Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

مصیبت اپنے کسب و عمل کی بدولت


جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے، اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت
أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَـٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّـهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَـٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ ۖ فَمَالِ هَـٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا ﴿٧٨﴾
رہی موت، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری بدولت ہے کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے آخر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی (4:78) 

مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا ﴿٧٩﴾
اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے، اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے اے محمدؐ! ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اوراس پر خدا کی گواہی کافی ہے (4:79 سورة النساء)
 ” حسنہ “ اور ” سیۂ “ دونوں کو ” من عند اللہ “ ( اللہ کی طرف سے) قرار دیا ہے کہ دونوں چیزیں اسی نے پیدا کی ہیں، لیکن سبب اور کسب کی مناسبت سے برائی کی نسبت انسان کی طرف کردی ہے-
 اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ کسی کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ بھی اللہ کے حکم سے پہنچتا ہے، اور نقصان پہنچے تو وہ بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے۔ دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کا حکم اﷲ تعالیٰ کب اور کس بنا پر دیتے ہیں۔ اس کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ جہاں تک کسی کو فائدہ پہنچنے کا تعلق ہے اس کا حقیقی سبب صرف اﷲ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے، کیونکہ کسی بھی مخلوق کا اﷲ تعالیٰ پر کوئی اجارہ نہیں آتا کہ وہ اسے ضرور فائدہ پہنچائے، اور اگر اس فائدے کا کوئی ظاہری سبب اس شخص کا کوئی عمل نظر آتا بھی ہو تو اس عمل کی توفیق اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، اس لئے وہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہی فضل ہے، اور اس شخص کا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے۔ دوسری طرف اگر اِنسان کو کوئی نقصان پہنچے تواگرچہ وہ بھی اﷲ تعالیٰ کے حکم ہی سے ہوتا ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ یہ حکم اسی وقت فرماتے ہیں جب اس شخص نے اپنے اختیاری عمل سے کوئی غلطی کی ہو۔
بہتر ہے کہ نفلی عبادت کو کسی مسلمان کی صوابدید چھوڑ دیں ، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مصیبت اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے تو اسے توبہ کرنے کا حق دیں -- رسول اللهﷺ تو معصوم تھے ہم تو گناہ گار ہیں - اس وقت پوری دنیا کہ رہی ہے کہ یہ مصیبت ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہے لیکن اگر کسی کو اپنے نیک  پارسا ہونے کا بہت یقین ہے تو ووہ توبہ نہ کرے صرف دعا قنوت پرہے  ,. بہتر ہے کہ سب دعا قنوت بھی پرہیں اور توبہ بھی کریں  , جو ہم ہر وقت کرتے ہیں -

