Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

قیامت کب ؟ مگر تیاری کیا کی ہے ؟



’’بے شک قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر جان کو اس عمل کا بدلہ دیا جائے جس کے لئے وہ کوشاں ہے‘‘۔  (Quran 20:15)

إِنَّ السَّاعَةَ ءَاتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىO (طه،  15)


The Hour is coming. But I choose to keep it hidden, so that every human being may be recompensed in accordance with his labours.(Quran 20:15) .... [....]

كَادُ اُخْفِيْهَا، یعنی قیامت کے معاملہ کو میں تمام مخلوقات سے مخفی رکھنا چاہتا ہوں یہاں تک کہ انبیاء اور فرشتوں سے بھی اور اکاد سے اس طرف اشارہ ہے کہ اگر لوگوں کو قیامت و آخرت کی فکر دلا کر ایمان و علم صالح پر ابھارنا مقصود نہ ہوتا تو اتنی بات بھی ظاہر نہ کی جاتی کہ قیامت آنے والی ہے جیسا کہ اوپر آیت میں آیا ہے اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ، مقصود اس سے اخفائے قیامت میں مبالغہ کرنا ہے۔ لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا تَسْعٰي (تاکہ جزاء دیا جائے ہر نفس اپنے عمل کی) اس جملہ کا تعلق اگر لفظ اتیة سے ہے تو معنی ظاہر ہیں کہ قیامت کے آنے کی حکمت و مصلحت یہ ہے کہ دنیا تو دار الجزاء نہیں یہاں نیک و بد عمل کی جزاء کسی کو نہیں ملتی، اور اگر کبھی دنیا میں کچھ جزاء مل بھی جاتی ہے تو وہ عمل کی پوری جزاء نہیں ہوتی ایک نمونہ سا ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا وقت آئے جہاں ہر نیک و بد عمل کی جزاء و سزا پوری دی جائے۔ اور اگر جملہ کا تعلق اَكَادُ اُخْفِيْهَا سے قرار دیا جائے تو یہ بھی ممکن ہے اور معنے یہ ہوں گے کہ قیامت اور موت کے وقت اور تاریخ کو مخفی رکھنے میں حکمت یہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے عمل اور سعی میں لگے رہیں اپنی شخصی قیامت یعنی موت اور پورے عالم کی قیامت یعنی حشر کے دن کو دور سمجھ کر غافل نہ ہو بیٹھیں۔


أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَO (المومنون، 23 : 115)

’’سو تم نے یہ خیال کرلیا تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار (وبے مقصد) پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے

كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍO وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِO (الرحمن، 55 : 26، 27)

’’ہر کوئی جو بھی زمین پر ہے فنا ہوجانے والا ہے اور آپ کے رب ہی کی ذات باقی رہے گی جو صاحب عظمت وجلال اور صاحب انعام واکرام ہے‘‘۔ 

اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَO (الانبياء، 21 : 1)

’’لوگوں کے لئے ان کے حساب کا وقت قریب آپہنچا مگر وہ غفلت میں (پڑے طاعت سے) منہ پھیرے ہوئے ہیں‘‘۔ 

إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَO (المومن، 40 : 59)

’’بے شک قیامت ضرور آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اکثر لوگ یقین نہیں رکھتے‘‘۔ 

وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَO (يٰسن، 36 : 48)

’’اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ (قیامت) کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو‘‘۔ 

وَمَا يَنظُرُ هَؤُلَاءِ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍO (ص، 38 : 15)

’’اور یہ سب لوگ ایک نہایت سخت آواز (چنگھاڑ) کا انتطار کر رہے ہیں جس میں کچھ بھی توقف نہ ہوگا‘‘۔ 

اللَّهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌO (الشوريٰ، 42 : 17)

’’اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور عدل وانصاف کا ترازو بھی اتارا اور آپ کو کس نے خبردار کیا، شاید قیامت قریب ہی ہو‘‘۔ 
ایک حدیث کے مطابق علامات قیامت یہ ہیں: حذیفہ بن اسید غفاری بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف متوجہ ہوئے ہم اس وقت مذاکرہ کر رہے تھے‘ آپ نے پوچھا تم کس چیز کا ذکر کر رہے ہو؟ صحابہ نے کہا ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں‘ آپ نے فرمایا :

 قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس علامتیں نہ دیکھ لو پھر آپ نے دخان (دھوئیں) دجال‘ دابۃ الارض‘ سورج کا مغرب سے طلوع‘ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نزول‘ یاجوج ماجوج‘ تین بار زمین کا دھنسنا (مشرق میں دھنسنا‘ مغرب میں دھنسنا‘ جزیرۃ العرب میں دھنسنا) اور اس کی آخری علامت آگ ہوگی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی۔(لنک )


دُنیا کی عمر کتنی ہے اس بارے میں کافی باتیں ہوتی رہیں۔ عیسائی علماء نے انجیل کے اپنے فہم کو بنیاد بنا کر نا صرف ایک تاریخ متعین کردی بلکہ اس سے انحراف کو دین سے انحراف بھی قرار دینا شروع کردیا۔ یہ نظریہ کچھ عرصہ تک تو مانا جاتا رہا لیکن پھر بہرحال سائنسی طریق سے زمین کی پیدائش کے متعلق اندازہ لگانے کا آغاز ہوا اور گزشتہ صدی کے دوران زمین کے اپنے اندر ملنے والے ثبوتوں سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ زمین کی عمر قریباَ ساڑھے چار ارب سال ہے۔ پڑھنے میں یہ یقیناَ چھوٹا سا ہندسہ ہے لیکن ایک انتہائی طویل مدت ہے۔ اگر ساڑھے پانچ ارب سال کو دو دنوں‌میں تقسیم کیا جائے تو اس کا ایک سیکنڈ قریباَ چھبیس ہزار اکتالیس برس پر مشتمل ہوگا۔ یعنی حضرت موسٰی علیہ السلام سے لیکر آج تک کا دور ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ یا اس سے بھی کم کا دورانیہ ہوگا۔ ساڑھے چار ارب سال کی اس مدت میں زمین پر ممالیہ جانوروں کی آمد صرف سولہ کروڑ سال قبل ہوئی جو زمین کی موجودہ عمر کے حساب سے دوسرے دن کے اختتام سے صرف ایک گھنٹہ اور قریباَ بیالیس منٹ پہلے کا عرصہ بنتا ہے۔ اس میں بھی ممالیہ جانوروں کا ارتقاء صرف پانچ کروڑ برس قبل ہوا جو زمین کی دو روزہ زندگی کے حساب سے قریباَ بتیس منٹ کا عرصہ بنتا ہے جب زمین ڈائنوسار سے خالی ہو گئی تھی۔ اور پھر ان پانچ کروڑ برس میں ممالیہ جانور زمین کے حکمران بن گئے۔ لیکن اگر دیکھا جائے توممالیہ جانوروں کی حکمرانی کا عرصہ بہت قلیل ہے۔ مثال کے طور پر ڈائنو سار نے زمین پر سولہ کروڑ برس حکومت کی یعنی ممالیہ جانوروں سے قریباَ تین گنا زیادہ عرصہ۔ ان پانچ کروڑ برس میں جب ممالیہ جانور زمین کی حکمرانی سنبھال رہے تھے انسان کی آمد آج سے قریباَ دو لاکھ برس قبل ہوئی۔ یعنی جب دُنیا اپنی موجودہ دو روزہ عمر کے وجود کے آخری گھنٹے کے بھی آخرمنٹ سے گزر رہی تھی۔ اور زمین کی عمر کے حساب سے پلک جھپکتے ہی یعنی صرف دو لاکھ برس کے اندر جو زمین کی دو روزہ عمر کا آٹھ سیکنڈ‌سے بھی کم عرصہ بنتا ہے، انسان اس زمین کا مالک بن گیا یعنی قرآن کے الفاظ میں زمین پر اللہ کا خلیفہ بن گیا-
........................

غیب سے متعلق معاملے پر تفصیل سے بحث اور گفتگو نہیں کرنا۔
 ایسی گفتگوجو مابعد الطبیعات (Metaphysics یا دنیا کی حقیقت سے پرے) پر کی جائے جو محسوس حقیقت سے پرے ہو، اس پر بحث کرنا، اور یہ دعویٰ کرنا کہ کسی کی رائے دوسروں سے بہتر ہے، جس کے لئے بہت قمتی وقت لگایا گیا ہو، یہ مسلمانوں کے سب سے اہم اور ضروری مسئلے سے لوگوں کی توجہ کو ہٹا دیتا ہے، جس کے لئے مسلمانوں کو کام کرنا ضروری ہے۔ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) نے ایسی ایک بحث کی مثال جو اہل کتاب (یہود اور نصاریٰ)غارمیں پناہ لینے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں کرتے تھے، ''تو اب لوگ کہیں گے، وہ تین ہیں اور ان کاکتا چوتھا، اور کچھ کہیں گے، وہ پانچ ہیں اور ان کا کتا چھٹا، بل کو ل اندھی اٹکل، اور کچھ کہیں گے، وہ سات ہیں اور ان کا کتاآٹھواں’’، کہہ دیجیے، ''میرا رب ان کی تعداد کو اچھی طرح جانتا ہے ان میں سے کوئی نہیں جانتا مگر بہت کم۔ اس لیے ان کے بارے میں کوئی بحث نہ کرو، سوائے اسکے کہ کیا ہوا ہے، اور اہل کتاب سے ان کے بارے میں کچھ بھی نہ پوچھو۔ (ترجمہ معانیٗ قرآن مجیدالکہف):
....................................................
English Links:
http://islamicweb.com/history/ww3.htm
https://en.wikipedia.org/wiki/End_time
اردو لنکس:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و نزول قرآن و حدیث کی روشنی میں:
http://alasirchannel.blogspot.com/2012/06/blog-post_573.html
http://www.oururdu.com/forums/index.php?threads/1582
http://algazali.org/index.php?threads/4132
http://khilafate-rashida.blogspot.com/2016/03/blog-post.html

~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...اور مشرکوں کی طرح فرقہ واریت اختیار کرکہ دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کو واپسی میں ہے  .. مگر کیسے >>>>>>

Popular Books