اس ریسرچ پیپر میں دین اسلام اور تاریخ کے سب سے اہم موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے ، جس پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے، کہ حقائق عوام کی نظروں سے اوجھل رہیں ....
This is not an ordinary Thesis, it touches the most important topic of Islamic theology and history, a grave error (or deception?) ignored for twelve centuries, discussion is considered taboo.... Keep reading .... [https://wp.me/pbruvK-nw ]
...............................................
یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶﴾ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾ يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا (قرآن 4:26,27,28]
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں (سنت) کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے. (قرآن 4:26,27,28]
Keep reading in English .....[........]
اس تحقیق میں دین اسلام اور تاریخ کے سب سے اہم موضوع کو زیر بحث لاتا ہے، ایک سنگین غلطی (یا دھوکہ ) جسے بارہ صدیوں سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ براہ کرم جب آپ یہ تحقیق پڑھتے ہو تو پہلے الله سے ہدایت کی دعا ، سورہ الفاتحه پڑھ کر اپنے ذہن کو روایتی مذہبی پیشواؤں کی مخصوص سوچ سے آزاد رکھ کہ صرف قرآن و سنت کو سوچ کا محور بنا کر چلنا ہو گا، اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے اور مذہبی پیشواؤں کو قرآن (9:31) کی اصطلاح میں یہود و نصاریٰ کی طرح "رب" مانتے ہو ۓ کلام الله اور سنت رسول کونظر انداز کرتے ہیں تو، یہ تحقیق آپ کے لیے نہیں ....
تحقیقی "ریسرچ پیپر" [Research Paper ] اس پوسٹ میں بھی emb-d کر دیا ہے ، لیکن اسے اس بلاگ پوسٹ میں بھی یھاں پڑھ سکتے ہیں. اس کے علاوہ "ریسرچ پیپر" [Research Paper ] کو درج ذیل طریقہ سے پڑھ سکتے ہیں :
Full Research Paper - Download / Read Online:
- English: https://quran1book.blogspot.com/2020/06/index.html
- Read English Translation <<here>> | Executive Summary: http://bit.ly/3bTqSvX
- Executive Summary English:PDF: http://bit.ly/2Vdaxfq , Google Doc: http://bit.ly/3bTqSvX
- جامع خلاصہ : آخری کتاب یا کتب؟ ترجمہ PDF: http://bit.ly/39Zvyi3 GoogleDoc: http://bit.ly/39VT92S
Urdu - مکمل تحقیقی مقالہ اردو
- PDF (A4 Size for printout) :(4.6 MB) http://bit.ly/2uI2213
- PDF (A5) for Mobiles: (5MB) http://bit.ly/2OGJtB9
- Google Doc : http://bit.ly/31lYQV3
- EPUB: (8 MB) http://bit.ly/2SMsRZZ
- https://salaamone.com/last-book/
- Urdu:https://QuranSubjects.blogspot.com/
- https://www.facebook.com/QuranSubject/posts/127125452151189
Comments / Suggestions:
Related... http://SalaamOne.com/muslim-first
........................
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ اس کی ہٹ دھرمی پر گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا. ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ پر اہل بیت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور اصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین پر. جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا.
.................
سورة الفاتحة
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (قرآن1:7)
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے (1) تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے (2) رحمان اور رحیم ہے (3) روز جزا کا مالک ہے (4) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں (5) ہمیں سیدھا راستہ دکھا (6) اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں (قرآن1:7)
In the name of God, the Most Gracious, the Most Merciful. (1) All praise is due to God, the Lord of the Universe; (2) the Beneficent, the Merciful; (3) Lord of the Day of Judgement. (4) You alone we worship, and to You alone we turn for help. (5) Guide us to the straight path: (6) the path of those You have blessed; not of those who have incurred Your wrath, nor of those who have gone astray. (Quran 1:7)
قرآن، سنت رسول اللهﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کی سنت کی روشنی میں
Comeback to Quran & Sunnah
Plea to Reclaim The Original Islam of 1st Century Hijrah
Research Work
قرآن و سنت رسول اللهﷺ کی طرف واپسی
تحقیقی و تجزیہ
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا [القرآن 5:3]
آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین کے پسند کرلیا
This day have I perfected your religion, completed My favour & have chosen Islam as your religion.[Quran5:3]
اللہ چاہتا ہے :
یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲٦﴾ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾ يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿ النساء ٢٨﴾
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے ۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:26,27,28]
قرآن کو چھوڑنے والے :
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)
یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔
قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔
مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔ اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ” ترجمہ : دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔ (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا" ﴿سورة الفرقان25:30﴾
ہمارے معاشرہ میں مذہبی عدم برداشت، شدت پسندی،سماجی،معاشرتی، اخلاقی، معاشی ،سیاسی بےراہ روی ، مشرکانہ رسوم اور گوناں مسائل کی وجہ قرآن سے دوری ہے- قبیح رسوم ہمارے معاشرہ میں تیزی سے پھیل رہی ہیں- علماء کا ایک طبقہ بھی ان برائیوں کو روکنے کی بجایے ان کا حصہ بن گیا ہے- سوشل میڈیا نے ہر ایک کو سہولت مہیا کی ہے کہ وہ اپنے نظریات کا اظھار اور فروغ کر سکے- افسوس کہ اس سہولت کو مثبت کی بجایے منفی طور پر دوسرے مسلمانوں پر تنقید اور طعنہ زنی کے لیے استعال کیا جاتا ہے- دین کا محدود علم مزید خرابی کی وجہ ہے- ہر ایک اپنے فرقہ ، مسلک کا دفاع اور دوسروں کی تضحیک میں مگن ہے اور اس کو دین اسلام کی خدمت اور دعوه سمجھ رہے ہیں- اس سلسلہ میں احادیث کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، اکثر تحقیق، ریفرنس اور درجہ بندی کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر- پچھتر( 75) کتب، پچیس ہزار احادیث (لاتعداد جو عام پبلش نہیں ہوئیں) بہت بڑی تعداد ہے جس پر عبور رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں- قرآن اور سنت جو مستند اور محفوظ ترین ہیں، سے کسی حد تک احتیاط کی جاتی ہے، ایک وجہ لاعلمی اور دوسرے غلطی فوری طور پر پکڑے جانے کا احتمال اور شدید ردعمل-
اسی سے منسلک دوسرا مسئلہ فرقہ واریت ہے جس نے امت مسلمہ کو بہت نقصان پنہچایا ہے جو تسلسل سے جاری ہے- فتنہ، فساد اور دہشت گردی کی بنیاد فرقہ واریت ہے جس کو روکنے میں علماء کا موئثر کردار بہت اہم ہے- گمراہ لوگ قرآن اوراپنی من پسند احادیث کے حوالوں کی من گھڑت تاویلون سے دینی ، ذہنی پراگندگی ، فتنہ و فساد اور دینی فکر میں اپنے نظریات کی ملاوٹ کرکہ نہ صرف دہشت گردی کا جواز گھڑ کر سادہ لوح مسلمان نوجوانوں کو جنگ کے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں بلکہ فکری انتشار پیدا کرکہ غیر محسوس طریقہ سے فرقہ در فرقہ بناتے ہیں۔ وہ سادہ مسلمان اکٹریت کے یہود کے مذہبی پیشوا کے طور پر نجات دہندہ بن کر ان سے معاشی، سیاسی اور دوسرے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ جو مسلمان ان کی فزیکل دسترس سے باہر ہیں ان کو زہنی غلام بنا کر سوشل میڈیا پرپراپیگنڈہ کروا کہ معاشی مدد اور پبلک سپورٹ حاصل کر تے ہیں-
جب پورا معاشرہ ابتری کا شکار ہے وہاں علماء کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ علماء حق کا فرض ہے کہ وہ علماء اور معاشرہ کی دینی اور دنیاوی فلاح کے حصول میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ علماء یہود و نصاری کی مثالیں قرآن نے ہماری راہ نمائی کے دی ہیں، جس میں سبق ہے کہ ان کے علماء اللہ کی کتاب اور انبیاء کی تعلیمات پر اپنے نظریات کو ترجیح دیتے تھے۔ تورات کو چھوڑ کر تلمود کو پکڑ لیا جو علماء کی تفسیریں، تحریریں ہیں ۔ ادھر بھی ایسے ہی حالا ت ہیں جس خدشہ کا کھلا عام خلفاء راشدین نے اعلان کیا تھا مگر ہمارا نفس حاوی ہو گیا اور ہم نے ان کی سنت کو رد کرکہ اپنے لئیے تباہی کا راستہ اختیار کر لیا اور پھر کہتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟ یہ اللہ کا عذاب ہے اپنے نفس اور دوسروں کو خدا بنانے کا نتیجہ !
اس غلو اور جہالت کا پرامن طریقہ سے قران و سنت کی طاقت سے سدباب کرنا حکومت ، ارباب اختیار ، انٹلیکچوئیلز اور ہر ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ قران نے دعوہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا ہے۔ اس مقالہ کا مقصد آپ کو ناقابل تردید حقائق سے آگاہ کرنا ہے ، صدیوں سے قائیم مائینڈ سیٹ کو راتوں رات تبدیل نہیں کیا جاسکتا مگر ہمارا فرض کوشش کرنا ہے ، باقی ھدائیت دینا صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو شخص کوشش کرتا ہے اللہ اسے ہدائیت دیتا ہے اور جو جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرے وہ اسے ادھر بھٹکنے کو چھوڑ دیتا ہے- دین میں جبر نہیں ، ہم کسی پر داروغہ نہیں ، ہمارا فرض صرف قرآن و سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اعلان حق کرنا ہے۔
یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶﴾ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾ يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے ۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:26,27,28]
ان خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں سے مراد وہ ہر طرح کے لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایات پر اپنے آباؤ اجداد کے رسم و رواج کو مقدم سمجھتے اور انہی چیزوں سے محبت رکھتے ہیں خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہوں یا منافق یا دوسرے مشرکین ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لیے بیشمار ایسے احکامات نازل فرمائے جن پر عمل کرنا اکثر لوگوں کو ناگوار تھا-
اس طرح یہ نادان لوگ اس اصلاح کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے جو اس وقت احکام الہٰی کے تحت انجام دیا جا رہا تھا ۔ دوسری طرف یہودی تھے جنہوں نے صدیوں کی موشگافیوں سے اصل خدائی شریعت پر اپنے خود ساختہ احکام و قوانین کا ایک بھاری خول چڑھا رکھا تھا ۔ بے شمار پابندیاں اور باریکیاں اور سختیاں تھیں جو انہوں نے شریعت میں بڑھالی تھیں ۔ بکثرت حلال چیزیں ایسی تھیں جنہیں وہ حرام کر بیٹھے تھے ۔ بہت سے اوہام تھے جن کو انہوں نے قانون خداوندی میں داخل کر لیا تھا ۔
اب یہ بات ان کے علماء اور عوام دونوں کی ذہنیت اورمزاج کے بالکل خلاف تھی کہ وہ اس سیدھی سادھی شریعت کی قدر پہچان سکتے جو قرآن پیش کر رہا تھا ۔ وہ قرآن کے احکام کو سن کر بے تاب ہو جاتے تھے ۔ ایک ایک چیز پر سو سو اعتراضات کرتے تھے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یا تو قرآن ان کے فقہاء کے تمام اجتہادات اور ان کے اسلاف کے سارے اوہام و خرافات کو شریعت الہٰی قرار دے ، ورنہ یہ ہرگز کتاب الہٰی نہیں ہے-
یہ اشارہ ہے منافقین اور قدامت پرست جہلاء اور نواحی مدینہ کے یہودیوں کی طرف ۔ منافقین اور قدامت پرستوں کو تو وہ اصلاحات سخت ناگوار تھیں جو تمدن و معاشرت میں صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے تعصبات اور رسم و رواج کے خلاف کی جارہی تھیں - اسلام کو بھی اس قسم کے حالات کا چیلنج پیش ہے جس کا تدارک ضروری ہے-
موضوع تحقیق (تھیم) :
دینی معاملات میں راہنمائی کے لئیے کتاب اللہ قرآن، سنت رسول الله تعالی صلی الله علیہ وسلم اور ان کے قریب ترین چار ساتھی اصحاب و خلفاء راشدین ، حضرت ابو بکر(رضی اللہ)، حضرت عمر (رضی اللہ)، حضرت عثمان (رضی اللہ) اور حضرت علی (رضی اللہ) کی سنت کو باقی سب لوگوں پر دائیمی ترجیح حاصل ہے۔ ان کے طریقہ سے دین اسلام کو پہلی صدی کے اصل خالص دین اسلام کی طرف واپس لے جانا ہے جس کے کمال پر پہنچنے کا اعلان اللہ تعالی نےحجۃ الوداع (10 ہجری۔ 631ء) کو کردیا تھا (المائدہ ٥:٣)- کمال کےبعد زوال شروع ہو جاتا ہے جو ابتک جاری ہے… ہماری خواہش دعا اورکوشش ہونی چاہیے کہ اس "کمال" کی منزل کا سفر کبھی نہ چھوڑیں اور پہلی صدی ہجری کے دین کامل اسلام کے احیاء کی جدوجہد کریں-
قرآن کریم الله تعالی کی طرف نازل کردہ تمام بنی نوع انسان کے لیے تا قیامت آخری کتاب ہدایت ہے، جو قرآن کے مطابق؛ مکمل، مفصل، آسان اور محفوظ ہے- اللہ نے اس کو آخری رسول الله تعالی صلی الله علیہ وسلم پر نازل فرمایا جنہوں نے اس کے نفاذ کا عملی نمونہ پیش کیا جسے سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کہتے ہیں جو نسل در نسل تواتر سے منتقل ہو رہی ہے-
اب اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ:
اگر قرآن مکمل مفصل، محفوظ ابدی کتاب ہدایت ہے تو پھر کیا مزید کسی اور کتاب یا کتب کی ضرورت ہے؟
اگر مزید کتب کی ضرورت ہے تو کیا قرآن نے ایسی مزید کتب کا حکم دیا یا منع فرمایا ؟
خلفاء راشدین مہدین ، جن کی سنت پر عمل درآمد کا رسول الله تعالی صلی الله علیہ وسلم نے سختی سے حکم دیا تھا ، اس سلسلہ میں خلفاء راشدین مہدین کی سنت کیا ہے؟
ایک غلط فہمی کا ازالہ، اس مقالہ کا ان حضرات کے نظریات جن کو "منکرحدیث" کے خطابات سےنوازا جاتا ہے کوئی واسطہ نہیں- صرف لفظ احادیث کی حد تک مماثلت ہے، یھاں احادیث کا انکار نہیں، احترام ہے صرف احادیث کو کتاب کی شکل میں مدون کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے قرآن او سنت کی روشنی میں ، جبکہ دوسرے حضرات احادیث کا انکار کرتے ہیں اور دلائل دیتے ہیں، قرآن کےعلاوہ سنت اورحدیث کا انکارکرتے ہیں- ہم ان سے متفق نہیں٠ ہمارا اور ان کا تھیم ، بیانیہ مختلف ہے:
موضوع تحقیق (تھیم) یہ نہیں کہ:
یہ سب علیحدہ مضامین ہیں ، جو ہمارے تھیسس کا موضوع نہیں نہ ہی ان کو تفصیلی طور پر ڈسکسس کیا گیاہے- ضمنی طورکہیں ذکر آتا ہے تو مختصر کمنٹس اور فٹ نوٹ پر لنک میں تفصیل، ان موضوعات پر لا تعداد کتابیں اور انٹرنیٹ پر مواد موجود ہے - جس کو زیادہ دلچسپی ہو وہ "دو اسلام - ڈاکٹر غلام جیلانی برق" اور اس پر جوابی مباحث دیکھ سکتا ہے ..
اصل موضوع، تھیم قارئین کو سمجھنے میں میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ بارہ صدیوں سے جو پڑھایا اور بتلایا گیا بلکہ جسے عملی طور پرایمان کاحصہ سمجھا جاتا ہو , اس پر سوال اٹھایا جائے اور وہ بھی قرآن و سنت اور خلفاء راشدین مھدیین ( ہدایت یافتہ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ مخصوص لقب اور اعزاز) کے توسط سے اور احادیث کے ریفرنس سے، اسےآسانی سے قبول کرنا بہت مشکل ہے ، انسان سوچتا ہے کہ کہیں میرے ساتھ کوئی دھوکہ تو نہیں ہو گیا؟
ایسی حالت میں انسان فوری طور پر انکار (Denial) اور دفاع (Defensive) کی حالت میں چلا جاتا ہے, تھیم کو سمجھے بغیر یا وہ اپنے طرف سے پہلے سے قائم نظریات اور (Preconceived) خیالات کے زیر اثر حقائق اور دلائیل کو جذبات سے دبا دیتے ہیں-
لہٰذا ضروری ہے کہ تھیم کو تفصیل سے بیان کر دیا جایے :
"خلفاء راشدین ، مھدنین" صرف سیاسی حکمران نہ تھے بلکہ دینی رہنما بھی تھے ، خلفاء راشدین کا یہ خصوصی اعزاز ہے، جنہوں نے اہم دینی فیصلے کیےجن پر عمل ہو رہا ہے- . پہلی صدی کے بعد جب احادیث کو کتابوں کی شکل میں مرتب کرنے کا رواج پڑا تو وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا- ایک سادہ آسان دین اسلام ، مشکل مذھب میں تبدیل ہو گیا ، اللہ کی آخری کتاب کو نظر انداز کر کہ "قیل و قال" میں الجھ گیے جس خدشہ کا اظہار حضرت علی (رضی الله) نے کیا تھا جب انہوں نے بھی حضرت عمر (رضی الله) کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا-
قرآن کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ، اگر کوئی اختلاف بھی ہو تو بآسانی حل موجود ہے کہ محکمات آیات ہی "ام الکتاب" ہیں (قرآن 3:7) لیکن یہ حکم احادیث پر نہ لاگو کیا گیا- قرآن کے ساتھ اس وقت پچھتر کتب اور پچیس ہزار سے زیادہ مختلف درجات کی احادیث موجود ہیں اور فرقے بھی ، اپنے مخالف کی احدیث کو ضعیف ، کہہ کر مسترد کرتے ہیں اور تاویلیں اور مباحث میں مشغول رہتے ہیں- یہود کا یہی طریقہ تھا جو ہم نے قرآن ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ، خلفاء راشدین و مھدین کی سنت کے برخلاف کیا- کیونکہ اکثرمذہبی پیشواؤں کا ذاتی مفاد اس میں پوشیدہ اور وابستہ ہے (اچھے پرخلوص علماء کی بھی کمی نہیں ) ، جس نے پہلی صدی حجرہ کے اسلام کی طرف واپسی ، اصلاح کی بات کی ملعون قرار پایا-
دوسری طرف "اہل القرآن" یا ملتے جلتے نام ہیں جنہوں نے دوسری ایکسٹریم پوزیشن اختیار کر رکھی ہے کہ ، صرف قرآن .. جبکہ قرآن رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور اسوۂ حسنہ کی بھی بات کرتا ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا -
قرآن کے مطالعہ اور سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سب کچھ واضح ہو جاتا ہے اور ہم کو صاف ہدایت و رہنمائی ملتی ہے. اس کی روشنی میں یہ تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے تاکہ اس پر بحث ہو اور ہم مشکلات سے نکل کر قرآن و سنت پر عمل کر سکیں اور پہلی صدی حجرہ والا دین اسلام جو اصل ہے اس تک مکمل طور پر پہنچنے کی کوشش کریں, مگر واضح رہے کہ :
Video : https://youtu.be/MTwt9h8iNhU
1۔ قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ کلام حق ہے (آل عمران 3:60) یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے (قرآن 2:2)
2۔ قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
3۔قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)
4۔اس کلام کو اللہ نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔(الحجر15:9)
5.قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)
6۔قرآن کو واضح عربی کتاب کہا گیا کہ لوگ سمجھ سکیں (یوسف18:1,2)۔
7۔ باطل نہ اس کلام کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ (الفصلت 41:42)
8۔یہ کتاب میزان ہے۔ یعنی وہ ترازو ہے جس میں رکھ کر ہر دوسری چیز کی قدر وقیمت طے کی جائے گی۔ (الشوریٰ42:17)
9۔یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 25:1)
10۔ تمام سلسلہ وحی پر مہیمن یعنی نگران ہے۔ (المائدہ5:48)
11۔قرآن کریم لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔ (البقرہ2:213)
12۔یہی وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50)
14.تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثية45:6)
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)
15.وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ﴿٧﴾ يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّـهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (الجاثية45:7)
ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے (-جو آیات الہیٰ سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر نا حق تکبر کی وجہ سے اصرار کرتا ہے گویاکہ اس نے سنا ہی نہیں پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو (الجاثية45:7,8)
16.هَـٰذَا هُدًى ۖوَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِيمٌ (الجاثية45:11)
“یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور جو اپنے رب کی آیتوں کے منکر ہیں ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہے”(الجاثية45:11)
اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے (16:89)
اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں قرآن مجید کی حیثیت بیان کی ہے- جو کچھ قرآن مجید کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے وہ کسی دوسری کتاب کے بارے میں نہیں کہا۔ قرآن مجید کے سوا کسی اور مذہبی کتاب، کسی پیغمبرسے منسوب کلام، کسی عالم اور محقق کی رائے کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس طرح کی کوئی بات نہیں کہتے۔ اس لیے جو کوئی بھی قرآن کی آیات مبارکہ کے بارے میں شک شبہ ، تامل کرے ، اگر مگراور من گھڑت تاویلوں سے ان کو بے اثر کرنے کی کوشش کرے تو وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ الله کی نافرمانی کی جرأت کر رہا ہے۔ اصحاب سبت کا واقعہ ایک سبق ہے- (قرآن 7:163,166, 2:65,66).
