Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

مظلوم کی مدد : جہاد کے لیے پلاننگ تیاری کا حکم اورعسکری قوت کا تناسب


مسلمان تمام دنیا میں ظلم و جبر کا شکار ہیں- فلسطین ، کشمیر ، یغور مسلمان چین میں ، میانمار (برما) میں مسلمان ( روہینگیار)  اقلیت کی قتل عام سے نسل کشی کی جا رہی ہے- انڈیا ، فرانس اوردوسرے مغربی ممالک میں مسلمانوں سے برا سلوک کے جا رہا ان کی  تضحیک کی جاتی ہے لباس اور عبادات پر پابندی لگائی جاتی ہے ان کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کریا جا رہا ہے-  <<< غزہ ؛ تازہ ترین  >>>
 فلسطین میں مسجد اقصی خطرہ میں ہے ، فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل غزہ میں جہازوں سے بمباری کرتاہے جس سے عمارتوں کو تباہ شدید جانی نقصان ہوتا ہے . اقوام عالم، اسلامی دنیا کی خاموشی اور بے حسی کی وجہ سے عام مسلمان اس ظلم پرمحسوس کر رہے ہیں کہ جہاد کا اعلان کیا جائیے تاکہ دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی کھل کر مدد کی جا سکے- مگر مظلوم مسلمانوں کی مدد کون کرے اور کیسے؟ عرب اوراکثر اسلامی ممالک کے حکمران ظالم امریکہ ، اسرایئل کے حواری ہیں:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا ۖ وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ‎﴿١٢٣﴾‏
 اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وڈیروں (اور رئیسوں) کو وہاں کے جرائم کا سرغنہ بنایا تاکہ وہ اس (بستی) میں مکاریاں کریں، اور وہ (حقیقت میں) اپنی جانوں کے سوا کسی (اور) سے فریب نہیں کر رہے اور وہ (اس کے انجامِ بد کا) شعور نہیں رکھتے، (6:123)

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ‎﴿٧٥﴾‏ الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ‎﴿٧٦﴾‏

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے (75) جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، و ہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں (4:76)
ان کی یہ آہ و بکا تمہیں آمادۂ پیکار کیوں نہیں کر رہی؟ 
ان پر ظلم ہو رہا ہے ‘ ان پر ستم ڈھائے جا رہے ہیں اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم اپنے گھروں سے نکلنے کو تیار نہیں ہو؟
 بعض لوگ اس آیت کا انطباق ان مختلف قسم کے سیاسی جہادوں پر بھی کردیتے ہیں جو کہ آج کل ہمارے ہاں جاری ہیں اور ان پر جہاد فی سبیل اللہ کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات بالکل ہی قیاس مع الفارق ہے۔ 
واضح رہے کہ یہ خطاب ان اہل ایمان سے ہو رہا ہے جن کے ہاں اسلام قائم ہوچکا تھا۔ ہم اپنے ملک میں اسلام قائم کر نہیں سکتے۔ یہاں پر دین کے غلبہ و اقامت کی کوئی جدوجہد نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں کفر کا نظام چل رہا ہے۔ اس کے مخاطب اہل ایمان ہیں ‘ اور اہل ایمان کا فرض یہ ہے کہ پہلے اپنے گھر کو درست کرو
‘ پہلے اپنے ملک کے اندر اسلام قائم کرو لہٰذا جہاد کرنا ہے تو یہاں کرو ‘ جانیں دینی ہیں تو یہاں دو ۔ یہاں پر طاغوت کی حکومت ہے ‘ غیر اللہ کی حکومت ہے ‘ قرآن کے سوا کوئی اور قانون چل رہا ہے ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ ۔۔ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔۔ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) (المائدۃ) اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں ۔۔ وہی تو ظالم ہیں ۔۔ وہی تو فاسق ہیں۔ “ چناچہ کافر ‘ ظالم اور فاسق تو ہم خود ہیں۔ ہمیں پہلے اپنے گھر کی حالت درست کرنا ہوگی۔ اس کے بعد ایک جمعیت قائم ہوگی۔ ہماری حکومت تو ان لوگوں سے دوستیاں کرتی پھرتی ہے جن کے خلاف یہاں جہاد کا نعرہ بلند ہو رہا ہے ‘ جس میں جانیں دی جا رہی ہیں۔ تو یہ آیت اپنی جگہ ہے۔ ہرچیز کو اس کے سیاق وسباق کے اندر رکھنا چاہیے۔ [بیان القرآن ، ڈکٹر اسرار احمد ]

