Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

مال کا بےجا اصراف



اسلامی معاشرہ میں ذاتی مال کا بےجا اصراف ممنوع ہے ، حکومت ان پر پابندی لگا سکتی ہے:

وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿۵﴾

اور ناسمجھوں کواپنے وہ مال نہ دوجسے اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لیے قائم رہنے کاذریعہ بنایاہے، اورتم انہیں کھلاؤاورپہناؤاوران سے بھلی بات کہو۔۔  [سورة النساء 4  آیت: 5]

 And do not give the weak-minded your property, which Allah has made a means of sustenance for you, but provide for them with it and clothe them and speak to them words of appropriate kindness. [ 
Surat un Nissa: 4 Verse: 5] http://trueorators.com/quran-translations/4/5

یہاں بےسمجھوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مال کے انتظام کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔  ابوموسیٰ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں ….. وہ آدمی جس نے کسی سفینہ (بےوقوف) کو اپنا مال دے دیا  اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تم بیوقوفوں کو اپنے مال مت دو ۔ (مفھوم ،  صحیح الجامع : ٣٠٧٥) اس آیت سے علماء نے سفیہ (کم عقل) پر ” حجر “ (پابندی) کا حکم اخذ کیا ہے کہ حاکم وقت اس کے لین دین پر پابندی لگا سکتا ہے۔ (قرطبی) 
ہدایت کی گئی ہے کہ ایسے مال کے بےجا استعمال کی معاشرتی سطح پر روک تھام ہونی چاہیے۔ یہ تصور ناقابل قبول ہے کہ میرا مال ہے ‘ میں جیسے چاہوں خرچ کروں ! چناچہ اس مال کو اَمْوَالَکُمْ “ کہا گیا کہ یہ اصل میں معاشرے کی مشترک بہبود کے لیے ہے۔ اگرچہ انفرادی ملکیت ہے ‘ لیکن پھر بھی اسے معاشرے کی مشترک بہبود میں خرچ ہونا چاہیے۔ ِ (وَّارْزُقُوْہُمْ فِیْہَا وَاکْسُوْہُمْ ) (وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا ) اسی اصول کے تحت برطانوی دور کے ہندوستان میں (of wards Court) مقرر کردیے جاتے تھے۔ اگر کوئی بڑا جاگیردار یا نواب فوت ہوجاتا اور یہ اندیشہ محسوس ہوتا کہ اس کا بیٹا آوارہ ہے اور وہ سب کچھ اڑا دے گا ‘ ختم کر دے گا تو حکومت اس میراث کو اپنی حفاظت میں لے لیتی اور ورثاء کے لیے اس میں سے سالانہ وظیفہ مقرر کردیتی۔ باقی سب مال و اسباب جمع رہتا تھا تاکہ یہ ان کی آئندہ نسل کے کام آسکے۔ .

یہ آیت (4:5) وسیع معنی کی حامل ہے ۔ اس میں امت کو یہ جامع ہدایت فرمائی گئی ہے کہ مال جو ذریعہ قیام زندگی ہے ، بہر حال ایسے نادان لوگوں کے اختیار و تصرف میں نہ رہنا چاہیے جو اسے غلط طریقے سے استعمال کر کے نظام تمدن و معیشت اور بالآخر نظام اخلاق کو خراب کر دیں ۔ حقوق ملکیت جو کسی شخص کو اپنے املاک پر حاصل ہیں اس قدر غیر محدود نہیں ہیں کہ وہ اگر ان حقوق کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو اور ان کے استعمال سے اجتماعی فساد برپا کر دے تب بھی اس کے وہ حقوق سلب نہ کیے جا سکیں ۔ جہاں تک آدمی کی ضروریات زندگی کا تعلق ہے وہ تو ضرور پوری ہونی چاہئیں ، لیکن جہاں تک حقوق مالکانہ کے آزادانہ استعمال کا تعلق ہے اس پر یہ پابندی عائد ہونی چاہیے کہ یہ استعمال اخلاق و تمدن اور اجتماعی معیشت کے لیے صریحاً مضر نہ ہو ۔ اس ہدایت کے مطابق چھوٹے پیمانہ پر ہر صاحب مال کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا مال جس کے حوالہ کر رہا ہے وہ اس کے استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں ۔ اور بڑے پیمانہ پر حکومت اسلامی کو اس امر کا انتظام کرنا چاہیے کہ جو لوگ اپنے اموال پر خود مالکانہ تصرف کے اہل نہ ہوں ، یا جو لوگ اپنی دولت کو برے طریقے پر استعمال کر رہے ہوں ، ان کی املاک کو وہ اپنے انتظام میں لے لے اور ان کی ضروریات زندگی کا بندوبست کر دے ۔ (تفھیم القئران)
آج کے معاشرہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنا مال و دولت درست، مفت  یا کرپشن سے  حاصل کر کہ بے جا فضول خرچ کر تے ہیں وہ احمق اور نادان معاشرہ کے دشمن ہیں جو فساد ، معاشی ناہمواری اور  بےچینی پیدا کرتے ہیں … کہتے ہیں یہ میرا مال ہے جیسے چاہوں خرچ کروں … اس آیات کے مطابق ان کو فضول خرچی کا حق نہیں … اسلامی نظریاتی کوسل اور پا رلیمنٹ  کو قانون سازی کرکہ اس قبیح پریکٹس کو  کنٹرل  چاہیئے جو معاشرہ کی تباہی کی ایک وجہ ہے -- کسی نے جرمنی میں دیکھا کہ ہوٹل میں لوگوں نہیں کھانے کی زیادہ ڈشز منگوائیں اور بہت کھانا بچ گیا …. پولیس آئی اور ان کو پکڑ لیا .. کہ یہ حد سے اصراف قبول نہیں … یہ قابل غور بات ہے ….
مزید … مضامین قرآن  ….
https://quransubjects.wordpress.com/ur
https://quransubjects.blogspot.com/

Popular Books