہف (غار)
۱۹- سورۂ مریم (عیسی علیہ السلام کی والدہ کا نام)
۲۰- سورۂ طٰہ (حروف تہجی کے دو حروف)
۲۱- سورۂ انبیاء (اللہ کے پیغمبر، نبی کی جمع)
۲۲- سورۂ حج (زیارت)
۲۳- سورۂ مومنون (ایمان والے لوگ)
۲۴- سورۂ نور (روشنی )
۲۵- سورہ فرقان (حق و باطل میں امتیاز کرنے والی چیز)
۲۶- سورۂ شعراء (شاعر کی جمع)
۲۷- سورہ نمل ( چیونٹی)
۲۸- سورہ قصص (قصے، سچے واقعات)
۲۹- سورہ ٔ عنکبوت ( مکڑی)
۳۰- سورۂ روم (روم)
۳۱- سورہ لقمان (ایک صالح بزرگ کا نام)
۳۲- سورۂ سجدہ (جھکنا، سجدہ کرنا)
۳۳- سورہ ٔ احزاب (حزب : گروہ ، جمع : احزاب، جنگ)
۳۴- سورۂ سبا ( ایک قوم )
۳۵- سورۂ فاطر (پیدا کرنےوالا)
۲۶- سورۂ یسین (رسول کا نام)
۳۷- سورہ صافات ( صف بستہ )
۳۸- سورۂ ص (حروف تہجی کا ایک حرف)
۳۹- سورہ زمر ( گرورہ در گروہ)
۴۰- سورۂ مومن ( ایمان والا)
۴۱- سورہ حم (حروف تہجی کے حروف)
۴۲- سورہ ٔ شوری ( صالح و مشورہ)
۴۳- سورہ زخرف (سونا)
۴۴- سورہ دخان ( دھواں)
۴۵- سورہ جاثیہ ( گٹھنوں کے بل گرے ہوئے ہونا)
۴۶- سورہ االحقاف ( ایک جگہ کا نام)
۴۷- سورہ محمد (پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا نام مبارک)
۴۸- سورہ فتح (جیت، کامیابی)
۴۹- سورہ حجرات (حجرے ، کمرے)
۵۰- سورۂ ق (حروف تہجی کاایک حرف )
۵۱- سورۂ ذاریات ( گرد اڑانے والی ہوا)
۵۲- سورۂ طور ( ایک پہاڑ کا نام)
۵۳- سورہ نجم (ستارہ)
۵۴- سورہ قمر (چاند)
۵۵- سورہ رحمن (بہت زیادہ رحم فرمانے والا ، اللہ تعالی کے اسمائے حسنٰی)
۵۶- سورہ واقعہ (قیامت)
۵۷- سورہ حدید (لوہا)
۵۸- سورہ مجادلہ (بحث ، تکرار ، جھگڑا)
۵۹- سورہ حشر (جمع ہونا، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا، قیامت)
۶۰- سورہ ممتحنہ (امتحان لینے والی)
۶۱- سورہ صف (صف بستہ)
۶۲- سورہ جمعہ (دنوں میں سے ایک مبارک دن)
۶۳- سورہ منافقون ( منافق لوگ)
۶۴- سورہ تغابن (خسارہ سے دو چار ہونا)
۶۵- سورہ طلاق (آزاد کرنا، طلاق دینا)
۶۶- سورہ تحریم (حرام کر دینا)
۶۷- سورہ ملک (بادشاہی)
۶۸- سورہ قلم (قلم)
۶۹- سورہ حاقہ (حقیقت، قیامت)
۷۰- سورہ معارج (بلندیاں)
۷۱- سورہ نوح (ایک پیغمبر کا نام)
۷۲- سورہ جن ( آگ سے پیدا کردہ ایک مخلوق)
۷۳- سورہ مزمل (چادر لپیٹنے والا)
۷۴- سورہ مدثر (چادر اوڑھنے والا)
۷۵- سورہ قیامت (یقینًا قائم ہونے والی، قیامت)
۷۶- سورہ ٔ الدھر(بنی آدم)
۷۷- سورہ ٔمرسالت (ہوائیں)
۷۸- سورہ نبأ (اہم خبر)
۷۹- سورہ نازعات (کھینچنے والیاں، ہوا کی صفت)
۸۰- سورہ عبس (تیوری چڑھانا)
۸۱- سورہ ٔ تکویر (لپیٹنا )
۸۲- سورہ الانفطار( دراڑ)
۸۳- سورہ المطففین (ناپ تول میں کمی)
۸۴-سورہ الانشقاق ( شق ہونا )
۸۵- سورہ البروج ( آسمانی برج )
۸۶- سورہ الطارق ( چمکتا تارا )
۸۷-سورہ الاعلیٰ ( اعلی )
۸۸- سورہ الغاشیہ ( آنے والی آفت )
۸۹- سورہ الفجر ( فجر)
۹۰-سورہ البلد ( شہر)
۹۱-سورہ الشمس ( سورج )
۹۲-سورہ الیلل ( رات)
۹۳ -سورہ الضحیٰ ( دن کو اجالا)
۹۴-سورہ الشرح ( سکون قلب )
۹۵- سورہ التین ( انجیر )
۹۶-سورہ العلق ( جمع ہوا خون )
۹۷-سورہ القدر ( قدر)
۹۸-سورہ البیان ( واضح قسم)
۹۹-سورہ الزلزلہ ( زلزلہ)
۱۰۰-سورہ العادیات ( سرپٹ دوڑنے والے گھوڑے)
۱۰۱-سورہ القارعہ ( کھڑکھڑابے والی)
۱۰۲-سورہ التکاثر ( کثرت کی خواہش )
۱۰۳-سورہ العصر ( دور عصر )
۱۰۴-سورہ الھمزہ ( عیب جوئی والا)
۱۰۵-سورہ الفیل ( ہاتھی)
۱۰۶-سورہ القریش ( قریش )
۱۰۷-سورہ الماعون ( عام استعمال کی چیزیں )
۱۰۸-سورہ الکوثر ( حوض کوثر)
۱۰۹-سورہ الکافرون (کافر)
۱۱۰-سورہ النصر (مدد)
۱۱۱- سورہ لہب( آگ کے شعلے)
۱۱۲-سورہ الاخلاص (وحدانیت)
۱۱۳- سورہ الفلق ( صبح)
۱۱۴-سورہ الناس (انسان،لوگ)
قرآن ١١٤ صورتوں پر مشتمل ہے
۱- سورۂ فاتحہ (کھولنا، آغاز کرنا یا ابتداء کرنا )
۲– سورۂ بقرہ (گائے )
۳- سورۂ آل عمران (عمران کی اولاد)
۴- سورۂ نساء (عورتیں)
۵- سورہ ٔمائدہ (دسترخوان)
۶- سورہ ٔانعام (جانور، مویشی)
۷- سورہ ٔ اعراف (بلندیاں)
۸- سورۂ انفال (اموال غنیمت)
۹- سورۂ توبہ (معافی)
۱۰- یونس (ایک پیغمبر کا نام)
۱۱- سورۂ ہود (ایک پیغمبر کا نام)
۱۲- سورہ ٔ یوسف ( ایک پیغمبر کا نام)
۱۳- سورۂ رعد ( بادل کی گرج)
۱۴- ابراہیم ( ایک پیغمبر کا نام)
۱۵- سورۂ الحجر(ایک مقام کا نام)
۱۶- سورۂ نحل (شہد کی مکھی)
۱۷- سورہ ٔٔبنی اسرائیل (حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد)
۱۸- کہف (غار)
۱۹- سورۂ مریم (عیسی علیہ السلام کی والدہ کا نام)
۲۰- سورۂ طٰہ (حروف تہجی کے دو حروف)
۲۱- سورۂ انبیاء (اللہ کے پیغمبر، نبی کی جمع)
۲۲- سورۂ حج (زیارت)
۲۳- سورۂ مومنون (ایمان والے لوگ)
۲۴- سورۂ نور (روشنی )
۲۵- سورہ فرقان (حق و باطل میں امتیاز کرنے والی چیز)
۲۶- سورۂ شعراء (شاعر کی جمع)
۲۷- سورہ نمل ( چیونٹی)
۲۸- سورہ قصص (قصے، سچے واقعات)
۲۹- سورہ ٔ عنکبوت ( مکڑی)
۳۰- سورۂ روم (روم)
۳۱- سورہ لقمان (ایک صالح بزرگ کا نام)
۳۲- سورۂ سجدہ (جھکنا، سجدہ کرنا)
۳۳- سورہ ٔ احزاب (حزب : گروہ ، جمع : احزاب، جنگ)
۳۴- سورۂ سبا ( ایک قوم )
۳۵- سورۂ فاطر (پیدا کرنےوالا)
۲۶- سورۂ یسین (رسول کا نام)
۳۷- سورہ صافات ( صف بستہ )
۳۸- سورۂ ص (حروف تہجی کا ایک حرف)
