Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

Apostasy ارتداد



اِنَّ  الَّذِیۡنَ ارۡتَدُّوۡا عَلٰۤی  اَدۡبَارِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ  لَہُمُ  الۡہُدَی ۙ الشَّیۡطٰنُ سَوَّلَ  لَہُمۡ ؕ وَ اَمۡلٰی  لَہُمۡ ﴿۲۵﴾

 جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل الٹے پھر گئے اس کے بعد کہ ان کے لئے ہدایت واضح  ہو چکی یقیناً شیطان نے ان کے لئے  ( ان کے فعل کو )  مزین کر دیا ہے اور انہیں ڈھیل دے رکھی ہے ۔  [سورة محمد 47  آیت  25]


Indeed, those who reverted back [to disbelief] after guidance had become clear to them - Satan enticed them and prolonged hope for them. [Surat،Muahammad:47،Verse:25]

 اعمال سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو مسلمان بن کر وہ انجام دیتے رہے۔ ان کی نمازیں، ان کے روزے، ان کی زکوٰۃ، غرض وہ تمام عبادتیں اور وہ ساری نیکیاں جو اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے اعمال خیر میں شمار ہوتے تھیں اس بنا پر ضائع ہو گئیں کہ انہوں نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی اللہ اور اس کے دین اور ملت اسلامیہ کے ساتھ اخلاص و وفاداری کا رویہ اختیار نہ کی، بلکہ محض اپنے دنیوی مفاد کے لیے دشمنان دین کے ساتھ ساز باز کرتے رہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کا موقع آتے ہیں اپنے آپ کو خطرات سے بچانے کی فکر میں لگ گئے۔ یہ آیات اس معاملہ میں بالکل ناطق ہیں کہ کفر و اسلام کی جنگ میں جس شخص کی ہمدردیاں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نہ ہوں، یا کفر اور کفار کے ساتھ ہوں، اس کا ایمان ہی سرے سے معتبر نہیں ہے کجا کہ اس کا کوئی عمل خدا کے ہاں مقبول ہو۔ [تفہیم القرآن]

یقینا وہ لوگ جو پھرگئے اپنی پیٹھوں کے َبل ‘ اس کے بعد کہ ان پر ہدایت واضح ہوچکی ‘ شیطان نے ان کے لیے (ارتداد کا یہ مرحلہ) آسان کردیا ہے اور انہیں لمبی لمبی امیدیں دلائی ہیں۔ “ ” طولِ امل “ کے اس شیطانی چکر میں پڑ کر انسان آخرت کو بالکل ہی فراموش کردیتا ہے۔ ظاہر ہے جس شخص نے لمبی لمبی امیدیں قائم کر کے اپنی زندگی میں بڑے بڑے منصوبے بنا رکھے ہوں ‘ اس کے دل میں شہادت کی تمنا کیسے پیدا ہوسکتی ہے ‘ اور ایسا شخص میدان جنگ میں جانا بھلا کیونکر پسند کرے گا ![ڈاکٹراحمد]


