بیماری انسان زندگی کا حصہ ہے ، جب بیمار ہوتے ہیں تو معالج سے بیماری کا علاج کرایا جاتا ہے -
Book of God, without any doubt, guidance for those who fear God(Quran;2:2) .....[........]
شفاء الله کے اختیار میں ہے: "وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ" ﴿٨٠﴾ ترجمہ: "اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے" (26:80)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ وقت ضرورت اپنا بھی علاج کروایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ کا بھی کروایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’ اللہ نے کوئی مرض بنا علاج نہیں پیدا کیا۔‘‘ (صحیح بخاری)
قرآن الله کی آخری کتاب ہدایت ہے قرآن میں عربی لفظ (ه د ي) مختلف بارہ شکل میں تین سو سولہ مرتبہ آیا ہے- جبکہ قرآن کے ساتھ " شفا" تین مرتبہ استعمال ہوا ہے-
قرآن وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)
یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے بیماری کی صورت میں صرف قرآن سے علاج کیا یا یا کہ انہوں نے ادویا بھی استعمال کیں؟ جب ہم ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کہ طب ایک علیحدہ شعبہ ہے جس نے وقت کے ساتھ ساتھ تحقیق سے ترقی کی اور آج میڈیکل سائنس میں انسانی جسم کے ہر حصہ کے لیے علیحدہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر موجود ہیں - بیماری کی صورت میں ہم ڈاکٹر طبیب کے پاس جاتے دے اور ان سے علاج کرایا جاتا ہے- اگر ہر بیماری کا علاج صرف قرآن سے ہی کرنا ہوتا تو پھر علم طب کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے اس کے اندر جو کچھ موجود ہے اور قیامت تک کے لیے ہے اگر مکمل علم طب قرآن میں میں ہوتا تو پھر پھر علم طب میں تحقیق کی ضرورت نہیں تھی ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس نے بہت ترقی کی کی سرجری اور مختلف قسم کے طریقے ، ٹیسٹ ایجاد ہوئے جو انسان کی تحقیق کا نتیجہ ہے ، پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن بنیادی طور پر انسانوں کی ہدایت کے لیے ہے نہ کہ کہ بیماریوں کے علاج کے لئے-
اگرچہ کچھ اشیاء میں شفا کا ذکر ہے ہے جیسے کہ شہد میں شفا ہے- ہم دیکھتے ہیں کہ شہد واقعی بہت سی بیماریوں کا علاج ہے اسی طرح اگر کہیں اور قرآن میں کسی چیز کے فائدے کا ذکر ہے ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ہے لیکن اگر جن چیزوں کا ذکر نہیں ہے اور نہ وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں تو ایسی باتیں جو کسی کے ذاتی تجربے کے طور پرسمجھا جاسکتے ہیں لیکن کسی کا ذاتی تجربہ اس کی ذات تک محدود ہے اس کو اسلام سے جوڑنا درست نہیں ہوگا کیونکہ اسلام قرآن و سنت کا نام ہے ہے جو چیز قرآن و سنت میں نہیں ہے وہ اسلام نہیں ہوسکتی تو ذاتی تجربات کو اپنی ذات تک رکھیں- اگر قرآن کی کچھ آیات سے کسی کو ذاتی طور پر فائدے پہنچتے ہیں تو اس میں اس کی اپنی کوشش اور اللہ کا کرم شامل ہے تو ضروری نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عمل سے کسی خاص طریقے سے فائدہ اٹھائے یے تو وہ سب کے لیے بھی فائدہ مند ہو -
جب ذاتی تجربہ یا عمل کو کوئی اسلام کے نام سے سے یا دین کے نام سے جوڑتا ہے ہے اور اور دوسروں پر اس طرح کا اثر نہیں ہوتا تو تو لوگوں کا کا دین پر اعتماد اٹھ جاتا ہے-
جو عمل کوئی کر رہا ہے اگر وہ قرآن وسنت کے مطابق نہیں ہے تو دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں - اس لئے لیے دین کے معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے کہ جو چیز قرآن اور سنت کے مطابق نہ ہو اس کو دین کا نام مت دیں- کچھ صحابہ کرام نے سورہ سورہ فاتحہ فاتحہ پڑھ کر کچھ بیماریوں کا علاج کیا اور رسول الله کے علم میں بات آئی ، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سورہ فاتحہ پڑھنا کسی کسی بیماری کی صورت میں میں ثابت ہوا سنت سے- لیکن ہم جانتے ہیں کہ دنیاوی علاج اپنی جگہ پر اور اس کی کوشش کرنی چاہیے -
قرآن کریم کوئ علم طب اور نہ ہی جغرافیہ اور بیالوجی کی کتاب ہے جیسا کہ بعض مسلمان یورپیوں کے سامنے کہتے پھرتے ہیں بلکہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو کہ لوگوں کے لۓ رشد وھدایت کا منبہ ہے اوراس کا سب سے بڑا معجزہ اس کی بلاغت اور قوت معانی ہے جو کہ اس کا اصلی اعجاز ہے ، تو اللہ تعالی نے یہ کتاب اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے دور میں نازل فرمائ جس میں فصاحت و بلاغت بہت اونچے درجے پر تھی تو اس وقت یہ کتاب انہیں عاجز کرنے کے لۓ نازل کی گئ کہ یہ کسی انسان کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے آئ ہے ۔
قرآن مجید میں جوبات سب سے بڑی اور عظیم ہے وہ اس کی ہدایت ، فصاحت وبلاغت ہے ، تو آج تک اس پر غور فکر اور تدبر کرنے والے والے علماء کے لۓ یہ واضح ہورہی ہے ۔
