اسلام کے چھ بنیادی عقائد اور پانچ ارکان ہیں- پہلے چھ بنیادی عقائد:
ان عقائد کا ماخذ قرآن سے ہے :1.اللہ تعالیٰ پر ایمان 2.فرشتوں پر ایمان 3.کتابوں پر ایمان 4.رسولوں پر ایمان 5.یوم آخرت پر ایمان 6.تقدیر پر ایمان
1.اللہ تعالٰی پر اور اس کے رسول پر ایمان
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ …. ﴿۶۲﴾
با ایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالٰی پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں …..۔ [سورة النور 24 آیت: 62]
The believers are only those who believe in Allah and His Messenger and….. [ Surat un Noor: 24 Verse: 62]
لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾
ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتًا اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر قیامت کے دن پر فرشتوں پر کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں یتیموں مسکینوں مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے غلاموں کو آزاد کرے نماز کی پابندی اور زکٰوۃ کی ادائیگی کرے جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے تنگدستی دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے یہی سچّے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔ [سورة البقرة 2 آیت: 177]
Righteousness is not that you turn your faces toward the east or the west, but [true] righteousness is [in] one who believes in Allah , the Last Day, the angels, the Book, and the prophets and gives wealth, in spite of love for it, to relatives, orphans, the needy, the traveler, those who ask [for help], and for freeing slaves; [and who] establishes prayer and gives zakah; [those who] fulfill their promise when they promise; and [those who] are patient in poverty and hardship and during battle. Those are the ones who have been true, and it is those who are the righteous. [ Surat ul Baqara: 2 Verse: 177]
سب سے پہلے نیکی کی جڑ بنیاد بیان کردی گئی کہ یہ ایمان ہے ‘ تاکہ تصحیح نیت ہوجائے۔
١.ایمانیات میں سب سے پہلے اللہ پر ایمان ہے۔ یعنی جو نیکی کر رہا ہے وہ صرف اللہ سے اجر کا طالب ہے۔
٢.پھر قیامت کے دن پر ایمان کا ذکر ہوا کہ اس نیکی کا اجر دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں مطلوب ہے۔ ورنہ تو یہ سوداگری ہوگئی۔ اور آدمی اگر سوداگری اور دکانداری کرے تو دنیا کی چیزیں بیچے ‘ دین تو نہ بیچے۔ دین کا کام کر رہا ہے تو اس کے لیے سوائے اخروی نجات کے اور اللہ کی رضا کے کوئی اور شے مقصود نہ ہو۔
٣.یوم آخرت کے بعد فرشتوں
٤.کتابوں اور
٥.انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان کا ذکر کیا گیا۔
یہ مل کر ایک یونٹ بنتے ہیں۔ فرشتہ وحی کی صورت میں کتاب لے کر آیا ‘ جو انبیاء کرام ( علیہ السلام) پر نازل ہوئی۔ ایمان بالرسالت کا تعلق نیکی کے ساتھ یہ ہے کہ نیکی کا ایکّ مجسمہ ‘ ایک ماڈل ‘ ایک آئیڈیل اسوۂ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی صورت میں انسانوں کے سامنے رہے۔ ایسا نہ ہو کہ اونچ نیچ ہوجائے۔ نیکیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی جذبات میں ایک طرف کو نکل گیا اور کوئی دوسری طرف کو نکل گیا۔ اس گمراہی سے بچنے کی ایک ہی شکل ہے کہ ایک مکمل اسوہ سامنے رہے ‘ جس میں تمام چیزیں معتدل ہوں اور وہ اسوہ ہمارے لیے ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت ہے۔ نیکی کے ظاہر کے لیے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو معیار سمجھیں گے۔ جو شے جتنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی سیرت میں ہے ‘ اس سے زیادہ نہ ہو اور اس سے کم نہ ہو۔ کوشش یہ ہو کہ انسان بالکل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوۂ کاملہ کی پیروی کرے۔
لوگوں کے ذہنوں میں نیکی کے مختلف تصوّرات ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ وہ ہے جس کا نیکی کا تصور یہ ہے کہ بس سچ بولنا چاہیے ‘ کسی کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے ‘ کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے ‘ یہ نیکی ہے ‘ باقی کوئی نماز روزہ کی پابندی کرے یا نہ کرے ‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ! ایک طبقہ وہ ہے جس میں چورّ اُچکے ‘ گرہ کٹ ‘ ڈاکو اور بدمعاش شامل ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کرتے ہیں اور یہ کام ان کے ہاں نیکی شمار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جسم فروش خواتین بھی اپنے ہاں نیکی کا ایک تصور رکھتی ہیں ‘ وہ خیرات بھی کرتی ہیں اور مسجدیں بھی تعمیر کراتی ہیں۔
ہمارے ہاں مذہبی طبقات میں ایک طبقہ وہ ہے جو مذہب کے ظاہر کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اس کی روح سے ناآشنا ہوتا ہے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ مچھر چھانتے ہیں اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہیں۔ ان کے اختلافات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ رفع یدین کے بغیر نماز ہوئی یا نہیں ؟ تراویح آٹھ ہیں یا بیس ہیں ؟ باقی یہ کہ سودی کاروبار تم بھی کرو اور ہم بھی ‘ اس سے کسی کی حنفیتّ یا اہل حدیثیّت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ نیکی کے یہ سارے تصورات مسخ شدہ (perverted) ہیں۔
