Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

مسلمان ، یہودی , نصاری و صابی، شرک اور جنت؟ (البقرة آیت نمبر 62 ، المائدة 69)


قرآن کی دو اہم آیات کی بنیاد پر کچھ جدت پسند، لبرلز (Modern Liberals) یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ نیک ، پرہیزگار مسلمان ، یہودی , نصاری و صابی جو عمل صالح کریں گے وہ کسی خوف کے بغیر جنت کے مستحق ہیں- (یعنی ایمان باالرسولﷺ ضروری نہیں). اس کے تجزیہ کی ضرورت ہے تاکہ کسی غلط فہمی کا تدارک کیا جا سکے-
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَالَّذِيۡنَ هَادُوۡا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِئِـيۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَلَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۞ 
"ہم مسلمان ہوں، یہودی ہوں, نصاری, ہوں یا صابی ہوں جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔" (البقرة, آیت نمبر 62 ، المائدة 69)

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ‎﴿١٧﴾‏ 
بےشک جو اہلِ ایمان ہیں، جو یہودی ہیں، جو صابی ہیں، جو عیسائی ہیں، جو مجوسی ہیں اور جو مشرک ہیں یقیناً قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (قرآن ؛ 22:17)  >>>>>

" آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اہل کتاب ( یہودی، عیسائی) کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا اُن کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ( ( یہودی، عیسائی))، بشر طیکہ تم اُن کے مہر ادا کر کے نکاح میں اُن کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا" (قران 5:5)

یھود ھوادۃ (بمعنی محبت) سے یا تھود (بمعنی توبہ) سے بنا ہے گویا ان کا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسیٰ ؑ کے ماننے والوں کو یہود کہا جاتا ہے -
نصاری۔ نصران کی جمع ہے جیسے سکاری سکران کی جمع ہے اس کا مادہ نصرت ہے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا، ان کو انصار بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو کہا تھا آیت (نَحْنُ اَنْصَار اللّٰهِ) 61:14 حضرت عیسیٰ ؑ کے پیروکاروں کا نصاری کہا جاتا ہے جن کو عیسائی بھی کہتے ہیں۔
صابئین۔ صابی کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقینا ابتداء کسی دین حق (توحید) کے پیرو رہے ہوں گے (اسی لئے قرآن میں یہودیت و عیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔ اسی لئے لامذہب، گمراہ (یا دوسرے مزاہب کے لوگوں کو صابی کہا جانے لگا). علامہ عنائیت اللہ خان المشرقی کی مشور کتاب "تذکرہ" اور بعض مفسرین کو اس آیت کے مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی یعنی انہوں  ۓ یہ اخز کیا کہ رسالت محمدیہپر لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دین کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے اس کی نجات ہوجائے گی۔ یہ فلسفہ سخت گناہ ہے۔آیت کی صحیح تفسیر اس طرح ہے:
جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح کتاب الٰہی کے پیروکار اور اپنے پیغمبر کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا یا کیا معاملہ فرمائے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی صرف یہودی نہیں نصاری اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے وہ سب نجات آخروی سے ہمکنار ہونگے اور اسی طرح رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقینا آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا وہاں بےلاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان ﷺ سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہ۔ (صابی وہ بھی ہیں جن تک  رسول اللہ ﷺ کا پیغام نہ پہنچا:ابن کثیر)
نبی ﷺ نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا یہ حدیث اور دیگرآیات قرآنی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ گمراہی ہے۔ 
نجات اخروی کے لیے اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے نبی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ چناچہ جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں آئے تھے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے جو بھی یہودی موجود تھے ‘ جو اللہ پر ایمان رکھتے تھے ‘ آخرت کو مانتے تھے اور نیک عمل کرتے تھے ان کی نجات ہوجائے گی۔ لیکن جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد ان علیہ السلام کو نہیں مانا تو اب وہ کافر قرار پائے۔ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام رسولوں پر ایمان نجات اخروی کے لیے کافی تھا ‘ لیکنٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد آپ ﷺ پر ایمان نہ لانے والے کافر قرار پائیں گے۔
 محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ پر نازل ہونے والے قرآن پر ایمان لانے کی پرزور دعوت بایں الفاظ موجود ہے :
وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ ‎﴿٤١﴾‏
”اور ایمان لاؤ اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے ‘ جو تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے ‘ اور تم ہی سب سے پہلے اس کا کفر کرنے والے نہ بن جاؤ۔“(قرآن 2:41)
وَلَمَّا جَآءَهُمۡ كِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمۡۙ وَكَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ يَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَى الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا  ‌ۖۚ فَلَمَّا جَآءَهُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِهٖ‌ فَلَعۡنَةُ اللّٰهِ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ ۞ 
اور جب الله کے ہاں سے ان کے پاس کتاب آئی جو ان کی (آسمانی) کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے، اور وہ پہلے (ہمیشہ) کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے، تو جس چیز کو وہ خوب پہچانتے تھے، جب ان کے پاس آپہنچی تو اس سے کافر ہو گئے۔ پس کافروں پر الله کی لعنت. (القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 89)
وَاِذۡ اَخَذَ اللّٰهُ مِيۡثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَاۤ اٰتَيۡتُكُمۡ مِّنۡ كِتٰبٍ وَّحِكۡمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمۡ لَـتُؤۡمِنُنَّ بِهٖ وَلَـتَـنۡصُرُنَّهٗ ‌ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَاَخَذۡتُمۡ عَلٰى ذٰ لِكُمۡ اِصۡرِىۡ‌ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ‌ؕ قَالَ فَاشۡهَدُوۡا وَاَنَا مَعَكُمۡ مِّنَ الشّٰهِدِيۡنَ ۞ 

اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹہرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد وپیمان کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں (القرآن - سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 81)

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اللہ پر ایمان لانے میں اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے، لہذا نجات پانے کے لئے رسول اکرم ﷺ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ؛ چنانچہ  پہلے سورہ البقرہ، آیت (40۔41: 2) میں اسی لئے تمام بنی اسرائیل کو آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مزید دیکھئے (قرآن کریم آیات 5:65 سے 5:68 تک) اور(7:155 سے 7:157 تک)۔ 

آخری رسول الله ﷺ اور آخری کتاب ، قرآن پر ایمان لازم

اَلَّذِيۡنَ يَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِىَّ الۡاُمِّىَّ الَّذِىۡ يَجِدُوۡنَهٗ مَكۡتُوۡبًا عِنۡدَهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ يَاۡمُرُهُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهٰٮهُمۡ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيۡهِمُ الۡخَبٰۤئِثَ وَيَضَعُ عَنۡهُمۡ اِصۡرَهُمۡ وَالۡاَغۡلٰلَ الَّتِىۡ كَانَتۡ عَلَيۡهِمۡ‌ ؕ فَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِهٖ وَعَزَّرُوۡهُ وَنَصَرُوۡهُ وَ اتَّبَـعُوا النُّوۡرَ الَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ مَعَهٗ ۤ‌ ۙ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ  ۞ قُلۡ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّىۡ رَسُوۡلُ اللّٰهِ اِلَيۡكُمۡ جَمِيۡعَاْ ۨالَّذِىۡ لَهٗ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحۡىٖ وَيُمِيۡتُ‌ ۖ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهِ النَّبِىِّ الۡاُمِّىِّ الَّذِىۡ يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوۡهُ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ ۞

"جو اس رسول یعنی نبی امی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دے گا، برائیوں سے روکے گا، اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام قرار دے گا، اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اتار دے گا جو ان پر لدے ہوئے تھے۔ چنانچہ جو لوگ اس (نبی) پر ایمان لائیں گے اس کی تعظیم کریں گے اس کی مدد کریں گے، اور اس کے ساتھ جو نور اتارا گیا ہے (قرآن) اس کے پیچھے چلیں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔۞ ؏ (اے رسول ان سے) کہو کہ : اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس کے قبضے میں تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہی زندگی اور موت دیتا ہے۔ اب تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ جو نبی امی ہے، اور جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے، اور اس کی پیروی کرو تاکہ تمہیں ہدایت حاصل ہو۔" ۞(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 157-158)

ہر ایک کے لئے علیحدہ دستور اور راہ آزمائش، نیکیوں میں سبقت

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مُہَیۡمِنًا عَلَیۡہِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ عَمَّا جَآءَکَ مِنَ الۡحَقِّ ؕ لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنۡ لِّیَبۡلُوَکُمۡ فِیۡ مَاۤ اٰتٰىکُمۡ فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ اِلَی اللّٰہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿ۙ۴۸﴾

اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اُتاری ہوئی کتاب کے ساتھ حکم کیجئے ، اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر دی اگر منظور مولٰی ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے ، پھر وہ تمہیں ہر وہ چیز بتا دے گا ، جس میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے ۔(قرآن : 5:48)