قرآن کا عملی نمونہ سنت رسول اللہ صلعم میں موجود ہے ۔۔۔ جو تواتر سے صدیوں سے نسلدر نسل منتقل ہو رہی ہے ، احادیث کی کتب میں بھی شامل ہیں-
"در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے " (33:21)
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے ۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:26,27,28]
Allah wishes to explain things to you and guide you to the ways of those who have gone before you and to turn to you in mercy. Allah is all knowing and all wise. He wishes to turn towards you in mercy, but those who follow their own passions want you to drift far away from the right path. God wishes to lighten your burdens, for, man has been created weak. (Quran 4: 26,27,28)
قرآن کو چھوڑنے والے :
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)
یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔
قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔
مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔ اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ” ترجمہ : دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔ (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
اور رسول کہے گا کہ "اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا" ﴿سورة الفرقان25:30﴾
--------------------
پیش لفظ
بسم الله الرحمن الرحيم
دین اسلام کی بنیاد قرآنو سنت پر ہے - قرآن اللہ کی طرف سے نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پرتئیس برس میں نازل ہوا، جس کو حفظ اور کتابت کے زریعہ محفوظ کیا گیا، خلفاء راشدین کی کوششوں سے مدون نسخےحضرت عثمان (رضی الله) کے دور میں تقسیم کر دئےگئے- قرآن تا قیامت بنی نوع انسانیت کے لیے راہ ہدایت و نجات ہے- رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت قرآن کا عملی نمونہ ہے جو تواتر سے نسل در نسل منتقل ہوتی ہے- احادیث کی کتب میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ اکرام سے منسوب کلام، عمل اورتاریخی واقعات ہیں جن کو تحریری شکل میں خلفاء راشدین نے کتاب اللہ کے علاوہ مدون کرنا ضروری نہ سمجھا کسی زاتی وجہ سے نہیں کہ ان سے زیادہ رسول الله تعالی صلی الله علیہ وسلم سے محبت کون کرسکتا ہے؟ حضرت عمر (رضی الله) اور حضرت علی (رضی الله) بھی کتاب اللہ کے ساتھ کسی اور کتاب کودرست نہیں سمجھتے تھے کہ پہلی قومیں اس طرح کتاب اللہ کو چھوڑ کر برباد ہوئیں- قرآن، اب قرآن کے علاوہ کسی اورحدیث، کلام ، کتاب کا انکارکرتا ہے۔ خلفاء راشدین کے فیصلہ پر پہلی صدی حجرہ تک عمل ہوتا رہا- تیسری صدی میں مشہور احادیث کی کتب مدون ہوئیں ، جس کو وہ بہت فائدہ مند سمجھتے تھے، دین کی بنیاد انسانی نفس ، سمجھ کے مطابق فائدہ، نقصان پر نہیں بلکہ قرآن و سنت کی بنیاد پر ہوتی ہے، کس عمل میں نقصان زیادہ ہے یا فائدہ یہ الله تعالی کے بعد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر خلفاء راشدین بہترسمجھتے ہیں، یہ بالترتیب اطاعت ہی اسلام کی بنیاد ہے-( وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا)
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفاء راشدین کی سنت اور خاص طور پر حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله) اور حضرت عمر (رضی الله) کا نام لے ان کی سنت پر چلنے کا حکم دیا - رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت الله تعالی کی اطاعت ہے اور خلاف درزی اللہ کے حکم کا انکار۔ ایک کام جو شرعی طور پر جائز نہ ہو اس کو کیسےدرست تسلیم کیا جاسکتا ہے جبکہ نقصانات بھی ظاہرہوچکے ہوں- جس وجہ سے منع فرمایا تھا ہمارے علماء بھی علماء یہود و نصاری کے راستہ پر چل نکلے ہیں ، غیر ضروری باتوں فرقہ واریت پر زور اور اہم تعلیمات صرف زبانی جمع خرچ - احادیث کی کتب کو وحی کے طور پر قرآن کے ساتھ لازم ملزوم سمجھا جاتا ہے- جبکہ اسلام کے بنیادی 6 عقائید میں صرف اللہ کی کتب جو پیغمبروں پر نازل ہوئیں ایمان لازم ہے۔ احادیث کی غیرمستند کتب سے مستند ترین کتاب اللہ کی اہمیت کم ہوتے ہوتے تلاوت تک محدود ہو چکی ہے ( سند دینے والے تو منع کرکہ دنیا سے چلے گئیے)، مدارس میں بھی قرآن پر توجہ سرسری ہے- ایک ڈسکشن میں یہ معلوم کرکہ افسوس ہوا کہ اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کرنے والے عالم دین کو یہ علم نہیں کہ قرآن کے مطابق یہود و نصاری نےعلماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب کا درجہ دیا (9:31)- رسول الله تعالی صلی الله علیہ وسلم کے بعد دین اسلام کی ترویج میں خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام نے مرکزی کردار ادا کیا، بعد والے کسی طرح بھی ان کو نظر انداز کرکہ اپنی طرف سے دین کی بنیاد میں ترامیم کرنے کا اختیار نہیں رکھتے یہ دروازہ بند ہوچکا جو ہزاروں تاویلیں کرنے سے بھی نہیں کھل سکتا- اسلام مکمل اطاعت ( total submission ) کا نام ہے- پہلی صدی کے بعد امام ابو حنیفہ نے فقہ پر کام کیا وہ محدث بھی تھے کسی بھی مشہور محدث سے زیادہ، صحابہ سے ملاقات کا بھی تذکرہ ملتا ہے ، مگر انہوں نے حدیث کی کتاب مدون نہ کی ، کیوں کہ وہ خلفاء راشدین کے حکم اور مقام کو اپنی عقل اور نفس سے بلند سمجھتے تھے-
قرآن کی اسلام اور مسلمانوں کی زندگی میں مرکزی حثیت کو بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ فرقہ واریت ، اخلاقی پستی، فکری جمود اور دوسرے مسائل کا سدباب ہو سکے- اس لیئے ضرورت ہے کہ اسلام میں کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتب مدون کرنےکے معامله کا قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تجزیہ کیا جایےکہ:
کیا صرف قرآن الله تعالی کی آخری کتاب ہے یا اس کے ساتھ دوسری کتب بھی شامل ہیں؟
حقائق سب کےعلم میں لائے جائیں چاہےکتنے تلخ بھی ہوں، تاکہ علماء پرانی غلطیوں کا لاحاصل دفاع کرنےکی بجائے, پہلی صدی کےسادہ ، آسان، کامل دین اسلام کو اصل شکل میں بحال کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں- الله تعالی کا فرمان ہے:
یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶﴾ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾ يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے ۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:26,27,28]
یہ "ریسرچ پیپر" اسی اعلی مقصد کے حصول کی ایک کاوش ہے- "ریسرچ پیپر" کے تین حصے ہیں ، پہلے "اہم معلومات" ، دوسرے حصہ میں " تحقیق و تجزیہ" اور تیسرے حصہ میں صرف اس مقصد کے لیے مخصوص وہاٹس ایپ گروپ میں اعلی تعلیم یافتہ، اپنے اپنے فیلڈ میں ایکسپرٹ دوستوں سے دلچسپ سوال و جواب (Q&A) - اس پیپر میں آپ کو تکرار (repetitions) ملے گی کہ گراں محسوس ہو مگر موضوع کی اہمیت کے پیش نظر تکرار ناگریز ہے , جہاں ممکن ہو سکا تکرار کو کم کرنے کے لیے "فٹ نوٹس" پر ویب لنکس متعلقہ موضوع پر مواد مہیا کرتے ہیں، جس سے فائدہ حاصل کریں- ٹائپنگ اور اردو زبان کی غلطیاں نظر انداز کرتے ہوے مشمولات (contents) پرتوجہ دیں-
مکمل مطالعہ اورغور و فکر کے بعد مفید مشورے اور تجاویز کا خیر مقدم ، لیکن تنقید برایے تنقید، اور قرآن کی "محکم آیات" کےعلاوہ آیات سے ظن ,گمان قیاس آرائیاں, اندازے,آراء (speculations, inferences, decuctions، guess work, inference) ,نتیجه گیری, کی بُنیادووں پر دین کی نہ عمارت کھڑی کی جاسکتی نہ نۓ "بنیادی احکام' [ Fundamentals of Faith] نکالے جاسکتے ہیں , جبکہ قرآن کی واضح محکم آیات موجود ہوں جو سنت (اور غیر متنازعہ تاریخی حقائق) سے بھی ثابت ہوں:
قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)
اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے (16:89)
وہی تو ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی۔ جسکی کچھ آیات تو محکم ہیں اور یہی (محکمات) کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات ہیں۔ اب جن لوگوں کے دل میں کجی ہے (پہلے ہی کسی غلط نظریہ پر یقین رکھتے ہیں) وہ فتنہ انگیزی کی خاطر متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اور انہیں اپنے حسب منشا معنی پہنانا چاہتے ہیں حالانکہ ان کا صحیح مفہوم اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ اور جو علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان (متشابہات) پر ایمان لاتے ہیں۔ ساری ہی آیات ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں۔ اور کسی چیز سے سبق تو صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں. (قرآن 7:3)
جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42)
ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے جو آیتیں اللہ کی اپنے سامنے پڑھی جاتی ہوئی سنے پھر بھی غرور کرتا ہوا اس طرح اڑا رہے کہ گویا سنی ہی نہیں تو ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خبر ( پہنچا ) دیجئے (الجاثية45:7,8)
بریگیڈئر آفتاب احمد خان (ر )
لاہور، پاکستان
فروری 2020 /10 جمادی الثانی 1441 ھ
For comments /Suggestions: https://www.facebook.com/QuranSubject/inbox
تحقیق کیوں؟
ہمارے معاشرہ میں مذہبی عدم برداشت، شدت پسندی،سماجی،معاشرتی، اخلاقی، معاشی ،سیاسی بےراہ روی ، مشرکانہ رسوم اور گوناں مسائل کی وجہ قرآن سے دوری ہے- قبیح رسوم ہمارے معاشرہ میں تیزی سے پھیل رہی ہیں- علماء کا ایک طبقہ بھی ان برائیوں کو روکنے کی بجایے ان کا حصہ بن گیا ہے- سوشل میڈیا نے ہر ایک کو سہولت مہیا کی ہے کہ وہ اپنے نظریات کا اظھار اور فروغ کر سکے- افسوس کہ اس سہولت کو مثبت کی بجایے منفی طور پر دوسرے مسلمانوں پر تنقید اور طعنہ زنی کے لیے استعال کیا جاتا ہے- دین کا محدود علم مزید خرابی کی وجہ ہے- ہر ایک اپنے فرقہ ، مسلک کا دفاع اور دوسروں کی تضحیک میں مگن ہے اور اس کو دین اسلام کی خدمت اور دعوه سمجھ رہے ہیں- اس سلسلہ میں احادیث کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، اکثر تحقیق، ریفرنس اور درجہ بندی کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر- پچھتر( 75) کتب، پچیس ہزار احادیث (لاتعداد جو عام پبلش نہیں ہوئیں) بہت بڑی تعداد ہے جس پر عبور رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں- قرآن اور سنت جو مستند اور محفوظ ترین ہیں، سے کسی حد تک احتیاط کی جاتی ہے، ایک وجہ لاعلمی اور دوسرے غلطی فوری طور پر پکڑے جانے کا احتمال اور شدید ردعمل-
اسی سے منسلک دوسرا مسئلہ فرقہ واریت ہے جس نے امت مسلمہ کو بہت نقصان پنہچایا ہے جو تسلسل سے جاری ہے- فتنہ، فساد اور دہشت گردی کی بنیاد فرقہ واریت ہے جس کو روکنے میں علماء کا موئثر کردار بہت اہم ہے- گمراہ لوگ قرآن اوراپنی من پسند احادیث کے حوالوں کی من گھڑت تاویلون سے دینی ، ذہنی پراگندگی ، فتنہ و فساد اور دینی فکر میں اپنے نظریات کی ملاوٹ کرکہ نہ صرف دہشت گردی کا جواز گھڑ کر سادہ لوح مسلمان نوجوانوں کو جنگ کے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں بلکہ فکری انتشار پیدا کرکہ غیر محسوس طریقہ سے فرقہ در فرقہ بناتے ہیں۔ وہ سادہ مسلمان اکٹریت کے یہود کے مذہبی پیشوا کے طور پر نجات دہندہ بن کر ان سے معاشی، سیاسی اور دوسرے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ جو مسلمان ان کی فزیکل دسترس سے باہر ہیں ان کو زہنی غلام بنا کر سوشل میڈیا پرپراپیگنڈہ کروا کہ معاشی مدد اور پبلک سپورٹ حاصل کر تے ہیں-
جب پورا معاشرہ ابتری کا شکار ہے وہاں علماء کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ علماء حق کا فرض ہے کہ وہ علماء اور معاشرہ کی دینی اور دنیاوی فلاح کے حصول میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ علماء یہود و نصاری کی مثالیں قرآن نے ہماری راہ نمائی کے دی ہیں، جس میں سبق ہے کہ ان کے علماء اللہ کی کتاب اور انبیاء کی تعلیمات پر اپنے نظریات کو ترجیح دیتے تھے۔ تورات کو چھوڑ کر تلمود کو پکڑ لیا جو علماء کی تفسیریں، تحریریں ہیں ۔ ادھر بھی ایسے ہی حالا ت ہیں جس خدشہ کا کھلا عام خلفاء راشدین نے اعلان کیا تھا مگر ہمارا نفس حاوی ہو گیا اور ہم نے ان کی سنت کو رد کرکہ اپنے لئیے تباہی کا راستہ اختیار کر لیا اور پھر کہتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟ یہ اللہ کا عذاب ہے اپنے نفس اور دوسروں کو خدا بنانے کا نتیجہ !
