قرآن نے اسلامی ریاست اور حکومت کے بنیادی اصول مقرر کر دیے ہیں، ان اصولوں پرعمل درآمد کے بغیر صرف "اسلامی" کہنے سے کوئی ریاست "اسلامی"نہیں بن جاتی :
3.مشاورت (42:38) Consultation
4.حکمرانوں کے فرائض (3:110) (22:41) Duties and obligations of rulers
6.امانتیں امانت داروں کو اور انصاف (4:58) Render trusts to whom due, judge with justice.
7. حاکم وقت کی اطاعت کا حکم (4:59) Obedience to the ruler within bounds
8. اطاعت حاکم کی حد (76:24) Limits of obedience to rulers
9.آمریت کی نفی (3:79) Autocracy rejected
10.دوسرے نظاموں کی نفی (25:43, 45:24) Rejection of other systems
11.بری قیادت کی پیروی کا انجام11:98 Results of following bad leaders
ایک بہت اہم سوال ہے کہ جب پاکستان کے آیین میں کوئی قانون قرآن سنت کے خلاف نہیں ہو سکتا اور بتدریج تمام قوانین کو قرآن کو سنت کے مطابق کرنا ہے تو پھر اب تک ایسا کیوں نہیں ہوا ؟ اس کا (سرکاری ) ... جواب >>>>>>
صرف الله کا قانون
"ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی سارے نبی، جو مسلم تھے، اُسی کے مطابق اِن یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اِسی طرح ربانی اور احبار بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے پس (اے گروہ یہود!) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں (44) توراۃ میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں (45) پھر ہم نے ان پیغمبروں کے بعد مریمؑ کے بیٹے عیسیٰؑ کو بھیجا توراۃ میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی توراۃ میں سے جو کچھ اُس وقت موجود تھا اُس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خدا ترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی (46) ہمارا حکم تھا کہ اہل انجیل اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں (5:47)
یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حق میں جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تین حکم ثابت کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ کافر ہیں ، دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں ، تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو انسان خدا کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے یا دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے ، وہ دراصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے ۔ اوّلاً اس کا یہ فعل حکم خداوندی کے انکار کا ہم معنی ہے اور یہ کفر ہے ۔ ثانیاً اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خلاف ہے ، کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہو سکتا تھا وہ تو خدا نے دے دیا تھا ، اس لیے جب خدا کے حکم سے ہٹ کر اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا ۔ تیسرے یہ کہ بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہو کر اپنا یا کسی دوسرے کا قانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و اطاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا اور یہی فسق ہے ۔ یہ کفر اور ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً انحراف از حکم خداوندی کی عین حقیقت میں داخل ہیں ۔ ممکن نہیں ہے کہ جہاں وہ انحراف موجود ہو وہاں تینوں چیزیں موجود نہ ہوں ۔ البتہ جس طرح انحراف کے درجات و مراتب میں فرق ہے اسی طرح ان تینوں چیزوں کے مراتب میں بھی فرق ہے ۔ جو شخص حکم الہٰی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ہے وہ مکمل کافر اور ظالم اور فاسق ہے ۔ اور جو اعتقاداً حکم الہٰی کو برحق سمجھتا ہے مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ اگرچہ خارج از ملت تو نہیں ہے مگر اپنے ایمان کو کفر ، ظلم اور فسق سے مخلوط کر رہا ہے ۔ اسی طرح جس نے تمام معاملات میں حکم الہٰی سے انحراف اختیار کر لیا ہے وہ تمام معاملات میں کافر ، ظالم اور فاسق ہے ۔ اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر و ظلم و فسق کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اسی تناسب کے ساتھ ہے جس تناسب کے ساتھ اس نے اطاعت اور انحراف کو ملا رکھا ہے ۔ بعض اہل تفسیر نے ان آیات کے اہل کتاب کے ساتھ مخصوص قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ مگر کلام الہٰی کے الفاظ میں اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں ۔ اس تاویل کا بہترین جواب وہ ہے جو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دیا ہے ۔ ان سے کسی نے کہا کہ یہ تینوں آیتیں تو بنی اسرائیل کے حق میں ہیں ۔ کہنے والے کا مطلب یہ تھا کہ یہودیوں میں جس نے خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کیا ہو وہی کافر ، وہی ظالم اور وہی فاسق ہے ۔ اس پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نعم الاخرۃ لکم بنو اسرائیل اَن کانت لھم کل مُرّ ۃ ولکم کل حلوۃ کلّا واللہ لتسلکن طریقھم قدر الشراک ۔ ” کتنے اچھے بھائی ہیں تمہارے لیے یہ بنی اسرائیل کہ کڑوا کڑوا سب ان کے لیے ہے اور میٹھا میٹھا سب تمہارے لیے ! ہرگز نہیں ، خدا کی قسم تم انہی کے طریقہ پر قدم بقدم چلو گے ۔ .[تفہیم القرآن ]
مشاورت
تفہیم القرآن سے:
اَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے :
ووٹ کی شرعی حیثیت Vote and Islamic Law
آج کی دنیا میں اسمبلیوں، کونسلوں، میونسپل وارڈوں اور دوسری مجالس اورجماعتوں کے انتخابات میں جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ زور و زر اور غنڈا گردی کے سارے طاغوتی وسائل کا استعمال کرکے یہ چند روزہ موہوم اعزازا حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے عالم سوز نتائج ہروقت آنکھوں کے سامنے ہیں اور ملک و ملّت کے ہمدرد و سمجھ دار انسان اپنے مقدور بھر اس کی اصلاح کی فکر میں بھی ہیں،لیکن عام طور پر اس کو ایک ہارجیت کا کھیل اور خالص دنیاوی دھندا سمجھ کر ووٹ لیے اور دیے جاتے ہیں۔ لکھے پڑھے دین دار مسلمانوں کو بھی اس طرف توجہ نہیں ہوتی کہ یہ کھیل صرف ہماری دنیا کے نفع نقصان اور آبادی یا بربادی تک نہیں رہتا بلکہ اس کے پیچھے کچھ طاعت و معصیت اور گناہ و ثواب بھی ہے جس کے اثرات اس دنیا کے بعد بھی یا ہمارے گلے کا ہار عذابِ جہنم بنیں گے، یا پھر درجاتِ جنت اور نجاتِ آخرت کا سبب بنیں گے۔ ...[پڑھتےجائیں …….]اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داریاں: نظام ، تماز ، زکات، اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ :
پاکستان میں نفاذ اسلام کی سٹریٹیجی
