أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّمَا التَّوۡبَةُ عَلَى اللّٰهِ لِلَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ السُّوۡٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوۡبُوۡنَ مِنۡ قَرِيۡبٍ فَاُولٰٓئِكَ يَتُوۡبُ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۞
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آ جائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم واﻻ حکمت واﻻ ہے ۞
وَلَيۡسَتِ التَّوۡبَةُ لِلَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ السَّيِّاٰتِ ۚ حَتّٰۤى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّىۡ تُبۡتُ الۡــئٰنَ وَلَا الَّذِيۡنَ يَمُوۡتُوۡنَ وَهُمۡ كُفَّارٌ ؕ اُولٰٓئِكَ اَعۡتَدۡنَا لَهُمۡ عَذَابًا اَ لِيۡمًا ۞
ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 17،18)
توبہ کے معنی پلٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں۔ گناہ کے بعد بندے کا خدا سے توبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک غلام، جو اپنے آقا کا نافرمان بن کر اسے منہ پھیر گیا تھا، اب اپنے کیے پر پشیمان ہے اور اطاعت و فرماں برداری کی طرف پلٹ آیا ہے۔ اور خدا کی طرف سے بندے پر توبہ یہ معنی رکھتی ہے کہ غلام کی طرف سے مالک کی نظر عنایت جو پھر گئی تھی وہ ازسرنو اس کی طرف منعطف ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ میرے ہاں معافی صرف ان بندوں کے لیے ہے جو قصداً نہیں بلکہ نادانی کی بنا پر قصور کرتے ہیں، اور جب آنکھوں پر سے جہالت کا پردہ ہٹتا ہے تو شرمندہ ہو کر اپنے قصور کی معافی مانگ لیتے ہیں۔ ایسے بندے جب بھی اپنی غلطی پر نادم ہو کر اپنے آقا کی طرف پلٹیں گے اس کا دروازہ کھلا پائیں گے کہ ؎ ایں درگہ ما درگہ نومیدی نیست , صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
مگر توبہ ان کے لیے نہیں ہے جو اپنے خدا سے بےخوف اور بےپروا ہو کر تمام عمر گناہ پر گناہ کیے چلے جائیں اور پھر عین اس وقت جبکہ موت کا فرشتہ سامنے کھڑا ہو معافی مانگنے لگیں۔ اسی مضمون کو نبی ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ان اللہ یقبل توبة العبد مالم یغرغر۔”اللہ بندے کی توبہ بس اسی وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ آثار موت شروع نہ ہوں“۔ کیونکہ امتحان کی مہلت جب پوری ہوگئی اور کتاب زندگی ختم ہوچکی تو اب پلٹنے کا کونسا موقع ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوجائے اور دوسری زندگی کی سرحد میں داخل ہو کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے جو وہ دنیا میں سمجھتا رہا تو اس وقت معافی مانگنے کا کوئی موقع نہیں۔ [تفہیم القرآن]
English : https://QuranSubjects.wordpress.com
اردو- مضامین قرآن : https://QuranSubjects.blogspot.com