Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

Jihad & Warfare جہاد و قتال


وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ اِنَّ  اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶﴾ (29:6)
 اور ہر ایک جدوجہد  کرنے والا اپنے ہی بھلے کی کوشش کرتا ہے ۔  ویسے تو اللہ تعالٰی تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے(29:6)
“Do not yield to those who deny the truth, but launch a Great Jihad (great campaign) against them with the help of the Quran. [to convey its message]. (Quran;25:52)


 جہاد کی غلط تشریح:  دہشت گرد جہاد اور روایتی جنگوں میں فرق نہیں کرتے .... [......]
In order to regain the lost glory, honor and respect, while the Muslims [we start from Pakistan]  have to work hard to address the apparent reasons of decline [lack of education, ignorance, scientific development , modernization etc] and simultaneously take the sword of the Qur’an in our hands and strive hard to understand, practice and convey the message of Quran to the fellow Muslims and humanity. Accomplishment of this gigantic task demands a full revolutionary struggle through the Quranic invitation.......[.........] 
جہاد بمعنی کسی انسان کی مقدور بھر کوشش جو اسلام کے نفاذ اور اس کی سربلندی کے لئے کی جائے۔ پھر اس جہاد کی اقسام بھی متعدد ہیں اور محاذ بھی متعدد ہیں۔ اقسام سے مراد مثلاً زبان سے جہاد ایک دوسرے کو سمجھانا اور تلقین کرنا یا تقریروں کے ذریعہ تبلیغ کرنا اور قلم، میڈیا سے جہاد یعنی اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور اسلام پر وارد ہونے والے اعتراضات اور حملوں کا جواب لکھنا اور پھر اس کے بعد اجتماعی جہاد یا جہاد بالسیف یا قتال فی سبیل اللہ ہے۔ 
 جہاد کا سب سے پہلا محاذ انسان کا اپنا نفس ہے۔ پھر اس کے بعد عزیزواقارب پھر اس کے بعد پورا معاشرہ ہے۔ اور آخری محاذ قتال فی سبیل اللہ یعنی ان کافروں نے جنگ کرنا ہے جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ہوں یا اسلام کو نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے ہوں۔- 
جہاد اگر نفس سے کیا جائے گا تو جہاد کرنے والے کی اپنی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہوگی اگر اجتماعی جہاد اپنے معاشرہ سے کیا جائے گا تو پورا معاشرہ بےحیائیوں سے اور ظلم و جور سے پاک ہوگا اور اگر جہاد بالسیف کیا جائے گا تو اس سے مسلمانوں کو سیاسی فائدے حاصل ہوں گے۔
جس قسم کا بھی جہاد کیا جائے گا، بالآخر اس کا فائدہ جہاد کرنے والے کی ذات کو ہی پہنچے گا۔- یعنی جہاد کرنے والا اگر جہاد نہ کرے تو اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا اور اگر جہاد کرتا ہے تو بھی اللہ کو اس کا کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اور اللہ کی بےنیازی کا تو یہ عالم ہے کہ اللہ فرماتے ہیں اے میرے بندو اگر تم تمام جن و انس سارے کے سارے اس شخص کی طرح بن جاؤ جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار ہے تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ بھر بھی اضافہ نہیں ہوگا اور اے میرے بندو اگر تم تمام جن و انس سارے کے سارے اس شخص کی طرح ہوجاؤ جو تم میں سے سب سے زیادہ میرا نافرمان اور بدکار ہے تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ بھر بھی کمی واقع نہ ہوگا (مسلم۔ کتاب البروالصلہ۔ باب تحریم القلم)- پھر یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص اسلام کی سربلندی کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو اس ہرگز یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اللہ پر کچھ احسان کر رہا ہے بلکہ اسے اللہ کا ممنون احسان ہونا چاہئے اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے اسے جہاد کی توفیق بخشی جس میں ہر پہلو سے اس کا اپنا ہی بھلا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی سرکاری افسر ایک شخص کو اپنے ماتحت ملازم رکھ لیتا ہے تو ملاسم کو اس افسر کا ممنون احسان ہونا چاہئے۔ چہ جائیکہ ملازم یہ کہنا شروع کردے کہ میں نے ملازم ہو کر افسر پر احسان کیا ہے-
وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا  ” – مکہ میں مشکل حالات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کے ذریعے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ چناچہ مکہّ میں بارہ سال تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو جہاد کیا وہ جہاد بالسیف نہیں تھا بلکہ جہاد بالقرآن تھا۔ اس جہاد کی آج پھر ہمارے معاشرے میں شدید ضرورت ہے۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے ڈاکٹر اسرار احمد (رحمہ اللہ ) کی کتاب ” جہاد بالقرآن اور اس کے پانچ محاذ “ کا مطالعہ مفید رہے گا ‘۔ بہر حال آج ہمیں اپنے قومی و ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر جہاد کرنے اور قرآنی دعوت ‘ تربیت ‘ تزکیہ ‘ انذار اور تبشیر کے ذریعے سے ِ اقامت دین کے لیے ایک بھر پور انقلابیّ جدوجہد برپا کرنے کی ضروت ہے۔ ہمارے اجتماعی مسائل کا حل بھی یہی ہے اور ہمارے اندرونی امراض کی دوا (وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ ) (یونس : ٥٧) بھی اسی میں ہے –
قرآن کے ہم پر چار حقوق ہیں :
الله نے نے تمام مسلمانوں کو قرآن کا وارث بنایا (35:32). [تفسیر] قرآن کے حقوق ہر مسلمان نے استطاعت کے مطابق ادا کرنا  ہیں:
1..قرآن پر ایمان 
2. .قرآن کو پڑھنا، سمجھنا، تدبر اور تفکر  
3. .قرآن پر عمل کرنا 
4..قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانا 
یاد رہے کہ :  قرآن کا پیغام پہنچانا جہاد کبیرہ ہے  (25:52)
روز محشر رسول الله  کہیں گے: ”اے میرے رب ! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا “ (25:30) [تفسیر] آئیے کوشش کریں کہ ہم اپنے محبوب ، رسول الله ﷺ کو شکایت کا موقع دینے والوں میں شامل نہ ہوں، یہ بلاگ سائٹ، "مضامین قرآن" اسی سمت میں ایک قدم ہے . 
خبر دار! کوئی غلط فہمی نہ رہے کہ جہاد (قتال . جنگ ، حرب) موقوف ہو گیا ؟ موجودہ دور مکی اور مدنی ادوار کا مرکب ہے- قومی طاقت  کے بنیادی عناصر میں ، جغرافیہ ، خام مال ، قدرتی وسائل ، آبادی اور ٹیکنالوجی ٹھوس عناصر (tangible)  ہیں ، جبکہ نظریہ ، حوصلہ ، قیادت ، شخصیت ، تنظیمی استعداد اور سفارتکاری کا معیار، غیر محسوس (intangible) عناصر ہیں۔  معیشت، فوجی طاقت ان بنیادی عناصر پر منحصر ہوتی ہے- اس کےساتھ ساتھ مزید “سوفٹ پاور،  “ہارڈ پاور (Hard Power، Soft Power) کو بھی مد نظر رکھناچاہیے-  اگرچہ سوفٹ پاور ریاست استعمال کرتی مگر تنظیمیں اور افراد بھی کرسکتے ہیں- دشمن طاقتور ہو تو اسلامی ریاست اور افراد، “سوفٹ پاور(Soft Power)” (میڈیا ،نظریاتی، دعوت و تبلیغ) سے “جہاد کبیرہ ” کریں، جو مسلسل ہے- اور جب  اسلامی ریاست “ہارڈ پاور (Hard Power)”  (فوجی طاقت) کے ساتھ طاقتور ہو، توپھر “سمارٹ پاور”  یعنی، “سوفٹ پاور” اور “ہارڈ پاور” کا امتزاج (قرانی تعلیمات کی حدود میں) کر سکتی ہے-  اسے”ہائبرڈ پاور” یا “ہائبرڈ جہاد” بھی کہ سکتے ہیں، اس میں افراد کا کردار صرف “سوفٹ پاور” (نظریاتی، دعوت و تبلیغ)  تک محدود ہے- “ہارڈ پاور” وہ سرخ لائن ہے جوموجودہ حالات میں صرف اسلامی ریاست کے دائرۂ کار میں  ہے- حالیہ تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ اس سرخ لائن کو کراس کرنے والے افراد اور گروہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر دشمن کے سہولت کار بن جاتےہیں-
“ہائبرڈ وار” (Hybrid War) کی اصطلاح آج کل “روایتی اور غیر روایتی جنگ” کے مکس کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں فوجی قوت کے ساتھ ، خفیہ آپریشنز ، میڈیا وار ، دہشت گردی  وغیرہ شامل ہیں-وں اسلام میں دہشت گردی اور معصوم شہریوں کی ہلاکت قبول نہیں (17:33)– اس لیے “ہائبرڈ جہاد” اسلام شریعت کے اندر ہی ہوسکتا ہے اور یہ اسلامی ریاست کے دائرۂ کار میں ہے- جیسا کہ رسول اللہ صلعم نے ریاست مدینہ قائم کرنے کے بعد قتال [جنگ ، حرب ] تلوار سے جہاد کیا- قرآن کے زریعہ “جہاد کبیرہ” (مسلسل  جدو جہد) کرتے ہوے جہاد (قتال . جنگ ، حرب) کی تیاری مکمل رکھیں (8:60) تاکہ جب اسلامی ریاست کو ضرورت پڑے تو دشمنوں کو دندان شکن جواب دے  سکیں-
  1. مزید ریفرنس 
  2.  قرآن – منتخب مضامین  ویب بک (Web Book Mobile Friendly )
  3. جہاد بالقرآن اور اس کے پانچ محاذ
  4.  مسلمانوں کے زوال کے اسباب
  5. جہاد (قتال، جنگ )ریاست کی ذمہ داری 
  6. Misinterpretation-of-jihad
  7. Christian  Zionism
  8. سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی حال اور مستقبل:
  9. موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں اسلام اور پاکستان کا مستقبل
  10. https://salaamone.com/great-jihad
  11.  جہاد کی غلط تشریح:  دہشت گرد جہاد اور روایتی جنگوں میں فرق نہیں کرتے .... [......]