اامت مسلمہ گزشتہ صدیوں سے اضطراب (turmoil) میں ہے، پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا نام کی حد تک اسلامی مملکت ہے جس پر ایسے لوگ حکومت کرتے چلے آ رہے ہیں جواسلام کے نفاذ میں مخلص نہیں- ضیاء الحق نے کچھ کوشش کی مگر تضادات بہت تھے- پاکستان میں اسلام کا نام سیاسی قوت و طاقت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا دینی اور سیکولر سیاسی پارٹیوں کا شیوا ہے- آئین میں بہت دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن و سنت کے بر خلاف قوانین نہیں ہو سکتے مگر جب قوانین پر عمل درآمد کی بات ہوتی ہے تو یہ عملی طور پر ایک سراب ہے- آیین پاکستان کی شق 62، 63 جو کہ ممبران اسمبلی کو اسلامی شعار اورصادق و امین کے میعار پر رکھتی ہیں، ایک ریٹرننگ افسرامیدوار سے کلمہ، آیات الکرسی ، دعا قنوت سن کر مطمین ہو جاتا ہے چاہے اس ںےکروڑوں غبن کیے ہوں- لہٰذا اسمبلیاں اور کابینہ، کی اکثریت مجرم اور ملزموں پرمشتمل ہے- حالیہ نیب قوانین میں ردوبدل کیا اسلام کے مطابق ہے؟ موجودہ نظام، مقننہ، عدلیہ اور دوسرے اداروں سے نفاذاسلام کی توقع رکھنا عبث (Futile) ہے-
ان حالات میں فکرمند عوام مایوس ہیں مگر ان کے ساتھ ساتھ محب وطن دردمند تعلیم یافتہ لوگ بھی مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں- کچھ لوگ فرسٹیشن میں مذہبی شدت پسند گروہوں کی طرح سارا ملبہ جمہوریت پر ڈالتے ہیں- وہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت مغربی سیکولر سرمایه داری نظام کا حصہ ہے جس کے زریعہ سے کرپٹ، ملک دشمن،اسلام دشمن، خراب لوگوں کو حکمرانی دی جاتی ہے تاکہ وہ غیر ملکی ایجینڈا کی تکمیل میں ممد ثابت ہوں- ان کے خیال میں اسلامی سیاسی نظام ملک کے مسائل کا واحد حل ہے- یہ (perception) بظاہرغلط معلوم نہیں ہوتا-
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی بقا اور ترقی، اسلام کے ساتھ وابستہ ہے- اسلام ںے تا قیامت هر مسئله کا حل پیش کیا ہے اور بہت سے معاملات میں راہنما اصول اور قوانین شریعت دے کر، تفصیل اور عمل درآمد کا طریقہ مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے- ان میں سے ایک سیاسی نظام ہے- قرآن اور رسول اللہ ﷺ ۓ (i)اللہ کی حاکمیت (3:189) (ii) الله کا قانون (5:44,45,46,47) , (iii) مشاورت (42:38) (iv)حکمرانوں کے فرائض (3:110) (22:41) (v) نماز ، زکوٰۃ کا نظام ، اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ (22:41)، انصاف (5:8) اور مزید رہنما اصول دیے [https://bit.ly/IslamicState-Pk ] - ان اصولوں پر قائم حکومت کو اسلامی کہا جا سکتا ہے-
رسول اللہ ﷺ نےنہ اپنا جانشین مقرر فرمآیا اور نہ ہی خلفاء راشدین نے کسی ایک طریقہ پر اتفاق کیا- چنانچہ چاروں خلفاء راشدین مختلف طریقوں سے برسر اقتدار آنے،مگرعرب قبائلی معاشرہ کے طرز مشاورت نے اہم کردار ادا کیا- قبائلی رہنما کی طرف سے خلیفہ کی بیعت پورے قبیلہ کی طرف سے ہوتی، صحابہ کرام اور اہل مدینہ کی خصوصی اہمیت ساری مملکت کی نمائیندگی کے طور پر قبول کی جاتی- اگر خلافت راشدہ کا سلسلہ ملوکیت سے منقطع نہ ہوتا تو شاید کسی ایک طریقہ پر اتفاق ہو جاتا یا مزید طریقے پیدا ہوتے (واللّہ اعلم)
