حدود ، شرعی سزاووں کے نفاز میں رکاوٹ؟ اور حل
حدود قوانین کے حوالہ سے یہ رکاوٹ ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی دفعہ نمبر ۵ میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو ایسی سزا نہیں دی جائے گی جس میں جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت ہو اور توہین و تذلیل کا پہلو ہو۔ گویا کسی بھی جرم کی سزا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان تینوں باتوں سے خالی ہو اور اگر کسی سزا میں ان میں سے کوئی بات پائی گئی تو وہ انسانی حقوق کے منافی تصور ہوگی۔
اسلامی ریاست
اسی بنیاد پر اسلامی سزاؤں کو غیر انسانی اور انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جاتا ہے کہ سنگسار کرنا، کوڑے مارنا، ہاتھ پاؤں کاٹنا، اور برسر عام سزا دینا بہرحال جسمانی تشدد اور تذلیل پر مشتمل ہے
اور اگر اقوام متحدہ کے چارٹر میں طے کردہ اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو حدود شرعیہ کی کم و بیش سبھی سزائیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار پاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بین الاقوامی معاہدہ ہے اور چونکہ ہم اس معاہدہ میں شریک ہیں، ہم نے اس پر دستخط کر رکھے ہیں اور ہم اقوام متحدہ کے نظام کا بھی حصہ ہیں، اس لیے ہمیں اس معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے۔
ہمارے ہاں سپریم کورٹ میں ایک کیس کے حوالہ سے اس پر بحث ہو چکی ہے اور عدالت عظمیٰ نے اسی اصول پر اس کیس کا فیصلہ کیا تھا کہ
انسانی حقوق کا یہ منشور بین الاقوامی معاہدہ ہے اور اس معاہدہ کی پابندی ہم پر لازم ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اس موقع پر کہا گیا تھا کہ انسانی حقوق کا یہ چارٹر آج کا عالمی عرف ہے اور قرآن کریم ہمیں معروفات کی پابندی کا حکم دیتا ہے اس لیے بھی اس عالمی عرف کی پابندی ہمارے لیے ضروری ہے۔
چنانچہ آج اگر امریکہ ہم سے ان قوانین پر نظرثانی یا ان کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، اقوام متحدہ کے مختلف ادارے ہم سے یہ تقاضا کرتے ہیں، یورپی یونین کی طرف سے یہ بات کہی جاتی ہے، یا ایمنسٹی انٹرنیشنل واویلا کرتی ہے تو وہ بلاوجہ نہیں ہے۔ اس اعتراض، دباؤ یا مطالبہ کی جڑیں اقوام متحدہ کے اس چارٹر کی دفعہ نمبر ۵ میں پیوست ہیں اور اس کے لیے عالمی سطح پر کوئی مضبوط موقف اختیار کیے بغیر ہم اس مخمصے سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے مسلم حکمرانوں یا اداروں میں سے کوئی بھی بین الاقوامی سطح پر یہ مسئلہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے اور ہم صحیح جگہ پر یہ جنگ لڑنے کی بجائے شاخوں پر الجھ رہے ہیں اور جزئیات پر اپنا وقت اور صلاحیتیں صرف کر رہے ہیں۔
ماضی قریب میں یہ مسئلہ مسلمان حکمرانوں میں سے صرف ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے اٹھایا تھا اور اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر انہوں نے عالم اسلام کے حکمرانوں پر زور دیا تھا کہ وہ متحد ہو کر دو مسئلوں کے لیے اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالیں۔
1. ایک یہ کہ سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کے سسٹم میں عالم اسلام کو بھی شریک کیا جائے۔اور دوسرا یہ کہ
2، انسانی حقوق کے چارٹر پر نظر ثانی کی جائے۔
یہ دونوں باتیں درست اور ضروری ہیں۔ ایک بات سے اقوام متحدہ میں اختیارات کا عدم توازن ختم ہوگا اور عالم اسلام کو اس کا صحیح مقام ملے گا، جبکہ دوسری بات نظریاتی اور تہذیبی توازن کا باعث بنے گی۔
مگر کسی حکمران نے مہاتیر محمد کی اس بات کو قابل توجہ نہیں سمجھا۔ آج بھی اس مسئلہ کا حل یہی ہے۔
عالم اسلام کو نہ تو اقوام متحدہ کے اختیارات اور انتظامی سسٹم میں نمائندگی حاصل ہے اور نہ ہی نظریاتی اور ثقافتی حوالہ سے اسلام اور عالم اسلام کی کسی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔
جبکہ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی سطح پر اسے پوری قوت کے ساتھ اٹھایا جائے اور مسلم ممالک متحد ہو کر یہ دونوں حق حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کریں۔
پاکستان کی داخلی صورتحال کے حوالہ سے معروضی تناظر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں جہاں اس امر کی ضمانت دی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے قوانین کو نافذ کیا جائے گا اور قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہیں ہو سکے گا،
وہاں یہ گارنٹی بھی دستور میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ انسانی حقوق کی مکمل پاسداری کی جائے گی اور انسانی حقوق کے منافی کوئی قانون ملک میں نافذ نہیں ہو سکے گا
دو گارنٹیاں آپس میں ٹکراتی رہتی ہیں۔ جب قرآن و سنت والوں کا زور ہوتا ہے وہ اپنا کام نکال لیتے ہیں اور کسی وقت ’’انسانی حقوق‘‘ والے پاور میں آجاتے ہیں تو وہ رخ ادھر کو پھیر لیتے ہیں۔
حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں بل کے حوالہ سے یہی ہوا ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم پاور میں تھے تو انہوں نے قرآن و سنت والی گارنٹی کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی اور جنرل پرویز مشرف پاور میں ہیں تو وہ انسانی حقوق والی گارنٹی کا ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں۔ ( ماخوز ، زاہدالراشدی http://zahidrashdi.org/2075 )
پاکستان اور نفاز قانون حدود شریعت
ومن لم یحکم بما انز اللہ فاولئک ھم الکافرون “ (٥:٤٤)
” اور جو شخص اس قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتا جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہ کافر(٤٤) (ظالم ٤٥ . فاسق٤٧ ) ہے “ (٤٧،٤٥:٤٤)
(المائیدہ آیات 44، 45، 47)
یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حق میں جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تین حکم ثابت کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ کافر ہیں ، دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں ، تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو انسان خدا کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے یا دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے ، وہ دراصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے ۔ اوّلاً اس کا یہ فعل حکم خداوندی کے انکار کا ہم معنی ہے اور یہ کفر ہے ۔ ثانیاً اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خلاف ہے ، کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہو سکتا تھا وہ تو خدا نے دے دیا تھا ، اس لیے جب خدا کے حکم سے ہٹ کر اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا ۔ تیسرے یہ کہ بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہو کر اپنا یا کسی دوسرے کا قانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و اطاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا اور یہی فسق ہے ۔ یہ کفر اور ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً انحراف از حکم خداوندی کی عین حقیقت میں داخل ہیں ۔ ممکن نہیں ہے کہ جہاں وہ انحراف موجود ہو وہاں تینوں چیزیں موجود نہ ہوں ۔ البتہ جس طرح انحراف کے درجات و مراتب میں فرق ہے اسی طرح ان تینوں چیزوں کے مراتب میں بھی فرق ہے ۔ جو شخص حکم الہٰی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ہے وہ مکمل کافر اور ظالم اور فاسق ہے ۔ اور جو اعتقاداً حکم الہٰی کو برحق سمجھتا ہے مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ اگرچہ خارج از ملت تو نہیں ہے مگر اپنے ایمان کو کفر ، ظلم اور فسق سے مخلوط کر رہا ہے ۔ اسی طرح جس نے تمام معاملات میں حکم الہٰی سے انحراف اختیار کر لیا ہے وہ تمام معاملات میں کافر ، ظالم اور فاسق ہے ۔ اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر و ظلم و فسق کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اسی تناسب کے ساتھ ہے جس تناسب کے ساتھ اس نے اطاعت اور انحراف کو ملا رکھا ہے . (ماخوز تفہیم القران )
نفاذ قانون شریعت ۔۔ حدود
حدود کا لفظ قرآن کریم نے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے لیکن شریعت اور فقہ اسلامی میں یہ لفظ اصطلاح کے طور پر ان سزاؤں کے لیے مخصوص ہو گیا ہے جو چند جرائم میں قرآن و سنت کی طرف سے متعین طور پر طے کر دی گئی ہیں۔ معاشرتی جرائم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور انہیں سینکڑوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات پانچ سو سے متجاوز ہیں مگر ان سینکڑوں جرائم میں سے قرآن و سنت نے صرف چند کی سزا خود متعین کی ہے، باقی تمام جرائم کی سزاؤں کا تعین ایک اسلامی حکومت یا اس کے مجاز اداروں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ حالات کے مطابق ان جرائم کی سزاؤں کی مقدار اور نوعیت خود طے کر لیں۔ البتہ چند جرائم مثلاً
(۱) زنا
(نوٹ : اسلام میں زنا کی سزا سنگسار ہے۔ تاہم، اس سزا کے لیے اصل جماع کے لیے چار عینی شاہدین کی ضرورت ہوتی ہے، اور اگر یہ تقاضے پورے نہ کیے جائیں تو سزا کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ قرآن میں اس سزا کا ذکر نہیں ہے، البتہ اگر سنت نبوی (أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَﷺ) کی پیروی کی جائے تو معلوم ہونا چاہیے کہ جن لوگوں نے خود زنا کا اقرار کیا تھا (عوام سے پوشیدہ تھا) اور سزا پانا چاہتے تھے، ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ موڑ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نظر انداز کیا، یہاں تک کہ ایسے شخص کی ذہنی صحت کے بارے میں پوچھا، اس طرح انہیں توبہ کا موقع فراہم ہوا تھا۔ (صحیح مسلم: 1691، البخاری: 6815، صحیح مسلم: 1695)۔ تاہم، اپنے خلاف بار بار گواہی دینے پران پر حد جاری ہوئی ۔ بدقسمتی سے اس سنت کو انتہا پسندوں اور جاہلوں نے نظر انداز کر دیا ہے، جو دوسروں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سنت کو زندہ کرنا چاہیے(یہ رشدی صاحب کا نوٹ نہیں اضافہ ہے )
(۲) چوری
(۳) قذف
(۴) ڈکیتی
(۵) شراب نوشی
(۶) ارتداد وغیرہ کی سزائیں قرآن و سنت میں متعین کر دی گئی ہیں۔ مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے، زنا کی سزا ایک صورت میں سنگسار کرنا اور دوسری صورت میں سو کوڑے مارنا ہے، قذف یعنی کسی پاک دامن شخص پر بدکاری کی تہمت لگانے کی سزا اس کا ثبوت پیش نہ کر سکنے کی صورت میں ۸۰ کوڑے ہے، ڈکیتی کی سزا ہاتھ پاؤں کاٹنا یا قتل کرنا یا سولی پر لٹکانا یا جلا وطن کر دینا ہے اور شراب نوشی کی سزا ۸۰ کوڑے ہے۔
ان سزاؤں کے حوالہ سے دو باتیں اصولی طور پر عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ یہ بطور آپشن نہیں ہیں بلکہ بطور آرڈر کے ہیں، یعنی ان کو اختیار کرنے اور نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ہمیں اس امر کا اختیار نہیں دیا گیا کہ ہم چاہیں تو انہیں اختیار کر لیں اور ہمارا موڈ نہ ہو تو انہیں نظرانداز کر دیں۔ ایسی بات نہیں ہے بلکہ جس طرح قرآن و سنت میں نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ جیسے فرائض کا حکم دیا گیا ہے اسی انداز میں اور انہی صیغوں کے ساتھ قصاص اور حدود کے قوانین کے نفاذ کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ دیکھ لیں کہ قرآن کریم میں جس مقام پر روزہ کی فرضیت بیان کی گئی ہے کہ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، اس کے ساتھ ہی انہی الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو! تم پر قصاص کا قانون فرض کیا گیا ہے۔ اسی طرح جیسے نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کا حکم امر کے صیغے کے ساتھ دیا گیا ہے وہی امر کا صیغہ رجم اور کوڑے مارنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے ان احکام میں فرق نہیں کیا جا سکتا۔ اگر نماز فرض ہے تو قصاص کے قانون کا نفاذ بھی فرض ہے اور اگر زکوٰۃ فرض ہے تو زانی کو کوڑے مارنا بھی فرض ہے اور اسی حوالہ سے میں نے عرض کیا ہے کہ قرآن و سنت میں ان احکام و قوانین کا ذکر بطور آپشن کے نہیں بلکہ بطور آرڈر کے ہے اور ہم قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہوئے جس طرح نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے فرائض کے پابند ہیں اسی طرح حدود و قصاص کے ان قوانین کو نافذ کرنے کے بھی پابند ہیں۔