۳۹- سورہ زمر ( گرورہ در گروہ)
۴۰- سورۂ مومن ( ایمان والا)
۴۱- سورہ حم (حروف تہجی کے حروف)
۴۲- سورہ ٔ شوری ( صالح و مشورہ)
۴۳- سورہ زخرف (سونا)
۴۴- سورہ دخان ( دھواں)
۴۵- سورہ جاثیہ ( گٹھنوں کے بل گرے ہوئے ہونا)
۴۶- سورہ االحقاف ( ایک جگہ کا نام)
۴۷- سورہ محمد (پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کا نام مبارک)
۴۸- سورہ فتح (جیت، کامیابی)
۴۹- سورہ حجرات (حجرے ، کمرے)
۵۰- سورۂ ق (حروف تہجی کاایک حرف )
۵۱- سورۂ ذاریات ( گرد اڑانے والی ہوا)
۵۲- سورۂ طور ( ایک پہاڑ کا نام)
۵۳- سورہ نجم (ستارہ)
۵۴- سورہ قمر (چاند)
۵۵- سورہ رحمن (بہت زیادہ رحم فرمانے والا ، اللہ تعالی کے اسمائے حسنٰی)
۵۶- سورہ واقعہ (قیامت)
۵۷- سورہ حدید (لوہا)
۵۸- سورہ مجادلہ (بحث ، تکرار ، جھگڑا)
۵۹- سورہ حشر (جمع ہونا، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا، قیامت)
۶۰- سورہ ممتحنہ (امتحان لینے والی)
۶۱- سورہ صف (صف بستہ)
۶۲- سورہ جمعہ (دنوں میں سے ایک مبارک دن)
۶۳- سورہ منافقون ( منافق لوگ)
۶۴- سورہ تغابن (خسارہ سے دو چار ہونا)
۶۵- سورہ طلاق (آزاد کرنا، طلاق دینا)
۶۶- سورہ تحریم (حرام کر دینا)
۶۷- سورہ ملک (بادشاہی)
۶۸- سورہ قلم (قلم)
۶۹- سورہ حاقہ (حقیقت، قیامت)
۷۰- سورہ معارج (بلندیاں)
۷۱- سورہ نوح (ایک پیغمبر کا نام)
۷۲- سورہ جن ( آگ سے پیدا کردہ ایک مخلوق)
۷۳- سورہ مزمل (چادر لپیٹنے والا)
۷۴- سورہ مدثر (چادر اوڑھنے والا)
۷۵- سورہ قیامت (یقینًا قائم ہونے والی، قیامت)
۷۶- سورہ ٔ الدھر(بنی آدم)
۷۷- سورہ ٔمرسالت (ہوائیں)
۷۸- سورہ نبأ (اہم خبر)
۷۹- سورہ نازعات (کھینچنے والیاں، ہوا کی صفت)
۸۰- سورہ عبس (تیوری چڑھانا)
۸۱- سورہ ٔ تکویر (لپیٹنا )
۸۲- سورہ الانفطار( دراڑ)
۸۳- سورہ المطففین (ناپ تول میں کمی)
۸۴-سورہ الانشقاق ( شق ہونا )
۸۵- سورہ البروج ( آسمانی برج )
۸۶- سورہ الطارق ( چمکتا تارا )
۸۷-سورہ الاعلیٰ ( اعلی )
۸۸- سورہ الغاشیہ ( آنے والی آفت )
۸۹- سورہ الفجر ( فجر)
۹۰-سورہ البلد ( شہر)
۹۱-سورہ الشمس ( سورج )
۹۲-سورہ الیلل ( رات)
۹۳ -سورہ الضحیٰ ( دن کو اجالا)
۹۴-سورہ الشرح ( سکون قلب )
۹۵- سورہ التین ( انجیر )
۹۶-سورہ العلق ( جمع ہوا خون )
۹۷-سورہ القدر ( قدر)
۹۸-سورہ البیان ( واضح قسم)
۹۹-سورہ الزلزلہ ( زلزلہ)
۱۰۰-سورہ العادیات ( سرپٹ دوڑنے والے گھوڑے)
۱۰۱-سورہ القارعہ ( کھڑکھڑابے والی)
۱۰۲-سورہ التکاثر ( کثرت کی خواہش )
۱۰۳-سورہ العصر ( دور عصر )
۱۰۴-سورہ الھمزہ ( عیب جوئی والا)
۱۰۵-سورہ الفیل ( ہاتھی)
۱۰۶-سورہ القریش ( قریش )
۱۰۷-سورہ الماعون ( عام استعمال کی چیزیں )
۱۰۸-سورہ الکوثر ( حوض کوثر)
۱۰۹-سورہ الکافرون (کافر)
۱۱۰-سورہ النصر (مدد)
۱۱۱- سورہ لہب( آگ کے شعلے)
۱۱۲-سورہ الاخلاص (وحدانیت)
۱۱۳- سورہ الفلق ( صبح)
۱۱۴-سورہ الناس (انسان،لوگ)
تدوینِ قرآن مجید ایک تحقیقی جائزہ ....
------------------
---------------------------------------------------
...
...
An Introduction to the Understanding of the Qur'anSyed Abul A'ala Maududi Translated by Dr. Zafar Ishaq Ansari
It is an effort to acquaint the reader with certain matters which he should grasp at the very outset so as to achieve a more than superficial understanding of the Holy Book. Second, to clarify those disturbing questions that commonly arise in the mind of the reader during the study of the Qur'an.
Section I of XI
We are accustomed to reading books that present information, ideas and arguments systematically and coherently. So when we embark on the study of the Qur'an, we expect that this book too will revolve around a definite subject, that the subject matter of the book too will be clearly defined at the beginning and will then be neatly divided into sections and chapters, after which discussion will proceed in a logical sequence. We likewise expect a separate and systematic arrangement of instruction and guidance for each of the various aspects of human life.
However, as soon as we open the Qur'an, we encounter a hitherto completely unfamiliar genre of literature. We notice that it embodies precepts of belief and conduct, moral directives, legal prescriptions, exhortations and admonition, censure and condemnation of evildoers, warning to the deniers of the Truth, good tidings and words of consolation and good cheer to those who have suffered for the sake of Allah, arguments and corroborative evidence in support of its basic message, allusions to anecdotes from the past and the signs of Allah visible in the universe. Moreover, these myriads subjects alternate without any apparent system; quite unlike the books to which we are accustomed, the Qur'an deals with the same subject over and over again, each time couched in a different phraseology.