اور اس کا معنی یہ نہیں کہ اس میں ہدایت فصاحت وبلاغت کے علاوہ کچھ اور نہیں بلکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں انسانی جسم کی ترکیب اور اس کے اعضاء اور اس کے پیدائشی مراحل اور بعض طبعی مظاہر اوراس کے علاوہ اوراشیاء کا بھی ذکر فرمایا ہے ر مگر وہ ضمنی طور پر -
ہمارے معاشرہ میں قرآن کے ذریعہ بیماریوں کے علاج کی بہت شہرت ہے - اس کے علاوہ بہت عام رجحان ہے کہ فلاں چیز کھانے سے ایسا ہوجائے گا۔ اگر کوئی یہ بات کسی علم ، تجربے یا مشاہدے کی بنیاد پر مانتا ہے تو اسے ایسا کرنے کا حق ہے۔ لیکن جب اس قسم کی بات اللہ یا اس کے رسول کی نسبت سے بیان کی جاتی ہے تو پھر معاملہ مختلف ہوجاتا ہے۔ اگر ایسا واقعی قرآن یا صحیح حدیث میں بیان ہوا ہے تو بات قابل غور ہے لیکن اگر ایسا نہیں تو یہ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے ۔ اس کے علاوہ جب اس قسم کی چیزوں کو استعمال کرنے سے کوئی شفا نہیں ملتی تو لوگوں کا اللہ اور رسول پر سے اصل اعتقاد بھی متزلزل ہوتا ہے اور وہ دین سے بھی دور ہوجاتے ہیں۔
چنانچہ جب بھی کوئی اس طرح کی بات سامنے آئے کہ فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھنے سے گردے کی پتھری نکل جاتی ہے یا فلاں آیت کا ورد کینسر کے لئے شافع ہے اور وہ اسے اللہ کی جانب منسوب بھی کرے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس بات کی صحت چیک کریں۔
بصورت دیگر ہم اپنا بھی نقصان کریں گے اور لوگوں کا بھی ۔ اور یہ نقصان دنیا تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے اثرات آخرت تک جا پہنچیں گے۔
قرآن الله کی آخری کتاب ہے ، مکمل ہدایت، قلوب (دلوں) کے لیئے شفاء ہے- اب ہدایت کی کوئی کتاب نازل نہ ہو گی قیامت تک ، اگر قرآن کی شفاء روحانی نہیں بلکہ جسمانی ہوتی تو پھر علم طب ، medical science کی ضرورت نہ ہوتی ، نہ ہی میڈیکل سائنس اتنی ترقی کرتی - میڈیکل سائنس بھی اللہ ہی کی جانب سے عطا کردہ ایک علم ہے اور اس سے روگردانی کرنا درحقیقت اللہ کی ایک نعمت کو ٹھکرانے کے مترادف ہے-
ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن بنیادی طور پرراہ ہدایت و رہنمائی ہے ، میڈیکل سائنس کی کتاب نہیں ، اگرچہ قرآن سے مزید ضمنی فوائد بشمول طب حاصل کرتے ہیں- جیسے کہ قرآن شہد میں شفا کا ذکر کرتا ہے : " ان (شہد کی مکھیوں) کےپیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لۓ شفا ہے" (النحل 69 )۔ اس طرح کی معلومات فائدہ حاصل کرنا -
https://salaamone.com/impact-of-islam-on-christianity-west/muslim-contributions-in-sciences/
https://youtu.be/RXFXxhttxa8
قرآن مجید اہل ایمان کے لیے شفا ہے:
اللہ تعالی نے قرآن مجید کو درج ذیل تین مقامات پر" شفا" ارشاد فرمایا ہے:
یٰأَیُّھَاالنَّاسُ قَدْ جَائَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَائ’‘ لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ (یونس57)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی لئے شفا آگئی ہے۔‘‘
[دل , قلب , جسم میں خون کا پمپ ہے مگر محاورہ کے طور پر انسانی عقل ، سوچ ، دانائی کا روحانی مرکز بھی کہلاتا بھی ہے-]
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ھُوَ شِفَائ’‘ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلاَ یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ إِلاَّ خَسَارًا (بنی اسرائیل82)
’’اور ہم قرآن میں جو کچھ نازل کرتے ہیں وہ مومنوں کے لئے شفاء ہے مگر ظالموں کے لئے یہ قرآن خسارے کے علاوہ کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔ ‘‘
امام ابن جوزی فرماتے ہیں کہ یہاں مِنبیانِ جنس کے لئے ہے لہٰذا تمام قرآن شفا ہے اور اس شفا کے بارے میں تین اقوال ہیں: ایک تو یہ ہے کہ اپنے اندر ہدایت کی وجہ سے گمراہی سے شفا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ اپنے اندر برکت کی وجہ سے بیماریوں سے شفا ہے۔ تیسرا یہ کہ وہ فرائض و احکام کے بارے میں شفا ہے۔
قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَـٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ ﴿٤٤﴾
اِن سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو (قرآن) ہدایت اور شفا ہے، مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے اُن کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے اُن کا حال تو ایسا ہے جیسے اُن کو دور سے پکارا جا رہا ہو (41:44)
سیاق و ثبات سے ان تین آیات مبارکہ میں قرآن کے شفا ہونے کو مشروط کیا ہے اہل ایمان کے لیے- کفار کے لیے قرآن خسارہ ہے کیونکہ وہ اس پر نہ ایمان رکھتے ہیں اور نہ عمل کرتےہیں-