--------------


جہاد فی سبیل الله (قتال) 

(Jihad in way of Allah (Armed Struggle

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ﴿٣٩﴾ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّـهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿٤٠﴾

اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے- یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے "ہمارا رب اللہ ہے" اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے  [22:39,40]

قرآن کے نظریہ "جہاد قتال" اور عام جنگ و جدل میں بہت فرق ہے،  جسے مد نظر رکھنا بہت اہم ہے، الله کے احکام کی خلاف درزی پر اجر کیسے مل سکتا ہے؟

لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٩﴾

اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگون نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو بےشک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔  اللہ تو صرف تمہیں ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکا لنے میں ایک دوسرے کی مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے گا وہی ظالم ہیں۔ [سورة الممتحنة 60:8,9]
غیر مسلمانوں سے تعلقات ..... [.........]

"He does not forbid you to deal kindly and justly with anyone who has not fought you on account of your faith or driven you out of your homes: God loves the just. (8) God only forbids you to make friends with those who have fought against you on account of your faith and driven you out of your homes or helped others to do so. Any of you who turn towards them in friendship will truly be transgressors.” (Quran;60:9). “It may well be that God will create goodwill between you and those of them with whom you are now at enmity — for God is all powerful, most forgiving and merciful. "(Quran: 60:7-9) ..... Keep reading .......[........]
Muslims-Non Muslim Relations... [.........] 
جہاد . قتال اور "فساد و دہشت " گردی میں فرق ہے :
وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الۡاَرۡضِ لِیُفۡسِدَ فِیۡہَا وَ یُہۡلِکَ الۡحَرۡثَ وَ النَّسۡلَ ؕ وَ اللّٰہُ  لَا  یُحِبُّ الۡفَسَادَ ﴿۲۰۵﴾
 جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالٰی فساد کو ناپسند کرتا ہے ۔  [سورة البقرة 2  آیت: 205]
جہا د کےاصول ہیں جہاد اور فساد میں فرق ہے-
 جہاد کی غلط تشریح:  دہشت گرد جہاد اور روایتی جنگوں میں فرق نہیں کرتے .... [......]

