بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے (3:19)
Indeed, the religion in the sight of Allah is Islam.
اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ وَ مَا اخۡتَلَفَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿۱۹﴾
"بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بناء پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالٰی اس کا جلد حساب لینے والا ہے" [سورة آل عمران 3 آیت: 19]
“Indeed, the religion in the sight of Allah is Islam. And those who were given the Scripture did not differ except after knowledge had come to them - out of jealous animosity between themselves. And whoever disbelieves in the verses of Allah , then indeed, Allah is swift in [taking] account. [ Surat Aal e Imran: 3 Verse: 19]
اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صرف ایک ہی نظام زندگی اور ایک ہی طریقہ حیات صحیح و درست ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ کو اپنا مالک و معبود تسلیم کرے اور اس کی بندگی و غلامی میں اپنے آپ کو بالکل سپرد کردے اور اس کی بندگی بجا لانے کا طریقہ خود نہ ایجاد کرے ، بلکہ اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے ، ہر کمی و بیشی کے بغیر صرف اسی کی پیروی کرے ۔ اسی طرز فکر و عمل کا نام”اسلام“ ہے اور یہ بات سراسر بجا ہے کہ کائنات کا خالق و مالک اپنی مخلوق اور رعیت کے لیے اس اسلام کے سوا کسی دوسرے طرز عمل کو جائز تسلیم نہ کرے ۔ آدمی اپنی حماقت سے اپنے آپ کو دہریت سے لے کر شرک و بت پرستی تک ہر نظریے اور ہر مسلک کی پیروی کا جائز حق دار سمجھ سکتا ہے ، مگر فرماں روائے کائنات کی نگاہ میں تو یہ نری بغاوت ہے ۔
اللہ کی طرف سے جو پیغمبر بھی دنیا کے کسی گوشے اور کسی زمانہ میں آیا ہے ، اس کا دین اسلام ہی تھا اور جو کتاب بھی دنیا کی کسی زبان اور کسی قوم میں نازل ہوئی ہے ، اس نے اسلام ہی کی تعلیم دی ہے ۔ اس اصل دین کو مسخ کر کے اور اس میں کمی بیشی کر کے جو بہت سے مذاہب نوع انسانی میں رائج کیے گئے ، ان کی پیدائش کا سبب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ لوگوں نے اپنی جائز حد سے بڑھ کر حقوق ، فائدے اور امتیازات حاصل کرنے چاہے اور اپنی خواہشات کے مطابق اصل دین کے عقائد ، اصول اور احکام میں رد و بدل کر ڈالا ۔[تفہیم القرآن: سید ابو الاعلیٰ مودودی]
” ان الدین عندالله الاسلام ” اس لئے تمام ایسے لوگ جنہوں نے اللہ کے دین کو اپنے اپنے زمانه میں قبول کیا اور احکام الہی کے پابند تھے وه مسلمان تھے- پہلے کے تمام الہامی ادیان ” اسلام” پر تھے، فرق صرف شریعت میں رکھتے هیں- قرآن مجید کی اصطلاح ( الْمُسْلِمِينَ) میں، “مسلمان” ہونے کا مطلب ہے کہ الله تعالی کے فر مان ، اور هر قسم کے شرک سے پاک مکمل توحید کے سامنے مکمل طور پرسر تسلیم خم کرنا هے اور یهی وجه هے که قرآن مجید حضرت ابراھیم علیه السلام کو مسلمان کے نام سے متعارف کر تا هے- قرآن مجید کے مطابق الہامی ادیان کے تمام پیرو کار اپنے زمانه میں مسلمان تھے اور اس طرح عیسائی اور یهودی وغیره نئ وحی کے آنے سے پہلےان کا دین منسوخ نه هو نے تک مسلمان تھے ، کیونکه وه پرور دگار عالم کے حضور تسلیم هوئے تھے- بائبل کی موجودہ کتب میں اب بھی خدا کے احکامات کے آگے سر تسلیم کرنے کی آیات کثیر تعداد میں موجود ہیں:
“اور خدا ہمیں اپنی را ہیں بتا ئے گا،اور ہم اس کے راستو ں پر چلیں گے۔”(یسعیاہ 2:2)، ”اَے میرے خدا! میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔“ (زبور ۴۰:۸)، ”میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں اور اُس کا کام پورا کروں۔“ (یوح ۴:۳۴؛ ۶:۳۸)
[“Surrender and obedience to the Will of God” in Bible: Psalm 40:8، 112:1, 148:8,103:20, Jeremiah 31:33, 1 John 2:1-29، 2:17، Matthew 12:50، 26:42، 6:10، John 5:30، 4:34 ، Acts 21:14، Romans 12:2، Hebrews 10:7]
انھیں جو یهودی یا عیسائی کہا جاتا ہے، وه ان کے پیغمبروں کے ناموں سے لوگوں میں مشہور ہوا وہ نام الله کے عطا کردہ نہیں، مگر قرآن میں ان کا انہی مشھور ناموں سے تذکرہ کیا گیا تاکہ پڑھنے والے کو سمجھنے میں آسانی ہو- آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کے بعد وہ “اسلام ” اور”مسلمان” کے اعزاز سے محروم ہو گیے-
اس دور میں”اسلام” کا اطلاق آخری رسول و نبی ، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی کی آخري الہامي کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے- اب “مسلمان” کا نام(عربی:الْمُسْلِمِينَ) ،خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن کا عملی نمونہ تھے، کی پیروی کرنے والوں پر لاگو هوتا هے- مسلمان، قرآن اور سنت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عمل کرنے والے کو کہا جاتا ہے- ، کیونکه انهوں نے دین اسلام کو قبول کر کے اور تمام انبیاء اور آسمانی شریعتوں پر اعتقاد رکھ کر اللہ کے حضور سر تسلیم خم هو نے کا اعلان کیا هے- حقیقی مسلمان وه هے جو احکام و دستورات الهی کو قول و فعل سے تسلیم کرتا ہو، یعنی زبان سے بھی اللہ کی وحدا نیت اور انبیاء علیهم السلام اور خاتم الانبیاء صلی الله علیه وآله وسلم کی رسالت کا اقرار کر ے اور عمل سے بھی دینی احکام اور دستورات ، من جمله دوسروں کے حقوق کی رعایت کرے جیسے اجتماعی قو انین اورشہادہ، نماز، روزه، زکات، حج وغیره جیسے انفرادی احکام کا پابند هو- قرآن مجید میں حقیقی مسلمان کو مومن کے نام سے بھی یاد کیاگیا هے اور بہت صفاتی ناموں سے بھی مگر “مسلمان” ہونے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، کیوں؟ اسلام میں اتحاد پر بہت زور دیا جاتا ہے، جس طرح نماز میں ایک اللہ کی عبادت ایک سمت (قبلہ) کی طرف منہ کرکہ ادا کی جاتی ہے اسی طرح ایک نام “مسلمان” (عربی:الْمُسْلِمِينَ) بھی اتحاد مسلمین کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے- نام سے فرق پڑتا ہے خاص طور پر جو نام الله تعالی نے خود عطا فرمایا ہو…. مکمل تفصیلات اسیھاں پر پڑہیں .. … [تحقیق - آفتاب خان ]