یہ آیت اس اعتبار سے قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے کہ نیکی کی حقیقت کیا ہے ‘ اس کی جڑ بنیاد کیا ہے ‘ اس کی روح کیا ہے ‘ اس کے مظاہر کیا ہیں ؟ پھر ان مظاہر میں اہم ترین کون سے ہیں اور ثانوی حیثیت کن کی ہے ؟ چناچہ اس ایک آیت کی روشنی میں قرآن کے علم الاخلاق پر ایک جامع کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ گویا اخلاقیات قرآنی (Quranic Ethics) کے لیے یہ آیت جڑ اور بنیاد ہے۔ نیکی کا جو ظاہر ہے وہ بھی نیکی ہے ‘ لیکن اصل شے اس کا باطن ہے۔ اگر باطن صحیح ہے تو حقیقت میں نیکی نیکی ہے ‘ ورنہ نہیں۔ (وَلٰکِنَّ الْبِرَّ ) (مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَآٰءِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج) ۔ [ماخوز بعد از ترمیم و اختصار- ڈاکٹر اسرار احمد ]
2. فرشتوں پر ایمان Believe in Angels
اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ ۟ وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۲۸۵﴾
رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالٰی کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان لائے یہ سب اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ [سورة البقرة 2 آیت: 285]
The Messenger has believed in what was revealed to him from his Lord, and [so have] the believers. All of them have believed in Allah and His angels and His books and His messengers, [saying], "We make no distinction between any of His messengers." And they say, "We hear and we obey. [We seek] Your forgiveness, our Lord, and to You is the [final] destination." [ Surat ul Baqara: 2 Verse: 285]
4&3.اللہ کی طرف سے پیغمبروں پر اور الہامی کتب پر ایمان Believe in Revealed Scriptures
قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ مَاۤ اُوۡتِیَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ ۖ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۶﴾
اے مسلمانوں! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز ابراہیم ، اسماعیل اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام ) اور دوسرے انبیاء ( علیہ السلام ) دیئے گئے ۔ ہم اُن میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے ، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں ۔ [سورة البقرة 2 آیت: 136]
Say, [O believers], "We have believed in Allah and what has been revealed to us and what has been revealed to Abraham and Ishmael and Isaac and Jacob and the Descendants and what was given to Moses and Jesus and what was given to the prophets from their Lord. We make no distinction between any of them, and we are Muslims [in submission] to Him." [Surat ul Baqara: 2 Verse: 136]
یعنی ایمان یہ ہے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی ملا یا نازل ہوا سب پر ایمان لایا جائے، کسی بھی کتاب یا رسول کا انکار نہ کیا جائے۔ کسی ایک کتاب یا نبی کو ماننا، کسی کو نہ ماننا، یہ انبیاء کے درمیان تفریق ہے جس کو جائز نہیں رکھا۔ البتہ عمل اب صرف قرآن کریم کے ہی احکام پر ہوگا۔ پچھلی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر نہیں کیونکہ ایک تو وہ اصلی حالت میں نہیں رہیں، تحریف شدہ ہیں، دوسرے قرآن نے ان سب کو منسوخ کردیا ہے-
(قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا باللّٰہِ ) (وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا) (وَمَآ اُنْزِلَ الآی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ ) (وَمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی) (وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ ج) (لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ز) ہم سب کو مانتے ہیں ‘ کسی کا انکار نہیں کرتے۔ ایک بات سمجھ لیجیے کہ ایک ہے تفضیل یعنی کسی ایک کو دوسرے سے زیادہ افضل سمجھنا ‘ یہ اور بات ہے ‘ اس کی نفی نہیں ہے۔ سورة البقرۃ ہی میں الفاظ آئے ہیں : (تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ) (آیت ٢٥٣) یہ سب رسول فضیلت دی ہم نے بعض کو بعض پر۔ جبکہ تفریق یہ ہے کہ ایک کو مانا جائے اور ایک کا انکار کردیا جائے۔ اور رسولوں میں سے کسی ایک کا انکار گویا سب کا انکار ہے۔ (وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ) ۔ ہم نے تو اسی کی فرماں برداری کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیا ہے-[ڈاکٹراسراراحمد]
قرآن ایک معجزہ : https://bit.ly/QuranMojza
5 .یوم آخرت پر ایمان :Believe in Resurrection and Day of Judgment
یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۱۴﴾
یہ اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان بھی رکھتے ہیں ، بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں ۔ یہ نیک بخت لوگوں میں سے ہیں ۔ [سورة آل عمران 3 آیت: 114]
