Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

Refutation of False Dogmas ابطال عقائد باطلہ

کفار اور مشرکین رسول اللہ صلعم پر عجیب و غریب اعترضات کرتے تھے ، جن کا قرآن نے جواب دیا :
رسول کا انسان ہونا :
ذٰلِکَ  بِاَنَّہٗ  کَانَتۡ  تَّاۡتِیۡہِمۡ  رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالُوۡۤا  اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا وَّ اسۡتَغۡنَی اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ  غَنِیٌّ  حَمِیۡدٌ ﴿۶﴾
یہ اس لئے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ کیا انسان ہماری رہنمائی کرے گا؟  پس انکار کر دیا  اور منہ پھیر لیا  اور اللہ نے  بھی بے نیازی کی  اور اللہ تو ہے  ہی بے نیاز  سب خوبیوں والا ۔  [سورة التغابن 64  آیت: 6]
That is because their messengers used to come to them with clear evidences, but they said, "Shall human beings guide us?" and disbelieved and turned away. And Allah dispensed [with them]; and Allah is Free of need and Praiseworthy. [Surat ut Taghabunn: 64 Verse: 6] 
ستودہ صفات۔ “ یعنی ہر قوم کے لوگ صرف اس بنا پر اپنے رسول (علیہ السلام) کا انکار کرتے رہے کہ یہ تو ہماری طرح کا بشر ہے۔ یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے؟ ان کے اس رویے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ تم جدھر جانا چاہتے ہوچلے جائو۔
یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ جیسے رسالت کا انکار بربنائے بشریت (کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا) غلط ہے ‘ ایسے ہی بشریت کا انکار بربنائے رسالت (کہ رسول بشر نہیں ہوسکتا) بھی غلط ہے۔ یہ دراصل ایک ہی سوچ کے دو رُخ ہیں۔ جیسے انسانی جسم کے اندر ایک بیماری کسی ایک عضو پر کینسر کی شکل میں حملہ کرتی ہے تو کسی دوسرے عضوپر اثر انداز ہونے کے لیے کسی اور روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ چناچہ اس نظریاتی بیماری کی ابتدائی صورت یہ سوچ تھی کہ ایک انسان یا بشر اللہ تعالیٰ کا رسول نہیں ہوسکتا۔ چناچہ ہر قوم نے اپنے رسول (علیہ السلام) پر بنیادی اعتراض یہی کیا کہ یہ تو بشر ہے‘ یہ بالکل ہمارے جیسا ہے ‘ ہماری طرح کھاتا پیتا ہے اور ہماری طرح ہی چلتا پھرتا ہے۔ فلاں کا بیٹا ہے ‘ فلاں کا پوتا ہے ‘ ہمارے سامنے پلا بڑھا ہے۔ یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے؟
یعنی انہوں نے بشریت کی بنیاد پر رسول (علیہ السلام) کی رسالت کا انکار کردیا۔ بعد میں اس بیماری نے دوسری شکل اختیار کرلی۔ وہ یہ کہ جس کو رسول مان لیا پھر اسے بشر ماننا مشکل ہوگیا۔ کسی نے اپنے رسول کو خدا بنالیا تو کسی نے خدا کا بیٹا ۔ صرف اس لیے کہ اسے بشر ماننا انہیں گوارا نہیں تھا۔ اسی وجہ سے قرآن مجید میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار کہلوایا گیا :

 قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ   (الکہف : ١١٠)
کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ڈنکے کی چوٹ پر کہیے اور بار بار کہیے کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ ہاں مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔
لیکن قرآن مجید کے واضح اور تاکیدی احکام کے باوجود مذکورہ نظریات کے اثرات ہماری صفوں میں بھی در آئے ‘ بلکہ ہمارے ہاں تو یہ بھی ہوا کہ اس مسئلے کے تدارک کے نام پر کچھ لوگ دوسری انتہا پر چلے گئے۔ چناچہ اس حوالے سے اگر کسی نے ” بڑے بھائی “ کی مثال بیان کی یا اسی نوعیت کی کوئی دوسری دلیل پیش کی تو اس نے بھی حد ادب سے تجاوز کیا۔ ظاہر ہے جب فریقین ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بحث و تکرار کریں گے تو نامناسب الفاظ کا استعمال بھی ہوگا اور غلطیاں بھی ہوں گی۔ بہرحال اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر انسان ہی تھے ‘ لیکن پیغمبروں کے بعض خصائص ایسے بھی ہوتے ہیں جو عام انسانوں کے نہیں ہوسکتے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت میں ایسے کئی خصائص کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً جب صحابہ کرام (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تو صوم وصال (کئی کئی دنوں کا روزہ اور اس طرح کے یکے بعد دیگرے کئی روزے رکھنے) کا اہتمام فرماتے ہیں لیکن ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتے ‘ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَیُّکُمْ مِثْلِیْ ؟ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِ )
(١) ” تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہے ؟ میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے “۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے :
(فَوَ اللّٰہِ مَا یَخْفٰی عَلَیَّ رُکُوْعَکُمْ وَلَا سُجُوْدَکُمْ ‘ اِنِّیْ لَاَرَاکُمْ وَرَائَ ظَھْرِیْ )
(٢) ” اللہ کی قسم ! (نماز باجماعت میں) تمہارے رکوع اور تمہارے سجدے مجھ پر مخفی نہیں ہوتے ‘ میں تو اپنے پس پشت بھی تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہوں “۔
صحیح بخاری کی روایات میں وَلَا خُشُوْعَکُمْ کے الفاظ بھی ہیں کہ نماز میں تمہارا خشوع بھی مجھ سے مخفی نہیں ہوتا۔ پھر معراج کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راتوں رات مکہ سے بیت المقدس تشریف لے جانا ‘ اس کے بعد آسمانوں کی سیر کرنا اور سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر خصوصی کیفیات کا مشاہدہ کرنا ‘ یہ سب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتیازی خصائص ہیں۔
دوسری طرف اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسان تھے اور انسانی داعیات و میلانات رکھتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چوٹ لگتی تو درد محسوس کرتے ‘ جنگ احد میں زخم آیا تو خون کا فوارہ چھوٹ پڑا ‘ بیٹا فوت ہوا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ کبھی جذبات کی ایسی کیفیت بھی ہوئی کہ زبان سے بددعا بھی نکل گئی :
کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمًا خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بَالدَّمِ ! (٣) ”
اللہ تعالیٰ اس قوم کو کیسے کامیاب کرے گا جس نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ خون سے رنگین کردیا ! “ بہرحال بلاشبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر تھے ‘ جیسا کہ قرآن مجید ہمیں تکرار کے ساتھ بتاتا ہے ‘ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا تھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شایانِ شان تھا۔ [ڈاکٹراسراراحمد]
اَکافروں نے کہا کہ یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے
کَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَیۡنَاۤ  اِلٰی رَجُلٍ مِّنۡہُمۡ اَنۡ اَنۡذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ عِنۡدَ  رَبِّہِمۡ   ؕ ؔ قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ  اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ  مُّبِیۡنٌ ﴿۲﴾
 کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب  ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو ڈرائیے اور جو ایمان لے آئے ان کو یہ خوشخبری سنائیے کہ ان کے رب کے پاس ان کو پورا اجر و مرتبہ  ملے گا ۔  کافروں نے کہا کہ یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے  ۔  [سورة يونس 10  آیت: 2]
 Have the people been amazed that We revealed [revelation] to a man from among them, [saying], "Warn mankind and give good tidings to those who believe that they will have a [firm] precedence of honor with their Lord"? [But] the disbelievers say, "Indeed, this is an obvious magician." [Surat Younus: 10 Verse: 2]
 لوگوں کی ہدایت کے لئے رسول انسان ہی ہوسکتا ہے :۔ 
کفار  کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ شخص جو ہم جیسا ہی ایک آدمی ہے۔ ہماری طرح ہی پوری زندگی بسر کرتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ وہ اللہ کا رسول ہو، اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر دیا ہے کہ انسانوں کی رہنمائی کے لیے صرف انسان ہی رسول  ہوسکتا ہے جو انہی کی زبان بولتا اور سمجھتا ہو اس کے علاوہ کوئی صورت ممکن ہی نہ تھی نہ کسی فرشتہ کو رسول بنایا جاسکتا تھا اور نہ کسی جن یا دوسری مخلوق کو اور اگر ایسا کیا بھی جاتا تو وہ لوگوں کے لیے حجت کیسے بن سکتا تھا ؟
