Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلاۃ (درود ) [33:56] Blessing Prophet - Darood


درود وسلام کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ہر مومن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ سے ہی ایمان کی نعمت نصیب ہوئی۔ اور ایمان اتنی بڑی نعمت ہے کہ دین و دنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور اس نعمت کا احسان مومن کبھی اتار نہیں سکتے۔ تاہم ایمانداروں کو اتنا ضرور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے اس محسن اعظم کی محبت سے سرشار ہوں اور اس کے حق میں دعائے رحمت و برکت اور مغفرت کیا کریں۔ اس سے ان کے اپنے بھی درجات بلند ہوں گے اور ہر دفعہ درود پڑھنے کے عوض اللہ ان پر دس گناہ درود یا اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ علی النبی بعد التشہد)

قران مین ارشاد ہے :

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ  یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ  وَ سَلِّمُوۡا  تَسۡلِیۡمًا ﴿۵۶﴾

 اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔  اے ایمان والو! تم  ( بھی )  ان پر درود بھیجو اور خوب سلام  ( بھی )  بھیجتے رہا کرو ۔  [سورة الأحزاب 33  آیت: 56]

“Indeed, Allah confers blessing upon the Prophet, and His angels [ask Him to do so]. O you who have believed, ask [ Allah to confer] blessing upon him and ask [ Allah to grant him] peace.” [ Surat ul Ahzaab: 33 Verse: 56]

اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مرتبہ و منزلت کا بیان ہے جو (آسمانوں) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے اور یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ثنا و تعریف کرتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمتیں بھیجتا ہے اور فرشتے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عالم سفلی (اہل زمین) کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ اور سلام بھیجیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف میں علوی اور سفلی دونوں عالم متحد ہوجائیں۔ 

انبیاء ( علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کے سلام کا ذکر قرآن میں الگ الگ بھی آیا ہے، جیسے : (سلم علی نوح فی العلمین) ، (سلم علی ابراھیم) وغیرہ اور اکٹھا بھی آیا ہے، جیسے : (سلم علی المرسلین) [ دیکھیے الصافات : ٧٩، ١٠٩، ١٨١ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ پر صلاۃ کے لیے کئی الفاظ مروی ہیں، جو سبھی اس مقصد کے لیے پڑھے جاسکتے ہیں۔ ان میں زیادہ مشہور کعب بن عجرہ (رض) کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں :

 سَأَلْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! کَیْفَ الصَّلَاۃُ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الْبَیْتِ ؟ فَإِنَّ اللّٰہَ قَدْ عَلَّمَنَا کَیْفَ نُسَلِّمُ ، قَالَ قُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی آلِ إِبْرَاھِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاھِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ٣٣٧٠ ]

نیز مختصرا صلی اللہ علی رسول اللہ وسلم بھی پڑھا جاسکتا ہے-

احادیث میں درود کی بڑی فضیلت وارد ہے نماز میں اس کا پڑھنا واجب ہے یا سنت ؟ جمہور علماء اسے سنت سمجھتے ہیں اور امام شافعی اور بہت سے علماء واجب اور احادیث سے اس کے وجوب ہی کی تائید ہوتی ہے اسی طرح احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آخری تشہد میں درود پڑھنا واجب ہے پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنے کی وہی حیثیت ہے اس لیے نماز کے دونوں تشہد میں درود پڑھنا ضروری اس کے دلائل مختصراحسب ذیل ہیں ایک دلیل یہ ہے کہ مسند احمد میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا یارسول اللہ آپ پر سلام کس طرح پڑھنا ہے یہ تو ہم نے جان لیا (کہ ہم تشہد میں السلام علیک پڑھتے ہیں) لیکن جب ہم نماز میں ہوں تو آپ پر درود کس طرح پڑھیں ؟ تو آپ نے درود ابراہیمی کی تلقین فرمائی (الفتح الربانی) مسند احمد کے علاوہ یہ روایت صحیح ابن حبان، سنن کبری بیہقی، مستدرک حاکم اور ابن خزیمہ میں بھی ہے-

سلموا تسلیما کے دو مطلب :

سلّموا تسلیما کے بھی دو معنے ہیں۔ ایک تو واضح ہے کہ:

1) .اس کے لئے سلامتی کی دعا کیا کریں۔ 2)اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ دل و جان سے اس کے آگے سرتسلیم خم کردیں۔ جیسا کہ سورة نساء کی آیت نمبر ٦٥ میں ان الفاظ کے یہی معنی مراد ہیں۔

صلوٰۃ وسلام کے فضائل :

 درود وسلام پڑھنے کے فضائل میں اب چند مزید احادیث ملاحظہ فرمائیے :

١۔ سیدنا انس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص ایک بار مجھ پر درود بھیجے گا تو اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجے گا۔ اس کے دس گناہ معاف کئے جائیں گے اور دس درجے بلند کئے جائیں گے۔ (حوالہ ایضاً ) 

٢۔ سیدنا ابیص بن کعب فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! میں آپ پر بکثرت درود بھیجتا ہوں۔ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ درود کے لئے مقرر کروں ؟ فرمایا : جتنا تو چاہے میں نے کہا : ایک چوتھائی ؟ فرمایا جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرے تو تیرے حق میں بہتر ہے میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ فرمایا : جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرلے تو تیرے حق میں بہتر ہے پھر میں نے پوچھا : دو تہائی ؟ فرمایا : جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرے تو تیرے لئے بہتر ہے پھر میں نے کہا : میں اپنے دعا کا سارا وقت آپ پر درود کے لئے مقرر کرلیتا ہوں۔ فرمایا : اب تو اپنے غم سے کفایت کیا جائے گا اور تیرے گناہ تجھ سے دور کردیئے جائیں گے (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ عن النبی فصل ثانی)

٣۔ سیدنا عمر بن خطاب فرماتے ہیں : جب تک تو اپنے نبی پر درود نہ بھیجے دعا زمین و آسمان کے درمیان موقوف رہتی ہے اور اوپر نہیں چڑھتی۔ (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ علی النبی۔ فصل ثانی)

٤۔ سیدنا علی (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : وہ شخص بڑا بخیل ہے جس کے پاس میرا ذکر ہوا پھر اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ ایضاً )

اگر ایک مجلس میں آپ کا ذکر مبارک بار بار آئے تو صرف ایک مرتبہ درود پڑھنے سے واجب ادا ہوجاتا ہے، لیکن مستحب یہ ہے کہ جتنی بار ذکر مبارک خود کرے یا کسی سے سنے ہر مرتبہ درود شریف پڑھے۔ حضرات محدثین سے زیادہ کون آپ کا ذکر کرسکتا ہے کہ ان کا ہر وقت کا مشغلہ ہی حدیث رسول ہے، جس میں ہر وقت بار بار آپ کا ذکر آتا ہے، تمام ائمہ حدیث کا دستور یہی رہا ہے کہ ہر مرتبہ درود سلام پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ تمام کتب حدیث اس پر شاہد ہیں۔ انہوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی کہ اس تکرار صلوٰة وسلام سے کتاب کی ضخامت کافی بڑھ جاتی ہے کیونکہ اکثر تو چھوٹی چھوٹی حدیثیں آتی ہیں جن میں ایک دو سطر کے بعد نام مبارک آتا ہے، اور بعض جگہ تو ایک سطر میں ایک سے زیادہ مرتبہ نام مبارک مذکور ہوتا ہے، حضرات محدثین کہیں صلوٰة وسلام ترک نہیں کرتے۔ مسئلہ : جس طرح زبان سے ذکر مبارک کے وقت زبانی صلوٰة وسلام واجب ہے اسی طرح قلم سے لکھنے کے وقت صلوٰة وسلام کا قلم سے لکھنا بھی واجب ہے، اور اس میں جو لوگ حروف کا اختصار کر کے ” صلعم “ لکھ دیتے ہیں یہ کافی نہیں، پورا صلوٰة وسلام لکھنا چاہئے۔ 