دوسری بات جو اس سلسلہ میں بطور اصول سامنے رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ ہم ان سزاؤں میں اپنی طرف سے ردوبدل کے مجاز نہیں ہیں۔ مثلاً ہم یہ نہیں کر سکتے کہ قرآن کریم نے قذف کی سزا ۸۰ کوڑے بیان کی ہے تو ہم اس کی نوعیت یا مقدار بدل دیں کہ کوڑوں کی بجائے قید کی سزا مقرر کرلیں یا ۸۰ کوڑوں کی بجائے اس سے کم یا زیادہ مقدار طے کر لیں۔ ہم ان سزاؤں کے نفاذ کے پابند ہیں اور ان کی نوعیت اور مقدار کو برقرار رکھنے کے بھی پابند ہیں ۔ان دونوں معاملات میں قیامت تک کسی کا کوئی اختیار باقی نہیں رہا اور کوئی بھی شخص، طبقہ یا ادارہ ایسا کرتا ہے تو وہ حدود اللہ سے تجاوز کا مرتکب ہوتا ہے جسے قرآن کریم نے ظلم اور نافرمانی سے تعبیر کیا ہے۔
حدود شرعیہ کے اس مختصر تعارف کے بعد یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اگر اسلام کا نظام نافذ ہوگا تو ظاہر بات ہے کہ ان حدود کا نفاذ بھی ضروری قرار پائے گا۔ یہ بات درست ہے کہ صرف ان حدود کا نام اسلام نہیں ہے اور اسلام کا نفاذ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حدود اسلام کا ایک اہم شعبہ ہیں اور انہیں نظرانداز کر کے کسی ملک میں نفاذ اسلام کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے دینی حلقوں کا مسلسل یہ مطالبہ چلا آرہا تھا کہ قومی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح جرم و سزا کے شعبہ میں بھی اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ پاکستان کا قیام اسلامی نظریہ حیات کی عملداری اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عمل میں آیا تھا اور بانیٔ پاکستان محمد علی جناح مرحوم سمیت تحریک پاکستان کے تمام ذمہ دار راہنماؤں نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں قرآن و سنت کی عملداری ہوگی اور اسے ایک آئیڈیل اسلامی ریاست بنایا جائے گا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد مسلسل مطالبات اور تحریکات کے باوجود ایسا نہ ہو سکا حتٰی کہ ۱۹۷۷ء کی زبردست عوامی تحریک نظام مصطفٰیؐ کے بعد جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم برسراقتدار آئے تو انہوں نے اس عوامی مطالبہ پر حدود آرڈیننس سمیت متعدد دیگر اسلامی قوانین کے نفاذ کی طرف پیشرفت کی۔
یہاں ایک مغالطہ کا ازالہ ضروری ہے کہ عام طور پر بڑے بھولپن کے ساتھ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ حدود آرڈیننس یا اس نوعیت کے بعض دیگر شرعی قوانین ایک فوجی آمر کے نافذ کردہ قوانین ہیں اور یہ ڈکٹیٹر کے قوانین ہیں جنہیں ختم ہو جانا چاہیے۔ اگر اس دلیل پر بات کی جائے تو ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ بھی ایک فوجی آمر کا نافذ کردہ قانون ہے اس کے باقی رہنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حدود آرڈیننس بلاشبہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے نافذ کیے تھے لیکن ان کے پیچھے ۱۹۷۷ء کی عظیم الشان عوامی تحریک تھی جس میں پورا ملک اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر آگیا تھا، ہزاروں افراد جیلوں میں گئے تھے اور سینکڑوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ پھر یہ حدود آرڈیننس جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے اپنے ذہن کی اختراع نہیں تھے اس کے لیے اس وقت کی اسلامی نظریاتی کونسل نے مہینوں کام کیا تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور حضرت مولانا شمس الحق افغانیؒ جیسے اکابر اہل علم سے استفادہ کیا گیا تھا۔ دوسرے مسلم ممالک کے علماء سے بھی رابطے کیے گئے تھے حتٰی کہ شام کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر محمد معروف الدوالیبی کو پاکستان تشریف آوری کی زحمت دی گئی تھی جن کا شمار عالم اسلام کے ممتاز اصحاب علم میں ہوتا ہے اور اس مسلسل عوامی اور علمی جدوجہد کے بعد حدود آرڈیننس کا وہ مسودہ تشکیل پایا جسے ایک فوجی آمر کا قانون کہہ کر مسترد کیا جا رہا ہے۔
اس پس منظر میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ۱۹۷۹ء میں حدود آرڈیننس ملک میں نافذ کیا جسے بعد میں آٹھویں آئینی ترمیمی بل کی صورت میں منظور کر کے منتخب قومی اسمبلی نے عوامی اعتماد کی سند بھی دے دی اور اس طرح ملک میں حدود شرعیہ کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ لیکن نفاذ کے بعد سے ہی اس پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوگیا، ملک کے اندر اور باہر اس کے خلاف اعتراضات اور اس کو ختم کرنے کے مطالبات نے زور پکڑ لیا اور ستائیس برس کے بعد اب یہ مہم اس مقام پر پہنچی ہے کہ مسلسل بین الاقوامی اور داخلی دباؤ کے نتیجے میں تحفظ حقوق نسواں بل کے ذریعے حدود آرڈیننس میں ترامیم کی راہ ہموار کی گئی ہے۔
(زاہد الراشدی http://zahidrashdi.org/2075 )
Islamic Sharia Law prescribes punishments for a variety of crimes, including some of the most severe offences such as murder, theft, adultery, and consumption of alcohol. Here are some of the basic crimes on which Islamic Sharia punishment is prescribed in Islam:
1.Theft:
In Islamic law, the punishment for theft is amputation of the offender's hand. However, this punishment is subject to certain conditions and is not applied in all cases.