اس غلو اور جہالت کا پرامن طریقہ سے قران و سنت کی طاقت سے سدباب کرنا حکومت ، ارباب اختیار ، انٹلیکچوئیلز اور ہر ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ قران نے دعوہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا ہے۔ اس مقالہ کا مقصد آپ کو ناقابل تردید حقائق سے آگاہ کرنا ہے ، صدیوں سے قائیم مائینڈ سیٹ کو راتوں رات تبدیل نہیں کیا جاسکتا مگر ہمارا فرض کوشش کرنا ہے ، باقی ھدائیت دینا صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو شخص کوشش کرتا ہے اللہ اسے ہدائیت دیتا ہے اور جو جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرے وہ اسے ادھر بھٹکنے کو چھوڑ دیتا ہے- دین میں جبر نہیں ، ہم کسی پر داروغہ نہیں ، ہمارا فرض صرف قرآن و سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اعلان حق کرنا ہے۔
یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶﴾ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾ يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے ۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (4:26,27,28]
ان خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں سے مراد وہ ہر طرح کے لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایات پر اپنے آباؤ اجداد کے رسم و رواج کو مقدم سمجھتے اور انہی چیزوں سے محبت رکھتے ہیں خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہوں یا منافق یا دوسرے مشرکین ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لیے بیشمار ایسے احکامات نازل فرمائے جن پر عمل کرنا اکثر لوگوں کو ناگوار تھا-
اس طرح یہ نادان لوگ اس اصلاح کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے جو اس وقت احکام الہٰی کے تحت انجام دیا جا رہا تھا ۔ دوسری طرف یہودی تھے جنہوں نے صدیوں کی موشگافیوں سے اصل خدائی شریعت پر اپنے خود ساختہ احکام و قوانین کا ایک بھاری خول چڑھا رکھا تھا ۔ بے شمار پابندیاں اور باریکیاں اور سختیاں تھیں جو انہوں نے شریعت میں بڑھالی تھیں ۔ بکثرت حلال چیزیں ایسی تھیں جنہیں وہ حرام کر بیٹھے تھے ۔ بہت سے اوہام تھے جن کو انہوں نے قانون خداوندی میں داخل کر لیا تھا ۔
اب یہ بات ان کے علماء اور عوام دونوں کی ذہنیت اورمزاج کے بالکل خلاف تھی کہ وہ اس سیدھی سادھی شریعت کی قدر پہچان سکتے جو قرآن پیش کر رہا تھا ۔ وہ قرآن کے احکام کو سن کر بے تاب ہو جاتے تھے ۔ ایک ایک چیز پر سو سو اعتراضات کرتے تھے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یا تو قرآن ان کے فقہاء کے تمام اجتہادات اور ان کے اسلاف کے سارے اوہام و خرافات کو شریعت الہٰی قرار دے ، ورنہ یہ ہرگز کتاب الہٰی نہیں ہے-
یہ اشارہ ہے منافقین اور قدامت پرست جہلاء اور نواحی مدینہ کے یہودیوں کی طرف ۔ منافقین اور قدامت پرستوں کو تو وہ اصلاحات سخت ناگوار تھیں جو تمدن و معاشرت میں صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے تعصبات اور رسم و رواج کے خلاف کی جارہی تھیں - اسلام کو بھی اس قسم کے حالات کا چیلنج پیش ہے جس کا تدارک ضروری ہے-
موضوع تحقیق (تھیم) :
دینی معاملات میں راہنمائی کے لئیے کتاب اللہ قرآن، سنت رسول الله تعالی صلی الله علیہ وسلم اور ان کے قریب ترین چار ساتھی اصحاب و خلفاء راشدین ، حضرت ابو بکر(رضی اللہ)، حضرت عمر (رضی اللہ)، حضرت عثمان (رضی اللہ) اور حضرت علی (رضی اللہ) کی سنت کو باقی سب لوگوں پر دائیمی ترجیح حاصل ہے۔ ان کے طریقہ سے دین اسلام کو پہلی صدی کے اصل خالص دین اسلام کی طرف واپس لے جانا ہے جس کے کمال پر پہنچنے کا اعلان اللہ تعالی نےحجۃ الوداع (10 ہجری۔ 631ء) کو کردیا تھا (المائدہ ٥:٣)- کمال کےبعد زوال شروع ہو جاتا ہے جو ابتک جاری ہے… ہماری خواہش دعا اورکوشش ہونی چاہیے کہ اس "کمال" کی منزل کا سفر کبھی نہ چھوڑیں اور پہلی صدی ہجری کے دین کامل اسلام کے احیاء کی جدوجہد کریں-
قرآن کریم الله تعالی کی طرف نازل کردہ تمام بنی نوع انسان کے لیے تا قیامت آخری کتاب ہدایت ہے، جو قرآن کے مطابق؛ مکمل، مفصل، آسان اور محفوظ ہے- اللہ نے اس کو آخری رسول الله تعالی صلی الله علیہ وسلم پر نازل فرمایا جنہوں نے اس کے نفاذ کا عملی نمونہ پیش کیا جسے سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کہتے ہیں جو نسل در نسل تواتر سے منتقل ہو رہی ہے-
اب اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ:
اگر قرآن مکمل مفصل، محفوظ ابدی کتاب ہدایت ہے تو پھر کیا مزید کسی اور کتاب یا کتب کی ضرورت ہے؟
اگر مزید کتب کی ضرورت ہے تو کیا قرآن نے ایسی مزید کتب کا حکم دیا یا منع فرمایا ؟
خلفاء راشدین مہدین ، جن کی سنت پر عمل درآمد کا رسول الله تعالی صلی الله علیہ وسلم نے سختی سے حکم دیا تھا ، اس سلسلہ میں خلفاء راشدین مہدین کی سنت کیا ہے؟
ایک غلط فہمی کا ازالہ، اس مقالہ کا ان حضرات کے نظریات جن کو "منکرحدیث" کے خطابات سےنوازا جاتا ہے کوئی واسطہ نہیں- صرف لفظ احادیث کی حد تک مماثلت ہے، یھاں احادیث کا انکار نہیں، احترام ہے صرف احادیث کو کتاب کی شکل میں مدون کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے قرآن او سنت کی روشنی میں ، جبکہ دوسرے حضرات احادیث کا انکار کرتے ہیں اور دلائل دیتے ہیں، قرآن کےعلاوہ سنت اورحدیث کا انکارکرتے ہیں- ہم ان سے متفق نہیں٠ ہمارا اور ان کا تھیم ، بیانیہ مختلف ہے:
موضوع تحقیق (تھیم) یہ نہیں کہ:
- حدیث کی کیا اہمیت ہے اورکیا فوائد ؟
- حدیث وحی تھی یا نہیں؟
- حدیث کی کتابت درست ہوئی یا غلطیاں ہیں یا نہیں؟
- احادیث فوری لکھی گیئں یا تیسری صدی میں ؟
- احادیث کتب مرتب کرنے والے نیک ، پرہیزگار تھے یا ولی اللہ تھے یا نہیں ؟
- احادیث کتب مرتب نہ ہوتیں تو کیا ہو جاتا ؟
یہ سب علیحدہ مضامین ہیں ، جو ہمارے تھیسس کا موضوع نہیں نہ ہی ان کو تفصیلی طور پر ڈسکسس کیا گیاہے- ضمنی طورکہیں ذکر آتا ہے تو مختصر کمنٹس اور فٹ نوٹ پر لنک میں تفصیل، ان موضوعات پر لا تعداد کتابیں اور انٹرنیٹ پر مواد موجود ہے - جس کو زیادہ دلچسپی ہو وہ "دو اسلام - ڈاکٹر غلام جیلانی برق" اور اس پر جوابی مباحث دیکھ سکتا ہے ..
اصل موضوع، تھیم قارئین کو سمجھنے میں میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ بارہ صدیوں سے جو پڑھایا اور بتلایا گیا بلکہ جسے عملی طور پرایمان کاحصہ سمجھا جاتا ہو , اس پر سوال اٹھایا جائے اور وہ بھی قرآن و سنت اور خلفاء راشدین مھدیین ( ہدایت یافتہ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ مخصوص لقب اور اعزاز) کے توسط سے اور احادیث کے ریفرنس سے، اسےآسانی سے قبول کرنا بہت مشکل ہے ، انسان سوچتا ہے کہ کہیں میرے ساتھ کوئی دھوکہ تو نہیں ہو گیا؟
ایسی حالت میں انسان فوری طور پر انکار (Denial) اور دفاع (Defensive) کی حالت میں چلا جاتا ہے, تھیم کو سمجھے بغیر یا وہ اپنے طرف سے پہلے سے قائم نظریات اور (Preconceived) خیالات کے زیر اثر حقائق اور دلائیل کو جذبات سے دبا دیتے ہیں-
لہٰذا ضروری ہے کہ تھیم کو تفصیل سے بیان کر دیا جایے :
" آخری کتاب یا کتب؟ قرآن و سنت کی طرف واپسی" مقالہ کا ، تھیم , موضوع :
.جن اصحابہ (رضوان الله) کی سنت کو پکڑنے کا رسول صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا ۔۔۔ جنہوں نے قرآن کی کتابت کروائی.. کاتب وحی و حافظ قرآن اور دو ذاتی شہادتوں کے ساتھ کمیٹی سے خاص نگرانی میں قرآن کو مدون کتاب کرکہ محفوظ کیا جو کہ رسول صلی الله علیہ وسلم چھوڑ گیے تھے۔ انہی صحابہ میں سے حضرت عمر رضی الله نے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ ، کیونکہ پہلی امتیں کتاب اللہ کے مقابل دوسری کتب لاکر برباد ہوئیں، لہذا کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب نہی۔ ہو گی، اس پر دوسرے خلفاء راشدین ، مھدین کی حمایت شامل رہی اور صحابہ اکرام بھی مجموعی طور پر عمل پیرا ہویے، ا خلفاء راشدین ، مھدین کے پاس رسول صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے اتھارٹی تھی- ایک صدی کے بعد اس کی خلاف درزی ہوئی-"خلفاء راشدین ، مھدنین" صرف سیاسی حکمران نہ تھے بلکہ دینی رہنما بھی تھے ، خلفاء راشدین کا یہ خصوصی اعزاز ہے، جنہوں نے اہم دینی فیصلے کیےجن پر عمل ہو رہا ہے- . پہلی صدی کے بعد جب احادیث کو کتابوں کی شکل میں مرتب کرنے کا رواج پڑا تو وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا- ایک سادہ آسان دین اسلام ، مشکل مذھب میں تبدیل ہو گیا ، اللہ کی آخری کتاب کو نظر انداز کر کہ "قیل و قال" میں الجھ گیے جس خدشہ کا اظہار حضرت علی (رضی الله) نے کیا تھا جب انہوں نے بھی حضرت عمر (رضی الله) کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا-
قرآن کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ، اگر کوئی اختلاف بھی ہو تو بآسانی حل موجود ہے کہ محکمات آیات ہی "ام الکتاب" ہیں (قرآن 3:7) لیکن یہ حکم احادیث پر نہ لاگو کیا گیا- قرآن کے ساتھ اس وقت پچھتر کتب اور پچیس ہزار سے زیادہ مختلف درجات کی احادیث موجود ہیں اور فرقے بھی ، اپنے مخالف کی احدیث کو ضعیف ، کہہ کر مسترد کرتے ہیں اور تاویلیں اور مباحث میں مشغول رہتے ہیں- یہود کا یہی طریقہ تھا جو ہم نے قرآن ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ، خلفاء راشدین و مھدین کی سنت کے برخلاف کیا- کیونکہ اکثرمذہبی پیشواؤں کا ذاتی مفاد اس میں پوشیدہ اور وابستہ ہے (اچھے پرخلوص علماء کی بھی کمی نہیں ) ، جس نے پہلی صدی حجرہ کے اسلام کی طرف واپسی ، اصلاح کی بات کی ملعون قرار پایا-
دوسری طرف "اہل القرآن" یا ملتے جلتے نام ہیں جنہوں نے دوسری ایکسٹریم پوزیشن اختیار کر رکھی ہے کہ ، صرف قرآن .. جبکہ قرآن رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور اسوۂ حسنہ کی بھی بات کرتا ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا -
قرآن کے مطالعہ اور سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سب کچھ واضح ہو جاتا ہے اور ہم کو صاف ہدایت و رہنمائی ملتی ہے. اس کی روشنی میں یہ تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے تاکہ اس پر بحث ہو اور ہم مشکلات سے نکل کر قرآن و سنت پر عمل کر سکیں اور پہلی صدی حجرہ والا دین اسلام جو اصل ہے اس تک مکمل طور پر پہنچنے کی کوشش کریں, مگر واضح رہے کہ :
- اصول دین ، فروغ دین کو بلکل نہیں ٹچ کیا جارہا (اگرچہ وہ علماء نے اخذ کرکہ تشکیل دئیے ہیں ) -
- یعنی اسلام کے چھ بنیادی اصول اور پانچ ستون کو ڈسکس نہیں کیا جارہا ، ان پر ایمان لازم ہے-
- کسی فرقہ کی تضحیک یا تعریف مقصد نہیں -
- کسی نئے فرقہ کی ضرورت نہیں ، فرقہ واریت قرآن نے ممنوع قرار دی ہے- صرف اسلام اور مسلمان-
- یہ صرف ایک علمی تحقیق ہے، تاکہ قرآن پر تدبر کریں اور قرآن کی اصل حیثیت بحال کی جائیے-
- جس طرح اسلام پریکٹس کر رہے ہیں اس پر قرآن و سنت کی روشنی میں عمل پیرا رہیں-
- صبر و تحمل سے دوسروں کوبرداشت کریں اور دینی مواد کو طعنہ و تشنع کی بجاتے مثبت طورپر استعمال کریں-
- متواتر احادیث ، سب سے زیادہ مستند (authentic) ہیں جن کاانکار کفر,اس پراتفاق ہے-
- احادیث جو کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ہوں، ضعیف بھی ہوں تو ان کا احترام لازم ہے کہ ممکن ہے درست ہوں چہ جائیکہ غیر مناسب قرآن وسنت کے خلاف ہوں- اس عظیم علمی ، تاریخی خزانہ کی اپنی اہمیت ہے-
آخری کتاب ہدایت: قرآن کا تعارف قرآن سے
کسی مسلمان کو قرآن مجید کے تعارف کی ضرورت نہیں، مختصر تعارف <<ادھر پڑھ>> سکتے ہیں- کچھ آیات یاد دہانی کے لیے پیش ہیں- قرآن کے متعلق الله نے واضح کر دیا کہ :Video : https://youtu.be/MTwt9h8iNhU
1۔ قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ کلام حق ہے (آل عمران 3:60) یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے (قرآن 2:2)
2۔ قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
3۔قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)
4۔اس کلام کو اللہ نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔(الحجر15:9)
5.قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)
6۔قرآن کو واضح عربی کتاب کہا گیا کہ لوگ سمجھ سکیں (یوسف18:1,2)۔
7۔ باطل نہ اس کلام کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ (الفصلت 41:42)
8۔یہ کتاب میزان ہے۔ یعنی وہ ترازو ہے جس میں رکھ کر ہر دوسری چیز کی قدر وقیمت طے کی جائے گی۔ (الشوریٰ42:17)
9۔یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 25:1)
10۔ تمام سلسلہ وحی پر مہیمن یعنی نگران ہے۔ (المائدہ5:48)
11۔قرآن کریم لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔ (البقرہ2:213)
12۔یہی وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50)
14.تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثية45:6)
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)
15.وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ﴿٧﴾ يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّـهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (الجاثية45:7)
ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے (-جو آیات الہیٰ سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر نا حق تکبر کی وجہ سے اصرار کرتا ہے گویاکہ اس نے سنا ہی نہیں پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو (الجاثية45:7,8)
16.هَـٰذَا هُدًى ۖوَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِيمٌ (الجاثية45:11)
“یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور جو اپنے رب کی آیتوں کے منکر ہیں ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہے”(الجاثية45:11)
اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے (16:89)
اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں قرآن مجید کی حیثیت بیان کی ہے- جو کچھ قرآن مجید کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے وہ کسی دوسری کتاب کے بارے میں نہیں کہا۔ قرآن مجید کے سوا کسی اور مذہبی کتاب، کسی پیغمبرسے منسوب کلام، کسی عالم اور محقق کی رائے کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس طرح کی کوئی بات نہیں کہتے۔ اس لیے جو کوئی بھی قرآن کی آیات مبارکہ کے بارے میں شک شبہ ، تامل کرے ، اگر مگراور من گھڑت تاویلوں سے ان کو بے اثر کرنے کی کوشش کرے تو وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ الله کی نافرمانی کی جرأت کر رہا ہے۔ اصحاب سبت کا واقعہ ایک سبق ہے- (قرآن 7:163,166, 2:65,66).
قرآن کا عملی نمونہ سنت رسول اللہ صلعم میں موجود ہے ۔۔۔ جو تواتر سے صدیوں سے نسلدر نسل منتقل ہو رہی ہے ، احادیث کی کتب میں بھی شامل ہیں-
"در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے " (33:21)
~~~~~~~~~~~~~~~
Comeback to Quran & Sunnah
A Research Work
..................................
قرآن و سنت رسول اللهﷺ کی طرف واپسی
تحقیقی مقالہ
تحقیق و تحریر- بریگیڈیئر آفتاب خان (ر)
1
تعارف :
اسلام دائمی دین ہے، ابراہیمی مذاہب کے مختصر جائزہ سےامت مسلمہ کو درپیش مسائل اور ان کے حل تک پہنچنے میں آسانی ہو گی- الله کا فرمان ہے :
ثُمَّ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۲۳﴾
بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بناء پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالٰی اس کا جلد حساب لینے والا ہے (3:19)
براہ کرم جب آپ یہ مقالہ پڑھتے ہو تو اپنے ذہن کو تھوڑی دیر کے لیے تعصبات fixations سے آزاد کریں… اگر آپ واقعتا کچھ سمجھنا چاہتے ہیں تو صرف اس مقالہ پر توجہ مرکوز کریں اور سمجھ کر تبصرہ ، مفید کمنٹس، تجاویزدے کر اس کام میں اپنا حصہ ڈالیں ... بصورت دیگر اپنا وقت یہاں ضائع نہ کریں ...
قرآن اللہ نے رسول پیر نازل فرمایا جو قرآن کا عملی نمونہ تھے اور ان کا أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ہمرے لے رول ماڈل (قرآن ٣٣:٢١) ہے- قرآن مکمل . محفوظ ترین کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا، جبکہ سنت رسول الله ﷺ، عمل تواتر کی وجہ سے بھی محفوظ رہی- احادیث کی کتابت کا اہتمام خلفاء راشدین نےکیوں ضروری نہ سمجھا، اس حقیقت کا تحقیقی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جس پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے، کیوں؟ جبکہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنے کا حکم رسول الله ﷺ نے دیا تھا-
2
یہودیت ، مسیحیت اور الہامی کتب :
ثُمَّ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۲۳﴾
پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے(16:123)
اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ وَ مَا اخۡتَلَفَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿۱۹﴾بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بناء پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالٰی اس کا جلد حساب لینے والا ہے (3:19)
براہ کرم جب آپ یہ مقالہ پڑھتے ہو تو اپنے ذہن کو تھوڑی دیر کے لیے تعصبات fixations سے آزاد کریں… اگر آپ واقعتا کچھ سمجھنا چاہتے ہیں تو صرف اس مقالہ پر توجہ مرکوز کریں اور سمجھ کر تبصرہ ، مفید کمنٹس، تجاویزدے کر اس کام میں اپنا حصہ ڈالیں ... بصورت دیگر اپنا وقت یہاں ضائع نہ کریں ...
قرآن اللہ نے رسول پیر نازل فرمایا جو قرآن کا عملی نمونہ تھے اور ان کا أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ہمرے لے رول ماڈل (قرآن ٣٣:٢١) ہے- قرآن مکمل . محفوظ ترین کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا، جبکہ سنت رسول الله ﷺ، عمل تواتر کی وجہ سے بھی محفوظ رہی- احادیث کی کتابت کا اہتمام خلفاء راشدین نےکیوں ضروری نہ سمجھا، اس حقیقت کا تحقیقی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جس پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے، کیوں؟ جبکہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنے کا حکم رسول الله ﷺ نے دیا تھا-
2
یہودیت ، مسیحیت اور الہامی کتب :
یہودیت اور مسیحیت ، امت محمدی سے پہلے کی امتیں ہیں جن کا قرآن میں بہت ذکر ہے جو گمراہ ہو گیئں، ان کے گمراہ کن اقدام سے سبق حاصل کرنا ہے تاکہ مسلمان وہ غلطیاں نہ دہرائیں - یہودیت اور مسیحیت اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیه السلام سے جوڑتے ہیں ، ان کے عقائد کا ان کی الہامی کتاب بائبل کے ساتھ جائزہ لیا جائیے تو واضح ہوتا ہے کہ ان کے مذاہب کا الہامی کتب سے واجبی سا تعلق ہے دعوی کی حد تک - ان کے مذاہب کی بنیاد عملی طور پر پیغمبروں کی تعلیمات اور الہامی کتب [تورات ، زبور ، انجیل] کے بجا یئے مذہبی رہنماوؤں کی تفاسیر، تشریحح اور نظریات پر ہے-
3
3
تورات اور تلمود
یہود اپنی الہامی کتب [بائبل عہدنامہ قدیم (تورات اوریہودی کتب) اور مسیحی "عہد نامہ جدید" کو مقدس سمجھ کر احترام کرہتے ہیں تلاوت کرتے ہیں مگر عملی طور پرمذہبی رہنماوؤں کی خود ساختہ تعلیمات ، نظریات اور رسومات پر زور ہے جن کا تاویلات کے زریعہ زبردستی پیغمبرون سے تعلق قائیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حضرت نوح ،ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کی توحیدی تعلیمات کا ذکر ملتا ہے مگر ان کی اصل الہامی کتب مفقود ہیں-
(1) مکتوب شریعت
(2) زبانی شریعت
یہودی علماء کے مطابق یہی "زبانی شریعت" اصل شریعت ہے، جو اللہ کی مراد اور مکتوب شریعت یعنی تورات کی حقیقی تفسیر ہے۔
چنانچہ یہود کے اندر دہری شریعت کا آغاز ہوا اور 40 نسلوں تک یہ سری شریعت زبانی منتقل ہوتی رہی اور یہودی حاخامات زبانی و سری شریعت کی آڑ میں تورات کی من مانی تفسیر کرتے رہے۔ زبانی شریعت کے مکتوب نہ ہونے کی وجہ سے یہودی قوم متعین عقائد پر متفق نہیں تھی۔ ہر یہودی ربی کی اپنی تشریح و تفسیر ہوتی، جس پر اس کے خاندان اور متبعین یقین رکھتے تھے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسیحی کتب پر ایمان نہیں رکھتے -
4.