  نوافل تو بہت کثیر ہیں۔ اوقات ممنوعہ کے سوا آدمی جتنے چاہے پڑھے مگر ان میں سے بعض جو حضور سیدا لمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اور امئہ دین رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہیں ، تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضو، نماز اشراق، نماز چاشت، نماز سفر، نماز واپسی سفر، نماز تہجد، صلوٰۃ التسبیح، نماز حاجت، صلوٰۃ الاوابین، نماز غوثیہ، نماز توبہ، نماز حفظ الایمان وغیرہ ہاجوبڑی کتابوں میں مذکور ہیں۔
کسی بھی نفلی عمل یا نفلی عبادت کی ادائیگی  میں ایک عمل کرتے ہوئے متعدد نیتیں کی جا سکتی ہیں، جیسے: غسل ایک عمل ہے، اس میں (اگر حاجت ہوتو) جنابت دور کرنے کی نیت بھی کی جا سکتی ہے، اور (اگر عید کا دن بھی ہو تو) عید کے غسل کی بھی نیت کی جاسکتی ہے، اور (اگر وہی دن جمعہ کا بھی ہو تو) جمعہ کے غسل کی نیت بھی کی جا سکتی ہے، اس طرح ایک ہی غسل میں نیت کی وجہ سے ان تمام امور کا ثواب ملے گا ۔ اسی طرح دو رکعت نفل میں تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضوء،  توبہ، چاشت وغیرہ  کئی نیتیں کی جا سکتی ہیں اور متعدد نیتیں کرنے پر انہی دو رکعتوں میں ان تمام نوافل کا ثواب ملے گا۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ صرف دو رکعت نفل میں ساری نوافل کی نیت کر کے باقی نوافل کو مستقل طور پر چھوڑ دیا جائے، بلکہ حسبِ موقع جتنی توفیق ہو زیادہ سے زیادہ  نوافل پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔  تاہم تعداد کم زیادہ کی کوئی قید نہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ جس عمل کی نیت کر رہا ہو اس کا وقت اور موقع بھی ہو، تب اس کا اجر ملےگا، اور اگر کسی ایسے عمل کی یا کسی ایسی نفل کی نیت کی جس کا وہ وقت ہی نہیں تھا  پھر وہ اجر کا مستحق نہیں ہوگا، جیسےرات میں نفل پڑھتے وقت چاشت کی نیت لغو اور بےفائدہ ہے۔
کسی پریشانی ، مشکل ، بلاء یا وباء کے آن پڑنے کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی سنت کے مُطابق نمازوں میں دعاء قنوت (قنوت نازلہ) کی جانی چاہیے- لیکناگرکوئی شخص  یہ سمجھتا ہے کہ  مصیبت اس کے گناہوں کیوجہ سے ہے  تو کسی کوکیاحق ہے کہ اس پر پابندی لگاے؟  [واللہ اعلم ] 
  1. دعائیں اللہ تعالی قبول کیوں نہیں فرماتا؟ 
  2. توبہ اور قبولیت کی شرائط - قرآن ، سورہ السناء 4:17،18
 درج ذیل دُعائیں  کثرت کی جانی چاہیں: 
(1) ﴿ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ::: اللہ کے عِلاوہ کوئی بھی سچا اور حقیقی معبود نہیں وہ سب سے بڑھ کر عظیم اور حِلم والا ہے، اللہ کے سِوا کوئی بھی عِبادت کا مستحق نہیں وہ عظیم عرش کا رب ہے، اللہ کے عِلاوہ کوئی بھی سچا اور حقیقی معبود نہیں وہ آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور اور بزرگی والے عرش کا رب ہے   ﴾  صحیح بخاری / کتاب الدعوات /   باب 26   الدعاء عند الکرب ، صحیح مُسلم / کتاب الذِکر و الدعاء والتوبۃ / باب دعاء الکرب۔
(2) ﴿ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّى كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ::: (اے اللہ) تیرے سِوا کوئی بھی عبادت کا حق دار نہیں تیری ہی پاکیزگی ہے بے شک میں ہی ظلم کرنے والوں میں سے ہوں﴾ سُنن الترمذی / کتاب الدعوات /   باب 85   مَا يَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ، الجامع الصغیر و زیادتہُ / حدیث 4370، إمام الالبانی رحمہُ اللہ نے ’’’صحیح‘‘‘ قرار دِیا، السلسۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث 1744 ۔
(3) ﴿ اللَّهُ اللَّهُ رَبِّي لاَ أُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً  ::: اللہ ، اللہ (وہ ہی فقط) میرا رب ہے میں اُس کے ساتھ کِسی کو بھی(شخص یا چیز کو) شریک نہیں کرتا ﴾ سُنن الترمذی / کتاب الوِتر /   باب 26 باب فِى الاِسْتِغْفَارِ، سُنن ابن ماجہ / کتاب الدُعاء / باب 17 باب الدُّعَاءِ عِنْدَ الْكَرْبِ ، إمام الالبانی رحمہُ اللہ نے ’’’صحیح‘‘‘ قرار دِیا ۔
(4)﴿ اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو فَلاَ تَكِلْنِى إِلَى نَفْسِى طَرْفَةَ عَيْنٍ وَأَصْلِحْ لِى شَأْنِى كُلَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ ::: اے اللہ میں تیری رحمت کا اُمید وار ہوں ، لہذا تُو مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے حوالے مت کر اور میرے تمام تر معاملات کی إصلاح فرما دے تیرا سِوا کوئی بھی سچا اور حقیقی معبود نہیں ﴾ سُنن ابو داؤد / کتاب الأدب /   باب 110   مَا يَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ، إمام الالبانی رحمہُ اللہ نے ’’’حَسن‘‘‘ قرار دِیا ۔

(5) ﴿ يَا حَىُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ::: اے ہمیشہ زندہ رہنے والے ، اے ہمیشہ قائم رہنے والے ، میں تیری رحمت کے ذریعے تجھ سے مدد طلب کرتا ہوں﴾ إمام الالبانی رحمہُ اللہ نے ’’’حَسن‘‘‘ قرار دِیا، صحیح الجامع الصغیر / حدیث 4777۔  (https://bit.ly/2WxDvHy )

ضرور پڑھیں :[ اسلام میں سہولتیں اور آسانیاں ]
    1.  کرونا وائرس خطرہ ، سرد موسم ، بارش میں گھر پر نماز یا مسجد میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کی سہولت … [Continue Reading…]
    2. قرآن ہدایت و شفاء , طب نبوی ، کرونا وائرس ….  [Continue Reading…]
    3. دعائیں اللہ تعالی قبول کیوں نہیں فرماتا؟  … [Continue Reading…]
    4. توبہ اور قبولیت کی شرائط - قرآن ، سورہ السناء 4:17،18
    5. نماز کی اہمیت ، مسائل ، طریقه اور جمع بین الصلاتین … [Continue Reading…]
    6. اسلام آسان دین -Islam is Easy >>>>  
    7. مجبوری میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا >>>>>>
    8. الازہر کے فتوے پر دھیان دینا چاہئے
References/ Links
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں  کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن  4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...اور مشرکوں کی طرح فرقہ واریت اختیار کرکہ دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے-  ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کو واپسی میں ہے  .. مگر کیسے >>>>>>

Popular Books