 اس رسول کو بھیجنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے برے انجام سے بروقت مطلع کر دے اور انہیں اللہ کے جملہ احکام پہنچا دے اور بتلا دے کہ عزت اور سرفرازی صرف ان لوگوں کے لیے ہی ہوسکتی ہے جو اس کی تعلیم کو تسلیم کرلیں لہذا لوگوں کو تو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر وہ کیا بات ہے جس پر وہ تعجب کر رہے ہیں ؟ 
 آپ کو جادوگر کیوں کہا جاتا تھا ؟ 
کیونکہ آپ اللہ کا جو کلام پیش کر رہے تھے اس میں لطافت شیرینی اور تاثیر اتنی زیادہ تھی کہ کافر بھی یہ کلام سن کر مسحور ہوجاتے تھے جیسا کہ نبی اکرم کا اپنا ارشاد ہے کہ اِنَّ مِنَ الْبَیَان لسحرًا (بخاری بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الآدب۔ باب البیان والشعر فصل اول) یعنی کوئی بیان ایسا ہوتا ہے جو جادو کا سا کام کرجاتا ہے۔ قرآن کی ایسی تاثیر کی وجہ سے قریش نے بلند آواز سے قرآن پڑھنے پر پابندی لگا رکھی تھی اور کہتے تھے کہ اس سے ہماری عورتیں اور بچے متأثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ پابندی لگانے والے قریشی سردار خود قرآن سن کر اس سے لطف اندوز ہوتے تھے اور اپنے باہمی معاہدہ کے باوجود چوری چھپے قرآن سن لیا کرتے تھے۔ ضما دازدی کا اسلام لانے کا قصہ :۔ ایک دفعہ یمن کے قبیلہ ازد کے ایک بااثرفرد ضماد ازدی مکہ تشریف لائے تو سرداران قریش نے انہیں متنبہ کیا کہ یہاں ایک شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے جس کے کلام میں جادو ہے کہیں اس کے ہتھے نہ چڑھ جانا۔ ضماد ازدی خود دم جھاڑ کا کام کرتے تھے اس لیے انہیں یہ خیال آیا کہ اس شخص کی بات تو سننی چاہیے۔ میں بھی آخر ایک اچھا بھلا عقل مند آدمی ہوں اگر اس کی بات اچھی لگی تو قبول کرلوں گا ورنہ چھوڑدوں گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اسے کچھ آسیب ہوا تو اللہ میرے ہاتھوں اسے شفا دے۔ اس خیال سے میں ان کے پاس چلا گیا اور آپ سے اپنا کلام سنانے کی درخواست کی آپ نے اسے خطبہ مسنونہ الحمد للہ۔۔ عبدہ و رسولہ تک سنایا یہ خطبہ اگرچہ کوئی مستقل قرآنی آیت نہیں تاہم قرآنی کلمات کا ہی مجموعہ ہے جب ضماد نے یہ کلمات سنے تو جھوم اٹھا اور کہنے لگا پھر دہرائیے آپ نے دہرائے تو کہنے لگا ایک بار پھر دہرائیے آپ نے تیسری مرتبہ جب یہ کلمات دہرائے تو کہنے لگا میں نے کاہنوں کا کلام بھی سنا ہے اور جادوگروں کا بھی، شاعری کے اشعار بھی سنے ہیں۔ مگر ان کلمات جیسا پہلے کبھی کوئی کلام نہیں سنا بیشک یہ کلمات تو سمندر کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں پھر اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر بیعت کی تو آپ نے فرمایا : اور اپنی قوم کی طرف سے ؟ ضماد کہنے لگے ہاں میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں (مسلم، کتاب الجمعہ، باب تخفیف الصلوۃ والخطبۃ) ضماد ازدی کا یہ بیان کہ یہ کلمات تو سمندر کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں وہی بات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس سورة کی پہلی آیت میں ( الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ ۝) 10 ۔ یونس :1) فرمایا ہے یعنی یہ کتاب دانائی سے اس قدر معمور ہے۔ کہ اس کی ہر بات استدلال اور اس کے منطقی نتیجہ پر منتج ہوتی ہے اور جو فصاحت و بلاغت، لطافت و شیرینی ہے وہ اس کی زائد خوبیاں ہیں۔
 پھر چونکہ یہی قرآن آپ پیش فرما رہے تھے جو لوگوں کو مسحور بنا دیتا تھا لہذا کافر آپ کو جادوگر کہہ دیتے تھے اور اکثر انبیاء ورسل کو کفار کی جانب سے اسی لقب سے نوازا جاتا رہا ہے جن کو کوئی حسی معجزہ عطا کیا گیا تھا۔ 
حالانکہ ایک رسول اور ایک جادوگر کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً :
 ١۔ نبی اور جادوگر میں فرق :۔ جادو ایک فن ہے جو سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے ہر جادوگر کسی استاد کا شاگرد ہوتا ہے جبکہ معجزہ محض اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے یہ سیکھنے سکھلانے کی چیز نہیں ہوتی۔
 ٢۔ جادو ایک پیشہ ہے جسے مال و دولت کے حصول کے لیے اختیار کیا جاتا ہے اور اس معاملہ میں جادوگر انتہائی پست ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں جیسا کہ فرعون نے جب جادوگروں کو بلایا تو ان کا پہلا سوال ہی یہ تھا کہ کہ ہمیں اس کا کچھ معاوضہ بھی ملے گا ؟ جبکہ نبی انسانیت کی بےلوث خدمت کرتا ہے وہ برملا لوگوں سے کہہ دیتا ہے کہ میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ 
٣۔ جادو بالعموم ایسی باتوں کے لیے کیا جاتا ہے جن سے کسی کو دکھ اور تکلیف پہنچانا مقصود ہو جبکہ معجزہ بندوں کی ہدایت کے لیے بطور نشان نبوت پیش کیا جاتا ہے اور اس سے مقصود سراسر بھلائی ہی بھلائی ہوتی ہے۔ ٤۔ جادوگر کے اخلاق و کردار دونوں مکروہ ہوتے ہیں اور لوگ اگر ان کی عزت کرتے ہیں تو ان کے شر سے بچنے کی خاطر کرتے ہیں جبکہ انبیاء کے اخلاق اور کردار نہایت پاکیزہ ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ان کی عزت کی جاتی ہے اور ان کی گذشتہ زندگی کو کفار کے سامنے معیار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے واضح تضاد کے باوجود مخالفین اگر انبیاء کو جادوگر کہتے رہے کہ تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی تھی کہ انہیں اتنا نمایاں فرق بھی نظر نہ آتا تھا بلکہ اس کی وجوہ محض ان کی ضد، ہٹ دھرمی، عناد، اپنے آباؤ اجداد کے مذہب کا تعصب اور اپنے مناصب اور سرداریوں کا ختم ہوجانا وغیرہ ہوتا تھا۔ [کیلانی ]