نزول قرآن کا اصلی مقصد قلب و روح کی بیماریوں کو ہی دور کرنا ہے اور ضمنی طور پر جسمانی بیماریوں کا بھی بہترین علاج ہے۔ اس سے ان لوگوں کی بےوقوفی اور کجروی بھی ظاہر ہوگئی جو قرآن کریم کو صرف جسمانی بیماریوں کے علاج یا دنیوی حاجات ہی کے لئے پڑھتے پڑھاتے ہیں، نہ روحانی امراض کی اصلاح کی طرف دھیان دیتے ہیں نہ قرآن کی ہدایات پر عمل کرنے کی طرف توجہ کرتے ہیں-
https://youtu.be/k9noA7C-vJc
قرآن کریم کی چار خصوصیات کا ذکر (10:57) ہے:
اول مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ،
موعظہ اور وعظ کے اصلی معنی ایسی چیزوں کا بیان کرنا ہے جن کو سن کر انسان کا دل نرم ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے، دنیا کی غفلت کا پردہ چاک ہو آخرت کی فکر آجائے، قرآن کریم اول سے آخر تک اسی موعظہ حسنہ کا نہایت بلیغ مبلغ ہے، اس میں ہر جگہ وعدہ کے ساتھ وعید، ثواب کے ساتھ عذاب، دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی کے ساتھ ناکامی اور گمراہی وغیرہ کا ایسا ملا جلا تذکرہ ہے جس کو سن کر پتھر بھی پانی ہوجائے پھر اس پر قرآن کریم کا اعجاز بیان جو دلوں کی کایا پلٹنے میں بےنظیر ہے۔
موعظہ کے ساتھ مِّنْ رَّبِّكُمْ کی قید نے قرآنی وعظ کی حیثیت کو اور بھی زیادہ بلند کردیا کہ اس سے معلوم ہوا کہ یہ وعظ کسی اپنے جیسے عاجز انسان کی طرف سے نہیں جس کے ہاتھ میں کسی کا نفع و نقصان یا عذاب وثواب کچھ نہیں، بلکہ رب کریم کی طرف سے ہے جس کے قول میں غلطی کا امکان نہیں، اور جس کے وعدے اور عید میں کسی عجز و کمزوری یا عذر کا کوئی خطرہ نہیں۔
قرآن کریم کی دوسری صفت شِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ، ارشاد فرمائی،
شفاء کے معنے بیماری دور ہونے کے ہیں، اور صدور، صدر کی جمع ہے جس کے معنی سینہ کے ہیں، مراد اس سے قلب ہے۔
معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم دلوں کی بیماریوں کا کامیاب علاج اور صحت و شفاء کا نسخہ اکسیر ہے، حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ قرآن کی اس صفت سے معلوم ہوا کہ وہ خاص دلوں کی بیماری کے لئے شفاء ہے، جسمانی بیماریوں کا علاج نہیں ( روح المعانی)
مگر دوسرے حضرات نے فرمایا کہ درحقیقت قرآن ہر بیماری کی شفاء ہے خواہ قلبی و روحانی ہو یا بدنی اور جسمانی، مگر روحانی بیماریوں کی تباہی انسان کے لئے جسمانی بیماریوں سے زیادہ شدید ہے اور اس کا علاج بھی ہر شخص کے بس کا نہیں، اس لئے اس جگہ ذکر صرف قلبی اور روحانی بیماریوں کا کیا گیا ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ جسمانی بیماریوں کے لئے شفاء نہیں ہے۔
روایات حدیث اور علمائے امت کے بشیمار تجربات اس پر شاہد ہیں کہ قرآن کریم جیسے قلبی امراض کے لئے اکسیر اعظم ہے اسی طرح وہ جسمانی بیماریوں کا بھی بہترین علاج ہے۔
حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے سینے میں تکلیف ہے، آپ نے فرمایا کہ قرآن پڑھا کرو کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) شِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ، یعنی قرآن شفاء ہے ان تمام بیماریوں کی جو سینوں میں ہوتی ہیں ( روح المعانی از ابن مردویہ ) ۔
اسی طرح حضرت واثلہ بن اسقع کی روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیان کیا کہ میرے حلق میں تکلیف ہے، آپ نے اس کو بھی یہی فرمایا کہ قرآن پڑھا کرو۔
علماء امت نے کچھ روایات و آثار سے اور کچھ اپنے تجربوں سے آیات قرآنی کے خواص و فوائد مستقل کتابوں میں جمع بھی کردیئے ہیں، امام غزالی کی کتاب خواص قرآنی اس کے بیان میں مشہور و معروف ہے جس کی تلخیص حضرت حیکم الامت مولانا تھانوی نے اعمال قرآنی کے نام سے فرمائی ہے، اور مشاہدات و تجربات اتنے ہیں کہ ان کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کریم کی مختلف آیتیں مختلف امراض جسمانی کے لئے بھی شفاء کلی ثابت ہوتی ہیں،
ہاں یہ ضرور ہے کہ نزول قرآن کا اصلی مقصد قلب و روح کی بیماریوں کو ہی دور کرنا ہے اور ضمنی طور پر جسمانی بیماریوں کا بھی بہترین علاج ہے۔
اس سے ان لوگوں کی بےوقوفی اور کجروی بھی ظاہر ہوگئی جو قرآن کریم کو صرف جسمانی بیماریوں کے علاج یا دنیوی حاجات ہی کے لئے پڑھتے پڑھاتے ہیں، نہ روحانی امراض کی اصلاح کی طرف دھیان دیتے ہیں نہ قرآن کی ہدایات پر عمل کرنے کی طرف توجہ کرتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے لئے علامہ اقبال مرحوم نے فرمایا ہے
ترا حاصل ز یٰسٓ اش جزین نیست کہ از ہم خواندنش آسان بمیری
یعنی تم نے قرآن کی سورة یٰس سے صرف اتنا ہی فائدہ حاصل کیا کہ
https://youtu.be/uM23fvMNDjA
اس کے پڑھنے سے موت آسان ہوجائے، حالانکہ اس سورت کے معانی اور حقائق و معارف میں غور کرتے تو اس سے کہیں زیادہ فوائد و برکات حاصل کرسکتے تھے۔
بعض اہل تحقیق مفسرین نے فرمایا کہ قرآن کی پہلی صفت یعنی موعظہ کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال کے ساتھ ہے جن کو شریعت کہا جاتا ہے، قرآن کریم ان اعمال کی اصلاح کا بہترین ذریعہ ہے،