2.Adultery:
The punishment for adultery in Islam is stoning to death. However, this punishment requires four eyewitnesses to the actual act of intercourse, and if these requirements are not met, the punishment cannot be applied. This punishment is not mentioned in Quran, however if Sunnah of Prophet ﷺ is to be followed then, it must be known that the Prophet ﷺ turned away from those who themselves confessed adultery (sine was hidden from public) and desired to be punished, but the Prophet ﷺ ignored them, even asked about mental health of such a person, thus giving them an opportunity to repent. (Sahih Muslim: 1691, Al-Bukhari: 6815, Sahih Muslim: 1695).
However, on their repeated witness against self he awarded punishment. Unfortunately this Sunnah is ignored by extremists and ignorants, who make efforts to malign others. This Sunnah should be revived.
3.Murder:
Islamic law prescribes the death penalty for murder, but the family of the victim has the right to forgive the offender in exchange for blood money.
4.False accusation of adultery:
A person who falsely accuses someone of adultery can be punished with 80 lashes.
5.Consumption of alcohol:
In Islam, consuming alcohol is considered a sin, and the punishment for it is 80 lashes.
It is important to note that the implementation of Islamic law varies across different countries and regions, and some Muslim-majority countries have modified the punishments prescribed by Islamic law or have abolished them altogether.
آج اگر ہمارے اختیار میں ہو اور ہم اس ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے کی خالص نیت ہی سے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں، تب بھی اس کے نظام تمدن، نظام معاشی، نظام سیاست اور نظام عدالت و قانون کو بالفعل بدلتے بدلتے برسوں لگ جائیں گے اور کچھ مدت تک ہم کو اپنے انتظام میں بھی سابق قوانین برقرار رکھنے پڑیں گے
کیا تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خود نبی ﷺ کو بھی عرب کے نظام زندگی میں پورا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے نو دس سال لگے تھے؟
اس دوران میں خاتم النبیین کی اپنی حکومت میں چند سال شراب نوشی ہوتی رہی، سود لیا اور دیا جاتا رہا، جاہلیت کا قانون میراث جاری رہا، پرانے قوانین نکاح و طلاق برقرار رہے، بیوع فاسدہ کی بہت سی صورتیں عمل میں آتی رہیں
اور اسلامی قوانین دیوانی فوجداری بھی اول روز ہی بتمام و کمال نافذ نہیں ہوگئے۔
نبی ﷺ کی حکومت کے ابتدائی دور میں جب تک قوانین اسلامی جاری نہ ہوئے تھے، لوگ پرانے طریقے کے مطابق شراب پیتے رہے، مگر کیا حضور نے بھی پی؟
لوگ سود لیتے دیتے تھے، مگر کیا آپ نے بھی سودی لین دین کیا؟
لوگ متعہ کرتے رہے اور جمع بین الاختین کرتے رہے، مگر کیا حضور نے بھی ایسا کیا؟
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی اسلامی کا عملی مجبوریوں کی بنا پر احکام اسلامی کے اجراء میں تدریج سے کام لینا اور چیز ہے اور اس کا خود اس تدریج کے دور میں جاہلیت کے طریقوں پر عمل کرنا اور چیز
تدریج کی رخصتیں دوسروں کے لیے ہیں، داعی کا اپنا یہ کام نہیں ہے کہ خود ان طریقوں میں سے کسی پر عمل کرے جن کے مٹانے پر وہ مامور ہوا ہے۔ (ماخوز تفہیم القرآن 12:76 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَبَدَاَ بِاَوۡعِيَتِهِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ اَخِيۡهِ ثُمَّ اسۡتَخۡرَجَهَا مِنۡ وِّعَآءِ اَخِيۡهِؕ كَذٰلِكَ كِدۡنَا لِيُوۡسُفَؕ مَا كَانَ لِيَاۡخُذَ اَخَاهُ فِىۡ دِيۡنِ الۡمَلِكِ اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ اللّٰهُؕ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُؕ وَفَوۡقَ كُلِّ ذِىۡ عِلۡمٍ عَلِيۡمٌ ۞ ( القرآن - سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 76)
ترجمہ:
تب یُوسُف ؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خُرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خُرجی سے گم شدہ چیز بر آمد کر لی۔۔۔۔اِس طرح ہم نے یُوسُف ؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی۔ اُس کا یہ کا م نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون)میں اپنے بھائی کو پکڑتا اِلّا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے. ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں، اور ایک علم رکھنے والا ایساہے جو ہر صاحبِ علم سے بالاتر ہے
یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ اس پورے سلسلہ واقعات میں وہ کون سی تدبیر ہے جو حضرت یوسف کی تائید میں براہ راست خدا کی طرف سے کی گئی ؟ ظاہر ہے کہ پیالہ رکھنے کی تدبیر جو حضرت یوسف نے خود کی تھی، یہ بھی ظاہر ہے کہ سرکاری ملازموں کا چوری کے شبہ میں قافلے والوں کو روکنا بھی حسب معمول وہ کام تھا جو ایسے مواقع پر سب سرکاری ملازم کیا کرتے ہیں، پھر وہ خاص خدائی تدبیر کون سی ہے ؟ اوپر کی آیات میں تلاش کرنے سے اس کے سوا کسی دوسری چیز کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ سرکاری ملازموں نے خلاف معمول خود مشتبہ ملزموں سے چور کی سزا پوچھی اور انہوں نے وہ سزا بتائی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے چور کو دی جاتی تھی، اس کے دو فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ حضرت یوسف کو شریعت ابراہیمی پر عمل کا موقع مل گیا، دوسرا یہ کہ بھائی کو حوالات میں بھیجنے کے بجائے اب وہ اسے اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔
یعنی یہ بات حضرت یوسف کی شان پیغمبری کے شایاں نہ تھی کہ وہ اپنے ایک ذاتی معاملہ میں شاہ مصر کے قانون پر عمل کرتے، اپنے بھائی کو روک رکھنے کے لیے انہوں نے خود جو تدبیر کی تھی اس میں یہ خلل رہ گیا تھا کہ بھائی کو روکا تو ضرور جاسکتا تھا مگر شاہ مصر کے قانون تعزیرات سے کام لینا پڑتا،
اور یہ اس پیغمبر کی شان کے مطابق نہ تھا جس نے اختیارات حکومت غیر اسلامی قوانین کی جگہ اسلامی شریعت فانذ کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں لیے تھے، اگر اللہ چاہتا تو اپنے نبی کو اس بد نما غلطی میں مبتلا ہوجانے دیتا، مگر اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ یہ دھبہ اس کے دامن پر رہ جائے، اس لیے اس نے براہ راست اپنی تدبیر سے یہ راہ نکال دی کہ اتفاقا برادران یوسف سے چور کی سزا پوچھ لی گئی اور انہوں نے اس کے لیے شریعت ابراہیمی کا قانون بیان کردیا، یہ چیز اس لحاظ سے بالکل بر محل تھی کہ برادران یوسف مصری رعایا نہ تھے، ایک آزاد علاقے سے آئے ہوئے لوگ تھے، لہذا اگر وہ خود اپنے ہاں کے دستور کے مطابق اپنے آدمی کو اس شخص کی غلامی میں دینے کے لیے تیار تھے جس کا مال اس نے چرایا تھا، تو پھر مصری قانون تعزیرات سے اس معاملہ میں مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی، یہی وہ چیز ہے جس کو بعد کی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان اور اپنی علمی برتری سے تعبیر فرامیا ہے، ایک بندے کے لیے اس سے بڑھ کر بلندی درجہ اور کیا ہوسکتی ہے، اگر وہ کبھی بشری کمزوری کی بنا پر خود کسی لغزش میں مبتلا ہورہا ہو تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کو بچانے کا انتظام فرما دے۔ ایسا بلند مرتبہ صرف انہی لوگوں کو ملا کرتا ہے جو اپنی سعی و عمل سے بڑی بڑی آزمائشوں میں اپنا " محسن " ہونا ثابت کرچکے ہوتے ہیں، اور اگرچہ حضرت یوسف صاحب علم تھے خود بہت دانشمندی کے ساتھ کام کرتے تھے، مگر پھر بھی اس موقع پر ان کے علم میں ایک کسر رہ ہی گئی اور اسے اس ہستی نے پورا کیا جو ہر صاحب علم سے بالا تر ہے۔
یہاں چند امور اور وضاحت طلب رہ جاتے ہیں جن پر ہم مختصر کلام کریں گے
(1) عام طور پر اس آیت کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ " یوسف بادشاہ کے قانون کی رو سے اپنے بھائی کو نہ پکڑ سکتا تھا "۔ یعنی مَا كَانَ لِيَاْخُذَ کو مترجمین و مفسرین عدم قدرت کے معنی میں لیتے ہیں نہ کہ عدم صحت اور عدم مناسبت کے معنی میں، لیکن اول تو یہ ترجمہ و تفسیر عربی محاورے اور قرآنی استعمالات دونوں کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ عربی میں عموما ما کان لہ بمعنی ما ینبغی لہ، ما صح لہ، ما استقام لہ وغیرہ آتا ہے اور قرآن میں بھی یہ زیادہ تر اسی معنی میں آیا ہے۔ مثلا (آیت) ماکان اللہ ان یتخذ من ولد، ماکان لنا ان نشرک باللہ من شیء، ما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب، ماکان اللہ لیضیع ایمانکم، فما کان اللہ لیظلمھم، ما کان اللہ لیذر المومنین علی ما انتم فیہ، ما کان لمومن ان یقتل مومنا۔ دوسرے اگر اس کے وہ معنی لیے جائیں جو مترجمین و مفسرین بالعموم بیان کرتے ہیں تو بات بالکل مہمل ہوجاتی ہے، بادشاہ کے قانون میں چور کو نہ پکڑ سکنے کی آخر وجہ کیا ہوسکتی ہے ؟ کیا دنیا میں کبھی کوئی سلطنت ایسی بھی رہی ہے جس کا قانون چور کو گرفتار کرنے کی اجازت نہ دیتا ہو ؟
(2) اللہ تعالیٰ نے شاہی قانون کے لیے " دین الملک " کا لفظ استعمال کر کے خود اس مطلب کی طرف اشارہ فرما دیا ہے جو اخذ سے لیا جانا چاہیے،
ظاہر ہے کہ اللہ کا پیغمبر زمین میں " دین اللہ " جاری کرنے کے لیے مبعوث ہوا تھا نہ کہ " دین الملک " جاری کرنے کے لیے، اگر حالات کی مجبوری سے اس کی حکومت میں اس وقت تک پوری طرح دین الملک کی جگہ دین اللہ جاری نہ ہوسکا تھا تب بھی کم از کم پیغمبر کا اپنا کام تو یہ نہ تھا کہ اپنے ایک شخصی معاملہ میں دین الملک پر عمل کرے۔ لہذا حضرت یوسف کا دین الملک کے مطابق اپنے بھائی کو نہ پکڑنا اس بنا پر نہیں تھا کہ دین الملک میں ایسا کرنے کی گنجائش نہ تھی بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ پیغمبر ہونے کی حیثیت سے اپنی ذاتی حد تک دین اللہ پر عمل کرنا ان کا فرض تھا اور دین الملک کی پیروی ان کے لیے قطعا نامناسب تھی۔
(3) قانون ملکی (Law of the Land) کے لیے لفظ " دین " استعمال کر کے اللہ تعالیٰ نے معنی دین کی وسعت پوری طرح واضح کردی ہے، اس سے ان لوگوں کے تصور دین کی جڑ کٹ جاتی ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت کو صرف عام مذہبی معنوں میں خدائے واحد کی پوجا کرانے اور محض چند مذہبی مراسم و عقائد کی پابندی کرا لینے تک محدود سمجھتے ہیں، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ انسانی تمدن، سیاست، معیشت، عدالت، قانو اور ایسے ہی دوسرے دنیوی امور کا کوئی تعلق دین سے نہیں ہے، یا اگر ہے بھی تو ان امور کے بارے میں دین کی ہدایات محض اختیاری سفارشات ہیں جن پر اگر عمل ہوجائے تو اچھا ہے ورنہ انسانوں کو اپنے بنائے ہوئے اصول و ضوابط قبول کرلینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، یہ سراسر گمراہانہ تصور دین، جس کا ایک مدت سے مسلمانوں میں چرچا ہے جو بہت بڑی حد تک مسلمانوں کو اسلامی نظام زندگی کے قیام کی سعی سے غافل کرنے کا ذمہ دار ہے جس کی بدولت مسلمان کفر و جاہلیت کے نظام زندگی پر نہ صرف راضی ہوئے بلکہ ایک نبی کی سنت سمجھ کر اس نظام کے پرزے بننے اور اس کو خود چلانے کے لیے بھی آمادہ ہوگئے، اس آیت کی رو سے قطعا غلط ثابت ہوتا ہے،