6. مشیت الہی تقدیر پرایمان: Believe in Divine Decree, Will of Allah , Destiny
اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ حَسَنَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِکَ ؕ قُلۡ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ فَمَالِ ہٰۤؤُلَآءِ الۡقَوۡمِ لَا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ حَدِیۡثًا ﴿۷۸﴾
تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ پکڑے گی ، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے انہیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے انہیں کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں ۔[سورة النساء 4 آیت: 78]
موت اپنے وقت پر ہی آئے گی اور آ کے رہے گی : یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مسلمان تو درکنار کوئی کافر بھی انکار نہیں کرتا۔ یہاں اس حقیقت کے ذکر کا مقصود یہ ہے کہ اگر یہ کمزور دل مسلمان اس حقیقت کو ہر وقت سامنے رکھیں تو لڑائی سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ موت کا وقت بھی مقرر ہے اور جگہ بھی۔ لہذا اگر وہ تمہارا مقدر ہوچکی ہے تو گھر پر بھی یقینا آ کے رہے گی اور اگر تمہاری زندگی ابھی باقی ہے تو پھر میدان جنگ میں بھی یقینا موت نہیں آئے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ فائدہ ہو یا نقصان سب کچھ اللہ کی ہی طرف سے ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کے عقیدہ کا ایک اہم جزو ہے اور اس پر واضح دلیل یہی آیت ہے۔ نیز فرمایا:
وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾
حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے ۔ [سورة الصافات 37 آیت: 96]
اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور ان اعمال کو بھی جو تم کرتے ہو یعنی اگر فائدہ یا تکلیف کو اعمال ہی کا نتیجہ قرار دیا جائے تب بھی چونکہ تمہارے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے لہذا نفع و نقصان بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوا-[کیلانی ]
یعنی وہ مورتیاں اور تصویریں بھی جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے بناتے اور انہیں معبود سمجھتے ہو، یا مطلق تمہارا عمل جو بھی تم کرتے ہو، ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ اس سے واضح ہے کہ بندوں کے افعال کا خالق اللہ ہی ہے- بت پرستوں کی ذات اور اس ذات میں بت تراشی کی کاری گری یہ سب کچھ اللہ کا پیدا کیا ہے۔ اور اس کی مخلوق ہے۔ پھر ان بت پرستوں کو اتنی سمجھ نہیں۔ کہ مثلاً جس پتھر کے انہوں نے بت تراشے ہیں۔ بت تراشی سے پہلے تو وہ پتھر اللہ کی مخلوق میں داخل تھا۔ اب اس پتھر کی مورت بن گئی۔ تو اس میں یہ فوقیت کہاں سے آگئی۔ کہ اس کو مخلوقات کے دائرہ سے نکال کر خالق کا شریک ٹھہرایا جاوے۔ رہی یہ بات کہ جن اصلی صورتوں کی یہ مورتیں ہیں۔ ان کو خالق کا شریک ٹھہرا کر ان کی مورتوں کی تعظیم کی جاتی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہ سارے بت پرست جمع ہوجاویں۔ تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کی پیدا کی ہوئی ادنیٰ سی چیز بھی نہیں دکھا سکتے۔
{ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ } ” جبکہ اللہ نے پیدا کیا ہے تمہیں بھی اور جو کچھ تم بناتے ہو (اس کو بھی) ۔ “ یہ آیت حکمت اور فلسفہ قرآنی کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ انسان ” کا سب ِعمل “ تو ہے مگر ” خالق عمل “ نہیں ہے۔ مثلاً میں ارادہ کرتا ہوں کہ اپنے سامنے پڑا ہوا پیالہ اٹھائوں۔ اس میں ارادے کی حد تک تو مجھے اختیار ہے مگر اللہ کے اذن کے بغیر اس پیالے کو اٹھانا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اس میں بہت سے دوسرے عوامل بھی کارفرما ہوسکتے ہیں۔ میرے اٹھانے سے پہلے اس پیالے پر کوئی دوسری قوت بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وجہ سے میرا دماغ میرے ارادے یا فیصلے کو میرے ہاتھوں تک پہنچا بھی نہ پائے۔ بہر حال انسان کا عمل دخل اس حوالے سے صرف ارادے تک محدود ہے اور اسی ارادے کے مطابق ہی وہ سزا یا جزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ مگر یہ بات طے ہے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی واقعہ یا کوئی عمل وقوع پذیر نہیں ہوسکتا۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے ان لوگوں کو خاص طور پر بتایا گیا کہ تم نے ان بتوں کو اپنے ہاتھوں سے تراشا ہے نا ! لیکن تم لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ تم اپنے ہاتھوں سے کرتے ہو ‘ اور تمہارے جو بھی اعمال و اَفعال ہیں ان کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے۔[ڈاکٹراسرار احمد]
دین میں جبر نہیں :
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡن ۟ ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۵۶﴾
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں ، ہدایت ضلالت سے روشن ہو چکی ہے ، اس لئے جو شخص اللہ تعالٰی کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالٰی پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالٰی سننے والا جاننے والا ہے ۔ [سورة البقرة 2 آیت: 256]
...............