 And when he goes away, he strives throughout the land to cause corruption therein and destroy crops and animals. And Allah does not like corruption. [ Surat ul Baqara: 2 Verse: 205]

یہ قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں اولین آیت ہے جو نازل ہوئی ۔ اس آیت میں صرف اجازت دی گئی تھی ۔ بعد میں سورہ بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کا حکم دے دیا گیا ، یعنی :
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ ، ( آیت 2:190 )
وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھَمْ مِّن حَیْثَ اَخْرَجُوْکُمْ ( آیت 191 :2) 
وَقَاتِلُوْھُمْ حتیٰ لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلہِ ( آیت 2:193 )
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ (2:216) 
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَعْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ O ( آیت 244: 2 )
اجازت اور حکم میں صرف چند مہینوں کا فصل ہے[ تفہیم القرآن ]

کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ وَ ہُوَ کُرۡہٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ  وَ اَنۡتُمۡ  لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾

 تم پر جہاد (قتال) فرض کیا گیا گو وہ تمہیں دشوار معلوم ہو ،  ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو ،  حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو حقیقی علم اللہ ہی کو ہے ،  تم محض بے خبر ہو ۔  [سورة البقرة 2  آیت: 216]

“Fighting has been enjoined upon you while it is hateful to you. But perhaps you hate a thing and it is good for you; and perhaps you love a thing and it is bad for you. And Allah Knows, while you know not”. [ Surat ul Baqara: 2 Verse: 216]

جہاد کسی بھی قوم کی روح رواں ہوتی ہے۔ شہید کی موت قوم کی حیات ہے۔ اسی لیے کتاب و سنت میں جہاد کو بہت افضل عمل قرار دیا گیا ہے اور بعض لوگ تو اسے اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ جہاد کو "فرض کفایہ" کی بجائے "فرض عین" سمجھنے لگے ہیں اور اسے اسلام کا چھٹا رکن سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا انداز فکر درست نہیں۔ "جہاد افضل الاعمال" ہونے کے باوجود نہ فرض عین ہے اور نہ اسلام کا چھٹا رکن (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة نساء کی آیت نمبر ٩٦ اور سورة توبہ کی آیت نمبر ٩٢)[عبدل رحمان کیلانی]

وَلَوْلاَ دَفَعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ (البقرہ:۲۵۱)
”اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا، تو زمین فساد سے بھر جاتی؛ مگر دنیا والوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔“ (کہ وہ دفعِ فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے  (البقرہ:۲۵۱)

اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ج وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْآ اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ ج اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفاً (النساء:۷۶)  
”جو لوگ ایمان دار ہیں، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر وسرکش ہیں وہ ظلم وسرکشی کی خاطر لڑتے ہیں، پس شیطان کے دوستوں سے لڑوکہ شیطان کی تدبیر لچر ہوتی ہے“ (النساء:۷۶) 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"
اے ایمان والو خدا سے ڈرو، ڈرتے رہو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تا کہ رُستگاری پاؤ۔" (سورۂ مائدہ:۵، آیت۳۵)
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّهُ الَّذِينَ جَاهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ"
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم بہشت میں داخل ہو جاؤگے (حالاں کہ) ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں اور نہ ہی صبر کرنے والوں کو۔" (سورۂ آل عمران:۳، آیت۱۴۲)

َيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ"
اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا بہت جلد ایسے لوگ پیدا کردے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں۔ خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔ یہ خدا کا فضل ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے، دیتا ہے اور خدا بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے۔" (سورۂ مائدہ:۵، آیت۵۴)

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُواْ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّهُ الَّذِينَ جَاهَدُواْ مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُواْ مِن دُونِ اللّهِ وَلاَ رَسُولِهِ وَلاَ الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً وَاللّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونََ"
کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ یوں ہی چھوڑ دیے جاؤ گے اور ابھی تو خدا نے ایسے لوگوں کو متمیّز کیا ہے نہیں، جنھوں نے تم میں سے جہاد کیے اور خدا اور اس کے رسول اور مومنوں کے سوا کسی اور کو اپنا ہم راز اور دلی دوست نہیں بنایا۔ اور خدا تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔" (سورۂ توبہ:۹، آیت۱۶)

جہاد الله کی راہ میں ہے :
وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ أَثَاماً (الفرقان:۶۸)
 ”اور جس ذات کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہیں، ہاں مگر حق پر اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص ایسے کام کرے گا تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا۔“  (الفرقان:۶۸)

جہاد  (قتال) کےاصول
  1. عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
  2. غیر مسلح لوگوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
  3. درختوں کو کاٹا نہیں جائے گا۔
  4. شک کی بنا پر کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
  5. اگر کوئی کافر جنگ کے دوران موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے کیونکہ اسلام جنگ و جدل کا نہیں بلکہ امن و اصلاح کا دین ہے۔ احادیث میں تو یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر سر پر لٹکتی تلوار دیکھ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لینا ضروری ہے۔
  6. ایک مرتبہ ایک صحابی ایک کافر کو قتل کرنے ہی والے تھے کہ اس نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا، مگر صحابی نے اس کے کلمے کی پروا نہ کی اور اسے قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت الفاظ میں اس قتل کی مذمت کی اور صحابی کے اس قول پر کہ اس کافر نے محض جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا، ارشاد فرمایا: أفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ؟ (مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب تحريم قتل الکافر بعد أن قال لا إله إلا اﷲ، 1 : 96، رقم : 96) ترجمہ : کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کرنے کا حکم فرمایا۔