یہاں اللہ تعالیٰ صاف بتارہا ہے کہ جس طرح نماز، روزہ اور حج دین ہے اسی طرح وہ قانون بھی دین ہے جس پر سوسائٹی کا نظام اور ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے۔ لہذا ان الدین عند اللہ الاسلام اور ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ، وغیرہ آیات میں جس دین کی اطاعت کا مطالبہ کیا گیا ہے اس سے مراد صرف نماز، روزہ ہی نہیں بلکہ اسلام کا اجتماعی نظام بھی ہے جس سے ہٹ کر کسی دوسرے نظام کی پیروی خدا کے ہاں ہرگز مقبول نہیں ہوسکتی۔
سوال کیا جاسکتا ہے کہ اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت تک مصر کی حکومت میں " دین الملک " ہی جاری تھا، اب اگر اس حکومت کے حاکم اعلی حضرت یوسف ہی تھے، جیسا کہ پہلے ثابت ہوا تو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت یوسف خدا کے پیغمبر، خود اپنے ہاتھوں سے ملک میں " دین الملک " جاری کر رہے تھے، اس کے بعد اگر اپنے ذاتی معاملہ میں حضرت یوسف نے " دین الملک " کے بجائے شریعت ابراہیمی پر عمل کیا بھی تو اس سے فرق کیا واقع ہوا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف مامور تو دین اللہ جاری کرنے ہی پر تھے اور یہی ان کا پیغمبرانہ مشن اور ان کی حکومت کا مقصد تھا، مگر ایک ملک کا نظام عملا ایک دن کے اندر نہیں بدل جایا کرتا،
آج اگر کوئی بالکیہ ہمارے اختیار میں ہو اور ہم اس میں اسلامی نظام قائم کرنے کی خالص نیت ہی سے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں، تب بھی اس کے نظام تمدن، نظام معاشی، نظام سیاست اور نظام عدالت و قانون کو بالفعل بدلتے بدلتے برسوں لگ جائیں گے اور کچھ مدت تک ہم کو اپنے انتظام میں بھی سابق قوانین برقرار رکھنے پڑیں گے
کیا تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خود نبی ﷺ کو بھی عرب کے نظام زندگی میں پورا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے نو دس سال لگے تھے؟
اس دوران میں خاتم النبیین کی اپنی حکومت میں چند سال شراب نوشی ہوتی رہی، سود لیا اور دیا جاتا رہا، جاہلیت کا قانون میراث جاری رہا، پرانے قوانین نکاح و طلاق برقرار رہے، بیوع فاسدہ کی بہت سی صورتیں عمل میں آتی رہیں
اور اسلامی قوانین دیوانی فوجداری بھی اول روز ہی بتمام و کمال نافذ نہیں ہوگئے، پس اگر حضرت یوسف کی حکومت میں ابتدائی آٹھ نو سال تک سابق مصری بادشاہت کے کچھ قوانین چلتے رہے ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے اور اس سے یہ دلیل کیسے نکل آتی ہے کہ خدا کا پیغمبر مصر میں خدا کے دین کو نہیں بلکہ بادشاہ کے دین کو جاری کرنے پر مامور تھا۔
رہی یہ بات کہ جب ملک میں دین الملک جاری تھا ہی تو آخر حضرت یوسف کی اپنی ذات کے لیے اس پر عمل کرنا کیوں شایان شان نہ تھا، تو
یہ سوال بھی نبی ﷺ کے طریقہ پر غور کرنے سے بآسانی حل ہوجاتا ہے،
نبی ﷺ کی حکومت کے ابتدائی دور میں جب تک قوانین اسلامی جاری نہ ہوئے تھے، لوگ پرانے طریقے کے مطابق شراب پیتے رہے، مگر کیا حضور نے بھی پی؟
لوگ سود لیتے دیتے تھے، مگر کیا آپ نے بھی سودی لین دین کیا؟
لوگ متعہ کرتے رہے اور جمع بین الاختین کرتے رہے، مگر کیا حضور نے بھی ایسا کیا؟
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی اسلامی کا عملی مجبوریوں کی بنا پر احکام اسلامی کے اجراء میں تدریج سے کام لینا اور چیز ہے اور اس کا خود اس تدریج کے دور میں جاہلیت کے طریقوں پر عمل کرنا اور چیز
تدریج کی رخصتیں دوسروں کے لیے ہیں، داعی کا اپنا یہ کام نہیں ہے کہ خود ان طریقوں میں سے کسی پر عمل کرے جن کے مٹانے پر وہ مامور ہوا ہے۔
اسلامی جمہوریت
اسلامی جمہوریت ایک مکمل جمہوریت ہے اتنی مکمل جتنی کوئی جمہوریت ہوسکتی ہے، البتہ جو چیز اسلامی جمہوریت کو مغربی جمہوریت سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کا نظریہ سیاسی 'جمہوری حاکمیت' کا قائل ہے اور اسلام جمہوری خلافت کا-مغربی جمہوریت ایک مطلق العنان خدائی ہے جو اپنے اختیارات کو آزادانہ استعمال کرتی ہے- اس کے برعکس اسلامی جمہوریت ایک پابند آئین بندگی ہے جو اپنے اختیارات کو خدا کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقررکردہ حدود کے اندر استعمال کرتی ہے-" (مولانا مودودی -- اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات)
"سیاسی کام میں ہمارے لئے سب سے بڑی رُکاوٹ بیوروکریسی اور فوج نے ڈالی۔ ان دونوں کی تربیت انگریز نے کی تھی اور اس تربیت کی بناء پر وہ ہرگز یہاں اسلامی حکومت کا قیام نہیں چاہتے تھے۔ جن لوگوں نے پاکستان بنایا تھا، اُن میں سے انگریز کے پروردہ زمیندار، سرمایہ دار بھی یہاں اسلام کی حکومت نہیں چاہتے تھے۔ ہمارے لئے صرف عوام کا جذبہ ہی رہ گیا تھا جس کو ہم کام میں لا سکتے تھے۔ چُنانچہ ہم نے اس جذبے کو مہم کی شکل میں اُبھارا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب تک کسی کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اس ملک کو ایک سیکولر ریاست بنا سکے"