آزادی [Free Will] اور مجبوری [Destiny].. کی بحث بہت پرانی ہے- فرقہ قدریہ معتزلہ اور اہل سنت میں جس طرح اور چند مسئلوں میں بحث ہے اسی طرح یہ مسئلہ بھی بڑی بحث کا ہے۔ فرقہ قدریہ کا یہ مذہب ہے کہ بندہ جو کچھ کام کرتا ہے۔ وہ خود بندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ کام بندہ میں پیدا نہیں کئے۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ بندہ کی ذات اور سب اچھے برے بندہ کے کام اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ لیکن برے کام جب بندہ کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ناخوش ہوتا ہے۔ اور اچھے کام کرنے سے خوش ہوتا ہے۔ یہی سزاجزا کا فسلسفۂ ہے-
اس معاملہ پر احقر کی تحقیق کتاب میں موجود ہے […لنک…] مختصر.... تقدیر کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے ایک انسان کے اعمال پہلے سے طے (Pre-determined) کر رکھے ہیں جن کے مطابق وہ کسی کو جنت اور کسی کو جہنم میں ڈال دے گا۔ تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ سے ہر بات کا علم ہے۔ اس کے علم سے ہم نیک یا برے اعمال کرنے پر مجبور نہیں ہو جاتے۔ اگرچہ ہمارے افعال واعمال مشیت وتقدیر الہٰی کے مطابق ہیں اوراس کی قدرت اور ارادہ کے احاطہ سے ہرگز خارج نہیں ہیں لیکن اس نے یہ بات مقدر کردی ہے کہ اپنے اچھے برے اعمال میں ہم مختار ہیں اوراسی بناپر وہ ہمارے بارے میں ذمّہ داری وجوابدہی کاقائل ہے ۔اگرہم اپنے افعا ل میں بالکل بے اختیار ہوتے توتکلیف شرعی اور ذمّہ دارانہ جوابدہی کاکوئی مفہوم ہی باقی نہ رہتا،ہمارا اپنے اعمال کے سلسلہ میں کوئی اختیار نہ رکھنا تقدیر الہٰی کے خلاف ہے ۔ اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھا جاتا ہے کہ تجربہ کار اساتذہ کسی طالب علم کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ فیل ہو گا یا پاس۔ ان کے اس اندازے سے طالب علم کبھی مجبور نہیں ہو جاتا کہ وہ محنت نہ کرے۔ یہ تو ایک عام انسان کے اندازے کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم یقینی اور حتمی ہے لیکن وہ کسی شخص کو اچھے یا برے عمل پر مجبور نہیں کرتا۔ حضرت علی (رضی الله ) سے منسوب ہے کہ تقدیر کے سوال کے جواب میں آپ نے سوالی کو ایک پا ؤں اٹھانے کا کہا، پھر فرمایا دوسرا پاؤں اٹھاؤ، اس نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں میں گر جا ؤں گا- فرمایا تجھے آزادی ہے ایک حد تک، لا محدود نہیں-
اسلام کے بنیادی نظریات کی روشنی میں مسلم علماء نے فری ول (free will) پر ایک متوازن نظریہ قائم کیا ہے. مسلم اسپین کے عظیم عالم اور فلاسفر ابن رشد کے مطابق “انسانی اعمال کا ایک حصہ اس کے اپنے ارادہ کی آزادی پر منحصر ہے اور ایک حد تک ان عوامل پر جو اس کے بس سے ماورا ، با ہر ہیں. انسان اپنے عمل میں آزاد ہے مگر اس آزادی پر خارجی عوامل جن پر انسان کا کنٹرول نہیں ، اثر انداز ہوتے ہیں- ان خارجی عوامل کا مرکز قدرت کے قوانین ہیں ، صرف خدا کو ان کی ترتیب کا علم ہے – [آفتاب خان ]
5 .یوم آخرت پر ایمان :Believe in Resurrection and Day of Judgment
یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۱۴﴾
یہ اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان بھی رکھتے ہیں ، بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں ۔ یہ نیک بخت لوگوں میں سے ہیں ۔ [سورة آل عمران 3 آیت: 114]
They believe in Allah and the Last Day, and they enjoin what is right and forbid what is wrong and hasten to good deeds. And those are among the righteous. [ Surat Aal e Imran: 3 Verse: 114]
6. مشیت الہی تقدیر پرایمان: Believe in Divine Decree, Will of Allah , Destiny
اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ حَسَنَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِکَ ؕ قُلۡ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ فَمَالِ ہٰۤؤُلَآءِ الۡقَوۡمِ لَا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ حَدِیۡثًا ﴿۷۸﴾
تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ پکڑے گی ، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے انہیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے انہیں کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں ۔[سورة النساء 4 آیت: 78]
Wherever you may be, death will overtake you, even if you should be within towers of lofty construction. But if good comes to them, they say, "This is from Allah "; and if evil befalls them, they say, "This is from you." Say, "All [things] are from Allah ." So what is [the matter] with those people that they can hardly understand any statement? [ Surat un Nissa: 4 Verse: 78]
حقیقت یہ ہے کہ فائدہ ہو یا نقصان سب کچھ اللہ کی ہی طرف سے ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کے عقیدہ کا ایک اہم جزو ہے اور اس پر واضح دلیل یہی آیت ہے۔ نیز فرمایا:
وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾
حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے ۔ [سورة الصافات 37 آیت: 96]
While Allah created you and that which you do?" [Surat us Saaffaat: 37 Verse: 96]
اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور ان اعمال کو بھی جو تم کرتے ہو یعنی اگر فائدہ یا تکلیف کو اعمال ہی کا نتیجہ قرار دیا جائے تب بھی چونکہ تمہارے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے لہذا نفع و نقصان بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوا-[کیلانی ]
یعنی وہ مورتیاں اور تصویریں بھی جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے بناتے اور انہیں معبود سمجھتے ہو، یا مطلق تمہارا عمل جو بھی تم کرتے ہو، ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ اس سے واضح ہے کہ بندوں کے افعال کا خالق اللہ ہی ہے- بت پرستوں کی ذات اور اس ذات میں بت تراشی کی کاری گری یہ سب کچھ اللہ کا پیدا کیا ہے۔ اور اس کی مخلوق ہے۔ پھر ان بت پرستوں کو اتنی سمجھ نہیں۔ کہ مثلاً جس پتھر کے انہوں نے بت تراشے ہیں۔ بت تراشی سے پہلے تو وہ پتھر اللہ کی مخلوق میں داخل تھا۔ اب اس پتھر کی مورت بن گئی۔ تو اس میں یہ فوقیت کہاں سے آگئی۔ کہ اس کو مخلوقات کے دائرہ سے نکال کر خالق کا شریک ٹھہرایا جاوے۔ رہی یہ بات کہ جن اصلی صورتوں کی یہ مورتیں ہیں۔ ان کو خالق کا شریک ٹھہرا کر ان کی مورتوں کی تعظیم کی جاتی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہ سارے بت پرست جمع ہوجاویں۔ تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کی پیدا کی ہوئی ادنیٰ سی چیز بھی نہیں دکھا سکتے۔
{ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ } ” جبکہ اللہ نے پیدا کیا ہے تمہیں بھی اور جو کچھ تم بناتے ہو (اس کو بھی) ۔ “ یہ آیت حکمت اور فلسفہ قرآنی کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ انسان ” کا سب ِعمل “ تو ہے مگر ” خالق عمل “ نہیں ہے۔ مثلاً میں ارادہ کرتا ہوں کہ اپنے سامنے پڑا ہوا پیالہ اٹھائوں۔ اس میں ارادے کی حد تک تو مجھے اختیار ہے مگر اللہ کے اذن کے بغیر اس پیالے کو اٹھانا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اس میں بہت سے دوسرے عوامل بھی کارفرما ہوسکتے ہیں۔ میرے اٹھانے سے پہلے اس پیالے پر کوئی دوسری قوت بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وجہ سے میرا دماغ میرے ارادے یا فیصلے کو میرے ہاتھوں تک پہنچا بھی نہ پائے۔ بہر حال انسان کا عمل دخل اس حوالے سے صرف ارادے تک محدود ہے اور اسی ارادے کے مطابق ہی وہ سزا یا جزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ مگر یہ بات طے ہے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی واقعہ یا کوئی عمل وقوع پذیر نہیں ہوسکتا۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے ان لوگوں کو خاص طور پر بتایا گیا کہ تم نے ان بتوں کو اپنے ہاتھوں سے تراشا ہے نا ! لیکن تم لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ تم اپنے ہاتھوں سے کرتے ہو ‘ اور تمہارے جو بھی اعمال و اَفعال ہیں ان کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے۔[ڈاکٹراسرار احمد]
دین میں جبر نہیں :
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡن ۟ ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۵۶﴾
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں ، ہدایت ضلالت سے روشن ہو چکی ہے ، اس لئے جو شخص اللہ تعالٰی کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالٰی پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالٰی سننے والا جاننے والا ہے ۔ [سورة البقرة 2 آیت: 256]
There shall be no compulsion in [acceptance of] the religion. The right course has become clear from the wrong. So whoever disbelieves in Taghut and believes in Allah has grasped the most trustworthy handhold with no break in it. And Allah is Hearing and Knowing. [Surat ul Baqara: 2 Verse: 256]
دین (اسلام کے قبول کرنے) میں زبردستی (کا فِی نَفسِہ کوئی موقع) نہیں (کیونکہ) ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے (یعنی اسلام کا حق ہونا دلائل سے واضح ہوچکا ہے تو اس میں اکراہ کا موقع ہی کیا ہے، اکراہ تو غیر پسندیدہ چیز پر مجبور کرنے سے ہوتا ہے اور جب اسلام کی خوبی یقیناً ثابت ہے) تو جو شخص شیطان سے بداعتقاد ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ خوش اعتقاد (یعنی اسلام قبول کرلے) تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا جو کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والے ہیں (اقوال ظاہری کے) اور خوب جاننے والے ہیں (احوال باطنی کے) معارف و مسائل : اسلام کو مضبوط پکڑنے والا چونکہ ہلاکت اور محرومی سے محفوظ رہتا ہے اس لئے اس کو ایسے شخص سے تشبیہ دی جو کسی مضبوط رسی کا حلقہ ہاتھ میں مضبوط تھام کر گرنے سے مامون رہتا ہے اور جس اسلام میں کسی قسم کی ہلاکت اور خسران نہیں ہے اور خود کوئی اسلام کو ہی چھوڑ دے تو اور بات ہے (بیان القرآن) اس آیت کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں زبردستی نہیں ہے حالانکہ اسلام میں جہاد اور قتال کی تعلیم اس کے معارض ہے۔ اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اعتراض صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اسلام میں جہاد اور قتال کی تعلیم لوگوں کو قبول ایمان پر مجبور کرنے کے لیے نہیں ہے ورنہ جزیہ لے کر کفار کو اپنی ذمہ داری میں رکھنے اور ان کی جان ومال وآبرو کی حفاظت کرنے کے اسلامی احکام کیسے جاری ہوتے بلکہ دفع فساد کے لئے ہے کیونکہ فساد اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے جس کے درپے کافر رہتے ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ (٦٤: ٥) یہ لوگ زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد اور قتال کے ذریعے سے ان لوگوں کے فساد کو دور کرنے کا حکم دیا ہے پس ان لوگوں کا قتل ایسا ہی ہے جیسے سانپ، بچھو اور دیگر موذی جانوروں کا قتل۔ اسلام نے عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور اپاہج وغیرہ کے قتل کو عین میدان جہاد میں بھی سختی سے روکا ہے کیونکہ وہ فساد کرنے پر قادر نہیں ہوتے ایسے ہی ان لوگوں کے بھی قتل کرنے کو روکا ہے جو جزیہ ادا کرنے کا وعدہ کرکے قانون کے پابند ہوگئے ہوں۔ اسلام کے اس طرز عمل سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ جہاد اور قتال سے لوگوں کو ایمان قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ اس سے وہ دنیا میں ظلم وستم کو مٹا کر عدل و انصاف اور امن وامان قائم رکھنا چاہتا ہے، حضرت عمر نے ایک نصرانی بڑھیا کو اسلام کی دعوت دی تو اس کے جواب میں اس نے کہا اَنَا عَجُوزٌ کبَیرۃ والمَوت الی قریبٌ، یعنی میں ایک قریب المرگ بڑہیا ہوں آخری وقت میں اپنا مذہب کیوں چھوڑوں ؟ حضرت عمر نے یہ سن کر اس کو ایمان پر مجبور نہیں کیا بلکہ یہی آیت تلاوت فرمائی لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ یعنی دین میں زبردستی نہیں ہے۔ درحقیقت ایمان کے قبول پر جبر واکراہ ممکن بھی نہیں ہے اس لئے کہ ایمان کا تعلق ظاہری اعضاء سے نہیں ہے بلکہ قلب کے ساتھ ہے اور جبرو اکراہ کا تعلق صرف ظاہری اعضاء سے ہوتا ہے اور جہاد و قتال سے صرف ظاہری اعضاء ہی متأثر ہوسکتے ہیں لہذا اس کے ذریعہ سے ایمان کے قبول کرنے پر جبر ممکن ہی نہیں ہے اس سے ثابت ہوا کہ آیات جہاد و قتال آیت لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے معارض نہیں ہیں (مظہری، قرطبی) .[معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع ]...............
آزادی [Free Will] اور مجبوری [Destiny].. کی بحث بہت پرانی ہے- فرقہ قدریہ معتزلہ اور اہل سنت میں جس طرح اور چند مسئلوں میں بحث ہے اسی طرح یہ مسئلہ بھی بڑی بحث کا ہے۔ فرقہ قدریہ کا یہ مذہب ہے کہ بندہ جو کچھ کام کرتا ہے۔ وہ خود بندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ کام بندہ میں پیدا نہیں کئے۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ بندہ کی ذات اور سب اچھے برے بندہ کے کام اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ لیکن برے کام جب بندہ کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ناخوش ہوتا ہے۔ اور اچھے کام کرنے سے خوش ہوتا ہے۔ یہی سزاجزا کا فسلسفۂ ہے-
اس معاملہ پر احقر کی تحقیق کتاب میں موجود ہے […لنک…] مختصر.... تقدیر کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے ایک انسان کے اعمال پہلے سے طے (Pre-determined) کر رکھے ہیں جن کے مطابق وہ کسی کو جنت اور کسی کو جہنم میں ڈال دے گا۔ تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ سے ہر بات کا علم ہے۔ اس کے علم سے ہم نیک یا برے اعمال کرنے پر مجبور نہیں ہو جاتے۔ اگرچہ ہمارے افعال واعمال مشیت وتقدیر الہٰی کے مطابق ہیں اوراس کی قدرت اور ارادہ کے احاطہ سے ہرگز خارج نہیں ہیں لیکن اس نے یہ بات مقدر کردی ہے کہ اپنے اچھے برے اعمال میں ہم مختار ہیں اوراسی بناپر وہ ہمارے بارے میں ذمّہ داری وجوابدہی کاقائل ہے ۔اگرہم اپنے افعا ل میں بالکل بے اختیار ہوتے توتکلیف شرعی اور ذمّہ دارانہ جوابدہی کاکوئی مفہوم ہی باقی نہ رہتا،ہمارا اپنے اعمال کے سلسلہ میں کوئی اختیار نہ رکھنا تقدیر الہٰی کے خلاف ہے ۔ اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھا جاتا ہے کہ تجربہ کار اساتذہ کسی طالب علم کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ فیل ہو گا یا پاس۔ ان کے اس اندازے سے طالب علم کبھی مجبور نہیں ہو جاتا کہ وہ محنت نہ کرے۔ یہ تو ایک عام انسان کے اندازے کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم یقینی اور حتمی ہے لیکن وہ کسی شخص کو اچھے یا برے عمل پر مجبور نہیں کرتا۔ حضرت علی (رضی الله ) سے منسوب ہے کہ تقدیر کے سوال کے جواب میں آپ نے سوالی کو ایک پا ؤں اٹھانے کا کہا، پھر فرمایا دوسرا پاؤں اٹھاؤ، اس نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں میں گر جا ؤں گا- فرمایا تجھے آزادی ہے ایک حد تک، لا محدود نہیں-
اسلام کے بنیادی نظریات کی روشنی میں مسلم علماء نے فری ول (free will) پر ایک متوازن نظریہ قائم کیا ہے. مسلم اسپین کے عظیم عالم اور فلاسفر ابن رشد کے مطابق “انسانی اعمال کا ایک حصہ اس کے اپنے ارادہ کی آزادی پر منحصر ہے اور ایک حد تک ان عوامل پر جو اس کے بس سے ماورا ، با ہر ہیں. انسان اپنے عمل میں آزاد ہے مگر اس آزادی پر خارجی عوامل جن پر انسان کا کنٹرول نہیں ، اثر انداز ہوتے ہیں- ان خارجی عوامل کا مرکز قدرت کے قوانین ہیں ، صرف خدا کو ان کی ترتیب کا علم ہے – [آفتاب خان ]
مزید پڑھیں ...