The reader also encounters abrupt transitions between one subject matter and another. Audience and speaker constantly change as the message is directed now to one and now to another group of people. There is no trace of the familiar divisions into chapters and sections. Likewise, the treatment of of different subjects is unique. If an historical subject is raised, the narrative does not follow the pattern familiar in historical accounts. In the discussion of philosophical or metaphysical questions, we miss the familiar expressions and terminology of formal logic and philosophy. Cultural and political matters, or questions pertaining to man's social and economic life, are discussed in a way very different from that usual in work of social sciences. Juristic principles and legal injunctions are elucidated, but quite differently from the manner of conventional works. When we come across an ethical instruction, we find its form entirely differs from anything to be found elsewhere in the literature of ethics. The reader may find all this so foreign to his notion of what a book should be that he may become so confused as to feel that the Qur'an is a piece of disorganised, incoherent and
1/17
unsystematic writing, comprising nothing but a disjointed conglomeration of comments of varying lengths put together arbitrarily. Hostile critics use this as a basis for their criticism, while those more favourably inclined resort to far-fetched explanations, or else conclude that the Qur'an consists of unrelated pieces, thus making it amenable to all kinds of interpretations, even interpretations quite opposed to the intent of Allah Who revealed the Book.
Section II of XI
What kind of book, is the Qur'an? In what manner was it revealed? what underlies its arrangement? What is its subject? What is its true purpose? What is the central theme to which its multifarious topics are intrinsically related? What kind of reasoning and style does it adopt in elucidating its central theme? If we could obtain clear, lucid answers to these and other related questions, we might avoid some dangerous pitfalls, thus making it easier to reflect upon and to grasp the meaning and purpose of the Qur'anic verses. If we begin studding the Qur'an in the expectation of reading a book on religion, we shall find it hard, since our notions of religion and of a book are naturally circumscribed by our range of experience. We need, therefore, to be told in advance that this Book is unique in the manner of its composition, in its theme and its contents and arrangement. We should be forewarned that the concept of a book that we have formed from our previous readings is likely to be a hindrance, rather than a help, towards a deep understanding of the Qur'an. We should realise that as a first step towards understanding it we must disabuse our minds of all preconceived notions.
Section III of XI
The student of the Qur'an should grasp, from the outset, the fundamental claims that the Qur'an makes for itself. Whether one ultimately decides to believe in the Qur'an or not, one must recognise the fundamental statements made by the Qur'an and by the man to whom it was revealed, the Prophet Muhammad ( peace be upon him) to be the starting point of one's study. These claims are:
1. The Lord of creation, the Creator and Sovereign of the entire universe, created man on earth (which is merely a part of His boundless realm). He also endowed man with understanding, with the ability to distinguish between the good and evil, with the freedom of choice and volition, and with the power to exercise his latent potentialities. In short, Allah bestowed upon man a kind of autonomy and appointed him His vicegerent on earth.
2. Although man enjoys this status, Allah made it abundantly plain to him that He alone is man's Lord and Sovereign, even as He is the Lord and Sovereign of the whole universe. Man was told that he was not entitled to consider himself independent and that only Allah entitled to claim absolute obedience, service and worship. It was also made clear to man that life in this world, for which he has been placed and invested with a certain honour and authority, was in fact a temporary term, and was meant to test him; that after the end of this earthly life man must return to Allah, Who will judge him on the basis of his performance, declaring who has succeeded and who has failed.
The right way for man is to regard Allah as his only Sovereign and the only object of his worship and adoration, to follow the guidance revealed by Allah, to act in this world in the consciousness that earthly life is merely a period of trial, and to keep his eyes fixed on the ultimate objective - success in Allah's final judgement. Every other way is wrong.
2/17
It was also explained to man that if he choose to adopt the right way of life - and in this choice he was free - he would enjoy peace and contentment in this world and be assigned, on his return to Allah, the Abode of eternal bliss and happiness known as Paradise. Should man follow any other way - although he was free to do so - he would experience the evil effects of corruption and disorder in the life of this world and be consigned to external grief and torment when he crossed the borders of the present world and arrived in Hereafter.
3. Having explained all this, the Lord of the Universe placed man on earth and communicated to Adam and Eve, the first human beings to live on earth, the guidance which they and their offspring were required to follow. These first human beings were not born in a state of ignorance and darkness. On the contrary, they began their life in the broad daylight of divine Guidance. They had intimate knowledge of reality and the Law which they were to follow was communicated to them. Their way of life consisted of obedience to Allah (i.e. Islam) and they taught their children to live in obedience to Him (i.e. to live as Muslims).
In the course of time, however, men gradually deviated from this true way of life and began to follow various erroneous ways. They allowed true guidance to be lost through heedlessness and negligence and sometimes, even deliberately, distorted it out of evil perversity. They associated Allah with a number of beings, human and non-human, real as well as imaginary, and adored them as deities. They adulterer the Allah-given knowledge of reality (al-'ilm in the Qur'anic terminology) with all kinds of fanciful ideas, superstitions and philosophical concepts, thereby giving birth to innumerable religions. They disregarded or distorted the sound and equitable principles of individual morality and of collective conduct (Shari'ah in Qur'anic terminology) and made their own laws in accordance with their base desires and prejudices. As a result, the world became filled with wrong and injustice.
4. It was inconsistent with the limited autonomy conferred upon man by Allah that he should exercise His overwhelming power and compel man to righteousness. It was also inconsistent with the fact that Allah had granted a term to the human species in which to show their worth that He should afflict men with catastrophic destruction as soon as they showed signs of rebellion. Moreover, Allah had undertaken from the beginning of creation that true guidance would be made available to man throughout the term granted to him and that this guidance would be available in a manner consist ant with man's autonomy. To fulfil this self assumed responsibility Allah chose to appoint those human beings whose faith in Him was outstanding and who followed the way pleasing to Him. Allah chose these people to be His envoys. He had His messages communicated to them, honoured them with an intimate knowledge of reality, provided them with the true laws of life and entrusted them with the task of recalling man to the original path from which he had strayed [These men were the Prophets and Messengers of Allah - Ed].
5. These Prophets were sent to different people in different lands and over a period of time covering thousands and thousands of years. They all had the same religion; the one originally revealed to man as the right way for him. All of them followed the same guidance; those principles of morality and collective life prescribed for man at the very outset of his existence. All these Prophets had the same mission - to call man to his true religion and subsequently to organise all those who accepted this message into a community (ummah) which would be bound by the Law Of Allah., which would strive
3/17
to establish its observance and would seek to prevent its violation. All the Prophets discharged their mission creditably in their own time. However, there were always many who refused to accept their guidance and consequently those who did accept it and became a 'Muslim community' [That is, a group of people committed to the true guidance of Allah as revealed to His Prophets. Here the word Muslim is not used in the sense of the followers of the last Messenger of Allah, Muhammad (peace be upon him), but in the wider sense, meaning all those who, at various periods, both before and after the advent of the Last Prophet, committed themselves to live in submission to Allah -Ed] gradually degenerated, causing the Divine Guidance to be lost, distorted or adulterated.
6. At last the Lord of the Universe sent Muhammad (peace be upon him) to Arabia and entrusted him with the same mission that He had entrusted to the earlier Prophets. This Last Messenger of Allah addressed the followers of the earlier Prophets (who had by this time deviated from their original teachings) as well as the rest of humanity. The mission of each Prophet was to call men to the right way of life, to communicate Allah's true guidance afresh and to organise into one community all who responded to his mission and accepted the guidance vouchsafed to him. Such a community was to be dedicated to the two-fold task of moulding its own life in accordance with the Allah's guidance and striving for the reform of the world. The Qur'an is the Book which embodies this mission and guidance, as revealed by Allah to Muhammad (peace be upon him).
