Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

Death, Resurrection & Judgement حیات بعد الموت، یوم حساب ، شفاعت


یوم آخرت پر ایمان [Believe in Resurrection and Day of Judgment] اسلام کے  چھ بنیادی عقائد میں سے ایک ہے-
Islamic eschatology is the aspect of Islamic theology concerning ideas of life after death, matters of the soul, and the “Day of Judgement,”.... keep reading ....[.....]
آخرت توحید و رسالت کے بعد اسلام کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت کے بارے میں تمام رسولوں اور انبیاءعلیھم السلام کی تعلیمات ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہیں۔ جن کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں اللہ نے ہمیں آزمائش کے لیے بھیجا ہے کہ کون ایمان لا کر اچھے اعمال کرتا ہے اور جس طرح اللہ نے ہمیں یہاں پیدا فرمایا اسی طرح وہ ہمیں ہماری موت کے بعد قیامت کے دن دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا اور ہمیں اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہو گی۔ جوانبیاء علیھم السلام کی تعلیمات پر ایمان لایااور ان کی اطاعت کی اوراعمال صالحہ کیے وہ وہاں کامیاب ہو گا اور جس نے نافرمانی کی وہ ناکام۔ جو کامیاب ہوا اسے نعمتوں بھری ابدی جنت ملے گی اور جو ناکام ٹھہرا وہ جہنم میں جائے گا اور دردناک سزا بھگتے گا۔ اصل زندگی کا گھر آخرت ہی کا گھر ہے اور دنیا اس سفر میں ایک امتحانی گزرگاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اور موت خاتمے کا نہیں بلکہ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونے کا نام ہے:

یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ  الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۱۴﴾

 یہ اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان بھی رکھتے ہیں  ، بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں  ۔ یہ نیک بخت لوگوں میں سے ہیں ۔  [سورة آل عمران 3  آیت: 114]
They believe in Allah and the Last Day, and they enjoin what is right and forbid what is wrong and hasten to good deeds. And those are among the righteous. [ Surat Aal e Imran: 3 Verse: 114]

حیات بعد الموت [Death and Resurrection ] کے فلسفہ کو سمجھنے کے لیےانسان اور اس دنیا کی پیدائش کی بنیادی وجہ کو سمجھنا ضروری ہے: 

الَّذِیۡ  خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ  اَیُّکُمۡ  اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ  الۡغَفُوۡرُ ۙ﴿۲﴾

جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے ،  اور وہ غالب ( اور )  بخشنے والا ہے ۔  [سورة الملك 67  آیت: 2]
 [He] who created death and life to test you [as to] which of you is best in deed - and He is the Exalted in Might, the Forgiving - [Surat ul Mulk: 67 Verse: 2]
وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرہ ۲:۴) اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
اَیَحْسَبُ الْاِِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیo(القیامۃ ۷۵:۳۶) کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟

دنیا میں امتحان اور آخرت میں نتائج :۔
اللہ نے کائنات کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ انسان کی تخلیق سے پہلے ہی انسان کی بنیادی ضروریات زندگی کا سامان مہیا کردیا جائے۔ پھر انسان کو پیدا کیا اور اس کی موت وحیات کا سلسلہ قائم کیا اسے قوت ارادہ و اختیار اور عقل وتمیز عطا کی کہ دیکھا جائے کہ کون کائنات کی دوسری اشیاء کی طرح اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ اگر سرتسلیم خم کرلے تو یہی اس کے لیے بہتر روش ہے اور اس کے اعمال اچھے ہوں گے اور انکار کی صورت میں اس کے اعمال بھی برے اور بدلہ بھی برا ملے گا۔ گویا یہ دنیا ہر انسان کے لیے دارالامتحان ہے اور اس امتحان کا وقت انسان کی موت تک ہے۔ موت سے لے کر بعث بعدالموت تک کا عرصہ امتحان کے نتائج کے انتظار کا عرصہ ہے۔ تاہم ہر ایک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس امتحان میں فیل ہونے والا ہے یا پاس اور اسی کے مطابق اسے اس عرصہ میں کوفت یا راحت بھی پہنچتی رہتی ہے اور قیامت کو اس امتحان کے نتائج کا باقاعدہ اعلان ہوگا۔ نمبر نہایت انصاف کے ساتھ دیئے جائیں گے۔ پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا بھی ملے گی۔ [عبدالرحمان کیلانی]
موت بر حق
کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدۡخِلَ الۡجَنَّۃَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ  الۡغُرُوۡرِ ﴿۱۸۵﴾
 ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنّت میں داخل کر دیا جائے بیشک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے [سورة آل عمران 3  آیت: 185]
 Every soul will taste death, and you will only be given your [full] compensation on the Day of Resurrection. So he who is drawn away from the Fire and admitted to Paradise has attained [his desire]. And what is the life of this world except the enjoyment of delusion. [Surat Aal e Imran: 3 Verse: 185]
مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى
اِسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کودوبارہ نکالیں گے۔[قرآن: سورۃ طٰہٰ:55]
یعنی موت تو ہر ایک کو آ کے رہے گی اور قیامت کے دن ان یہود کو ان کے اعمال کا بدلہ مل کے رہے گا اور ایک حدیث ہے من مات فقد قامت قیامتہ یعنی جو مرگیا اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ اس لحاظ سے عذاب وثواب مرنے کے ساتھ ہی عالم برزخ میں شروع ہوجاتا ہے اور کامیابی کا معیار یہ ہے کہ انسان دوزخ کے عذاب سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہوجائے۔ اس آیت میں ان متصوفین کا رد موجود ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں نہ دوزخ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے اور نہ جنت کی طلب رکھنی چاہئے۔ بلکہ محض اللہ کی رضا کو ملحوظ رکھ کر اس کی عبادت کرنا چاہئے۔ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اپنے لیے قبر کے عذاب اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگا کرتے اور جنت کے لیے دعا فرماتے رہے۔
دنیا کی زندگی دھوکہ ہے 
دنیا میں کسی پر نعمتوں کی بارش ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ حق پر ہے اور اللہ کے ہاں مقبول بندہ ہے۔ اسی طرح کسی کا مصائب و مشکلات میں مبتلا ہونا بھی اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ اللہ اس سے ناراض ہے یا وہ باطل پر ہے۔ بلکہ بسا اوقات اخری نتائج ان کے برعکس ہوتے ہیں۔ لہذا کسی کو اس دھوکہ میں نہ رہنا چاہئے-
اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی عارضی بہار اور ظاہری زیب وزینت میں اتنی کشش ہے اور اتنی پرفریب ہے جس میں مگن ہو کر انسان بسا اوقات آخرت سے غافل ہوجاتا ہے اور غافل رہتا ہے۔ تاآنکہ جب موت آجاتی ہے تب اس کی آنکھیں کھلتی ہیں کہ مجھے دنیا میں رہ کر کرنا کیا چاہئے تھے اور میں کرتا کیا رہا۔
چناچہ اسی مضمون کی ایک حدیث ہے کہ الناس نیام اذا ماتوا انتبھوا (یعنی لوگ سوئے پڑے ہیں جب مریں گے تب ہوشیار ہوں گے) -
 دارالامتحان
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا ہر شخص کے لئے دارالامتحان ہے۔ اس کی زندگی عیش و عشرت میں گزر رہی ہو یا تنگی ترشی میں، وہ خود صحت مند ہو یا بیمار ہو، عالم ہو یا نادان۔ غرضیکہ انسان کی کوئی بھی حالت ہو وہ امتحانی دور سے گزر رہا ہے۔ اس امتحانی دور یا امتحانی پرچے کا آخری وقت اس کی موت ہے۔ موت کے ساتھ ہی اسے یہ از خود معلوم ہوجائے گا کہ وہ اس امتحان میں کامیاب رہا ہے یا ناکام ؟ ساتھ ہی اس کی کامیابی اور ناکامی کے اس پر اثرات مرتب ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اور آخرت میں اسے اس کے اعمال کے مطابق اچھا یا برا بدلہ مل کے رہے گا۔ اس لحاظ سے دنیا اور اس کی زندگی بلکہ اس کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ اور ہر شخص کو اپنی زندگی کے لمحات سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ [عبدالرحمان کیلانی]

