الله کے نزدیک انسانی جان کی حرمت بہت اہم ہے، اس سلسلے میں 'فساد فی الارض' قرآن مجید کی خاص اصطلاح ہے:
مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اَنَّہٗمَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا. وَلَقَدْ جَآءَ تْہُمْ رُسُلُنَا بِالبَیِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ. اِنَّمَا جَزآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗوَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلاَفٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْْہِمْ فَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. [سورۂ مائدہ (۵) کی آیات ۳۲۔ ۳۴، ]
''اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جس نے کسی ایک انسان کو کسی دوسرے انسان کی جان لینے یا زمین میں فساد برپا کرنے کے علاوہ قتل کیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندہ رکھا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔ اور یقیناًان کے پاس ہمارے رسول واضح دلائل لے کر آئے، لیکن اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرتے اور زمین میں فساد پھیلانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انھیں عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے، یا انھیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلاوطن کر دیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے، جبکہ آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے، البتہ جو مجرم تمھارے ان پر قابو پانے سے پہلے توبہ کرلیں تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔'' [سورۂ مائدہ (۵) کی آیات ۳۲۔ ۳۴، ]
ان میں 'فساد فی الارض' کی تعبیر استعمال ہوئی ہے جو قرآن مجید کی خاص اصطلاح ہے۔
فساد ، لفظ ، سہ رخی جڑ قرآن مجید میں 50 مرتبہ , چار اخذ کردہ شکلوں میں پائیا جاتا ہے۔ (ا ) جب میں فعل فاسداتی کے طور پر تین بار (فَسَدَتِ) (٢) فعل "افسادو" کے طور پر 15 بار (أَفْسَدُ) ، ( ٣ ) بطور اسم 11 مرتبہ (فَسَاد)، (٤) فارم فعال 21 مرتبہ (مففسِد)-
لفظ " فساد" قرآن میں 11 مرتبہ ١١ آیات میں استعمال ہوا
1. وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿البقرة: ٢٠٥﴾
جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالٰی فساد کو ناپسند کرتا ہے ۔ ﴿البقرة: ٢٠٥)
جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالٰی فساد کو ناپسند کرتا ہے ۔ ﴿البقرة: ٢٠٥)
2. مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ ﴿المائدة: ٣٢﴾
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو ، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا ، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں کہ اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے ۔ ﴿المائدة: ٣٢﴾
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو ، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا ، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں کہ اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے ۔ ﴿المائدة: ٣٢﴾
3. إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿المائدة: ٣٣﴾
جو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں ۔ یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے یہ تو ہوئی انکی دنیاوی ذلت اور خواری اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے ۔ ﴿المائدة: ٣٣﴾
جو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں ۔ یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے یہ تو ہوئی انکی دنیاوی ذلت اور خواری اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے ۔ ﴿المائدة: ٣٣﴾
4. وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّـهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّـهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿المائدة: ٦٤﴾
اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالٰی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں انہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ، بلکہ اللہ تعالٰی کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے وہ ان میں سے اکثر کو تو سرکشی اور کفر میں اور بڑھا دیتا ہے اور ہم نے ان میں آپس میں ہی قیامت تک کے لئے عداوت اور بغض ڈال دیا ہے ، جب کبھی لڑائی کی آگ کو بھڑکانا چاہتے ہیں تو اللہ تعالٰی اسے بجھا دیتا ہے ۔ یہ ملک بھر میں شر اور فساد مچاتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالٰی فسادیوں سے محبت نہیں کرتا- ﴿المائدة: ٦٤﴾
اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالٰی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں انہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ، بلکہ اللہ تعالٰی کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے وہ ان میں سے اکثر کو تو سرکشی اور کفر میں اور بڑھا دیتا ہے اور ہم نے ان میں آپس میں ہی قیامت تک کے لئے عداوت اور بغض ڈال دیا ہے ، جب کبھی لڑائی کی آگ کو بھڑکانا چاہتے ہیں تو اللہ تعالٰی اسے بجھا دیتا ہے ۔ یہ ملک بھر میں شر اور فساد مچاتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالٰی فسادیوں سے محبت نہیں کرتا- ﴿المائدة: ٦٤﴾
5. وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ ﴿الأنفال: ٧٣﴾
6. فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ ﴿هود: ١١٦﴾
7. وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿القصص: ٧٧﴾
8. تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴿القصص: ٨٣﴾
9. ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿الروم: ٤١﴾
10. وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ ﴿غافر: ٢٦﴾
11. فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ ﴿الفجر: ١٢﴾
فساد ایک وسیع اصطلاح ہے، مطلب یہ ہے کہ:
1. انسان اس زمین پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا رویہ ترک کر کے سرکشی پر اتر آئے اور
2. اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کی پاس داری کے بجاے انھیں پامال کرنا شروع کر دے۔
3. اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی تخلیق کی غایت یہ بیان کی ہے کہ وہ خداے واحد کی عبادت اور اطاعت کریں۔[الذاریات ۵۱: ۵۶۔] یہ ذمہ داری ظاہر ہے اسی صورت میں پوری ہو سکتی ہے جب انسان خدا کی وحدانیت اور حاکمیت کے پورے اعتراف کے ساتھ اس کی بندگی بجا لائے اور اس کے مقرر کردہ حدود وقیود کے اندر زندگی بسر کرے۔ زمین کو انسان کا مستقر بنانے اور اس میں اس کو اختیار و اقتدار بخشنے کا مقصد بھی اسی پہلو سے انسان کی آزمایش ہے کہ وہ اس اختیار کو خدا کی مرضی کی موافقت میں استعمال کرتے ہوئے زمین کو صلاح کا گہوارہ بناتا ہے یا رضاے الٰہی سے انحراف کرتے ہوئے اس میں 'فساد' کی آگ بھڑکاتا ہے۔
4.چنانچہ انسان کی تخلیق اور اس کی آزمایش کی اسکیم سے جب فرشتوں کو مطلع کیا گیا تو انھوں نے انسان کے متوقع رویے اور طرز عمل کو 'فساد فی الارض' ہی سے تعبیر کرتے ہوئے اس پر اپنے خدشات کا اظہار کیا[ البقرہ ۲: ۳۰ ] ۔
قرآن مجید نے دنیا میں انسان کو درپیش امتحان میں کامیابی اور اس کے بدلے میں آخرت کی نعمتوں کے استحقاق کا معیار بھی اسی 'فساد فی الارض' سے بچنے کو قرار دیا ہے:
تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ .(القصص ۲۸: ۸۳)
''یہ آخرت کا گھر، اس کا حق دار ہم خاص انھی لوگوں کو بنائیں گے جو نہ زمین میں سرکش ہو کر رہنا چاہتے ہیں اور نہ فساد برپا کرنااور کامیابی تو انجام کار پرہیزگاروں ہی کے لیے ہے۔''
دنیا میں جن قوموں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا، ان سب کی جامع فرد قرارداد جرم بیان کرنے کے لیے بھی یہی تعبیر استعمال ہوئی ہے:
فَلَوْلاَ کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُوْلُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ قَلِیْلاً مِّمَّنْ اَنْجَیْْنَا مِنْہُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِیْہِ وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ.(ہود۱۱: ۱۱۶)
''تو کیوں نہ ایسا ہوا کہ تم سے پہلے جو قومیں تھیں، ان میں ایسے عقل مند ہوتے جو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ بہت کم تھے اور یہ وہ تھے جنھیں ہم نے ان میں سے (عذاب سے) محفوظ رکھا، جبکہ ظالم اس سامان عیش وعشرت کے پیچھے لگے رہے جو انھیں دیا گیا تھا اور وہ مجرم تھے۔''
قرآن مجید میں مختلف مقامات پر 'فساد فی الارض' کا اطلاق
قرآن مجید میں مختلف مقامات پر 'فساد فی الارض' کا اطلاق اعتقادی کج روی، اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری سے بے نیاز ہو کر زندگی بسر کرنے، اخلاقی وشرعی حدود کو پامال کرنے، اللہ کے عائد کردہ معاشرتی حقوق کو نظر انداز کرنے، کسی معاملے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے روبہ عمل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بننے یا اس کی مرضی اور منشا کے علی الرغم روش اختیار کرنے، لوگوں کو اللہ کے دین سے روکنے، دوسرے انسانوں کے جان ومال کے درپے ہو جانے، ان کی عزت وآبرو اور آزادئ دین ومذہب پر تعدی کرنے، مال ودولت اور ملک گیری کی ہوس میں دوسری قوموں پر حملے کرنے اور اپنی سرکشی اور عدوان سے انسانی معاشرے کے امن وامان کو تباہ کرنے کی کوششوں پر ہوا ہے۔
[البقرہ۲: ۱۱، ۲۷، ۳۰، ۶۰۔ آل عمران ۳: ۶۳۔ الاعراف۷: ۵۵۔۵۶، ۷۴، ۸۵۔ الانفال۸: ۷۳۔ یوسف۱۲: ۷۳۔ الرعد ۱۳: ۲۵۔ بنی اسرائیل۱۷: ۴۔ الکہف ۱۸: ۹۴۔ الشعراء ۲۶: ۱۸۳۔ القصص ۲۸: ۴، ۷۷۔ العنکبوت۲۹: ۳۶۔ المومن ۴۰: ۲۶۔ الفجر ۸۹: ۱۱۔۱۲۔]
اس اعتبار سے دیکھیے تو عقیدہ وعمل اور اخلاق وکردار کا ہر انحراف درحقیقت 'فساد فی الارض' ہے اور قرآن نے متعدد مقامات پر اس تعبیر کو ایمان اور عمل صالح یا محض 'اصلاح' کے تقابل میں استعمال کر کے اس کے جامع مفہوم کو پوری طرح واضح کر دیا ہے۔ [الشعراء۲۶: ۱۵۲۔ النمل۲۷: ۸۔]
مثلاً سورۂ ص میں ارشاد ہوا ہے:
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ.(۳۸: ۲۸)
''کیا ہم ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے والوں کا انجام ان کی طرح کر دیں گے جو زمین میں فساد مچاتے رہے؟ یا کیا ہم پرہیز گاروں اور بدکاروں کے ساتھ یکساں معاملہ کریں گے؟''
'فساد فی الارض' کا یہ مفہوم پیش نظر رہے تو بآسانی واضح ہوگا کہ 'مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ'کی زیر بحث آیت میں عطف العام علی الخاص کا اسلوب پایا جاتا ہے۔ قتل دراصل 'فساد فی الارض' ہی کی ایک صورت ہے جسے نمایاں کرنے کی غرض سے الگ ذکر کر کے اس پر اس عمومی اصول، یعنی 'فساد فی الارض' کو عطف کر دیا گیا ہے جس کے تحت قتل سمیت باقی تمام صورتیں بھی مندرج ہو جاتی ہیں۔