Section IV of XI
If we remember these basic facts about the Qur'an it becomes easy to grasp its true subject, its central theme and the objective it seeks to achieve. Insofar as it seeks to explain the ultimate causes of man's success or failure the subject of the Book is MAN.
Its central theme is that concepts relating to Allah, the universe and man which have emanated from man's own limited knowledge run counter to reality. The same applies to concepts which have been either woven by man's intellectual fancies or which have evolved through man's obsession with animal desires. The ways of life which rest on these false foundations are both contrary to reality and ruinous for man. The essence of true knowledge is that which Allah revealed to man when He appointed him as His Vicegerent. Hence, the way of life which is in accordance with reality and conductive to human good is that which we have characterised above as 'the right way'. The real object of the Book is to call people to this 'right way' and to illuminate Allah's true guidance, which has often been lost either through man's negligence and heedlessness or distorted by his wicked perversity.
If we study the Qur'an with these facts in mind it is bound to strike us that the Qur'an does not deviate one iota from its main subject, its central theme and its basic objective. All the various themes occurring in the Qur'an are related to the central theme; just as beads of different colour may be strung together to form a necklace. The Qur'an speaks of the structure of the heavens and the earth and of man, refers to the signs of reality in the various phenomena of the universe, relates anecdotes of bygone nations, criticizes the beliefs, morals and deeds of different people, elucidates supernatural truths and discusses many other things besides. All this the Qur'an does, not in order to provide instruction in physics, history, philosophy or any other particular branch of knowledge, but rather to remove the misconceptions people have about reality and to make that reality manifest
4/17
them.
It emphasizes that the various ways men follow, which are not in conformity with reality, are essentially false, and full of harmful consequences for mankind. It calls on men to shun all such ways and to follow instead the way which both conforms to reality and yields best practical results. This is why the Qur'an mentions everything only to the extent and in the manner necessary for the purposes it seeks to serve. The Qur'an confines itself to essentials thereby omitting any irrelevant details. Thus, all its contents consistently revolve around this call.
Likewise, it is not possible fully to appreciate either the style of Qur'an, the order underlying the arrangement of its verses or the diversity of the subjects treated in it, without fully understanding the manner in which it was revealed.
The Qur'an, as we have noted earlier, is not a book in the conventional sense of the term. Allah did not compose and entrust it in one piece to Muhammad (peace be upon him) so that he could spread its message and call people to adopt an attitude to life consonant with its teachings. Nor is the Qur'an one of those books which discusses their subjects and main themes in the conventional manner. Its arrangement differs from that of ordinary books, and its style is correspondingly different. The nature of this Book is that Allah chose a man in Makkah to serve as His Messenger and asked him to preach His message, starting in its own city (Makkah) and with his own tribe (Quraysh). At this initial stage, instructions were confined to what was necessary at this particular juncture of the mission. Three themes in particular stand out:
Directives were given to the Prophet (peace be upon him) on how he should prepare for his great mission and how he should begin working for the fulfilment of his task. A fundamental knowledge of reality was furnished and misconceptions commonly held by people in tat regard - misconceptions which gave rise to wrong orientation in life - were removed. People were exhorted to adopt the right attitude towards life. Moreover, the Qur'an also elucidated those fundamental principles which, if followed, lead to man's success and happiness.
In keeping with the character of the mission at this stage the early revelations generally consisted of short verses, couched in language of uncommon grace and power, and clothed in a literary style suited to the taste and the temperament of the people to whom they were originally addressed, and whose hearts they were meant to penetrate. The rhythm, melody and vitality of these verses drew rapt attention, as such was their stylistic grace and charm that people began to recite them involuntarily.
The local colour of these early messages in conspicuous, for while the truth s they contained were universal, the arguments and illustrations used to elucidate them were drawn from the immediate environment familiar to the first listeners. Allusions were made to their history and traditions and to the visible traces of the past which had crept into the beliefs, and into the moral and social life of Arabia. All this was calculated to enhance the appeal the message held for its immediate audience. This early stage lasted for four or five years, during which period the following reactions to the Prophet's message manifested themselves:
5/17
1. A few people responded to the call and agreed to join the ummah (comminity) committed, of its own volition, to submit to the Will of Allah.
2. Many people reacted with hostility, either from ignorance or egotism, or because of chauvinistic attachment to the way of life of their forefathers.
3. The call of the Prophet, however, did not remain confined to Makkah or the Quraysh. It began to meet with favourable response beyond the borders of that city and among other tribes.
The next stage of the mission was marked by hard, vigorous struggle between the Islamic movement and the age old Ignorance [ Jahiliyah - The author uses the term Jahiliyah to denote all those world-views and ways of life which are based on the rejection or disregard of the heavenly guidance which is communicated to mankind through the Prophets and Messengers of Allah; the attitude of treating human life - either wholly or partially - as independent of the directives revealed by Allah. For this see the writings of the author, especially 'Islam and Ignorance', Lahore, 1976), and 'A short History of Revivalist Movements in Islam', tr. al-Ashari , III edition, Lahore, 1976 -Ed] of Arabia. Not only were the makkans and the Quraysh bent upon preserving their inherited way of life, they were also firmly resolved to suppress the new movement by force. They stopped at nothing in the pursuit of this objective. They resorted to false propaganda; they spread doubt and suspicion and used subtle, malicious insinuations to sow distrust in people's minds. They tried to prevent people from listening to the message of the Prophet. They perpetrated savage cruelties on those who embraced Islam. They subjected them to economic and social boycott, and persecuted them to such an extent that on two occasions a number of them were forced to leave home and emigrate to Abyssinia, and finally they had to emigrate en masse to Madina.
In spite of this strong and growing resistance and opposition, the Islamic movement continued to spread. There was hardly a family left in Makkah one of whose members at least had not embraced Islam. Indeed, the violence and bitterness of the enemies of Islam was due to the fact that their own kith and kin - brothers, nephews, sons, daughters, sisters, brother-in-law and so on - had not only embraced Islam, but were even ready to sacrifice their lives for its sake. Their resistance, therefore, brought them into conflict with their own nearest and dearest. Moreover, those who had forsaken the age old Ignorance of Arabia included many who were outstanding members of their Society. After embracing Islam, they became so remarkable for their moral uprightness, their veracity and their purity of character that the world could hardly fail to notice the superiority of the message which was attracting people of such qualities.
During the Prophet's long and arduous struggle Allah continued to inspire him with revelations possesing at once the smooth, natural flow of a river, the violent force of a flood and the overpowering effect of a fierce fire. These messages instructed the beleivers in their basic duties, inculcated in them a sense of communicate and belonging, exhorted them to piety, moral excellence and puritgy of character, taught them how to preach the true faith, sustained their spirit by promises of success and Paradise in the Hereafter, arouse them to struggle in the cause of Allah with patience, fortitude and high spirits, and filled their hearts with such zeal and enthusiasm that they were prepared to endure every sacrifice, brave every hardship and face every adversity.
6/17
At the same time, those either bent on opposition, or who had deviated from the right way, or who had immersed themselves in frivolity and wickedness, were warned by having their attentions called to the tragic ends of nations with whose fates they were familiar. They were asked to draw lessons from the ruins of those localities through which they passed every day in the course of their wanderings. Evidence for the unity of Allah and for the existence of After-life was pointed to in signs visible to their own eyes and within the range of their ordinary experience. The weaknesses inherent in polytheism, the vanity of man's ambition to become independent even of Allah, the folly of denying the After-life, the perversity of blind adherence to the ways of one's ancestors regardless of right or wrong, were all fully elucidated with the help of arguments cogent enough to penetrate the minds and hearts of audience.