اور شِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ کا تعلق انسان کے اعمال باطنہ کے ساتھ ہے، جس کو طریقت اور تصوف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اور آیت میں تیسری صفت قرآن کریم کی هُدًى اور چو تھی رَحْمَةٌ بیان کی گئی ہے ھُدًی کے معنی ہدایت یعنی رہنمائی کے ہیں، قرآن کریم انسان کو طریق حق و یقین کی طرف دعوت دیتا ہے، اور انسان کو بتلاتا ہے کہ آفاق عالم اور خود ان کے نفوس میں اللہ تعالیٰ نے جو اپنی عظیم نشانیاں رکھی ہیں ان میں غور و فکر کرو تاکہ تم ان سب چیزوں کے خالق اور مالک کو پہچانو۔
"شفاء لما فی الصدور" یعنی دلوں کو جو روگ لگتے ہیں اور جن کے سبب سے انسان تمام انسانی اوصاف کھو کر مختوم القلب اور حیوانات سے بدترین بن جاتا ہے، ان سب کا اس میں علاج ہے۔ یہ بات یہاں یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن میں دل ہی کو تمام حکمت و بصیرت اور تمام عزائم و اعمال کا مرکز اور حقیقی زندگی کا منبع قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کے نزدیک زندہ صرف وہی لوگ ہیں جن کے دل زندہ ہیں، جن کے دل زندہ نہیں ہیں وہ مردہ ہیں۔
یعنی جو قرآن کو دل کی توجہ سے پڑھے اور اس کے معنی و مطالب پر غور کرے، اس کے لئے قرآن نصیحت ہے قرآن کریم ترغیب و ترہیب دونوں طریقوں سے واعظ و نصیحت کرتا ہے اور ان کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی صورت میں دو چار ہونا پڑے گا اور ان کاموں سے روکتا ہے جن سے انسان کی اخروی زندگی برباد ہوسکتی ہے۔ یعنی دلوں میں توحید و رسالت اور عقائد حقہ کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کا ازالہ اور کفر و نفاق کی جو گندگی و پلیدی ہوتی ہے اسے صاف کرتا ہے۔
قرآن مجید انسان کی تمام روحانی بیماریوں مثلا شرک، کفر، نفاق، ریا، حسد، بغض، کینہ، عداوت وغیرہ کے لئے تو بدرجہ اولی شفا ہے۔ جیسا کہ سورہ یونس کی آیت (10:57) میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے لیکن سورہ بنی اسرائیل اور سورہ حم السجدہ کی آیت میں قرآن مجید کو مطلق شفا ارشاد فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید جسمانی بیماریوں کے لئے بھی شفا ہے۔ بہت سی احادیث بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ مگر علم طب اور علاج معالجہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا گیا ، بلکہ رسول الله اور صحابہ سے علاج معالجہ کروانا ثابت ہے -
جن لوگوں کا قرآن سے تعلق نہیں اللہ تعالی انہیں باطنی بیماریوں میں ڈال دیتے ہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ان ھذہ القلوب تصدأ کما یصدأ الحدید اذا أصابہ الماء‘‘ قیل: یا رسول اللہ و ما جلاؤھا؟
قال: “کثرۃ ذکرالموت و تلاوۃ القرآن” (رواہ البیہقی)
ترجمہ: نبی ﷺ نے فرمایا: بے شک ان دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے جب اس پر پانی لگتا ہے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ کیا چیز اس کو صاف کرتی ہے؟ فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا۔
پتا چلا کہ انسان کا دل لوہے کی مانند ہے۔ جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کا دل بھی زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ زنگ لگنے کا مطلب یہ ہے کہ دل بیمار ہوجاتا ہے اور اس بیماری کی کئی وجوہات ہوتی ہیں مثلا یہ کہ کبھی اس دل پر دنیا، مخلوق اور نامحرم کی محبت غالب آجاتی ہے اور کبھی دوسرے مہلک باطنی بیماریاں اس دل کو جکڑ لیتی ہیں جیسے حرص، بخل، شہوت، تکبر، حسد اور کینہ و غیرہ۔
نبی ﷺ نے صحابہ کرام کے دریافت کرنے پر اس کی دوا بھی بتائی کہ ان امراض کا علاج موت کا تذکرہ اور قرآن کی تلاوت ہے۔ جو بندہ یہ محسوس کرے کہ اس کا دل بیمار ہوگیا ہے، زنگ آلود ہوگیا ہے، اسے یہ چاہئے کہ وہ قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کرے۔
https://www.youtube.com/watch?v=K1QikP_qMkU
جسمانی بیماریوں کے لئےقرآن سے شفا:
روحانی بیماریوں کے لئے شفا کا ذکر تو ہو چکا ہے۔ اب ان سطور میں ہم جسمانی بیماریوں کے لئے شفا کا ذکر کریں گے۔ یہاں صرف ایسے امراض کا ذکر کریں گے جن کا علاج احادیث صحیح سے ثابت ہے
دل کے امراض کا علاج:
دل کے مختلف امراض مثلا دل کا تیز دھڑکنا (اختلاج قلب)، پژمردگی اور اضطراب قلب دور کرنے کے لئے قرآن مجید کی بکثرت تلاوت کرنی چاہئے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب ’’آگاہ رہو کہ دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر سے ہے۔‘‘ (الرعد28) نیز آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’’قرآن مجید پڑھنے والوں پر اللہ تعالی کی سکینت نازل ہوتی ہے۔‘‘ (مسلم) لہٰذا قرآن مجید کی بکثرت تلاوت دل کی تمام بیماریوں کے لئے صحت بخش ہے۔
زہریلے جانور کے کاٹے کا علاج:
زہریلے جانوروں کے کاٹنے کی صورت میں سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا چاہئے۔ (بخاری) نیز سورہ الکافرون اور معوذ تین پڑھ کر دم کرنا چاہئے۔ آپﷺ نے بچھو کے کاٹنے پر اس جگہ کو نمک ملے پانی سے دھویا اور سورہ الکافرون اور معوذ تین پڑھ کر اس وقت تک دم فرماتے رہے جب تک آرام نہیں آیا۔ (طبرانی)
جنون، مرگی اور سایہ وغیرہ:
جنون اور مرگی کی بیماری میں روزانہ صبح و شام تین تین بارہ سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا چاہئے۔ (ابو دائود)
تمام بیماریوں کا علاج:
تمام بیماریوں میں سورہ فاتحہ کا دم بکثرت کرنا چاہئے۔ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’’سورہ فاتحہ پڑھ کر جو چیز اللہ تعالی سے طلب کی جائے اللہ تعالی اسے عطا فرماتے ہیں۔‘‘ (مسلم)
نیز صبح و شام تین تین مرتبہ سورہ الاخلاص اور معوذ تین پڑھ کر دم کرنا چاہئے۔ (ابو دائود)
جانکنی کی تکلیف کا علاج:
مرض الموت میں مریض کی عیادت کرنے والوں کو معوذ تین پڑھ کر مریض پر دم کرنا چاہئے۔ رسول اکرمﷺ کے مرض الموت میں سیدہ عائشہr معوذ تین پڑھ کر آپ ﷺ کو دم کرتی رہیں۔ (بخاری)
نظر بد سے بچنے کا علاج:
نظر بد سے بچنے کے لئے معوذ تین پڑھ کر مریض کو دم کرنا چاہئے۔ سیدنا ابو سعیدt کہتے ہیں رسول اللہﷺ اپنی بعض دعائوں کے ساتھ شیاطین جن و انس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب فرمایا کرتے تھے، لیکن جب معوذ تین اتریں تو آپ ﷺ نے باقی دعائیں ترک فرمادیں اور معوذ تین کو اپنا معمول بنا لیا۔‘‘ (ترمذی)
آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’’پناہ مانگنے کی دعائوں میں سے سب سے بہتر دعائیں معوذ تین ہیں۔‘‘ (ابو دائود)
شیطانی وساوس سے بچنے کا علاج:
شیطانی خیالات اور وساوس سے بچنے کے لئے قرآن مجید کی درج ذیل آیات کا اہتمام کرنا چاہئے۔
1) بسم اللہ الرحمن الرحیم (ابو دائود)
2) آیۃ الکرسی (بخاری)
3) رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیْطٰنِ وَاَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ (یا) اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
4) معوذ تین (ترمذی)
5) ھُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم (ابودائود)
برے خواب کے شر سے بچنے کا علاج:
اگر برا خواب آئے تو جاگنے کے بعد تین بار اَعُوٍذُبِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنَ (یا) اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھیں (مسلم)
مذکورہ دعا پڑھنے والا شخص برے خواب کے شر سے محفوظ رہے گا۔
قرآن مجید سر تا سر رحمت ہے:
قرآن مجید کو اللہ تعالی نے مختلف مقامات پر رحمت قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِنَّہ‘ لَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَO ’’اور یہ قرآن ہدایت اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لئے۔‘‘ (النمل77)
ایک اور جگہ ارشاد مبارک ہے:ھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَO
’’قرآن مجید ہدایت اور رحمت ہے، نیک عمل کرنے والوں کے لئے۔‘‘ (لقمان3)
اقی بیماری کا علاج جیسے دوا سے ہوتاہے اسی طرح مسنون دعاؤں اور کلمات سے بھی اللہ تعالیٰ بیماریوں کو ٹالتے ہیں، علاج کے لیے درج ذیل امور پر عمل کیجیے:
صدقہ کرنا بہترین علاج ہے
حدیث شریف میں آتا ہے کہ اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کیا کرو، صدقہ بیماری کو دور کرتا ہے۔ اس لیے حسبِ توفیق صدقہ ادا کرتے رہیں۔ جامع الأحاديث (11/ 277)
''تصدقوا وداووا مرضاكم بالصدقة؛ فإن الصدقة تدفع عن الأعراض والأمراض، وهي زيادة في أعمالكم وحسناتكم''. (البيهقي في شعب الإيمان عن ابن عمر)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدقہ دو اور اپنے مریضوں کا صدقے کے ذریعے علاج کرو ؛ اس لیے کہ صدقہ پریشانیوں اور بیماریوں کو دور کرتاہے اور وہ تمہارے اعمال اور نیکوں میں اضافے کا سبب ہے۔
اسکےعلاوہ کھجور، شہد اور کئی دوسری چیزوں کی افادیت بھی سنت سے ثابت ہے ، طب نبوی پر کتب بھی لکھی گیی ہیں-
کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری میں علاج کروایا
بیماری کسی بھی قسم کی ہو، اس کا علاج کرانا سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہے، اس سے غفلت نہیں برتنا چاہیے۔
جامع ترمذی کی ایک روایت کا مفہوم ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے علاج معالجے کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ کے بندو! تم اپنا علاج کراؤ۔ بلاشبہ اللہ نے سوائے بڑھاپے کے کوئی ایسا مرض نہیں پیدا کیا جس کا علاج نہ ہو۔‘‘
شفاء کے حصول کے لئے اسباب اختیار کرنا ضروری ہے البتہ وہ مالک بغیر اسباب کے بھی شفا دینے پر قادر ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بھی علاج کی ترغیب ملتی ہے آپ نے دوا استعمال کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا !
عن اسامة بن شريك، قال: قالت الاعراب: يا رسول الله، الا نتداوى؟ قال: " نعم يا عباد الله، تداووا، فإن الله لم يضع داء إلا وضع له شفاء، او قال: دواء، إلا داء واحدا، قالوا: يا رسول الله، وما هو؟ قال: الهرم "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن مسعود، وابي هريرة، وابي خزامة، عن ابيه، وابن عباس، وهذا حديث حسن صحيح.
اسامہ بن شریک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اعرابیوں (بدوؤں) نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہم (بیماریوں کا) علاج کریں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اللہ کے بندو! علاج کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بیماری پیدا کی ہے اس کی دوا بھی ضرور پیدا کی ہے، سوائے ایک بیماری کے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سی بیماری ہے؟ آپ نے فرمایا: ”بڑھاپا“ ۱؎۔
امام ترمذیؒ کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ، «ابو خزامہ عن أبیہ»، اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [ سنن الترمذی 2038، سنن ابی داود/ الطب ۱ (۳۸۵۵)، سنن ابن ماجہ/الطب ۱ (۳۴۳۶) (تحفة الأشراف: ۱۲۷) (صحیح)]
علاج و معالجہ پسندیدہ عمل ہے!
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت رسول کریمﷺ نے فرمایا :
«لكل داء دواء فإذا أصيب دواء الداء برأ بـإذن الله عزّوجلّ»صحیح مسلم:۵۷۴۱؛ سنن النسائی الکبریٰ:۷۵۵۶
''ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کو اس کی اصل دوامیسر ہوجائے تو انسان عزوجل کے حکم سےشفایاب ہوجاتا ہے۔''
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
«ما أنزل الله دآء إلا أنزل له شفاء»صحیح بخاری:۵۶۷۸؛مسند احمد:۳۵۷۸
''اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی شفا نازل نہ کی ہو۔''
الحجامہ (پچنے لگوانا) احادیث سے ثابت ہے۔ اس کے بارے میں کتب احادیث میں موجود ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود پچنے لگوائے، یعنی ان کے ذریعے علاج کروایا۔ آج کے دور میں بھی اگر کوئی ایسی بیماری ہو جس کا علاج ان سے ممکن ہو تو لگوا سکتے ہیں۔ اگر اسی بیماری کا کوئی جدید طریقے سے علاج بآسانی ہو سکتا ہو تو وہ کروا لیں۔
بہت سے امراض ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ لاعلاج ہے مگر اس حدیث کے مطابق کوئی مرض لاعلاج نہیں ہے۔ ہم جن امراض کو لاعلاج قرار دیتے ہیں دراصل وہ ہمارے محدود علم کے مطابق لاعلاج ہوتے ہیں، اس کا علاج اور اس کی دوا موجود ہے مگر ہماری دریافت ابھی اس تک نہیں پہنچی۔ آج جن امراض کا علاج تشخیص ہوچکا ہے گزشتہ دور میں انہیں بھی لاعلاج سمجھا جاتا تھا، تو جن امراض کو ہم لاعلاج قرار دیتے ہیں آنے والے دور میں ان کا علاج ہونا کوئی بعید نہیں۔
فرمان باری کا مفہوم ہے: ’’ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔‘‘ اسی طرح صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’ اللہ نے کوئی مرض بنا علاج نہیں پیدا کیا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ وقت ضرورت اپنا بھی علاج کروایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ کا بھی کروایا۔
اپنی صحت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے نہ صرف طب نبوی ﷺ سے راہ نمائی لی جاسکتی ہے بل کہ قرآن پاک میں بھی بے شمار مقامات پر ایسی چیزوں کا ذکر ہے جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اسلام نے صحت کی نگہہ داشت اور تن درستی پر بہت زور دیا ہے۔ کھانے پینے کے جتنے بھی طریقے ہیں ان کو اگر اسلامی احکامات کے مطابق اپنایا جائے تو شاید ہی کبھی کوئی بیمار ہو۔ اور جن چیزوں کے کھانے کا حکم دیا گیا اگر ان کو استعمال کیا جائے تو بھی کافی حد تک ہماری صحت ٹھیک رہ سکتی ہے۔
کلونجی ہر بیماری ماسوا موت کا علاج !
