قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾
کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے (1) معبود برحق جو بےنیاز ہے (2) نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا (3) اور کوئی اس کا ہمسر نہیں (4)
Say, "He is Allah, [who is] One, (1) Allah, the Eternal Refuge. (2) He neither begets nor is born, (3) Nor is there to Him any equivalent." (112:4)
یہ ایک عام سوال ہے جو ملسمانوں سے پوچھا جاتا ہے جس کا جواب قرآن نے سورہ اخلاص میں دے دیا جس کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، کیونکہ آپ ہی سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ کا رب کون اور کیسا ہے ، اور آپ ہی کو حکم دیا گیا کہ اس سوال کے جواب میں آپ یہ کہیں ۔ لیکن حضور کے بعد ہر مومن اس کا مخاطب ہے ۔ اسے بھی وہی بات کہنی چاہیے جس کے کہنے کا حکم حضور کو دیا گیا تھا ۔
یعنی میرے جس رب سے تم تعارف حاصل کرنا چاہتے ہو وہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ ہے ۔
یہ ان سوال کرنے والوں کی بات کا پہلا جواب ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کوئی نیا رب لے کر نہیں آگیا ہوں جس کی عبادت دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر میں تم سے کروانا چاہتا ہوں ، بلکہ وہ وہی ہستی ہے جس کو تم اللہ کے نام سے جانتے ہو ۔ اللہ عربوں کے لیے کوئی اجنبی لفظ نہ تھا ۔ قدیم ترین زمانے سے وہ خالق کائنات کے لیے یہی استعمال کر رہے تھے اور اپنے دوسرے معبودوں میں سے کسی پر بھی اس کا اطلاق نہیں کرتے تھے ۔ دوسرے معبودوں کے لیے ان کے ہاں الہ کا لفظ رائج تھا ۔ پھر اللہ کے بارے میں ان کے جو عقائد تھے ان کا اظہار اس موقع پر خوب کھل کر ہوگیا تھا جب ابرھہ نے مکہ پر چڑھائی کی تھی ۔ اس وقت خانہ کعبہ میں 360 الہوں کے بت موجود تھے ، مگر مشرکین نے ان سب کو چھوڑ کر صرف اللہ سے دعائیں مانگی تھیں کہ وہ اس بلا سے ان کو بچائے ۔ گویا وہ اپنے دلوں میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی اس نازک وقت میں ان کی مدد نہیں کرسکتا ۔ کعبے کو بھی وہ ان الہوں کی نسبت سے بیت الآلہہ نہیں ، بلکہ اللہ کی نسبت سے بیت اللہ کہتے تھے ۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے بارے میں مشرکین عرب کا عقیدہ کیا تھا ، مثال کے طور پر: سورہ زخرف میں ہے :
اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ( آیت 87 )
سورہ عنکبوت میں ہے: اگر تم سے ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ۔ اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے: ( آیات 61 تا 63 )
سورہ مومنون میں ہے: ان سے کہو بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی ۔ ان سے پوچھو ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ ۔ ان سے کہو ، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ۔ یہ ضرور جواب دیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے ۔ ( آیات 84 تا 89 )
سورہ یونس میں ایک اور جگہ ہے: ان سے پوچھو ، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں جو تمہیں حاصل ہیں کس کے اختیار میں ہیں؟ اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون اس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ( آیت 31 )
اسی سورہ یونس میں ایک اور جگہ ہے: جب تم لوگ کشتیوں پر سوار ہوکر باد موافق پر فرحان و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک باد مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے ، اس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے ۔ مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہوکر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں ( آیات 22 ۔ 23 ) یہی بات سورہ بنی اسرائیل میں یوں دہرائی گئی ہے: جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں ، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو ( آیت 67 ) ان آیات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ تمہارا کون ہے اور کیسا ہے جس کی بندگی و عبادت کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ، تو انہیں جواب دیا گیا هُوَ اللّٰهُ ، وہ اللہ ہے ۔ اس جواب سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ جسے تم خود اپنا اور ساری کائنات کا خالق ، مالک ، رازق اور مدبر و منتظم مانتے ہو ، اور سخت وقت آنے پر جسے دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر مدد کے لیے پکارتے ہو ، وہی میرا رب ہے اور اسی کی بندگی کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں ، اس جواب میں اللہ تعالی کی تمام صفات کمالیہ آپ سے آپ آ جاتی ہیں ۔ اس لیے کہ یہ بات سرے سے قابل تصور ہی نہیں ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا ، اس کا انتظام اور اس کے معاملات کی تدبیر کرنے والا ، اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کو رزق دینے والا ، اور مصیبت کے وقت اپنے بندوں کی مدد کرنے والا ، زندہ نہ ہو ، سنتا اور دیکھتا نہ ہو ، قادر مطلق نہ ہو ، علیم اور حکیم نہ ہو ، رحیم اور کریم نہ ہو ، اور سب پر غالب ہو ۔
نحوی قواعد کی رو سے علماء نے هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ کی متعدد ترکیبیں بیان کی ہیں ، مگر ہمارے نزدیک ان میں سے جو ترکیب اس مقام کے ساتھ پوری مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ھُوَ مبتداء ہے ، اللہ اس کی خبر ہے اور اَحَدٌ اس کی دوسری خبر ، اس ترکیب کے لحاظ سے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ( جس کے بارے میں تم لوگ سوال کر رہے ہو ) اللہ ہے ، یکتا ہے دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے ، اور زبان کے لحاظ سے غلط نہیں ہے کہ وہ اللہ ایک ہے ۔
یہاں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس جملہ میں اللہ تعالی کے لیے لفظ احد جس طرح استعمال کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں اس لفظ کا غیر معمولی استعمال ہے ۔ معمولا یہ لفظ یا تو مضاف یا مضاف الیہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے ، جیسے یوم الاحد ، ہفتے کا پہلا دن ، اور فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ اپنے کسی آدمی کو بھیجو یا نفی عام کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے ما جاء نی احد میرے پاس کوئی نہیں آیا ۔ یا عمومیت کا پہلو لیے ہوئے سوالیہ فقرے میں بولا جاتا ہے ، جیسے ھل عندک احد؟ کیا تمہارے پاس کوئی ہے ؟ یا اسی عمومیت کے پہلو سے شرطیہ جملہ میں بولا جاتا ہے ، جیسے ان جاء ک احد ، اگر تمہارے پاس کوئی آئے ۔ یا گنتی میں بولا جاتا ہے ، جیسے احد ، اثنان ، احد عشر ، ایک ، دو گیارہ ، ان استعمالات کے سوا نزول قرآن سے پہلے کی عربی زبان میں اس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ محض احد وصف کے طور پر کسی شخص یا چیز کے لیے بولا گیا ہو ، اور نزول قرآن کے بعد یہ لفظ صرف اللہ تعالی کی ذات کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، دوسرے کسی کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا ۔ اس غیر معمولی طرز بیان سے خودبخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یکتا و یگانہ ہونا اللہ کی خاص صفت ہے ، موجودات میں سے کوئی دوسرا اس صفت سے متصف نہیں ہے ، وہ ایک ہے ، کوئی اس کا ثانی نہیں ۔ پھر جو سوالات مشرکین اور اہل کتاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے رب کے بارے میں کیے تھے ان کو نگاہ میں رکھتے ہوئے دیکھیے کہ هُوَ اللّٰهُ کہنے کے بعد اَحَدٌ کہہ کر ان کا جواب کس طرح دیا گیا ہے: اولا ، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہی اکیلا رب ہے ، کسی دوسرے کا ربوبیت میں کوئی حصہ نہیں ہے ، اور چونکہ الہ ( معبود ) وہی ہوسکتا ہے جو رب ( مالک و پروردگار ) ہو ، اس لیے الوہیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ۔ ثانیا ۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہی تنہا کائنات کا خالق ہے ، تخلیق کے اس کام میں کوئی اور اس کا شریک نہیں ہے ۔ وہی اکیلا مالک الملک ہے ، نظام عالم کا مدبر و منتظم ہے ، اپنی مخلوق کا رزق رساں ہے ، اور آڑے وقت میں مدد کرنے والا فریاد رس ہے ، خدائی کے ان کاموں میں ، جن کو تم خود مانتے ہو کہ یہ اللہ کے کام ہیں ، کسی دوسرے کا قطعا کوئی حصہ نہیں ہے ۔