Moreover, every misgiving was removed, a reasonable answer was provided to every objection, all confusion and perplexity was cleared up, and Ignorance was besieged from all sides till its irrationality was totally exposed. Along with all this went the warning of the wrath of Allah. The people were reminded of the horrors of the Doomsday and the tormenting punishment of the Hell. They were also censured for their moral corruption, for their erroneous ways of life, for their clinging to the ways of Ignorance, for their opposition to Truth and their persecution of the believers. Furthermore, these messages enunciated those fundamental principles of morality and collective life on which all sound and healthy civilizations enjoying Allah's approval had always rested.
This stage was unfolded in several phases. In each phase, the preaching of the message assumed ever wider proportions, as the struggle fort he cause of Islam and opposition to it became increasingly intense and severe, and as the believers encountered people of varying outlooks and beliefs. All these factors had the effect of increasing the variety of the topics in the messages revealed during this period. Such, in brief, was the situation forming the background to the Makkan surahs of the Qur'an.
Section V of XI
For thirteen years the Islamic movement strive in Makkah. It then obtained, in Madina, a haven of refuge in which to concentrate its followers and its strength. The Prophet's movement now centred in its third stage.
During this stage, circumstances changed drastically. The Muslim Community succeeded in establishing a fully-fledged state; its creation was followed by prolonged armed conflict with the representatives of the ancient Ignorance of Arabia. The community also encountered followers of the former Prophets, i.e. Jews and Christians. An additional problem was that hypocrites began to join the fold of Muslim community; their machinations needed to be resisted. After a severe struggle, lasting ten years, the Islamic movement reached a high point of achievement when the entire Arabian peninsula came under its sway and the door was open to the world-wide preaching and reform. This stage, like the preceding one, passed through various phases each of which had its peculiar problems and demands.
It was in the context of these problems that Allah continued to reveal messages to the Prophet. At times these messages were couched in the form of fiery speeches; at other times they were
7/17
characterised by the grandeur and stateliness of majestic proclamations and ordinances. At times they had the air of instructions from a teacher; at others, the style of preaching of reformer. These messages explained how a healthy society, state and civilization could be established and the principles on which the various aspects of human life should be based.
They also dealt with matters directly related to the specific problems facing Muslims. For example, how should they deal with hypocrites (who were harming the Muslims the Muslim community from within) and with the non-Muslims who were living under the care of the Muslim society? How should they relate to the people of the Book? What treatment should be meted out to those with whom the Muslims were at war, and how should they deal with those with whom they were bound by treaties and agreements? How should the believers, as a community, prepare to discharge their obligations as vicegerents of the Lord of Universe? Through the Qur'an the Muslims were guided in questions like these, were instructed and trained, made aware of their weaknesses, urged to risk their lives and property for the cause of Allah, taught the code of morality they should observe in all circumstances of life - in times of victory and defeat, ease and distress, prosperity and adversity, peace and security, peril and danger.
In short, they were being trained to serve as the successors of the mission of the Prophet, with the task of carrying on the message of Islam and bringing about the reform in human life. The Qur'an also addressed itself to those outside the fold of Islam, to the People of the Book, the hypocrites, the unbelievers, the polytheists. Each group was addressed according to its own particular circumstances and attitudes. Sometimes the Qur'an invited them to the true faith with tenderness and delicacy; on other occasions, it rebuked and severely admonished them. It also warned them against, and threatened them with punishment from Allah. It attempted to make them take heed by drawing their attention to instructive historical events. In short, people were left with no valid reason for refusing the call of the Prophet.
Such, briefly, is the background of the Medinan Surahs of the Qur'an.
It is now clear to us that the revelation of the Qur'an began and went hand in hand with the preaching of the message. This message passed through many stages and met with diverse situations from the very beginning and throughout a period of twenty-three years. The different parts of the Qur'an were revealed step by step according to the multifarious, changing needs and requirements of the Islamic movement during these stages. It therefore, could not possibly possess the kind of coherence and systematic sequence expected of doctoral dissertation. Moreover, the various fragments of the Qur'an which were revealed in harmony with the growth of Islamic movement were not published in the form of written treatises, but were spread orally. Their style, therefore, bore an oratorical flavour rather than the characteristics of literary composition.
Furthermore, these orations were delivered by one whose task meant he had to appeal simultaneously to the mind, to the heart and emotions, to the people of different mental levels and dispositions. He had to revolutionize people's thinking, to arouse in them a storm of noble emotions in support of his cause, to persuade his Companions and inspire them with devotion and zeal, and with the desire to improve and reform their lives. He had to raise their morale and steel their determination, turn enemies into friends and opponents into admirers, disarm those out to oppose
8/17
his message and show their position to be morally untenable. In short, he had to do everything necessary to carry out his movement through to a successful conclusion. Orations revealed in conformity with the requirement of a message and movement will inevitably have a style different from that of a professional lecture.
This explains the repetitions we encounter in the Qur'an. The interests of a message and a movement demand that during a particular stage emphasis should be placed only on those subjects which are appropriate at that stage, to the exclusion of matters pertaining to later stages. As a result, certain subjects may require continual emphasis for months or even years. On the other hand, content repetition in the same manner becomes exhausting. Whenever a subject is repeated, it should therefore be expressed in different phraseology, in new forms and with stylistic variations so as to ensure that the ideas and beliefs being put over find their way into the hearts of the people.
At the same time, it was essential that the fundamental beliefs and principles on which the whole movement was based should always be kept fresh in people's minds; a necessity which dictated that they should always be repeated continuously through all stages of the movement. For this reason, certain basic Islamic concepts about the unity of Allah and His Attributes, about the Hereafter, about man's accountability and about reward and punishment, about prophethood and belief in revealed scriptures, about basic moral attributes such as piety, patience, trust in Allah and so on, recur throughout the Qur'an. If these ideas had lost their hold on the minds of the people, the Islamic movement could not have moved forward in its true spirit.
If we reflect on this, it also becomes evident why the Prophet (peace be upon him) did not arrange the Qur'an in the sequence that it was revealed. As we noted, the context in which the Qur'an was revealed in the course of twenty-three years was the mission and the movement of the Prophet; the revelations correspond to the various stages of this mission and movement. Now, it is evident that when the Prophet's mission was completed, the chronological sequence of the various parts of the Qur'an - revealed in accordance with the growth of the Prophet's mission - could in no way be suitable to the changed situation. What was now required was a different sequence in tune with the changed context resulting from the completion of the mission.
Initially, the Prophet's message was addressed to people totally ignorant of Islam. Their instruction had to start with the most elementary things. After the mission had reached to a successful completion, the Qur'an acquired a compelling relevance for those who had decided to believe in the Prophet. By virtue of that belief they had become a new religious community - the Muslim ummah. Not only that, they had been made responsible for carrying on the Prophet's mission, which he had bequeathed to them, in a perfect form, both on conceptual and practical levels. It was no longer necessary for Qur'anic verses to be arranged in chronological sequence. In the changed context, it had become necessary for the bearers of the mission of the Prophet ( peace be upon him) to be informed of their duties and of the true principles and laws governing their lives. They also had to be warned against corruptions which had appeared among the followers of earlier Prophets. All this was necessary in order to equip the Muslims to go out and offer the light of Divine Guidance to the world steeped in darkness.
