اے نفسِ مطمئن، اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر آجا
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ ۞ ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً ۞ فَادۡخُلِىۡ فِىۡ عِبٰدِىۙ ۞ وَادۡخُلِىۡ جَنَّتِى ۞
ترجمہ:
اے نفسِ مطمئن، اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ ۞ اور شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں۔ ۞ اور داخل ہوجا میری جنت میں۔۞
( القرآن - سورۃ نمبر 89 الفجر , آیت نمبر 27-30)
"نفس مطمئن" سے مراد وہ انسان ہے جس نے کسی شک و شبہ کے بغیر پورے اطمینان اور ٹھنڈے دل کے ساتھ اللہ وحدہ لا شریک کو اپنا رب اور انبیاء کے لائے ہوئے دین حق کو اپنا دین قرار دیا،
جو عقیدہ اور جو حکم بھی اللہ اور اس کے رسول سے ملا اسے سراسر حق مانا، جس چیز سے بھی اللہ کے دین نے منع کیا اس سے بادل ناخواستہ نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ رک گیا کہ فی الواقع وہ بری چیز ہے،
جس قربانی کی بھی حق پرستی کی راہ میں ضرورت پیش آئی بےدریغ اسے پیش کردیا،
جن مشکلات اور تکالیف اور مصائب سے بھی اس راہ میں سابقہ در پیش ہوا انہیں پورے سکون قلب کے ساتھ برداشت کیا،
اور دوسرے راستوں پر چلنے والوں کو دنیا میں جو فوائد اور منافع اور لذائذ حاصل ہوتے نظر آ رہے تھے ان سے محروم رہ جانے پر اسے کوئی حسرت لاحق نہ ہوئی
بلکہ وہ اس بات پر پوری طرح مطمئن رہا کہ دین حق کی پیروی نے اسے ان گندگیوں سے محفوظ رکھا ہے۔ اسی کیفیت کو دوسری جگہ قرآن میں شرح صدر سے تعبیر کیا گیا ہے (الانعام، آیت 125)۔
(تفہیم القرآن)
كُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِؕ وَاِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدۡخِلَ الۡجَـنَّةَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ۞ (قرآن 3:185)
ترجمہ:
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ (قرآن 3:185)
حاضر ہوں یا اللہ! میں حاضر ہوں
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لاَ شَرِيكَ لَكَ
حاضر ہوں یا اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تعریف اور نعمتیں تیرے لیے ہی ہیں، اور تیری ہی بادشاہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے.
وَاَيُّوۡبَ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّىۡ مَسَّنِىَ الضُّرُّ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِيۡنَ ۞ فَاسۡتَجَبۡنَا لَهٗ فَكَشَفۡنَا مَا بِهٖ مِنۡ ضُرٍّ وَّاٰتَيۡنٰهُ اَهۡلَهٗ و مِثۡلَهُمۡ مَّعَهُمۡ رَحۡمَةً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَذِكۡرٰى لِلۡعٰبِدِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور یہی (ہوش مندی اور حکم و علم کی نعمت) ہم نے ایّوبؑ کو دی تھی یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ "مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے" ۞ ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور جو تکلیف اُسے تھی اس کو دُور کر دیا، اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے، اپنی خاص رحمت کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے ۞
..........
نفس انسانی کی تین حالتیں : 1۔ نفس مطمئنہ۔ ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس۔ (الفجر : 27)
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ
نفس مطمئنہ : جو انسان کو اطاعت الہی اور اللہ کے ذکر فکر میں مطمئن رکھتا ہے اور خواہشات کی کشمش اور گناہوں کے خطراب سے دور رکھتا ہے
2۔ نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا نفس۔ (القیامہ : 2)
وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ
نفس لوامہ : ۔۔۔۔۔۔ جو انسان کو گناہوں پر ملامت کرتا ہے کہ یہ کام بہت برا تھا تم نے کیوں کیا؟
3۔ نفس امّارہ۔ گناہ پر ابھارنے والا نفس۔ (یوسف : 53)
وَمَا أُبَرِّىءُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
نفس امارہ : ۔۔۔۔۔۔ جو انسان کو گناہوں پر آمادہ کرتا ہے۔
-----------
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ( O contented soul...89:27). Here the soul of the believer is referred to as nafs mutma innah the contented soul . The word mutma innah literally means calm . It refers to the soul that is peaceful and tranquil as a result of remembrance and obedience of Allah. When he abandons it, he feels restless. This is probably the same soul as is made pure, through spiritual exercises and discipline, from the evil traits and bad conduct. Obedience of Allah and His remembrance becomes his predisposition. Shari ah becomes his nature.
ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ (come back to your Lord....89:28).
The words come back indicate that his first place was with his Lord, and now he is commanded to go back to Him. This confirms the narration that the souls of the believers, together with their Book of Deeds, will be in ` illiyin. ` Illiyin is a place on the seventh heaven in the shade of the Throne of the Most-Merciful Lord. This is the original resting-place of all human souls, from where they are brought out and put into human body. After death, the souls are returned to that place. ...