کلونجی کے بارے میں جو حدیث بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے:
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بیماری ایسی نہیں سوائے موت کے جس کی شفاء کلونجی میں نہ ہو۔” (صحیح مسلم، جلد سوم، حدیث نمبر 1271)
مزید احادیث: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علہک وسلم نے ارشاد فرمایا کھنبی آنکھوں کے لئے علاج ہے عجوہ جنت کا مویہ ہے اور یہ کلونجی جو نمک مںں ہو موت کے علاوہ ہر بمااری کا علاج ہے۔ (مسند احمد، جلد نہم، حدیث نمبر 2934)
ایک اور حدیث ہے: عامر بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی ہر صبح کو سات عجوہ کھجوریں کھالے تو اس دن کوئی زہر اور جادو اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ (صحیح بخاری، جلد سوم، حدیث نمبر 424)
اگر کلونجی عمومی طور پر ہر مرض کی دوا ہوتی تو نبی کریم کھمبی کو آنکھوں کے علاج کے لئے کیوں تجویز کرتے اور عجوہ کو زہر اور جادو کے لئے کیوں تریاق قرار دیتے۔”
لیکن اس حدیث میں تو کہا گیا ہے کہ کلونجی ہر مرض کی دوا ہے سوائے موت کے” ۔
بعض اوقات حدیث میں ایک بات مختصر بیان ہوتی ہے اور اس سے پہلے یا بعد میں کیا بات تھی وہ اکثر بیان کرنے والا نہیں بیان کرتا۔ جس کی بنا پر غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے” ۔ درج ذیل حدیث اس بات کا جواب ہے کہ کلونجی ہر مرض کی دوا ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہںے کہ آنحضرت صلی اللہ علہو وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شفا تین چیزوں میں ہے پچھنے لگوانا، شہد پینا یا آگ سے داغ لگوانا، اور اپنی امت کو داغ لگوانے سے منع کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری، جلد سوم، حدیث نمبر 659)
یہاں و نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شفا اگر ہے تو تین چیزوں میں اور یہاں کلونجی کا ذکر نہیں کیا۔”
سوال ہے کہ : پھر یہ کیوں فرمایا کہ کلونجی موت کے علاوہ ہر مرض کی دوا ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اگر ان سے درست نسبت رکھتی ہے تو وہ کبھی غلط نہیں ہوسکتی ۔ البتہ آپ کی بات کا درست مطلب سمجھنے کی ضرورت ہے۔
کلونجی کو ہر مرض کی دوا سمجھ لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام ہارٹ کے آپریشن کینسل کر دئیے جائیں، تمام کینسر کے مریضوں کی کیموتھیراپی کو معطل کردی جائے، تمام بخاروں میں اینٹی بائیوٹک بند کردی جائے اور صرف کلونجی پر انحصار کیا جائے۔
ایسا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی نہیں کیا بلکہ کھمبی، شہد، عجوہ وغیرہ کو استعمال کیا ہے ۔
اس حدیث کا درست مفہوم یہ ہے کہ کلونجی میں اس بات کی صلاحیت ہے کہ اسے تمام امراض کی شفا کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن یہ ایک ریسرچ کا ٹاپک ہے کہ کس طرح استعمال کیا جائے۔ اسی مفہوم میں ماضی کے علماء بھی اس حدیث کو لیتے رہے ہیں جیساکہ مشکوٰۃ میں ذکر ہے:
"طیبی کہتے ہیں کہ اگرچہ حدیث کے مفہوم میں عمومیت ہے کہ کلونجی کو ہر بیماری کو دوا فرمایا گیا لیکن یہ کلونجی خاص طور پر انہی امراض میں فائدہ مند ہے۔ جو رطوبت اور بلغم میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ کلونجی ماء یابس و خشک و گرم ہوتی ہے اس لئے یہ ان امراض کو دفع کرتی ہے جو اس کی ضد ہیں، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث کا مفہوم عمومیت پر ہی معمول ہے یعنی کلونجی ہر بیماری میں فائدہ مند ہے بایں طور کہ اگر اس کو کسی بھی دوا میں خاص مقدار و ترکیب کے ساتھ شامل کیا جائے تو اس کے صحت بخش اثرات ظاہر ہوسکتے ہیں”۔ (مشکوٰۃ، طب کا بیان ۹۷)
کیا طب نبوی شریعت ہے ؟
اطباء حدیث کے طور پر یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ : علم دو ہیں ، بدن کا علم اور دین کا علم - مگر محدیثن کے نزدیک یہ ایک مقولہ ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث - تاهم یہ واقعہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں طب سے متعلق تقریبا تین سو روایتیں پائی جاتی ہیں - خود صحیح بخاری میں " کتاب الطب " کے نام سے ایک مستقل باب موجود ہے -
چانچہ طب نبوی کے موضوع پر بہت سے لوگوں نے کتابیں تصنیف کی ہیں - مثلا ابو نعیم عبداللہ اصفہانی ، ابن قیم جوزی ، شمس الدین محمد بن احمد ، وغیره وغیره - عربی کے علاوه دوسری زبانوں میں بهی اس موضوع پر کتابیں لکهی گئ ہیں - مثلا ڈاکٹر سائرل الگوڈ نے انگریزی میں ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہے : Medicin of the prophet.