It would be foreign to the very nature of Qur'an to group together in one place all verses relating to
9/17
specific subject; the nature of the Qur'an requires that the reader should find teachings revealed during the Medinan period interspersed with those of the Makkan period, and vice versa. It requires the juxtaposition of early discourses with instructions from the later period of the life of the Prophet. This blending of the teachings from different periods helps to provide an overall view and an integrated perspective of Islam, and acts as a safeguard against lopsidedness. Furthermore, a chronological arrangement of the Qur'an would have been meaningful to the later generations only if it had been supplemented with explanatory notes and these had to be treated as inseparable appendices to the Qur'an. This would have been quite contrary to Allah's purpose in revealing the Qur'an; the main purpose of its revelation was that all human beings - children and young people, old men and women, town and country dwellers, laymen and scholars - should be able to refer to the Divine Guidance available to them in composite form and providentially secured against adulteration. This was necessary to enable people of every level of intelligence and understanding to know what Allah required of them. This purpose would have been defeated had the reader been obliged solemnly to recite detailed historical notes and explanatory comments along with the Book of Allah.
Those who object to the present arrangement of the Qur'an appear to be suffering from a misapprehension as to its true purpose. They sometimes almost seem under the illusion that it was revealed merely for the benefit of students of history and sociology!
Section VI of XI
The present arrangement of the Qur'an is not the work of later generations, but was made by the Prophet under Allah's directions. Whenever a surah was revealed, the Prophet summoned his scribes, to whom he carefully dictated its contents, and instructed them where to place it in relation to the other Suras. The Prophet followed the same order of suras and verses when reciting during ritual Prayer as on other occasions, and his Companions followed the same practice in memorizing the Qur'an. It is therefore a historical fact that the collection of the Qur'an of the Qur'an came to an end on the very day that its revelation ceased. The One who was responsible for its revelation was also the One who fixed its arrangement. The one whose heart was the receptacle of the Qur'an was also responsible for arranging its sequence. This was far too important and too delicate a matter for anyone else to become involved in.
Since Prayers were obligatory for the Muslims from the very outset of the Prophet's mission,( It should be noted that while five daily Prayers were made obligatory several years after the Prophet was commissioned, Prayers were obligatory from the very outset; not a single moment elapsed when Prayers, as such, were not obligatory in Islam) and the recitation of the Qur'an was an obligatory part of the Prayers, Muslims were committing the Qur'an to memory while its revelation was continued. Thus, as soon as a fragment of the Qur'an was revealed, it was memorized by some of the Companions. Hence the preservation of the Qur'an was not solely dependent on its verses being inscribed on palm leaves, pieces of bone, leather and scraps of parchment - the material used by the Prophet's scribes for writing down Qur'anic verses. Instead those verses came to be inscribed upon scores, then hundreds, then thousands, then hundreds of thousands of human hearts, soon after they had been revealed, so that no scope was left for any devil to alter so much as one word of them.
10/17
When, after the death of Prophet, the storm of apostasy convulsed Arabia and the Companions had to plunge into bloody battles to suppress it, many Companions who had memorized the Qur'an suffered martyrdom. This led 'Umar to plead that the Qur'an ought to be preserved in writing, as well as orally. He therefore impressed the urgency upon Abu Bakr. After slight hesitation, the later agreed and entrusted the task to Zayd ibn Thabit al-ansari, who had worked as a scribe of the Prophet. [For an account of the early history of the Qur'an see Subhi- al salih, Mabahith fi 'Ulum al-Qur'an, Beriut, 1977, pp. 65 ff -Ed]
The procedure decided upon was to try and collect all written pieces of the Qur'an left behind by the Prophet, as well as those in the possession of the Companions. (There are authentic traditions to the effect that several Companions had committed the entire Qur'an, or many parts of it, to writing during the lifetime of the Prophet. Especially mentioned in theis connection are the following Companions of the Prophet: 'Uthman, 'Ali, 'Abd Allah b. Mas'ud, 'Abd Allah b. 'Amr al 'As, Salim the mawla of Hudhayfah, Mu'audh b. Jabal,Ubbay b. Ka'b, and Abu Zayd Qays b. al-Sakan). When all this had been done, assistance was sought from those who had memorized the Qur'an. No verse was incorporated into the Qur'anic codex unless all three sources were found to be complete agreement, and every criterion of verification had been satisfied. Thus an authentic version of the Qur'an was prepared. It was kept in the custody of Hafsah (a wife of the Holy Prophet) and people were permitted to make copies of it and also to use it as the standard of comparison when rectifying the mistakes they might have made in writing down the Qur'an.
In different parts of Arabia and among its numerous tribes their existed a diversity of dialects. The Qur'an was revealed in the language spoken by the Quraysh of Makkah. Nevertheless, in the beginning, people of other areas and other tribes were permitted to recite it according to their own dialects and idioms, since it facilitated its recitation without affecting its substantive meaning. In course of time, in the wake of the conquest of a sizeable part of the world outside of the Arabian peninsula, a large number of non-Arabs entered the fold of Islam. These developments affected the Arabic idiom and it was feared that the continuing use of various dialects in the recitation of the Qur'an might give rise to grave problems. It was possible, for instance, that someone hearing the Qur'an in unfamiliar dialect might pick a fight with the reciter, thinking that the later was deliberately distorting the Word of Allah. It was also possible that such differences might gradually lead to the tampering of the Qur'an itself. It was also not inconceivable that the hybridization of the Arabic language, due to the intermixture between the Arabs and non-Arabs, might lead people to introduce modifications into the Qur'anic text, thus impairing the grace of the Speech of Allah. As a result of such considerations, and after consultations with the Companions of the Prophet, 'Uthman decided that copies of the standard edition of the Qur'an, prepared earlier on the order of Abu Bakr, should be published, and that publication of the Qur'anic text in any other dialect or idiom should be proscribed.
The Qur'an that we possess today corresponds exactly to the edition which was prepared on the orders of Abu Bakr and copies of which were officialy sent, on the orders of 'Uthman, to various cities and provinces. Several copies of this original edition of Qur'an still exist today. Anyone who entertains any doubt as to the authenticity of the Qur'an can satisfy himself by obtaining a copy of the Qur'an from any bookseller, say in West Africa, and then have a hafiz ( memorizer of the Quran) recite it from memory, compare the two, and then compare these with the copies of the Qur'an
11/17
published through the centuries since the time of 'Uthman. If he detects any discrepancy, even in single letter or syllable, he should inform the whole world of his great discovery!
Not even the most sceptical person has a reason to doubt the Qur'an as we know today is identical with the Qur'an which Muhammad (peace be upon him) set before the world; this is an unquestionable, objective, historical fact, and there is nothing in human history on which the evidence is so overwhelmingly strong and conclusive. To doubt the authencity of the Qur'an is like doubting the existence of Roman empire, the Mughals of India, or Napoleon! To doubt historical facts like these is a sign of stark ignorance, not a mark of erudition and scholarship.
Section VII of XI
The Qur'an is a book to which innumerable people turn for innumerable purposes. It is difficult to offer advice appropriate to all. The readers to whom this work is addressed are those who are concerned to acquire a serious understanding of the Book, and who seek the guidance it has to offer in relation to the various problems of life. For such people we have a few suggestions to make, and we shall offer some explanations in the hope of facilitating their study of Qur'an.
Anyone who really wants to understand the Qur'an irrespective of whether or not he believes in it, must divest his mind, as far as possible, of every preconceived notion, bias or prejudice, in order to embark upon his study with an open mind. Anyone who begins to study the Qur'an with a set of preconceived ideas is likely to read those very ideas into the Book. No Book can be profitably studied with this kind of attitude, let alone the Qur'an which refuses to open its treasure-house to such readers.