The legal historian Wael Hallaq writes that "nothing in the law governing apostates and apostasy derives from the letter" of the Quran. There is no mention of any specific corporal punishment for apostates to which they are to be subjected in this world, nor do Qur'anic verses refer, whether explicitly or implicitly, to the need to force an apostate to return to Islam or to kill him if he refuses to do so. [Wiki ] [However in the Sunnah, apostates were punished] 
 قانونی مورخ وائل حلق لکھتا  ہے  کہ "مرتدوں اور ارتداد پسندوں پر حکومت کرنے والے قانون میں کوئی بھی بات قرآن کے الفاظ سے نہیں نکلتی"۔ مرتدوں کے لئے کسی خاص جسمانی سزا کا کوئی ذکر نہیں ہے جس پر ان کو اس دنیا میں نشانہ بنایا جائے ، اور نہ ہی قرآنی آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ کسی مرتد کو اسلام کی طرف واپس آنے یا اسے قتل کرنے کی ضرورت پر بھی اشارہ نہیں کرتا , اگر وہ اسلام میں واپسی سے انکاربھی کرتا ہے-[سنت رسول الله میں مرتدین کو سزائیں دی گیئں اور ایک معافی بھی؟ ]
ایک اصول کہ جو سزا تورات میں تھی اور قرآن نے تبدیل نہیں کی تو وہ حکم قائم ہے ... جیسے زنا کی موت کی سزا قرآن میں نہیں مگر تورات کے مطابق جائز ہے [واللہ اعلم ]
بائبل مرتد کو سنگسار کرنے سے موت کی سزا  پر زور دیتی ہے: "تم اسے پتھروں سے مار دو گے ، کیونکہ اس نے تمہیں خداوند اپنے خدا سے دور کرنے کی کوشش کی تھی۔" (استثنا؛13:10)۔ 
دنیا کے تمام مذاہب اور سیاسی نظاموں میں ارتداد پسندی کو ہمیشہ ایک دارالحکومت جرم سمجھا جاتا ہے ، کیوں کہ یہ معاشرے کے قائم کردہ اصولوں کے خلاف ایک اعلی غداری کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ کافر رومیوں نے ابتدائی عیسائیوں کو اسی زمین پر بے دردی سے قتل کیا۔ اس کے نتیجے میں مسیحی  چرچ کی طرف سے مخالف مسیحیوں کے خلاف دہرائی گئی ، جنھیں ہلاک اور زندہ جلا دیا گیا۔ چوتھی اور پانچویں صدی کے چرچ کے بعض معتقدین نے ارتداد کو بدکاری اور قتل کی طرح سنگین سمجھا۔ بیسویں صدی میں ، کینن قانون کے رومن کیتھولک کوڈ نے اب بھی ان لوگوں کے لئے معافی کی ممانعت نافذ کردی ہے جن کے عقیدے کو مسترد کرنے سے ارتداد کی تکنیکی تعریف موزوں تھی۔ انگلستان میں ارتداد کے لئے سزائے موت طویل عرصے سے نافذ رہی۔ اسے معاشرتی اور ثقافتی پیشرفت کی وجہ سے ختم کردیا گیا۔
Apostasy:
The Bible prescribes death by stoning for apostasy: “You shall stone him to death with stones, because he sought to draw you away from the LORD your God..”(Deuteronomy;13:10). Apostasy has always been considered as a capital offence in all the religions and political systems of the world, because it is considered as a high treason against the established norms of society. The pagan Romans brutally killed the early Christians on same ground. Subsequently this practice was repeated by the Christian Church against opposing Christians, who were killed and burnt alive. Certain church theologians of the 4th and 5th centuries considered apostasy to be as serious as adultery and murder. In the 20th century, the Roman Catholic Code of Canon Law still imposed the sanction of excommunication for those whose rejection of the faith fitted the technical definition of apostasy. Death penalty for apostasy remained in force in England for long time. It was abolished due to social and cultural developments.

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بَعۡدَ اِیۡمَانِہِمۡ ثُمَّ ازۡدَادُوۡا کُفۡرًا  لَّنۡ تُقۡبَلَ تَوۡبَتُہُمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ  الضَّآلُّوۡنَ ﴿۹۰﴾

 بیشک جو لوگ  اپنے ایمان لانے کے بعد کُفر کریں پھر کُفر میں بڑھ جائیں  ، ان کی توبہ ہرگِز قبول نہ کی جائے گی   ، یہی گُمراہ لوگ ہیں ۔  [سورة آل عمران 3  آیت: 90]


 Indeed, those who reject the message after their belief and then increase in disbelief - never will their [claimed] repentance be accepted, and they are the ones astray. [ Surat Aal e Imran: 3 Verse: 90]

ااس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مثلاً یہود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے۔ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کرکے کفر کا رویہ اختیار کیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی انکار کردیا جو ان کے کفر میں مزید اضافہ کا سبب بن گیا۔ ایسے معاندین کے حق میں توبہ کبھی قبول نہ ہوگی۔ 
دوسری صورت یہ کہ ایک شخص ایمان لایا۔ پھر اس کے بعد مرتد ہوگیا۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسلام دشمنی میں اپنی سرگرمیاں تیز تر کردیں، تو ایسے شخص کی بھی توبہ قبول نہ ہوگی۔
تیسری صورت یہ ہے کہ مرتد ہوجانے کے بعد کفر پر ڈٹا رہا اور جب موت کا وقت آپہنچا تو توبہ کی سوجھی۔ اس وقت بھی توبہ قبول نہ ہوگی۔ 
البتہ جو لوگ اپنی زندگی میں اسلام دشمنی میں سرگرم اور تقریر و تحریر کے ذریعہ لوگوں میں الحاد اور باطل عقائد پھیلانے میں سرگرم رہے ہوں ان کی توبہ قبول ہونے کی صورت اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٦٠ بایں الفاظ بیان فرمائی۔ ( اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَیَّنُوْا) یعنی ان کی توبہ کی قبولیت کے لیےیہ شرطیں لازم ہیں:
(١) سچی توبہ کریں
(٢) اپنے اعمال و افعال درست کرکے اپنی اصلاح کرلیں اور جو کچھ الحاد یا باطل عقائد وہ لوگوں میں پھیلا چکے ہیں۔ برملا اس کی تردید بھی کریں۔ اگر تقریر کے ذریعہ گمراہی پھیلائی ہے تو اسی طرح بھری محفل میں ایسے عقائد سے بیزاری کا اظہار اور اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور اگر تحریری صورت میں گمراہی پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہیں تو تحریری صورت میں اس کی تلافی اور اپنی غلطی کا اعتراف کریں تو ایسے لوگوں کی بھی توبہ قبول ہوسکتی ہے-