[ تورات اور تالمود Torah and Talmud : https://salaamone.com/torah-talmud]
مسیحت اور "عہد نامہ جدید"
مسیحی لوگ ، بائبل کے عہدنامہ قدیم (تورات اوریہودی کتب) کومنسوخ مگر تاریخی اہمیت دیتے ہیں اور"عہد نامہ جدید" پر ایمان رکھتے ہیں - چار اناجیل کےساتھ سینٹ پال کے 13 اوردوسرے رہنماؤں سے 10 منسوب کتب اور مراسلات کو "عہد نامہ جدید" [New Testament] کہا جاتا ہے- چارانجیل اور حواریوں سے منسوب 23 دوسری کتب اور خطوط ملا کر عہد نامہ جدید میں ٹوٹل 27 کتب ہیں-
5.
انجیل
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ارشادات اور تعلیمات ، پرمشتمل چار کتب ہیں، جن کے اصل لکھاری گمنام ہیں، مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چار حواریوں (شاگردوں) کے نام سے انجیل متی، انجیل مرقس، انجیل لوقا اور انجیل یوحنا، جن کو "اناجیل اربعہ" یا "چارگانہ انجیل" [Four Gospels] کہا جاتا ہے، "نئیو ٹیسٹامنٹ" (عہد نامہ جدید) میں شامل ہیں- اکثر ماہرین متفق ہیں کہ چاروں اناجیل 60 عیسوی سے لے کر 100 عیسوی کے درمیان میں لکھی گئیں-
انکےعلاوہ بہت اور انجیل کتب بھی ہیں جن کو چرچ قبول نہیں کرتا- خود لوقا کی پہلی آیت میں ہی اس بات کا اقرار ہے کہ بہتوں نے ایسی تحاریر لکھی ہیں۔ غناسطی اناجیل اور دیگر کئی، جن میں سے کچھ کے مخطوطات جدید دور میں دریافت ہوئے ہیں اور وہ شائع کی جا چکی ہیں۔ جیسے توما کی انجیل، پطرس کی انجیل، مانی کی انجیل اور یہوداہ اسکریوتی، برناباس، مسیح، مریم مگدلینی اور دیگر کئی اہم ابتدائی مسیحی شخصیات سے منسوب اناجیل کے حوالے اور مخطوطات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ "برناباس کی انجیل" میں حضرت محمد صلی الله علیہ و صلم کی واضح پیشین گوئی موجود ہے اور یہ اسلامی نظریات سے قریب تر ہے۔ یہ ویٹیکن کی لائبریری سے برآمد ہوئی تھی۔
امریکی صدر تھامس جیفرسن نے 1820 میں چاروں ا نجیلوں سے حصرت عیسی علیہ السلام کے ارشادات کو اکٹھا کیا تو موجودہ مسیحی نظریات کے برخلاف خدائی دعوی نہ ملا نہ ہی دوسرے نظریات۔ اب بھی سرخ رنگ کے الفاظ والی انجیل دستیاب ہیں جن میں سرخ رنگ میں حضرت عیسی علیہ السلام سے منسوب آیات سے ان کی توحیدی تعلیمات واضح ہوتی ہیں۔
6.
الہامی کتب میں تحریف ، غلو اور مذہبی پیشواؤں کی تحریر کردہ کتب کا اضافہ
تحقیقی مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہودیت اور مسیحیت میں انبیا کی اصل تعلیمات جو اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی ان پر نازل ہوئیں تھیں مکمل طور پر محفوظ نہیں رہیں اور جو کچھ موجود ہے اس میں تحریفات اور تاویلیں کر کہ مذہبی پیشواؤں کی گمراہ کن تعلیمات و نظریات کو دین کا حصہ بنا لیا اور گمراہی کا شکار ہو گئے- اللہ نے قرآن میں فرمایا:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿٩:٣١﴾
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31)
یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو- ان کی تحریروں کورسول کی وحی کے ساتھ مقدس کتب میں شامل رکھا ہے-
چار اناجیل کےساتھ سینٹ پال کے 13 اوردوسرے رہنماؤں سے 10 منسوب کتب اور خطوط کو "عہد نامہ جدید" [New Testament] کہا جاتا ہے- چارانجیل اور حواریوں سے منسوب 23 دوسری کتب اور خطوط ملا کر عہد نامہ جدید میں ٹوٹل 27 کتب ہیں-
ایک تحقیق کے مطابق "عہد نامہ جدید" میں 7،959 آیات ہیں ، جن میں سے صرف 1،599 مسیح علیہ السلام کے اقوال ہیں, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد ہے
نئے عہد نامے میں الفاظ کی تعداد 181،253 ہے۔ ان میں سے صرف 36،450 الفاظ مسیح کے الفاظ ہیں - بمشکل 20 فیصد سے زیادہ۔
7.
آخری نبیﷺ اور آخری کتاب - قرآن
7.
آخری نبیﷺ اور آخری کتاب - قرآن
ان حالات کے بعد الله نے آخری نبی محمد صلی اللہ و علیہ وسلم پر قرآن نازل فرمایا، اس آخری کتاب کو محفوظ کیا اورنبی صلی اللہ و علیہ وسلم کو حکم دیا کہ قرآن کا پیغام ہدایت پہنچا دیں :
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۶۷﴾
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے ۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا بے شک اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ (5:67)
سنت رسول کی حیثیت دین میں مستقل بالذات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسے پورے اہتمام پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ انسانوں تک الله کا پیغام زبانی عملی طور پر پہنچانے کے مکلف تھے:
فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۹۴﴾
پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے ۔ (15:94)
8.
سنت نبوی ﷺ اور اسوہ حسنہ
آپ ﷺ نے کچھ نہ چھپایا ، قرآن پرعمل کرکہ سنت اور اسوہ حسنہ کا عملی نمونہ کھلےعام ہزاروں صحابہ کے سامنے پیش کیا:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (33:21)
9.
اطاعت رسول ﷺ
رسول کی اطاعت کا حکم قرآن میں کم از کم 9 آیات میں ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو (47:33)
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (النساء : ۸۰)
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(٤:٨٠)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)
لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾
جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)
لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾
جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42)
رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور سنت پر صحابہ اکرام نے بھی عمل کیا- سنت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے اہتمام سے امت میں جاری کیا ہے اور یہ اجماع و تواتر کے ذریعے سے ہم تک منتقل ہوئی ہے، اس لیے ثبوت کے اعتبار سے یہ قرآن ہی کی طرح قطعی ہے- سنت رسول کے متعلق دو ہی باتیں کہی جا سکتی ہیں کہ آیا وہ سنت رسول ﷺ ہے یا نہیں۔ صحیح ، حسن ، ضعیف وغیرہ کی درجہ بندی نہیں-
10.
رسول ﷺ کی نافرمانی کا انجام - رُسوا کُن عذاب جہنّم :
10.
رسول ﷺ کی نافرمانی کا انجام - رُسوا کُن عذاب جہنّم :
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿4:14﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿4:14﴾
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرواور سن کر اس سے منہ نہ پھیرو ۔ (الانفال : ۲۰)
:"جس دن ان کے چہرے جہنم میں الٹ پلٹ کیے جا رہے ہوں۔تو وہ کہیں گے کاش! ہم نے اللہ کی اور رسول ﷺ کی اطاعت کی ہوتی۔"(الاحزاب:66)
اس دن کافر اور وہ لوگ کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی،چاہیں گے کہ کاش ان کے ساتھ زمین کو برابر کر دیا جائے وہ تو اللہ سے کوئی بات بھی نہیں چھپا پا رہے۔" (النساء: 42)
اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کو (شرمندگی اور ندامت سے) کاٹتے ہوئے کہے گا،ہائے کاش! میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کو ہی اپناتا۔"(الفرقان: 27)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ(سورہ محمد:33)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کرو (اور اطاعت سے انحراف کر کے) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔
مرزا قادیانی نے ایک آیت قرآن کے مطلب میں اپنی طرف سے تحریف کر کہ مطلب نکالا اور گمراہ ٹھہر :
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾
(حضرت ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۔ وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبین ہیں ( سب نبیوں پر مہر۔ آخری نبی) اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ (٣٣:٤٠)
خاتم ، یعنی "ختم کرنے والا" .. دوسرا مطلب خاتم کا "مہر" بھی ہے آیا ، دونوں مطلب ہیں نبویت پر آخری مہر یعنی ختم ہو گیا نبوت کا سلسہ ... جیسے کسی خط لو مہر لگا کر بند کرکہ سیل کر دیتے ہیں ..
10-A
مرزا قادیانی نے ایک آیت قرآن کے مطلب میں اپنی طرف سے تحریف کر کہ مطلب نکالا اور گمراہ ٹھہر :
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾
(حضرت ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۔ وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبین ہیں ( سب نبیوں پر مہر۔ آخری نبی) اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ (٣٣:٤٠)
خاتم ، یعنی "ختم کرنے والا" .. دوسرا مطلب خاتم کا "مہر" بھی ہے آیا ، دونوں مطلب ہیں نبویت پر آخری مہر یعنی ختم ہو گیا نبوت کا سلسہ ... جیسے کسی خط لو مہر لگا کر بند کرکہ سیل کر دیتے ہیں ..
10-A
رسول ﷺ نے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کا حکم دیا :
سیدنا صدیق اکبر کے بعد امت کی راہنمائی کا فریضہ سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔
” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں ) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔” (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-(صحیح ابن ماجہ#٩٧،و انظر الحدیث ٤٠٦٩ ، صحیح ااصحیحہ ١٢٣٣، و تراجیع البانی ٣٧٧، صحیح الضعیف سنن ترمزی #٣٨٠٥)
مزید پڑھیں .... سنت اور حدیث کی اہمیت اور فرق ....[.....]
11
تدوین احادیث اور خلفاء راشدین
مزید پڑھیں .... سنت اور حدیث کی اہمیت اور فرق ....[.....]
11
تدوین احادیث اور خلفاء راشدین
قرآن کی کتابت کے باوجود حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی الله نے احادیث کی کتابت کا بندوبست نہیں کیا کیونکہ وہ فوائد سے زیادہ نقصان کو سمجھتے تھے- حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے 500 احادیث کے ذخیرہ کو تلف کر دیا-
حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) نے اپنی خلافت کے دوران ایک مرتبہ احادیث کو تحریر کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی. انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابہ اکرام سے مشورہ کیا، انہوں نے ایسا کرنے سے اتفاق کیا لیکن حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) ہچکچاہٹ میں رہے اور پورا ایک مہینہ الله سے رہنمائی اور روشنی کی دعا کرتے رہے بلآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کام نہیں کیا جایے گا اور فرمایا کہ: “سابق لوگوں نے اللہ کی کتابوں کو نظر انداز کیا اور صرف نبیوں کی سنت پرپر توجہ مرکوز کی، میں اللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے درمیان الجھن کا امکان قائم نہیں کرنا چاہتا- اس کے بعد انہوں نے تمام صوبوں کے مسلمانوں کو ہدایت کی: “جس کسی کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے متعلق تحریری دستاویز ہے وہ اسے تتلف کردے”.
حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) نے اپنی خلافت کے دوران ایک مرتبہ احادیث کو تحریر کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی. انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابہ اکرام سے مشورہ کیا، انہوں نے ایسا کرنے سے اتفاق کیا لیکن حضرت عمر بن الخطاب (رضی الله) ہچکچاہٹ میں رہے اور پورا ایک مہینہ الله سے رہنمائی اور روشنی کی دعا کرتے رہے بلآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کام نہیں کیا جایے گا اور فرمایا کہ: “سابق لوگوں نے اللہ کی کتابوں کو نظر انداز کیا اور صرف نبیوں کی سنت پرپر توجہ مرکوز کی، میں اللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے درمیان الجھن کا امکان قائم نہیں کرنا چاہتا- اس کے بعد انہوں نے تمام صوبوں کے مسلمانوں کو ہدایت کی: “جس کسی کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے متعلق تحریری دستاویز ہے وہ اسے تتلف کردے”.
امام مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حدیثیں یا ان کی کتابیں لکھنے کا ارادہ کیا، پھر فرمایا کتاب اللہ کے ساتھ کوئی کتاب تحریر نہیں ہوسکتی۔
حضرت عمر رضی الله کا مشہور ارشاد : ’حسبنا کتاب اللہ‘ [یعنی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے]
حضرت عمررضی الله کا فیصلہ کتنا درست تھا یہ پہلی امتوں کے مذکورہ بالا تجزیہ اور امت مسلمہ کی موجودہ صورتحال سے مکمل طور پرثابت ہے، امت قرآن کوصرف تلاوت تک محدود کر چکی ہے - حضرت عمر رضی الله کی بصیرت اورمرتبہ رسول اللہ صلعم کے اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ، اگر ان کے بعد کوئی پیغمبر ہوتا تو عمر ہوتا- اسی لیے آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر اوران کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے اور خلفاء راشدین کی سنت کے اتباع کا حکم دیا تھا (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
حضرت عمر رضی الله کے اس اہم ترین فیصلہ پر دوسرے خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا اور بعد کے حکمرانوں نے بھی پہلی صدی حجرہ کے آخر تک اکثر صحابہ وفات پا چکے تھے - سنت رسول ﷺ، عملی طور پر تواتر سے مسلمانوں سے اجتماعی طور پر نسل در نسل متقل ہوتی رہی ہیر یں کیونکہ یہ کسی ایک فرد یا چند افراد نہیں مسلمانوں نے اجتماعی طور پررسول ﷺ سے براہ راست حاصل کی جس میں کسی ابہام یا شک کی گنجائش نہیں - اسی لیے سنت رسول ﷺ کا درجہ قطعی ہے، صحیح، حسن یا ضعیف نہیں ، سنت متواتر کا درجہ قرآن کے قریب ترین ہے اس کا انکار کفر ہے-
تیسری صدی حجرہ میں حضرت عمر کے حکم اورخلفاء راشدین کی سنت، جس کوسختی سے پکڑنے کا حکم رسول ﷺ نے دیا تھا اس کے برخلاف احادیث کی مشہور کتب مدون ہوئیں جو قرآن کے ساتھ اہمیت اختیار کر گیئں، جیسا کہ پہلی امتوں نے کیا-
یہ بات بہت اہم ہے کیونکہ یہ اقدام قرآن ، رسول الله ﷺ اور سنت خلفاء رشدین کے برعکس ہوا- اس کی شرعی حثیت کا بھی علماء جائزہ لیں -
ایک مشہور روایت کا مفھوم ہے کہ ، شیطان عمر کو دیکھ کر راستہ کو چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلنے لگتا ہے۔ کچھ فرقے حضرت عمر رضی الله سے سخت نفرت کرتے ہیں اور کچھ بظاھر محبت دکھلاتے ہیں اور تنقید کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے- یہ حضرت عمر رضی الله کیرسول الله ﷺ، قرآن اور دین اسلام سے محبت کا کھلا ثبوت ہے-
مزید پڑھیں ، حضرت عمر (رضی الله ).....[...]
اگرچہ تیسری صدی حجرہ میں حدیث کی مشور کتب تحقیق اور محنت سے مرتب کی گیئں- لیکن کیونکہ دو سو سال سے زیادہ کا عرصۂ گزر چکا تھا اور اکثر احادیث خبر واحد ، یعنی کسی ایک راوی سے نسل در نسل منتقل ہوئیں- احادیث کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے- کوئی انفرادی ، انسانی کوشش کتابت قرآن کے نزدیک بھی نہیں پہنچ سکتی-
ایک مشہور روایت کا مفھوم ہے کہ ، شیطان عمر کو دیکھ کر راستہ کو چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلنے لگتا ہے۔ کچھ فرقے حضرت عمر رضی الله سے سخت نفرت کرتے ہیں اور کچھ بظاھر محبت دکھلاتے ہیں اور تنقید کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے- یہ حضرت عمر رضی الله کیرسول الله ﷺ، قرآن اور دین اسلام سے محبت کا کھلا ثبوت ہے-
مزید پڑھیں ، حضرت عمر (رضی الله ).....[...]
اگرچہ تیسری صدی حجرہ میں حدیث کی مشور کتب تحقیق اور محنت سے مرتب کی گیئں- لیکن کیونکہ دو سو سال سے زیادہ کا عرصۂ گزر چکا تھا اور اکثر احادیث خبر واحد ، یعنی کسی ایک راوی سے نسل در نسل منتقل ہوئیں- احادیث کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے- کوئی انفرادی ، انسانی کوشش کتابت قرآن کے نزدیک بھی نہیں پہنچ سکتی-
قرآن کی پہلی کتابت حضرت ابوبکر صدیق رضی الله کے دور میں ہوئی، زید بن ثابت کاتب وحی، حافظ قرآن کی نگرانی میں ہرآیت پررسول اللہ ﷺ کے سامنے کتابت ہونے پر گواہیاں لیتے، مقصد یہ تھا کہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عین سامنے لکھی گئی آیتوں کو ہی لکھا جائے، محض حافظہ سے نہ لکھا جائے۔ ورنہ وہ خود بھی حافظ تھے، لکھ سکتے تھے- [مزید تفصیل پڑھیں . ...]
قرآن سے اختلاف ممکن نہیں مگراحادیث کی مختلف توجیہات سے بہت اختلافات اور فرقے بن چکے ہیں- اکثراختلافات فروعی نوعیت کےہیں مگر تکفیرکے فتوے لگتے ہیں، شدت پسندی سے فتنہ و فساد ہوتا ہے جبکہ الله کا حکم ہے :
قرآن سے اختلاف ممکن نہیں مگراحادیث کی مختلف توجیہات سے بہت اختلافات اور فرقے بن چکے ہیں- اکثراختلافات فروعی نوعیت کےہیں مگر تکفیرکے فتوے لگتے ہیں، شدت پسندی سے فتنہ و فساد ہوتا ہے جبکہ الله کا حکم ہے :
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ( آل عمران،3 :103)
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)
اس حکم کے برعکس الله کی آخری کتاب ، قرآن پرتوجہ نہیں دی جاتی جو مسلمانوں کے زوال کی وجہ ہے، قرآن پر سمجھ کر عمل کرنے کی بجایے اسے صرف تلاوت تک محدود کردیا گیا ہے-
12.