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ ﴿٦١﴾ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّـهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۚ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ ﴿٦٢﴾
پنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے - پھر سب کے سب اللہ، اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس لائے جاتے ہیں خبردار ہو جاؤ، فیصلہ کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے (6:61&62)
And He is the subjugator over His servants, and He sends over you guardian-angels until, when death comes to one of you, Our messengers take him, and they do not fail [in their duties]. (61) Then they His servants are returned to Allah, their true Lord. Unquestionably, His is the judgement, and He is the swiftest of accountants. (6:61&62)
موت کے بعد زندگی ؟ 
وَيَقُولُ الْإِنسَانُ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا ﴿٦٦﴾ أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا ﴿٦٧﴾  فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا ﴿٦٨﴾ ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَـٰنِ عِتِيًّا ﴿٦٩﴾
انسان کہتا ہے کیا واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاؤں گا؟  کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟  تیرے رب کی قسم، ہم ضرور ان سب کو اور ان کے ساتھ شیاطین کو بھی گھیر لائیں گے، پھر جہنم کے گرد لا کر انہیں گھٹنوں کے بل گرا دیں گے- پھر ہر گروہ میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیں گے جو الله سے بہت ہی سرکش تھے-  [19:66to69]
And the disbeliever says, "When I have died, am I going to be brought forth alive?" Does man not remember that We created him before, while he was nothing? So by your Lord, We will surely gather them and the devils; then We will bring them to be present around Hell upon their knees. Then We will surely extract from every sect those of them who were worst against the Most Merciful in insolence.  [19:66to69]
وَ ہُوَ الَّذِیۡ  یَبۡدَؤُا  الۡخَلۡقَ ثُمَّ  یُعِیۡدُہٗ وَ ہُوَ اَہۡوَنُ عَلَیۡہِ ؕ وَ لَہُ  الۡمَثَلُ  الۡاَعۡلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ [سورة الروم 30  آیت: 27]
 وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر سے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے ۔  اسی کی بہترین اور اعلٰی صفت ہے  آسمانوں میں اور زمین میں بھی اور وہی غلبے والا حکمت والا ہے ۔  
And it is He who begins creation; then He repeats it, and that is [even] easier for Him. To Him belongs the highest attribute in the heavens and earth. And He is the Exalted in Might, the Wise. [Surat ur Room: 30 Verse: 27] 
مَا خَلۡقُکُمۡ وَ لَا بَعۡثُکُمۡ  اِلَّا کَنَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ ؕ  اِنَّ  اللّٰہَ  سَمِیۡعٌۢ  بَصِیۡرٌ ﴿۲۸﴾
 تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد  جلانا  ایسا ہی ہے جیسے ایک جی کا ،   بیشک اللہ تعالٰی سننے والا دیکھنے والا ہے [سورة لقمان 31  آیت: 28]۔  
 Your creation and your resurrection will not be but as that of a single soul. Indeed, Allah is Hearing and Seeing. [ Surat Luqman: 31 Verse: 28]
أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ ﴿77﴾ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ﴿78﴾ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ﴿79﴾
کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑا لو بن کر کھڑا ہو گیا ؟ ۔ اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے ۔ کہتا ہے "کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا۔ جبکہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں؟" اس سے کہو، انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے۔[ قرآن: سورۃ یٰس:77 - 79]
أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَجْمَعَ عِظَامَهُ ﴿3﴾ بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ ﴿4﴾
کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کر سکیں گے ؟ کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں۔[ قرآن: سورۃ القیامہ:3 - 4]
وَقَالُواْ أَئِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا ﴿49﴾ قُل كُونُواْ حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا ﴿50﴾ أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُؤُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَن يَكُونَ قَرِيبًا ﴿51﴾ يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً ﴿52﴾
وہ کہتےہیں”جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے توکیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اُٹھائے جائیں گے؟“______ان سے کہو”تم پتھر یالوہا بھی ہو جاؤ، یا اس سے بھی زیادہ سخت کوئي چیز جو تمہارے ذہن میں قبولِ حیات سے بعید تر ہو“(پھر بھی تم اُٹھ کر رہو گے)۔ وہ ضرور پوچھیں گے”کون ہے جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا کر لائے گا؟“جواب میں کہو”وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا۔“ وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں گے”اچھا، تو یہ ہوگا کب“؟تم کہو”کیا عجب کہ وہ وقت قریب ہی آلگا ہو۔جس روز وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کے جواب میں نکل آؤ گے اور تمہارا گمان اُس وقت یہ ہوگا کہ ہم بس تھوڑی دیرہی اس حالت میں پڑے رہے ہیں۔[ قرآن: سورۃ الاسرا:49 - 52]
وَاللهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا كَذَلِكَ النُّشُورُ
وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر ہم اسے ایک اُجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اُس کے ذریعہ سے اُسی زمین کو جِلا اُٹھاتے ہیں جو مری پڑی تھی۔ مرے ہوئے انسانوں کا جی اُٹھنا بھی اسی طرح ہوگا۔[قرآن: سورۃ فاطر:9]
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ﴿81﴾ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ﴿82﴾ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴿83﴾
کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کرسکے؟ کیوں نہیں ، جبکہ وہ ماہر خلاق ہے۔ وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے، اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ۔[ قرآن: سورۃ یٰس:81 - 83]

فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ ﴿٣٣﴾ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ ﴿٣٤﴾ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ ﴿٣٥﴾ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ ﴿٣٦﴾ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ ﴿٣٧﴾ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ ﴿٣٨﴾ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ ﴿٣٩﴾ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ ﴿٤٠﴾ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ ﴿٤١﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ ﴿٤٢﴾
پھر جس وقت کانوں کا بہرا کرنے والا شور برپا ہوگا- جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا  اور اپنی ماں اور باپ سے  اور اپنی بیوی اوراپنے بیٹوں سے- ہر شخص کی ایسی حالت ہوگی جو اس کو اوروں کی طرف سے بے پروا کر دے گی - اورکچھ چہرے اس دن چمک رہے ہوں گے ہنستے ہوئے خوش و خرم اور کچھ چہرے اس دن ایسے ہوں گے کہ ان پر گرد پڑی ہو گی  ان پر سیاہی چھا رہی ہو گی یہی لوگ ہیں منکر نافرمان (80:33to42)