ان مشکل اور پیچیدہ حالات میں جذباتی نعروں کی بجایے عقل و ہوش سے کام لینا ہو گا ، قرآن عقل [10] کے استعمال پر زور دیتا ہے:
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الۡبُکۡمُ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۲۲﴾
بیشک بدترین خلائق اللہ تعالٰی کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو بہرے ہیں گونگے ہیں جو کہ ( ذرا ) نہیں سمجھتے ۔(قرآن ٨:22)
”کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کی اکثریت، سماعت کا یا عقل کا استعمال کرتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ تو محض جانور ہیں، یا ان سے بھی زیادہ بدتر۔“(٢٥:٤٤)
شیطان نفس پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ جذبات میں نقصان ہو-
پاکستان سینکڑوں علماء کا اجماع ہے متفقہ فتوی [3] ہے کہ پاکستان میں جہاد صرف حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے:
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2957
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِمَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ يُطِعِ الْأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ يَعْصِ الْأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي وَإِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَعَدَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ قَالَ بِغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ عَلَيْهِ مِنْهُ. 
ترجمہ:
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ  جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔ امام کی مثال ڈھال جیسی ہے کہ اس کے پیچھے رہ کر اس کی آڑ میں  (یعنی اس کے ساتھ ہو کر)  جنگ کی جاتی ہے۔ اور اسی کے ذریعہ  (دشمن کے حملہ سے)  بچا جاتا ہے، پس اگر امام تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دے اور انصاف کرے اس کا ثواب اسے ملے گا، لیکن اگر بےانصافی کرے گا تو اس کا وبال اس پر ہوگا۔  [صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2957]
جو کوئی فرد یا گروہ اس کو تسلیم نہیں کرتا وہ باغی ہے ، فتنہ و فسادی ہے جس کی سزا قرآن نے رکھی ہے:
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ5:33)
ترجمہ :  جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں اور روئے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا بس یہ ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا ملک بدر کیے جائیں، یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔  ﴿ۙ5:33)
جہاد کے لئے قوت کا مناسب تناسب ، تیاری اور پلانگ کا حکم:
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سورۂ انفال کی آیت 65اور66 کی رو سے جہاد میں مسلمان نصرتِ خداوندی کی توقع اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب وہ دین پر پوری طرح عمل پیرا ہوں اور ان کی مادی قوت دشمن کی مادی قوت کے مقابلے میں ایک نسبت اور دو کی ہو- مثال کے طور پر مدِمقابل کے پاس ایک 100 ٹینک ہوں تو مسلمانوں کے پاس ویسے ہی 50 ٹینک ہونے چاہییں ۔ بصورت دیگر مظلوم مسلمانوں کو سیاسی طریقے سے ظلم سے نجات دلانے کی کوشش کریں ۔یہاں یہ مسلمانوں کی حکومتوں کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ظلم وعدوان خواہ کیسی ہی سنگین صورت اختیار کرلے ، ان کو جہاد اسی وقت شروع کرنا چایے  جب وہ مد مقابل کے مقابلے میں مذکورہ نسبت تناسب سے قوت کے حامل ہوجائیں۔ اگرحکومت  فلسطین اور اسرایئل کے ہمسایہ عرب ممالک مصر ، شام ، اردن سے مسلم ممالک  اقوام متحدہ کے چارٹر 51 کے مطابق دفاعی معاہدہ کر لیں تو اس جنگ میں شامل ہو سکتے ہیں یا حماس کی فوجی و مالی امداد کی جاسکتی ہے- اس طرح ایسے حالات پیدا ہوں کہ  امریکہ ، مغرب اور اسرایئل پر امن طریقہ سے دو ریاست کے حل کی طرف پیش قدمی کریں- اسرایئل کو نیست و نابود کرنے کیے پہلے امریکہ کو فتح کرنا ہو گا ، فوجی نہیں روحانی طور پر ، تبلیغ اسلام سے اکثریت کو مسلمان کریں- یہود نے " صیہونی مسیحیت" سے امریکہ اور مغرب کودو سو سال میں  فتح کر لیا ہے [تفصیل لنک 2 پر ] مسیحی عقیدہ کے مطابق  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے  قاتل یہود کی نفرت کویہود نے چالاکی سے محبت میں تبدیل کر لیا اور اب امریکہ اسرایئل کا غلام ہے-
جہاد کی تیاری اور پلاننگ کا حکم : 
وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ‌ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ‌ ۚ اَللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡ‌ؕ وَمَا تُـنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيۡكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا0 تُظۡلَمُوۡنَ‏ ۞
ترجمہ:
اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہو گا. (القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 60)

جہاد کی مکمل تیاری اسلحہ، جنگی سامان، تربیت ، اعلی پلاننگ، سٹریٹیجی پھر اللہ پر توکل

وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ‌ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ‌ ۚ اَللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡ‌ؕ وَمَا تُـنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيۡكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ‏ ۞
ترجمہ:
اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہو گا. (القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 60)

مسلمانوں کو واضح طور پر حکم دیا جا رہا ہے کہ تم لوگ اپنے وسائل کے مطابق ‘ مقدور بھر فن حرب کی صلاحیت و اہلیت ‘ اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ جہاد کے لیے تیار رکھو۔ اگرچہ ایک مؤمن کو اللہ کی نصرت پر توکل کرنا چاہیے ‘ مگر توکل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور امید رکھے کہ سب کچھ اللہ کی مدد سے ہی ہوجائے گا۔ بلکہ توکل یہ ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے تمام ممکنہ مادی اور تکنیکی وسائل مہیا رکھے جائیں اور پھر اللہ کی نصرت پر توکل کیا جائے۔
یہاں مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف بھر پور دفاعی صلاحیت حاصل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تیاری کا یہ حکم ہر دور کے لیے ہے۔ آج اگر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے نوازا ہے تو یہ صلاحیت ملک و قوم کی قوت و طاقت کی علامت بھی ہے اور تمام عالم اسلام کی طرف سے پاکستان کے پاس ایک امانت بھی۔ اگر اس سلسلے میں کسی دباؤ کے تحت ‘ کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ compromise کیا گیا تو یہ اللہ ‘ اس کے دین اور تمام عالم اسلام سے ایک طرح کی خیانت ہوگی۔ لہٰذا آج وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ پاکستانی قوم اپنے دشمنوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اس سلسلے میں جرأت مندانہ پالیسی اپنائے ‘ تاکہ اس کے دشمنوں کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی صورت میں قوت مزاحمت کا توازن deterrence قائم رہے۔
تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ ج لاَ تَعْلَمُوْنَہُمْ ج اَللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ ط
یعنی تمہاری آستینوں کے سانپ منافقین جو درپردہ تمہاری تباہی اور بربادی کے درپے رہتے ہیں۔ تمہاری نظروں سے تو وہ چھپے ہوئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے۔
وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ
اخراجات
یعنی اگر اسلحہ خریدنا ہے ‘ سازو سامان فراہم کرنا ہے ‘ گھوڑے تیار کرنے ہیں تو اس سب کچھ کے لیے اخراجات تو ہوں گے۔ لہٰذا جنگی تیاری کے ساتھ ہی انفاق فی سبیل اللہ کا حکم بھی آگیا ‘ اس ضمانت کے ساتھ کہ جو کوئی جتنا بھی اس سلسلے میں اللہ کے رستے میں خرچ کرے گا اس کو وعدے کے مطابق پورا پورا اجر دیا جائے گا اور کسی کی ذرّہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔ (ماخوز بیان القرآن، مفسر: ڈاکٹر اسرار احمد)
فوجی قوت اور طاقت 
ہزاروں سال کی جنگی تاریخ کے تجزیہ کے بعد روایتی طور پر یہ قبول کیا جاتا ہے کہ حملہ آور سے دفاعی قوت کا 3: 1 فائدہ ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ، ایک دفاعی قوت حملہ آوروں کی اپنی تعداد سے تین گنا روک سکتی ہے۔ یا حملہ اور کو کامیابی لے لیے دفاعی فوج سے تین گنا زدہ طاقت سے حملہ کرنا چاہیے-
لیکن گوریلا جنگ یا غیر روایتی جنگ میں تناسب تبدیل ہو سکتا ہے- اگر کوئی گوریلا فورس کسی پوسٹ پر حملہ کرتی ہے تو پھر یہ تین گنا تعداد سے کامیاب ہو سکتے ہیں اگر پوسٹ پر دس سپاہی ہیں تو تیس کی تعداد سے حملہ کریں- گوریلا جنگ ایک علحدہ سبجیکٹ ہے جس میں جغرافیائی زپہاڑی جنگلات حملہ اوروں کی مدد کرتے ہیں اور اچانک حملہ کرنا سرپرایز حاصل کرنے کا فائدہ بھی ہوتا ہے- یہ فلسطین/ غزہ میں ممکن نہیں ، کشمیر، افغانستان کے پہاڑی جنگلی علاقوں میں ممکن ہے-

اَلۡئٰـنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنۡكُمۡ وَعَلِمَ اَنَّ فِيۡكُمۡ ضَعۡفًا‌ؕ فَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغۡلِبُوۡا مِائَتَيۡنِ‌ۚ وَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ اَلۡفٌ يَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفَيۡنِ بِاِذۡنِ اللّٰهِؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ ۞  (القرآن - سورۃ نمبر 8 الأنفال, آیت نمبر 65-66)
ترجمہ:
اب بوجھ ہلکا کردیا اللہ نے تم پر سے اور جانا کہ تم میں سستی ہے، سو اگر ہوں تم میں سو شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں دو سو پر، اگر ہوں تم میں ہزار تو غالب ہوں دو ہزار پر اللہ کے حکم سے، اور اللہ ساتھ ہے ثابت قدم رہنے والوں کے۔ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 8 الأنفال, آیت نمبر 65-66)