قرآن تورات و انجیل کا بھی محافظ ہے پانچویں اور چھٹی آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل کیا جو اپنے سے پہلی کتابوں تورات و انجیل کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ اور ان کا محافظ بھی ہے، کیونکہ جب اہل تورات نے تورات میں اور اہل انجیل نے انجیل میں تحریف اور تغیر و تبدل کیا تو قرآن ہی وہ محافظ و نگران ثابت ہوا جس نے ان کی تحریفات کا پردہ چاک کرکے حق اور حقیقت کو روشن کردیا اور تورات و انجیل کی اصلی تعلیمات آج بھی قرآن ہی کے ذریعہ دنیا میں باقی ہیں جبکہ ان کتابوں کے وارثوں اور ان کی پیروی کے مدعیوں نے ان کا حلیہ ایسا بگاڑ دیا ہے، کہ حق و باطل کا امتیاز ناممکن ہوگیا جو اہل تورات اور اہل انجیل کو دیا گیا تھا کہ آپ کے احکام اور فیصلے سب اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اور یہ لوگ جو آپ سے اپنی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرانا چاہتے ہیں، ان کے مکر سے باخبر رہیں۔ اس ارشاد کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ یہود کے چند علماء آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم یہود کے علماء اور پیشوا ہیں، اگر ہم مسلمان ہوگئے تو وہ بھی سب مسلمان ہوجائیں گے۔ حق تعالیٰ نے اس پر متنبہ فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کے مسلمان ہوجانے کے پیش نظر عدل و انصاف اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے خلاف فیصلہ ہرگز نہ دیں۔ اور اس کی پرواہ نہ کریں کہ یہ مسلمان ہوں گے یا نہیں۔ شرائع انبیاء میں جزوی اختلاف اور اس کی حکمت اس آیت میں دوسری ہدایت کے ساتھ ایک اہم اصولی سوال کا جواب بھی بیان فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ جب تمام انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، اور ان پر نازل ہونے والی کتابیں اور صحیفے اور ان کی شریعتیں سب اللہ جل شانہ کی ہی طرف سے ہیں، تو پھر ان کی کتابوں اور شریعتوں میں اختلاف کیوں ہے؟ اور آنے والی شریعت و کتاب پچھلی شریعت و کتاب کو منسوخ کیوں کرتی ہے؟

اس کا جواب مع حکمت خدا وندی کے اس آیت میں بیان کیا گیا : لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۭوَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ، یعنی ہم نے تم میں سے ہر طبقہ کے لئے ایک خاص شریعت اور خاص طریق عمل بنایا ہے، جس میں اصول مشترک اور متفق علیہ ہونے کے باوجود فروعی احکام میں کچھ اختلافات بمصلحت ہوتے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس کے لئے کچھ مشکل نہ تھا کہ تم سب کو ایک ہی امت ایک ہی ملت بنا دیتا، سب کی ایک ہی کتاب ایک ہی شریعت ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو اس لئے پسند نہیں کیا کہ لوگوں کی آزمائش مقصود تھی کہ کون لوگ ہیں جو عبادت کی حقیقت سے واقف ہو کر ہر وقت گوش برآواز رہتے ہیں کہ جو حکم ملے اس کی تعمیل کریں، جو نئی کتاب یا شریعت آئے اس کا اتباع کریں، اور پہلی شریعت و کتاب ان کو کتنی محبوب ہو، اور آبائی مذہب ہوجانے کے سبب اس کا ترک کرنا ان پر کتنا ہی شاق ہو، مگر وہ ہر وقت گوش برآواز اطاعت کے لئے تیار رہتے ہیں، اور کون ہیں جو اس حقیقت سے غافل ہو کر کسی خاص شریعت یا کتاب کو مقصد بنا بیٹھے اور اس کو ایک آبائی مذہب کی حیثیت سے لئے ہوئے ہیں اس کے خلاف کسی حکم خداوندی پر کان نہیں دھرتے۔