یہاں ایک سوال ہے کہ طب سے متعلق جو احادیث ہیں ، ان کی حقیقت کیا ہے - ابن خلدون اور شاه ولی اللہ دہلوی کا کہنا ہے کہ طبی روایات کی شرعی حیثیت نہیں - یہ اس زمانہ کے حکماء ، حارث بن کلده وغیره کے تجربے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب عادت کے تحت بیان فرمایا -
بکر بن عبداللہ ابو زید (مصری) کی کتاب ابن قیم جوزیہ : حیاتہ و آثاره (مطبوعہ 1980) میری نظر سے گزری - اس میں ابن قیم کی کتاب الطب نبوی کے تزکره کے تحت مصنف نے اس بات کی سخت تردید کی ہے کہ طب نبوی کی تشریعی حیثیت نہیں - ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے پیٹ کے علاج کے لئے شہد تجویز کیا - استعمال کے بعد بتایا گیا کہ اس کو فائده نہیں هوا - آپ نے فرمایا : یعنی اللہ کا کلام سچا ہے ، البتہ تمہارے بهائی کا پیٹ جهوٹا ہے - مگر اس روایت سے زیاده سے زیاده شہد کا استثناء ثابت هوتا ہے کیونکہ قرآن میں اس کو شفاء للناس کہا گیا ہے محض اس روایت کی بنیاد پر استدلال نہیں کیا جا سکتا ------ حقیقت یہ ہے کہ طب نبوی عربی ہے ، نہ کہ الہامی معنوں میں طب نبوی - (مولانا وحیدالدین خان)
”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگوایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں،اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے ۔اس کی ایک مثال یہ روایت ہے کہ آپ نے مدینہ کے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کے ساتھ مادہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے ۔آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے اشارتاً منع کر دیا جس کہ وجہ سے اگلی فصل کم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ :
”پیوند کاری کرو ،کیونکہ دنیاوی امور کو تم زیادہ بہتر جانتے ہو”
۔اس موضوع پر کہ ”آپ کا ہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے ” شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ‘ حجة اللہ البالغة’ میں ‘ المبحث السابع: مبحث استنباط الشرائع من حدیث النبی’ کے تحت مختصر لیکن بہت عمدہ بحث کی ہے ۔
شاہ ولی اللہ صاحب کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال جو تبلیغِ رسالت کے باب سے نہیں ہیں(یعنی دنیاوی امور سے متعلق ہیں) ، بعض حضرات کے مناقب سے متعلق اقوال،طب سے متعلق بعض اقوال ،آپ کے دور میں کسی جزئی مصلحت کے حصول کے لیے آپ کے جاری کردہ احکامات،آپ کے عادی امور، آپ کے فیصلے(یعنی قضاء) اور آپ کے بعض احکامات کا آپ کی قوم کے بعض لوگوں کے لیے خاص ہوناوغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
شاہ صاحب نے اس موقف کی دلیل کے طور پرکہ آپ کا ہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے، ایک حدیث کو بیان کیا ہے۔حضرت خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے:
دَخَلَ نَفَر عَلٰی زَیْدٍ بْنِ ثَابِتٍ فَقَالُوْا حَدِّثْنَا بَعْضَ حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ وَمَا أُحَدِّثُکُمْ؟ کُنْتُ جَارُہ فَکَانَ ِذَا نَزَلَ الْوَحْیُ أَرْسَلَ ِلَیَّ فَکَتَبْتُ الْوَحْیَ وَکَانَ ِذَا ذَکَرْنَا الْآخِرَةَ ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الدُّنْیَا ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الطَّعَامَ ذَکَرَھُ مَعَنَا’ فَکُلُّ ھٰذَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ؟ (٢٤)
”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگو ایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو (مثلا ، طب ) تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں، اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے ۔
اس کی ایک مثال یہ روایت ہے کہ آپ نے مدینہ کے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کے ساتھ مادہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے ۔آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے اشارتاً منع کر دیا جس کہ وجہ سے اگلی فصل کم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ :”پیوند کاری کرو ،کیونکہ دنیاوی امور کو تم زیادہ بہتر جانتے ہو”۔امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ‘حسن’ کہا ہے۔(٢٥)امام ابن حجررحمہ اللہ نے اس روایت کو’حسن’ کہا ہے۔(٢٦) حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت سے حجت پکڑی ہے ۔جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ‘ضعیف ‘کہا ہے(٢٧)۔ ‘سنن البیہقی’ کی ایک روایت میں ‘أَوَکُلَّ ھٰذَا نُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ’؟ کے الفاظ بھی ہیں ۔
بعض دوستوں کا خیال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول پر عمل ضروری ہے ۔ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت اُمت پر لازم ہے،لہٰذا جہاں بھی آپ کا کوئی قول آ جائے، چاہے وہ دنیا سے متعلق ہو یا دین سے ، تو اس پر عمل کرنا لازم ہو گا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال آپ کی اطاعت میں داخل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت ہر اُمتی پر فرض ہےلیکن کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول یا ہر ہر بات، چاہے وہ دین سے متعلق ہو یا دنیا سے ، اطاعت کی تعریف میں داخل ہے ؟ اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے تو یہ موقف درست نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
Prophet Muhammad (PBUH) tuaght us to arrange proper medicine for various illnesses as Allah has created a cure for every illness. He himself used various medicines according to the need and also prescribed some medicines for various companion for different illnesses. This books, at link are collection of all such teachings related to Health and Medicine.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں جہاں روحانی اور باطنی بیماریوں کے حل تجویز فرمائے وہیں جسمانی اور ظاہری امراض کے لیے بھی اس قدر آسان اور نفع بخش ہدایات دیں کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کر لے لیکن ان سے سرمو انحراف نہیں کر سکتی۔ بہت سے لوگ دعا اور دوا کے سلسلے میں افراط کا شکار ہیں لیکن یہ دونوں نقطہ ہائے نظر تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے میل نہیں کھاتے بیماری کے علاج کے لیے دعا اور دوا دونوں از بس ضروی ہیں۔
Read online or download: https://www.australianislamiclibrary.org/tib-and-tib-e-nabvi.htmlReferences:
- https://salaamone.com/quran-urdu/
- https://islamqa.info/ur/answers/9691
- http://forum.mohaddis.com/threads/1330/
- http://forum.mohaddis.com/threads/888
- https://www.express.pk/story/1312484/1/
- http://forum.mohaddis.com/threads/38106
- https://www.facebook.com/1620740864833852/posts/1770918616482742/
- http://sunnionline.us/urdu/2017/12/10529/
- https://www.urdusafha.pk/kia-kalwanji-ma-har-marz-k-liye-shifa-ha/
- https://salaamone.com/intellect/
- http://corpus.quran.com/qurandictionary.jsp?q=hdy
- https://www.facebook.com/hikmat.u.danae/posts/1780298435535461/
- http://magazine.mohaddis.com/shumara/245-dec-2013/2695-ilaj-mualja-shari-ahkam-masael
- http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/08-Tib%20Nabwi%20Aur%20Shahad_MDU_7_July_17.htm
https://salaamone.com/quran-healing/