تعداد کے تناسب کا تعلق "ایمان" کے درجہ سے ہے ، اگر ایمان بہت بلند ہے تو ایک اور دس کا تناسب بھی ممکن ہے اور پھر ایک اور دو کا تناسب کر دیا یہ صحابہ اکرام کے ایمان کا لیول تھا - اب اگر ہم اپنے ایمان کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے اعمال ہمارے ایمان کو ظاہر کرتے ہیں دلوں کے بھید تو اللہ کو معلوم مگر ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں ، کرپشن عا م ہے ، ملاوٹ ، کم تولنا ، دھوکہ ، فراڈ، نا انصافی ، فحاشی ، زنا ، قتتل غرض  کون سی برائی ہم میں نہیں ، یہ ہمارا آخرت پر ایمان ظاہر کرتا ہے کہ ہم کو کیا یقین نہیں کہ آخرت بھی ہے؟ الله تعالی کو جواب دینا ہے؟ اس حالت "ایمان "میں ایک سے دوتو کیا دس مسلمان بھی ایک کافرپر غلبہ پانے کا دعوی کیسے کر سکتے ہیں؟ 
یہ ایک وارننگ ہے جہاد سےفرار کا بہانہ نہیں - ضرورجہاد کریں مظلوم مسلمانوں کی کشمیر  فلسطین چین  برما شام  یمن انڈیا  فرانس  دنیا بھر میں مدد کریں- مگرتیاری بھی ضروری ہے -
کیونکہ جہاد / قتل حکومت کی ذمہ داری ہے عام پاکستان مسلمان عوام حکومت پر مناسب دباوو برقرار رکھیں ، احتجاج کریں مگر پر امن فساد مت پھیلائیں-  فلسطین، کشمیر اوردوسرے مظلوم مسلمانوں کی مالی ، اخلاقی ، سیاسی مدد کریں ، سوشل میڈیا کو استعمال کریں- 
یاد رکھیں کہ دشمن اصل میں امریکہ ہے اسرایئل ایک کٹھ پتلی ہے ١٩٧٣ کی جنگ میں جب مصر اور شام فتح کے قریب تھے تو امریکہ نے اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ سے مدد کی اور شکست کو فتح میں بدل دیا- اب بھی یہی ہو رہا ہے- لڑائی اسرائیل سے نہیں امریکہ سے ہے جس کے اکثر مسلمان ممالک کے حکمران غلام ہیں-
During the first few days of the war, Egypt and Syria secured victories in the Sinai and the Golan. In the south, Egyptian forces crossed the Suez Canal and overran the Israeli military's extensive fortifications, forcing the Israelis back. The Israelis did not fare better in the Golan Heights. Israeli positions in the eastern Golan fell to the advancing Syrian army. With a lack of tanks and manpower, Israeli troops had to withdraw from many positions in the southern sector of the Golan Heights.
تعلیم کے ساتھ ساتھ یہودیوں نے ایک اور کام بھی کیا جس کا علم کم لوگوں کو ہے ۔۔۔ وہ عیسائیت کی نفرت👹 کو محبت❤️ میں بدل چکے ۔۔ مگر کیسے؟
دو سو سال میں ۔۔۔ 
یہودی اپنی قلیل تعداد، ملک ،حکومت ، فوجی یا سیاسی قوت کے بغیر  مسیحیت پر برتری حاصل نہیں کر سکتے تھے- لہٰذا انہوں نے “مذہبی نظریاتی ہتھیار” (Thelogical Ideological Weapon) کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا-یہ کام انیسویں صدی ( 19Th) میں بائبل (New Testament) کی مسیحی سکالرز کے زریعہ تحریف کرکہ یہودی سازگار نظریات ایجاد کرکه حاصل کیا گیا اور مسیحیت میں نیا یہود دوست فرقہ “عیسائی صہیونی” (Zionist Christians) بنایا گیا جس نے بالآخر 1948 میں فلسطینیوں کے اصل باشندوں کو بے دخل کروا کر اسرائیل کی ریاست کے قیام میں مدد فراہم کی اور مسلسل اسرائیل کے وجود اور توسیع کے لئے مستقل تعاون فراہم کرتا ہے-
عیسائی صہیونی (Zionist Christians)  دنیا میں ہر جگہ ہیں ، اس وقت امریکہ میں پانچ کروڑ تعداد کا دعوی کرتے ہیں اور امریکی سیاست ، صدر ، حکومت پر زبردست اثر و رسوخ رکھتے ہیں، وہ  یہودیوں سے زیادہ یہودیوں کے مدد گار ہیں-
“Use of religious ideology as a tool for power”
“مذہبی نظریات بطور طاقت کا ہتھیار”
.یہ ایک دلچسپ کیس اسٹڈی ہے کہ کس طرح ایک کمزور ، تعداد میں بہت قلیل قوم، اپنی چالاکی، طویل مدتی مستقبل کی منصوبہ بندی اور محنت کے بل بوتے پر دنیا پرغلبہ حاصل کر سکتی ہے! 
مزید پڑھیں 》》》بین القوامی سازشوں ، جنگوں اور فساد کی جڑ – صیہونی مسیحیت
اسرائیل ایک امضبوط فوجی ، معاشی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کی یٹمی قوت بھی ہے- دشمن کی قوت کے مطابق تیاری کے بغیرجنگی اہداف حاصل نہیں کتے جا سکتے - جب تک مشترکه اسلامی ممالک کا پلان نہیں بنتا ہم کو سفارتی ، اخلاق اور انسانی ہمدردی کی مدد دینا چاہیے- 
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلَى الۡقِتَالِ‌ ؕ اِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ عِشۡرُوۡنَ صَابِرُوۡنَ يَغۡلِبُوۡا مِائَتَيۡنِ‌ ۚ وَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ مِّائَةٌ يَّغۡلِبُوۡۤا اَ لۡفًا مِّنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ ۞ اَلۡئٰـنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنۡكُمۡ وَعَلِمَ اَنَّ فِيۡكُمۡ ضَعۡفًا‌ؕ فَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغۡلِبُوۡا مِائَتَيۡنِ‌ۚ وَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ اَلۡفٌ يَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفَيۡنِ بِاِذۡنِ اللّٰهِؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اگر ہو تم میں بیس شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں دو سو پر، اور اگر ہوں تم میں سو شخص تو غالب ہوں ہزار کافروں پر اس واسطے کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔ ۞ اب بوجھ ہلکا کردیا اللہ نے تم پر سے اور جانا کہ تم میں سستی ہے، سو اگر ہوں تم میں سو شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں دو سو پر، اگر ہوں تم میں ہزار تو غالب ہوں دو ہزار پر اللہ کے حکم سے، اور اللہ ساتھ ہے ثابت قدم رہنے والوں کے۔ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 8 الأنفال, آیت نمبر 65-66)
تفسیر احسن البیان:
حکم (1:10 ایک دس  کی نسبت ) صحابہ ؓ پر گراں گزرا، کیونکہ اس کا مطلب تھا ایک مسلمان دس کافروں کے لئے بیس دو سو کے لئے اور سو ایک ہزار کے لئے کافی ہیں اور کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی اتنی تعداد ہو تو جہاد فرض اور اس سے گریز ناجائز ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف فرما کر ایک اور دس کا تناسب کم کرکے ایک اور دو کا تناسب کردیا (صحیح بخاری) ، تفسیر سورة الا نفال، اب اس تناسب پر جہاد ضروری اور اس سے کم پر غیر ضروری ہے، یہ کہہ کر صبر و ثبات قدمی کی اہمیت بیان فرما دی کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لئے اس کا اہتمام ضروری ہے۔ [احسن البیان، مفسر: مولانا صلاح الدین یوسف]
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
(سورۃ البقرۃ، آیت 195)
‏ اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں مت ڈالو اور نیکی کرو بے شک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔
تفسیرمعارف القرآن:
تیسری اور چوتھی آیت میں مسلمانوں کے لئے ایک جنگی قانون کا ذکر ہے کہ ان کو کس حد تک اپنے حریف کے مقابلہ پر جمنا فرض اور اس سے ہٹنا گناہ ہے۔ پچھلی آیات اور واقعات میں اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد غیبی مسلمانوں کے ساتھ ہوتی ہے اس لئے ان کا معاملہ عام اقوام دنیا کا سا معاملہ نہیں یہ تھوڑے بھی بہت سوں پر غالب آسکتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے (آیت) كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ (یعنی بہت سی قلیل التعداد جماعتیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کثرت والے مقابل پر غالب آجاتی ہیں)
اس لئے اسلام کے سب سے پہلے جہاد غزوہ بدر میں دس مسلمانوں کو سو آدمیوں کے برابر قرار دے کر یہ حکم دیا گیا کہ :
اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو دشمنوں پر غالب آجائیں گے اور اگر تم سو ہوگے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجاؤ گے۔