But when there comes the Deafening Blast. On the Day a man will flee from his brother. And his mother and his father. And his wife and his children, For every man, that Day, will be a matter adequate for him. [Some] faces, that Day, will be bright -Laughing, rejoicing at good news. And [other] faces, that Day, will have upon them dust. Blackness will cover them. Those are the disbelievers, the wicked ones. [80:33-42]
شفاعت 
شفاعت کے متعلق عجیب و غریب نظریات جو کہ گمراہی کا سببب ہو سکتے ہیں کہ فلاں پیر ، ولی الله میری سفارش کر کہ بخشش کروا دے گا- ان زندہ یا وفات شدہ لوگوں کو چڑھاوے پیش کر کرکہ لوگ اپنی گناہ کی زندگی میں مشغول رہتے ہیں نہ حققوق الله  نہ حقوق العباد کاخیال رکھتے ہیں- قرآن شفاعت کے نظریہ کی وضاحت کرتا ہے :
وہ دن جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اورشفاعت
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ ؕ وَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہُمُ  الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۵۴﴾
اے ایمان والو !جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اورشفاعت  اور کافر ہی ظالم ہیں ۔  [سورة البقرة 2  آیت: 254]

 O you who have believed, spend from that which We have provided for you before there comes a Day in which there is no exchange and no friendship and no intercession. And the disbelievers - they are the wrongdoers. [Surat ul Baqara: 2 Verse: 254]
 یہود و نصاریٰ اور کفار مشرکین اپنے اپنے پیشواؤں، نبیوں، ولیوں، بزرگوں اور مرشدوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ پر ان کا اتنا اثر ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے دباؤ سے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منوا سکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں اسی کو وہ شفاعت کہتے ہیں یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہی تھا جو آجکل کے جاہلوں کا ہے کہ ہمارے بزرگ اللہ کے پاس آ کر بیٹھ جائیں گے اور بخشوا کر اٹھیں گے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے یہاں ایسی کسی شفاعت کا کوئی وجود نہیں پھر اس کے بعد آیت الکرسی میں اور دوسری متعدد آیات و احادیث میں بتایا گیا کہ اللہ کے یہاں ایک دوسری قسم کی شفاعت بیشک ہوگی مگر یہ شفاعت وہی لوگ کرسکیں گے جنہیں اللہ اجازت دے گا اور صرف اہل توحید کے بارے میں اجازت دے گا یہ شفاعت فرشتے بھی کریں گے انبیاء و رسل بھی اور شہدا و صالحین بھی مگر اللہ پر ان میں سے کسی بھی شخصیت کا کوئی دباو نہ ہوگا بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ خود اللہ کے خوف سے اس قدر لرزاں وترساں ہوں گے کہ ان کے چہروں کا رنگ اڑ رہا ہوگا۔ ( وَلَا يَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ ) [21:28 ]

یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ  وَ مَا خَلۡفَہُمۡ  وَ لَا یَشۡفَعُوۡنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارۡتَضٰی وَ ہُمۡ مِّنۡ خَشۡیَتِہٖ مُشۡفِقُوۡنَ ﴿۲۸﴾

 وہ ان کے آگے پیچھے کے تمام امور سے واقف ہے وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو  وہ خود ہیبت الٰہی سے لرزاں و ترساں ہیں ۔   [21:28 ]

 He knows what is [presently] before them and what will be after them, and they cannot intercede except on behalf of one whom He approves. And they, from fear of Him, are apprehensive.  [21:28 ]
 مشرکین مکہ دو وجوہ سے فرشتوں کی عبادت کرتے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں۔ دوسرے اس لئے کہ وہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں اور اللہ کے حضور ہمارے قرب کا ذریعہ ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ سفارشی نہیں کریں گے کیونکہ کتاب و سنت کی رو سے انبیاو و صالحین فرشتوں اور خود قرآن کا سفارش کرنا ثابت ہے۔ بلکہ یوں فرمایا کہ وہ سفارش صرف اس کے حق میں کرسکتیں گے جس کے حق میں سفارش اللہ کو منظور ہو اور اس کی وجہ یہ بتلائی کہ فرشتوں کو علم غیب نہیں ہے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ جس کے حق میں وہ سفارش کر رہے ہیں اس کے اعمال کی کیا صورت اور کیفیت ہے اور یہ حالات صرف اللہ ہی کو معلوم ہیں۔ اس لئے سفارش صرف انہی کے حق میں کرسکیں گے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ اجازت دے گا اور وہ اللہ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں پھر اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش کیسے کرسکیں گے۔ اب اگر کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اسے سفارش کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں۔ پھر بالخصوص فلاں شخص کے حق میں ملے گی یا نہیں تو پھر ایسے بےاختیار شفیع اس بات کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں کہ ان کے آگے سر نیاز خم کیا جائے اور اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے ان کے آگے دست سوال دراز کیا جائے یا انھیں پکارا -