جہادِ فی سبیل اللہ کے اہداف و مقاصد:
جہاد عظیم تر اہداف و مقاصد کا حامل ہے۔ مسلمان تو مسلمان غیرمسلم بھی اُس کے فوائد و ثمرات سے محروم نہیں رہتے۔ جہاد اسلامی ریاست کی پرشکوہ عمارت کا مضبوط اور ناقابلِ شکست ستون ہے۔
Jihad – Important Doctrine:
Jihad is a very important doctrine of Islam, which lays down guidelines and principles, to be adhered by a Muslim while striving against various forms of resistance, internal (against selfish desires and evil temptations) or external for the cause of Allah. Muslims are required to make persistent effort to serve the cause of Islam. That effort, whatever its future, falls within the meaning of the term “jihad-fi-Sabi-Lillah” (Jihad for the cause of Allah). Jihad is derived from the Arabic word ‘Juhd’, which means “effort”. The verb Jahida means ‘to be tried as a result of exerting an effort or energy; striving, making endeavor’. So Jihad is to contend with difficulties and to work continually, especially with strenuous effort. The term presupposes that such an effort will be made against resistance. Narrated Abu Sa’id al-Khudri:  The Prophet (peace be upon him) said: The best fighting (Jihad) in the path of Allah is (to speak) a word of justice to an oppressive ruler. (Sunan of Abu Dawood:2040). While term ‘Jihad’ has wider application, the term Qital is used in the meaning of ‘warfare’ or armed struggle. Qital may be part of Jihad but every Jihad is not necessarily warfare.... Keep reading .......[......]

 اسلام کے دیگر ارکان اُس کے سہارے اپنا وجودقائم رکھتے ہیں- جہاد کے مقاصد درج زیل ہیں:
  1. اسلامی عقیدے کی آزادی کا تحفظ
  2. عبادات اور مقاماتِ مقدسہ کا تحفظ
  3. فساد فی الارض کا خاتمہ
  4. آزمائش، تربیت اور اصلاح
  5. کافروں کو دہشت زدہ، مرعوب و رسوا کرنا اور اُن کی تدابیر کو ناکارہ کرنا
  6. منافقین کی پردہ دری
  7. اقامتِ دین
  8. کافروں کے ظلم و ستم کا خاتمہ 
  9. کافروں کے لشکر مسلم علاقوں پر حملہ آور ہوں تو روکنا
  10. کافر بھی مظلوم ہو تو اُس کی مدد 
  11. اگر کافر دعوت دین کے کام میں رکاوٹ ڈالے تو اُس کا ہاتھ روکنا-

آج کے دور میں سواۓ چند ممالک کے تمام دنیا میں قانونی طور پر مذہبی آزادی ہے- مسلمان اسلام کی تبلیغ بغیر کسی قانونی رکاوٹ کے یورپ اور امریکہ میں کر رہے ہیں- اسلام تیزی سے پھیلتا مذھب ہے- اس لیے آج کے دور میں تبلیغ کے لیے جہاد کی ضرورت نہیں- البتہ فلسطین ، کشمیر اور برما وغیرہ میں مسلمانوں پر ظلم کے جارہا ہے ان کو ان کے گھروں سے نکالا ج رہا ہے تو جہاد فرض بنتا ہے-
 قرآن تو واضح طور پر کہتا ہے
وَجـٰهِدوا فِى اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ…﴿٧٨﴾…سورة الحج
اللہ کی راہ میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے۔
 جہاد اور قتال ایک چیز نہیں
جہاد کو مسلسل عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے اس کی درج ذیل اقسام ہیں:
1.جہاد بالعلم
2.جہاد بالمال
3.جہاد بالعمل
4.جہادبالنفس
5.جہاد بالقتال
 جہاد بالعلم:
یہ وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے۔
 جہاد بالعمل:
جہاد بالعمل کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔ اس جہاد میں قول کے بجائے عمل اور گفتار کی بجائے کردار کی قوت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا مقصود ہے۔ جہاد بالعمل ایک مسلمان کیلئے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسرکرنے کا نام ہے۔
 جہاد بالمال:
اپنے مال کو دین کی سر بلندی کی خاطر اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔
 جہاد بالنفس:
جہاد بالنفس بندۂ مومن کیلئے نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
 جہاد بالقتال:
جہاد بالقتال کا حکم نبوت کے مدنی دور میں نازل ہوا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے قریش اور مسلمانوں میں بدر کے مقام پر غزوہ ہوا، جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ كيونكہ جہاد ميں جان لی اور دی جاتی ہے اور جان لينا ہميشہ سے الہامی شريعتوں ميں ممنوع رہا ہے سب سے پہلے مسلمانوں كو جہاد كی اجازت دی گئی۔ يہ اجازت مسلمانوں كو سب سے پہلے جب دی گئی تو ساتھ اس كی وجہ يہ بيان كی كہ يہ لوگ اس لئے لڑ سكتے ہيں كہ ان پر ظلم ہوا ہے۔ قرآن ميں آيا ہے:

“جن سے جنگ کی جائے، اُنہیں جنگ کی اجازت دی گئی، اِس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے، اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اِس بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔( قرآن: سورۃ الحج:3940)

 جہاد بالقتال کی بنیادی شرائط:
جہاد بالقتال کے لئے کچھ بنیادی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے، جن کے بغیر جہاد انسانیت کے لیے محض فتنہ و فساد کا باعث بنتا ہے، جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ 
1.جہاد کی بنیادی شرائط میں، جہاد صرف الله کے راستے کے لئے، مال دولت، جاہ حشمت، زمین پر قبضہ یا بادشاہت کے فروغ کے لیئے جنگ جہاد نہیں ہو سکتی-
2. جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام الناس کو فردا فردا، جتھوں، یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔
3. جہاد میدان جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں, ظالموں کے خلاف، مظلوموں کی مدد میں  اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب دشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔
  اگر کوئی کفر کے خلاف جنگ کرتا ہوا شہید ہو جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ حقیقت میں وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری تعالٰیٰ ہے:

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔( قرآن: سورۃ البقرہ:154)
جہاد کا اعلان اسلامی حکومت کرتی ہے نہ کہ افراد ، گروہ اور دہشت گرد، جہاد اور فساد مختلف ہیں۔ دہشت گرد جہاد کے نام سے فساد پھیلاتے ہیں ۔ ان کی سزا قرآن میں ہے:
سورۂ مائدہ (۵) کی آیات ۳۲۔ ۳۴، جن میں انسانی جان کی حرمت اور محاربہ کی سزائیں بیان ہوئی ہیں، بے حد اہمیت کی حامل ہیں۔ ارشاد ہوا ہے:
 مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اَنَّہٗمَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا. وَلَقَدْ جَآءَ تْہُمْ رُسُلُنَا بِالبَیِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ. اِنَّمَا جَزآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗوَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلاَفٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْْہِمْ فَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(سورۂ مائدہ (۵) کی آیات ۳۲۔ ۳۴،)

’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جس نے کسی ایک انسان کو کسی دوسرے انسان کی جان لینے یا زمین میں فساد برپا کرنے کے علاوہ قتل کیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندہ رکھا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔ اور یقیناًان کے پاس ہمارے رسول واضح دلائل لے کر آئے، لیکن اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرتے اور زمین میں فساد پھیلانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انھیں عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے، یا انھیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلاوطن کر دیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے، جبکہ آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے، البتہ جو مجرم تمھارے ان پر قابو پانے سے پہلے توبہ کرلیں تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔‘‘ (سورۂ مائدہ (۵) کی آیات ۳۲۔ ۳۴،)

بد امنی اور فساد خاندانوں، معاشروں اور ممالک کو تباہی وبربادی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ فساد کی صورت میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی امن درہم برہم ہو جاتا ہے۔ بد امنی کی فضا میں علوم وفنون کی ترقی رک جاتی ہےاور صنعتی ترقی کے لیے فضاسازگار نہیں رہتی۔ بلند تراقدار پنپ نہیں سکتیں اور معاشرے کا ہر فرد مستقل طور پر خوف وہراس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر افراد زیادہ دیر تک خوف وہراس کی کیفیت میں مبتلا رہیں تو ان کی صلاحیتیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ افراد نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں ،علوم وفنون کی ترقی مطلوب ہو یا صنعتی ترقی کا پروگرام ہو، صرف پُر امن فضا میں ہی ممکن ہو سکتا ہے، فساد اور بد امنی کی فضا میں تو کوئی شخص رہنا بھی گوارا نہیں کرتا حتیٰ کہ لوگ فساد زدہ علاقوں سے نقل مکانی کر جاتے ہیں۔

اسلام ایک روشن فکر اور فطری دین ہے۔ وہ علو م وفنون اور معاشرت ومعیشت میں ترقی چاہتا ہے۔ اسلام یہ بات گوارا نہیں کرتا کہ انسانی زندگی اور اعلیٰ اقدار کے فروغ میں کسی بھی طرح جمود اور تعطل پیدا ہو۔ اس لیے اس نے فتنے فساد کے استیصال اور خاتمے کے لیے مؤثر اور مثبت لائحہ عمل دیا ہے۔ قرآن مجید فتنے فساد کی مَذمت بھی کرتا ہے اور اس کے انسداد کے لیے لوگوں کی ذہنی تربیت بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عبرت کے لیے حدود وتعزیرات کی صورت میں سزائیں بھی نافذ کرتا ہے تاکہ جن پر کوئی نصیحت اثر نہ کرے، اُنہیں قانون کے شکنجے میں جکڑ کر لا قانونیت سے روکا جاسكے۔
 انتشار وافتراق سے بچنے کا حکم
نبی کریم ﷺ نے لڑائی سے بچنے کا حکم دیا۔ جو شخص لڑائی سے بچتا ہے، آپﷺ نے اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی فرمائی۔
1. ابوداؤد شریف میں في كراهية المراء یعنی لڑائی، جھگڑے کی ناپسندیدگی کے عنوان کے تحت یہ حدیث بیان کی گئی ہے کہ نبی ﷺ جب کسی عامل کو کسی جگہ تعینات فرماتے تو اسے ہدایت کرتے کہ «بشّروا ولا تنفروا، يسّروا ولا تعسّروا»1”خوشخبری دینا، نفرت پیدا نہ کرنا ۔ آسانیاں پیدا کرنا، مشکلات اور دقتیں پیدا نہ کرنا۔” اس حدیث کو اس عنوان کے تحت بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی فضا پیدا کرنا جس میں لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا نہ ہو،لوگ آپس میں ایک دوسرے کےلیے سہولتیں پیدا کرنے والے ہوں، جھگڑالو نہ ہوں ، مسلمان ولی الامر کی ذمہ داری ہے۔
2. نبی کریم ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
«مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَهُوَ بَاطِلٌ بُنِيَ لَهُ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَهُوَ مُحِقٌّ بُنِيَ لَهُ فِي وَسَطِهَا وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ بُنِيَ لَهُ فِي أَعْلَاهَا»2
”جس نے باطل چیز (جس پر اس کا حق نہیں تھا) کے لیے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ،اللّٰہ اس کے لیے جنّت کے کنارے پر محل تیار کرے گا اورجس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کیا تو اللّٰہ جنّت کے وسط میں اس کے لیے محل تیار کرے گا اور جس نے (نہ صرف جھگڑا کرنے سے اجتناب کیا بلکہ) حسن خلق کا مظاہرہ کیا تو اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں محل تیار کردیا جائےگا ۔”