منشاے کلام یہ ہے کہ کسی انسان کی جان کسی حق ہی کے تحت لی جا سکتی ہے اور ناحق کسی کی جان لینا ایسا ہی ہے جیسے ساری انسانیت کو قتل کر دینا۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر یہی بات 'لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ' [بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳۔] کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ گویا زیر بحث آیت 'اِلَّا بِالْحَقِّ' کی تفسیر کرتی اور یہ بتاتی ہے کہ 'فساد فی الارض' وہ بنیاد ہے جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کی جان لینے کی اجازت دی ہے اور جو کسی انسان کے قتل کو قتل بالحق بناتی ہے۔
"فساد فی الارض" ''نوع انسانی'' کی سب سے بڑی بد نصیبی بلکہ کائنات کی ہر چیز کی سیاہ بختی کی بات ہے، کیونکہ تخریب اور تخریب کاری انسان کی سیاہ کاری کا نتیجہ ہوتی ہے اور بطور سزا اور قہرِ الٰہی کے پھلتی پھولتی اور پھیلتی ہے۔
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ(پارہ۲۱۔ الروم۔ ع۵)
گو خدا کی زمین میں یہ بگاڑ اور خرابی ایک سزا اور قہرِ الٰہی ہے، لیکن اس سے غرض بندوں کی مکمل تباہی نہیں ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ مزہ چکھ کر شاید لوٹ آئیں اور سیدھی راہ پر پڑ جائیں۔
لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ (پ۲۱۔ الروم۔ ع۵)
تخریب کاری اور فساد فی الارض ایک ایسا الزام ہے جسے کوئی بھی شخص قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، جو واقعۃً مفسد لوگ ہیں، وہ بھی اپنا الزام دوسرے کے سر دھرتے ہیں، خود اپنی کوتاہی کا اعتراف نہیںکرتے، بلکہ وہ اپنے آپ کو ریفارمر اور مصلح بھی کہتے ہیں۔
وَاِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ (پ۱۔ البقرہ۔ ع۲)
بلکہ ملک و ملت میں جو لوگ صحیح معنی میں مصلحین اور صالحین ہوتے ہیں، الٹا ان کو بدنام کرنے میں مصروف رہتے ہیں تاکہ دنیا کی توجہ ان اہلِ فساد کی طرف سے ہٹ جائے۔
وَقَالَ الْمَلأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَقَوْمَه لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ (الاعراف۔ ع۱۵)
یہ ''الملأ'' قوم کا اونچا طبقہ تھا، جو فرعون کی خصوصی کابینہ سے تعلق رکھتا تھا یعنی بائیں بازو کے لوگ تھے اور تہمتِ فساد اللہ کے نبی پر لگا رہے تھے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ اُف
ہم چاہتے ہیں کہ کسی پر اپنی طرف سے فساد اور تخریب کاری کا الزام عائد کرنے کے بجائے، خدا کے قرآن سے ایک ایسا آئینہ آپ کو مہیا کیا جائے، جس میں ہر وہ شخص اپنا چہرہ دیکھ سکے جو اپنے آپ کو سمجھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
جو لوگ اپنے اختیارات میں اسراف کرتے ہیں اور محض اپنی 'انا اور باطنی طاغوت' کی عیاشی کے لئے اختیارات کا لٹھ گھماتے ہیں وہ فسادی ہیں اس لئے حکم ہوتا ہے کہ ان کا کہا نہ مانا کرو۔
وَلَا تُطِيعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِينَ. اَلَّذِينَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ۔ (پ۱۹۔ الشعراء۔ ع۷)
جو اہلِ فساد، اقتدار و اختیار کے چلو بھر پانی میں گز بھر، ابھر کر چلنے میں مصروف ہیں، دنیا میں چام کے دام جتنے چلانا چاہیں، چلا لیں۔ آخرت میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا (پ ۲۰۔ القصص۔ ع۹)
''وہ آخرت کا گھر ہم صرف ان لوگوں کو دیں گے جو (خدا کی) زمین میں برتری (کے خبط میں) نہیں پڑے ہوئے اور نہ فساد اور تخریب ان کے پیش نظر ہے۔''
روری نہیں کہ صرف آخرت ضائع ہو بلکہ ہو سکتا ہے دنیا میں بھی ان کو جوتے پڑیں، جیسا کہ فرعون کے ساتھ معاملہ کیا گیا۔
وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ (10) الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ (11) فَأَكثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ (12) فَصَبَّ عَلَيهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ (پ۳۰۔ الفجر۔ ع۱)
(کیا آپ نے نہ دیکھا کہ) میخوں والے فرعون کے ساتھ (کیا معاملہ کیا) یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے ملکوں میں سر اُٹھایا پھر ان میں تخریب کاری کی حد کر دی، تو ان پر آپ کے رب نے عذاب کا کوڑا ڈالا۔
اس کی تفسیر میں علماء لکھتے ہیں کہ:
ان قوموں نے عیش و دولت اور زور و قوت کے نشہ میں مست ہو کر ملکوں میں خوب اودھم مچایا، بڑی بڑی شرارتیں کیں اور ایسا سر اُٹھایا، گویا کہ ان کے سروں پر کوئی حاکم ہی نہیں اور ہمیشہ اسی حال میں ہی رہنا ہے، کبھی اس ظلم و شرارت کا خمیازہ بھگتنا نہیں پڑے گا۔ آخر جب ان کے کفر و تکبر اور جو رد ستم کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور مہلت و درگزر کا کوئی موقع باقی نہ رہا، دفعۃً خداوند قہار نے ان پر اپنے عذاب کا کوڑا برسا دیا، ان کی سب قوت اور بڑائی خاک میں مل گئی۔ اور وہ ساز و سامان کچھ کام نہ آیا۔
قرآن حکیم نے فرعون کی کچھ شرارتوں اور تخریب کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ اپنی برتری کے خبط میں مبتلا تھا۔ ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' کے اصول کے مطابق عوام کو تفرقہ بازی کا خوگر بنا دیا تھا، اپنی راہ میں جسے سنگِ گراں تصور کرتا، اس کو ہٹانے کے لئے پوری قوم کے گلے پر چھری پھیرنے سے دریغ نہیں کیا کرتا تھا۔
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَة مِنْهُمْ يَذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدينَ (پ۲۰۔ القصص۔ ع۱)
یقین کیجئے! فرعون (خدا کی) زمین پر سرکش ہو گیا اور ملک کے باشندوں کو تتر بتر کر رکھا تھا۔ جس سے اس کی غرض یہ تھی کہ) ان میں سے ایک گروہ کو کمزور رکھے، ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا، یہ واقعہ ہے کہ وہ اہلِ فساد میں سے تھا۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ فرعون کے کان میں یہ بات پڑ گئی تھی کہ بنی اسرائیل کے ایک جوان کے ہاتھوں اس کی تباہی ہو کر رہے گی، چنانچہ اپنی اصلاحِ حال کے بجائے اس نے یہ طے کر لیا کہ، اب اس قوم کے کسی فرزند کو زندہ نہ رہنے دیا جائے۔
جو لوگ اپنے اقتدار کی عمر کی درازی کے لئے اس قسم کے پاپڑ بیلنے میں مصروف رہتے ہیں، عموماً ان کا انجام اور حشر نہایت ہی عبرتناک نکلا ہے۔ مگر افسوس! اس کے باوجود جو بھی آتا ہے، وہ اندھا ہو جاتا ہے، اور وہ ان سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا۔ اس لئے ان پر جو مصیبت آتی ہے، اچانک آتی ہے اور اسے اُٹھا کر یوں پھینک دیتی ہے جیسے روڑوں کا کوئی کوڑا ہو۔
قرآن حکیم اربابِ اقتدار کے اس اندھے پن اور تخریب کاری کا ذِکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ایسے نابکار اور مفسدین کو حکومت مل جائے تو فساد اور ہنگامے ہی برپا رکھیں۔
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ(پ ۲۶۔ محمد۔ ع۳)
پھر تم سے بھی یہ توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو فساد فی الارض برپا کرو گے اور اپنی قرابتیں (بھی) قطع کرو گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے، پھر ان کو بہرہ اور ان کی آنکھیں اندھی کر دیں۔
دنیا کی فراوانی بھی 'فساد فی الارض' کی موجب ہوتی ہے
کیونکہ اپنی بے قابو خواہشات کی تکمیل کے لئے ان کو تمام اَن ہونے کام کرنے پڑ جاتے ہیں۔ سرمایہ اور مسلمانی رنگ؟ بہت کم جمع ہوتے ہیں سرمایہ دار عموماً قارونی خدوخال لے کر آتا ہے، خدا ان سے مطالبہ کرتا ہے کہ، اللہ نے جو دیا ہے کھاؤ پیو، لیکن خلقِ خدا کے لئے وبال نہ بنو بلکہ اسے آخرت کے لئے زینہ بناؤ۔