آیات الکرسی 

... مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ  عِنۡدَہٗۤ  اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ  ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ... ﴿۲۵۵﴾

".... کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے ،  وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے …[سورة البقرة 2  آیت: 255]
“.... Who is it that can intercede with Him except by His permission? He knows what is [presently] before them and what will be after them, and they encompass not a thing of His knowledge except for what He wills. … [ Surat ul Baqara: 2 Verse: 255]
فرمایا کہ اس کے پاس کسی کو اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرنے کی قطعاً اجازت نہ ہوگی۔ عرب لوگ بھی کسی نہ کسی رنگ میں اللہ کے ہاں سفارش کے قائل تھے اور یہ سفارش دنیوی معاملات کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور اخروی نجات کے لیے بھی۔ مشرکین کا سفارش کے متعلق یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ ان کے دیوتا یا فرشتے یا اولیاء چونکہ خود اللہ کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات کے مالک ہیں۔ لہذا وہ ہمیں ہر طرح سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ اس لیے صرف اللہ کے ہاں سفارش ہی نہیں بلکہ اس پر دباؤ ڈال کر اپنے ماننے والوں کو اللہ کی گرفت سے بچا سکتے اور ان کی بگڑی بنا سکتے ہیں۔ 
یہ عقیدہ چونکہ اللہ کے بجائے دوسروں پر توکل اور اعتماد کی راہ دکھلاتا ہے۔ لہذا اس عقیدہ کی پرزور الفاظ میں تردید فرما کر شرک کا یہ دروازہ بھی بند کردیا۔ ساتھ ہی (الا باذنہ) فرما کر سفارش کی کلیۃ نفی نہیں کی۔ بلکہ چند در چند شرائط عائد کر کے سفارش پر اعتماد کے عقیدہ کو یکسر ختم کردیا-
وہ شرائط یہ ہیں کہ اللہ جسے خود چاہے گا اسے ہی سفارش کی اجازت دے گا اور جس شخص کے حق میں چاہے گا اسی کے لیے اجازت دے گا اور جس کام کی معافی کے لیے سفارش کی اجازت دے گا۔ 
سفارش کرنے والا صرف اسی بات کے متعلق سفارش کرسکے گا۔ 
اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تو سب لوگوں کے اگلے اور پچھلے، ماضی اور مستقبل کے سب حالات سے پوری طرح واقف ہے۔ جبکہ دوسرے اللہ کی وسعت علم کی گرد کو بھی نہیں پا سکے۔
سفارش تو یہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص سے فلاں کام غلطی سے یا دانستہ سرزد ہوگیا ہے۔ اس کی زندگی کا سابقہ ریکارڈ بالکل ٹھیک ہے لہذا اس کا یہ گناہ معاف کردیا جائے۔ لیکن اللہ کے مقابلہ میں ان مشرکوں کے مزعومہ سفارشی اللہ کے علم میں کیا اضافہ کرسکتے ہیں ان کو تو اتنا ہی علم دیا گیا ہے جتنا کہ اللہ کو منظور تھا اور جو اپنی ذات کا بھی پورا علم نہیں رکھتا وہ دوسروں کے متعلق کیسے رکھتا ہے۔ آگے فرمایا کہ اس کی کرسی تمام کائنات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔  پھر کوئی اللہ کی گرفت سے بچ کر کہاں جاسکتا ہے۔ آگے فرمایا کہ کائنات کے انتظام و انصرام اور اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ کو نہ تھکاتی ہے اور نہ گرانبار بناتی ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کو انسان اور انسانی کمزوریوں پر محمول نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہر قسم کی تشبیہات سے ماورا بھی ہے اور عظمت والی بھی ہے۔ گویا ان آخری جملوں میں پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیس بیان کی گئی ہے۔ گویا تحمید، تسبیح اور تقدیس سب پہلوؤں سے یہ آیت ایک جامع آیت ہے۔
تین احادیث صحیحہ سے شفاعت کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ 