مسلم تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بادشاہت کو خلافت، امارت، سلطنت وغیرہ کے ناموں سے اسلامی جواز مہیا کیا جاتا رہا- بہت سے مسلمان حکمران اپنے عدل و انصاف کے لیے مشہور ہیں- پچھلی صدی سے جب مسلمانوں کو مغربی استعمار سے آزادی حاصل ہوئی تو جمھوریت کے نظام کو اپنایا گیا- یہ نظام اس وقت دنیا کے اکثر ممالک میں مختلف شکل میں موجود ہے- ہر ملک نے اپنے ماحول کے مطابق اس میں تبدیلیاں کیں- مغرب برطانیہ ، فرانس، جرمنی امریکہ کا اپنا اپنا جمہوری نظام ہے- جنوبی کوریا، سنگاپور ، ملایشیا، ترکی ، تائیوان وغیرہ کی اپنی جمہوریت ہے اور وہ ترقی کر رہے ہیں- بیشتر عرب ممالک میں ڈکٹیٹر شپ یا براے نام جمہوریت ہے- انڈیا، بنگلہ دیش نے جمہوریت سے بہتر نتایج حاصل کیے اور ترقی کے سفر پر گامزن ہیں اور ہم ابھی تک کی کسی مسیحا یا "آب حیات" کی تلاش میں ہیں- یاد رہے کہ قیام پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کا نتیجہ تھا-
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے“ (سنن ابن ماجه 4169)
یعنی بہ نسبت کافر کے مسلمان کو حکمت حاصل کرنے کا زیادہ شوق ہونا چاہئے، افسوس ہے کہ ایک مدت دراز سے مسلمانوں کو حکمت کا شوق جاتا رہا نہ دنیا کی حکمت سیکھتے ہیں نہ دین کی، اور کفار حکمت یعنی دنیاوی علوم اور سائنس وغیرہ سیکھ کر ان پر غالب ہو گئے۔
نظام کوئی بھی ہو اس پر عمل درآمد کرنے والے لوگ ہوتے ہیں- اگر وہ کرپٹ ، بد دیانت ہوں تو صرف نام حکومت کو اسلامی نہیں بنا دیتا جیسا کہ موجودہ صورت حال سے ظاہر ہے- کوئی بھی سیاسی نظام ہو بدکردار لوگ اس کو اپنے کردار کے مطابق ڈھال کر خراب کر ڈالتے ہیں-
مصر میں اخوان المسلمین کی 75 سالہ جدوجہد کے بعد مرسی (رح) کا المناک انجام بہت کچھ واضح کرتا ہے- عربی زبان بولنے والے ، قرآن کو سمجھنے والے ، 51% اکثریت کے ساتھ منتخب ایمان دار، اعلی تعلیم یافتہ، پکا مسلمان، جس کے پاس بہت اعلی ٹیم بھی تھی اس کو وہاں کی اسٹیبلشمنٹ اور کرپٹ اشرفیہ نے نہ صرف اقتدار سے محروم کیا بلکہ ما ورا عدالت قتل بھی کر دیا- الجیریا میں اسلام پسندوں کو کامیابی کے با وجود حکومت نہ ملی پھر جو کچھ ہوا سامنے ہے- تیونس بھی ایک مثال ہے-
ایک اور مثال ہمارے پاس عمران خان کی ہے ، وہی کچھ اس کے ساتھ ہو رہا ہے، جو مرسی کی ساتھ ہوا- قاتلانہ حملہ بھی ہو چکا ہے-
کوئی سبق ؟
اشرفیہ جس کو اسٹبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ ہے کسی اور کو طاقت کے ایوانوں میں برداشت نہیں کرتی- اسٹبلشمنٹ ایک وسیع اصطلاح ہے جو صرف فوج پر مشتمل نہیں ہوتی اگرچہ وہ اس کا اہم جزو ہے جس کا سربراہ اسے کنٹرول کرتا ہے- اعلی افسران اس کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں- باقی فوج ویسے ہی ہے جیسے کہ معصوم عوام ، ان کو اسلام کے نعرے سے پرجوش رکھا جاتا ہے تاکہ جہاد کے جذبہ سے ملک (اوراشرفیہ) کی حفاظت کر سکیں- ان پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے کہ کوئی ایسا شخص جو کہ قدم بہ قدم نہ چل سکے (out of step) اسے نچلی سطح سے ہی فارغ کر دیا جایے-
سخت فوجی ڈسپلن کی وجہ سے ان سے کسی قسم کی سیاسی توقعات وابستہ کرنا حقائق سے چشم پوشی اورخام خیالی ہے جو ملک کی تباہی کا نسخہ (recipe of disaster) ہے جس سے پرہیز لازم ہے-
بزور طاقت و دہشت گردی کسی بھی گروہ کی طرف سے حکومت پر غلبہ کی کوشش (بغاوت) کو سختی سے کچل دیا جاتا ہے-
ڈاکٹر اسرار احمد (رح) کی اسلامی نظام خلافت کی جدوجہد کو کون نہیں جانتا؟ مرحوم کو سب کچھ سمجھ آ گیا تھا اس لیے انہوں ۓ غیر انتخابی سیاسی جدوجهد اور پر امن تبلیغ کا راستہ اختیار کیا اس پر بحث ممکن ہے-