سَتَجِدُوۡنَ اٰخَرِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّاۡمَنُوۡکُمۡ وَ یَاۡمَنُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ کُلَّمَا رُدُّوۡۤا  اِلَی الۡفِتۡنَۃِ  اُرۡکِسُوۡا فِیۡہَا ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَعۡتَزِلُوۡکُمۡ وَ یُلۡقُوۡۤا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ وَ یَکُفُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ ؕ وَ اُولٰٓئِکُمۡ جَعَلۡنَا لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًا 
 تم کچھ اور لوگوں کو ایسا بھی پاؤ گے جن کی  ( بظاہر )  چاہت ہے کہ تم سے بھی امن میں رہیں ۔  اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں   ( لیکن  ) جب کبھی فتنہ انگیزی  کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو اوندھے منہ اس میں ڈال دیئے جاتے ہیں  ، پس اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی نہ کریں اور تم سے صلح کا سلسلہ جنبانی نہ کریں اور اپنے ہاتھ نہ روک لیں  ، تو انہیں پکڑو اور مار ڈالو جہاں کہیں بھی پاؤ  ، یہی وہ ہیں جن پر ہم نے تمہیں ظاہر حُجت عنایت فرمائی ہے ۔  [سورة النساء 4  آیت: 91]


 You will find others who wish to obtain security from you and [to] obtain security from their people. Every time they are returned to [the influence of] disbelief, they fall back into it. So if they do not withdraw from you or offer you peace or restrain their hands, then seize them and kill them wherever you overtake them. And those - We have made for you against them a clear authorization. [ Surat un Nissa: 4 Verse: 91]
بدترین منافق :۔ ایسے منافق بدترین قسم کے منافق ہیں جو ڈھنڈورا تو اپنی امن پسندی کا پیٹیں اور جب داؤ لگ جائے تو اسلام دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ ان کی امن پسندی کی تین ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں سے صلح کرلیں۔ دوسرے یہ کہ لشکر کفار میں شامل نہ ہوں۔ اور تیسرے یہ کہ اگر انہیں مجبوراً شامل ہونا ہی پڑے تو پھر اپنے ہاتھ روکے رکھیں یعنی عملاً لڑائی میں شامل نہ ہوں۔ اور اگر یہ تینوں باتیں نہ پائی جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی نیت میں فتور ہے اور وہ امن پسندی کی آڑ میں دھوکہ دے کر مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے ہیں لہذا ایسے منافقوں کا علاج یہ ہے کہ جب بھی موقع ملے سب سے پہلے انہیں قتل کر کے ختم کرو۔ [کیلانی]

لَا تَعۡتَذِرُوۡا قَدۡ کَفَرۡتُمۡ  بَعۡدَ  اِیۡمَانِکُمۡ ؕ اِنۡ نَّعۡفُ عَنۡ طَآئِفَۃٍ مِّنۡکُمۡ نُعَذِّبۡ طَآئِفَۃًۢ  بِاَنَّہُمۡ  کَانُوۡا  مُجۡرِمِیۡنَ
 تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے  اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کرلیں  تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے ۔  [سورة التوبة 9  آیت: 66]


 Make no excuse; you have disbelieved after your belief. If We pardon one faction of you - We will punish another faction because they were criminals. [ Surat ut Tauba: 9 Verse: 66]

یعنی منافقوں میں سے جو لوگ نفاق سے توبہ کرلیں گے انہیں معاف کردیا جائے گا، اور جو توبہ نہیں کریں گے انہیں ضرور سزا ملے گی۔[مفتی تقی عثمانی]
..........................

اسلام میں ارتداد  عام طور پر کسی مسلمان کا  الفاظ یا عمل کے ذریعہ اسلام کو شعوری طور پر ترک کرنا ہے۔ اس میں کسی ایسے شخص کے ذریعہ ، جو کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا تھا یا اس سے قبل اسلام قبول کر چکا ہو ، کسی دوسرے مذہب میں تبدیل ہونا یا عقیدے کو بے بنیاد سمجھنا ، شامل ہے۔ اسلام سے ارتداد کی تعریف ، اور کیا اس کو سزا دی جانی چاہئے ، یہ تنازعات کے معاملات ہیں اور اسلامی علماء ان سوالات پر اپنی رائے میں مختلف ہیں... دونوں نقطہ نظر پیش ہیں ...
١.مسلمان كو چاہيے كہ وہ اپنى عقل اور خواہش كى بنا پر كسى ايك قول كى طرف مائل نہ ہو اور دوسرے قول كى چھوڑ دے، بلكہ وہ حكم كو كتاب اللہ اور سنت رسول كى دليل كے ساتھ لے، اور نصوص شرعيہ اور شرعى احكام كو ہر چيز پر مقدم كرنا ضرورى ہے.
٢.بعض اوقات دل يا زبان، يا عمل كے ساتھ بھى دين اسلام سے خارج اور مرتد ہو جاتا ہے.
بعض اوقات دل كے ساتھ ارتداد ہوتا ہے، جس طرح كہ اللہ تعالى كى تكذيب كرنا، يا يہ اعتقاد ركھنا كہ اللہ عزوجل كے ساتھ كوئى اور بھى خالق ہے، يا اللہ تعالى يا اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے بارہ ميں بغض ركھنا.