 فتنہ اور قتل وغارت سے گریز
 1. آ پﷺ نے فتنے فساد کے دور کی نشاندہی فرمائی اور اس دور میں ایک مسلمان کے طرزِ عمل کے بارے میں راہنمائی بھی فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا:
«مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ الْتَقَيَا بِأَسْيَافِهِمَا إِلَّا كَانَ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ»
”جب دو مسلمان آپس میں تلوار لے کرلڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔”
 آپﷺ نے مقتول کے جہنمی ہونے کا سبب یہ بیان فرمایا کہ وہ بھی تو دوسرے کو قتل کرنے کے لیے تلوار لے کر نکلا تھا۔ اگر اس کا داؤ چلتا تو یہ اسے قتل کر دیتا ۔اب دوسرے کا داؤ چل گیا۔
 2. نبی کریم ﷺ نے فتنے اور بد امنی کے ماحول میں خصوصی طور پر ہدایات دی ہیں۔ آپ نے فرمایا: «إِيَّاكُمْ وَالْفِتَنَ فَإِنَّ اللِّسَانَ فِيهَا مِثْلُ وَقْعِ السَّيْفِ»
 ”فتنوں سے بچو کیونکہ ایسی صورت میں زبان تلوار سے بھی بد تر کردار ادا کرتی ہے۔”
 3. جب مسلمانوں کے اندر فتنہ فساد پیدا ہو جائے اور اس بات کی وضاحت نہ ہو رہی ہو کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ، تو ان سب سے کنارہ کشی اختیار کر لو۔آپﷺ نے فرمایا:
 «الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْقَائِمِ وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنْ السَّاعِي فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ فَإِنْ دُخِلَ يَعْنِي عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ»
 ”فتنے کے زمانے میں جو شخص بیٹھا ہے وہ کھڑےہوئے شخص سے بہتر ہے اور کھڑا ہوا شخص اس شخص سے بہتر ہے جو چل رہا ہے اور جو چل رہا ہے وہ بہتر ہے اس سے جو دوڑ رہا ہو۔ ان فتنوں میں اپنی کمانیں توڑ ڈالو۔ کمانوں کے چلّے کاٹ ڈالو اور اپنی تلواریں پتھر پر مار کر کند کر دو۔ اگر کوئی فتنہ باز کسی کے گھر میں گھس آئے کہ اسے قتل کرے تو وہ ایسا ہی کرے جیسا آدم کے بیٹوں میں سے اُس نے کیا تھا جو بہتر تھا۔ ”
 جہاد کی غلط تشریح:  دہشت گرد جہاد اور روایتی جنگوں میں فرق نہیں کرتے .... [......]

 ظلم وزیادتی کا استیصال
معاشرے میں بد امنی اور فساد بے چینی کا ایک سبب معاشرتی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں ظلم وزیادتی اور حقوق کی پامالی بھی ہے۔ ظالم اپنے اقتدار، معاشرتی برتری، یا معاشی شعبے میں بالا دستی کی بنا پر دوسروں کو زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ ان کا استحصال کرتا ہےتو متاثرہ افراد یا طبقات احتجاج کرتے ہیں۔ اگر احتجاج غیر مؤثر ہو جائے تو وہ ظالم سے خود نمٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ بد امنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسلام اس سلسلے میں معاملات کو جڑ سے پکڑتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ حقوق کی عدم ادائیگی دنیوی اعتبار سے قابل دست انداز آئین وقانون ہے اور آخرت میں بھی قابل مؤاخذہ جرم قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اپنے آپ کو مظلوم کی بد دعا سے بچاؤ کیونکہ مظلوم کی آہ اور اللّٰہ تعالیٰ کے درمیان کوئی آڑ اور رکاوٹ نہیں ہوتی۔ آپﷺ نے فرمایا: «انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا»
 ”اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔صحابہ نے پوچھا کہ مظلوم بھائی کی تو مدد سمجھ میں آتی ہے، ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ظالم کا ہاتھ روکنا اور اسے ظلم سےباز رکھنا اس کی مدد ہے۔ “
 جہاد بالقتال کے لئے کچھ بنیادی شرائط:

 جہاد (قتال ) کی بنیادی شرائط جن کے بغیر جہاد انسانیت کے لیے محض فتنہ و فساد کا باعث بنتا ہے، جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا، ان میں درج ذیل شرائط شامل ہیں:



1.عوام الناس کو فردا فردا، جتھوں، یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔
2.دین وشریعت کے اعتبار سے جہادوقتال مسلمانوں کی حکومت ہی کر سکتی ہے ۔ اگر اس معاملے میں حکومت غفلت یا بزدلی کا مظاہرہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ اس کی جواب دہ ہو گی-
3۔کسی موقع پر عوام یہ خیال کرتے ہوں کہ اب جہادکرنا ضروری ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنی حکومت کو اس پر آمادہ کریں۔ پر امن پروٹیسٹ ، میڈیا میں کمپین،  اگر حکومت اس پر قائل ہو جائے تو اس کی اجازت سے اس کے تحت جہاد کریں۔
4. ا س سے آگے بڑھ کر عوام کوئی اقدام کرنے کا حق رکھتے ہیں اور نہ اختیار ۔
5.ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی حکومت کی اطاعت کرے۔ الا یہ کہ وہ کسی خلاف دین کام کا حکم دے دے ۔
6. البتہ اگر ان کی حکومت اجازت دے تو وہ ان مظلوم مسلمانوں کی اخلاقی اور مالی مدد کر سکتے ہیں ۔
7.جہاں تک اس ضمن میں حکومتوں کا معاملہ ہے تو اس بارے میں وہی بہتر رائے قائم کر سکتی ہیں ۔ اس لیے کہ یہ انھیں ہی بین الاقوامی معاہدات، ذمہ داریوں، فارن ریلشنز کا  معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جنگی سازوسامان کی نوعیت اور تعداد اور معاشی وسا ئل کی حقیقی صورتِ حال کیا ہے ۔
8.اگر کوئی حکومت ان حقائق کو نظر انداز کر کے کسی ملک کے ساتھ جنگ چھیڑ دے تو بڑا امکان ہے کہ دوسرے ملک کے مظلوم مسلمانوں کا مسئلہ تو حل نہیں ہو گا، بلکہ جنگ چھیڑنے والے ملک کے مسلمان بھی مظلوم بن کر رہ جائیں گے ۔
9.مسلمانوں کی موجودہ ہر میدان میں پست حالت کے پیش نظر دین و دانش کی رو سے یہی اصولی بات کہی جا سکتی ہے کہ حکومتیں اس بات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ جنگ کر کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلاسکیں اور ظالم ملک کو سبق سکھا سکیں؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ملے تو ضرور جہاد کریں ۔