تحریک طالبان (TTP) ایک باغی کٹھ پتلی ٹولہ ہے جو سوانے عوام کے قتل اور فساد فی الارض کے کچھ حاصل نہیں کر سکتی- وہ بیرونی و اندرونی طاقتوں کے آلہ کار ہیں- ان کو انڈیا اور افغان طالبان کی مدد حاصل ہے تاکہ پاکستان غیر مستحکم رہے اور دنیا میں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہے- افغان طالبان ۓ غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کر لی مگر افغانستان کا دنیا میں کیا کردار ہے یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں-
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پر 75 سال سے قابض اشرفیہ اور بیرونی طاقتوں کو قبول نہیں کہ کوئی بھی بہتر سیاسی قیادت موجودہ یا کسی بھی نظام کے ذریعہ حکومت حاصل کر سکے بفرض محال اگر عوامی دباؤ سے ایسا ہو بھی تو وہ اس سے تعاون نہ کرکہ ناکام کرکہ گرا دی جائے گی جیسا کہ حالیہ واقعات سے ظاہر ہے-
ان حالات میں کیا کریں؟
پاکستان کے مسائل کا ملبہ صرف جمہوریت پر ڈالنا جبکہ اردگرد اسی سے بہتر نتائج حاصل کیے جا رہے ہوں اور اس کو اسلامی شریعت کے مکمل طابع کرکہ (بہت کچھ قانونی طور پر حاصل کیا گیا ہے) مزید بہتر کرنے کی بجایے کسی اور انسانی تخلیق کردہ نظام اس کو اسلامی اصطلاحات کا لیبل لگا کر اسلامی سیاسی نظام کے طور پر پیش کرنے کا نظریاتی تجربہ کہاں تک ممکن (workable) ہے کچھ کہنا مشکل ہے- کوئی دانشور ہی اس پر روشنی ڈال سکتا ہے- افغانستان کے قبائلی معاشرہ کا موجودہ نظام کتنا اسلامی اور کتنا غیر اسلامی ہے یہ ایک الگ بحث ہے- ایرانی ملایت کا ماڈل، جمہوریت کی ایک مقامی شکل ہے جس کے خلاف ایران میں مزاحمت جاری ہے-
علم سیاسیات (political science) میں تجربات کرنے کی بجاتے موجودہ سسٹم کو بہتر کریں، اپنا مشن، ترجیحات کو سیدھا کریں، نظام کو چلانے والی ٹیم، گڈ گورننس (good governance) کے لیے اہل افراد تیار کریں جو ہرادارہ ، طبقہ میں ہوں، اسلام کا بتدریج نفاذ معاشرتی سطح پر کر سکیں، زبردستی نہیں رضاکارانہ طور پر ان لوگوں پر جو اسلام کو قبول کرنے پرتیار کیے جائیں- ورنہ مرسی (مصر)، عمران خان (صرف ریاست مدینہ کی بات کرنا) ، سید احمد شہید (بالا کوٹ) اور بہت مثالیں موجود ہیں-
عوام میں شعور پیدا کریں ، کہ روٹی روزی کے علاوہ بھی کچھ فرائض ہیں- انسان بئیں، مسلمان بنیں عملی طور پر اچھا معاشرہ قائم کریں تو اس معاشرہ میں سے اچھی قیادت ہر جگہ موجود ہو گی جو مطلوبہ نتائج دے سکے گی-
اسوہ حسنہ ، سنت رسول اللہ ﷺ سے بہت کچھ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے- رسول اللہ ﷺ نے دعوه ، تبلیغ سے معاشرہ تیار کیا پھر حکومت مدینہ میں بغیر لشکرکشی کے ملی ، باقی تاریخ ہے-
----------------
اسلام، جمہوریت اور کفر: تحقیقی جائزہ
پچھتر سال کے بعد بھی ایک طبقہ بنیادی سوالات میں الجھا ہوا ہے اور کنفیوزن کا شکار ہے کہ؛ جمہوریت کفریہ نظام ہے یا اسلام کی روح کے مطابق نہہیں؟ اس بحث کے روح رواں وہ ساتھی ہیں جو موجودہ حالات سے فرسٹیشن کا شکار ہیں، طالبان کے برانڈ کے اسلام سے متاثرہیں وہ طالبان جن کو اسلام کےبنیادی اصولوں سے اختلاف ہے خوارج کے جانشین دہشت گر- پاکستان کا موجودہ نظام جس پر جمہوریت کا لیبل لگایا گیاہے، جمہوریت نہیں ایک ہائبرڈ (hybrid) سسٹم ہے جس میں طاقت کسی اور کے پاس ہے ، ذمہ وار کوئی اور ہے- یہ آمریت کی بگڑی شکل ہے- جس کو جمہوریت کہنا ایک مذاق ہے-