سنت تواتر
تیسری صدی ہجرہ میں اگرمشہور کتب احادیث مدون نہ بھی ہوتیں تودین پر عمل ہو رہا تھا - دین اسلام کے اہم رکن، تماز (صلاه ) کا قرآن میں بہت ذکرہے مگر ادا کرنے کا طریقہ نبی صلی اللہ و علیہ وسلم کی سنت سے معلوم ہوتا ہے، اسی طرح دوسرے اہم احکام جن کی تفصیل قرآن میں نہیں وہ نبی صلی اللہ و علیہ وسلم کی "سنت تواتر" سے معلوم ہوئے اوردین اسلام پر عمل مکمل ہوتا چلا آ رہا ہے- "متواتراحادیث" کی تعداد بہت کم ہے۔ شیخ رشید ردہ - محمد عبدو کے طالب علم اور جامعہ الازہر (مصر) کے ڈائریکٹر نے تقریبا سوسال قبل احادیث کے ذخیرے پر تحقیق کی اور صرف 50 احادیث کو سامنے لایا جس نے متواتر ہونے کی شرائط کو مطمئن کیا- مشہور اسلامی اسکالر جلال الدین سیوطی نے "قطب الازہر الموتنا فی فی الاخبار المتوترا" کے عنوان سے ایک کتاب میں 113 متواتر احادیث کو جمع کیا۔ انہوں نے ایک حدیث کو متواتر کی طرح سمجھا اگر اس کے ہر لنک میں کم از کم 10 راوی ہوتے۔ ان متواتر احادیث کی اکثریت صلوات ، حج اور دیگر اسلامی رسومات سے متعلق ہے۔ ..... [تواتر پر مزید تفصیل پڑھیں .....]
13.
اب ایک نظر دوبارہ یہود ونصاری پر…
حضرت موسی علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی مگر تلمود یہودیوں کی مقدس کتاب بن چکی ہے جو کہ توریت کی تفسیر ہے اور یہودیوں کی من پسند بہت ساری بحثیں اس میں موجود ہیں جو توریت میں نہیں ہیں یہودیوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے حتیٰ کہ یہودی تلمود کے مطالعہ کو توریت کی تلاوت پر ترجیح دیتے ہیں اور اس پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ تلمود ، میسورہ پبلی کیشنز (73 جلدوں) کا اسکاٹسٹن ایڈیشن۔
مسیحی بائبل کے"عہد نامہ جدید" میں چارانجیل اور 23 دوسری ، ٹوٹل 27 کتب ، 7،959 آیات ہیں ، جن میں سے صرف 1،599 مسیح علیہ السلام سے منسوب اقوال ہیں , یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد ہے -
قرآن کریم کی کل آیت = 6236 ایک پارہ = 208 یہودیوں سے متعلق آیات = 401 تقریبا 2 پارہ عیسائیوں سے متعلق = 169 تقریبا 0.8 پارہ یہودی ، عیسائی مشترکہ = [401 + 169] -29 = 541 = 2.6 پارہ
قرآن کریم کی کل آیت = 6236 ایک پارہ = 208 یہودیوں سے متعلق آیات = 401 تقریبا 2 پارہ عیسائیوں سے متعلق = 169 تقریبا 0.8 پارہ یہودی ، عیسائی مشترکہ = [401 + 169] -29 = 541 = 2.6 پارہ
14.
قرآن و حدیث کے تحریری مواد کا تقابلی جائزہ :
قرآن میں 6,236 آیات ہیں, احادیث کی 51 کتب، (75 اگر شیعہ کتب شامل کریں ) اکثریت تیسری صدی حجرہ میں مدون ہوئیں …. اگر صرف ایک مثال لیں تو امام بخاری نے پوری محنت کے ساتھ 600،000 سے زیادہ حفظ شدہ احادیث سے 7،397 روایات شامل کیں۔ تکرارکے بعد ، مجموعی طور پر 2،762 احادیث ان کی کتاب میں جمع ہیں- یہ خیال رہے کہ قرآن کی زیادہ تر آیات ایک سے دویا تین لائن میں ہوتی ہیں مگرحدیث اکثر طویل ہوتی ہے- اندازہ کےلیےاوسط ایک حدیث کےالفاظ یا تحریری مواد کو (5) پانچ آیات کے تحریری مواد کے برابر تصور کرسکتے ہیں- احادیث کی کل تعداد کا صحیح اندازہ کرنا مشکل ہے، اور محدثین کے اس میں مختلف اقوال بھی ہیں، ایک اندازہ کے مطابق احادیث کی تعداد پچیس ہزار سے بھی زائد ہوسکتی ہے [تفصیل لنک پر]- اگر 25000 ہزار احادیث کےاتحریری مواد 125000 آیات کے تحریری مواد کے قریب برابرہے، توقرآن و احادیث کے مجموعہ کو[ 6236 +125000] 131000 آیات کے قریب تحریری مواد سمجھ سکتے ہیں-
نتیجہ, قرآن و حدیث کے مجموعی تحریری مواد کےمشمولات میں قرآن صرف 5%, اور احادیث 95% ہیں, یہ ایک اندازہ کی حد تک حساب کتاب ہے-
اسی طرح قرآن کی آیات کا تناسب اگر متواتر احدیث / سنت متواتر (113) سے کریں تو ٹوٹل تحریری مواد کا 8%, اور قرآن 92% بنتا ہے جو کہ حقیقت پسندانہ تناسب ہے -
ایک طرف کتاب الله ، قرآن اور اس کے ساتھ 51/75 کتب احادیث، اس کی تفصیل بیان کرنے اور سمجھانے کے لیے- یہ تناسب بائبل میں مسیح علیہ السلام سے منسوب اقوال, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد سے بھی کم ہے- اگرچہ احادیث میں اکثریت رسول رسول ﷺ سے منسوب ہیں ان کی صداقت کے معیار کا قرآن سے کوئی تقابل نہیں-
اللہ قرآن میں فرماتے ہیں :
اسی طرح قرآن کی آیات کا تناسب اگر متواتر احدیث / سنت متواتر (113) سے کریں تو ٹوٹل تحریری مواد کا 8%, اور قرآن 92% بنتا ہے جو کہ حقیقت پسندانہ تناسب ہے -
ایک طرف کتاب الله ، قرآن اور اس کے ساتھ 51/75 کتب احادیث، اس کی تفصیل بیان کرنے اور سمجھانے کے لیے- یہ تناسب بائبل میں مسیح علیہ السلام سے منسوب اقوال, یعنی صرف 20 فیصد ، باقی 80 فیصد حواریوں سے منسوب مواد سے بھی کم ہے- اگرچہ احادیث میں اکثریت رسول رسول ﷺ سے منسوب ہیں ان کی صداقت کے معیار کا قرآن سے کوئی تقابل نہیں-
اللہ قرآن میں فرماتے ہیں :
" اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟" (54:17,22,32,40)
" ہم نے اس (قرآن) کو تمہاری زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں" ( 44:58)
14 A
کیا قرآن آسان ہے یا مشکل ترین؟
اللہ نے تو واقعی قرآن کو آسان ہی بنایا تھا لیکن ہمارے فرقہ باز علماء نے اسے مشکل ترین کتاب بنادیا ہے اور یہی کچھ عوام کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کی دلیل درس نظامی کا وہ نصاب ہے جو دینی مدارس میں چھ، سات، آٹھ حتیٰ کہ نو سال میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس نصاب میں قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کی باری عموماً آخری سال میں آتی ہے۔ پہلے چند سال تو صرف و نحو میں صرف کئے جاتے ہیں۔ ان علوم کو خادم قرآن علوم کہا جاتا ہے۔ ان علوم کی افادیت مسلم لیکن جس طالب علم کو فرصت ہی دو چار سال کے لیے ملے اسے کیا قرآن سے بےبہرہ ہی رکھنا چاہئے؟
پھر اس کے بعد فقہ پڑھائی جاتی ہے۔ تاکہ قرآن اور حدیث کو بھی فقہ کی مخصوص عینک سے ہی دیکھا جاسکے۔ تقلید شخصی کے فوائد بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جس فرقہ کے مدرسہ میں طالب علم داخل ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی سانچہ میں ڈھل کر نکلتا ہے۔ اسی طرح فرقہ بازی کی گرفت کو تو واقعی مضبوط بنادیا جاتا ہے۔ مگر حقیقتاً ان طالب علموں کو قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک ان ابتدائی علوم کو پڑھا نہ جائے اس وقت تک قرآن کی سمجھ آہی نہیں سکتی۔ اور اس طرح عملاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تردید کی جاتی ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنادیا ہے، تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کریم شرک کا سخت دشمن ہے۔ کوئی سورت اور کوئی صفحہ ایسا نہ ہوگا جس میں شرک کی تردید یا توحید کے اثبات میں کچھ نہ کچھ مذکور نہ ہو۔ مگر ہمارے طریقہ تعلیم کا یہ اثر ہے کہ شرک کی کئی اقسام مسلمانوں میں رواج پا گئی ہیں اور انہیں عین دین حق اور درست قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ شرک سے روکنے والوں کو کافر کہہ کر ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ لہذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اولین فرصت میں قرآن کریم کا ترجمہ خود مطالعہ کرنا چاہئے اور سیکھنا چاہئے اور اس کے لیے کسی ایسے عالم کے ترجمہ کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جو متعصب نہ ہو اور کسی خاص فرقہ سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ یا ایسے عالم کا جس کی دیانت پر سب کا اتفاق ہو اور یہ ترجمہ بالکل خالی الذھن ہو کر دیکھنا چاہئے۔ قرآن سے خود ہدایت لینا چاہئے۔ اپنے سابقہ یا کسی کے نظریات کو قرآن میں داخل نہ کرنا چاہئے۔ نہ اس سے اپنے نظریات کھینچ تان کر اور تاویلیں کرکے کشید کرنا چاہئیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ [تفسیر عبدالرحمان کیلانی ]
الله کا فرمان مت بھولیں :
"انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31)
14 A
کیا قرآن آسان ہے یا مشکل ترین؟
اللہ نے تو واقعی قرآن کو آسان ہی بنایا تھا لیکن ہمارے فرقہ باز علماء نے اسے مشکل ترین کتاب بنادیا ہے اور یہی کچھ عوام کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کی دلیل درس نظامی کا وہ نصاب ہے جو دینی مدارس میں چھ، سات، آٹھ حتیٰ کہ نو سال میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس نصاب میں قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کی باری عموماً آخری سال میں آتی ہے۔ پہلے چند سال تو صرف و نحو میں صرف کئے جاتے ہیں۔ ان علوم کو خادم قرآن علوم کہا جاتا ہے۔ ان علوم کی افادیت مسلم لیکن جس طالب علم کو فرصت ہی دو چار سال کے لیے ملے اسے کیا قرآن سے بےبہرہ ہی رکھنا چاہئے؟
پھر اس کے بعد فقہ پڑھائی جاتی ہے۔ تاکہ قرآن اور حدیث کو بھی فقہ کی مخصوص عینک سے ہی دیکھا جاسکے۔ تقلید شخصی کے فوائد بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جس فرقہ کے مدرسہ میں طالب علم داخل ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی سانچہ میں ڈھل کر نکلتا ہے۔ اسی طرح فرقہ بازی کی گرفت کو تو واقعی مضبوط بنادیا جاتا ہے۔ مگر حقیقتاً ان طالب علموں کو قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک ان ابتدائی علوم کو پڑھا نہ جائے اس وقت تک قرآن کی سمجھ آہی نہیں سکتی۔ اور اس طرح عملاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تردید کی جاتی ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنادیا ہے، تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کریم شرک کا سخت دشمن ہے۔ کوئی سورت اور کوئی صفحہ ایسا نہ ہوگا جس میں شرک کی تردید یا توحید کے اثبات میں کچھ نہ کچھ مذکور نہ ہو۔ مگر ہمارے طریقہ تعلیم کا یہ اثر ہے کہ شرک کی کئی اقسام مسلمانوں میں رواج پا گئی ہیں اور انہیں عین دین حق اور درست قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ شرک سے روکنے والوں کو کافر کہہ کر ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ لہذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اولین فرصت میں قرآن کریم کا ترجمہ خود مطالعہ کرنا چاہئے اور سیکھنا چاہئے اور اس کے لیے کسی ایسے عالم کے ترجمہ کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جو متعصب نہ ہو اور کسی خاص فرقہ سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ یا ایسے عالم کا جس کی دیانت پر سب کا اتفاق ہو اور یہ ترجمہ بالکل خالی الذھن ہو کر دیکھنا چاہئے۔ قرآن سے خود ہدایت لینا چاہئے۔ اپنے سابقہ یا کسی کے نظریات کو قرآن میں داخل نہ کرنا چاہئے۔ نہ اس سے اپنے نظریات کھینچ تان کر اور تاویلیں کرکے کشید کرنا چاہئیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ [تفسیر عبدالرحمان کیلانی ]
الله کا فرمان مت بھولیں :
"انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (9:31)
بہت لوگوں نے احادیث کے زریعہ فروعی اختلافات ، بحث مباحث ، فرقہ بازی، فساد میں مشغول ہو کر قرآن کو پس پشت ڈال دیا-
15.
مقام قرآن :
قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)
( اے رسول ) وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اور کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں ۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیتوں کی تاویلات تلاش کریں ، حالانکہ ان آیتوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اور جن لوگوں کا علم پختہ ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس ( مطلب ) پر ایمان لاتے ہیں ( جو اللہ کو معلوم ہے ) سب کچھ ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے ، اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں (قرآن 3:7)
مزید پڑھیں.. قرآن کا تعارف قرآن سے .....[.....]
مزید پڑھیں.. قرآن کا تعارف قرآن سے .....[.....]
16.
حدیث کی اہمیت :
A..مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمھارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمھارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔ اس کی سند بہت پکی ہے [صحیح مسند احمد 497/3, شیخ البانی صحیح السلسلہ الصحیحہ 732/2 تفسیرکثیر١١:٨٨].
اس حدیث کی بنیاد پر کوئی مسلمان کسی حدیث کو قبول یا نہ قبول کرنے کا اختیار رکھتا ہے ، تو بحث اور جھگڑا کیسا ؟
" بیشک بدترین خلائق اللہ تعالٰی کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو بہرے ہیں گونگے ہیں جو کہ ( ذرا ) نہیں سمجھتے " (قرآن :8:22)
B. سنت و حدیث مختلف ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ”
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی۔ اور جو “کتاب اللہ” اور “میری سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی۔
[سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي اللہ عنہ إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: 3926(4427) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: 311(5٠٠4)؛ذم الكلام وأهلہ لعبد اللہ الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ۔.۔ رقم الحديث: 589(٦٠٦)؛الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:2٧٧(29٠5) الكامل في ضعفاء الرجال » من ابتدا أساميهم صاد » من اسمہ صالح؛ رقم الحديث: 4284٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: 311]
کتاب الله (قرآن ) بھی موجود ہے اور سنت بھی .... تحقیق کر لیں ...[.....]
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( ١٥٩ سورة الأنعام)
“جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے (البقرہ 2:2)
[قرآن ، سنت ، حدیث : https://quransubjects.blogspot.com/2019/12/hadith-sunnah.html]
[قرآن ، سنت ، حدیث : https://quransubjects.blogspot.com/2019/12/hadith-sunnah.html]
17.
قرآن کے مطابق کسی اور کتاب، حدیث کی کوئی گنجائش نہیں :
ایک الله ، ایک کتاب ایک رسول اللهﷺ ...
١.اللہ کا کوئی شریک نہیں
٢ الله کی صرف ایک کتاب ہے ، تمام ہدایت جس کو تحریر کرنے کی ضرورت تھی قرآن میں موجود ہے -
٣ .رسول اللهﷺ آخری رسول اور ان کا کوئی شریک نہیںں، رسول اللهﷺ کا اسوۂ حسنہ کا عملی سنت، تواتر سے منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے جو کسی تحریر کا محتاج نہیں
یہ ان آیات سے کلیئر ہو جاتا ہے
(1) .اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ سورة الزمر 39 آیت: 23 (قرآن 39:23)
اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لئے نرم ہوجاتے ہیں یہی اللہ کی واقعی ہدایت ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے (قرآن 39:23)
(2.) .تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّـهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثية45:6)
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)
(3) .فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50)
اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ ( المرسلات 77:50)
(4). فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الأعراف 7:185)
پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے (الأعراف 7:185)
اہم نقطۂ :
ترجمہ کسی ببھی زبان میں ہو ، قرآن نہیں ہوتا ، قرآن اصل عربی میں ہے … اور عربی سے واقف شخص "حدیث " کو " حدیث " ہی پڑھے گا .، اس کو سیاق و سباق بھی سمجھ اتا ہے ، اور عربی زبان والے کو علم ہے کہ رسول اللهﷺ کے اقوال ، فرمان والی کتاب کو "حدیث" کہتے ہیں، جو اصطلاح کی حثیت رکھتا ہے نزول قرآن کے وقت بھی اور آج بھی [اب تمام دنیا، انگلش اور کئی زبانوں میں شامل ہو چکا ہے ]-
قرآن کے مقابل "حدیث" کی کتاب ہی ہو سکتی ہے "بات" یا قصہ ، کہانی ، خوابوں کی تعبیر ، نشان عبرت وغیرہ نہیں ہے -
حدیث کی کتابوں میں اکثریت رسول اللهﷺ کے اقوال ، فرمان اور عملی اقدام ہیں جسے سنت کہتے ہیں-
حدیث کتب لکھنے والوں نے کتابوں کے نام "حدیث" نہیں رکھے بلکہ "سنن" رکھے ، جبکہ وہ "حدیث" کی کتب ہیں …
یہ اس لیے کیا کہ قرآن میں کسی اور "حدیث" یعنی "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع فرمایا گیا ہے ،
یھاں حدیث کے دونوں معنی ،(١) کتاب حدیث اور (٢) بات ، قول … لاگو ہوتے ہیں - جیسا کہ [ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ] [سورة النساء 4 آیت: 29] میں ایک ہی جگہ ، ایک لفظ کے تین مطلب لاگو ہوتے ہیں -
اور آج بھی پوری دنیا میں حدیث کی کتب کو " سنن " کوئی نہیں کہتا ان کو حدیث کی کتب ہی کہا جاتا ہے ، جیسا کہ نزول قرآن کے وقت بھی جب حدیث کو لکھنے کی اجازت دی اورمنسوخ بھی ہوئی .. الله العلیم اور الخبیر ہے … سنن لکھی بات نہیں عمل کو کہتے ہیں اور یہ عمل ایک نہیں بہت زیادہ لوگوں نے دیکھا اکو خود پریکٹس کیا ہوتا ہے - جبکہ حدیث کتب میں زیادہ حدیث ، اقوال ، باتیں ، ہیں -
تمام اہم ہدایت جنکو لکھنے کی ضرورت تھی الله نے قرآن میں شامل کر دیا ... قرآن سند یافتہ ایک مکمل کتاب ہدایت ہے-
سنت عمل کا نام ہے -
یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ حدیث" کا مطلب نزول قرآن کے وقت بھی یہی تھا جو آج ہے ، یہ احادیث سے ہی ثابت ہے ، ملاحضہ کریں، قبل پیرا نمبر 16 .... "حدیث" کا مطلب دونوں مطالب پر مشتمل ہے-
قرآن کے مقابل کوئی اور کلام لانے سے مشرکین عاجز تھے ، وہ تو ایک آیت نہیں لا سکتے تھے- تو وہ کون سا کلام ہے ہے جس کو کوئی قرآن کے مقابل نہیں تو ساتھ ملا دے یا جوڑ دے؟
صرف رسول الله ﷺ کے ارشادات جو الله کے پیغمبر ہیں، ان کو خاص علم اور ہدایت اللہ کی طرف سے حاصل تھی .. وہ خود تو نہیں مگر کوئی اور ایسا کر سکتا تھا، جو کہ مزید وجہ احادیث کی کتابت سے منع کر نےکی ہو سوسکتی ہے-
اس تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار آیات (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)
حادیث کی کتابت میں رکاوٹ ہیں- لفظ "کتابت" ، اہم ہے رسول الله ﷺ کے فرامین ور ارشادات کو زبانی یاد کرنا یا منتقل کرنا منع نہیں تھا یہ عام قابل فہم بات ہے اور ثابت بھی ہے کہ دوسری صدی حجرہ تک سماع احادیث ہوا کرتا تھا ، امام احمدد بن حنبل جگہ جگہ سفر کرتے تھے سماع حدیث کے لیے- بعد میں وہ بھی ٣٠٠٠٠ احدادیث کی مسند لکھ گیے-
ان ٤ آیات میں عربی لفظ "حدیث " استعمال ہوا ہے، ان آیات کا اردو ترجمہ کرتے ہوے مترجمین نے لفظ "حدیث " کو غائب کر دیا اوراردو لفظ "بات " استعمال کیا [ملاحضہ فرمائیں ... یھاں ...]. قابل غور بات ہے کہ پہلے قرآن کو ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) "بہترین حدیث " کتاب کہا (٣٩:٢٣) ترجمہ "کلام " کیا ، مگر بعد کی آیات میں "حدیث " کا ترجمہ "بات " کر دیا .. قاری کو سمجھ نہ لگے کہ الله فرما رہا ہے کہ صرف قرآن حدیث ہے اور کوئی اور "حدیث " نہیں- اکثر مترجم قرآن بریکٹ میں کسی لفظ کی مختصر تشریح بھی کر دیتے ہیں ، مگر ان آیات کے ترجمہ میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟ [واللہ اعلم ]
جب پچاس انگریزی تراجم دیکھے تو وہاں چار مترجموں نے لفظ HADITH کا انگریزی ترجمہ نہیں کیا اور اس کو HADITH ہی لکھا ، یہ انگریزی زبان کا ایک لفظ بن چکا ہے ...
جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا ، حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صحابہ رسول الله ﷺ کی باتیں ، اقوال لکھتے تھے، جن کو "حدیث" کھا جاتا تھا ،پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله ﷺ نے "حدیث " لکھنے سے منع فرمادیا ..ممکنہ طور پر ایسا حکم رسول الله ﷺ نے ان آیات کے نازل ہونے کے بعد فرمایا ہو گا -
اس بات کو حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی الله کے اس فیصلہ سے بھی سپورٹ ملتی ہے کہ انہوں نے احادیث کی کتابت سے منع فرمادیا -
اگر یہ سب کچھ تاریخ احادیث سے نہ بھی ااخذ (quote) کریں تونا قابل تردید تاریخی حقیقت موجود ہے کہ باقی خلفاء راشدین نے بھی کتابت احادیث کا اہتمام نہ کیا -
وہ سلرے حالات اور حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ تھے- جب وہ قرآن کی کتابت کا فیصلہ کر سکتے تھے تو اس کے بعد احادیث کی کتابت میں کیا رکاوٹ تھی؟
یاد رکھیں کہ قرآن انسانی نہیں الله کا کلام ہے ، جو "عالم الغیب و شهاده" ہے - الله کو علم ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے، قرآن ابدی ہدایت ہے ، اس لیے اس کے الفاظ کو کسی طرح بھی محدود کرنے کی کوشش کرتے ہوے ، الله کے "عالم الغیب و شهاده" کو مد نظر رکھنا ہو گا -
اہم نقطۂ :
ترجمہ کسی ببھی زبان میں ہو ، قرآن نہیں ہوتا ، قرآن اصل عربی میں ہے … اور عربی سے واقف شخص "حدیث " کو " حدیث " ہی پڑھے گا .، اس کو سیاق و سباق بھی سمجھ اتا ہے ، اور عربی زبان والے کو علم ہے کہ رسول اللهﷺ کے اقوال ، فرمان والی کتاب کو "حدیث" کہتے ہیں، جو اصطلاح کی حثیت رکھتا ہے نزول قرآن کے وقت بھی اور آج بھی [اب تمام دنیا، انگلش اور کئی زبانوں میں شامل ہو چکا ہے ]-
قرآن کے مقابل "حدیث" کی کتاب ہی ہو سکتی ہے "بات" یا قصہ ، کہانی ، خوابوں کی تعبیر ، نشان عبرت وغیرہ نہیں ہے -
حدیث کی کتابوں میں اکثریت رسول اللهﷺ کے اقوال ، فرمان اور عملی اقدام ہیں جسے سنت کہتے ہیں-
حدیث کتب لکھنے والوں نے کتابوں کے نام "حدیث" نہیں رکھے بلکہ "سنن" رکھے ، جبکہ وہ "حدیث" کی کتب ہیں …
یہ اس لیے کیا کہ قرآن میں کسی اور "حدیث" یعنی "کتاب حدیث" پر ایمان سے منع فرمایا گیا ہے ،
یھاں حدیث کے دونوں معنی ،(١) کتاب حدیث اور (٢) بات ، قول … لاگو ہوتے ہیں - جیسا کہ [ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ] [سورة النساء 4 آیت: 29] میں ایک ہی جگہ ، ایک لفظ کے تین مطلب لاگو ہوتے ہیں -
اور آج بھی پوری دنیا میں حدیث کی کتب کو " سنن " کوئی نہیں کہتا ان کو حدیث کی کتب ہی کہا جاتا ہے ، جیسا کہ نزول قرآن کے وقت بھی جب حدیث کو لکھنے کی اجازت دی اورمنسوخ بھی ہوئی .. الله العلیم اور الخبیر ہے … سنن لکھی بات نہیں عمل کو کہتے ہیں اور یہ عمل ایک نہیں بہت زیادہ لوگوں نے دیکھا اکو خود پریکٹس کیا ہوتا ہے - جبکہ حدیث کتب میں زیادہ حدیث ، اقوال ، باتیں ، ہیں -
تمام اہم ہدایت جنکو لکھنے کی ضرورت تھی الله نے قرآن میں شامل کر دیا ... قرآن سند یافتہ ایک مکمل کتاب ہدایت ہے-
سنت عمل کا نام ہے -
یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ حدیث" کا مطلب نزول قرآن کے وقت بھی یہی تھا جو آج ہے ، یہ احادیث سے ہی ثابت ہے ، ملاحضہ کریں، قبل پیرا نمبر 16 .... "حدیث" کا مطلب دونوں مطالب پر مشتمل ہے-
قرآن کے مقابل کوئی اور کلام لانے سے مشرکین عاجز تھے ، وہ تو ایک آیت نہیں لا سکتے تھے- تو وہ کون سا کلام ہے ہے جس کو کوئی قرآن کے مقابل نہیں تو ساتھ ملا دے یا جوڑ دے؟
صرف رسول الله ﷺ کے ارشادات جو الله کے پیغمبر ہیں، ان کو خاص علم اور ہدایت اللہ کی طرف سے حاصل تھی .. وہ خود تو نہیں مگر کوئی اور ایسا کر سکتا تھا، جو کہ مزید وجہ احادیث کی کتابت سے منع کر نےکی ہو سوسکتی ہے-
اس تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار آیات (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)
حادیث کی کتابت میں رکاوٹ ہیں- لفظ "کتابت" ، اہم ہے رسول الله ﷺ کے فرامین ور ارشادات کو زبانی یاد کرنا یا منتقل کرنا منع نہیں تھا یہ عام قابل فہم بات ہے اور ثابت بھی ہے کہ دوسری صدی حجرہ تک سماع احادیث ہوا کرتا تھا ، امام احمدد بن حنبل جگہ جگہ سفر کرتے تھے سماع حدیث کے لیے- بعد میں وہ بھی ٣٠٠٠٠ احدادیث کی مسند لکھ گیے-
جب پچاس انگریزی تراجم دیکھے تو وہاں چار مترجموں نے لفظ HADITH کا انگریزی ترجمہ نہیں کیا اور اس کو HADITH ہی لکھا ، یہ انگریزی زبان کا ایک لفظ بن چکا ہے ...
جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا ، حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صحابہ رسول الله ﷺ کی باتیں ، اقوال لکھتے تھے، جن کو "حدیث" کھا جاتا تھا ،پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله ﷺ نے "حدیث " لکھنے سے منع فرمادیا ..ممکنہ طور پر ایسا حکم رسول الله ﷺ نے ان آیات کے نازل ہونے کے بعد فرمایا ہو گا -
اس بات کو حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی الله کے اس فیصلہ سے بھی سپورٹ ملتی ہے کہ انہوں نے احادیث کی کتابت سے منع فرمادیا -
اگر یہ سب کچھ تاریخ احادیث سے نہ بھی ااخذ (quote) کریں تونا قابل تردید تاریخی حقیقت موجود ہے کہ باقی خلفاء راشدین نے بھی کتابت احادیث کا اہتمام نہ کیا -
وہ سلرے حالات اور حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ تھے- جب وہ قرآن کی کتابت کا فیصلہ کر سکتے تھے تو اس کے بعد احادیث کی کتابت میں کیا رکاوٹ تھی؟
جو صحابہ احادیث لکھنے کے شوقین تھے انہوں نے جب یہ چار آیات مختلف اوقات میں نازل ہوئیں تو کامن سینس کہتی ہے کہ ؛ انہوں نے رسول الله ﷺ سے پوچھا ہوگا کہ ان آیات کے باوجود وہ احادیث لکھتے رہیں؟ اور اگر انہوں نے پوچھا تو رسول الله ﷺ نے کیا جواب دیا؟
یہ بات ان آیات کی تفسیر میں نہیں ملتی- یہ بات ملتی ہے کہ کبھی کسی کو اجازت دی اور پھر منع فرما دیا (واللہ اعلم )
یہ بات ان آیات کی تفسیر میں نہیں ملتی- یہ بات ملتی ہے کہ کبھی کسی کو اجازت دی اور پھر منع فرما دیا (واللہ اعلم )
عبدلرحمان کیلانی نے تفسیر میں لکھا ہے کہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص اس آیت (المرسلات 77:50 ) پر پہنچے تو یوں کہے : امنا باللّٰہ (مستدرک حاکم)-
یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ حدیث" کا مطلب نزول قرآن کے وقت بھی یہی تھا جو آج ہے ، یہ احادیث سے ہی ثابت ہے ، ملاحضہ کریں، قبل پیرا نمبر 16 .... "حدیث" کا مطلب دونوں مطالب (لغوی اور اسطلاحی )پر مشتمل ہو سکتا ہے-
قرآن کے مقابل کوئی اور کلام لانے سے مشرکین عاجز تھے ، وہ تو ایک آیت نہیں لا سکتے تھے- تو وہ کون سا کلام ہے ہے جس کو کوئی قرآن کے مقابل نہیں تو ساتھ ملا دے یا جوڑ دے؟ صرف رسول الله ﷺ کے ارشادات جو الله کے پیغمبر ہیں، ان کو خاص علم اور ہدایت اللہ کی طرف سے حاصل تھی .. وہ خود تو نہیں مگر کوئی اور ایسا کر سکتا تھا، جس کی وجہ سے احادیث کی کتابت سے منع کر دیا گیا ہو؟
اس تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار آیات (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)
حادیث کی کتابت میں رکاوٹ معلوم ہوتی ہیں- لفظ "کتابت" ، اہم ہے رسول الله ﷺ کے فرامین ور ارشادات کو زبانی یاد کرنا یا منتقل کرنا منع نہیں ہو سکتا یہ عام قابل فہم بات ہے اور ثابت بھی ہے-
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ [پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے]
"… اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا- اور جو میرے "ذِکر"(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے" (قرآن :20:123,124)
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۰﴾
اور جن لوگوں نے انکار کیا اور اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں (5:10)
قرآن موجود ہے ، اس کو سمجھنے اور تفکر کے لے الله کی عطا کردہ عقل و دانش اور علم کے استعمال پر پابندی نہیں :
تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡئَلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۱﴾
یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی۔ ان کی کمائی ان کے لیے ہے۔ اور تمہاری تمہارے لیے۔ اور ان کے اعمال کے بارے میں تم سے بازپرس نہ ہوگی (2:141)
[پڑھیں >> کتابت حدیث کی تاریخ – نخبة الفکر – ابن حجرالعسقلانی – ایک علمی جایزہ:]
یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ حدیث" کا مطلب نزول قرآن کے وقت بھی یہی تھا جو آج ہے ، یہ احادیث سے ہی ثابت ہے ، ملاحضہ کریں، قبل پیرا نمبر 16 .... "حدیث" کا مطلب دونوں مطالب (لغوی اور اسطلاحی )پر مشتمل ہو سکتا ہے-
قرآن کے مقابل کوئی اور کلام لانے سے مشرکین عاجز تھے ، وہ تو ایک آیت نہیں لا سکتے تھے- تو وہ کون سا کلام ہے ہے جس کو کوئی قرآن کے مقابل نہیں تو ساتھ ملا دے یا جوڑ دے؟ صرف رسول الله ﷺ کے ارشادات جو الله کے پیغمبر ہیں، ان کو خاص علم اور ہدایت اللہ کی طرف سے حاصل تھی .. وہ خود تو نہیں مگر کوئی اور ایسا کر سکتا تھا، جس کی وجہ سے احادیث کی کتابت سے منع کر دیا گیا ہو؟
اس تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار آیات (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)
حادیث کی کتابت میں رکاوٹ معلوم ہوتی ہیں- لفظ "کتابت" ، اہم ہے رسول الله ﷺ کے فرامین ور ارشادات کو زبانی یاد کرنا یا منتقل کرنا منع نہیں ہو سکتا یہ عام قابل فہم بات ہے اور ثابت بھی ہے-
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ [پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے]
"… اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا- اور جو میرے "ذِکر"(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے" (قرآن :20:123,124)
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۰﴾
اور جن لوگوں نے انکار کیا اور اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں (5:10)
قرآن موجود ہے ، اس کو سمجھنے اور تفکر کے لے الله کی عطا کردہ عقل و دانش اور علم کے استعمال پر پابندی نہیں :
تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡئَلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۱﴾
یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی۔ ان کی کمائی ان کے لیے ہے۔ اور تمہاری تمہارے لیے۔ اور ان کے اعمال کے بارے میں تم سے بازپرس نہ ہوگی (2:141)
[پڑھیں >> کتابت حدیث کی تاریخ – نخبة الفکر – ابن حجرالعسقلانی – ایک علمی جایزہ:]
یاد رکھیں کہ قرآن انسانی نہیں الله کا کلام ہے ، جو "عالم الغیب و شهاده" ہے - الله کو علم ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے، قرآن ابدی ہدایت ہے ، اس لیے اس کے الفاظ کو کسی طرح بھی محدود کرنے کی کوشش کرتے ہوے ، الله کے "عالم الغیب و شهاده" کو مد نظر رکھنا ہو گا -
Over 50 English translation … the word HADITH has been mostly translated as: Message , discourse, revelation, announcement , report, narrations, speech, announcement, words etc. [Reference link...]. Only Four translators used original word HADITH, they did not translate it because word HADITH is well known not only to Muslims but non Muslims as well. Word Hadith is part of English language, explained in English dictionaries like, Merriam-Webster , Oxford etc.
18.
کتابت حدیث کی ممانعت کی نسبت بلا واسطہ اور بالواسطہ الله کی طرف جاتی ہے:
(1).الله اور رسول ﷺ کی اطاعت …. (2).رسول ﷺ کی اطاعت الله کی اطاعت … (3).رسول ﷺ کا ابوبکرصدیق حضرت عمر اور خلفاء راشدین (رضی الله عنھم) کی اطاعت کاحکم … (4).حضرت عمر (رضی الله ) کا احادیث کی کتابت نہ کرنے کا حکم ایسا ہے کہ …..یعنی اللہ اور رسول الله ﷺ کا حکم .(1,2,3)..کے مطابق. (5).خلفاء راشدین (رضی الله عنھم) کا حضرت عمر (رضی الله ) کے حکم و سنت کو برقرار رکھنا …. احادیث کی کتب کی شکل میں قرآن کی طرح کتابت نہ کرنا ۔۔۔ (6).مسلم حکمرانوں کا خلفاء راشدین (رضی الله عنھم) کی اس سنت پر کاربند رہنا۔ (7).تیسری صدی میں انفرادی، ذاتی طور پر احادیث کی مشہور کتب کی کتابت..…
(8) بلاواسطہ اور بالواسطہ الله اور رسول ، خلفاء راشدین کی صریح نافرمانی ….
(8) بلاواسطہ اور بالواسطہ الله اور رسول ، خلفاء راشدین کی صریح نافرمانی ….