(مولانا مودودی رحمۃاللہ علیہ کا جماعت کی امارت سے سبکدوش ہونے سے پہلے مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس سے آخری خطاب۔۔ صفحہ نمبر 320 روداد جماعت اسلامی حصہ سوم۔ مُرَتٌبہ شیخ افتخار احمد۔۔ شعبۂ تنظیم جماعت اسلامی پاکستان)
جنوبی ایشیائی جمہوریت: ماضی کے آثار South Asian democracy: the vestiges of the past
تقسیم کے نتیجے میں ایک مسلم ریاست وجود میں آئی لیکن جاگیرداروں کے زیر تسلط مسلم لیگ کی قیادت نہ تو جمہوری ادارے بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی اور نہ ہی ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی تھی کیونکہ اس کا کوئی نچلی سطح پر نیٹ ورک نہیں تھا۔ مزید مسئلہ یہ تھا کہ تقسیم کے بعد اسے مسلح افواج کا ایک غیر متناسب حصہ وراثت میں ملا جس کی جڑیں پنجاب اور موجودہ خیبر پختونخواہ میں ہیں۔ فوجی اعلیٰ افسران نے سول بیوروکریسی کے ساتھ ملی بھگت سے جمہوری آئین کی تشکیل کی نیم دل کوششوں کو ناکام بنا دیا۔
مذہبی رہنماووں نے ابتدائی طور پر ایک علیحدہ مسلم ملک کے خیال کے خلاف، نویں اور دسویں صدی کے اسلامی فقہ کا حوالہ دیتے ہوئے غیر جمہوری عناصر کی حمایت کی جنہوں نے مضبوط آدمی (بادشاہ/ملک/سلطان) کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا تھا۔
چونکہ اسلام کی ابتداء ہندوستان میں مسلم جرنیلوں سے ہوئی، اس لیے جنرل کے طور پر بادشاہ یا بادشاہ کے طور پر جنرل کا نمونہ مسلم عوامی نفسیات میں جڑ گیا جس نے جمہوری نظام کے امکانات کو مزید دور دھکیل دیا۔ جمہوری نظام کو کبھی کبھار نافذ کیا جاتا ہے اور پھر ختم کیا جاتا ہے، بہترین طور پر نیم جمہوری رہا ہے۔ انتخابات، اگر اور جب منعقد ہوتے ہیں، کنٹرول یا انجنیئر ہوتے ہیں۔ ووٹرز سے جوڑ توڑ کیا جاتا ہے۔ سرکاری نظریہ، ذات پات (براداری)، علاقائی وابستگی اور نسل کے علاوہ روایتی طبقاتی درجہ بندی پاکستان میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے اور نتائج کا تعین کرتی ہے۔ ہمارے بدمعاش اپنے بدمعاشوں سے بہتر عوام کی حالت کو اور جمہوری نظریات کو مجروح کرتے ہیں۔
بھارت کو تیسری دنیا کی جمہوریت کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی گہرائی میں دیکھے تو پتہ چلے گا کہ یہاں پرانی حماقتیں پھر سے سر اٹھا چکی ہیں اور تکنیکی طور پر جمہوری عمل کے ذریعے حکومت کرتی ہیں۔ تمام اداروں پر اجارہ داری ہے اور اعلیٰ ذاتوں کی ایک چھوٹی اقلیت کے ذریعے چلائی جاتی ہے جس کا ہندوستانی زندگی کے تمام شعبوں پر مضبوطی سے قبضہ ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، تقسیم سے پہلے کے رہنما مغربی جمہوری یا سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہو کر سیاست دانوں کے ہندوتوا برانڈ کے لیے اسٹیج چھوڑ کر غائب ہو گئے جو سیکولر ریاست کو ہندو ریاست سے بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس میں حب الوطنی کا مطلب روایتی ہندو اقدار کو برقرار رکھنا ہے جو کہ اس سے نکل چکی ہیں۔ ذات پات کا نظام ، ایمان اور حب الوطنی کے مسائل الگ الگ ہیں اور دونوں کو آپس میں ملانا اگر مہلک نہیں تو بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ، پاکستان کی طرف سے مذہبی نظریہ کا جو برانڈ قائم کیا گیا ہے وہ اب ختم ہو چکا ہے۔ ملک اب ایک بند معاشرہ ہے جس میں استثنیٰ کے تصور سے کارفرما ہے جو عملی طور پر نمائندگی کے حق اور اپنے شہریوں کی مساوات کو تسلیم نہیں کرتا۔ اقلیتوں کے ارکان اس کے آئین کے مطابق کم شہری ہیں۔ یہ ملک جمہوریت کے لیے زبانی کلامی دعوے کرتا ہے لیکن بوناپارٹزم کو اپنے زخموں کے علاج کے طور پر خوش آمدید کہتا ہے۔
دونوں پڑوسی، بصورت دیگر دشمن، ایک ہی راستے پر چل رہے ہیں۔ اپنے مذہبی عقائد اور روایتی اقدار سے متاثر ہو کر وہ نظریاتی ریاستوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
نظریہ اور عقیدہ فطری طور پر جمہوریت کے مخالف ہیں کیونکہ ان میں اختلاف رائے، قطبیت اور اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہذا جمہوریت مغربی دانشوروں کا خواب بنی ہوئی ہے، جو لوگوں کے سمندر میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ درجہ بندی، روایات اور توہمات جنوبی ایشیا کے ڈی این اے میں ہیں، جمہوریت نہیں۔ اس سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ ماضی کی بنیاد پرستانہ انداز میں دوبارہ تشریح کی جائے، وہ ماضی جو اپنے تمام غیر انسانی اثرات کے ساتھ ہمارا حال ہے۔
https://www.dawn.com/news/1765153 / soofiOl@hotmail.com
شریعہ، اسلامی قانون کا نفاذ : حکمت عملی
پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر یعنی اسلامی قانون (شریعت) اور اقدار کو برقرار رکھنے کی خواہش کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ تاہم، شریعت اور اسلامی اصولوں کا مکمل نفاذ ایک مسلسل کوشش ہے، جسے اکثر مختلف چیلنجوں کی وجہ سے سست روی اور رکاوٹوں کا سامنا رہا ہے- لیکن یہ افسوسناک ہے کہ بعض سماج دشمن عناصر اسلام کے نفاذ کے عظیم مقصد کے حصول کے نام پراسلام کے نام کا غلط استعمال کرتے ہیں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا سہارا لیتے ہیں جو کہ اسلام کی تعلیمات میں واضح طور پر حرام ہیں۔ ان پیچیدگیوں کے پیش نظر پاکستانی مسلمانوں کے لیے یہ مشکل نہیں کہ وہ کم از کم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق اسلام پرعمل پیرا رہیں اور اسے اپنی زندگی کا جزو لازم بنائیں اس کے لینے کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں اسلامی اقدار پر عمل پیرا ہو کر خاندان اور معاشرہ پر مثبت طور سے اثرانداز ہو سکتے ہیں اور اسلام کی اقدار کو حقیقی جذبہ سے فروغ دے سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح پر اسلام کے مکمل نفاذ کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے پرامن ذرائع سے تبدیلی کی جو جہد بھی ضروری ہے۔ ہم کو اسلامی اصولوں کی افہام و تفہیم، قبولیت اور عمل پیرا ہونے کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے معاشرے کے ساتھ وسیع ترتعمیری مکالمے، تعلیم اور مشغولیت کو اپنانا چاہیے۔