“سلام” کے لغوی معنی صلح، امن کے ہیں، اطاعت و فرمانبرداری کے لیے جھکنا، عیوب و نقائص سے پاک اور بری ہونا، کسی عیب یا آفت سے نجات پانا بھی سلام کا معنی ..............
اسلام تمام نبیوں کا دین :
شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾
اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح ( علیہ السلام ) کو حکم دیا تھا اور جو ( بذریعہ وحی ) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے ، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہم السلام ) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو ( ان ) مشرکین پر گراں گزرتی ہے اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے ۔ [سورة الشورى 42 آیت: 13]
He has ordained for you of religion what He enjoined upon Noah and that which We have revealed to you, [O Muhammad], and what We enjoined upon Abraham and Moses and Jesus - to establish the religion and not be divided therein. Difficult for those who associate others with Allah is that to which you invite them. Allah chooses for Himself whom He wills and guides to Himself whoever turns back [to Him].( Read details here ...[ Surat us Shooraa: 42 Verse: 13]
اسلام دین ابراہیم علیہ السلام :
وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَقَدِ اصۡطَفَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۳۰﴾
دین ابراہیمی سے وہ ہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو ، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے ۔ [سورة البقرة 2 آیت: 130]
And who would be averse to the religion of Abraham except one who makes a fool of himself. And We had chosen him in this world, and indeed he, in the Hereafter, will be among the righteous. [ Surat ul Baqara: 2 Verse: 130]
دین اسلام مکمل ہے (5:3)
".... ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ...﴿۳﴾
".... آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا ۔ .. .(5:3)
“---- This day those who disbelieve have despaired of [defeating] your religion; so fear them not, but fear Me. This day I have perfected for you your religion and completed My favor upon you and have approved for you Islam as religion. … [ Surat ul Maeeda: 5 Verse: 3]
دین کو مکمل کر دینے سے مراد ُس کو ایک مستقل نظام فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظام تہذیب و تمدن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔ نعمت تمام کرنے سے مراد نعمت ہدایت کی تکمیل کر دینا ہے ۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا ، اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچا اور مخلصانہ اقرار ثابت کر چکے ہو ، اس لیے میں نے اسے درجہ قبولیت عطا فرمایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی کا جوا تمہاری گردنوں پر باقی نہ رہا ۔ اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبوری تمہیں لاحق نہیں رہی ہے ۔ ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ سکوت اختیار فرماتا ہے مگر انداز کلام سے خود بخود یہ بات نکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہیں تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حدود پر قائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو ۔ مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقعہ پر سن ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی تھی ۔ لیکن جس سلسلہ کلام میں یہ واقع ہوئی ہے وہ صُلحِ حُدَیبیَہ سے متصل زمانہ ( سن ٦ ہجری ) کا ہے اور سیاق عبارت میں دونوں فقرے کچھ ایسے پیوستہ نظر آتے ہیں کہ یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ ابتداء میں یہ سلسلہ کلام ان فقروں کے بغیر نازل ہوا تھا اور بعد میں جب یہ نازل ہوئے تو انہیں یہاں لا کر نصب کر دیا گیا ۔ میرا قیاس یہ ہے ، وَ الْعِلْمُ عِنْدَ اللہ ، کہ ابتداءً یہ آیت اسی سیاق کلام میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس کی حقیقی اہمیت لوگ نہ سمجھ سکے ۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہو گیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبی پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا ۔ [تفہیم القرآن: سید ابو الاعلیٰ مودودی]
دین صرف اسلام اور مسلمان (2:131,133)
إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٣١﴾ وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٣٢﴾ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٣﴾
"اس (ابراہیم) کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا: "مسلم ہو جا"، تو اس نے فوراً کہا: "میں مالک کائنات کا "مسلم" ہو گیا" (131) اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوبؑ اپنی اولاد کو کر گیا اس نے کہا تھا کہ: "میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا" (132) پھر کیا تم اس وقت موجود تھے، جب یعقوبؑ اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا؟اس نے مرتے وقت اپنے بچوں سے پوچھا: "بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟" ان سب نے جواب دیا: "ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیمؑ، اسماعیلؑ اور اسحاقؑ نے خدا مانا ہے اور ہم اُسی کے مسلم ہیں" (2:133)
“When his Lord said to him, "Submit", he said "I have submitted [in Islam] to the Lord of the worlds." (131) And Abraham instructed his sons [to do the same] and [so did] Jacob, [saying], "O my sons, indeed Allah has chosen for you this religion, so do not die except while you are Muslims." (132) Or were you witnesses when death approached Jacob, when he said to his sons, "What will you worship after me?" They said, "We will worship your God and the God of your fathers, Abraham and Ishmael and Isaac - one God. And we are Muslims [in submission] to Him." (2:133)
یہاں سر تسلیم خم کے نے کے لئے قرآن کریم نے ’’ اسلام‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کے لفظی معنی سر جھکانے اور کسی کے مکمل تابع فرمان ہوجانے کے ہیں۔ ہمارے دین کا نام اسلام اسی لئے رکھا گیا ہے کہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ ہی کا تابعدار بنے۔ حضرت ابراہیم چونکہ شروع ہی سے مومن تھے اس لئے یہاں اللہ تعالیٰ کا مقصد ان کو ایمان لانے کی تلقین کرنا نہیں تھا اسی لئے یہاں اس لفظ کا ترجمہ اسلام لانے سے نہیں کیا گیا البتہ اگلی آیت (١٣٢) میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جو وصیت اپنی اولاد کے لئے مذکور ہے وہاں اسلام کے مفہوم میں دونوں باتیں داخل ہیں، دین برحق پر ایمان رکھنا بھی اور اس کے بعد اللہ کے ہر حکم کی تابعداری بھی۔ اس لئے وہاں لفظ ’’ مسلم‘‘ ہی استعمال کیا گیا ہے-[تقی عثمانی ]
ملت ابراہیمی کا بنیادی اصول اسلام یعنی اطاعت حق ہے وہ صرف اسلام میں منحصر ہے:
اس کے بعد دوسری آیت میں ملت ابراہیمی کے بنیادی اصول بتلائے گئے ارشاد ہوا۔ اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی جب فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے رب نے کہ اطاعت اختیار کرو تو انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اطاعت اختیار کی رب العالمین کی اس طرز بیان میں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اللہ جل شانہ کے خطاب اسلم کا جواب بظاہر خطاب ہی کے انداز میں یہ ہونا چاہئے کہ اَسْلَمْتُ لَکَ یعنی میں نے آپ کی اطاعت اختیار کرلی مگر حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اس طرز خطاب کو چھوڑ کر یوں عرض کیا کہ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی میں نے پروردگار عالم کی اطاعت اختیار کرلی ایک تو اس میں رعایت ادب کے ساتھ اور حق جل وعلا شانہ کی حمد وثناء شامل ہوگئی جس کا مقام تھا دوسری اس کا اظہار ہوگیا کہ میں نے جو اطاعت اختیار کی وہ کسی پر احسان نہیں کیا بلکہ میرے لئے اس کا کرنا ہی ناگزیر تھا کیونکہ وہ رب العلمین یعنی سارے جہان کا پروردگار ہے سارے جہان اور جہان والوں کو اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ کار نہیں جس نے اطاعت اختیار کی اس نے اپنا فرض ادا کرکے اپنا نفع حاصل کیا اس میں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ:
ملت ابراہیمی کا بنیادی اصول اور پوری حقیقت ایک لفظ اسلام میں مضمر ہے جس کے معنی ہیں اطاعت حق اور یہی خلاصہ ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مذہب ومسلک کا اور یہی حاصل ہے ان امتحانات کا جن سے گزر کر اللہ تعالیٰ کا یہ خلیل اپنے مقام عالی تک پہنچا ہے اور اسلام یعنی اطاعت حق ہی وہ چیز ہے جس کے لئے یہ سارا جہاں بنایا گیا اور جس کے لئے انبیاء (علیہم السلام) بھیجے گئے آسمانی کتابیں نازل کی گئی-
اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلام ہی تمام انبیاء (علیہم السلام) کا مشترک دین اور نقطہ وحدت ہے حضرت آدم سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک ہر آنے والے رسول اور نبی نے اسی کی طرف دعوت دی اسی میں اپنی اپنی امت کو چلایا قرآن کریم نے واضح الفاظ میں فرمایا:
١۔ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (١٩: ٣) دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے
٢۔ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ (٨٥: ٣) اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین و مذہب اختیار کرے وہ مقبول نہیں