اور بعض اوقات زبان سے قول كے ساتھ ارتداد ہوتا ہے، جيسے كہ اللہ تعالى يا اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر ( نعوذ باللہ ) سب و شتم كرنا.
اور بعض اوقات ظاہرى اعظاء كے عمل كے ساتھ ارتداد ہوتا ہے، جيسا كہ بتوں كو سجدہ كرنا، يا قرآن مجيد كى توہين كرنا، يا نماز ترك كردينا.
مرتد انسان اصلى كافر سے زيادہ برا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى اتحادى باطنى فرقہ كے رد ميں كہتے ہيں:
" يہ تو معلوم ہے كہ تتارى كفار ان مرتدوں سے بہتر اور اچھے ہيں، جو دين اسلام سے مرتد ہونے والوں ميں سے سب سے بدترين مرتد ہيں، اور مرتد اصلى كافر سے بھى كئى ايك وجوہات كى بنا پر زيادہ برا اور شرير ہے" اھ يكھيں: مجموع الفتاوى لابن تيميۃ ( 2 / 193 ).
٣. ر مسلمان جو كفريہ كام كرلے وہ كافر اور مرتد نہيں ہوتا، كچھ عذر ايسے ہيں جن كى بنا پر مسلمان معذور ہے، اور اس پر كافر كا حكم نہيں لگتا ان عذروں ميں سے كچھ درج ذيل ہيں:
جہالت، تاويل، جبر، خطاء
پہلا عذر:
جہالت: يہ كہ آدمى اسلامى ممالك سے دور رہنے كى بنا پر اللہ تعالى كے حكم سے جاہل ہو، مثلا وہ شخص جو گاؤں ميں پرورش پائے يا كفار كے ممالك ميں يا پھر جاہليت كے دور كے قريب ہو اور نيا مسلمان ہوا ہو، اس ميں كئى مسلمان بھى داخل ہو سكتے ہيں جو ايسے معاشروں ميں رہائش پذير ہيں جو جہالت ميں ڈوبے ہوئے ہيں، اور وہاں علم كى كمى ہے، اور وہى ہيں جن كے بارہ ميں سائل كو ان كےكفر اور قتل ميں اشكال پيدا ہوا ہے.
دوسرا عذر: تاويل
وہ يہ كہ كوئى شخص اللہ تعالى كے حكم كى تفسير غير شرعى مراد ميں كرے، مثلا وہ شخص جو بدعتى لوگوں كى ان مسائل ميں تقليد كرنا جن ميں انہوں نے تاويل كى ہے، مثلا مرجئہ اور معتزلہ، اور خوارج وغيرہ
تيسرا عذر: جبر كرنا:
جيسا كہ اگر كوئى ظالم شخص كسى مسلمان شخص پر مسلط ہو جائے اور اسے تكليف اور عذاب دے اور صريح كفريہ كلمہ كہے بغير نہ چھوڑے، تو وہ اس مصيبت سے جان چھڑانے كے ليے اپنى زبان سے كفريہ كلمہ تو كہہ رہا ہو ليكن اس كا دل ايمان پر مطمئن ہو.
چوتھا عذر: خطاء اور غطلى:
بغير كسى قصد اور ارادہ كے زبان سے سے كفريہ لفظ نكل جائے.
اور ہر وہ شخص جو وضوء كے طريقہ سے جاہل ہو، يا نماز كے طريقہ سے جاہل ہے يہ ممكن نہيں كہ وہ اس ميں معذور ہو، حالانكہ وہ مسلمانوں كو نماز ادا كرتے ہوئے ديكھتا ہے، پھر وہ نماز كى آيات پڑھتا اور سنتا بھى ہے، تو كونسا ايسا مانع ہے جو اسے نماز ادا كرنے سے منع كر رہا ہے يا پھر اس كى كيفيت اور شروط كے بارہ ميں سوال كرنے سے روك رہا ہے؟