کفار معجزہ کا مطالبہ کرتے:

وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ.. ﴿قرآن :٥٩ :١٧ ﴾ 
:"اور ہم نے معجزات بھیجنا اس لئے موقوف کردیا کہ اگلے لوگوں نے اس کی تکذیب کی تھی.." (قرآن ١٧:٥٩)


End of age of Miracles on demand, Islam is religion of rationality and wisdom: "And We refrain from sending the signs (miracles), only because the men of former generations treated them as false: We sent the she-camel to the Thamud to open their eyes, but they treated her wrongfully: We only send the Signs by way of terror (and warning from evil).[Quran;17:59]. With the advancement in knowledge and scientific discoveries the miraculous working of nature is evident. Yet there are many who perceive not, they have closed their mind, they are like deaf, dumb and blind...[Keep reading ......]
قرآن سے ان پرواضح کیاکہ پہلے اقوام میں معجزات بھیجےگیے مگرانہوں نے جادو کہہ کرانکار کیا اور عذاب کےمستحق ٹھہرے- الل ہنےمعجزات دکھانے بند کردیے قرآن میں کھلی نشانیاں ہیں مگر یہ انکار کرتے ہیں- اگر کوئی معجزہ بھی دکھا دیں تو یہ کفر کریں گے- ان کی ہٹ  دھرمی کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، یہ کبھی نہ مانیں گے ....[.....]

Refutation of False Dogmas /Misconceptions ابطال عقائد باطلہ 

  • Messengers / Prophets
  • Prophet Muhammad (pbuh)
  • Miracles
    • Demand of Miracles (6:37, 10:20, 11:12, 13:7, 13:27, 17:90, 91, 92.93)
    • Why demand Miracles? Response  3:183, 14:10, 14:11, 20:133, 25:8, 9, 28:48
    • miracles only by Allah’s leave, 40:78, 29:50, 28:48
    • Allah discontinued Miracles as were rejected as sorcery (17:59, 2:20, 26:153, 37:15
    • Previous Miracles were rejected (3:184, 4:153, 6:4, 5,)
    • Will not believe even if Miracles sent  (6:109, 110, 10:74, 96, 97, 52:44)
    • Destroyed communities (21:6, 26:4, 5)
    • Signs in Quran but they refuse (30:58, 30:59)
    • Some believe (10:40) 
 ابطال عقائد باطلہ >>>>>

Popular Books