ظاہر ہے کہ جتنے دین و مذہب مختلف انبیاء (علیہم السلام) لائے ہیں وہ سب اپنے اپنے وقت میں اللہ کے نزدیک مقبول تھے اس لئے ضروری ہے کہ وہ سب دین دین اسلام ہی ہوں اگرچہ نام ان کا کچھ بھی رکھ دیا جائے، دین موسیٰ (علیہ السلام) وعیسیٰ (علیہ السلام) کہا جائے یا یہودیت ونصرانیت وغیرہ مگر حقیقت سب کی اسلام ہے جس کا حاصل اطاعت حق ہے-
البتہ اس میں ایک خصوصیت ملت ابراہیمی کو حاصل ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی ملت کا نام بھی اسلام تجویز کیا اور اپنی امت کو بھی امت مسلمہ کا نام دیا دعا میں عرض کیا:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ (١٢٨: ٢)
اے ہمارے پروردگار بنادیجئے ہم دونوں (ابراہیم، اسمٰعیل) کو مسلم (یعنی اپنا فرمانبردار) اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنا فرمانبردار بنا،
اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا،
فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (١٣٢: ٢)
تم بجز مسلم ہونے کے کسی مذہب پر جان نہ دینا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد یہ خصوصی امتیاز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی تجویز کے مطابق امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کو حاصل ہوا کہ اس کا نام امت مسلمہ رکھا گیا اور اس کی ملت بھی ملت اسلامیہ کے نام سے معروف ہوئی-
قرآن کریم کا ارشاد ہے،
مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ ۭهُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ ڏ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا (٧٨: ٢٢)
تم اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر قائم رہو اس نے تمہارا لقب مسلمان رکھا ہے پہلے بھی اور اس میں بھی (یعنی قرآن میں)
کہنے کو تو یہود بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم ملت ابراہیم (علیہ السلام) پر ہیں نصاریٰ بھی اور مشرکین عرب بھی لیکن یہ سب غلط فہمی یا جھوٹے دعوے تھے حقیقت میں ملت محمدیہ ہی آخری دور میں ملت ابراہیمی اور دین فطرت کے مطابق تھی-
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جتنے انبیاء (علیہم السلام) تشریف لائے اور جتنی کتابیں اور شرائع نازل ہوئے ان سب کی روح اسلام یعنی اطاعت حق ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں فرمان حق کی اطاعت اور اتباع ہوٰی کو چھوڑ کر اتباع ہدیٰ کی پابندی، افسوس ہے کہ آج اسلام کا نام لینے والے لاکھوں مسلمان بھی اس حقیقت سے بیگانہ ہوگئی اور دین و مذہب کے نام پر بھی اپنی خواہشات کا اتباع کرنا چاہتے ہیں-
انھیں قرآن و حدیث کی صرف وہ تفسیر و تعبیر بھلی ہوتی ہے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو ورنہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ جامہ شریعت کو کھینچ تان کر بلکہ چیر پھاڑ کر اپنی اغراض اور اہوا نفسانی کے بتوں کا لباس بنادیں کہ دیکھنے میں دین و مذہب کا اتباع نظر آئے اگرچہ وہ حقیقت میں خالص اتباع ہویٰ اور خواہشات کی پیروی ہے،
سو وہ شد از سجدہ راہ بتاں پیشانیم چند بر خود تہمت دین مسلمانی نہم
غافل انسان یہ نہیں جانتا کہ یہ حیلے اور تاویلیں مخلوق کے سامنے تو چل سکتی ہیں مگر خالق کے سامنے جس کا علم ذرہ ذرہ کو محیط ہے جو دلوں کے چھپے ہوئے ارادوں بھیدوں کو دیکھتا اور جانتا ہے اس کے آگے بجز خالص اطاعت کے کوئی چیز کارگر نہیں، کارہا با خلق آری جملہ راست با خدا تزویر وحیلہ کے رد است حقیقی اسلام یہ ہے کہ اپنی اغراض اور خواہشات سے بالکل خالی الذہن ہو کر انسان کو اس کی تلاش ہو کہ حضرت حق جل شانہ کی رضا کس کام میں ہے اور اس کا فرمان میرے لئے کیا ہے وہ ایک فرنبردار غلام کی طرح گوش برآواز رہے کہ کس طرف جانے کا اور کس کام کا حکم ہوتا ہے اور اس کام کو کس انداز سے کیا جائے جس سے وہ مقبول ہوا اور میرا مالک راضی ہو اسی کا نام عبادت و بندگی ہے،
در راہ عشق وسوسہ اہرمن بسے ست ہشدار وگوش رابہ پیام سروش دار
اسی جذبہ اطاعت و محبت کا کمال انسان کی ترقی کا آخری مقام ہے جس کو مقام عبدیت کہا جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ کا خطاب پاتے ہیں اور سید الرسل خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عبدنا کا خطاب ملتا ہے اسی عبدیت اور اطاعت کے ذیلی درجات پر امت کے اولیاء اقطاب وابدال کے درجات دائر ہوتے ہیں اور یہی حقیقی توحید ہے جس کے حاصل ہونے پر انسان کے خوف وامید صرف ایک اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں، امید و ہراسش نباشد زکس ہمیں ست بنیاد توحید وبس غرض اسلام کے معنی اور حقیقت اطاعت حق ہے اور اس کا راستہ صرف اتباع سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں منحصر ہے جس کو قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اس طرح ارشاد فرمایا:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا (٦٥: ٤)
تیرے رب کی قسم وہ کبھی مومن نہ ہوں گے جب تک وہ آپ کو اپنے تمام اختلافی معاملات میں حاکم تسلیم نہ کرلیں اور پھر آپ کے فیصلہ سے کوئی دلی تنگی محسوس نہ کریں اور فیصلہ کو ٹھنڈے دل سے تسلیم نہ کریں،