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (پ۲۰۔ قصص۔ ع۸)
جو کچھ تمہیں اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کما لے اور دنیا سے اچھا حصہ نہ بھول اور (لوگوں کے ساتھ) اچھا معاملہ کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ کیا ہے اور ملک میں خرابی (فساد) نہ ڈال، اللہ تعالیٰ تخریب کاروں کو پسند نہیں کرتا۔
اہلِ ثروت عموماً اربابِ اختیار کے خوشامدی نکلتے ہیں۔ اس لئے تخریب کار اربابِ اختیار کے ساتھ سرمایہ دار بھی مل جاتے ہیں، پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ملک اور قوم دونوں کے لئے آزار دہ ہوتا ہے۔ سماج دشمن عناصر کی سرپرستی کے لئے یہ سرمایہ دار لوگ ہی برے حکمرانوں کو سرمایہ مہیا کیا کرتے ہیں۔ حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم میں، نو سرغنے تھے جن کا کام فساد برپا کرنا تھا۔ یہ نو سردار حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دینی تحریک کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔
وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ (48) قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ(پ۱۶۔ النمل۔ ع۴)
شہر میں نو شخص تھے جن کا کام اصلاح نہیں فساد فی الارض تھا، بولے کہ آپس میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاؤ کہ رات کو ہم ان پر اور ان کے گھر میں ضرور جا پڑیں گے اور پھر جو اس کی طرف سے مدعی ہو گا ان سے کہہ دیں گے کہ ہم نے ان کے گھر کی تباہی کا مشاہدہ نہیں کیا اور یقین کیجئے! ہم سچے ہیں۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ خود حضور کے زمانے میں حضور کے خلاف سازش کرنے والے بھی نو سردار ہی تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ سرداری اور اقتدار اللہ کا فضل ہے بشرطیکہ خدا کی غلامی کا طوق بھی گلے میں ہو، ورنہ یقین کیجئے! اس سے بڑھ کر انسان کے لئے اور کوئی فتنہ نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں یا کم از کم ان میں سے ایک کا انجام تو ضرور ہی عبرت آموز ثابت ہوتا ہے۔
دینی تحریک کے خلاف سازشیں کرنا بھی فساد فی الارض ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلے میں جادوگروں کو لاکھڑا کرنا فرعون کی ایک چال تھی اور جو لوگ اس ڈھب سے چھا جانے کے منصوبے رکھتے ہیں حق تعالیٰ ان سے 'عمل صحیح' کی توفیق بھی چھین لیتا ہے۔ اس لئے اس کے آخر میں فرمایا:
اِنَّ الله لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ (پ۱۱۔ یونس۔ ع۸)
'اللہ تعالیٰ مفسدین کے عملوں کو نہیں سنوارتا۔'
اصل میں 'حق' کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنا ایک ایسا 'نظامِ تخریب' ہے۔ جس میں آسمان و زمین اور مافیہا کی خرابی اور بگاڑ مضمر ہے۔
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيهنَّ (پ۱۸۔ المومنون۔ ع۴)
اگر حق (یعنی حق تعالیٰ) ان کی خوشی اور منشاء کے تابع ہو جائے تو آسمان و زمین اور مافیہا خراب ہوجائیں۔
یہ تو یوں ہوا جیسے دو خدا، اور اس کا جو انجام ہو سکتا ہے وہ ظاہر ہے یعنی زمین و آسمان کی مکمل تباہی اور بگاڑ۔
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (پ۱۷۔ الانبیاء۔ ع۲)
ارباب اقتدار کا یہ دستور رہا ہے کہ عوام کو مذہب کے نام پر بھڑکاتے ہیں کہ فلاں شخص تمہارے مذہب کی روح کوکچلنا چاہتا ہے۔ پھر امنِ عامہ کے نام پر ان کے خلاف چکر چلاتے ہیں اور صلحاء اور اتقیاء کو قتل کی دھمکیاں تک دے ڈالتے ہیں۔
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ (پ۲۴۔ المومن ع۳)