Philosophers Criticism of God -Refuted: https://salaamone.com/god-criticism-4
UNDAMENTALS OF FAITH
FAITH/ BELIEF
- Belief
- Believers, 2:2-5, 2:285, 8:2-4, 8:24
- Angels, 2:30-34, 2:98, 2:285, 4:97, 8:50, 13:23, 21:108, 22:75, 25:22, 25:25, 32:11, 33:43, 33:56, 34:40, 35:1, 37:150, 38:71, 39:75, 41:14, 41:30, 42:5, 43:53, 43:60, 47:27, 53:26, 66:4, 66:6, 69:17, 70:4, 89:22, 97:4
- Gabriel, 2:97, 66:4
- eight will bear Allah’s throne aloft on Judgement Day, 69:17
- false claim that they are female, 43:19, 53:27
- “guardian”, 82:10-12, 86:4
- nineteen lord over hell, 74:30-31
- not sent to satisfy whims, 15:7-8
- sent to inspire, 16:2
- Fasting, 2:183-184
- abstention from quarreling during, 2:197
- duty to visit Mecca (Makkah), 3:97
- exemption from, 2:196
- fasting during, 2:196
- hunting forbidden, 5:1, 5:94-95
- rules, 5:2
- sacrifice during, 2:196
FAITH IN UNSEEN
HEAVEN
- filled with mighty guards and flames, 72:8
- immortal youths in, 56:17, 76:19
- parents united with offspring, 52:21, 56:36
- pure spouses in, 2:25, 3:15
- Ruby, 55:58
- several, 2:29, 2:164, 3:129, 6:73, 6:101, 17:44, 55:30, 65:12, 67:3, 71:15, 78:12
- Pearls, 35:33, 52:24, 55:22, 55:58, 56:23, 76:19
- virgin mates of modest gaze, 55:56, 55:72-74, 56:22
- Pomegranates, 55:68
- HELL
- Hell (the fire, the blazing flame), 2:24, 2:119, 2:161, 2:166, 2:201, 3:10, 3:12, 3:116, 3:131, 3:151, 3:162, 3:192, 4:55-56, 4:93, 4:97, 4:114, 4:121, 4:169, 5:10, 5:37, 5:72, 5:86, 6:27, 6:70, 6:128, 7:18, 7:36, 7:38, 7:41, 7:50, 7:179, 8:16, 8:36, 8:50, 9:17, 9:35, 9:49, 9:63, 9:68, 9:73, 9:81, 9:95, 9:109, 9:113, 10:8, 10:27, 11:16, 11:17, 11:98, 11:106, 11:113, 11:119, 13:5, 13:18, 13:35, 14:16, 14:49, 15:43, 16:29, 16:62, 17:8, 17:18, 17:39, 17:63, 17:97, 18:29, 18:53, 18:100, 18:106, 19:68, 19:70, 19:86, 20:74, 21:39, 21:98, 22:4, 22:9, 22:19-22, 22:51, 22:72, 23:103-104, 24:57, 25:11-13, 25:34, 25:65, 26:91, 26:94, 27:90, 28:41, 29:25, 29:54, 29:68, 31:21, 32:13, 32:20, 33:64, 33:66, 34:12, 34:42, 35:6, 35:36, 36:63, 37:10, 37:23, 37:55, 37:63, 37:68, 37:163, 38:27, 38:56, 38:59, 38:61, 38:64, 38:85, 39:8, 39:16, 39:19, 39:32, 39:60, 39:71, 39:72, 40:6, 40:7, 40:41, 40:43, 40:46, 40:47, 40:49, 40:60, 40:72, 40:76, 41:19, 41:24, 41:28, 41:40, 42:7, 43:74, 44:47, 44:56, 45:10, 45:34, 45:35, 46:20, 46:34, 47:12, 47:15, 48:6, 48:13, 50:24, 50:30, 51:13, 52:13-16, 52:18, 54:48, 55:43, 56:94, 57:15, 57:19, 58:8, 58:17, 59:3, 59:17, 59:20, 64:10, 66:6, 66:9, 66:10, 67:5-10, 69:31, 70:15, 71:25, 72:15, 72:23, 73:12-13, 74:26-31, 74:42, 76:4, 77:31, 78:21, 79:36, 79:39, 81:12, 82:14, 83:16, 84:12, 85:10, 87:12, 88:4, 89:23, 90:20, 92:14, 98:6, 101:9-11, 102:6, 104:6-9, 111:3
- burning despair and ice cold darkness in, 38:57
- chain of 70 cubits, 69:32
- Tree of hell, 17:60, 37:62-63, 56:52
- inmates will neither die nor remain alive, 87:13
- stay for a limited duration, 78:23
- Hearing, 41:22
Jinn, 6:100, 6:112, 6:128, 6:130, 7:179, 11:119, 15:27, 17:88, 18:50, 27:17, 32:13, 34:12, 34:14, 37:158, 41:25, 41:29, 46:18, 46:29, 51:56, 55:15, 55:33, 55:39, 55:56, 55:74, 72:1-15, 72:5, 72:6, 114:6