مولانا مودودی (رح) ںے بہت غورو خوض اور تفکر کے بعد پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جماعت اسلامی کو عملی سیاست میں شامل کیا- وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت کے قائل نہیں، ان کے مطابق اسلام جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (Sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بناء پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔
علامہ اقبال نے مغرب کے جمہوری نظام کی خرابیوں کونمایاں کرنے کا فریضہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا ہے۔ مغربی جمہوریت پر اقبال کی تنقید جمہوری نظام کی نفی نہیں بلکہ اصلاح کے جذبے سے پھوٹی ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری عمل سے بیزار اور جمہوری نظام سے متنفر حلقے اُن کے اشعار کو اپنے استدلال کی تائید میں پیش کرنے کے عادی ہیں- اسلامی فکر کی نئی تشکیل" کے موضوع پر اپنے خطبات میں اقبال نے بڑی قطعیت کے ساتھ کہہ رکھا ہے کہ روح جب زمان و مکان کے ساتھ اپنا تعلق اُستوار کر لیتی ہے تو مادہ کہلاتا ہے- چنانچہ کسی بھی معاشرے کی روحانی سربلندی کا اندازہ صرف اور صرف اُس کے مادی خدوخال ہی سے کیا جا سکتا ہے- اقبال کے ہاں "روحانی جمہوریت" کی اصطلاح ایک طویل اور عمیق غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ اُنہوں نے آج سے ایک صدی پیشتر "Islam as a Moral and Political Ideal" کے عنوان سے اپنے خطبہ میں "مساوات" کو اسلام کا معاشرتی نظام اور "جمہوریت کو اسلام کا سیاسی نظام قرار دیا تھا"
اقبال نے ''اسلام میں اصولِ حرکت ''کے موضوع پر اپنے خطبے میں روحانی جمہوریت کے قیام، استحکام اور فروغ کو اسلام کا حقیقی مقصود قرار دیا ہے. اقبال کے خیال میں مغرب کا جمہوری نظام امیروں کے مفادات کے حصول کی خاطر غریبوں کا خون چُوستے چلے جانے کا وسیلہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہ نظام امیروں کے معاشی مفادات کے تحفظ اورارتقاء کی خاطر غریبوں کا استحصال روا رکھنا جائز سمجھتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ آج کا یورپ انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی میں زبردست رکاوٹوں کا سبب ہے۔ اسلام کی سچی تعبیر ان انسانی مصائب کی چارہ گر ثابت ہو سکتی ہے۔ اسلام کے آفاقی اصولوں کے مطابق روحانی جمہوریت کا قیام اور فروغ انسان کے معاشی دُکھوں کو شفا بخش سکتا ہے۔ روحانی جمہوریت کا مطلب علمائے کرام کی شہنشاہیت نہیں بلکہ اِس کے برعکس یہ انسانی مساوات کے اسلامی اصولوں پر مبنی معاشی عدل و انصاف کا عوامی جمہوری نظام ہے۔ "اسلامی نظام کے خدوخال اُجاگر کرنے کی خاطراس گہری فلسفیانہ بحث کے دوران اُنھوں نے بڑی قطعیت کے ساتھ جمہوریت کو اسلام کا سیاسی آئیڈیل قرار دیا ہے۔ اُن کے خیال میں جمہوریت کا یہ تصور انسانی معاشرے کواسلام کی اہم ترین عطا ہے۔ اقبال نے لکھا ہے کہ اسلام میں نہ تو اشرافیہ کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی کسی مراعات یافتہ طبقے کی کوئی گنجائش ہے، نہ مُلائیت ہے اور نہ ہی ذات پات پر مبنی کسی نسلی طبقاتی نظام کا کوئی جواز موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکمل انسانی مساوات کے اسلامی تصور پر عمل نے قرنِ اوّل کے مسلمانوں کو دُنیا کی عظیم ترین سیاسی قوّت بنا دیا تھا۔ [ماخوز: اقبال اور جمہوریت، پروفیسر فتح محمد ملک]
اخوان المسلمون کی جدوجہد بھی جمہوری طریقہ پررہی
کیا طالبان اپنی تحقیق سے کوئی نظام پیش کریں گے ؟
مزید .......