19. رسول ﷺ کی نافرمانی کا انجام - رُسوا کُن عذاب جہنّم :
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿4:14﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿4:14﴾
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (2:170) اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کرده راه ہوں(2:170)
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۰﴾
اور جن لوگوں نے انکار کیا اور اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں (5:10)
مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ
جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا (17:15)
کچھ گناہ اور کوتاہیاں انفرادی ہوتی ہیں ، جیسے نماز میں سستی ، کسی سے بدکلامی کرنا وغیرہ ، لیکن ایسے اقدام جن کے اثرات نسل در نسل لاکھوں ، کروڑوں افراد کے مذھبی نظریات اوراعمال پر اثر انداز ہوں تو یہ بہت سنجیدہ معامله ہے، خاص طور پر جب حقیقت کا علم ہو جایے تو اپنی بزرگوں سے محبت میں ان کے غلط اقدام کا دفاع کرنا اس میں شامل ہونا ہے:
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (4:85)
دلچسب اور اہم تاریخی معلومات
چار مہشور فقہ کے بانی مشہور احادیث کی کتب کے بغیر فقہ مکمل کرگیے ( علاوہ موطأ امام مالک)- ظاہرہے انہوں قرآن سنت اور احادیث سے استفادہ کیا ہوگا- ابوحنیفہ نعمان بن ثابت جو بہت مقبول ہیں انہوں نے کوئی کتاب نہیں لکھی - حدیث کی بھی نہیں ، وہ پہلی صدی حجرہ میں پیدا ہوے جب حضرت عمر رضی اللہ اور خلفاء راشدہ کے فیصلوں کا احترم زیادہ ہوتا ہو گا (واللہ اعلم )
1. ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699-767ء)
2.مالک بن انس (93-179ھ/712-795ء) موطأ امام مالک حدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے جو آپ نے تصنیف کی۔
3.محمد بن ادریس شافعی (150-204ھ/767-820ء)
4. احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء)
مشہور محدثین - صحاحِ ستہ : ”چھ کتابیں جو اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروسا سمجھی جاتی ہیں۔
1.محمد بن اسماعیل بخاری (194-256ھ/810-870ء)
2.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء)
3.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء)
4..سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد متوفی 275ھ/9-888ء
5۔ سنن نسائی (امام نسائی) متوفی 303ھ/16-915ء
6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) متوفی 273ھ/87-886ء
امام احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء) فقہ اربعہ کی ٹائم لائن کے آخر میں ہیں … وہ احدیث سننتے تھے پڑھتے نہیں تھے …. اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے ؟
وہ احدیث سننتے تھے پڑھتے نہیں تھے
فقیہ، محدث، اہل سنت کے ائمہ اربعہ میں سے ایک مجتہد اور فقہ حنبلی کے مؤسس تھے۔ امام احمد بن حنبل کی پوری زندگی سنتِ رسول سے عبارت ہے، وہ در حقیقت امام فی الحدیث، امام فی الفقہ، امام فی القرآن، امام فی الفقر، امام فی الزہد، امام فی الورع اور امام فی السنت کے عالی مقام پر فائز رہے۔ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم حدیث، مجتہد تھے۔ سنت نبوی سے عملی و علمی لگاؤ تھا، اس لیے امت سے امام اہل السنت و الجماعت کا لقب پایا۔
تعلیم و سماعت حدیث: 16 برس کی عمر میں انہوں نے حدیث کی سماعت شروع کی۔ ابو یوسف کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ 180ھ میں سب سے پہلا حج کیا۔ پھر حجاز آمد و رفت رہی اور علما حجاز سے علم سیکھتے رہے۔
196ھ میں یمن جاکر عبد الرزاق الصنعانی سے احادیث سنیں۔ یہاں یحییٰ بن معین اور اسحاق بن راہویہ بھی ان کے شریک درس رہے۔ وہ کوفہ بھی گئے۔ مسافرت برائے حدیث میں تنگدستی بھی دیکھی۔ ان دنوں جس جگہ قیام پزیر رہے سر کے نیچے سونے کے لیے اینٹ رکھا کرتے۔
کہا کرتے کاش میرے پاس دس درہم ہوتے میں حدیث سننے کے لیے جریر بن عبد الحمید کے پاس رے چلا جاتا۔
شافعی خود فرماتے ہیں انہوں نے مجھ سے مصر آنے کا وعدہ کیا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے نہیں آ سکے شاید وجہ بے زری ہوگی۔ بایں ہمہ وہ تقریباً سارے اسلامی ممالک میں گھومے اور اپنے وقت کے بیشتر مشائخ سے احادیث حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہارون الرشید کی طرف سے یمن کا قاضی بننے کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول نہ کیا۔ 199ھ میں شافعی جب دوسری بار بغداد آئے تو احمد سے انہوں نے کہا: ”اگر تمہارے پاس، کوئی صحیح حدیث حجاز، شام یا عراق کہیں کی ہو مجھے مطلع کرو۔ میں حجازی فقہا کی طرح نہیں ہوں جو اپنے شہر کے علاوہ دیگر بلاد اسلامیہ میں پھیلی ہوئی احادیث کو غیر مصدقہ سمجھتے ہیں۔“ اس وقت احمد کی عمر 36 برس کی تھی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احدیث کی کتب مہیا نہ تھیں اور محدثین سے احدیث کی سماعت ہوتی تھی ، تیسری صدی حجرہ کے وسط تک .
19-A
اہم نقاط کا خلاصہ
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (2:170) اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کرده راه ہوں(2:170)
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۰﴾
اور جن لوگوں نے انکار کیا اور اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں (5:10)
مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ
جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا (17:15)
کچھ گناہ اور کوتاہیاں انفرادی ہوتی ہیں ، جیسے نماز میں سستی ، کسی سے بدکلامی کرنا وغیرہ ، لیکن ایسے اقدام جن کے اثرات نسل در نسل لاکھوں ، کروڑوں افراد کے مذھبی نظریات اوراعمال پر اثر انداز ہوں تو یہ بہت سنجیدہ معامله ہے، خاص طور پر جب حقیقت کا علم ہو جایے تو اپنی بزرگوں سے محبت میں ان کے غلط اقدام کا دفاع کرنا اس میں شامل ہونا ہے:
أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢﴾
نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو, اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے (5:2)
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿٨٥﴾
دلچسب اور اہم تاریخی معلومات
چار مہشور فقہ کے بانی مشہور احادیث کی کتب کے بغیر فقہ مکمل کرگیے ( علاوہ موطأ امام مالک)- ظاہرہے انہوں قرآن سنت اور احادیث سے استفادہ کیا ہوگا- ابوحنیفہ نعمان بن ثابت جو بہت مقبول ہیں انہوں نے کوئی کتاب نہیں لکھی - حدیث کی بھی نہیں ، وہ پہلی صدی حجرہ میں پیدا ہوے جب حضرت عمر رضی اللہ اور خلفاء راشدہ کے فیصلوں کا احترم زیادہ ہوتا ہو گا (واللہ اعلم )
1. ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699-767ء)
2.مالک بن انس (93-179ھ/712-795ء) موطأ امام مالک حدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے جو آپ نے تصنیف کی۔
3.محمد بن ادریس شافعی (150-204ھ/767-820ء)
4. احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء)
مشہور محدثین - صحاحِ ستہ : ”چھ کتابیں جو اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروسا سمجھی جاتی ہیں۔
1.محمد بن اسماعیل بخاری (194-256ھ/810-870ء)
2.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء)
3.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء)
4..سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد متوفی 275ھ/9-888ء
5۔ سنن نسائی (امام نسائی) متوفی 303ھ/16-915ء
6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) متوفی 273ھ/87-886ء
امام احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء) فقہ اربعہ کی ٹائم لائن کے آخر میں ہیں … وہ احدیث سننتے تھے پڑھتے نہیں تھے …. اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے ؟
وہ احدیث سننتے تھے پڑھتے نہیں تھے
فقیہ، محدث، اہل سنت کے ائمہ اربعہ میں سے ایک مجتہد اور فقہ حنبلی کے مؤسس تھے۔ امام احمد بن حنبل کی پوری زندگی سنتِ رسول سے عبارت ہے، وہ در حقیقت امام فی الحدیث، امام فی الفقہ، امام فی القرآن، امام فی الفقر، امام فی الزہد، امام فی الورع اور امام فی السنت کے عالی مقام پر فائز رہے۔ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم حدیث، مجتہد تھے۔ سنت نبوی سے عملی و علمی لگاؤ تھا، اس لیے امت سے امام اہل السنت و الجماعت کا لقب پایا۔
تعلیم و سماعت حدیث: 16 برس کی عمر میں انہوں نے حدیث کی سماعت شروع کی۔ ابو یوسف کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ 180ھ میں سب سے پہلا حج کیا۔ پھر حجاز آمد و رفت رہی اور علما حجاز سے علم سیکھتے رہے۔
196ھ میں یمن جاکر عبد الرزاق الصنعانی سے احادیث سنیں۔ یہاں یحییٰ بن معین اور اسحاق بن راہویہ بھی ان کے شریک درس رہے۔ وہ کوفہ بھی گئے۔ مسافرت برائے حدیث میں تنگدستی بھی دیکھی۔ ان دنوں جس جگہ قیام پزیر رہے سر کے نیچے سونے کے لیے اینٹ رکھا کرتے۔
کہا کرتے کاش میرے پاس دس درہم ہوتے میں حدیث سننے کے لیے جریر بن عبد الحمید کے پاس رے چلا جاتا۔
شافعی خود فرماتے ہیں انہوں نے مجھ سے مصر آنے کا وعدہ کیا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے نہیں آ سکے شاید وجہ بے زری ہوگی۔ بایں ہمہ وہ تقریباً سارے اسلامی ممالک میں گھومے اور اپنے وقت کے بیشتر مشائخ سے احادیث حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہارون الرشید کی طرف سے یمن کا قاضی بننے کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول نہ کیا۔ 199ھ میں شافعی جب دوسری بار بغداد آئے تو احمد سے انہوں نے کہا: ”اگر تمہارے پاس، کوئی صحیح حدیث حجاز، شام یا عراق کہیں کی ہو مجھے مطلع کرو۔ میں حجازی فقہا کی طرح نہیں ہوں جو اپنے شہر کے علاوہ دیگر بلاد اسلامیہ میں پھیلی ہوئی احادیث کو غیر مصدقہ سمجھتے ہیں۔“ اس وقت احمد کی عمر 36 برس کی تھی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احدیث کی کتب مہیا نہ تھیں اور محدثین سے احدیث کی سماعت ہوتی تھی ، تیسری صدی حجرہ کے وسط تک .
19-A
اہم نقاط کا خلاصہ
- حدیث کو لکھنے کی اجازت رسول اللهﷺ نے دی/ منع فرما دیا کہ قرآن سے مکس نہ ہو -
- رسول اللهﷺ نے اپنی اور خلفاء راشدین کی سنت کوسختی سے پکڑنےکا حکم دیا -
- رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-
- قرآن کو حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله) کے دور خلافت میں حضرت عمر (رضی الله) کے اصرار پر جمع کر دیا گیا - اور حضرت عثمان (رضی الله) کے دور میں کاپیاں تقسیم کی گئں-
- قرآن کی کتابت میں بہت احتیاط برتی گیی - دو چشم دید زندہ افراد کی شہادت لازم ، جنہوں نے رسول اللهﷺ سے خود آیات سنی ہوں ، کتابت کرنے والی کمیٹی کاانچارج حافظ قرآن ، کاتب وحی حضرت زید بن ثابت (رضی الله) ، ممبران میں عبد اللہ بن زبیر سعید ابن عاص اور عبد الرحمٰن بن ہشام رضی للہ عنہ بھی شامل تھے-
- قرآن کے مطابق، رسول اللهﷺ کی اطاعت، اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہے- اس کو محفوظ کرنے کے مختف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ، سنت رسول اللهﷺ پر عمل ، حفظ ، تحریر مگر قرآن کے علاوہ کسی حدیث ، کلام ، بات پر ایمان سے منع فرماتا ہے -
- اس کے بعد احادیث کو جمع کرنے کا سرکاری طور پر اہتمام نہ کیا گیا -
- قرآن نے کسی " حدیث" کتاب سے منع کیا [ (الأعراف 7:185)، ( المرسلات 77:50)، (الجاثية45:6)، (قرآن 39:23)]
- سنت رسول اللهﷺ تواتر سے نسل در نسل متنقل ہوتی رہی ، احادیث زبانی حفظ کرکہ منتقل ہویں ، کچھ ذاتی تحریریں بھی-
- حضرت عمر (رضی الله) خلیفہ بنے تو سوچ بچار کےبعد احادیث کی کتابت نہ کرنے کافیصلہ کیا -
- حدیث کی کتابت نہ کرنے کے فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ صرف ایک کتاب ہو گی کتاب الله … کہ پہلی امتیں برباد ہوئیں کتاب الله کو چھوڑ کر دوسری کتب میں مشغول ہو گیئں-
- حضرت علی (رضی الله) بھی کتابت احادیث کے مخالفین میں شامل تھے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گئیں -
- حضرت عمر (رضی الله) کے فیصلہ پر خلفاء راشدین نے بھی عمل کیا اور یہ پہلی صدی حجرہ تک یہی سنت رہی-
- مسیحیت کی بائبل میں ٢٠% حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلام اور ٨٠% سینٹ پال اور حواریوں کی تحریریں-
- یہود نے تورات چھوڑ کر مذہبی پیشواؤں کی تفسیریں اور تحریریوں والی تلمود کو اپنا لیا جس میں ایک کروڑالفاظ اور 38 جلدیں ہیں --
- آج قرآن کے ساتھ ساتھ ( 51 /75 ) حدیث کی کتب ہیں .
- امام ابو حنیفہ (80-150ھ ) نے فقہ کی بنیاد ڈالی ،مگر حدیث کی کوئی کتاب نہ لکھی حالانکہ وہ بہت بڑے محدث بھی تھے
- . حضرت عمر بن عبد العزیز نے ١٠٠ ھ میں احادیث کی کتابت کا اہتمام کیا -
- دوسری صدی کے نصف کے بعد مختلف افراد نے اپنے اپنے احادیث کے ذخیرہ اکتھے کرنے شروع دیے - تیسری صدی تک احادیث کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گی-صرف امام بخاری 6 لاکھ احادیث کے دعوے دار ہیں -
- قرآن میں حدیث کی ممانعت ہے - .حدیث کی کتابیں لکھنے والوں نے کتب کا نام "سنن " رکھ لیا ; سنن أبو داود , سنن الصغرى والكبرى النسائي, سنن الترمذي, سنن ابن ماجة, سنن الدارمي, سنن الدارقطني, سنن سعيد بن منصور , س للبيهقي,وغيره وغيره-
- قرآن کہتا ہے کہ یہ الله کی کتاب ہے ، محفوظ ہے ، اس میں کوئی شک نہیں اور یہ مکمل ہدایت ہے -
- حدیث کہتی ہے کہ جو حدیث تمہا رے دل کو اچھی نہ لگے وہ رسول اللهﷺ سے بھی دور ہے- جو حدیث قرآن اور سنت کے خلاف ہے وہ درست نہیں -
- اب چودہ سو سال بعد معلوم ہوتا ہے کہ بہت اور بھی مسائل کھڑے ہو گیے ، احادیث کی بنیاد پر نئے نیے فرقے بن گئے ، قرآن کی تاویلیں جھوٹی منٹ گھڑت ، ضعیف ، کمزور احادیث سے اور صحیح کو ملا جلا کر ایسا کام کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے - قرآن کو اگر غیر مصدقہ ، نامکمل مواد سے تفسیر کریں گے توکمی رہ جایے گی … سنت رسول اللهﷺ تواتر سے موجود ہے جس کا انکار ناممکن ہے اور کسی کے لیے ممکن نہیں کہ جھوٹی" سنت" گھڑ لے … سنت تو نام ہی رسول اللهﷺ کے عمل کا ہے-
- کچھ قابل غور باتیں ہیں :
- کیا ایک الله ، ایک کتاب ، ایک دین اسلام - یا - ایک الله ،76 کتب ،کئی فرقے (٧٣) والا دین اسلام؟
- تاریخ نے ثابت کیا کہ خلفاء راشدین کا فیصلہ درست تھا, تاریخ اپنی جگہ ان کے فیصلے کی اطاعت رسول اللهﷺ کی اطاعت اور رسول اللهﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ...
- کتب احادیث رسول اللهﷺ کی نامزد کردہ مجاز اتھارٹی سے منظور، تصدیق شدہ نہیں
- پرائیویٹ اشخاص کی زاتی، انفرادی تحقیق، تخلیق و انتخاب ، انسانی غلطی کا بہت امکان -
- اصل راوی (گواہان) وفات شدہ تھے دوسو برس قبل کم یا زیادہ - احادیث اکٹھی کرنے، منتخب کرنے والا ایک شخص جس کی اپنی صوابدید پر ہے کہ کس حدیث کو منتخب کرے کس کو چھوڑ دے - [قرآن کی تدوین ایک مثالی ہے ]
- احادیث کی اکثریت خبر احاد ہے - ٢٥٠٠٠ میں سے متواتر احادیث (سنت ) صرف ١١٣ اہم عبادات وغیرہ -
- احادیث کی نامکمل کتب (تمام احادیث کو اکٹھا کرنا ناممکن ) جن کا انتخاب، کتابت انفرادی طور پر دوسری اور تیسری صدی حجرہ میں ہوئی فائدہ زیادہ دے سکتی ہیں یا نقصان ؟
- یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو- ان کی تحریروں کورسول کی وحی کے ساتھ مقدس کتب میں شامل رکھا ہے-
- اصطلاحِ شرعیت میں اجماع اسے کہتےجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں پیش آنے والے مسئلہ کے حکم شرعی پر اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا اتفاق کرلینا، تو جب کسی زمانہ میں کوئی مسئلہ پیش آئے اور اس کا حکم شرعی نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ میں- قرآن رسول اللهﷺ اور خلفاء راشدین کی سنت کے خلاف کتابت احادیث اجتہاد نہیں ہو سکتا- اہم بات …..جب مسئلہ پیش آئے اور اس کا حکم شرعی نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ میں- اسلام میں مذہبی پیشواؤں کی یہود و نصاری کی طرح "رب " بننے کی گنجائش نہیں-
- ہم کو پہلی صدی حجرہ کے اصل دین اسلام کی طرف واپس جانا ہوگا رسول اللهﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کا دین اسلام جو حج الواداع پر اپنے عروج اور کمال پر تھا …
- قرآن رسول اللهﷺ اور خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرتے رہیں-
- ایک مسلمان کے لیے رسول اللهﷺ سے محبت اس کے ایمان اور زندگی کا کل سرمایہ ہے .. ہم ان سے اپنی زندگی اور اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں … ان کی وجہ سے ہم کفر ، شرک جیسی لعنت سے محفوظ ہوے اور الله کے راستہ پر اسلام میں چل پڑے … قرآن جو کہ الله کا کلام ہے وہ رسول اللهﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوا .. اس کو الله نے "حدیث" بھی کھا … ہم نے قرآن کو اللہ کا کلام مانا کیونکہ رسول اللهﷺ نے فرمایا کہ یہ الله کا کلام ہے … طرح ہم الله کے کلام کو مقدس سمجھتے ہیں اسی طرح رسول اللهﷺ کے مستند ، اصل کلام کو بھی مقدس اور عمل کرنے کو فرض سمجھتے ہیں …
- احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول ﷺ سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو-
- الله ہم کو قرآن اور سنت رسول ﷺ پر عمل کی توفیق عطافرمایے - آمین
اب کیا کریں ؟
(1) اگرچہ احادیث کی کتابت بالواسطہ الله اور رسول کے اطاعت کےبرخلاف بزرگوں سے ہوئی، جوسب الله کے پاس ہیں اور ان کا معامله بھی الله کے سپرد ہے, امید ہے کہ الله ان پر ان کی نیک نیت کے مطابق رحم فرمایے گا:
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (59:10)
اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے (59:10)
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (59:10)
اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے (59:10)
(2) اسلام سچا دین حق ہے ، کسی فرد یا افراد کی غلطیوں کا جذباتی محبت،روحانی، مسلکی وابستگی کی بجاتے قرآن و سنت اور عقل و حکمہ سے حل تلاش کریں- قرآن مذہبی پیشواؤں کو خدا کا درجہ دینے سے منع کرتا ہے-
(3). احادیث کو اختلافات ، فرقہ واریت ، تنقید ، نفرت کے لیے استعمال کرنا حماقت ، کم عقلی اور جہالت ہے جس سے پرہیز کریں- [ملاحظہ پیرا 16, 17]
(4).حکومتی ادارے اورعلماء، کتابت احادیث کی شرعی حیثیت کا از سرنو جائزہ لیں اور شکوک و شبہات کا ازالہ کریں- حکومت ترکی کےتحقیقی کام اور دوسرے عالم اسلام کےاداروں اورحکومتوں سے بھی روابط رکھیں-
(5). پیرا " 17 15,16" کی روشنی میں ذخیرہ احادیث کا جائزہ لینےکی ضرورت ہے-
(6). حکومت متواترسنت اور احادیث پر ادارہ جاتی اورانفرادی تحقیق کا اہتمام کریں-
(7) . حضرت عمر رضی الله کوکتابت حدیث پرجوخدشات تھے ان کو مد نظر رکھیں، غلطی کا ازالہ تو اسی طریقه سے ہو سکتا ہے جو حضرت عمر رضی الله نے اختیار کیا تھا، مگر عوام میں صدیوں جو نظریات قائم ہو چکے ہیں ان کو بتدریج حکمت سے تبدیل کرنا چاہیے ، یہ حکمت قرآن سے نشہ کی بتدریج ممانعت سے معلوم ہوتا ہے-
احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول ﷺ سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو-
(8) ابتدائی طور پر کتب احادیث کے ٹائیٹل پر پیرا 16اور 17 میں مذکور آیات قرآن اور احادیث بمع ترجمہ پرنٹ کرنا چاہیے، تاکہ امت مسلمہ پہلی امتوں کی طرح کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب کو مت ملائیں نہ ترجیح دیں - الله کی رسی قرآن کو پکڑ لیں ، پہلی گمراہ امتوں کے راستہ پر نہ چلیں جن پر الله کا غضب نازل ہوا -
(5). پیرا " 17 15,16" کی روشنی میں ذخیرہ احادیث کا جائزہ لینےکی ضرورت ہے-
(6). حکومت متواترسنت اور احادیث پر ادارہ جاتی اورانفرادی تحقیق کا اہتمام کریں-
(7) . حضرت عمر رضی الله کوکتابت حدیث پرجوخدشات تھے ان کو مد نظر رکھیں، غلطی کا ازالہ تو اسی طریقه سے ہو سکتا ہے جو حضرت عمر رضی الله نے اختیار کیا تھا، مگر عوام میں صدیوں جو نظریات قائم ہو چکے ہیں ان کو بتدریج حکمت سے تبدیل کرنا چاہیے ، یہ حکمت قرآن سے نشہ کی بتدریج ممانعت سے معلوم ہوتا ہے-
احادیث کا ذخیرہ علمی خزانہ ہے ، اسوہ حسنہ، سنت اور اس دور کی تاریخ ،قرآن کی تفسیر، بہت کچھ موجود ہے اس سے مثبت طور پرمسلمانوں کی یکجہتی، محبت ، اخلاق ، بہتری کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- حدیث اگر قابل اعتراض نہ ہو، ضعیف بھی ہو تو قابل احترام ہے کہ رسول ﷺ سے منسوب ہے ممکن ہے کہ درست ہو اور اصول و ضوابط پر پوری نہ اتر سکی ہو-
(8) ابتدائی طور پر کتب احادیث کے ٹائیٹل پر پیرا 16اور 17 میں مذکور آیات قرآن اور احادیث بمع ترجمہ پرنٹ کرنا چاہیے، تاکہ امت مسلمہ پہلی امتوں کی طرح کتاب الله کے ساتھ دوسری کتب کو مت ملائیں نہ ترجیح دیں - الله کی رسی قرآن کو پکڑ لیں ، پہلی گمراہ امتوں کے راستہ پر نہ چلیں جن پر الله کا غضب نازل ہوا -
(9) الله نے قرآن میں ٤٤ مرتبہ مسلمان کہا اور ہمارا نام مسلمان رکھا، ہم کو تمام ایکسٹرا لیبل ختم کرکہ اپنے آپ کو صرف اور صرف مسلمان کہلانا چاہیے ... [.......]