For those who want only a superficial acquaintance with the doctrines of the Qur'an one reading is perhaps sufficient. For those who want to fathom its depths several readings are not enough. These people need to study the Qur'an over and over again, taking notes of everything that strikes them as significant. Those who are willing to study the Qur'an in this manner should do so at least twice to begin with, so as to obtain a broad grasp of the system of beliefs and practical prescriptions that it offers. In this preliminary survey, they should try to gain an overall perspective of the Qur'an and to grasp the basic ideas which it expounds, and the system of life it seeks to build on the basis of these ideas. If, during the course of this study, anything agitates the mind of the reader, he should note down the point concerned and patiently persevere with his study. He is likely to find that, as he proceeds, the difficulties are resolved. (When a problem has been solved, it is advisable to note down the solution alongside the problem.) Experience suggests that any problem still unsolved after a first reading of the Qur'an are likely to be resolved by a careful second reading.
Only after acquiring a total perspective of the Qur'an should a more detailed study be attempted. Again the reader is well advised to keep noting down the various aspects of the Qur'an's teachings. For instance, he should note the human model the Qur'an extols as praiseworthy, and the model it denounces. It might be helpful to make two columns, one headed 'praiseworthy qualities', the other headed 'blameworthy qualities', and then to enter into the respective columns all that is found relevant in the Qur'an. To take another instance, the reader might proceed to investigate the Qur'anic point of view on what is conductive to human success and felicity, as against what leads to man's ultimate failure and perdition. An efficient way to carry out this investigation would be to note under separate headings, such as 'conductive to success' and 'conductive
12/17
to failure', any relevant material encountered. In the same way, the reader should take down the notes about the Qur'anic teachings on the questions of beliefs, morals, man's rights and obligations, family life and collective behaviour, economic and political life, law and social organization, war and peace, and so on. Then he should use these various teachings to try to develop an image of the Qur'anic teachings vis-a-vis each particular aspect of human life. This should be followed by an attempt at integrating these images so that he comes to grasp the total scheme of life envisaged by the Qur'an.
Moreover, anyone wishing to study in depth the Qur'anic view-point on any particular problem of life should, first of all, study all the significant strands of human thought concerning the problem. Ancient and modern works on the subject should be studied. Unresolved problems where human thinking seems to have got stuck should be noted. The Qur'an should then be studied with these unresolved problems in mind, with a view to finding the solutions the Qur'an has to offer. Personal experience again suggests that anyone who studies the Qur'an in this manner will find his problems solved with the help of verses which he may have read scores of times without it ever crossing his mind that they could have any relevance to the problems at hand.
It should be remembered, nevertheless, that full appreciation of the spirit of the Qur'an demands practical involvement with the struggle to fulfil its mission. The Qur'an is neither a book of abstract theories and cold doctrines which the reader can grasp while seated in a cosy armchair, nor is it merely a religious book like other religious books, the secrets of which can be grasped in seminaries and oratories. On the contrary, it is the blueprint and guidebook of a message, of a mission, of a movement. As soon as this Book was revealed, it drove a quiet, kind-hearted man from his isolation and seclusion, and placed him in a battlefield of life to challenge a world that had gone astray. It inspired him to raise his voice against falsehood, and pitted him in a grim struggle against the standard-bearers of unbelief, of disobedience to Allah, of waywardness and error. One after the other, it sought out everyone who had a pure and noble soul, mustering them together under the standard of the Messenger. It also infuriated all those who by their nature were bent on all mischief and drove them to wage war against the bearers of Truth.
This is the Book which inspired and directed the great movement which began with the preaching of a message by an individual, and continued for no fewer than twenty-three years, until the Kingdom of Allah was truly established on earth. In this long and heart-rending struggle between the Truth and falsehood, this Book unfailingly guided its followers to the eradication of the latter and the consolidation and enthronement of the former. How then could one expect to get to the heart of Qur'anic verses, without so much as stepping upon the field of battle between filth and unbelief, between Islam and Ignorance? To appreciate the Qur'an fully one must take it up and launch into the task of calling people to Allah, making it one's guide at every stage.
Then, and only then, does one meet the various experiences encountered at the time of its revelation. One experiences the initial rejection of the message of Islam by the city of Makka, the persistent hostility leading to the quest for a haven of refuge in Abyssinia, and the attempt to win a favourable response from Ta'if which led, instead, to cruel persecution of the bearer of the Qur'anic message. One experiences also the campaigns of Badr, of Uhad, of Hunayn and of Tabuk. One comes
13/17
face to face with Abu Jahl and Abu Lahab, with hypocrites and Jews, with those who instantly respond to this call as well as those who, lacking clarity of perception and moral strength, were drawn into Islam only at a later stage.
This will be an experience different from any so-called 'mystic experience'. I designate it the 'Qur'anic mystic experience'. One of the characteristics of this 'experience' is that at each stage one almost automatically finds certain Qur'anic verses to guide one, since they were revealed at similar stage and therefore contain the guidance appropriate to it. A person engaged in this struggle may not grasp all the linguistic and grammatical subtleties, he may also miss certain finer points in the rhetoric and semantics of the Qur'an, yet it is impossible for the Qur'an to fail to reveal its true spirit to him.
Again, in keeping with the same principle, a man can neither understand the laws, the moral teachings, and the economic and political principles which the Qur'an embodies, nor appreciate the full import of the Qur'anic laws and regulations, unless he tries to implement them in his own life. Hence the individual who fails to translate the Qur'anic precepts into personal practice will fail to understand the Book. The same must be said of any nation that allows the institutions of its collective life to run contrary to the teachings of Qur'an.
Section VIII of XI
It is well known that the Qur'an claims to be capable of guiding all mankind. Yet the student of the Qur'an finds it generally addressed to the people of Arabia, who lived in the time of its revelation. Although the Qur'an occasionally addresses itself to all mankind its contents are, on the whole, vitally related to the taste and the temperament, the environment and history, and the customs and usages of Arabia. When one notices this, one begins to question why a Book which seeks to guide all mankind to salvation should assign such importance to certain aspects of a particular people's life, and to the things belonging to a particular age and clime. Failure to grasp the real cause of this may lead one to believe that the Book was originally designed to reform the Arabs of the particular age alone, and it is only the people of later times who have forced upon the Book an altogether novel interpretation, proclaiming that its aim is to guide all mankind for all time.
Some might say this with no other purpose then to went their irrational prejudice against Islam. but leaving such people aside, a word may be said to those whose critical comments are motivated by the desire to understand things better. The later would do well to study the Qur'an carefully, noting down any places where they find that it has propounded any doctrine or concept, or laid down some rule for practical conduct, relevant for the Arabs alone and exclusively conditioned by the peculiarities of a certain place or time. If, while addressing the people of certain area at a particular period of time, attempting to refute their polytheistic beliefs and adducing arguments in support of its own doctrine of the unity of Allah, the Qur'an draws upon facts with those people were familiar, this does not warrant the conclusion that its message is relevant only for that particular people or for that particular period of time.
What ought to be considered is whether or not the Qur'anic statements on refutation of the polytheistic beliefs of the Arabs of those days apply as well to other forms of polytheism in other
14/17
parts of world. Can the arguments advanced by the Qur'an in that connection be used to rectify the beliefs of other polytheists? Is the Qur'anic line of argument for establishing the unity of Allah, with minor adaptations, valid and persuasive for every age? If the answers are positive, there is no reason why a universal teaching should be dubbed exclusive to a particular people and merely because it happened to be addressed originally to that people and at that particular period of time. No philosophy, ideology or doctrine consists only of mere abstractions and is totally unrelated to the circumstances in which it developed. Even if such an absolute abstraction were possible it would remain confined to the scraps of paper on which it was written and would fail totally to have an impact on human life.