ذکر مبارک کے وقت افضل و اعلیٰ اور مستحب تو یہی ہے کہ صلوٰة اور سلام دونوں پڑھے اور لکھے جائیں، لیکن اگر کوئی شخص ان میں سے ایک یعنی صرف صلوٰة یا صرف سلام پر اکتفا کرے تو جمہور فقہاء کے نزدیک کوئی گناہ نہیں۔ شیخ الاسلام نووی وغیرہ نے دونوں میں سے صرف ایک پر اکتفا کرنا مکروہ فرمایا ہے۔ ابن حجر ہیثمی نے فرمایا کہ ان کی مراد کراہت سے خلاف اولیٰ ہونا ہے، جس کو اصطلاح میں مکروہ تنزیہی کہا جاتا ہے۔ اور علماء امت کا مسلسل عمل اس پر شاہد ہے کہ وہ دونوں ہی کو جمع کرتے ہیں اور بعض اوقات ایک پر بھی اکتفا کرلیتے ہیں۔ 

لفظ صلوٰة انبیاء (علیہم السلام) کے سوا کسی کے لئے استعمال کرنا جمہور علماء کے نزدیک جائز نہیں۔ امام بیہقی نے اپنے سنن میں حضرت ابن عباس کا یہ فتویٰ نقل کیا ہے : لا یصلی علیٰ احد الا علیٰ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکن یدعیٰ للمسلمین والمسلیمات بالاستغفار۔ امام شافعی کے نزدیک غیر نبی کے لئے لفظ صلوٰة کا استعمال مستقلاً مکروہ ہے، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی مذہب ہے، البتہ تبعاً جائز ہے یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰة وسلام کے ساتھ آل واصحاب یا تمام مومنین کو شریک کرلے اس میں مضائقہ نہیں۔ اور امام جوینی نے فرمایا کہ جو حکم لفظ "صلوٰة " کا ہے وہی لفظ "سلام" کا بھی ہے کہ غیر نبی کے لئے اس کا استعمال درست نہیں، بجز اس کے کہ کسی کو خطاب کرنے کے وقت بطور تحیہ کے السلام علیکم کہے، یہ جائز و مسنون ہے۔ مگر کسی غائب کے نام کے ساتھ ” (علیہ السلام) “ کہنا اور لکھنا غیر نبی کے لئے درست نہیں (خصائص کبریٰ سیوطی ص ٢٦٢ ج ٢) علامہ لقائی نے فرمایا کہ قاضی عیاض نے فرمایا ہے کہ محققین علماء امت اس طرف گئے ہیں اور میرے نزدیک بھی یہی صحیح ہے، اور اسی کو امام مالک، سفیان اور بہت سے فقہاء و متکلمین نے اختیار کیا ہے کہ صلوٰة و تسلیم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء کے لئے مخصوص ہے غیر نبی کے لئے جائز نہیں، جیسے لفظ سبحانہ اور تعالیٰ ، اللہ جل شانہ، کے لئے مخصوص ہے۔ انبیاء کے سوا عام مسلمانوں کے لئے مغفرت اور رضا کی دعا ہونا چاہئے، جیسے قرآن میں حضرات صحابہ کے متعلق آیا رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ (روح المعانی) ----  [ماخوز از مجموعہ تفاسیر ]

اللہ اور اس کے فرشتے اہل ایمان پر رحمتیں نازل کرتے ہیں

ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ کَانَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَحِیۡمًا ﴿۴۳﴾

 وہی ہے جو تم پر اپنی رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے  ( تمہارے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں )  تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جائے اور اللہ تعالٰی مومنوں پر بہت ہی مہربان ہے ۔  [سورة الأحزاب 33  آیت: 43]

It is He who confers blessing upon you, and His angels [ask Him to do so] that He may bring you out from darknesses into the light. And ever is He, to the believers, Merciful.[ Surat ul Ahzaab: 33 Verse: 43]
مزید :
  1. سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
  2. تحقیقی جائزہ میلاد النبی ﷺ   (Mwalid Birthday of Prophet Muhammad (phub) 
  3. علامہ ابن تیمیہ ، (رحمہ الله ) (728ھ) جن سے بہت لوگ انسپایئریشن لیتے ہیں، میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کےثواب کومنانے والے کی ‘نیت’ کی ساتھ مشروط کرتے ہیں: ’’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت (مکروہ) کے لیےیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘- ’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘(ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406)

Popular Books