اختلاف شرائع میں یہ ایک بڑی حکمت ہے جس کے ذریعہ ہر زمانے ہر طبقہ کے لوگوں کو صحیح عبادت و عبودیت کی حقیقت سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ درحقیقت عبادت نام ہے بندگی اور اطاعت و پیروی کا جو نماز، روزہ، حج، زکوٰة یا ذکر و تلاوت میں منحصر نہیں اور نہ یہ چیزیں اپنی ذات میں مقاصد ہیں، بلکہ ان سب کا مقصد صرف ایک حکم الٓہی کی اطاعت ہے، یہی وجہ ہے کہ جن اوقات میں نماز کی ممانعت فرمائی گئی ہے، ان میں نماز کوئی کار ثواب نہیں بلکہ الٹا گناہ کا موجب ہے۔ ایام عیدین وغیرہ جن میں روزہ رکھنا ممنوع ہے تو اس وقت روزہ رکھنا گناہ ہے۔ نویں ذی الحجہ کے علاوہ کسی دن کسی مہینہ میں میدان عرفات میں جمع ہو کر دعا و عبادت کرنا کار ثواب نہیں جبکہ نویں ذی الحجہ میں سب سے بڑی عبادت یہی ہے اسی طرح تمام دوسری عبادات کا حال ہے۔ جب تک ان کے کرنے کا حکم ہے تو وہ عبادات ہیں اور جب اور جس حد پر ان کو روک دیا جائے تو وہ بھی حرام و ناجائز ہوجاتی ہیں۔

جاہل عوام اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے، جو عبادات ان کی عادات بن جاتی ہیں بلکہ جن قومی رسوم کو وہ عبادات سمجھ کر اختیار کرلیتے ہیں، صریح احکام خدا اور رسول کو بھی ان کے پیچھے نظر انداز کردیتے ہیں یہیں سے بدعات و محدثات دین کا جزو بن جاتی ہیں، جو پچھلی شریعتوں اور کتابوں کی تحریف کا سبب ہوئی ہیں-

اللہ جل شانہ نے مختلف پیغمبروں پر مختلف کتابیں اور شریعتیں نازل فرما کر انسانوں کو یہی سکھایا ہے کہ کسی ایک عمل یا ایک قسم عبادت کو مقصود نہ بنالیں۔ بلکہ صحیح معنی میں اللہ کے فرمانبردار بندے بنیں، اور جس وقت پچھلے عمل کو چھوڑ دینے کا حکم ہو فوراً چھوڑ دیں، اور جن عمل کے کرنے کا ارشاد ہو فوراً اس پر عمل پیرا ہوں۔

اس کے علاوہ اختلاف شرائع کی ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ دنیا کے ہر دور اور ہر طبقہ کے انسانوں کے مزاج و طبائع مختلف ہوتی ہیں۔ زمانہ کا اختلاف طبیعت انسانی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، اگر سب کے لئے فروعی احکام ایک ہی کردیئے جائیں تو انسان بڑی مشکل میں مبتلا ہوجائے، اس لئے حکمت الہیہ کا تقاضا یہ ہوا کہ ہر زمانہ اور ہر مزاج کے جذبات کی رعایت رکھ کر فروعی احکام میں مناسب تبدیلی کی جائے۔ یہاں ناسخ و منسوخ کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ حکم دینے والے کو پہلے حالات معلوم نہ تھے تو ایک حکم دیدیا۔ پھر نئے حالات سامنے آئے تو اس کو منسوخ کردیا، یا پہلے غفلت و غلطی سے کوئی حکم صادر کردیا تھا، پھر متنبہ ہوا تو بدل دیا، بلکہ شرائع میں ناسخ و منسوخ کی مثال بالکل ایک حکیم یا ڈاکٹر کے نسخہ کی مثال ہے کہ جس میں دوائیں تدریجاً بدل جاتی ہیں کہ حکیم ڈاکٹر کو پہلے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تین روز اس دوا کا استعمال کرنے کے بعد مریض پر یہ کیفیات طاری ہوجائیں گی اس وقت فلاں دوا دی جائے گی، جب وہ پچھلا نسخہ منسوخ کرکے دوسرا دیتا ہے تو یہ کہنا صحیح نہیں ہوتا کہ پچھلا نسخہ غلط تھا اس لئے منسوخ کیا گیا، بلکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ پچھلے ایام میں وہی نسخہ صحیح اور ضروری تھا، اور بعد کے حالات میں یہی دوسرا نسخہ صحیح اور ضروری ہے۔

آیات مذکورہ میں آئے ہوئے صریح اور ضمنی احکام کا خلاصہ اول ابتدائی آیات سے معلوم ہوا کہ یہود کا مقدمہ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش ہوا تھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا فیصلہ فرمایا تو یہ فیصلہ شریعت تورات کے مطابق تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ پچھلی شریعتوں میں جو احکام الہیہ نافذ تھے جب تک قرآن یا وحی الٓہی نے ان کو منسوخ نہ کیا ہو، وہ بدستور باقی رہتے ہیں، جیسا کہ یہود کے مقدمات میں قصاص کی مساوات اور سزائے زنا میں سنگساری کا حکم تورات میں بھی تھا، پھر قرآن نے بھی اس کو بعینہ باقی رکھا۔ اسی طرح دوسری آیت میں زخموں کے قصاص کا حکم جو بحوالہ تورات بیان کیا گیا ہے اسلام میں بھی یہی حکم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاری فرمایا۔ اسی بنا پر جمہور علماء اسلام کے نزدیک ضابطہ یہ ہے کہ:

پچھلی شریعتوں کے وہ احکام جن کو قرآن نے منسوخ نہ کیا ہو وہ ہماری شریعت میں بھی نافذ اور واجب الاتباع ہیں، یہی وجہ ہے کہ آیات مذکورہ میں اہل تورات کو تورات کے مطابق اور اہل انجیل کو انجیل کے مطابق حکم دینے اور عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، حالانکہ یہ دونوں کتابیں اور ان کی شریعتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد منسوخ ہوچکی ہیں۔  مطلب یہ ہے کہ تورات و انجیل کے جو احکام قرآن نے منسوخ نہیں کئے وہ آج بھی واجب الاتباع ہیں۔

 تیسرا حکم ان آیات میں یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے احکام کے خلاف حکم دینا بعض صورتوں میں کفر ہے جبکہ اعتقاد میں بھی اس کو حق نہ جانتا ہو، اور بعض صورتوں میں ظلم و فسق ہے، جبکہ عقیدہ کی رو سے تو ان احکام کو حق مانتا ہے، مگر عملاً اس کے خلاف کرتا ہے۔ چوتھا حکم ان آیات میں یہ آیا ہے کہ رشوت لینا مطلقاً حرام ہے۔ اور خصوصاً عدالتی فیصلہ پر رشوت لینا اور بھی زیادہ اشد ہے۔ پانچواں حکم ان آیات سے یہ واضح ہوا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی شریعتیں اصول میں تو بالکل متفق اور متحد ہیں، مگر جزوی اور فروعی احکام ان میں مختلف ہیں اور یہ اختلاف بڑی حکمتوں پر مبنی ہے۔ ..(تفسیر معارف  قرآن ، مفتی محمد شفیع)

شرک گناہ عظیم:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ  مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی  اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾

یقیناً اللہ تعالٰی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سِوا جسے چاہے بخش دیتا ہے  اور جو اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک مُقّرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بُہتان باندھا ۔  [سورة النساء 4  آیت: 48]

Indeed, Allah does not forgive association with Him, but He forgives what is less than that for whom He wills. And he who associates others with Allah has certainly fabricated a tremendous sin. [ Surat un Nissa: 4 Verse: 48]

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ  ضَلَّ  ضَلٰلًۢا  بَعِیۡدًا ﴿۱۱۶﴾

 اسے اللہ تعالٰی قطعًا نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے  ،  ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔  [سورة النساء 4  آیت: 116]

وہ مسلمان ، یہودی , نصاری و صابی یا جو کوئی بھی ہو اگر شرک میں ملوث ہے تو جنت کو  بھول جایے یہ الله تعالی کی طرف سے ناقابل معافی گناہ ہے - 

لیکن جو  یہودی , نصاری و صابی یا کسی اور مذھب کا پیرو کار جو توحید پیر قائم ہے اور شرک نہیں کرتا الله تعالی کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کرتا  نہ ہی کسی اور کو الله تعالی کے ساتھ کسی طرح سے بھی شریک سمجھتا ہو تو وہ الله تعالی سے بخسش کی امید رکھ سکتا ہے- مسیحت میں اکثریت نظریہ  ثلا ثہ (Trinity)  ایمان رکھتی ہے  جو کہ شرک ہے-


يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِىۡ دِيۡـنِكُمۡ وَلَا تَقُوۡلُوۡا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الۡحَـقَّ‌ ؕ اِنَّمَا الۡمَسِيۡحُ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ رَسُوۡلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗ‌ ۚ اَ لۡقٰٮهَاۤ اِلٰى مَرۡيَمَ وَرُوۡحٌ مِّنۡهُ‌ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ‌ ‌ۚ وَلَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَةٌ‌ ؕ اِنْتَهُوۡا خَيۡرًا لَّـكُمۡ‌ ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ‌ ؕ سُبۡحٰنَهٗۤ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗ وَلَدٌ‌ ۘ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلًا  ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 4 النساء, آیت نمبر 171)

ترجمہ:

اے اہل کتاب ! اپنے دین میں حد سے نہ نکلو اور اللہ کی طرف سوائے سچ کے اور کوئی بات نہ کہو۔ مسیح عیسیٰ بن مریم اور کچھ نہ تھے سوائے اس کے کہ اللہ کے رسول تھے اور ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے۔ پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو۔ اور یہ نہ کہو کہ اللہ تین ہیں (Trinity) باز آجاؤ یہ تمہارے لیے ہی بہتر ہے۔ بیشک الٰہ تو صرف ایک اللہ ہی ہے وہ اس سے بےنیاز ہے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو۔ زمین و آسمان کی ساری چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں اور ان کی خبر گیری کے لیے بس وہی کافی ہے(القرآن - سورۃ نمبر 4 النساء, آیت نمبر 171)


لَقَدۡ كَفَرَ الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡمَسِيۡحُ ابۡنُ مَرۡيَمَ‌ ؕ وَقَالَ الۡمَسِيۡحُ يٰبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ اعۡبُدُوا اللّٰهَ رَبِّىۡ وَرَبَّكُمۡ‌ ؕ اِنَّهٗ مَنۡ يُّشۡرِكۡ بِاللّٰهِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ الۡجَـنَّةَ وَمَاۡوٰٮهُ النَّارُ‌ ؕ وَمَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ ۞ لَـقَدۡ كَفَرَ الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ‌ ۘ وَمَا مِنۡ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ  ؕ وَاِنۡ لَّمۡ يَنۡتَهُوۡا عَمَّا يَقُوۡلُوۡنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ ۞ اَفَلَا يَتُوۡبُوۡنَ اِلَى اللّٰهِ وَيَسۡتَغۡفِرُوۡنَهٗ‌ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞ مَا الۡمَسِيۡحُ ابۡنُ مَرۡيَمَ اِلَّا رَسُوۡلٌ‌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُؕ وَاُمُّهٗ صِدِّيۡقَةٌ‌  ؕ كَانَا يَاۡكُلٰنِ الطَّعَامَ‌ؕ اُنْظُرۡ كَيۡفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الۡاٰيٰتِ ثُمَّ انْظُرۡ اَ نّٰى يُؤۡفَكُوۡنَ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 72-75)

ترجمہ:

وہ لوگ یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔ حالانکہ مسیح (علیہ السلام) نے تو یہ کہا تھا کہ : اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ یقین جا نو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے، اللہ نے اس کے لیے جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے، اور جو لوگ (یہ) ظلم کرتے ہیں ان کو کسی قسم کے یارومددگار میسر نہیں آئیں گے۔ ۞ وہ لوگ (بھی) یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ : اللہ تین میں کا تیسرا ہے(Trinity) حالانکہ ایک اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، اور اگر یہ لوگ اپنی اس بات سے باز نہ آئے تو ان میں سے جن لوگوں نے (ایسے) کفر کا ارتکاب کیا ہے، ان کو دردناک عذاب پکڑ کر رہے گا۔ ۞ کیا پھر بھی یہ لوگ معافی کے لیے اللہ کی طرف رجوع نہیں کریں گے، اور اس سے مغفرت نہیں مانگیں گے ؟ حالانکہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ ۞ مسیح ابن مریم (علیہ السلام)  تو ایک رسول تھے، اس سے زیاد کچھ نہیں، ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اور ان کی ماں صدیقہ تھیں۔ یہ دونوں کھانا کھاتے تھے دیکھو ! ہم ان کے سامنے کس طرح کھول کھول کر نشانیاں واضح کر رہے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھو کہ ان کو اوندھے منہ کہاں لے جایا جارہا ہے۔ (القرآن - سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 72-75)


پیغمبر کی محبت و تعظیم میں غلو کرنا گمراہی 

قُلۡ يٰۤـاَهۡلَ الۡـكِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِىۡ دِيۡـنِكُمۡ غَيۡرَ الۡحَـقِّ وَلَا تَتَّبِعُوۡۤا اَهۡوَآءَ قَوۡمٍ قَدۡ ضَلُّوۡا مِنۡ قَبۡلُ وَاَضَلُّوۡا كَثِيۡرًا وَّضَلُّوۡا عَنۡ سَوَآءِ السَّبِيۡلِ  ۞ لُعِنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيۡسَى ابۡنِ مَرۡيَمَ‌ ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوۡا يَعۡتَدُوۡنَ ۞ كَانُوۡا لَا يَتَـنَاهَوۡنَ عَنۡ مُّنۡكَرٍ فَعَلُوۡهُ ‌ؕ لَبِئۡسَ مَا كَانُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ‏ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 77-79)

ترجمہ:

(اور ان سے یہ بھی کہو کہ) اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے خود بھی گمراہ ہوئے، بہت سے دوسروں کو بھی گمراہ کیا، اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔۞ بنو اسرائیل کے جو لوگ کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت بھیجی گئی تھی یہ سب اس لیے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی تھی، اور وہ حد سے گزر جایا کرتے تھے۔ ۞ وہ جس بدی کا ارتکاب کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا طرز عمل نہایت برا تھا۔ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 77-79)


”غلو“ کا مطلب ہے کسی کام میں اس کی معقول حدود سے آگے بڑھ جانا۔ عیسائیوں کا غلو یہ تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی تعظیم میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ انہیں خدا قرار دے دیا، اور یہودیوں کا غلو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے محبت کا جو اظہار کیا تھا اس کی بنا پر یہ سمجھ بیٹھے کہ دنیا کے دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر بس وہی اللہ کے چہیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ جو چاہیں کریں، اللہ تعالیٰ ان سے ناراض نہیں ہوگا، نیز ان میں سے بعض نے حضرت عزیر ؑ کو خدا کا بیٹا قرار دے لیا تھا۔(آسان قرآن، مفسر: مفتی محمد تقی عثمانی)

توحید پرست مسیحیت (Unitarianism)

لیکن صدیوں سے ایک توحید پرست گروہ (biblical-unitarian) مسیحت میں موجود رہا ہے جو توحید پیر ایمان رکھتے ہیں اور  ثلا ثہ (Trinity)  مسترد کرتے ہیں- یہ مشرک نہیں اگر ان تک  رسول اللہ ﷺ کا پیغام نہیں پہنچا اور یہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پیغام  توحید پر قائم ہیں عمل صالح کرتے ہیں تو الله تعالی کی  بخشش کے مستحق ہیں (قرآن [سورة النساء 4 ،آیت: 116،48)- اور جنہوں ںے  رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لایا مگر عمل صالح کیے، شرک نہ کیا تو ان کا معامله اللہ کے سپرد، ممکن ہے سزا کے بعد بلآخر جنت مل جایے(واللہ اعلم)-

 توحید پرست مسیحیت (Unitarianism) میں بہت سے مشہور لوگ شامل ہیں جیسے سائنسدان آئزک نیوٹن ، امریکی صدر تھامس جیفرسن (Thomas Jefferson)، Paul Newman لسٹ کافی طویل ہے-

 کیتھولک چرچ : نجات کے منصوبہ میں مسلمان شامل ہیں

 کیتھولک چرچ، ویٹیکن روم کی ایمان کی تعلیمات کے مطابق مسلمان بھی نجات کے منصوبہ میں شامل ہیں. Catechism of the Catholic Church پیرا نمبر841 اور اس کا ترجمہ پیش ہے:

کیتھولک چرچ کی مسیحی مذہبی تعلیم:

مسلمانوں کے ساتھ چرچ کے تعلقات: نجات کے منصوبہ میں وہ سب لوگ  بھی شامل ہیں  جو خالق کو تسلیم کرتے ہیں، ان میں سب سے پہلے مسلمان آتے ہیں :جو ابرہام پرایمان کا اقرار کر تے ہیں، اور ہمارے طرح وہ بھی ایک مہربان خدا کی بَڑی عقيدَت کے ساتھ پَرَستِش کرتے ہیں جو  آخرت کے دن بنی نوع انسان کا جج ہے.(کیتھولک چرچ کی مسیحی مذہبی تعلیم، پیرا،841 بحوالہ لومین گنٹیم 16 ، نومبر21، 1964)

رومن کیتھولک بائبل کے خدا کے طور پر اللہ کو تسلیم کرتا ہے. 1985 میں، پوپ جان پال II مسلم نوجوانوں کے ایک پرجوش ہجوم کو بتایا کہ: "عیسائی اور مسلمان، ہم مومنوں کے طور پر عام میں بہت سی چیزیں ہیں اور انسان کے طور پر .... ہم ایک ہی خدا، ایک خدا، زندہ خدا میں یقین رکھتے ہیں ...." (ریفرنس 1#)

مسلم اور غیر مسلم کے درمیان امن اور نارمل تعلقات کی  اجازت اور دعوه 

کچھ آیات جو غیر مسلم کو "ولی" سرپرست بنانے سے منع کرتی ہیں ان کو دوستی اور عام تعلقات کے بھی خلاف سمجھا جاتا ہے شدت پسند مسلمانوں میں جو کہ درست نہیں- الله کا فرمان واضح ہے:

"قریب ہے کہ خدا تمہارے اور جن سے تم نے دشمنی کی ہے ان کے درمیان دوستی قرار دے دے کہ وہ صاحب هقدرت ہے اور بہت بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے (7) وہ تمہیں ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے نہیں روکتا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (8) وہ تمہیں صرف ان لوگوں سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے اور تمہیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمہارے نکالنے پر دشمنوں کی مدد کی ہے کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے گا وہ یقینا ظالم ہوگا" (قرآن 9-7.:60)

آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے کہ آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بہک گیا ہے اور کون لوگ ہدایت پانے والے ہیں  ( 16:125)
" کہو، "اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے" اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں (64) اے اہل کتاب! تم ابراہیمؑ کے بارے میں ہم سے کیوں جھگڑا کرتے ہو؟ تورات اور انجیل تو ابراہیمؑ کے بعد ہی نازل ہوئی ہیں پھر کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے (65) تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو اُن میں تو خوب بحثیں کر چکے، اب ان معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمہارے پاس کچھ بھی علم نہیں اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے (66) ابراہیمؑ نہ یہودی تھا نہ عیسائی، بلکہ وہ ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا (67) ابراہیمؑ سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو اُن لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کی پیروی کی اور اب یہ نبی اور اس کے ماننے والے اِس نسبت کے زیادہ حق دار ہیں اللہ صرف اُنہی کا حامی و مددگار ہے جو ایمان رکھتے ہوں (3:68)


داعیان وحدت ادیان سے چند موٹے موٹے سوالات

سورہ بقرہ کی آیت 62 سے جو ماڈرنسٹ ”مفکر، سکالر اور دانشور” لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جنت میں صرف مسلمان نہیں جائیں گے بلکہ یہود، نصاری، صابئین سب جنت میں جائیں گے، بشرطکیہ وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھیں اور نیک کام کریں۔ ان لوگوں کے دعوے کا مقصد یہ ھوتا ھے کہ حصول جنت کیلئے رسالت محمدی ؐ پر ایمان لانا ضروری بات نہیں اور کچھ یہ نتیجہ نکال لاتے ہیں کہ تمام مذاھب بس ایک ہی ہیں، صرف ناموں کا فرق ھے۔ اس آیت قرآنی سے یہ نتیجہ نکالنے میں یہ لوگ کس طرح تلبیس کے مرتکب ھوتے ہیں اسکا اوپر تذکرہ آیا ۔ ان لوگوں سے چندے سوالات ہیں کہ:

1۔ یہ لوگ پھر عیسائی یا یہودی کیوں نہیں ھوجاتے؟
2.آخر جنت تو انہیں بھی ویسے ہی ملنے والی ھے جیسے مسلمان کو، تو پھر خود کو مسلمان کہلوانے کی کیا ضرورت پڑی ھے؟
3.اگر رسالت محمدی پر ایمان لانا اضافی شے ھے تو اس پر ایمان لاؤ نہ لاؤ، اقرار کرو نہ کرو اس سے کیا فرق پڑتا ھے؟
4. تو یہ لوگ اسکا انکار کرکے خود بھی اور اپنی آل اولاد کو بھی یہودوعیسائی کیوں نہیں بنادیتے؟
5. دیگر اھل مذاھب کو اسلام کی دعوت دینے کا کیا مطلب؟
6. دیکھئے دعوت کی بنیاد یہی ھے نا کہ وہ غلط ھیں اور جنت کا حقدار بننے کیلئے ضروری ھے کہ درست بات پر ایمان لائیں، مگر جب وہ لوگ اپنے پہلے ایمان ہی کی بنیاد پر جنت کے حقدار قرار پا چکے تو انہیں ایمان کی دعوت و تبلیغ کا کیا مطلب؟ بس اچھی باتوں کی نصیحت وغیرہ ھونی چاھئے۔
7.۔ پھر اگر یہ سب لوگ ایسے ہی جنت کے حقدار تھے اور رسالت محمدی پر ایمان بس ایک اضافی شے تھی، تو اللہ نے سورہ بقرہ اور آلعمران میں یہودونصاری سے اتنی طویل گفتگو کس لئے کی؟ انہیں کس بات پر ایمان لانے کی دعوت دی جارہی تھی؟

مزید / ریفرنسز / لنکس

  1. توحید
  2. شرک
  3. کفر
  4. ارتداد
  5.  عقائد اسلام 
  6. ارکان اسلام 
  7. کسی قوم کو خصوصی طور پرالله کی ‏نافرمانی پر ‏عذاب ‏سے استثنی حاصل نہیں
  8. اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب کو راہ راست 
  9. https://m.facebook.com/Religion.philosphy/posts/1925873944315895


~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~

Popular Books