.10جہاد کی تیاری:
الله کا فرمان ہے:
“اور اِن کافروں کے لیے ، جس حد تک ممکن ہو، حربی قوت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو جس سے اللہ کے اور تمھارے ان دشمنوں پر تمھاری ہیبت رہے اور ان کے علاوہ اُن دوسروں پر بھی جنھیں تم نہیں جانتے ،(لیکن) اللہ انھیں جانتا ہے اور (جان رکھو کہ) اللہ کی اِس راہ میں تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے ،وہ تمھیں پورا مل جائے گا اور تمھارے ساتھ کوئی کمی نہ ہو گی۔‘‘(الانفال8:60)
 11: جہاد میں دشمن سے عددی تناسب:
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سورۂ انفال کی آیت 65اور66 کی رو سے جہاد میں مسلمان نصرتِ خداوندی کی توقع اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب وہ دین پر پوری طرح عمل پیرا ہوں اور ان کی مادی قوت دشمن کی مادی قوت کے مقابلے میں ایک نسبت اور دو کی ہو:
” اب اللہ نے تم سے (اپنے حکم کا بوجھ) ہلکا کر دیا اسے معلوم ہے کہ تم میں (کسی قدر) کمزوری ہے سو (اب تخفیف کے بعد حکم یہ ہے کہ) اگر تم میں سے (ایک) سو (آدمی) ثابت قدم رہنے والے ہوں (تو) وہ دو سو (کفار) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے (ایک) ہزار ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار (کافروں) پر غالب آئیں گے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (یہ مومنوں کے لئے ہدف ہے کہ میدانِ جہاد میں ان کے جذبۂ ایمانی کا اثر کم سے کم یہ ہونا چاہیئے)،(سورۂ انفال کی آیت 65)
مثال کے طور پر مدِ مقابل کے پاس ایک 100 ٹینک ہوں تو مسلمانوں کے پاس ویسے ہی 50 ٹینک ہونے چاہییں ۔ بصورت دیگر مظلوم مسلمانوں کو سیاسی طریقے سے ظلم سے نجات دلانے کی کوشش کریں ۔یہاں یہ مسلمانوں کی حکومتوں کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے - 

"بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے" (2:249)
لیکن اللہ نے بہت مرتبہ کم تعداد والوں کو بھی فتح عطا فرمائی،بحر حال  حکومت نے جہاد - قتال کا  فیصلہ سوچ سمجھ کر  کرنا ہے -
ان  قرانی احکام پر عمل درآمد کسی گروہ آیا فرد کے بس میں نہیں، ہمیشہ سے اور آج کے دور میں بھی یہ تیاری صرف حکومت کر سکتی ہے- بنیادی بات ذہن میں اچھی طرح راسخ کر لیں ہے کہ جہاد وقتال مسلمانوں کی حکومت ہی کر سکتی ہے ۔ مسلمانوں کو اس اصول کی کسی صورت میں خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔

Links/ References:
  1. https://salaamone.com/jihad-myth-and-reality/
  2. PAIGHAM -E- PAKISTAN MESSAGE: National Narrative Against Terrorism: 
  3.  دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ -پیغام پاکستان:  پیغام پاکستان
  4. https://paighampakistan.wordpress.com/
  5. Global Terrorism - عالمی دھشتگردی : 
  6. ISIS, Daesh, Boko Haram, Taliban - Illogical Logic of Terrorists to kill innocent people on name of Islam - Refuted
  7. The Dreadful Doctrine of Terror : Takfeer عقيدة المروعة من الإرهاب: التكفير
  8. Frankenstein the CIA created - From Mujahideen to Al-Qaida , Takfiri Taliban ...
جہاد کے اہداف
قرآن پاک نے جہاد کے تین اہداف بیان فرمائے ہیں۔
۱۔ اسلام کی دعوت محفوظ و غالب ہو جائے۔
۲۔ مستضعفین کی نصرت، یعنی مغلوب اور کمزوروں کی مدد و حفاظت
۳۔رد العدوان، یعنی اس طاقت کو توڑنا جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرکشی کر سکتی ہو۔

جہاد کی فرضیت کے دلائل
قرآن پاک کی درج ذیل آیات میں قتال کی فرضیت کا مسئلہ بیان ہوا ہے۔
۱۔ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 216،251،190،244
۲۔ سورۃ التوبۃ آیت نمبر 5،29،36،38،41
۳۔سورۃ الحج آیت نمبر40
۴۔ سورۃ محمد آیت نمبر 4
اب ایک ایک سورت پر مختصرًا نظر ڈالتے ہیں۔
البقرۃ:
سورۃ البقرۃ مدنی سورت ہے۔ اس میں کل دو سو چھیاسی آیات ہیں۔ اس سورت میں آیاتِ جہاد33 ہیں۔ اس میں جہاد کے متعلق 4 اہم مباحث ہیں۔
۱۔ فرضیت جہاد
۲۔حکمتِ جہاد
۳۔اہمیت اطاعت امیر
۴۔فدائی حملہ ؟ خود کشی حرام ..: (Quran 4:29)  (6:151
اس سورۃ مبارکہ میں سریۃ ابن جحش رضی اللہ عنہ، صلح حدیبیہ اورشہداء بدر کا تذکرہ ہے۔ وہ 33 آیات جن میں جہاد و قتال کا بیان ہے یہ ہیں۔109،114،153،154،155،156،157177.190.191.192.193.194.195207.216.217.218.239.243.244.245.246.247.248.249.250.251.252.261.262.273.286
نیز سورۃ البقرۃ کی درج ذیل پانچ آیات میں جہاد کی طرف اشارات موجود ہیں:
36،58،59،89،214