Moreover, if one wishes to spread any intellectual, moral and cultural movement on an international scale, it is by no means essential, in fact it is not even useful, for it to start on a global scale. If one wishes to propagate certain ideas, concepts and principles as the right bases for human life, one should begin by propagating them vigorously in the country where the message originates, and to the people whose language, temperament, customs and habits are familiar to its proponents. It will thus be possible to transform the lives of the people into a practical model of the message. Only then will it be able to attract the attention of other nations, and intelligent people living elsewhere will also try to understand it and to spread it in their own lands.
Indeed, what marks out a time-bound form an eternal and a particularistic national doctrine from an universal one, is the fact that the former either seek to exalt a people or to claim special privileges for it or else comprises ideas and principles so vitally related to the people's life and tradition as to tender it totally inapplicable to the conditions of other peoples. A universal doctrine, on the other hand, is willing to accord equal rights and status to all, and its principles have an international character in that they are equally applicable to other nations. Likewise, the validity of those doctrines which seek to come to grips merely with questions of a transient and superficial nature is time-bound. If one studies the Qur'an with these considerations in mind, can one really conclude that it has only a particularistic national character, and that its validity is therefore time-bound?
Section IX of XI
Those who embark upon a study of Qur'an often proceed with the assumption that this Book is, as it is commonly believed to be, a detailed code of guidance. However, when they actually read it, they fail to find detailed regulations regarding social, political and economic matters. In fact, they notice that the Qur'an has not laid down detailed regulations even in respect of such oft-repeated subjects as Prayers and Zakah (Purifying alms). The reader finds this somewhat disconcerting and wonders in what sense the Qur'an can be considered a code of guidance.
The uneasiness some people feel about this arises because they forget that Allah did not merely reveal a Book, but that He also designated a Prophet. Suppose some laymen were to be provided with the bare outlines of a construction plan on the understanding that they would carry out the construction as they wished. In such a case, it would be reasonable to expect that they should have very elaborate directives as to how the construction should be carried out. Suppose, however, that along with the broad outline of the plan of construction, they were also provided with a competent engineer to supervise the task. In that case, it would be quite unjustifiable to disregard the work of
15/17
the engineer, on the expectation that detailed directives would form an integral part of the construction plan, and then to complain of imperfection in the plan itself. [This analogy should elucidate the position of the Prophet vis-a-vis the Qur'an, for he clarified and elaborated the Qur'an, supplementing its broad general principles by giving them precise and detailed forms, and incorporating them into practical life, his own as well as that of his followers -Ed].
The Qur'an, to put it succinctly, is a Book of broad general principles rather than of legal minutiae. The Book's main aim is to expound, clearly and adequately, the intellectual and moral foundations of the Islamic programme for life. It seeks to consolidate these by appealing both to man's mind and to his heart. Its method of guidance for practical Islamic life does not consist of laying down minutely detailed laws and regulations. It prefers to outline the basic framework for each aspect of human activity, and to lay down certain guidelines within which man can order his life in keeping with the Will of Allah. The mission of the Prophet was to give practical shape to the Islamic vision of the good life, by offering the world a model of an individual character and of a human state and society, as living embodiments of the principles of the Qur'an.
Section X of XI
The Qur'an is strong in the condemnation of those who indulge in schismatic squabbling after the Book Of Allah has been revealed, so causing a weakening of faith; [See Qur'an 98:4,3:105, 42:14 -Ed] yet there has been considerable disagreement over the correct interpretation of the Qur'anic injunctions, not only among the later scholars, but even among the founders of the legal schools and Successors [The word Successors has been used as the equivalent of Tabiun, i.e. those who benefited from the Companions of the Prophet - Ed]. Indeed, disagreement can be traced back even to the times of the Companions of the Prophet [The word Companions has been used as an equivalent of Sahabah, i.e. those, who in state of belief, enjoyed the companionship of the Prophet( peace be upon him).-Ed]. One can hardly point to a single Qur'anic verse of legal import which has received complete unanimity as regards to its interpretation. One is bound to ask whether the Qur'anic condemnation applies to all who have disagreed in this way. If it does not, then what kind of schism and disagreement does the Qur'an denounce?
This is quite a problem and its ramifications cannot be considered at length here. The reader may rest assure that the Qur'an is not opposed to differences of opinion within the framework of a general agreement on the fundamentals of Islam and broad unity of Islamic community. In addition it is not opposed to disagreement arising from an earnest endeavour to arrive at the right conclusions on a particular subject; the only disagreements condemned by the Qur'an are those arising out of egotism and perversity, leading to mutual strife and hostility.
The two sorts of disagreements are different in character and give rise to different results. The first kind is a stimulus to improvement and the very soul of a healthy society. Differences of this kind are found in every society whose members are endowed with intelligence and reason. Their existence is a sign of life, while their absence serves only to demonstrate that a society is made up not of intelligent men and women but rather of blocks of wood. Disagreements of the second kind, however, are of altogether different character and lead to ruin and destruction of the people among whom they arise. Far from being a sign of health, their emergence is symptomatic of a grave
16/17
sickness.
The first kind of disagreement exists only among scholars who are all agreed that it is their duty to obey Allah and His Prophet. They also agree that the Qur'an and the Sunnah are their main sources of guidance. Thus, when scholarly investigation on some subsidiary question lead two or more scholars to disagree, or when two judges disagree in their judgement, nor the questions on which their opinion has been expressed, as fundamentals of faith. They do not accuse those who disagree with their opinion of having left the fold of true faith. What each does is rather to proffer his arguments showing that he has done his best to investigate the matter thoroughly. It is then left to the courts ( in judicial matters) and to public opinion ( if the matter relates to the community at large) either to prefer whichever opinions seems sounder, or to accept both opinions as equally permissible.
Schism occurs when the very fundamentals are made a matter of dispute and controversy. It may also happen that some scholar, mystic, mufti, or leader pronounces on a question to which Allah and His Messenger have not attached any fundamental importance, exaggerating the significance of the question to such extent that it is transformed into a basic issue of faith. Such people usually go one step further, declaring all those who disagree with their opinion to have forsaken the true faith and set themselves outside the community of true believers. They may go even so far as to organize those who agree with them into a sect, claiming that sect to be identical with the Islamic community, and declaring that everyone who does not belong to it is destined to hell-fire!
Whenever the Qur'an denounces schismatic disagreements and sectarianism, its aim is to denounce this later kind of disagreement. As for disagreements of the first category, we encounter several examples of these even during the life of the Prophet. The Prophet not only accepted the validity of such disagreements, he even expressed his approval of them. For this kind of disagreement shows that the community is not lacking in capacity for thought, for enquiry and investigation, for grasping or wrestling with the problems it faces. It also shows that the intelligent members of the community are earnestly concerned about their religion and how to apply its injunctions to practical problems of human life. It shows too that their intellectual capacities operate within the broad framework of their religion, rather than searching beyond its boundaries for solutions to their problems. And it proves that the community is following the golden path of moderation. Such moderation preserves its unity by broad agreement on fundamentals, and at the same time, provide its scholars and thinkers with full freedom of enquiry so that they may achieve fresh insights and new interpretations within the framework of the fundamental principles of Islam.
Section XI of XI
It is not intended here to survey all the questions that may arise in the mind of a student of Qur'an. Many questions relate to the specific suras or verses, and are explained in the notes to these in various commentaries. This introduction confines itself to basic questions related to the understanding of the Qur'an as a whole.
Source :
- http://www.islamicstudies.info/quran/tafheem/tafheemintroduction.php
- http://www.islamicstudies.info/tafheem.php
- Quran has 114 Surhs [Chapters] of unequal length .... see list ... [.......]
- Read more about Quran .... https://salaamone.com/quran/