چہارم: مرتد كو ارتداد كے فورا بعد قتل نہيں كيا جائےگا، اور خاص كر جب اسكے ارتداد كا باعث اسے پيش آنے والا كوئى شبہ اور اشكال ہو، بلكہ اسے ارتداد كے بعد توبہ كروائى جائے گى اور كہا جائے كہ توبہ كرلو، اور اسے اسلام كى طرف واپس پلٹنے كى پيشكش كى جائے گى، اور اس كا شبہ اور اشكال زائل اور دور كيا جائے گا، اور اگر وہ اس كے بعد پھر بھى كفر پر اصرار كرے تو اسے قتل كر ديا جائے گا. جو قاضی یا ججج عدلیہ کے زریعے ہو گا نہ کہ افراد یا گروہ -
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " المغنى " ميں كہتے ہيں: مرتد كو اس وقت تك قتل نہيں كيا جائے گا جب تك كہ اس سے تين بار توبہ طلب نہ كى جائے، اكثر علماء كا قول يہى ہے، جن ميں عمر، على رضى اللہ تعالى عنہما اور عطاء، النخعى، امام مالك، الثورى، اوزاعى، اسحاق، اور اصحاب الرائے رحمہم اللہ شامل ہيں....
كيونكہ ارتداد كسى شبہہ اور اشكال كى بنا پر ہوگا، اور وہ شبہہ اسى وقت زائل نہيں ہو سكتا اس ليے اتنى مدت انتظار كرنا ضرورى ہے جس ميں وہ ممطئن ہو سكے، اور يہ مدت تين يوم ہے. [ المغنى لابن قدامۃ ( 9 / 18 ).]
سنت صحيحہ مرتد كے قتل پر دلالت كرتى ہے:
بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو اپنا دين بدل لے اسے قتل كردو" صحيح بخارى حديث نمبر ( 6922 ).
عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " كسى بھى ايسے مسلمان كا خون حلال نہيں جو يہ گواہى ديتا ہو كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں اور ميں اللہ تعالى كا رسول ہوں، ليكن تين وجوہ ميں سے ايك كى بنا پر: قتل كے بدلے قتل، شادى شدہ زانى ، اور اپنے دين كو ترك كركے جماعت سے عليحدہ ہونے والا " صحيح بخارى حديث نمبر ( 6486 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1676 )
ان احاديث كا عموم مرتد كے قتل پر دلالت كرتا ہے، چاہے وہ محارب ہو يا غير محارب، يعنى دين كے خلاف جنگ كرے يا نہ كرے. 
اور يہ قول كہ: اس مرتد كو قتل كيا جائے گا جو دين كے خلاف لڑنے والا يعنى محارب ہو يہ احاديث كے خلاف ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو اس كے قتل كا سبب ارتداد بنايا ہے نہ كہ دين كے خلاف محاربہ.
اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ ارتداد كى بعض اقسام اور انواع ايك دوسرے سے زيادہ قبيح اور شنيع ہوتى ہيں، محارب كا ارتداد دوسرے مرتد سے زيادہ قبيح ہے، اور اسى ليے علماء كرام نے ان كے مابين فرق كيا ہے، اور محارب مرتد كے ليے توبہ كى شرط نہيں ركھى اور نہ ہى اس كى توبہ قبول ہوتى ہے، بلكہ اگر وہ توبہ بھى كر لے تو اسے قتل كر ديا جائے گا.
ليكن اگر وہ مرتد محارب نہيں تو اس كى توبہ قبول ہو گى اور اسے قتل نہيں كيا جائے گا، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نے اسے ہى اختيار كيا ہے.
شيخ الاسلام ابن رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے: ارتداد كى دو قسميں ہيں:
صرف ارتداد، اور ارتداد مغلظ اس كى بنا پر شريعت نے قتل مشروع كيا ہے، اور ان دونوں كى بنا پر قتل كرنے كى دليل موجود ہے. اور توبہ كى بنا پر قتل ساقط ہونا ان دونوں قسموں كو عام نہيں، بلكہ پہلى قسم صرف ارتداد كو شامل ہے، جيسا كہ مرتد كى توبہ قبول كرنے كے دلائل پر تدبر اور غور وفكر كرنے والے كے ليے ظاہر ہوتا ہے. اور باقى رہى دوسرى قسم يعنى ارتداد مغلظ ـ اس مرتد كو قتل كرنے كے وجوب پر دليل پائى جاتى ہے، اور كوئى نص اور اجماع نہيں ملتا جو اس سے قتل كو ساقط كرتى ہو، اور ظاہر اور صاف فرق ہونے كى بنا پر اس ميں قياس كرنا ممكن نہيں، لہذا الحاق نہيں ہو سكتا.