آل عمران:
آل عمران مدنی سورت ہے ۔ اس میں کل دو سو آیتیں ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں آیاتِ جہاد کی تعداد57ہے۔ ان آیات میں جہاد کے کئی مباحث کا بیان ہے۔خصوصًا ان تین موضوعات کا مفصل بیان ملتاہے۔
۱۔ کافروں سے تعلقات کی نوعیت
۲۔شکست سہنے اور پھر سنبھلنے کا طریقہ
۳۔ رباط
اس سورۃ میں غزوہ احد اور غزوہ حمراء الاسد کاتذکرہ ملتاہے اور غزوہ احد کے ضمن میں غزوہ بدرکا تذکرہ بھی موجود ہے۔سورۃ آل عمران کی 57 آیاتِ جہاد کی فہرست یہ ہے:
12٫13٫28٫
110 تا 112،
118 تا 129
139 تا 175
195، 200
نیز سورۃ آل عمران کی درج ذیل چودہ آیات میں جہاد کی طرف اشارات ملتےہیں:
19،56،57،81،100،101،102،103،104،130،131،132،133،134

النساء:
النساء مدنی سورۃ ہے۔ اس میں کل ایک سو چھہتر آیتیں ہیں۔ اس مبارک سورۃ میں 41 آیاتِ جہاد ہیں۔ ان آیات میں جہاد کے متعلق یہ پانچ بحثیں خصوصی طور پر ملتی ہیں ۱۔ مظلوموں کے لئے قتال ۲۔مجاہدین کی قاعدین (گھر بیٹھنے والوں) پر فضیلت ۳۔ بے بسی کو مجبوری بتا کر جہاد سے رکنے والوں کا انجام ۴۔ نفاق اور ترکِ جہاد کی اہم وجہ، عزت کا شوق ۵۔کافروں کی جنگ اور یلغار روکنے کا الہی طریقہ
اس سورۃ میں غزوہ حمراء الاسد یا بدر صغرٰی کا تذکرہ موجود ہے۔ سورۃ نساء کی 41آیاتِ جہاد درج ذیل ہیں:
69 تا 84، 88 تا 91، 94 تا 104، 138تا146، 147

المائدۃ:
المائدۃ مدنی سورت ہے۔ اس میں کل ایک سو بیس آیتیں ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں آیاتِ جہاد کی تعداد 20 ہے۔ ان آیات میں خصوصی طور پر دو اہم بحثیں ہیں۔
۱۔ حزب اللہ کون؟
۲۔دشمنوں کے درجات
اس سورت میں فتح مکہ کے دن کاتذکرہ ہے۔ سورۃ المائدۃ کی 20 آیات جہاد یہ ہیں: 2،3 تا 13، 20تا 26، 35، 51تا56، 82 11
نیز سورۃ المائدۃ کی درج ذیل آٹھ آیات میں جہاد کی طرف اشارات موجود ہیں:
57،58،59،60،61،62،63،67

الانفال:
الانفال مدنی سورت ہے ۔ اس میں کل پچھتر آیتیں ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں آیاتِ جہاد کی تعداد75 ہے۔ ان آیات میں دو اہم مسئلے بیان کیے گئےہیں۔
۱۔ اقدامی جہاد
۲۔غنیمت کی حِلّت
اس بابرکت سورت میں غزوہ بدر کا مفصل بیان ملتا ہے۔ اس سورۃ کا دوسرا نام سورۃ البدر ہے۔ اس سورۃ مبارکہ میں جہاد کے ۲۰ فوائد، مجاہدین کے ۲۵ اوصاف اور ۱۵ جنگی قوانین بیان کیے گئےہیں۔

 فوائد جہاد
۱۔ انسان کو حق کا رستہ عطا ہوتاہے۔ آیت ۵
۲۔اسلام کو ایسا غلبہ عطا ہوتا ہے جس کو کافر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ آیت ۸
۳۔انسانوں کی فرشتوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ آیت۹،۱۰
۴۔اللہ تعالی خرق عادت چیزوں سے نصرت فرماتے ہیں۔آیت ۱۱
۵۔ اللہ تعالی کی محبت اور قرب نصیب ہوتا ہے۔ آیت۱۷
۶۔انسان کو زندگی نصیب ہوتی ہے۔ آیت۲۴
۷۔ جہاد کی برکت سے اللہ تعالی پاکیزہ روزی اور ٹھکانہ دیتے ہیں۔ آیت ۲۶، ۷۶
۸۔اللہ تعالی گناہ معاف فرماتے ہیں۔آیت۲۹
۹۔اللہ تعالی مجاہد کو قوت فیصلہ اور عقل دیتے ہیں۔ آیت ۲۹
۱۰۔ کافروں کو شدید مالی نقصان ہوتا ہے۔(دیوالیہ ہو جاتےہیں) آیت ۳۶
۱۱۔ حق اور باطل الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ آیت۳۷
۱۲۔کافروں کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے۔ آیت۳۹
۱۳۔جہاد کی وجہ سے مالِ غنیمت ملتاہے۔ آیت ۴۱
۱۴۔ کافروں پر حجت تمام ہو جاتی ہے آیت۴۲
۱۵۔مسلمانوںکو اللہ کی طرف سے خاص خاص بشارتیں نصیب ہوتی ہیں۔آیت۴۳
۱۶۔ترقی اور کامیابی نصیب ہوتی ہے۔آیت۴۵
۱۷۔کافروں پر مسلمانوں کا رعب بیٹھ جاتا ہے۔آیت ۶۰
۱۸۔ مسلمانوں میں اتحاد اور جوڑ پیدا ہوتاہے۔ آیت۶۵
۱۹۔اللہ تعالی قوت کو بڑھا دیتے ہیں۔ آیت۶۵
۲۰۔ایمان کامل ہو جاتاہے۔آیت ۷۴


Jihad 
 Jihad (striving, struggling, endeavoring، fighting )



Popular Books