آیت مذکورہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی اور ان سے عہد لیا وہ یہ تھا کہ اسلام کے سوا اور کسی حالت اور کسی ملت پر نہ مرنا مراد اس کی یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اسلام اور اسلامی تعلیمات پر پختگی سے عمل کرتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارا خاتمہ بھی اسلام پر فرما دے جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ تم اپنی زندگی میں جس حالت کے پابند رہو گے اسی حالت پر تمہاری موت بھی ہوگی اور اسی حالت میں محشر میں قائم ہوگے اللہ جل شانہ کی عادت یہی ہے کہ جو بندہ نیکی کا قصد کرتا ہے اور اس کے لئے اپنے مقدور کے مطابق کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیکی کی توفیق دیدیتے ہیں اور یہ کام اس کے لئے آسان کردیتے ہیں، اس معا ملہ میں اس حدیث سے شبہ نہ کیا جائے جس میں یہ ارشاد ہے کہ بعض آدمی جنت کے کام اور اہل جنت کا عمل ہمیشہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس شخص اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فیصلہ رہ جاتا ہے مگر پھر اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے اور اہل دوزخ کے سے کام کرنے لگتا ہے اور انجام کار دوزخ میں جاتا ہے اسی طرح بعض آدمی دوزخ کے کام میں مشغول رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر تقدیر غالب آتی ہے اور آخر عمر میں اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے، وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کے بعض الفاظ میں یہ قید بھی لگی ہوئی ہے کہ فیما یبدو للناس یعنی جس نے عمر بھر جنت کے کام کئے اور آخر میں دوزخ کے کام میں لگا درحقیقت اس کے پہلے کام بھی دوزخ ہی کے عمل تھے مگر لوگوں کے ظاہر میں اور دیکھنے میں وہ اہل جنت کے عمل معلوم ہوتے تھے اسی طرح جو دوزخ کے اعمال میں مشغول رہا آخر میں جنت کے کام کرنے لگا درحقیقت وہ اول ہی سے جنت کے کام میں تھا مگر ظاہر نظر میں لوگ اس کو گناہگار سمجھتے تھے (ابن کثیر) خلاصہ یہ ہے کہ جو آدمی نیک کام میں مشغول رہے اس کو اللہ تعالیٰ کے وعدہ اور عادت کی بناء پر یہی امید رکھنی چاہئے کہ اس کا خاتمہ بھی نیکی پر ہوگا- [معارف القرآن: مفتی محمد شفیع]
یہود کو زجرو توبیخ کی جا رہی ہے تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ابراہیم، یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہودیت پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی تھی، تو کیا تم وصیت کے وقت موجود تھے ؟ اگر وہ یہ کہیں کہ موجود تھے تو یہ جھوٹ اور بہتان ہوا اور اگر کہیں کہ حاضر نہیں تھے تو ان کا مزکورہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا کیونکہ انہوں نے جو وصیت کی وہ تو اسلام کی تھی نہ کہ یہودیت کی، یا عسائیت کی۔ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا اگرچہ شریعت اور طریقہ کار میں کچھ اختلاف رہا ہے، اس کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا انبیاء کی جماعت اولاد علامات ہیں، ان کی مائیں مختلف (اور باپ ایک) ہے اور ان کا دین ایک ہی ہے۔
[اضافی نوٹ : افسوس مسلمانوں نے الله کے عطا کردہ خوبصورت نام "مسلم " کے ساتھ شخصیات , شہروں اور کتب کے نام شریک کر دیے اور فرقہ یر فرقہ بن گیے - اگر تمام اختلاف کے باوجود صرف اللہ کے عطا کدردہ نام "مسلم ، مسلمین " مسلمان کو اختیار کریں ا ور سابقہ و لاحقہ مٹا دیں تو یہ فرقہ واریت کے خاتمہ کی طرف پہلا قدم ہو گا … مزید تفصیل پڑھیں......[..........]…… (از آفتاب خان ) ...
مسلمانوں پر اقوام عالم کی امامت کی زمہ داری (2:!43)
وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ
"اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک توسط (و اعتدال) والی امت بنایا، تاکہ تم باقی لوگوں پر گواہ ہوؤ، اور (تمہارے) رسول تم پر گواہ ہوں .." [سورة البقرة 2 آیت: 143]
And thus we have made you a just community that you will be witnesses over the people and the Messenger will be a witness over you... [ Surat ul Baqara: 2 Verse: 143]
یہ اُمّتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا اعلان ہے ۔ ”اسی طرح“ کا اشارہ دونوں طرف ہے: اللہ کی اس رہنمائی کی طرف بھی ، جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرنے والوں کو سیدھی راہ معلوم ہوئی اور وہ ترقی کرتے کرتے اس مرتبے پر پہنچے کہ ” اُمّتِ وَسَط“ قرار دیے گئے ، اور تحویلِ قبلہ کی طرف بھی کہ نادان اسے محض ایک سَمْت سے دُوسری سَمْت کی طرف پھرنا سمجھ رہے ہیں ، حالانکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سَمْت قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزُول کیا اور اُمّتِ محمدیہ کو اس پر فائز کر دیا ۔
”اُمتِ وَسَط“ کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دُوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا ۔
اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے ، جو عدل و انصاف اور توسّط کی روش پر قائم ہو ، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو ، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق ، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو ۔
پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں”اُمّتِ وَسَط“ اس لیے بنایا گیا ہے کہ”تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسُول تم پر گواہ ہو“ تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوعِ انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گا ، اس وقت رسُول ہمارے ذمّہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکرِ صحیح اور عمل صالح اور نظام عدل کی جو تعلیم ہم نے اسے دی تھی ، وہ اس نے تم کو بےکم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور عملاً اس کے مطابق کام کر کے دکھا دیا ۔