“Al-Khilafah Possible” is a research response by Brigadier Aftab Ahmad Khan (Retired): A freelance writer, researcher, and blogger, holds Masters in Political Science, Business Admin, Strategic Studies, spent over two decades in exploration of The Holy Quran, other Scriptures, teachings & followers. He writes for “The Defence Journal” since 2006. His work is available at https://SalaamOne.com/About accessed by over 4.5 Millions. He can be reached at: abbu.jak@gmail.com Read >>>>
پاکستان میں نفاذ اسلام کی دستوری جدوجہد کے سلسلے میں 1951ء میں تمام مسالک کے نمائندہ علماء نے متفقہ طور پر 22 دستوری نکات مرتب کیے۔ یہ علماء جملہ اسلامی فرقوں کے نمائندہ علماء اور ملک کے عوام کی دینی اور روحانی وابستگی کا مرکز ہیں جنہیں پاکستانی عوام کے جذبات کا نشان قرار دیا جاتا ہے۔ ان علماء نے ۲۲ نکات پر مشتمل یہ آئینی سفارشات متفقہ طور پر طے کی تھیں جبکہ لا دین عناصر مسلمانوں کے مذہبی اختلافات کی وجہ سے کسی متفقہ آئین کو ناممکن قرار دیتے تھے۔
دستور اسلامی کے لئے ۳۱ علماء کے طے کردہ ان ۲۲ نکات پر ہر مسلمہ اسلامی فرقہ متفق ہے۔ ان نکات سے اس غلط پروپیگنڈے کا طلسم بھی توڑ ڈالا کہ دورِ جدید کے مقتضیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی اسلامی آئین کا وجود ممکن نہیں۔ یہ بائیس نکات اسلامی فلاحی ریاست کا بنیادی خاکہ ہیں اور انہیں آج کے کسی بھی جدید ترقی یافتہ آئینی خاکے کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
1. اصل حاکم تشریعی وتکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔
2. ملک کا قانون کتاب وسنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جا سکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جا سکے گا جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
(تشریحی نوٹ): اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیے جائیں گے۔
3. مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصول ومقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطہ حیات ہے۔
4. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن وسنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے، منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیا واعلا اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔
5. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ولسانی، علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کر کے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ واستحکام کا انتظام کرے۔
6. مملکت بلا امتیاز مذہب ونسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں یا نہ رہے ہوں یا عارضی طو رپر بے روزگاری، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
7. باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں، یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان ومال وآبرو، آزادیٔ مذہب ومسلک، آزادیٔ عبادت، آزادیٔ ذات، آزادیٔ اظہار رائے، آزادیٔ نقل وحرکت، آزادیٔ اجتماع، آزادیٔ اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
8. مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقع صفائی وفیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔
9. مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندرپوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انھیں اپنے پیرووں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انھی کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔
10. غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود قانون کے اندر مذہب وعبادت، تہذیب وثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انھیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم ورواج کے مطابق کرانے کاحق حاصل ہوگا۔
11. غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدود شرعیہ کے اندر جو معاہدات کیے گئے ہوں، ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے، ان میں غیر مسلم باشندگان ملک اور مسلم باشندگان ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔
12. رئیس مملکت کامسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہور اور ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔
13. رئیس مملکت ہی نظم مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا، البتہ وہ اپنے اختیارات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کر سکتا ہے۔
14. رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی، یعنی وہ ارکان حکومت اور منتخب نمائندگان جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔
15. رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کوکلاً یا جزواً معطل کر کے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔
16. جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی، وہی کثرت آرا سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
17. رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا۔
18. ارکان وعمال حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایک ہی قانون وضابطہ ہوگا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔
19. محکمہ عدلیہ، محکمہ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہوگا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
20. ایسے افکار ونظریات کی تبلیغ واشاعت ممنوع ہوگی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول ومبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔
21. ملک کے مختلف ولایات واقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے۔ ان کی حیثیت نسلی، لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں، محض انتظامی علاقوں کی ہوگی جنھیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا، مگر انھیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا۔
22. دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
اسمائے گرامی علماء و بزرگان دین:
1. (علامہ) سلیمان ندوی (صدر مجلس ہذا)
2. (مولانا) سید ابو الاعلیٰ مودودی (امیر جماعت اسلامی پاکستان)
3. (مولانا) شمس الحق افغانی (وزیر معارف، ریاست قلات)
4. (مولانا) محمد بدر عالم (استاذ الحدیث، دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد، ٹنڈو الٰہ یار، سندھ)
5. (مولانا) احتشام الحق تھانوی (مہتمم دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد، سندھ)
6. (مولانا) محمد عبد الحامد قادری بدایونی (صدر جمعیۃ علمائے پاکستان، سندھ)
7. (مفتی) محمد شفیع (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
8. (مولانا) محمد ادریس (شیخ الجامعہ، جامعہ عباسیہ بہاولپور)
9. (مولانا) خیر محمد (مہتمم خیر المدارس، ملتان)
10. (مولانا مفتی) محمد حسن (مہتمم جامعہ اشرفیہ، نیلا گنبد لاہور)
11. (پیر صاحب) محمد امین الحسنات (مانکی شریف، سرحد)
12. (مولانا) محمد یوسف بنوری (شیخ التفسیر، دار الاسلامیہ اشرف آباد، سندھ)
13. (حاجی) خادم الاسلام محمد امین (خلیفہ حاجی ترنگ زئی، المجاہد آباد، پشاور صوبہ سرحد)
14. (قاضی) عبد الصمد سربازی (قاضی قلات، بلوچستان)
15. (مولانا) اطہر علی (صدر عامل جمعیۃ علماے اسلام، مشرقی پاکستان)
16. (مولانا) ابو جعفر محمد صالح (امیر جمعیت حزب اللہ، مشرقی پاکستان)
17. (مولانا) راغب احسن (نائب صدر جمعیت علمائے اسلام، مشرقی پاکستان)
18. (مولانا) محمد حبیب الرحمن (نائب صدر جمعیۃ المدرسین، سرسینہ شریف، مشرقی پاکستان)
19. (مولانا) محمد علی جالندھری (مجلس احرار اسلام پاکستان)
20. (مولانا) داؤد غزنوی (صدر جمعیۃ اہل حدیث پاکستان)
21. (مفتی) جعفر حسین مجتہد (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
22. (مفتی حافظ) کفایت حسین مجتہد (ادارۂ عالیہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان، لاہور)
23. (مولانا) محمد اسماعیل (ناظم جمعیت اہل حدیث پاکستان، گوجرانوالہ)
24. (مولانا) حبیب اللہ (جامعہ دینیہ دار الہدیٰ، ٹھیڑی، خیر پور میرس)
25. (مولانا) احمد علی (امیر انجمن خدام الدین شیرانوالہ دروازہ، لاہور)
26. (مولانا) محمد صادق (مہتمم مدرسہ مظہر العلوم، کھڈہ، کراچی)
27. (پروفیسر) عبد الخالق (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
28. (مولانا) شمس الحق فرید پوری (صدر مہتمم مدرسہ اشرف العلوم ڈھاکہ)
29. (مفتی) محمد صاحب داد عفی عنہ (سندھ مدرسۃ الاسلام، کراچی)
30. (مولانا) محمد ظفر احمد انصاری (سیکرٹری بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
31. (پیر صاحب) محمد ہاشم مجددی (ٹنڈو سائیں داد، سندھ)
- اللہ کی حاکمیت (3:189) Sovereignty belongs of Allah
- مشاورت (42:38) Consultation- rulers make decisions after consultations
- حکمرانوں کے فرائض (3:110) (22:41) Duties and obligations of rulers
- نظام مملکت سے دیانت داری (8:27) Trustfulness with the state and system
- حاکم وقت کی اطاعت کا حکم (4:59) Obedience to the ruler within bounds
- اطاعت حاکم کی حد (76:24) Limits of obedience to rulers
- آمریت کی نفی (3:79) Autocracy rejected
- دوسرے نظاموں کی نفی (25:43, 45:24) Rejection of other systems
- بری قیادت کی پیروی کا انجام11:98 Results of following bad leaders
- decision making in public matters, 3:159