عنوان تعبیر اس میں ایک خبر کا رکھا گیا ہے کہ سو مسلمان ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے مگر مقصد یہ حکم دینا ہے کہ سو مسلمانوں کو ایک ہزار کفار کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں۔ عنوان خبر کا رکھنے میں مصلحت یہ ہے کہ مسلمانوں کے دل اس خوشخبری سے مضبوط ہوجائیں کہ اللہ کا وعدہ ہماری حفاظت اور غلبہ کا ہے۔ اگر حکم کو بصیغہ امر قانون کی صورت میں پیش کیا جاتا تو فطری طور پر وہ بھاری معلوم ہوتا۔
غزوة بدر پہلے پہل کی جنگ ایسی حالت میں تھی جب کہ مسلمانوں کی مجموعی تعداد ہی بہت کم تھی اور وہ بھی سب کے سب محاذ جنگ پر گئے نہ تھے بلکہ فوری طور پر جو لوگ تیار ہوسکے وہی اس جنگ کی فوج بنے اس لئے جہاد میں سو مسلمانوں کو ایک ہزار کافروں کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا اور ایسے انداز میں دیا کہ فتح و نصرت کا وعدہ ساتھ تھا۔
چوتھی آیت میں اس حکم کو آئندہ کے لئے منسوخ کرکے دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ اب اللہ تعالیٰ نے تخفیف کردی اور معلوم کرلیا کہ تم میں ہمت کی کمی ہے سو اگر تم میں کے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے۔
یہاں بھی مقصد یہ ہے کہ سو مسلمانوں کو دو سو کافروں کے مقابلہ سے گریز کرنا جائز نہیں۔ 
پہلی آیت  (٨:٦٤) میں ایک مسلمان کو دس کے مقابلہ سے گریز ممنوع قرار دیا تھا اس آیت(٨:٦٥ )یں ایک کو دو کے مقابلہ سے گریز ممنوع رہ گیا۔ اور یہی آخری حکم ہے جو ہمیشہ کے لئے جاری اور باقی ہے۔ 
یہاں بھی حکم کو حکم کے عنوان سے نہیں بلکہ خبر اور خوشخبری کے انداز سے بیان فرمایا گیا ہے جس میں اشارہ ہے کہ ایک مسلمان کو دو کافروں کے مقابلہ پر جمنے کا حکم معاذ اللہ کوئی بےانصافی یا تشدد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان میں اس کے ایمان کی وجہ سے وہ قوت رکھ دی ہے کہ ان میں کا ایک دو کے برابر رہتا ہے۔
مگر دونوں جگہ اس فتح و نصرت کی خوشخبری کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے کہ یہ مسلمان ثابت قدم رہنے والے ہوں اور ظاہر ہے یہ قتل و قتال کے میدان میں اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر ثابت قدم رہنا اسی کا کام ہوسکتا ہے جس کا ایمان کامل ہو۔ کیونکہ ایمان کامل انسان کو شوق شہادت کا جذبہ عطا کرتا ہے اور یہ جذبہ اس کی طاقت کو بہت کچھ بڑھا دیتا ہے۔
آخر آیت میں عام قانون کی صورت سے بتلا دیا (آیت) وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کا ساتھی ہے۔ اس میں میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے والے بھی شامل ہیں اور عام احکام شرعیہ کی پابندی پر ثابت قدم رہنے والے حضرات بھی۔ ان سب کے لئے معیت الہیہ کا وعدہ ہے اور یہ معیت ہی ان کی فتح و ظفر کا اصلی راز ہے۔ کیونکہ جس کو قادر مطلق کی معیت نصیب ہوگئی اس کو ساری دنیا مل کر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلاسکتی۔
(معارف القرآن ، مفسر: مفتی محمد شفیع)
آسان قرآن
یہ حکم بعد میں آیا اور اس نے یہ تخفیف کردی کہ اگر دشمن کی تعداد مسلمانوں سے دگنی ہو تو پیچھے ہٹنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر تعداد اس سے زیادہ ہو تو پیچھے ہٹنے کی گنجائش ہے، اس طرح اس آیت نے اس حکم کی تفصیل بیان فرمادی ہے جو پیچھے آیت نمبر 15، 16 میں دیا گیا۔
ہجرت :
اگر جہاد نہیں کر سکتے تو پھر ہجرت کریں ، اگر ہجرت نہیں کر سکتے تو صبر :
حارث ابن بشیرؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں: جماعت کو لازم پکڑنے کا، سننے اور اطاعت کرنے کا ، ہجرت کا، اللہ کی راہ میں جہاد کا، اور جو جماعت سے ایک بالش بھی باہر ہوا تو اس نے اسلام کا پٹہ اپنے گلے سے اتار پھینکا۔  (ترمذی:2863، البانی نے حدیث کو صحیح کہاہے)
اگر مسلح جدوجہد ممکن نہ ہو تووہاں اپنے آپ کو مزید مشکلات میں نہ ڈالیں اور سورہء اعراف کی آیت۸۷کی رو سے صبر سے کام لیں – ہجرت کا آپشن بھی موجود ہے:
"جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے ۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالٰی کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ پہنچنے کی بُری جگہ ہے ۔"(قرآن 4:97)