اس کے بعد رسُول کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہوگا اور یہ شہادت دینی ہوگی کہ رسُول نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا ، وہ تم نے انہیں پہنچانے میں ، اور جو کچھ رسُول نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی ۔
اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے ۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمّہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے
اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسُول صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمّت کے لیے خدا ترسی ، راست روی ، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے ، اسی طرح اس اُمّت کو بھی تمام دنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے ، حتّٰی کہ اس کے قول اور عمل اور برتاؤ ، ہر چیز کو دیکھ کر دنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے ، راست روی یہ ہے ، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے ۔
پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمّہ داری بڑی سخت تھی ، حتّٰی کہ اگر وہ اس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے ، اسی طرح دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمّہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے ۔
اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت ، جو تیرے رسُول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی ، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے ، تو ہم بہت بری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا ۔
ہماری امامت کے دَور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں ، ان سب کے لیے ائمہء شر اور شیاطینِ انس و جِنّ کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے ۔
ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت ، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا ، تو تم کہاں مر گئے تھے یعنی اس سے مقصُود یہ دیکھنا تھا کہ کون لوگ ہیں جو جاہلیّت کے تعصّبات اور خاک و خون کی غلامی میں مبتلا ہیں ، اور کون ہیں جو ان بندشوں سے آزاد ہو کر حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہیں ۔ [تفہیم القرآن]
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ مِنۡہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿ آل عمران ۱۱۰﴾
"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو ، اور اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہو ، اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر تھا ، ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں" [سورة آل عمران 3 آیت: 110]
“You are the best nation produced [as an example] for mankind. You enjoin what is right and forbid what is wrong and believe in Allah . If only the People of the Scripture had believed, it would have been better for them. Among them are believers, but most of them are defiantly disobedient.”(Read details here )[ Surat Aal e Imran: 3 Verse: 110]
غور فرمائیے اللہ پر ایمان لانا سب باقی اعمال و افعال سے مقدم ہے۔ لیکن امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر محض اس لیے پہلے کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کو واضح کرنا مقصود تھا۔ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اے مسلمانو ! تم بہترین امت صرف اس لیے ہو کہ تم برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک مسلمان اچھے کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے روکتے رہیں گے وہ بہترین امت رہیں گے اور جب انہوں نے اس فریضہ سے کوتاہی کی تو پھر بہترین امت نہیں رہیں گے۔
برے کاموں سے مراد کفر، شرک، بدعات، رسوم قبیحہ، فسق و فجور ہر قسم کی بداخلاقی اور بےحیائی اور نامعقول باتیں شامل ہیں اور ان سے روکنے کا فریضہ فرداً فرداً بھی ہر مسلمان پر عائد ہوتا ہے۔ اور اجتماعاً امت مسلمہ پر بھی۔ ہر ایک کو اپنی اپنی حیثیت اور قوت کے مطابق اس فریضہ سے عہدہ برآ ہونا لازم ہے۔ چناچہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جب کوئی برائی دیکھے تو اسے بزور بازو ختم کردے اور اگر ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے ہی روکے اور اگر اتنا بھی نہیں کرسکتا تو کم از کم دل میں ہی اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب کون النہی عن المنکر من الایمان) اور نیک کاموں سے مراد توحید خالص اور ارکان اسلام کی بجا آوری جہاد میں دامے درمے شمولیت، بدعات سے اجتناب، قرابتداروں کے حقوق کی ادائیگی اور تمام مسلمانوں سے مروت، اخوت و ہمدردی اور خیر خواہی وغیرہ ہیں۔