Iblis (Satan), 2:34, 3:155, 3:175, 4:38, 4:60, 4:76, 4:116, 4:119-120, 4:140, 4:145, 5:90, 5:91, 6:38, 6:43, 6:68, 7:11-12, 7:20, 7:21, 7:27, 7:175, 7:200, 7:201, 8:11, 8:48, 12:5, 12:42, 12:100, 14:22, 15:31-40, 16:63, 16:98, 17:27, 17:53, 17:61, 17:64, 18:50, 18:63, 19:44, 19:45, 20:116, 20:120, 22:52, 22:53, 24:21, 25:29, 26:95, 27:24, 28:15, 29:38, 31:21, 34:20-21, 35:6, 36:60, 37:65, 38:41, 38:74-85, 41:36, 43:62, 47:25, 58:10, 58:19, 59:16
DAY OF JUDGEMENT
don’t let hate lead judgement astray, 5:8
- Day, 2:123, 2:177, 2:254, 3:9, 3:25, 3:106, 3:114, 4:41, 4:59, 4:136, 5:69, 5:119, 6:15-16, 6:40, 6:128, 7:8, 7:53, 7:187, 9:29, 9:35, 9:44, 9:45, 9:77, 9:99, 10:15, 10:28, 11:3, 11:8, 11:25, 11:84, 11:103, 11:105, 12:107, 14:21, 14:29, 14:30, 14:41, 14:42, 14:44, 14:48, 14:49, 15:36, 15:38, 16:77, 16:84, 16:87, 16:89, 16:111, 17:71, 17:104, 18:99, 18:100, 19:37-39, 19:75, 19:85, 20:15, 20:105-112, 21:49, 21:103-104, 22:2-7, 22:55-56, 24:37, 25:8, 25:11, 26:82, 27:83, 30:12, 30:14, 30:55, 32:14, 33:21, 33:44, 33:63, 33:66, 34:3, 37:20, 38:16, 38:26, 38:53, 39:13, 40:9, 40:27, 40:33, 40:51, 40:59, 42:7, 43:66, 43:83, 43:85, 44:40, 45:27, 45:32, 45:34, 45:35, 47:18, 50:20, 51:12, 52:45, 54:46, 54:48, 56:56, 58:22, 60:6, 64:9, 69:19-37, 70:26, 74:46, 76:7, 77:13-14, 77:38, 78:17, 79:6-14, 81:1-14, 82:15, 83:11, 99:1-8, 101:1
- messengers called together, 77:11
- are disbelievers really ready for, 10:51-52
- repentence then is too late, 40:85
- “children’ hair turns grey”, 73:17
- earth
- flash of fire followed by smoke, 55:35
- moon split asunder, 54:1
- mountains
- seas will burst beyond their bounds, 82:3
- skies
- stars
- three types of soul to judge
MONOTHEISM
- Believe no one besides Allah, 25:68
- Attributes of Allah
- Monotheism
- Polytheism
- Apostasy
The Prophets:
- purpose of, 2:213, 6:48, 6:130, 14:4-6
- prophecy in language of target population, 14:4, 16:89
- some not mentioned, 40:78
- some superior, 2:253, 17:55
- people who are false prophets are wicked, 6:93, 6:143-144, 6:157, 7:37, 10:17, 11:18, 29:68, 39:32, 61:7
PROPHET MUHAMMED (PBUH)
The Prophet Muhammad (pbuh)
- has come to you, 9:128
- only mortal human, 12:109, 16:43, 21:7-8, 25:7
- accept him who confirms earlier revelation, 3:81
- miracles only by Allah’s leave, 40:78
- has highest claim on allegiance of believers, 33:6
- charity during consultation with, 58:12
- don’t acquire slaves except through war, 8:67
- don’t raise your voice above, 49:2
- keeps awake 2/3 1/2 or 1/3 of the night praying, 73:20
- those who came before had wives and children, 13:38
- wives
- admonished, 33:37, 66:1, 75:16-19, 80:1-10
- as judge for followers, 4:65
- dares not alter the Qur’an nor act contrarily, 10:15
- Prophet’s household, 33:53, 49:4-5
- divorce, 33:52
- exemptions from “regular” marriage laws, 33:51
- Quraysh, 106:1
- like of a pretty woman, 33:52
- marriage
- mystical ascension, 53:6-18
- not a madman, 7:184, 52:29, 68:2, 81:22
- only a prophet, 3:144, 6:50, 7:188
- prayed for non-believing Uncle (enjoined not to), 9:113
- reacted against something lawful, 66:1
- summons from, 24:63
- taking leave of, 24:62
- unlettered prophet, 7:157, 7:158, 62:2
- visiting wives, 3:51
- widowed wives not allowed to remarry, 33:53
- Materialism and the Prophet’s wives, 33:28
- Ahmad, 61:6
- Lote tree, 53:14, 53:16, 56:28