اسپین میں جب مسلمانوں پر ظلم کی انتہا ہو گئی تو جان بچانے کے لائے ہجرت کرنا پڑی-
ان مشکل اور پیچیدہ حالات میں جذباتی نعروں کی بجایے عقل و ہوش سے کام لینا ہو گا، قرآن عقل کے استعمال پر زور دیتا ہے:
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الۡبُکۡمُ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۲۲﴾
بیشک بدترین خلائق اللہ تعالٰی کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو بہرے ہیں گونگے ہیں جو کہ ( ذرا ) نہیں سمجھتے ۔(قرآن ٨:22)
”کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کی اکثریت، سماعت کا یا عقل کا استعمال کرتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ تو محض جانور ہیں، یا ان سے بھی زیادہ بدتر۔“(٢٥:٤٤)
شیطان نفس پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ جذبات میں نقصان ہو- بہترین پلاننگ ہو اور فوجی قوت و اسلحہ مہیا کیا جایے تاکہ دشمن کو ناقابل تلافی نقصان ہو اور وہ امن کی طرف آ جایے -
References
    1. The Islamic State اسلامی ریاست
    2. بین القوامی سازشوں ، جنگوں اور فساد کی جڑ – صیہونی مسیحیت : https://salaamone.com/christian-sehoneyat/
    3. مظلوم مسلمانوں کی مدد اور جہاد: https://salaamone.com/jihad/
    4. https://paighampakistan.wordpress.com
    5. Jihad & Warfare جہاد و قتال
    6. فساد فی الارض Fasad
    7. قرآن اور عقل و شعور Quran on Intellect
    8. بین الاقوامی معاہدات, امن اور خیانت: قرآن کے احکام
    9. انفرادی و بین الاقوامی معاہدات کی پابندی کے احکام
    10. https://quransubjects.blogspot.com/2019/11/quran-on-intellect.html
    11. https://en.wikipedia.org/wiki/Force_concentration#:~:text=Traditionally%20it%20is%20accepted%20that,by%20a%20single%20defending%20division.
    12. آزادی القدس ، فلسطین اور امن کی جدوجہد میں عام پاکستانی کا کم از کم کردار: https://t.co/dZApvPsAd5
            The First Intifada, or First Palestinian Intifada 1987-1991/93
             I was was a sustained series of Palestinian protests and violent riots in the West Bank, Gaza Strip, and within Israel. The protests were against the Israeli occupation of the West Bank and Gaza that had begun twenty years prior, in 1967. The intifada lasted from December 1987 until the Madrid Conference in 1991, though some date its conclusion to 1993, with the signing of the Oslo Accords.
            During the whole six-year intifada, the Israeli army killed from 1,162 to 1,204 (or 1,284) Palestinians, 241/332 being children. Between 57,000 and 120,000 were arrested.

            Second Intifada 2000-2010
            Casualties in the conflict between Israel and the Palestinians (29/9/2000 to 26/9/2010)
            Palestinians killed 1083 Israelis in Israel and the Occupied Territories.
            Israeli security forces killed 6371 Palestinians, of whom 1317 were minors. At least 2996 of the fatalities did not participate in the hostilities when killed. 2193 were killed while participating in the hostilities. For 694, B'Tselem does not know whether they participated in the hostilities or not. An additional 248 were Palestinian police killed in Gaza during operation Cast Lead, and 240 were targets of assassinations.
            Palestinians killed 1083 Israelis in Israel and the Occupied Territories.


            🌹🌹🌹
            🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
            "اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
            The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
            ~~~~~~~~~

            Popular Books