اور اس طريقہ كو ثابت كرتا ہے وہ يہ كہ كتاب اللہ اور نہ ہى سنت نبويہ اور اجماع ميں يہ نہيں آيا كہ جو شخص بھى كسى قول يا كسى فعل كى بنا پر مرتد ہو جب وہ پكڑے جانے كے بعد توبہ كر لے تو اس سے قتل ساقط ہو جاتا ہے، بلكہ كتاب اللہ اور سنت نے تو مرتد كى دونوں قسموں ميں فرق كيا ہے.... [ديكھيں: الصارم المسلول على شاتم الرسول ( 3 / 696 ).]

اور حلاج مشہور زنديقوں ميں سے تھا جسے بغير كسى توبہ طلب كيے قتل كيا گيا تھا: قاضى عياض رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: مقتدر جو مالكيہ ميں تھا كے دور ميں بغداد كے فقھاء كرام نے حلاج كے قتل اور سولى پر لٹكانے پر اتفاق كيا كيونكہ حلاج نے الوہيت كا دعوى كيا تھا، اور حلول كا قائل تھا، اور اس كا قول ہے: " انا الحق" ميں حق ہوں، حالانكہ وہ ظاہرى طور پر شريعت پر عمل كرتا تھا، اور انہوں نے اس كى توبہ قبول نہيں كى.[ الشفا بتعريف حقوق المصطفى ( 2 / 1091 ).]
اس بنا پر يہ متعين ہوا كہ سائل نے جو يہ كہا ہے كہ مرتد كو اس وقت قتل كيا جائے گا جب وہ دين كے خلاف جنگ كرے يعنى محارب دين ہو، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے جو فرق ہم نے بيان كيا ہے اميد ہے اس سے اشكال دور ہو جائےگا اور مراد كى وضاحت ہو گى. 
اور دين كے خلاف جنگ صرف اسلحہ كے ساتھ ہى محصور نہيں بلكہ زبانى جنگ بھى ہوتى ہے، مثلا: اسلام يا نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم، يا قرآن مجيد ميں طعن، وغيرہ كرنا، بلكہ بعض اوقات تو زبانى جنگ اسلحہ كى جنگ سے بھى زيادہ شديد ہوتى ہے.
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:محاربہ اور جنگ كرنے كى دو قسميں ہيں: ہاتھ كے ساتھ اور زبان كے ساتھ: دين كے بارہ ميں زبانى جنگ بعض اوقات ہاتھ كے ساتھ جنگ كرنے سے زيادہ سخت ہوتى ہے، جيسا كہ پہلے مسئلہ ميں اس كا بيان گزر چكا ہے، اور اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم زبانى جنگ كرنے والے كو قتل كرتے تھے اور ہاتھ كے ساتھ جنگ كرنے والوں ميں سے بعض كو قتل نہيں كيا.  خاص كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت كے بعد ان كے ساتھ تو صرف زبانى جنگ ممكن ہے، اور اسى طرح بعض اوقات ہاتھ كے ساتھ بھى فساد ہوتا ہے، اور بعض اوقات زبان كے ساتھ، اور مختلف اديان ميں جو فساد زبان كے ذريعہ ہوا ہے وہ ہاتھ كے فساد سے كئى گناہ زيادہ ہے، جيسا كہ اديان ميں جو اصلاح زبان كے ساتھ ہوئى ہے وہ ہاتھ كےساتھ اصلاح سے كئى گنا زيادہ ہے تو اس سے يہ ثابت ہوا كہ زبان كے ساتھ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے جنگ كرنا زيادہ شديد ہے، اور زمين ميں زبان كے ساتھ فساد مچانے كى كوشش كرنا زيادہ يقينى ہے. ديكھيں: الصارم المسلول على شاتم الرسول ( 3 / 735 ). [https://islamqa.info/ur/answers/14231/]