مزید برآں مسلمانوں کوایسے لوگوں اور اداروں کی سرگرمی سے حمایت کرنی چاہیے جو اسلام کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کرنے کے عظیم مقصد کے لیے مخلصانہ اور منصفانہ طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ تعاون ایک ہم آہنگ ماحول کو فروغ دے سکتا ہے جہاں اسلامی اصولوں کو برقرار رکھا جائے اور ان کی قدر کی جائے۔
اسلام میں اللہ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صاحبان اقتدار کی اطاعت کا تصوربہت اہم ہے۔ قرآن مختلف آیات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اہمیت پر زور دیتا ہے (مثلاً، سورہ آل عمران 3:32، سورہ النساء 4:59)۔ تاہم حکمرانوں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے مشروط ہے۔ اگر ایسے حکمران ہوں جو اسلام کے اصولوں پر کاربند نہ ہوں اوران کے اعمال قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے متصادم ہوں تو مسلمانوں پر ان معاملات میں ان کی اطاعت واجب نہیں ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہوں۔
اسلام مومنوں کو انصاف، راستبازی اور معاشرے کی بھلائی کے لیے کھڑے ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایسے میں حالات کے لحاظ سے مسلمانوں کے عمل کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے۔ یہاں کچھ عمومی ہدایات ہیں:
1. صبر اور نماز: مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ صبر کریں اور مشکل اور غیر یقینی کے وقت نماز کے ذریعے اللہ کی طرف رجوع کریں۔
2. عدم تشدد کی مخالفت: اسلام میں اختلاف رائے کا اظہار کرنے کے لیے پرامن اور غیر متشدد ذرائع کی تلقید کی گئی ہے۔ اس میں ناانصافی کے خلاف بات کرنا، مثبت تبدیلی کی حمایت کرنا، اور مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنا شامل ہو سکتا ہے۔
3. ہجرت: انتہائی مشکل حالات، جہاں حکومت یا معاشرہ میں اسلام دشمن رویہ کی وجہ سے مذہبی آزادی کو خطرہ ہو اور عبادات پر سمجھوتہ ممکن نہ ہو ، وہاں سے ایسی جگہ کی طرف ہجرت کرنا جہاں مسلمان آزادی سے اپنے عقیدے پر عمل کر سکیں، ایک آپشن ہو سکتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں تھا۔ نیشن سٹیٹ کے دور اور موجودہ حالات میں جبکہ معاشی ، اقتصادی ہجرت کی وجہ مہاجرین کے خلاف سخت رویہ اور نفرت پائی جاتی ہے ہجرت ایک قبل عمل آپشن نہیں، صبر، درگزر کرنا ہوگا-
4. کمیونٹی سپورٹ: مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک کمیونٹی کے طور پر اکٹھے ہوں اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔
5. علماء کی رہنمائی: علم کے حامل اسلامی اسکالرز سے مشورہ لینا مخصوص حالات اور مناسب طریقہ کار کے بارے میں وضاحت فراہم کر سکتا ہے۔
6. فتنہ (افراتفری) فساد دہشت گردی سے بچنا: اسلامی اقداراور نفاذ شریعت کے لیے پر امن سازگار ماحول ضروری ہے اس لیے مسلمانوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ افراتفری یا انتشار پیدا کرنے سے گریز کریں، اور ایسے گمراہ افراد اور گروہوں کے پراپیگنڈہ سے متاثر نہ ہوں جوکرپشن اور عوام کی خراب اقتصادیات سے فائدہ اٹھا کرعوام کا استحصال کرکہ اسلام دشمن عناصر کے آلہ کاربن کر ان کے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں- یہ سب کچھ معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے اور اسلام کی کوئی خدمت نہیں-
بالآخر، کلیدی اصول اللہ پر ایمان کو برقرار رکھنا اور اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنا ہے جبکہ مشکل حالات میں بھی ذمہ داری اور سوچ سمجھ کر کام کرنا ہے۔ انفرادی اعمال اور فیصلے حالات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن ہمیشہ اسلامی مآخذ سے رہنمائی حاصل کرنا اور انصاف اور ہمدردی کی اقدار کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔
1) مسلمانوں کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو، اسلامی عقیدے پر عمل کریں اور انفرادی اور اجتماعی طور پر اس کی تعلیم دیں، دعوه ، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا، دین اسلام پر عمل پیرا ہونے کے ضروری اجزاء ہیں-
2) زندگی کے تمام شعبوں میں ریاستی سطح پر اسلام کے مکمل نفاذ کے لیے پرامن طریقے سے کوشش کرنا
3) ان لوگوں کی حمایت کریں جو تمام منصفانہ طریقوں سے نیک مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
4) فتنہ ، فساد دہشت گردی کو مکمل طور پر مسترد کریں، حرام پر اسلام کا لیبل لگانے سے حرام ، حلال نہیں ہو سکتا-
اللہ ہمارے ایمان، طاقت، حدود، کمزوریوں، صلاحیتوں، نیتوں اور ہر چیز سے باخبر ہے، ہم صرف اسی کے لیے مکلف ہیں۔ ہم کامیابی، بخشش اور اس کی رحمت کے لیے دعا گو ہیں۔