مثلاً یہ کہ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ بڑے بڑے انبیاء بھی اللہ کے حضور سفارش کرنے کی جرات نہ کرسکیں گے اور بالآخر قرعہ فال نبی آخر الزمان پر پڑے گا، نیز یہ کہ سفارش کیسے لوگوں کے حق میں ہوگی، نیز یہ کہ ہمارے ہاں جو پیر و فقیر اپنے مریدوں سے بےدھڑک شفاعت کرنے کے وعدے کرتے ہیں یا جن لوگوں نے اپنی اخروی نجات کا انحصار ہی اپنے پیروں اور مشائخ کی شفاعت سمجھا ہوا ہے اس کی کیا حقیقت ہے وغیرہ وغیرہ:

١۔ طویل حدیث  کا مختصر مفھوم :  قیامت کے دن ایماندار لوگ جمع ہو کر کہیں گے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے پروردگار کے حضور کسی کی سفارش پہنچائیں۔ وہ حضرت  آدم ، نوح ، موسیٰ  (علیہ السلام) سے ہوتے ہوے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچیں گے وہ فرمائیں گے کہ:  تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ۔ وہ ایسے (مقرب) بندے ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے سب اگلے پچھلے قصور معاف کردیئے ہیں۔۔ پھر لوگ  میرے پاس آئیں گے تو میں وہاں سے چل کر اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہونے کی اجازت طلب کروں گا، مجھے اجازت مل جائے گی۔ پھر جب میں اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر جاؤں گا پھر جب تک پروردگار چاہے گا، مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا، پھر ارشاد ہوگا، اپنا سر اٹھاؤ اور سوال کرو وہ تمہیں دیا جائے گا اور بات کرو تو سنی جائے گی اور سفارش کرو تو قبول کی جائے گی۔ چناچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اس کی ایسی تعریف کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے اس وقت سکھلائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا جس کے لیے ایک حد مقرر کی جائے گی۔ میں ان لوگوں کو بہشت میں پہنچا دوں گا۔ پھر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤں گا اور جب اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو پہلے کی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا۔ پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی، میں انہیں جنت میں داخل کروں گا۔ پھر تیسری بار اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤں گا، پھر چوتھی بار آؤں گا۔ اور عرض کروں گا : پروردگار ! اب تو دوزخ میں (جانے والے) وہی لوگ باقی رہ گئے ہیں جو قرآن کی رو سے دوزخ میں جانے کے لائق ہیں اور انہیں ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) زیر آیت (علم اٰدم الاسماء)
٢۔  دوسری حدیث میں بھی اسی طرح جب لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچیں گے وہ فرمائیں گے کہ:   تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ۔ پھر سب لوگ میرے پاس آئیں گے۔ سو میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور جا کر جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ اندر سے کوئی پوچھے گا : یہ کون ہے ؟ کہا جائے گا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں تو وہ میرے لیے دروازہ کھول دیں گے اور مجھے خوش آمدید کہیں گے اور تواضح کریں گے، میں سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اس وقت اللہ مجھے اپنی حمد و ثنا الہام کرے گا۔ پھر مجھے کہا جائے گا اپنا سر اٹھاؤ اور مانگو تمہیں دیا جائے گا اور سفارش کرو تو قبول کی جائے گی اور تمہاری بات سنی جائے گی اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے (وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا (الإسراء :79) (ترمذی، ابو اب التفسیر، سورة بنی اسرائیل)
٣۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا ! یا رسول اللہ ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہوگا ؟ آپ نے فرمایا ! ابوہریرہ ! مجھے معلوم تھا کہ تجھ سے پہلے مجھ سے کوئی یہ بات نہ پوچھے گا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں حدیث سننے کی کتنی حرص ہے تو سنو : میری شفاعت سب سے زیادہ اس شخص کے نصیب میں ہوگی جس نے سچے دل سے لا الہ الا اللہ کہا ہو۔ (بخاری، کتاب العلم۔ باب الحرص علی الحدیث)
گناہوں کی معافی : 

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۙ لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ  اَسَآءُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا وَ یَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا بِالۡحُسۡنٰی ﴿ۚ۳۱﴾اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ  اِلَّا اللَّمَمَ ؕ اِنَّ  رَبَّکَ وَاسِعُ  الۡمَغۡفِرَۃِ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ  اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ  اَنۡتُمۡ  اَجِنَّۃٌ فِیۡ  بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا  تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ  اَعۡلَمُ  بِمَنِ اتَّقٰی (٣٢)

 اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ اللہ تعالٰی برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے ۔  ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی سوائے کسی چھوٹے  سے گناہ کے  بیشک تیرا رب بہت کشادہ مغفرت والا ہے ،  وہ تمہیں بخوبی جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے  پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو ۔  وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے ۔ [سورة النجم 53  آیت: 31،32]

 And to Allah belongs whatever is in the heavens and whatever is in the earth - that He may recompense those who do evil with [the penalty of] what they have done and recompense those who do good with the best [reward] - Those who avoid the major sins and immoralities, only [committing] slight ones. Indeed, your Lord is vast in forgiveness. He was most knowing of you when He produced you from the earth and when you were fetuses in the wombs of your mothers. So do not claim yourselves to be pure; He is most knowing of who fears Him. [Surat un Najam: 53 Verse: 31,32]

اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ  مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱﴾

 اگر تم ان بڑے گُناہوں سے بچتے رہو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے  تو ہم تمہارے چھوٹے گُناہ دُور کر دیں گے اور عزّت و بُزرگی کی جگہ داخل کریں گے ۔  [سورة النساء 4  آیت: 31]

 If you avoid the major sins which you are forbidden, We will remove from you your lesser sins and admit you to a noble entrance [into Paradise]. [ Surat un Nissa: 4 Verse: 31]

عنی ہم تنگ دل اور تنگ نظر نہیں ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پکڑ کر اپنے بندوں کو سزا دیں ۔ اگر تمہارا نامہ اعمال بڑے جرائم سے خالی ہو تو چھوٹی خطاؤں کو نظر انداز کر دیا جائے گا اور تم پر فرد جرم لگائی ہی نہ جائے گی ۔ البتہ اگر بڑے جرائم کا ارتکاب کر کے آؤ گے تو پھر جو مقدمہ تم پر قائم کیا جائے گا اس میں چھوٹی خطائیں بھی گرفت میں آجائیں گی ۔ یہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بڑے گناہ اور چھوٹے گناہ میں اصولی فرق کیا ہے ۔ جہاں تک میں نے قرآن اور سنت میں غور کیا ہے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے ﴿واللہ اعلم بالصواب﴾ کہ تین چیزیں ہیں جو کسی فعل کو بڑا گناہ بناتی ہیں:
( ١ ) کسی کی حق تلفی ، خواہ وہ خدا ہو جس کا حق تلف کیا گیا ہو ، یا والدین ہوں ، یا دوسرے انسان ، یا خود اپنا نفس ۔ پھر جس کا حق جتنا زیادہ ہے اسی قدر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے ۔ اسی بنا پر گناہ کو ”ظلم“ بھی کہا جاتا ہے اور اسی بنا پر شرک کو قرآن میں ظلم عظیم کہا گیا ہے ۔ 
( ۲ ) اللہ سے بے خوفی اور اس کے مقابلہ میں استکبار ، جس کی بنا پر آدمی اللہ کے امر و نہی کی پروا نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے قصداً وہ کام کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے ، اور عمداً ان کاموں کو نہ کرے جن کا اس نے حکم دیا ہے ۔ یہ نافرمانی جس قدر زیادہ ڈھٹائی اور جسارت اور ناخدا ترسی کی کیفیت اپنی اندر لیے ہوئے ہوگی اسی قدر گناہ بھی شدید ہوگا اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ”فسق “ اور ”معصیت“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ 
( ۳ ) ان روابط کو توڑنا اور ان تعلقات کو بگاڑنا جن کے وصل و استحکام اور درستی پر انسانی زندگی کا امن منحصر ہے، خواہ یہ روابط بندے اور خدا کے درمیان ہوں یا بندے اور بندے کے درمیان ۔ پھر جو رابطہ جتنا زیادہ اہم ہے اور جس کے کٹنے سے امن کو جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور جس کے معاملہ میں مامونیت کی جتنی زیادہ توقع کی جاتی ہے ، اسی قدر اس کو توڑنے اور کاٹنے اور خراب کرنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے ۔ مثلاً زنا اور اس کے مختلف مدارج پر غور کیجیے ۔ یہ فعل فی نفسہ نظام تمدن کو خراب کرنے والا ہے اس لیے بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے ، مگر اس کی مختلف صورتیں ایک دوسرے سے گناہ میں شدید تر ہیں ۔ شادی شدہ انسان کا گناہ کرنا بن بیاہے کی بہ نسبت زیادہ سخت گناہ ہے ۔ منکوحہ عورت سے گناہ کرنا غیر منکوحہ سے کرنے کی بہ نسبت قبیح تر ہے ۔ ہمسایہ کے گھر والوں سے زنا کرنا غیر ہمسایہ سے کرنے کی بہ نسبت زیادہ برا ہے ۔ محرمات مثلاً بہن یا بیٹی یا ماں سے زنا کرنا غیر عورت سے کرنے کی بہ نسبت اشنع ہے ۔ مسجد میں گناہ کرنا کسی اور جگہ کرنے سے اشد ہے ۔ ان مثالوں میں ایک ہی فعل کی مختلف صورتوں کے درمیان گناہ ہونے کی حیثیت سے مدارج کا فرق انہی وجوہ سے ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں ۔ جہاں مامونیت کی توقع جس قدر زیادہ ہے ، جہاں انسانی رابطہ جتنا زیادہ مستحق احترام ہے ، اور جہاں اس رابطہ کو قطع کرنا جس قدر زیادہ موجب فساد ہے ، وہاں زنا کا ارتکاب اسی قدر زیادہ شدید گناہ ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ”فجور“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔[ تفہیم القرآن ]

قُلۡ یٰعِبَادِیَ  الَّذِیۡنَ  اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ  لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ  ہُوَ  الۡغَفُوۡرُ  الرَّحِیۡمُ ﴿۵۳﴾

"( میری جانب سے )  کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ بالیقین اللہ تعالٰی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے واقعی وہ بڑی ،  بخشش بڑی رحمت والا ہے" [سورة الزمر 39  آیت: 3]

 Say, "O My servants who have transgressed against themselves [by sinning], do not despair of the mercy of Allah . Indeed, Allah forgives all sins. Indeed, it is He who is the Forgiving, the Merciful." [Surat uz Zumur: 39 Verse: 53]
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ! “ قُلْ یٰعِبَادِیْکا اندازِ تخاطب اس سورت میں یہاں دوسری مرتبہ آیا ہے۔ اس سے پہلے آیت ١٠ میں ارشاد ہوا : { قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّکُمْ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو ! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو “۔ اب یہاں گویا پھر سے یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ اب تک کی زندگی اگر تم لوگوں نے غفلت میں گزار دی ہے تو اب بھی وقت ہے ‘ اب بھی ہوش میں آ جائو ! اور اگر تم نے اب تک اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تو : { لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا } ” اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ “ ٭ لیکن اس معافی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کے حضور خلوص دل سے توبہ کرو ‘ حرام خوری چھوڑ دو ‘ معصیت کی روش ترک کر دو اور آئندہ کے لیے اپنے اعمال کو درست کرلو۔ ایسی توبہ کا انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ملے گا کہ تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ سورة الفرقان میں اس بارے میں بہت واضح حکم موجود ہے : { اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًارَّحِیْمًا۔ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا۔ ” سوائے اس کے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیے ‘ تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دیتا ہے ‘ اور اللہ غفور ہے ‘ رحیم ہے۔ اور جس نے توبہ کی اور نیک اعمال کیے تو یہی شخص توبہ کرتا ہے اللہ کی جناب میں جیسا کہ توبہ کرنے کا حق ہے “۔ چناچہ سابقہ گناہوں کی معافی توبہ سے ممکن ہے ‘ لیکن توبہ وہی قبول ہوگی جس کے بعد انسان کے اعمال درست ہوجائیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو رسمی اور زبانی توبہ بےمعنی ہے۔ { اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ } ” یقینا وہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔[ڈاکٹر اسرار احمد]


سورۂ واقعہ، سورۂ معارج، سورۂ حاقہ، سورۂ قیامہ، سورۂ تکویر اور سورۂ نبا، یہ وہ سورتیں ہیں کہ جن میں قیامت اور آخرت کی ہولناکیوں اور مجرمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا تذکرہ ہے، نیز روزِ محشر کی تفصیلات ہیں۔ سورج کا لپیٹ دیا جانا اور ستاروں کا بے نور ہو جانا، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے، جو انسان جو کچھ لے کر آیا ہے، اس کو اپنا کیا دھرا سب معلوم ہوجائے گا، جب آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے اور جب دریا ایک دوسرے سے مل کر بہہ نکلیں گے، جس دن صور پھونکا جائے گا اور یکایک قبروں سے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے، اور اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے اور پکاریں گے: ہائے ہماری کم بختی، کس نے ہماری خواب گاہوں سے ہمیں جگادیا اور یہ تو وہی قیامت کادن ہے، جس کا حق تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے اس کے بارے میں سچی خبریں ہم تک پہنچائی تھیں___ یہ وہ منظرکشی ہے جس سے تسلسل کے ساتھ آخرت اور اس کی جواب دہی اور اس حوالے سے انسانوں کے اعمال کو دیکھا اور پرکھا جانا سامنے آتا ہے ...........[........]


مزید ....
  1. حیات بعد الموت کے بارے میں قرآنی استد لال........
  2. Sin Laundering گناہ لانڈرنگ
  3. نجات، بخشش، ایمان اور اعمال – مغالطے Salvation, Faith, Works and Illusions
  4. حیات بعد الموت .......
  5. اسلام کے  چھ بنیادی عقائد

-------------

Death and Resurrection حیات بعد الموت  

HELL 

DAY OF JUDGEMENT یوم حساب 



Popular Books