مرتد اور ارتداد ارتداد کے لفظی معنی ہیں لوٹنا یا پهر جانا ، اور مرتد وه شخص ہے جو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف لوٹ جائے - عام طور پر یہ لفظ دینی ارتداد کے لیے بولا جاتا ہے - روایتی طور پر یہ سمجها جاتا ہے کہ جو شخص اسلام قبول کرے اور پهر وه اسلام کو چهوڑ کر دوسرے دین کی طرف چلا جائے تو اس کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے - اس معاملہ میں سب سے پہلی بات یہ جاننا چاہئے کہ ارتداد ایک فوجداری جرم نہیں ہے بلکہ وه ایک فکری انحراف ہے ، اور فکری انحراف کرنے والا سب سے پہلے تبلیغ و نصیحت کا موضوع ہوتا ہے نہ کہ سزا کا موضوع - اگر کوئی شخص اعلان کے ساته مرتد ہو جائے تو مسلم معاشره کا پہلا فرض یہ ہے کہ وه اس کو سمجهانے بجهانے کی کوشش کرے - وه دلیل اور نصیحت کے ذریعہ مرتد کو آماده کرے کہ وه دوباره اسلام کی طرف واپس آ جائے - اگر قابل لحاظ مدت تک نصیحت پر عمل کرنے کے بعد بهی وه شخص دوباره اسلام قبول نہ کرے تو اس کے بعد بهی افراد معاشره کو یہ حق نہیں کہ وه اس کو ماریں یا بطور خود اس کو کوئی سزا دیں - اس کے بعد انہیں یہ کرنا چاہئے کہ اس شخص کے معاملہ کو اسلامی عدالت کے حوالہ کر دیں - اب یہ عدالت کا کام ہو گا کہ وه ضروری تحقیق کے بعد اس کے جرم کی نوعیت متعین کرے اور پهر اس کے بارے میں شرعی حکم کا فیصلہ دے - مرتد کی سزا کا مسئلہ موجوده زمانہ میں اسلام کی نسبت سے جو سوالات قائم کیے گئے ہیں ان میں سے ایک سوال وه ہے جس کا تعلق اسلام میں مرتد کی سزا سے ہے - روایتی فقہ کے مطابق ، مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص جو باقاعده طور پر مسلم سماج کا ایک ممبر ہو وه اگر اعلان کے ساته یہ کہے کہ میں نے اسلام کو اپنے مذہب کی حیثیت سے چهوڑ دیا ہے - میں اب عقیده کے اعتبار سے مسلم نہیں - اس روش کو شریعت میں ارتداد یعنی اسلام سے پهر جانا کہا جاتا ہے ، اور جو شخص اس روش کا ارتکاب کرے اس کے بارے میں اکثر فقہائے اسلام یہ کہتے ہیں کہ اس کو حد شرعی کے طور پر قتل کیا جائے گا (یقتل حدا) فقہ اسلامی کے اس روایتی مسلک کو لے کر موجوده زمانہ میں یہ کہا جانے لگا ہے کہ اسلام ایک جبری مذہب ہے - اسلام میں مذہبی آزادی کا تصور موجود نہیں - ضرورت ہے کہ اس مسئلہ کا خالص علمی اور تحقیقی اعتبار سے مطالعہ کیا جائے اور کسی صحیح مسلک تک پہنچنے کی کوشش کی جائے - زیر نظر مقالہ کا موضوع یہی ہے - اس مقالہ میں اول فقہ کا جائزه لیا جائے گا اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کیا فقہ ، قرآن کی طرح ابدی ہے یا وه قرآن کی ابدی تعلیمات کی زمانی تعبیر ہے اور وه اس شرعی اصول کے ماتحت ہے کہ "تتغیر الاحکام بتغیر الزمان والمکان" یعنی زمان اور مکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں - فقہ کی حیثیت کچهہ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ قرآن اسلام کی دوامی تعبیر ہے اور سنت اسلام کہ زمانی تعبیر - یہ بات سنت رسول کے باره میں تو صحیح نہیں - البتہ فقہ کے باره میں ضرور وه صداقت کا ایک پہلو رکهتی ہے - موجوده مدون فقہ ان معنوں میں کوئی مطلق چیز نہیں جن معنوں میں قرآن یا ثابت شده سنت ایک مطلق چیز ہے - فقہ دراصل ایک مخصوص زمانہ میں اسلام کے عملی انطباق کی حیثیت سے وجود میں آئی - اس لیے اس کے اندر زمانی حالات کی چهاپ بالکل نا گزیر تهی - مثال کے طور پر فقہ کی مشہور کتاب فتاوی قاضی خاں میں ایک جزئیہ بیان ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص قسم کها لے کہ وه ہوا میں اڑے گا تو ایسی قسم پر کفاره واجب نہیں - کیونکہ ہوا میں اڑنا ایک محال امر ہے - اس بنا پر وه ایک مہمل قسم (المائده 89) قرار پاتی ہے جس پر شریعت میں کوئی کفاره نہیں - آج کوئی بهی مفتی ایسی قسم پر اس طرح کا فتوی نہیں دے گا - کیونکہ آج حالات بدل چکے ہیں - آج ہوا میں اڑنا محال نہیں رہا - یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ موجوده مدون فقہ ، اپنے قیمتی دوامی اجزاء کے ساته ، اس قسم کے زمانی اجزا بهی اپنے اندر لیے ہوئے ہے - ایک مثال احکام میں زمانی رعایت کی ایک مثال مولفته القلوب (التوبہ 60) ہے - یہ امر متفق علیہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے لوگوں کو تالیف قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دئے گئے - لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ آپ کے بعد صدقات کی یہ مد باقی ہے یا نہیں - اکثر فقہاء اس مد کو کسی نہ کسی طور پر باقی مانتے ہیں مگر فقہائے احناف کے نزدیک اب یہ مد ساقط ہو چکی ہے ، اب مولفتہ القلوب کو اس سلسلہ میں کچهہ دینا جائز نہیں - حنفیہ کا استدلال اس واقعہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی - آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکهہ دیا - انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے صحابہ کی تصدیق بهی اس فرمان پر حاصل کر لیں - اس مقصد کے لیے یہ لوگ حضرت عمر فاروق کے پاس گئے - انہوں نے اس فرمان کو پڑه کر اسے ان کے آنکهوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کو تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کرتے تهے مگر وه اسلام کی کمزوری کا زمانہ تها - اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے - اس پر وه لوگ خلیفہ ابوبکر صدیق کے پاس شکایت لے کر آئے اور کہا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر - لیکن نہ تو ابوبکر صدیق نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر کی اس رائے سے اختلاف کیا - اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہو گئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئ کہ اپنے بل بوتے پر کهڑے ہو سکیں تو وه سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداء مولفتہ القلوب کا حصہ رکها گیا تها ، اس لیے با اجماع صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہو گیا ہے - (قاضی محمد ثناءاللہ العثمانی ، التفسیر المظهری ، الرابع ، صفحہ 234-236) حنفیہ کا یہ مسلک واضح طور پر زمانی تاثر کا نتیجہ ہے - حنفی فقہ چونکہ ایسے زمانہ میں مرتب ہوئی جب اسلام غالب حالت پر تها - اس لئے بظاہر تالیف قلب کی ضرورت پائی نہیں جاتی تهی - اس وقتی صورت حال کی بنا پر انہوں نے اپنا مزکوره مسلک بنایا - مگر اب دوباره حالات بدل چکے ہیں - چنانچہ متعدد علماء نے صراحت کی ہے کہ قرآن کے دوسرے احکام کی طرح یہ حکم بهی دائمی ہے اور وه اب بهی مطلوب ہے - ارتداد کے سلسلے میں جو لوگ فقہ سے استدلال کرتے ہیں کہ اس کی سزا قتل ہے ، اس کی نوعیت بهی کچهہ اسی قسم کی ہے - موجوده فقہ اس وقت مدون ہوئی جب کہ اسلام ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے بالفعل ایک با اقتدار طاقت بن چکا تها - اس وقت ارتداد کے معنی ساده طور پر صرف اسلامی عقیده بدلنے کے نہیں تهے بلکہ ارتداد کے بیش تر واقعات سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے ہم معنی بن گئے تهے - اس وقت کے حالات کے اعتبار سے ارتداد عموما بغاوت کے ہم معنی ہوا کرتا تها - یہ تها وه پس منظر جس میں وه فقہی احکام مرتب ہوئے جو آج ہمیں کتابوں کے اندر لکهے ہوئے ملتے ہیں - یہی وجہ ہے کہ اس معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے - جن لوگوں نے ارتداد کو وقت کے عملی اور عمومی مسئلہ کی روشنی میں ریاست سے بغاوت کے معنی میں لیا ، انہوں نے اس کی سزا قتل قرار دی - کیونکہ ریاست سے بغاوت کی سزا بلاشبہ یہی ہے - اور جن لوگوں نے ارتداد کو مجرد تبدیلی مذہب کے عقیده کے معنی میں لیا ، انہوں نے طلب توبہ کے سوا کسی اور کارروائی کی ضرورت نہیں سمجهی - [حکمت اسلام، مولانا وحیدالدین خان]