اور فرعون بولا: ہٹ جاؤ! مجھے اسے قتل کرنے دو اور اسے چاہئے کہ اپنے رب کو پکارے (کہ وہ اسے مجھ سے بچا لے) مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی فساد نہ برپا کر ڈالے۔
ناپ تول میں کمی بیشی کرنا، راہ مارنا، حق سے روکنا اور ٹیڑھی راہوں پر لوگوں کو ڈالنا بھی فساد فی الارض ہے۔
وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا وَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ وَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (پ۸۔ الاعراف۔ ع۱۱)
حق کو نہ ماننا اور وحی پر ایمان نہ لانا بھی ''فساد'' ہے۔
وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ (پ۱۱۔ یونس۔ ع۴)
ان میں سے کچھ تو قرآن کا یقین کریں گے اور بعض ان میں سے اس کا یقین نہیں کریں گے۔ اور آپ کا رب مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔
وحی قرآنی پر ایمان نہ لانے کے معنی ہیں کہ وہ اپنی خواہشات، ملکی آئین، جمہوری رائے اور دوسروں کے خیالات کا اتباع کریں گے، ظاہر ہے کہ فساد کی جڑ بھی یہی بے یقینی، کمزوری اور چار سورُخ کر کے دوڑنا۔
مفسدین کا اتباع بھی ''فساد في الأرض'' کے مترادف ہے، کیونکہ اہلِ فساد جو ہنگامے، بگاڑ اور خرابیاں پیدا کرتے ہیں، وہ اپنے حلقہ بگوشوں کے بل بوتے پر ہی تو کرتے ہیں اس لئے فرمایا ان کا اتباع نہ کیا کریں۔
وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ (پ۹۔ اعراف۔ ع۱۷)
(حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون سے فرمایا) اور مفسدوں کی راہ پر مت چلنا۔
منکرینِ حق کی دوستی بھی فساد فی الارض کا ایک عنوان ہے۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ(پ۱۰۔ التوبۃ ع۱۰)
جو منکرین حق ہیں، وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اگر تم یوں نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ پھیلے گااور بڑی خرابی ہو گی۔ اور اس کے نتیجے میں عذاب پر عذاب کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ (پ۱۴۔ النحل۔ ع۱۲)
جو اہل فساد ہیں وہ صالحین کی طرح نہیں ہو سکتے اور نہ ہی دونوں کے ساتھ خدا تعالیٰ ایک جیسا معاملہ کرے گا۔
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ كالْمُفْسِدِينَ فِي الْاَرْضِ (پ۲۲۔ ص ع۲)
ظہور نتائج کے وقت منت سماجت کچھ کام نہیں آتی۔
آلْئٰنَ وَقَدْ عَصَيتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (پ۱۱۔ یونس۔ ع۹)
اب (کہتا ہے کہ میں مان گیا) حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں رہا۔
فساد فی الارض کے بد نتائج سے بچنے کا یہ طریقہ ہے کہ اس سے توبہ کی جائے اور فساد فی الارض کی راہ چھوڑ دی جائے۔
لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًاط اِنَّ رَحْمَةَ الله قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ (پ۸۔ الاعراف۔ ع۷)
اصلاح کے بعد فساد فی الارض سے باز آجائیں اور اس کو امید و بیم میں پکارتے جائیں۔ نیکو کاروں سے اللہ کی رحمت قریب ہے۔
اس کی راہ میں جہاد کیا جائے کیونکہ اللہ کی یہ سنت ہے کہ روئے زمین کا بگاڑ اسی طرح دور کیا کرتا ہے۔
وَلَوْ لَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ (پ۲۔ بقرہ۔ ع۳۳)
اگر ایک کو دوسرے سے دفع کرا دینا اللہ کا دستور نہ ہوتا تو زمین خراب ہو جاتی۔
امر بالمعروف کا وطیرہ اختیار کیا جائے۔ فساد اور مفسدوں نے جو خرابیاں پیدا کر دی ہیں اس کے ذریعے ان کو دور کیا جائے۔
فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ (پ۱۲۔ ھود۔ ع۱۰)
سو کیوں نہ ہوئے، ان جماعتوں میں، جو تم سے پہلے تھیں ایسے لوگ جن میں خیر کا اثر رہا ہو کہ منع کرتے رہتے فساد فی الارض سے مگر تھوڑے کہ جن کو ان میں سے ہم نے بچا لیا۔
References: