Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

WORSHIP عبادات


 بعض لوگوں نے رکوع و سجود، قیام، ذکر، نماز، روزے ، زکوۃ اور حج وغیرہ ہی کو عبادت سمجھ رکھا ہے، بیشک یہ بھی عبادت ہیں، مگر صرف یہی عبادت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم بھی دیا ہے اس کی اطاعت کرنا عبادات ہے، کیونکہ بندگی اور عبادت کا مطلب ہی مالک کے حکم بلکہ اشارے پر چلنا ہے۔ جو مالک کا حکم نہ مانے وہ غلام کیسا اور جو اپنے رب کے حکم پر نہ چلے وہ عبد کیسا ؟
Worship is not restricted to rituals only but complete obedience to Allah, to obey His Commands to live here according to His desire and guidance….[........]
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾
"میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں" (51:56) 
اس آیت میں بتایا کہ نصیحت کیا کرنی ہے اور کون سی بات یاد دلانی ہے۔ فرمایا انہیں یاد دلاؤ کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی (عبادت) کریں۔ 

(١) عبادت کا معنی بندگی ہے۔ غلام کو عربی میں عبد اور فاسری میں بندہ کہتے ہیں۔ عبادت وہ تعلق ہے جو غلام کا اپنے مالک یا عبد کا اپنے رب کے ساتھ ہوتا ہے۔
(٣) کائنات کی ہر چیز رب تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے، سکیک ی مجال نہیں کہ ذرہ برابر سرتابیک ر سکے۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ” کن “ کہتا ہے اور وہ ہوجاتی ہے۔ اس ارادے کو ارادہ کونیہ اور اس حکم کو تکوینی حکم کہتے ہیں، فرمایا :(انما امرہ اذا اراد شیئاً ان یقول لہ کن فیکون) (یٰسین : ٨٢)” اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ” ہوجا “ تو وہ ہوجاتی ہے۔ 
(٤) اکثر معاملات میں انسان اور جن بھی اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ کونیہ اور تکوینی کے اسی طرح پابند ہیں جس طرح دوسری تمام چیزیں، ان کی پیدائش، عمر، رزق، صحت، مرض اور ان کے اعضا کے افعال اور صلاحیتوں میں ان کی مرضی کا کچھ دخل نہیں۔ 
البتہ دونوں کو امتحان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک اختیار عطا فرمایا ہے اور زندگی گزارنے کے لئے اپنے رسولوں کے ذریعے سے کچھ احکام دیئے ہیں کہ میں تمہارا رب ہوں اور تم میرے بندے ہو، میں تمہارا مالک ہوں اور تم میرے غلام ہو، لہٰذا تم نے میری غلامی اور بندگی میں زندگی بسر کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو حکم شرعی اور اس ارادے کو ارادہ شرعیہ کہتے ہیں۔
انسان اس حکم کی تعمیل اور اس ارادے کو پورا بھی کرسکتا ہے اور اسے اس حکم کی نافرمانی ا ور اس رادے کو پورا نہ کرنے کا بھی اختیار ہے۔ اسی اختیار پر اس سے باز پرس ہوگی اور وہ ثواب یا عذاب کا مستحق بنے گا، فرمایا :

الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاً  (الملک : ٢)
” وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کیا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے “  (الملک : ٢)

اللہ تعالیٰ نے اس کی یاد دہانی کے لئے پیغمبر بھیجے اور فرمایا :(وما خلقت الجن والانس الالیعبدون)” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کا یم گر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔ “ یعنی ان دونوں کو پیدا کرنے سے میرا مقصد اور ارادہ شرعیہ یہی ہے کہ وہ میری عبادت اور میری بندگی و غلامی کریں اور اپنی پوری زندگی میرے احکام کے مطابق گزاریں۔
(٥) بعض لوگوں نے رکوع و سجود، قیام، ذکر، نماز، روزے ، زکوۃ اور حج وغیرہ ہی کو عبادت سمجھ رکھا ہے، بیشک یہ بھی عبادت ہیں، مگر صرف یہی عبادت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم بھی دیا ہے اس کی اطاعت کرنا عبادات ہے، کیونکہ بندگی اور عبادت کا مطلب ہی مالک کے حکم بلکہ اشارے پر چلنا ہے۔ جو مالک کا حکم نہ مانے وہ غلام کیسا اور جو اپنے رب کے حکم پر نہ چلے وہ عبد کیسا ؟ جو شخص مسجد میں تو نماز پڑھتا ہے مگر گھر بازار اور عدلات میں اپنی مرضی پر چلتا ہے وہ نہ رب کا بندہ ہے اور نہ اس کا عہد۔ ہاں، اگر وہ ہر کام میں اس کے حکم پر چلتا ہے تو اس کا ہر کام عبادت ہے، حتیٰ کہ نماز ہی نہیں، اس کا کھاناپ ینا، سونا اور بیوی سے صحبت بھی عبادت ہے، کیونکہ رب کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس نے مالک کے منع کئے ہوئے حرام سے اجتناب کیا اور اپنی خواہش پوری کی تو اپنے مالک کے حکم پر چلتے ہوئے پوری کی، یہی بندگی اور یہی عبادت ہے۔ 
(٦) رب تعالیٰ کا اپنے بندوں سے سب سیپ ہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس اکیلے کو اپنا رب اور مالک مانیں، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کریں۔ اس لئے عبداللہ بن عباس (رض) نے سورة بقرہ کی آیت (٢١) :(یایھا الناس اعبدوا ربکم) کی تفسیر فرمائی :” ای و خدوا ربکم “ ” یعنی اپنے رب کو ایک مانو۔ “ (طبری بسند حسن) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون) (الانبیائ : ٢٥)” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، سو میری عبادت کرو۔ “ [عبدالسلام  بھٹوی ]

لَيۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡهَكُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَلٰـكِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَالۡمَلٰٓئِکَةِ وَالۡكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ‌ۚ وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِۙ وَالسَّآئِلِيۡنَ وَفِى الرِّقَابِ‌ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّکٰوةَ ‌ ۚ وَالۡمُوۡفُوۡنَ بِعَهۡدِهِمۡ اِذَا عٰهَدُوۡا ۚ وَالصّٰبِرِيۡنَ فِى الۡبَاۡسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيۡنَ الۡبَاۡسِؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ۞ 
ترجمہ:
نیکی بس یہی تو نہیں ہے کہ اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کرلو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر اور اللہ کی کتابوں اور اس کے نبیوں پر ایمان لائیں، اور اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں، اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خڑچ کریں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور جب کوئی عہد کرلیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے کے عادی ہوں، اور تنگی اور تکلیف میں نیز جنگ کے وقت صبر و استقلال کے خوگر ہوں۔ ایسے لوگ ہیں جو سچے (کہلانے کے مستحق) ہیں، اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں۔ (سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 177)
Righteousness is not that you turn your faces toward the east or the west, but [true] righteousness is [in] one who believes in Allah , the Last Day, the angels, the Book, and the prophets and gives wealth, in spite of love for it, to relatives, orphans, the needy, the traveler, those who ask [for help], and for freeing slaves; [and who] establishes prayer and gives zakah; [those who] fulfill their promise when they promise; and [those who] are patient in poverty and hardship and during battle. Those are the ones who have been true, and it is those who are the righteous.[2:177]
تفسیر:
سورہ البقرہ میں کئی ایسی عظیم آیات آئی ہیں جو حجم کے اعتبار سے بھی اور معنی و حکمت کے اعتبار سے بھی بہت عظیم ہیں ، یہ "آیت البر" ہے ‘ جس میں نیکی کی حقیقت واضح کی گئی ہے۔
لوگوں کے ذہنوں میں نیکی کے مختلف تصوّرات ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ وہ ہے جس کا نیکی کا تصور یہ ہے کہ بس سچ بولنا چاہیے ‘ کسی کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے ‘ کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے ‘ یہ نیکی ہے ‘ باقی کوئی نماز روزہ کی پابندی کرے یا نہ کرے ‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے !

ایک طبقہ وہ ہے جس میں چورّ اُچکے ‘ گرہ کٹ ‘ ڈاکو اور بدمعاش شامل ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کرتے ہیں اور یہ کام ان کے ہاں نیکی شمار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جسم فروش خواتین بھی اپنے ہاں نیکی کا ایک تصور رکھتی ہیں ‘ وہ خیرات بھی کرتی ہیں اور مسجدیں بھی تعمیر کراتی ہیں۔

ہمارے ہاں مذہبی طبقات میں ایک طبقہ وہ ہے جو مذہب کے ظاہر کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اس کی روح سے ناآشنا ہوتا ہے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ مچھر چھانتے ہیں اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہیں۔ ان کے اختلافات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ:
رفع یدین کے بغیر نماز ہوئی یا نہیں ؟ تراویح آٹھ ہیں یا بیس ہیں ؟ باقی یہ کہ سودی کاروبار تم بھی کرو اور ہم بھی ‘ اس سے کسی کی حنفیتّ یا اہل حدیثیّت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ 

نیکی کے یہ سارے تصورات مسخ شدہ perverted ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے اندھوں نے ایک ہاتھی کو دیکھ کر اندازہ کرنا چاہا تھا کہ وہ کیسا ہے۔ کسی نے اس کے پیر کو ٹٹول کر کہا کہ یہ تو ستون کی مانند ہے ‘ جس کا ہاتھ اس کے کان پر پڑگیا اس نے کہا یہ چھاج کی طرح ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں نیکی کا تصور تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ بقول اقبال : ؂
اڑائے کچھ ورق لالے نے ‘ کچھ نرگس نے کچھ گل نے 
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری !

یہ آیت اس اعتبار سے قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے کہ : 
نیکی کی حقیقت کیا ہے؟
 نیکی کی جڑ بنیاد کیا ہے؟
نیکی کی روح کیا ہے؟
نیکی  کے مظاہر کیا ہیں ؟ 
پھر ان مظاہر میں اہم ترین کون سے ہیں اور ثانوی حیثیت کن کی ہے ؟
چناچہ اس ایک آیت کی روشنی میں قرآن کے علم الاخلاق پر ایک جامع کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ گویا اخلاقیات قرآنی Quranic Ethics کے لیے یہ آیت جڑ اور بنیاد ہے۔ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ یہ آیت یہاں کیونکر آئی ہے۔ اس کے پس منظر میں بھی وہی تحویل قبلہ ہے۔ تحویل قبلہ کے بارے میں چار رکوع ١٥ تا ١٨ تو مسلسل ہیں۔ اس سے پہلے چودھویں رکوع میں آیت آئی ہے : وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُق فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ط آیت ١١٥ ادھر بھی اٹھارہویں رکوع کے بعد اتنی آیتیں چھوڑ کر یہ آیت آرہی ہے۔ فرمایا :
آیت ١٧٧ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ  
اس عمل کے نیکی ہونے کی نفی نہیں کی گئی۔ یہ نہیں کہا گیا کہ یہ کوئی نیکی ہی نہیں ہے۔ یہ بھی نیکی ہے۔ نیکی کا جو ظاہر ہے وہ بھی نیکی ہے ‘ لیکن اصل شے اس کا باطن ہے۔ اگر باطن صحیح ہے تو حقیقت میں نیکی نیکی ہے ‘ ورنہ نہیں۔ 
وَلٰکِنَّ الْبِرَّ  
مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَآٰءِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج ۔ 
سب سے پہلے نیکی کی جڑ بنیاد بیان کردی گئی کہ یہ ایمان ہے ‘ تاکہ تصحیح نیت ہوجائے۔ 

1۔ایمانیات میں سب سے پہلے اللہ پر ایمان ہے۔ یعنی جو نیکی کر رہا ہے وہ صرف اللہ سے اجر کا طالب ہے۔
2۔پھر قیامت کے دن پر ایمان کا ذکر ہوا کہ اس نیکی کا اجر دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں مطلوب ہے۔ ورنہ تو یہ سوداگری ہوگئی۔ اور آدمی اگر سوداگری اور دکانداری کرے تو دنیا کی چیزیں بیچے ‘ دین تو نہ بیچے۔ دین کا کام کر رہا ہے تو اس کے لیے سوائے اخروی نجات کے اور اللہ کی رضا کے کوئی اور شے مقصود نہ ہو۔
3۔ یوم آخرت کے بعد فرشتوں ‘ کتابوں اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان کا ذکر کیا گیا۔
یہ تینوں مل کر ایک یونٹ بنتے ہیں۔ فرشتہ وحی کی صورت میں کتاب لے کر آیا ‘ جو انبیاء کرام  علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ ایمان بالرسالت کا تعلق نیکی کے ساتھ یہ ہے کہ نیکی کا ایکّ مجسمہ ‘ ایک ماڈل ‘ ایک آئیڈیل اسوۂ رسول ﷺ ‘ کی صورت میں انسانوں کے سامنے رہے۔ ایسا نہ ہو کہ اونچ نیچ ہوجائے۔ نیکیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی جذبات میں ایک طرف کو نکل گیا اور کوئی دوسری طرف کو نکل گیا۔ اس گمراہی سے بچنے کی ایک ہی شکل ہے کہ ایک مکمل اسوہ سامنے رہے ‘ جس میں تمام چیزیں معتدل ہوں اور وہ اسوہ ہمارے لیے ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت ہے۔ نیکی کے ظاہر کے لیے ہم آپ ﷺ ہی کو معیار سمجھیں گے۔ جو شے جتنی آپ ﷺ ‘ کی سیرت میں ہے ‘ اس سے زیادہ نہ ہو اور اس سے کم نہ ہو۔ کوشش یہ ہو کہ انسان بالکل رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ کاملہ کی پیروی کرے۔ 
وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ  
یعنی مال کی محبت کے علی الرغم۔ عَلٰی حُبِّہٖ میں ضمیر متصلّ اللہ کے لیے نہیں ہے بلکہ مال کے لیے ہے۔ مال اگرچہ محبوب ہے ‘ پھر بھی وہ خرچ کر رہا ہے۔ 
ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِلا والسَّآءِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ ج ۔ 
گویا نیکی کے مظاہر میں اوّلین مظہر انسانی ہمدردی ہے۔
اگر یہ نہیں ہے تو نیکی کا وجود نہیں ہے۔ عبادات کے انبار لگے ہوں مگر دل میں شقاوت ہو ‘ انسان کو حاجت میں دیکھ کر دل نہ پسیجے ‘ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تجوری کی طرف ہاتھ نہ بڑھے ‘ حالانکہ تجوری میں مال موجود ہو ‘ تو یہ طرز عمل دین کی روح سے بالکل خالی ہے۔ 
سورة آل عمران آیت ٩٢ میں الفاظ آئے ہیں : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط تم نیکی کے مقام کو پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ خرچ نہ کرو اس میں سے جو تمہیں محبوب ہے۔ یہ نہیں کہ جس شے سے طبیعت اکتا گئی ہو ‘ جو کپڑے بوسیدہ ہوگئے ہوں وہ کسی کو دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی جائے۔ جو شے خود کو پسند ہو ‘ عزیز ہو ‘ اگر اس میں سے نہیں دیتے تو تم نیکی کو پہنچ ہی نہیں سکتے۔ 
وَاَقَام الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ج اور قائم کرے نماز اور ادا کرے زکوٰۃ۔ 
حکمت دین ملاحظہ کیجیے کہ نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد آیا ہے۔ اس لیے کہ روح دین ایمان ہے اور نیکی کے مظاہر میں سے مظہر اوّل انسانی ہمدردی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیجیے کہ یہاں زکوٰۃ کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے ‘ جبکہ اس سے قبل ایتائے مال کا ذکر ہوچکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
 اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکَاۃِ  ٢٠
یقیناً مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔
یعنی اگر کچھ لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ بس ہم نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال دی تو پورا حق ادا ہوگیا ‘ تو یہ ان کی خام خیالی ہے ‘ مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے۔ اور آپ ﷺ نے یہی مذکورہ بالا آیت پڑھی۔
ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد نماز اور زکوٰۃ کا ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ایمان کو تروتازہ رکھنے کے لیے نماز ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ  طٰہٰ  نماز قائم کرو میری یاد کے لیے۔ اور انسانی ہمدردی میں مال خرچ کرنے کے جذبے کو پروان چڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے زکوٰۃ ہے کہ اتنا تو کم سے کم دینا ہوگا ‘ تاکہ بوتل کا منہ تو کھلے۔ اگر بوتل کا کارک نکل جائے گا تو امید ہے کہ اس میں سے کوئی شربت اور بھی نکل آئے گا۔ چناچہ اڑھائی فیصد تو فرض زکوٰۃ ہے۔ جو یہ بھی نہیں دیتا وہ مزید کیا دے گا ؟ 
وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْا ج ۔ 
انسان نے سب سے بڑا عہد اپنے پروردگار سے کیا تھا جو عہد الست کہلاتا ہے ‘ پھر شریعت کا عہد ہے جو ہم نے اللہ کے ساتھ کر رکھا ہے۔ پھر آپس میں جو بھی معاہدے ہوں ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ 
معاملات انسانی سارے کے سارے معاہدات کی شکل میں ہیں۔ شادی بھی شوہر اور بیوی کے مابین ایک سماجی معاہدہ social contract ہے۔ شوہر کی بھی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں اور بیوی کی بھی کچھّ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔
شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں ‘ بیوی کے شوہر پر حقوق ہیں۔ پھر آجر اور مستأجر کا جو باہمی تعلق ہے وہ بھی ایک معاہدہ ہے۔ تمام بڑے بڑے کاروبار معاہدوں پر ہی چلتے ہیں۔ پھر ہمارا جو سیاسی نظام ہے وہ بھی معاہدوں پر مبنی ہے۔ تو اگر لوگوں میں ایک چیز پیدا ہوجائے کہ جو عہد کرلیا ہے اسے پورا کرنا ہے تو تمام معاملات سدھر جائیں گے ‘ ان کی stream lining ہوجائے گی۔ 
وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط ۔ 
یہ نیکی بدھ مت کے بھکشوؤں کی نیکی سے مختلف ہے۔ 
یہ نیکی باطل کو چیلنج کرتی ہے۔
یہ نیکی خانقاہوں تک محدود نہیں ہوتی ‘ صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں رہتی ‘ بلکہ اللہ کو جو نیکی مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ۔
اور جب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ گے تو خود بھی تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی۔ اس راہ میں صحابہ کرام رض کو بھی تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں اور جانیں دینی پڑی ہیں۔ اللہ کا کلمہ سربلند کرنے کے لیے سینکڑوں صحابہ کرام رض نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ دنیا کے ہر نظام اخلاق میں خیراعلیٰ (summum bonum)کا ایک تصوّر ہوتا ہے کہ سب سے اونچی نیکی کیا ہے !
قرآن کی رو سے سب سے اعلیٰ نیکی یہ ہے کہ حق کے غلبے کے لیے ‘ صداقت ‘ دیانت اور امانت کی بالادستی کے لیے اپنی گردن کٹا دی جائے۔ وہ آیت یاد کر لیجیے جو چند رکوع پہلے ہم پڑھ چکے ہیں : وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ  اور جو اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں جام شہادت نوش کرلیں انہیں مردہ مت کہو ‘ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعورحاصل نہیں ہے۔ 
اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط ۔ 
راست بازی اور نیکوکاری کا دعویٰ تو بہت سوں کو ہے ‘ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دعوے میں سچے ‘ ہیں۔ 
وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ  ۔ 
ہمارے ذہنوں میں نیکی اور تقویٰ کے کچھ اور نقشے بیٹھے ہوئے ہیں کہ شاید تقویٰ کسی مخصوص لباس اور خاص وضع قطع کا نام ہے۔ یہاں قرآن حکیم نے نیکی اور تقویٰ کی حامل انسانی شخصیت کا ایک ہیولا اور اس کے کردار کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے کہ اس کے باطن میں روح ایمان موجود ہے اور خارج میں اس ترتیب کے ساتھ دین کے یہ تقاضے اور نیکی کے یہ مظاہر موجود ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ آمین یا رب العالمین
اس کے بعد وہی جو انسانی معاملات ہیں ان پر بحث چلے گی۔ سورة البقرۃ کے نصف ثانی کے مضامین کے بارے میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ یہ گویا چار لڑیوں پر مشتمل ہیں ‘ جن میں سے دو لڑیاں عبادات اور احکام و شرائع کی ہیں۔ 
(بیان القران ، ڈاکٹر اسرار احمد)


Concept of Worship:

Human Obligations:
are very important apart from ritual worship ..2:177

 Charity

Prayer:

Fasting, 2:183-184

Zakat / Charity
Hajj

Popular Books