Apostasy in Islam  is commonly defined as the conscious abandonment of Islam by a Muslim in word or through deed. It includes the act of converting to another religion or non-acceptance of faith to be irreligious, by a person who was born in a Muslim family or who had previously accepted Islam. The definition of apostasy from Islam, and whether and how it should be punished, are matters of controversy and Islamic scholars differ in their opinions on these questions....


The Bible prescribes death by stoning for apostasy:
“You shall stone him to death with stones, because he sought to draw you away from the LORD your God..”(Deuteronomy;13:10). Apostasy has always been considered as a capital offence in all the religions and political systems of the world, because it is considered as a high treason against the established norms of society. The pagan Romans brutally killed the early Christians on same ground. Subsequently this practice was repeated by the Christian Church against opposing Christians, who were killed and burnt alive. Certain church theologians of the 4th and 5th centuries considered apostasy to be as serious as adultery and murder. In the 20th century, the Roman Catholic Code of Canon Law still imposed the sanction of excommunication for those whose rejection of the faith fitted the technical definition of apostasy. Death penalty for apostasy remained in force in England for long time. It was abolished due to social and cultural developments.



Apostasy:
(Quran 3:90 , 4:91, 9:66, 16:106)

Religious Freedom: (2:256, 18:29, 10:99, 88:21–22, 11:28)

Popular Books