ایک وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تمام جہاں والوں پر فضیلت بخشی تھی۔ مگر ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیا بلکہ خود بھی بیشمار بڑے بڑے جرائم میں مبتلا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی امامت و قیادت کی ذمہ داری ان سے چھین کر امت مسلمہ کے حوالے کردی۔ اب جو فضیلت انہیں حاصل تھی وہ امت مسلمہ کو حاصل ہوگئی اور قیادت کی اس تبدیلی کی واضح علامت چونکہ تحویل قبلہ تھی۔ لہذا یہود جتنے تحویل قبلہ پر چیں بہ جبیں ہوئے اتنے کسی بات پر نہ ہوئے تھے۔ اور یہ فضیلت اللہ کی دین ہے جس کو مناسب سمجھتا ہے اسے دیتا ہے۔
چناچہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا : گزشتہ لوگوں (یہود و نصاریٰ ) کے مقابلہ میں تمہارا رہنا ایسا ہے جیسے عصر سے سورج غروب ہونے تک کا وقت۔ اہل تورات کو تورات دی گئی۔ انہوں نے (صبح سے) دوپہر تک مزدوری کی، پھر تھک گئے تو انہیں ایک ایک قیراط ملا۔ اہل انجیل کو انجیل دی گئی، انہوں نے عصر کی نماز تک مزدوری کی پھر تھک گئے۔ انہیں بھی ایک ایک قیراط ملا۔ پھر ہم مسلمانوں کو قرآن دیا گیا۔ ہم نے عصر سے سورج غروب ہونے تک مزدوری کی (اور کام پورا کردیا) تو ہمیں دو دو قیراط دیئے گئے۔ اب اہل کتاب کہنے لگے : پروردگار ! تو نے انہیں تو دو دو قیراط دیئے اور ہمیں ایک ایک حالانکہ ہم نے ان سے زیادہ کام کیا ہے اللہ عزوجل نے انہیں جواب دیا : میں نے تمہاری مزدوری (جو تم سے طے کی تھی) کچھ کم تو نہیں کی انہوں نے کہا : نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے جو کچھ چاہوں دے دوں۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ باب من ادرک رکعۃ من العصر قبل المغرب ) اس آیت میں اہل کتاب کو یہ بتلایا جارہا ہے کہ اگر وہ ایمان لے آتے تو اس ذلت و خواری سے بچ سکتے تھے جو ان کے مقدر ہوچکی ہے، اگر وہ خیر الامم میں شامل ہوجاتے ہیں تو دنیا میں ان کی عزت بڑھتی اور آخرت میں دوہرا اجر ملتا۔ مگر حق کے واضح ہونے کے بعد ان کی اکثریت نافرمانی پر ہی اڑی رہی اور اپنا ہی نقصان کیا۔ [تيسير القرآن: عبد الرحمن كيلاني]
فَاِنۡ حَآجُّوۡکَ فَقُلۡ اَسۡلَمۡتُ وَجۡہِیَ لِلّٰہِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ ؕ وَ قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ الۡاُمِّیّٖنَ ءَاَسۡلَمۡتُمۡ ؕ فَاِنۡ اَسۡلَمُوۡا فَقَدِ اہۡتَدَوۡا ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ
پھر بھی اگر یہ آپ سے جھگڑیں تو آپ کہہ دیں کہ میں اور میرے تابعداروں نے اللہ تعالٰی کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دیا ہے اور اہل کتاب سے اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دیجئے! کہ کیا تم بھی اطاعت کرتے ہو؟ پس اگر یہ بھی تابعدار بن جائیں تو یقیناً ہدایت والے ہیں اور اگر یہ روگردانی کریں ، تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ بندوں کو خوب دیکھ بھال رہا ہے ۔ [سورة آل عمران 3 آیت: 20]
So if they argue with you, say, "I have submitted myself to Allah [in Islam], and [so have] those who follow me." And say to those who were given the Scripture and [to] the unlearned, "Have you submitted yourselves?" And if they submit [in Islam], they are rightly guided; but if they turn away - then upon you is only the [duty of] notification. And Allah is Seeing of [His] servants. (Read here)[ Surat Aal e Imran: 3 Verse: 20]
اسلام کی توفیق
اَفَمَنۡ شَرَحَ اللّٰہُ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ فَوَیۡلٌ لِّلۡقٰسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مِّنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۲۲﴾
کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالٰی نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور پر ہے اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے ( اثر نہیں لیتے بلکہ ) سخت ہوگئے ہیں ۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں ( مبتلا ) ہیں ۔ [سورة الزمر 39 آیت: 22]
So is one whose breast Allah has expanded to [accept] Islam and he is upon a light from his Lord [like one whose heart rejects it]? Then woe to those whose hearts are hardened against the remembrance of Allah . Those are in manifest error. [ Surat uz Zumur: 39 Verse: 22]
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۲۰۸﴾
ایمان والو !اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے ۔ [سورة البقرة 2 آیت: 208]
O you who have believed, enter into Islam completely [and perfectly] and do not follow the footsteps of Satan. Indeed, he is to you a clear enemy. [ Surat ul Baqara: 2 Verse: 208]
اسلام الله کا احسان : [49/17]
خاتمہ اسلام پرہی ہو:
وَ وَصّٰی بِہَاۤ اِبۡرٰہٖمُ بَنِیۡہِ وَ یَعۡقُوۡبُ ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۲﴾ؕ
اس کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی ، کہ ہمارے بچو! اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرما لیا ، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا ۔ [ سورة البقرة 2 آیت: 132]
And Abraham instructed his sons [to do the same] and [so did] Jacob, [saying], "O my sons, indeed Allah has chosen for you this religion, so do not die except while you are Muslims." [ Surat ul Baqara: 2 Verse: 132][2/132] , /3/102, /7/126, /15/2