(10). قرآن کے پیغام امن کی اندروں ملک اور بین القوامی طور دعوه اور تشہیر کریں ،شدت پسندی ، دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کو ختم کرنےاور امن کے حصول میں قرآن کی مدد لیں-
(11) آج ہمیں اپنے قومی و ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر جہاد کرنے اور قرآنی دعوت کے ذریعے سے ِ ایک بھر پور انقلابیّ جدوجہد برپا کرنے کی ضروت ہے۔ ہمارے اجتماعی مسائل کا حل بھی یہی ہے اور ہمارے اندرونی امراض کی دوا ” وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ “( یونس : ٥٧ ) بھی اسی میں ہے: “پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں” (25:52). جہاد کبیرہ پر مزید...[......]
(11) آج ہمیں اپنے قومی و ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر جہاد کرنے اور قرآنی دعوت کے ذریعے سے ِ ایک بھر پور انقلابیّ جدوجہد برپا کرنے کی ضروت ہے۔ ہمارے اجتماعی مسائل کا حل بھی یہی ہے اور ہمارے اندرونی امراض کی دوا ” وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ “( یونس : ٥٧ ) بھی اسی میں ہے: “پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں” (25:52). جہاد کبیرہ پر مزید...[......]
.......................
21
مضمرات - Implications
1.اگر سفارشات پر عمل کریں تو ، عملا فوری طور پر کچھ فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ سب کچھ ویسے ہی رہ گا جیسے ہے-، کوئی نیا انقلاب برپا نہیں ہوگا ، صرف سوچنے والے مفکرین اور افراد کی توجہ قرآن کی طرف زیادہ ہو جانے سے عوام کا رجہان بھی اہستہ اہستہ تبدیل ہوسکتا ہے - اگر کچھ پرجوش مسلمان اپنی سوچ میں تبدیلی لا کر کوشش کریں تو اچھا آغاز ہو سکتا ہے-مذہبی پیشواؤں کی طرف سے شدید دفاعی ردعمل، علمی دلیل کی بجاتے جذباتی ابال سطحی اور وقتی ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن کے اپنے مثبت اثرات ہیں- چار مشہور فقہ کے بانیوں نے اگر احادیث کی کتب نہیں لکھیں تو وہ تو اس معامله سے بری الزمہ ہو گئے-
2. عوام کا جذباتی استحصال اور دیگر فتوے ، وقتی رد عمل دیر پا نہیں ہوسکتا -
3. کوئی بات قرآن ، سنت اور احادیث کے علاوہ نہیں تو اس کو تسلیم کرنے میں کیا رکاوٹ ؟
4.مذہبی پیشواؤں کے لیے اپنی اہمیت کم ہونے کا فرضی احساس، حالانکہ دین پر ان کی اجارہ داری علم کی بنیاد پر کم نہیں ہو سکتی -
5. قرآن کے خلاف باطل نظریات اور مشرکانہ پریکٹسز میں کمی اور خاتمہ سے کچھ افراد کوسیاسی، سماجی اور معاشی نقصان -
6. فرقہ واریت میں کمی اور خاتمہ کی طرف ابتدا .
7. علماء پر تحقیق کی ذمہ داری ، جس کو صرف اہل علم ہی نبھا سکتے ہیں-
8.عوامی شعور میں اضافہ اور سیاسی ، سماجی ،معاشی ، اخلاقی بہتری-
9. اتحاد امت مسلمہ جو صدیوں سے ایک خواب رہا ہے ، اس کو صرف قرآن پر عمل درآمد سے حاصل کیا جاسکتا ہے-
10. بین الاقوامی طور پر مسلمان ایک مہذب قوم کے طور پر اپنا وجود ثابت کر سکتے ہیں ، جس سے اسلام کو دنیا میں عروج حاصل ہو سکتا ہے-
11. ......
1.اگر سفارشات پر عمل کریں تو ، عملا فوری طور پر کچھ فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ سب کچھ ویسے ہی رہ گا جیسے ہے-، کوئی نیا انقلاب برپا نہیں ہوگا ، صرف سوچنے والے مفکرین اور افراد کی توجہ قرآن کی طرف زیادہ ہو جانے سے عوام کا رجہان بھی اہستہ اہستہ تبدیل ہوسکتا ہے - اگر کچھ پرجوش مسلمان اپنی سوچ میں تبدیلی لا کر کوشش کریں تو اچھا آغاز ہو سکتا ہے-مذہبی پیشواؤں کی طرف سے شدید دفاعی ردعمل، علمی دلیل کی بجاتے جذباتی ابال سطحی اور وقتی ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن کے اپنے مثبت اثرات ہیں- چار مشہور فقہ کے بانیوں نے اگر احادیث کی کتب نہیں لکھیں تو وہ تو اس معامله سے بری الزمہ ہو گئے-
2. عوام کا جذباتی استحصال اور دیگر فتوے ، وقتی رد عمل دیر پا نہیں ہوسکتا -
3. کوئی بات قرآن ، سنت اور احادیث کے علاوہ نہیں تو اس کو تسلیم کرنے میں کیا رکاوٹ ؟
4.مذہبی پیشواؤں کے لیے اپنی اہمیت کم ہونے کا فرضی احساس، حالانکہ دین پر ان کی اجارہ داری علم کی بنیاد پر کم نہیں ہو سکتی -
5. قرآن کے خلاف باطل نظریات اور مشرکانہ پریکٹسز میں کمی اور خاتمہ سے کچھ افراد کوسیاسی، سماجی اور معاشی نقصان -
6. فرقہ واریت میں کمی اور خاتمہ کی طرف ابتدا .
7. علماء پر تحقیق کی ذمہ داری ، جس کو صرف اہل علم ہی نبھا سکتے ہیں-
8.عوامی شعور میں اضافہ اور سیاسی ، سماجی ،معاشی ، اخلاقی بہتری-
9. اتحاد امت مسلمہ جو صدیوں سے ایک خواب رہا ہے ، اس کو صرف قرآن پر عمل درآمد سے حاصل کیا جاسکتا ہے-
10. بین الاقوامی طور پر مسلمان ایک مہذب قوم کے طور پر اپنا وجود ثابت کر سکتے ہیں ، جس سے اسلام کو دنیا میں عروج حاصل ہو سکتا ہے-
11. ......
………………..
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿٢:٢٨٦﴾
اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر (:2:286)
…………………….
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے (البقرہ 2:2)
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا(قرآن 47:24)
” تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں”(قرآن 47:24)
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
تحقیق و تحریر- بریگیڈیئر آفتاب خان (ر)
مدلل تبصرہ , تنقید, کمنٹس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے:
.. الِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾
.. تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً الله سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن 8:42)
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے(16:125)
رابطہ / کمنٹس / تجاویز :
تحقیق و تحریر- بریگیڈیئر آفتاب خان (ر)
مدلل تبصرہ , تنقید, کمنٹس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے:
.. الِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾
.. تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً الله سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن 8:42)
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے(16:125)
.......................
Reader’s Guide for Comments on “ Comeback to Quran- A Research Thesis
قارئین کے کمنٹس ، تبصرہ کے لئے رہنما گایڈ - قرآن کی طرف واپسی - تحقیقی مقالہ
اس مقالہ کی پزیرائی کا شکریہ جہاں کچھ برادران براہراست پیغامات میں حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں تنقید سےبھی مبرانہیں جوکہ خوش آیئند ہے- اکثر یہ غلط فہمی ہو رہی ہے کہ لوگ جلدی میں غلام احمد پرویز، جاویداحمد غامدی اور کئی دوسرے لوگوں کے متعلق تحریروں کے جوابات کو کاپی کر کہ کمنٹس کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مقالہ کو بغور نہیں پڑھا ۔ "قرآن کی طرف واپسی" کا ان حضرت کے نظریات جن کو "منکرحدیث" کے خطابات سےنوازا جاتا ہے کوئی واسطہ نہیں- اگر کوئی زبردستی مماثلت بنا دے تو اس کی مرضی ۔۔ مقالہ موجود ہے ۔۔۔ یھاں تھیم یہ نہیں کہ حدیث کی کیا اہمیت ہے؟ یا یہ کہ حدیث وحی تھی یا نہیں؟ حدیث کی کتابت درست ہوئی یا غلطیاں ہیں یا نہیں؟ یہ سب علیحدہ مضامین ہیں ، جو تھیسس "قرآن کی طرف واپسی" کا موضوع نہیں نہ ہی ان کو ڈسکسس کیا گیاہے- شاید تحریر میں کمی رہ گیئی کہ مناسب طریقہ سے اصل موضوع قارئین کو نظر نہیں آتا ، یا وہ اپنے طرف سے خیال (Preconceived) میں گم ہوجاتےہیں- لہٰذا ضروری ہے کہ ایک "گائیڈ لائن" مہیا کی جایے : "قرآن کی طرف واپسی" مقالہ کا ، تھیم ، ٹاپک موضوع، عنوان، سبجیکٹ یہ ہے کہ : 1.جن اصحابہ کی سنت کو پکڑنے کا رسول ﷺ نے حکم فرمایا ۔۔۔ جنہوں نے قرآن کی کتابت کروائی.. کاتب وحی و حافظ قرآن اور دو ذاتی شہادتوں کے ساتھ قرآن کو محفوظ کیا جو کہ رسول ﷺ چھوڑ گیے تھے۔ انہی صحابہ میں سے حضرت عمر رضی الله نے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ ، کیونکہ پہلی امتیں کتاب اللہ کے مقابل دوسری کتب لاکر برباد ہوئیں، لہذا کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب نہی۔ ہو گی۔۔۔ انکےپاس رسول ﷺ کی طرف سے اتھارٹی تھی- وہ صرف سیاسی حکمران نہ تھے بلکہ دینی رہنما بھی تھے ، خلفاء راشدین کا یہ خصوصی اعزاز ہے، جنہوں نے اہم دینی فیصلے کیےجن پر آج تک عمل ہو رہا ہے . تفصیل کتابوں میں موجود ہے-
Hazrat Umar was authorised by Prophet ﷺ to take decisions, he was not merely a political head but also religious and spiritual leader , mujtahid.
2.یہود اور مسیحت کی کتب کا تجزیہ مقالہ میں موجود ہے، جو حضرت عمر رضی الله کے اس درست فیصلہ کا زندہ ثبوت ہے ۔۔ جس کوسب نظر انداز کردیتے ہیں- کوئی اس پر بات نہیں کرتا کیوں ؟ 3. قرآن کے ساتھ احادیث کی 51 کتب کا تجزیہ اور پہلی اقوام سے مماثلت اور ترجیحات ، فرقہ واریت ، سب کچھ حضرت عمر رضی الله اور خلفاء راشدین کے فیصلہ کی درستگی، ان کی ذہانت ، فراست کا زندہ ثبوت کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ 4.پرویز یا غامدی یا کوئی چکڑالوی،یا کوئی " دو اسلام" والے برق صاحب ۔۔ ان کے تھیم مختلف ہیں ۔۔۔ 5. "مقالہ قرآن کی طرف واپسی" میں دلائیل قرآن و سنت اور احادیث سے ہیں ۔۔۔ ان کا جواب بھی صرف قرآن سے دیا جا سکتا ہے ۔۔ جو "فرقان" ہے ۔۔۔ قرآن کے سامنے کسی شخصیت ، پیشوا کی کوئی حثیت نہیں چہ جا یکہ وہ قرآن و سنت سے دلیل پیش کرے ... 6. یہ مقالہ مصنف کی ذاتی تحقیق ہے ۔۔ یہ "تھیم" کسی سے کاپی نہیں گیا، قرآن اور سنت کے مطالعہ، تفکر، تدبر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ۔۔۔ اس لیے اس نیے تھیم کا جواب دینے کے لیے تحقیق کی ضرورت ہے- 7.دوسروں لوگوں کے نظریات کے جوابات ادھر نہیں لاگو کیے جا سکتے - 8. قرآن و سنت کو جھٹلانا ناممکن ہے ۔۔ انسان غلطی کرسکتا ہے ۔۔۔ اللہ غلطی نہیں کر سکتا ۔۔ اہل xxx کے بہت بڑے عالم جو قابل احترام ہیں ۔۔۔ ان سے بھی ان سولات کا جواب نہ مل سکا ۔۔۔ کچھ معلومات ادھر سے معلوم ہو سکتی ہے>> https://salaamone.com/islam-2/sectarianism/muslim 9. باعیث حیرت ہے کہ مسلمان قرآن و سنت اور خلفاء راشدین اور حضرت ابوبکر صدیق، عمر رضی اللہ کے فیصلے سے انکار بھی کرتے ہیں اور اور پھر واضح دلیل بھی نہیں دے سکتے ۔۔۔ اور یہ دعوی بھی کرتے ہیں ہم قرآن و سنت پر عمل کرتے ہیں؟ 10. کھل کر بات ہو ، کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ کا کتابت حدیث نہ کرنے کا فیصلہ(جسے باقی خلفاء راشدین نے بھی قبول کیا- اجماع خلفاء راشدین ) غلط تھا؟ 11. حضرت عمر رضی اللہ کا فیصلہ اگر درست تھا، جو کہ وقت نے بھی ثابت کیا کہ درست تھا (اگر نقصانات فائدہ سے زیادہ ہو تو پھر سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں) تو بحث کیسی؟ 12.جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ اور خلفاء راشدین کے فیصلہ کے بر خلاف سو یا دو سو سال بعد کتابت حدیث کی کیا انہوں نے درست کیا؟ 13. اگر درست کیا تو کیا انکار قرآن ، انکار سنت , انکار حدیث رسول ﷺ، انکار سنت خلفاء راشدین.. کسی اجماع سے جائز ہو سکتے ہیں؟ [عربی میں انکار کو "کفر" کہتے ہیں ، یہ شرعی اصطلاح بھی ہے، یھاں یہ مطلب نہیں . یہ مفتی صاحبان کا کام ہے ] 14۔ کیارسول ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ، عمر رضی الله اور خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کا نہیں فرمایا تھا؟ 15. کیا اللہ نے رسول اللہ کی اطاعت کا حکم نہیں دیا ؟ 16. کیا اللہ تعالی نے قرآن میں 4 آیات میں قرآن کے علاوہ کسی اور حدیث، کتاب کا انکار نہیں فرمایا ؟ 17. کیا انکار قرآن ، انکار سنت رسول ﷺ , انکار حدیث رسول ﷺ ، انکار سنت خلفاء راشدین.. کسی اجماع سے چاہے وہ کروڑوں علماء (مذہبی پیشوا ) کریں جائز ہو سکتے ہیں؟ [عربی میں انکار کو "کفر" کہتے ہیں ، یہ شرعی اصطلاح بھی ہے] 18. کیا قرآن نے نہیں فرمایا کہ یہود و نصاریٰ نے مذہبی پیشواؤں کو رب بنا لیا تھا … وہ ان کے کہنےپر حلال و حرام ، جائز و ناجائز مانتے تھے ؟ 19.کیا مسلمان بھی قرآن کی اس وارننگ کے باوجود اگر اپنے مذہبی پیشواؤں کی بات کو قرآن و سنت پر ترجیح دیتے ہیں، تو کیا یہ کھلا شرک نہیں کر رہے ؟ ہم کدھر کھڑے ہیں؟ کدھر جا رہے ہیں؟ یا اللہ ہم پر رحم فرما اور سینے کھول دے کہ ہم تیری ھدائیت قرآن کو کھلے دل سے عملی طور پر بھی قبول کر سکیں ۔۔ آمین
https://quransubjects.blogspot.com/2020/01/why-quran.html
References
- تورات اور تالمود Torah and Talmud : https://salaamone.com/torah-talmud/
- قرآن ، سنت ، حدیث : https://quransubjects.blogspot.com/2019/12/hadith-sunnah.html
- ، حضرت عمر (رضی الله
- https://salaamone.com/دو-اسلام-ڈاکٹر-غلام-جیلانی-برق/
- New Testament Statics: https://www.sacred-texts.com/bib/csj/csj001.htm
..