ثالثا ۔ چونکہ انہوں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ :
وہ کس چیز سے بنا ہے؟
- اس کا نسب کیا ہے؟
- وہ کس جنس سے ہے؟
- کس سے اس نے دنیا کی میراث پائی ہے؟
- اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہوگا ؟
اس لیے ان کو ان سارے سوالات کا جواب بھی اللہ تعالی کے لیے صرف ایک لفظ اَحَد بول کر دے دیا گیا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ:
( ۱ ) وہی ایک خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ، نہ اس سے پہلے کوئی خدا تھا ، نہ اس کے بعد کوئی خدا ہوگا
( ۲ ) خداؤں کی کوئی جنس نہیں ہے جس کا وہ فرد ہو ، بلکہ وہ اکیلا خدا ہے اور کوئی اس کا ہم جنس نہیں
( ۳ ) اس کی ذات محض واحد نہیں بلکہ اَحَد ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کثرت کا کوئی شائبہ نہیں ہے ، وہ اجزاء سے مرکب وجود نہیں ہے جو قابل تجزیہ و تقسیم ہو ، جو کوئی شکل و صورت رکھتا ہو ، جو کسی جگہ میں رہتا ہو یا کوئی چیز اس کے اندر جگہ پاتی ہو ، جس کا کوئی رنگ ہو ، جس کے کچھ اعضا ہوں ، جس کی کوئی سمت اور جہت ہو ، اور جس کے اندر کسی قسم کا تغیر و تبدل ہوتا ہو ۔
تمام اقسام کی کثرتوں سے بالکل پاک اور منزہ وہ ایک ہی ذات ہے جو ہر لحاظ سے اَحَد ہے ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عربی زبان میں واحد کا لفظ بالکل اسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح ہم اردو میں ایک کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔
بڑی سے بڑی کثرتوں پر مشتمل کسی مجموعہ کو بھی اس کی مجموعی حیثیت کے لحاظ سے واحد یا ایک کہا جاتا ہے ، جیسے ایک آدمی ، ایک قوم ، ایک ملک ، ایک دنیا ، حتی کہ ایک کائنات ، اور کسی مجموعہ کے ہر جز کو الگ الگ بھی ایک ہی کہا جاتا ہے ۔ لیکن اَحَد کا لفظ اللہ تعالی کے سوا کسی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ۔ اسی لیے قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ تعالی کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں الہ واحد ، ایک ہی معبود ، یا اللہ الواحد القھار ، اکیلا اللہ جو سب کو مغلوب کر کے رکھنے والا ہے ، کہا گیا ہے ۔ محض واحد نہیں کہا گیا ، کیونکہ یہ لفظ ان چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو اپنی ذات میں طرح طرح کی کثرتیں رکھتی ہیں ، بخلاف اس کے اللہ کے لیے اور صرف اللہ ہی کے لیے احد کا لفظ مطلقا استعمال کیا گیا ہے ، کیونکہ وجود میں صرف وہی ایک ہستی ایسی ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کوئی کثرت نہیں ہے ، جس کی وحدانیت ہر لحاظ سے کامل ہے - [تفہیم القرآن ]
”آیت الکرسی“- The Verse of the Throne
اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ وَ لَا یَئُوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ ﴿۲۵۵﴾
اللہ تعالٰی ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے ، جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ، اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں ۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے ، وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے ، اس کی کرسی کی وُسعت نے زمین اور آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالٰی ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اُکتاتا ہے وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے [سورة البقرة 2 آیت: 255]
Allah - there is no deity except Him, the Ever-Living, the Sustainer of [all] existence. Neither drowsiness overtakes Him nor sleep. To Him belongs whatever is in the heavens and whatever is on the earth. Who is it that can intercede with Him except by His permission? He knows what is [presently] before them and what will be after them, and they encompass not a thing of His knowledge except for what He wills. His Kursi extends over the heavens and the earth, and their preservation tires Him not. And He is the Most High, the Most Great. [Surat ul Baqara: 2 Verse: 255]