یا الله ہماری موت بھی دین اسلام پر ہو -آمین
References / Further study:
.................................................
"اصول دین" اور "فروغ دین"
"اصول دین " سے مراد دین کی وہ تعلیمات جن کا تعلق فکر وتفکر سے ہے اس کے مقابلے میں "فروع دین" ہے، فروع دین، دین کا وہ حصہ جس کا تعلق "عمل" سے ہے۔ اصول دین کو عقائد بھی کہا جاتا ہے۔
اصول دین اور فروع دین کی طبقہ بندی، جس صورت میں ہمارے درمیان عام اور رائج ہے، وہ دینی علوم کے دانشوورں نے دینی معارف کی اس صورت میں طبقہ بندی کی ہے- اس بحث کی تاریخ پہلی صدی ھجری کے دوسرے نصف حصہ سے متعلق ہے- لیکن واضح طور پر مشخص نہیں ہے، کس نے اسے " اصول دین" کا نام دیا ہے- بلکہ بنیادی طور پر اس قسم کے علمی مباحث دانشوروں اور علماءکے مباحث اور تفکرات کے نتیجہ میں وجود میں آئے ہیں اور یہ علمائے دین کی ایک ھمہ جہت علمی تحریک کا نتیجہ تھا اور اس سلسلہ میں کسی خاص واضع کا فرض کرنا، صحیح فرض نہیں ہے-
ہر چیز کی اصل، وہی اس کی جڑ اور بنیاد ہے جس کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر کی جاتی ہے-
اس بنا پر، اصول دین ایک ایسی چیز ہے، جس کی بنیاد پر دین کی عمارت تعمیر کی گئی ہے-
" اصول دین" کو اگر اس کے خاص معنی [یعنی بنیادی ترین عقائد] میں استعمال کیا جائے، جیسے علم اعتقاد میں استعمال کیا گیا ہے، تو یہ ہر دین کے بنیاد ی عقائد پر مشتمل ھوگا، کہ ان عقائد کے بغیر دین متحقق نہیں ھوتا ہے-
تمام توحیدی ادیان تین بنیادی اور مشترک اصولوں پرمبنی ھوتے ہیں: خدائے واحد کا اعتقاد، ہر انسان کے لئے آخرت میں ابدی زندگی اور اس دنیا میں انجام دئے اعمال کی پاداش اور سزا کا اعتقاد [ یعنی معاد ] اور انبیاء علیہ السلام کی بعثت کا اعتقاد، جنھیں الله تعالی نے انسان کے آخری کمال اور دنیا و آخرت کی سعادت کی طرف ہدایت کرنے کے لئے بھیجا ہے-
لیکن اس قسم کے بنیادی عقائد کے بارے میں لفظ"اصل" کا استعمال، اصطلاحات اور قراردادوں کے تابع ہے-
اور اس قسم کی کوئی آیت یا روایت نہیں پائی جاتی ہے، جو براہ راست اس مطلب کی دلالت پیش کرتی ھو، بلکہ اسلامی دانشوروں نے بعض مسائل کی اہمیت کے پیش نظر انھیں اصول دین کا جزو شمار کیا ہے-
تمام توحیدی ادیان کے درمیان مشترک مذکورہ تین اصول اور[اسلام میں ٹوٹل چھ ]، کی بنیاد پر ان ادیان کی عمارت تعمیر کی گئی ہے[ شیعہ علماء نے دو مزید "اصل" یعنی امامت و عدالت کا اضافہ کیا ہے]
اصول دین
بنیادی اعتقادات کو "اصول دین" یعنی مذہب کی جڑیں کہا جاتا ہے۔اصول دین چھ ہیں جن کو اسلام کی جڑ کہا جاتا ہے۔ اسلام کے چھ بنیادی عقائد اور پانچ ارکان ہیں-
1).اللہ تعالیٰ پر ایمان
2) فرشتوں پر ایمان
3) رسولوں پر ایمان
4) الله کی نازل کردہ کتب پر ایمان
5).یوم آخرت پر ایمان
6).تقدیر پر ایمان
2) فرشتوں پر ایمان
3) رسولوں پر ایمان
4) الله کی نازل کردہ کتب پر ایمان
5).یوم آخرت پر ایمان
6).تقدیر پر ایمان
فروع دین:
فروع دین [ اصول دین کے مقابلے میں] ایک اصطلاح ہے، جو اسلام کے عملی احکام سے متعلق ہے، چونکہ اصول دین کا رتبہ [ یقین کے ساتھ ] علم کے باپ سے متعلق ہے، اس لئے فروع دین پر مقدم ہے جو عمل کے باپ سے تعلق رکھتا ہے، یعنی جب تک علم و اعتقاد نہ ھو عمل کے کوئی معنی نہیں ہیں، اس لئے اس قسم کے اسلام کے عملی احکام کو " فروع دین" کہا جاتا ہے کہ جو اصول کی بنیاد پرمبنی ھوتے ہیں- اصول دین ایک درخت کے مانند ہے اور فروع دین اس کے میوے ہیں، ان دو[ علم و عمل] میں سے برتر علم ہے، علم درخت کے مانند ہے اور عبادت اس کے میوہ کے مانند ہے"- فروع دین کی تعداد پانچ ، آٹھ یا دس ھونا ان کی عبادت میں اہمیت کے پیش نظر ہے، ورنہ واجبات اور محرمات کی تعداد فروع دین کے حصہ شمار ھونے والے معاملات کے احکام کی بہ نسبت بہت زیادہ ہیں-
فروغ دین ، ارکان اسلام پانچ ہیں جو قرآن و سنت سے ماخوز ہیں:
1) شہادہ: ایمان
2) صلوٰۃ: نماز
3) زکوٰۃ
4) صوم: روزہ
5) حج
ان کے علاوہ کچھ فرقوں (شیعہ ) نے ان میں اضافہ کر رکھا ہے: خمس, جہاد , امر بالمعروف ( نیکیوں کا حکم) , نہی عن المنکر(برائیوں سے روکنا) , تولی (خدا کے دوستوں سے دوستی) , تبری(خدا کے دشمنوں سے دشمنی) -
اب اگر کوئی نیا فرقہ بن جائے تو وہ اپنے اصول دین اور فروغ دین بنا لیتا ہے مگر اس کو روایتی اسلام کے لوگ مسترد کرتے ہیں-
اسلام کے چھ بنیادی عقائد،اور پانچ فروغ دین ، یا ارکان اسلام پر کوئی اختلاف نہیں..
اہم نقطہ یہ ہے کہ ڈسکشن میں روایتی "اصول دین" اور" فروغ دین " زیر بحث نہیں ہیں-
اہم نقطہ یہ ہے کہ ڈسکشن میں روایتی "اصول دین" اور" فروغ دین " زیر بحث نہیں ہیں-
کتاب الله پر ایمان ہے …اسلام میں قرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب الله تعالی نہیں .. جہاں تک "حدیث " کا تعلق ہے .. قرآن توصرف قرآن کو " اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ " کہتاہے (قرآن 39:23) اور الله تعالی قرآن کے علاوہ کسی اور حدیث پرایمان لانےسے منع فرماتاہے [.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ] ( المرسلات 77:50) ، (الأعراف 7:185) اور(الجاثية45:6) تین مرتبہ کسی کلمہ یا آیت کودہرانا اس حکم کی اہمیت کو کھل کرواضح اور خبردار کرتاہے… یہی مضمون ہے جس پر "ڈسکشن" ممکن ہے، کہ یہ کسی مروجہ "اصول دین" یا "فروغ دین" کو زیر بحث نہیں لاتا - مزید مطالعہ کریں ....[.......]
References / Links