پانچ فرض نماز (الصَّلٰوةَ) کے اوقات اور الجمع بین الصلاتین، نمازوں کو جمع کرنا
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوۡكِ الشَّمۡسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيۡلِ وَقُرۡاٰنَ الۡـفَجۡرِؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡـفَجۡرِ كَانَ مَشۡهُوۡدًا ۞
ترجمہ:
نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآنِ فجر مشہُود ہوتا ہے۔
تفسیر:
اس آیت میں مجملا یہ بتایا گیا ہے کہ پنج وقتہ نماز، جو معراج کے موقع پر فرض کی گئی تھی، اس کے اوقات کی تنظیم کس طرح کی جائے۔
حکم ہوا کہ ایک نماز تو طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لی جائے، اور
چار نمازیں زوال آفتاب کے بعد سے ظلمت شب تک پڑھی جائیں۔
پھر اس حکم کی تشریح کے لیے جبریل ؑ بھیجے گئے جنہوں نے نماز کے ٹھیک ٹھیک اوقات کی تعلیم نبی ﷺ کو دی۔ چناچہ ابو داؤد ؑ اور ترمذی میں ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا
”جبریل ؑ نے دو مرتبہ مجھ کو بیت اللہ کے قریب نماز پڑھائی۔
پہلے دن ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ سورج ابھی ڈھلا ہی تھا اور سایہ ایک جوتی کے تسمے سے زیادہ دراز نہ تھا،
پھر عصر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد کے برابر تھا،
پھر مغرب کی نماز ٹھیک اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے،
پھر عشاء کی نماز شفق غائب ہوتے ہی پڑھا دی، اور فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے۔
دوسرے دن انہوں نے ظہر کی نماز مجھے اس وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد کے برابر تھا،
اور عصر کی نماز اس وقت جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا ہوگیا،
اور مغرب کی نماز اس وقت جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے،
اور عشاء کی نماز ایک تہائی گزر جانے پر، اور
فجر کی نماز اچھی طرح روشنی پھیل جانے پر۔ پھر جبریل ؑ نے پلٹ کر مجھ سے کہا کہ اے محمد ﷺ ، یہی اوقات انبیاء (علیہم السلام) کے نماز پڑھنے کے ہیں، اور نمازوں کے صحیح اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں“۔ (یعنی پہلے دن ہر وقت کی ابتداء اور دوسرے دن ہر وقت کی انتہا بتائی گئی ہے۔ ہر وقت کی نماز ان دونوں کے درمیان ادا ہونی چاہیے)۔
قرآن مجید میں خود بھی نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف مختلف مواقع پر اشارے کیے گئے ہیں۔ چناچہ سورة ہود میں فرمایا
اَقِمِ الصَّلوٰةَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ۔ ط (آیت 114)
”نماز قائم کر دن کے دونوں کناروں پر (یعنی فجر اور مغرب) اور کچھ رات گزرنے پر (یعنی عشاء)“
وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوع الشَّمسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَمِنْ اٰنآئیَ الّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَاف النَّھَارِ (آیت 130)
" اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر طلوع آفتاب سے پہلے (فجر) اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر) اور رات کے اوقات میں پھر تبیح کر (عشاء) اور دن کے سروں پر (یعنی صبح، ظہر اور مغرب)
پھر سورة روم میں ارشاد ہوا
فَسُبْحٰنَ اللہ حین تُمسُونَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْ نَہ وَلَہُ الْحَمدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْا رْضِ وَعَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ (آیات 17۔ 18)
" پس اللہ کی تسبیح کرو جبکہ تم شام کرتے ہو (مغرب) اور صبح کرتے ہو (فجر)۔ اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ اور اس کی تسبیح کرو دن کے آخری حصے میں (عصر) اور جبکہ تم دوپہر کرتے ہو (ظہر)
قرآن مجید میں نماز کے لیے کہیں تو صلوة کا لفظ استعمال ہوا ہے اور کہیں اس کے مختلف اجزاء میں سے کسی جز کا نام لے کر پوری نماز مراد لی گئی ہے، مثلا *تسبیح، حمد، ذکر، قیام، رکوع، سجود وغیرہ*
(تفہیم القرآن ,مفسر: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، ماخوز)
اس سہولت کا زکر بہت کم ملتا ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ایک بہت بڑی سہولت دی۔
علمی دیانت (intellectual honesty) کا تقاضا ہے کہ ان احادیث کا زکر بھی ہو۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر وعصر کو ملاکر پڑھا؛ *حالانکہ یہ کسی خطرہ یا سفر کی حالت نہ تھی۔* حضرت ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت سعید نے جواب دیا کہ میں نے بھی یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھی تھی تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا کہ *لوگ تنگی میں مبتلا نہ ہوں* (صحیح مسلم، 1633، 1629، الجمع بین الصلاتین فی الحضر)
جو لوگ اس حدیث سے جمع کو مطلقاً جائز سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے بشرطیکہ عادت نہ بنا لے۔
اہل تشیع الجمع بین الصلاتین (ظہر، معصر اور مغرب و عشاء) پریکٹس کرتے ہیں.
فتح الباری میں ہے کہ ابن سیرین رحمہ اللہ، ربیعہ، ابن منذر اور فقال الکبیر کا یہی مذہب تھا۔ خطابی رحمہ اللہ نے بعض کی طرف منسوب کیا ہے۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ بغیر کسی عزر کے جائز نہیں ہے۔
ظاہری جمع، حقیقی جمع ، جمع تقدیم وجمع تاخیر
مروجہ عام نظریہ ۔۔۔۔
اگر کوئی شخص سفر یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے دو نمازوں کو اکٹھا کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف ہے۔ فقہاء وعلماء کرام کی ایک جماعت نے سفر یا موسلادھار بارش کی وجہ سے ظہر وعصر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر اسی طرح مغرب وعشاء میں جمع تقدیم وجمع تاخیر کی اجازت دی ہے؛ لیکن فقہاء وعلماء کرام کی دوسری جماعت نے احادیث نبویہ کی روشنی میں حقیقی جمع کی اجازت نہیں دی ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور تابعی وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ہندوپاک کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ فقہاء وعلماء کی یہ جماعت، اُن احادیث کو جن میں جمع بین الصلاتین کا ذکر آیا ہے، ظاہری جمع پر محمول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز آخری وقت میں اور عصر کی نماز اوّلِ وقت میں ادا کی جائے، مثلاً ظہر کا وقت ایک بجے سے چار بجے تک ہے اور عصر کا وقت چار بجے سے غروب آفتاب تک تو ظہر کو چار بجے سے کچھ قبل اور عصر کو چار بجے پڑھا جائے۔ اس صورت میں ہر نماز اپنے اپنے وقت کے اندر ادا ہوگی؛ لیکن صورت وعمل کے لحاظ سے دونوں نمازیں اکٹھی ادا ہوں گی، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اوّلِ وقت میں پڑھی جائے، اس کو جمع ظاہری یا جمع صوری یا جمع عملی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے گا اور قرآن وحدیث کا اصل مطلوب ومقصود (یعنی نمازکی وقت پر ادائیگی) بھی ادا ہوجائے گا۔ (دارالعلوم دیوبند)
- https://salaamone.com/salah-join/
- http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/04-Jama%20Bain%20Salatain_MDU_12_Dec_15.htm