یہ آیت ”آیت الکرسی“ کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بخشی گئی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی ۔ اسی بنا پر حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے ۔ لفظ”کُرْسِی“ جسے بالعموم حکومت و اقتدار کے لیے استعارے کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اردو زبان میں بھی اکثر کرسی کا لفظ بول کر حاکمانہ اختیارات مراد لیتے ہیں ۔
نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبود بنا رکھے ہوں ، مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکت غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے ، جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں ، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے ۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے ۔ کوئی دوسرا نہ اس کی صفات میں اس کا شریک ہے ، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں ۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں کہاں بھی کسی اور کو معبود ( الٰہ ) بنایا جا رہا ہے ، ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے ۔
"آیت الکرسی" ان لوگوں کے خیالات کی تردید ہے ، جو خداوند عالم کی ہستی کو اپنی ناقص ہستیوں پر قیاس کرتے ہیں اور اس کی طرف وہ کمزوریاں منسوب کرتے ہیں ، جو انسانوں کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ مثلاً بائیبل کا یہ بیان کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا ۔
الله زمین و آسمان کا اور ہر اس چیز کا مالک ہے ، جو زمین و آسمان میں ہے ۔ اس کی ملکیت میں ، اس کی تدبیر میں اور اس کی پادشاہی و حکمرانی میں کسی کا قطعاً کوئی حصّہ نہیں ۔ اس کے بعد کائنات میں جس دوسری ہستی کا بھی تم تصور کر سکتے ہو ، وہ بہرحال اس کائنات کی ایک فرد ہی ہوگی ، اور جو اس کائنات کا فرد ہے ، وہ اللہ کا مملوک اور غلام ہے ، نہ کہ اس کا شریک اور ہمسر ۔
"آیت الکرسی" ان مشرکین کے خیالات کا ابطال ہے ، جو بزرگ انسانوں یا فرشتوں یا دوسری ہستیوں کے متعلق یہ گمان رکھتے ہیں کہ خدا کے ہاں ان کا بڑا زور چلتا ہے ، جس بات پر اڑ بیٹھیں ، وہ منوا کر چھوڑتے ہیں ، اور جو کام چاہیں خدا سے لے سکتے ہیں ۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ زور چلانا تو درکنار ، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر اور کوئی مقرب ترین فرشتہ اس پادشاہ ارض و سما کے دربار میں بلا اجازت زبان تک کھولنے کی جرأت نہیں رکھتا ۔
اس حقیقت کے اظہار سے شرک کی بنیادوں پر ایک اور ضرب لگتی ہے ۔ اوپر کے فقروں میں اللہ تعالیٰ کی غیر محدود حاکمیت اور اس کے مطلق اختیارات کا تصور پیش کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کی حکومت میں نہ تو کوئی بالاستقلال شریک ہے اور نہ کسی کا اس کے ہاں ایسا زور چلتا ہے کہ وہ اپنی سفارشوں سے اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے ۔ اب ایک دوسری حیثیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے کام میں دخل دے کیسے سکتا ہے ، جبکہ کسی دوسرے کے پاس وہ علم ہی نہیں ہے جس سے وہ نظام کائنات اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ سکتا ہو ۔ انسان ہوں یاجن یا فرشتے یا دوسری مخلوقات ، سب کا علم ناقص اور محدود ہے ۔ کائنات کی تمام حقیقتوں پر کسی کی نظر بھی محیط نہیں ۔ پھر اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جز میں بھی کسی بندے کی آزادانہ مداخلت یا اٹل سفارش چل سکے تو سارا نظام عالم درہم برہم ہوجائے ۔ نظام عالم تو رہا درکنار ، بندے تو خود اپنی ذاتی مصلحتوں کو بھی سمجھنے کے اہل نہیں ہیں ۔ ان کی مصلحتوں کو بھی خداوند عالم ہی پوری طرح جانتا ہے اور اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس خدا کی ہدایت و رہنمائی پر اعتماد کریں ، جو علم کا اصلی سر چشمہ ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خداوند عالم کی ذات و صفات کا ذکر کس مناسبت سے آیا ہے؟
اس کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اس تقریر پر نگاہ ڈال لیجیے ، جو رکوع ۳۲ سے چل رہی ہے ۔ پہلے مسلمانوں کو دین حق کے قیام کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اکسایا گیا ہے اور ان کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے ۔ پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں ، بلکہ ایمان ، صبر و ضبط اور پختگی عزم پر ہے ۔
جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جو حکمت وابستہ ہے ، اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، یعنی یہ کہ دنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرتا رہتا ہے ، ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ و اقتدار کا دائمی پٹہ مل جاتا ، تو دوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا ۔
پھر اس شبہہ کو دفع کیا گیا ہے ، جو ناواقف لوگوں کے دلوں میں اکثر کھٹکتا ہے کہ اگر اللہ نے اپنے پیغبر اختلافات کو مٹانے اور نزاعات کا سد باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے اور ان کی آمد کے باوجود نہ اخلافات مٹے ، نہ نزاعات ختم ہوئے ، تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اس نے ان خرابیوں کو دور کرنا چاہا اور نہ کر سکا ۔ اس کے جواب میں بتا دیا گیا ہے کہ اختلافات کو بجز روک دینا اور نوع انسانی کو ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیت ہی میں نہ تھا ، ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اس کی مشیت کے خلاف چلتا ۔ پھر ایک فقرے میں اس اصل مضمون کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے تقریر کی ابتدا ہوئی تھی ۔ اس کے بعد اب یہ اشارہ ہو رہا ہے کہ انسانوں کے عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں ، بہرحال حقیقت نفس الامری ، جس پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے ، یہ ہے ، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے ۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا ۔ مگر اللہ کا یہ منشا نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبردستی مجبور کیا جائے ۔ جو اسے مان لے گا ، وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جواس سے منہ موڑے گا ، وہ آپ نقصان اٹھائے گا- [تفہیم القرآن ]
الله کے اسماء الحسنہ - Attributes of Perfection
ہُوَ اللّٰہُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ؕ یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ
وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا وجود بخشنے والا صورت بنانے والا اسی کے لئے ( نہایت ) اچھے نام ہیں ہرچیز خواہ وہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے [سورة الناس 59 آیت: 24]
He is Allah , the Creator, the Inventor, the Fashioner; to Him belong the best names. Whatever is in the heavens and earth is exalting Him. And He is the Exalted in Might, the Wise. [ Surat un Naas: 59 Verse: 24]
اللہ کو اس کی صفات کے لئے موزوں دیگر خوبصورت ناموں (اسماء الحسنیٰ) کے ساتھ پکارا جا سکتا ہے:
"وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں، اس کے لیے بہترین نام ہیں"(قرآن 20:8).
اسلامی روایات میں الله کے 99 صفاتی ناموں کا ذکر ہے (تعداد حتمی نہیں):
الرحمن ٭الرحيم ٭ الملك ٭ القدوس ٭ السلام ٭ المؤمن٭ المهيمن٭ ٭العزيز ٭ الجبار ٭ ٭المتكبر ٭ الخالق ٭ البارئ ٭ المصور ٭ الغفار ٭ القهار ٭ الوهاب ٭ الرزاق ٭ الفتاح ٭ العليم ٭ ٭القابض ٭ الباسط ٭ الخافض ٭ الرافع ٭ المعز ٭ المذل ٭ السميع ٭ البصير ٭ الحكم ٭ العدل٭ ٭اللطيف ٭ الخبير ٭ ٭الحليم ٭ العظيم ٭ الغفور ٭ الشكور ٭ العلي ٭ الكبير٭ الحفيظ ٭ المقيت ٭ ٭الحسيب ٭ الجليل ٭ الكريم ٭ الرقيب ٭ المجيب ٭ الواسع ٭ الحكيم ٭ ٭الودود٭ المجيد٭ الباعث ٭ ٭الشهيد ٭ الحق ٭ الوكيل ٭ القوي ٭ المتين ٭ ٭الولي ٭ الحميد ٭ المحصي ٭ المبدئ ٭ المعيد ٭ ٭المحيي ٭ المميت ٭ الحي ٭ ٭القيوم ٭ الواجد ٭ الماجد ٭ الواحد ٭ الأحد ٭ الصمد ٭ القادر ٭ ٭المقتدر٭ ٭المقدم ٭ المؤخر٭ الأول ٭ الآخر ٭ الظاهر ٭ الباطن ٭ الوالي٭ المتعالي ٭ ٭البر٭ ٭التواب ٭ المنتقم ٭ العفو ٭ الرءوف ٭ مالك الملك ٭ ذو الجلال والإكرام ٭ الرب ٭ المقسط ٭ ٭الجامع٭ الغني ٭ المغني ٭ المانع٭ الضار٭ ٭النافع٭ النور ٭ الهادي ٭ البديع ٭ الباقي ٭ ٭الوارث٭ الرشيد٭ الصبور٭
ALLAH الله
- One God اللہ ایک ہے ، واحد
- (37:4, 40:62, 43:84, 52:43, 59:22, 2:16, 6:102, 20:98, 22:62, 23:116, 21:22)
- is everywhere, 2:115, 2:142, 2:177, 4:126 ہر جگہ ہے
- is the – First and the Last (alpha and omega), 57:3 اول اور آخری (الفا اور اومیگا
- Is the Outward and Inward, 57:3 ظاہر اور باطن
- knows that beyond comprehension,سب کچھ جانتا ہے وہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے
- 6:59, 6:73, 9:94, 9:105, 13:9, 32:6, 34:48, 35:38, 39:46, 49:18,
- 59:22, 62:8, 64:18, 72:26, 74:31, 87:7
- ability to do anything, 2:106, 2:117, 3:165, 3:189, 8:41, 9:116, 11:4, 16:40, 40:68, 41:39, 42:49, 57:2
- best of all judges, 95:8 تمام ججوں سے بہترین
- beyond definition, 43:82, 67:12 وضاحت سے بالاتر
- has no consort, 72:3 اس کی کوئی شریک حیات نہیں ہے
- has no son, 43:81, 72:3, 112:3 ،اس کا کوئی بیٹا نہیں
- no human is a divinity, 3:64, 3:151 کسی انسان میں الوہیت نہیں ہے
- not a trinity, 4:171 تثلیث ( تین) نہیں وہ
- refuge from evil with, 113:1-5, 114:1-6 برائی سے اس کی پناہ حاصل کرو
- gives humans free will, 36:67 انسانوں کو آزادانہ مرضی دیتا ہے
- giving it all up for him, 4:66-68, 4:125 کچھ سب کچھ اس کے لیے چھوڑ دو
- good and evil are from Him, 4:78 اچھی اور برائی اسی کی طرف سے ہے
- grants life and death, 44:8, 53:44, 57:2, 67:2 زندگی اور موت عطا کرتا ہے
- remembering him standing, sitting, lying down, 3:191, 4:103, 10:12, 25:64 کھڑے اور لیٹے اس کا ذکر کرو
- brings disbelievers schemes to nought, 8:30, 8:36 کافروں کی تدبیریں کو ختم کردیتا
- cause human beings to disappear and bring forth other beings, 4:133, 14:19, 35:16 نافرمان انسانوں کو ختم کرنے اوردوسروں کو لا سکتا ہے
- causes laughter and crying, 53:43 وہی ہنساتا ہے اوررلاتا ہے
- caused a man to sleep for a century, 2:259 ایک صدی کے لئے ایک آدمی کو نیند دیتا
- enemy of those who deny the truth, 2:98 حق کا انکار کرنے والوں کا دشمن
- extol his glory from morning until night, 33:42 صبح سے لے کر رات تک اس کی تسبیح کرتے رہیں
- false daughters of, 16:57, 17:40, 43:16, 52:39, 53:21-22 الله کی بیٹیاں نہیں
- by name, 53:19-20
- hard strivers rewarded better, 4:95-96, 5:54, 9:120, 49:15, 61:11 سخت جدوجہد کرنے والوں کو بہتر سے بہتر دیتا ہے
- has not forsaken you during your hard times, 93:3 مشکل وقت کے دوران آپ کو ترک نہیں کیا ہے
- loves those who behave equitably, 49:9 ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو مناسب سلوک کرتے ہیں
- made no laws regarding that of which He didn’t speak, 5:101, 6:140, 6:148, 7:32 جس کے بارے میں وہ نہیں کہتا کوئی قانونمت بناو
- mercy towards prisoners of war who have good in them, 8:70 جن جنگی قیدیوں میں بھلائی ہے ان مہربان ہے
- nature of, 2:255
- shapes you in the womb, 3:6 تم کو ماں کے رحم میں تشکیل کرتا
- throne rests upon the water, 11:7 اس کا تخت پانی پر ٹکا ہوا ہے
- will create things of which you have no knowledge, 16:8 ایسی چیزیں پیدا کرے کا جن کے بارے میں آپ کو کچھ علم نہیں
- a day for Him is very long : 22:47, 32:5 , اللہ کے لئے ایک دن بہت طویل ہے 70:4
- wills no wrong to His creation, 3:108, 4:40, 17:71, 21:47, 22:10, 26:209, 40:31, 41:46, 45:22, 50:29, 64:11 ااپنی مخلوق پر ظلم نہیں کرتا
More :
-------------------