لہٰذا فطری طور پہ بانیٔ اسلام حضرت محمد(ﷺ) کا مذہبی پیغام اس مقصد کے لیے کافی ہے جو کہ مسلم معاشرے کے رویوں کے بنیادی معیار کو قائم کرتا ہے-نتیجتاً ان کے سیاسی مجتہدکے طور پر کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے،اسی طرح قرآن مجید سے موسوم قانونی معاملات وسیع معانی پر مشتمل ہیں کہ مسلم معاشرے کے مقاصد اور امنگیں کیا ہونے چاہیں‘‘-
تمام فقہا و ماہرینِ اصول اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن اسلامی قانون کا پہلا بنیادی مأخذ ہے تاہم یہ اسلامی قانونی نظام کی بنیادی قانون سازی کےلئے اصول اور ڈھانچہ فراہم کرتا ہے-اس کی بطورِ مأخذ مستند ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ بلاواسطہ کلامِ الٰہی ہےاور دیگرذرائع مأخذ اسلامی قانون کو سند اور ’’validity‘‘قرآن سے ہی ملتی ہے-قرآن کو سمجھنے کے لئےقرآن کے’’recognize‘‘ کردہ دیگر مأخذ سے رجوع و معاونت ضروری ہوجاتی ہےکہ الہامی کلام،قرآن مجیدکو سمجھنے کے لئے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اورعقلِ انسانی جو وحی کے تابع ہو الہامی کلام کی تعبیر و تشریح کرنے اور فہم کے لئےمددکرتی ہیں-
اسلامی قانون اور سزائیں
ایسی سزا جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے اور ساتھ ہی متعین ہے، اس سزا کو جاری کرنے کا اختیار تو حاکم یا حکومت کو ہے مگر اس میں قانون سازی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے، اس طرح کی سزا کو شریعت میں حد کہتے ہیں جیسے زنا کی پاداش میں سنگساری (رجم)، شراب پینے کے عوض درے سے مارنا یا چور کا ہاتھ کاٹ دینا۔
نفاذ شریعت میں کیا رکاوٹ ہے ؟
اسلام میں ان جرائم کا ارتکاب انسانی نہیں احکام خداوندی کی حدود سے تجاوز کرنا ہے اس لیے مجرم کو سزا بھی خدا کی مقرر کردہ ہی دی جاتی ہےدنیا کے عام قوانین میں جرائم کی تمام سزاؤں کو تعزیرات کا نام دیا جاتاہے‘ خواہ وہ کسی بھی جرم سے متعلق ہوں‘اس لئے تعزیرات ہند‘ تعزیرات پاکستان کے نام سے جو کتابیں ملک میں پائی جاتی ہیں‘ اس میں ہرقسم کے جرائم اور ہرطرح کی سزاؤں کا ذکر ہے ۔ شریعت اسلامیہ میں جرائم کی سزاؤں کی تین قسمیں ہیں:
۱:․․․حدود ۲:․․․قصاص ۳:․․․تعزیرات۔
1. حد: اس سزا کو کہتے ہیں جس کی تعیین کتاب و سنت میں کردی گئی ہو۔ اس کا اطلاق درج ذیل سزاؤں پر ہوتاہے:حدِّ زنا, حدّ قذف: بہتان تراشی ﴿یعنی کسی پر زنا کاالزام لگانے یا اس کے نسب کا انکار کرنے﴾ کی سزا،حدِّ سرقہ( چوری کی سزا )،حدِّ حرابۃ( ڈکیتی)، حدِّ شرب خمر( شراب پینے کی سزا)،حد الردّۃ( اسلام سے پھر جانے کو ردّہ یا ارتداد کہا جاتا ہے)
2. قصاص: کوئی شخص کسی کو قتل کردے تو بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔ ﴿البقرۃ: ۱۷۸﴾ اور اگر اس کا کوئی عضو تلف کردے تو بدلے میں اس کا وہ عضو بھی تلف کردیا جائے گا ۔ ﴿المائدۃ: ۴۵﴾ اسے قصاص کہا جاتا ہے۔ بعض فقہاءنے قصاص کو بھی حد میں شمار کیا ہے۔ اس لیے کہ اس کی سزا بھی کتاب و سنت کے ذریعے متعین کردہ ہے۔
3. تعزیر: جن جرائم کی سزا قرآن و سنت میں منصوص نہیں ہے یا کسی جرم کے ثبوت کے لیے حدود و قصاص کے نفاذ کے لیے جو شرائط مقرر ہیں وہ پوری نا ہورہی ہوں ایسی صورت میں مجرم پر حد یا قصاص تو جاری نہیں کیا جاتا، لیکن اسے آزاد بھی نہیں چھوڑدیا جاتا، بلکہ اس کے جرم کے مطابق اسے کوئی دوسری سزا دی جاتی ہے۔ اسے اسلامی ریاست میں قاضی جرم، مجرم اور حالات کے مطابق حسب ضرورت نافذ کرتا ہے۔ یہ سزا جسمانی بھی ہوسکتی ہے، مالی بھی۔ قید و بند کی بھی ہوسکتی ہے اور شہر بدری کی بھی، یا کوئی دوسری۔ اسکی ایک صورت یہ ہے کہ قاضی کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ ہر زمانہ‘ ہر مکان اور ماحول کے لحاظ سے جیسی اور جتنی سزا انسداد جرم کے لئے ضروری سمجھے وہ جاری کرے۔ دوسرے یہ کہ اسلامی حکومت شرعی قواعد کا لحاظ کرتے جرائم کی سزاؤں کا کوئی خاص پیمانہ مقرر کردے‘ دونوں صورتیں جائز ہیں-
حدود میں گواہی کی شرائط
حدود کی سزائیں جتنی سخت ہیں انکی شرائط بھی اسی حساب سے سخت رکھی گئیں ہیں، حدود کے نفاذ میں شریعت اسلامیہ نے ضابطہٴ شہادت بھی عام معاملات سے ممتاز اور بہت محتاط بنایاہے‘تاکہ کسی معصوم اور بے گناہ کو سزا نا دی جاسکے ۔ مثلا
زنا کی سزا میں تو دو گواہوں کی بجائے چار گواہوں کو شرط قرار دے دیا اور وہ بھی جبکہ وہ ایسی عینی گواہی دیں جس میں کوئی لفظ مشتبہ نہ رہے۔
چوری وغیرہ کے معاملہ میں اگرچہ دوہی گواہ کافی ہیں‘ مگر ان دو کے لئے عام شرائط شہادت کے علاوہ کچھ مزید شرطیں بھی عائد کی گئی ہیں‘ مثلاً دوسرے معاملات میں مواقع ضرورت میں قاضی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ کسی فاسق آدمی کے بارہ میں اگر قاضی کو اطمینان ہوجائے کہ عملی فاسق ہونے کے باوجودیہ جھوٹ نہیں بولتا تو قاضی اس کی گواہی کو قبول کرسکتا ہے‘ لیکن صرف حدود میں قاضی کو اس کی گواہی قبول کرنے کا اختیار نہیں‘
عام معاملات میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے‘ مگر حدود میں دو مردوں کی گواہی ضروری ہے۔ عام معاملات میں شریعت اسلام نے تمادی (مدت دراز گذر جانے) کو عذر نہیں قرار دیا‘ واقعہ کے کتنے ہی عرصہ کے بعد کوئی گواہی دے تو قبول کی جاسکتی ہے‘ لیکن حدود میں اگر فوری گواہی نہ دی‘ بلکہ ایک مہینہ یا اس سے زائد دیر کرکے گواہی دی تو وہ قابل قبول نہیں۔
اس طرح شریعت اسلامیہ میں قطع ید (ہاتھ کاٹنے) کی سزا مطلقاً ہر چوری پر عائد نہیں ہوتی‘ جسے عرف عام میں چوری کہا جاتاہے‘ بلکہ سرقہ جس پر سارق کا ہاتھ کاٹا جاتاہے اس کی ایک مخصوص تعریف ہے کہ: کسی کا مال محفوظ جگہ سے سامان حفاظت توڑ کرناجائز طور پر خفیہ طریقہ سے نکال لیا جائے۔
اس تعریف کی رو سے بہت سی صورتیں جن کو عرفاً چوری کہا جاتاہے‘ حد سرقہ کی تعریف سے نکل جاتی ہیں‘ مثلاً محفوظ مکان کی شرط سے معلوم ہوا کہ عام پبلک مقامات: مثلاً مسجد‘ عیدگاہ‘ پارک‘ کلب‘ اسٹیشن‘ ویٹنگ روم‘ ریل‘ جہاز وغیرہ میں عام جگہوں پر رکھے ہوئے مال کی کوئی چوری کرے یا درختوں پر لگے ہوئے پھل چرالے یا شہد کی چوری کرے تو اس پر حد سرقہ جاری نہیں ہوگی ‘ بلکہ عام ممالک کے قوانین کی طرح تعزیری سزا دی جائے گی۔
اسی طرح وہ آدمی جس کو آپ نے اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے رکھی ہے خواہ وہ آپ کا نوکر ہو یا مزدور ومعمار ہو یا کوئی دوست‘ عزیز ہو وہ اگر آپ کے مکان سے کوئی چیز لے جائے تو وہ اگرچہ عرفی چوری میں داخل اور تعزیری سزا کا مستحق ہے‘ مگر ہاتھ کاٹنے کی شرعی سزا اس پر جاری نہ ہوگی‘ کیونکہ وہ آپ کے گھر میں آپ کی اجازت سے داخل ہوا‘ اس کے حق میں حفاظت مکمل نہیں۔اسی طرح اگر کسی نے کسی کی جیب کاٹ لی یا ہاتھ سے زیور یا نقد چھین لیا یا دھوکہ دے کر وصول کرلیا یا امانت لے کردینے سے انکار کردیا مگر گیا یہ سب چیزیں حرام وناجائز اور عرفی چوری میں ضرور داخل ہیں مگر چونکہ شرعی سرقہ کی تعریف میں داخل نہیں‘ اس لئے ان پر ہاتھ نہ کاٹا جائے گا‘ بلکہ ان سب کی سزا تعزیری ہے جو حاکم کی صوابدید پر موقوف ہے۔ اسی طرح کفن کی چوری کرنے والے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا‘ کیونکہ اول تو وہ محفوظ جگہ نہیں اور وہ کفن میت کی ملکیت نہیں‘ ہاں اس کا یہ فعل سخت حرام ہے‘ اس پر تعزیری سزا حسب صوابدید حاکم جاری کی جائے گی۔اسی طرح اگر کسی نے ایک مشترک مال میں چوری کرلی جس میں اس کا بھی کچھ حصہ ہے‘ خواہ میراث کا مشترک مال تھا یا شرکت اور تجارت کا مال تھا تو اس صورت میں چونکہ لینے والے کی ملکیت کا بھی کچھ حصہ اس میں شامل ہے‘ اس ملکیت کے شبہ کی وجہ سے حد شرعی ساقط ہوجائے گی اور تعزیری سزا دی جائے گی- (اسلامی قانون )
ڈاکہ ، چوری ، زنا ، تہمت زنا ، شراب نوشی
’’حدود‘‘،’’حد‘‘کی جمع ہے اور ’’حد‘‘کے معنی بازرکھنے کے ہوتے ہیں،شرعی اعتبارسے ’’حدود‘‘ان مقررہ سزاؤں کو کہاجاتاہے جواللہ تعالیٰ کے حق کے واسطے متعین ہوںاور ان میں ترمیم یاتبدیلی کاکسی کو حق حاصل نہیں۔شریعت میں پانچ جرائم کی حدودمقرر ہیں:
(۱)ڈاکہ (۲)چوری (۳)زنا (۴) تہمت زنا (۵)شراب نوشی
ان پانچ جرائم کی سزاؤں کو حدود کہاجاتاہے۔ان میں پہلی چارسزائیں قرآن کریم سے اورشراب نوشی کی سزا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ثابت ہے۔
حدود کامقصود یہ ہے کہ مجرم کو تنبیہ ہو اور وہ جرم سے بازآئے،مخلوقِ خدابھی ضرراورنقصان سے محفوظ ومامون ہو اوراسلامی مملکت بھی فسادسے محفوظ رہے۔
اگر کوئی شخص مہلک گناہوں جیسے کہ زنا، چوری، شراب نوشی، یا کوئی شخص نعوذباللہ مرتد ہی ہو جاتا ہے تو اس پر سب سے پہلے یہ واجب ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے، ان گناہوں کو ترک کر دے، اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کرے اور آئندہ ایسے گناہ مت کرے، نیز اگر لوگوں کے حقوق بھی غصب کیے ہیں تو انہیں ان کا حق واپس کرے۔
یہ مسلمہ بات ہے کہ جو شخص توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالی بھی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، چاہے اس کا گناہ کتنا ہی گھناؤنا ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کی رحمت کے سامنے سب گناہ ہیچ ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (69) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا
ترجمہ: اور اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پا کے رہے گا۔ (68) قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا۔ (69) ہاں جو شخص توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ [الفرقان: 68 - 70]
تو ان آیات میں اللہ تعالی نے شرک، قتل اور زنا تک کا ذکر کیا ہے، پھر اس کے بعد فرمایا: جو شخص بھی توبہ کرے اور ایمان لا کر عمل صالح کرے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے، اور اس کی تمام تر برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى
ترجمہ: یقیناً میں اس شخص کو ضرور بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے، ایمان لائے ، اور عمل صالح کرنے لگے اور راہ ہدایت پر گامزن رہے۔[طہ: 82]
دوم:
اگر کوئی شخص مذکورہ یا دیگر گناہوں میں ملوث ہو جائے اور توبہ کر لے تو اس پر یہ لازمی نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ پر حد لاگو کرنے کا مطالبہ کرے، بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے آپ پر پردہ رکھے اور اللہ تعالی سے دل ہی دل میں توبہ کر لے، کثرت سے نیکیاں کرے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (اللہ تعالی کے منع کردہ ان برے گناہوں سے بچو، اگر کوئی شخص ان میں ملوث ہو بھی جائے تو اللہ کی طرف سے ڈالا گیا پردہ قائم رکھے) اس حدیث کو بیہقی نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے "سلسلہ صحیحہ" : (663)میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح صحیح بخاری: (4894) میں ہے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا تم میری اس بات پر بیعت کرتے ہو کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، زنا اور چوری نہیں کرو گے۔۔۔) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورت النساء کی آیت تلاوت فرمائی، اور کہا: (جو تم میں سے اپنا وعدہ وفا کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، اور اگر کسی نے ان گناہوں میں سے کسی کا ارتکاب کر لیا اور پھر اس کو سزا دی گئی تو یہ سزا اس کے لیے کفارہ ہو گی۔ اور اگر کسی نے ان گناہوں کا ارتکاب کر لیا اور اللہ تعالی نے اس کے عیب پر پردہ ڈالے رکھا تو اس کا معاملہ اللہ کے ذمے ہے، اگر چاہے تو اسے عذاب سے دوچار کر دے اور چاہے تو بخش دے)"
اسی طرح صحیح مسلم: (2590) میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کسی بندے پر دنیا میں پردہ ڈالے رکھے تو لازمی بات ہے کہ روزِ قیامت بھی اس پر پردہ ڈالے رکھے گا)
ایسے ہی مسند احمد: (21891) میں نعیم بن ھزال سے مروی ہے کہ: "ھزال نے ماعز بن مالک کو مزدوری پر رکھا، ھزال کی ایک فاطمہ نامی لونڈی تھی، جسے طلاق ہو گئی تھی، وہ اپنی بکریاں چرا رہی تھی اور ماعز نے اس کے ساتھ بد فعلی کر لی اور آ کر ھزال کو بتلا دیا، ھزال نے ماعز کو چکما دے کر کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلو، ماجرا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی بتلا دو ، شاید تمہارے بارے میں قرآن کی وحی نازل ہو جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ماعز کے بارے میں حکم دیا کہ انہیں رجم کر دیا جائے، لیکن جب ماعز کو پتھر لگے تو بھاگ کھڑے ہوئے، سامنے سے ایک آدمی نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی ، یا پنڈلی کی ہڈی ماعز کو ماری تو لڑکھڑا کر گر پڑے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ھزال! یہ کیا کیا، اگر تم ماعز کو اپنے کپڑے میں چھپا لیتے تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر تھا۔)" اس حدیث کے بارے میں مسند احمد کے محققین کہتے ہیں کہ یہ صحیح لغیرہ ہے۔
ایسے ہی صحیح مسلم: (1695) میں اس کی وضاحت ہے کہ جب ماعز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور زنا کا اقرار کر لیا اور کہا کہ: مجھے پاک کریں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں مخاطب ہو کر فرمایا تھا: (تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ واپس چلے جاؤ، استغفار کرو اور توبہ کرو)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس میں دلیل ہے کہ کبیرہ گناہ بھی توبہ سے دھل جاتے ہیں، اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔" ختم شد
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ماعز کے واقعے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ماعز نے آ کر زنا کا اقرار کیا ہے، لہذا جو بھی ماعز جیسے معاملے میں ملوث ہو جائے تو وہ اللہ سے توبہ کر لے اور اپنے جرم کی پردہ پوشی کرے، کسی کو اپنی اس حرکت کے بارے میں مت بتلائے۔۔۔ امام شافعی ؒ نے یہی بات ٹھوس انداز میں کہی ہے کہ: مجھے یہ پسند ہے کہ جو شخص دنیا میں گناہ کر بیٹھے اور اللہ تعالی اس پر پردہ فرما دے ، تو اسے چاہیے کہ وہ پردہ پوشی رہنے دے اور اللہ تعالی سے توبہ کر لے۔" ختم شد
" فتح الباری" ( 12 / 124)
اسی طرح "مطالب أولي النهى" (6/ 168) میں ہے کہ:
"اگر کوئی شخص ایسا کام کرتا ہے جس سے حد واجب ہوتی ہے: تو اپنے گناہ پر پردہ ڈالے رکھنا مستحب ہے، حکمران یا قاضی کے سامنے جا کر اقرار کرنا واجب یا سنت نہیں ہے؛ کیونکہ حدیث نبوی ہے کہ: (یقیناً اللہ تعالی پردہ پوشی کرنے والا ہے اور اپنے بندوں میں سے پردہ پوشی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔)" ختم شد
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"قابل حد جرم کی اطلاع جب کسی شرعی حکمران تک پہنچ جائے اور مکمل دلائل سے جرم بھی ثابت ہو تو حد قائم کرنا واجب ہو جاتا ہے، اب توبہ سے جرم معاف نہیں ہو گا، اس پر سب کا اجماع ہے۔ جیسے کہ غامدیہ عورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس توبہ کرنے کے بعد آئی اور کہا کہ مجھ پر حد نافذ کریں، تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں فرمایا تھا: (اس عورت نے ایسی عظیم توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ ایسی توبہ کریں تو سب کی بخشش ہو جائے) لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر حد لاگو کی، نیز حد لاگو کرنے کا اختیار حکمران کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔
لیکن اگر حکمران یا قاضی تک بات نہیں پہنچتی، تو مسلمان کو چاہیے کہ اللہ تعالی نے جرم پر پردہ ڈالا ہوا ہے اسے باقی رکھے، اور اللہ تعالی سے سچی توبہ کر لے، بہت امید ہے کہ اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرما لے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة"( 22 / 15)
سوم:
مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہو چکا ہے کہ انسان اپنے گناہ پر پردہ ڈالے رکھے تو یہ اپنے آپ پر حد نافذ کروانے کی کوشش سے زیادہ بہتر ہے، اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حد توبہ کے لیے شرط بھی نہیں ہے، نیز حد کے بغیر توبہ صحیح ہو گی، مزید بر آں دیگر نیک اعمال حد قائم کیے بغیر بالاولی قبول کیے جاتے ہیں؛ کیونکہ اعمال کی قبولیت اور حد کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص زنا کر بیٹھتا ہے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ اپنے گناہ پر اللہ تعالی کا ڈالا ہوا پردہ باقی رکھے، اور اللہ تعالی سے اپنے فعل کی توبہ مانگ لے، کسی کو بھی اپنے جرم کے بارے میں نہ بتلائے۔ نیز اگر کسی کو اطلاع مل بھی جائے تو اس کے لیے پردہ پوشی سے کام لینا مستحب ہے، نیز گناہگار شخص کو پردہ پوشی کی ترغیب دلائے، اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرمائے گا، اگر اس پر حد نافذ نہیں کی جاتی تو اس کا اس گناہ سے توبہ اور دیگر نیکیوں پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ واللہ اعلم
شرعی سزاؤں کی اقسام اور ان کا مختصر بیان
شرع نے سزاؤں کو عموماً چار اقسام کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ حدود:
شرع نے حدود خصوصاً ان سزاؤں کو کہا ہے جو ایسے گناہ والے اعمال کے نتیجے میں عائد ہوتی ہیں جن کی سزا لینا الله سبحانه وتعالى کاحق ہےنہ کہ بندوں یاریاست کا۔یہی وجہ ہےکہ شرع نےحدودکی تمام سزاؤں کو واضح طورپر(explicitly) بتا دیا اور کسی شخص یا اسلامی ریاست کو یہ اختیار نہیں دیا کہ اس سزا کو الله سبحانه وتعالى کی طرف سےمعاف کردے۔مثال کےطورپرالله سبحانه وتعالى کافرمان ہے :۔ :۔
«الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلاَ تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ»
"بدکار عورت اور بدکار مرد سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو اور تمہیں الله کے معاملہ میں ان پر ذرا رحم نہ آنا چاہیئے"۔
اورفرمایا:۔
«وَٱلسَّارِقُ وَٱلسَّارِقَةُ فَٱقْطَعُوٓا أَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَٰلًا مِّنَ ٱللَّهِۗ»
"اور چور، خواہ عورت ہو یا مرد، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ اُن کے کیے کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا" (سورةالمائدة 38)۔
لہٰذاحدود کی سزائیں الله سبحانه وتعالى کی طرف سے ہوتی ہیں جن کواسلامی ریاست نافذ کرتی ہے۔۔
اسی حوالے سے ایک مشہور روایت ہمارے سامنے ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:۔
«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ فَعَلَتْ ذَلِكَ، لَقَطَعْتُ يَدَهَا»
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہ نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا" (صحیح بخاری 6787)۔
مختلف صحیح احادیث سے واضح ہے کہ یہ کسی کے اختیار میں نہیں کہ مقررہ حدود کی خلاف ورزی کو معاف کردے کیونکہ ان کی سزا لینا الله کاحق ہے۔یہی وجہ ہےکہ الله تعالىٰ نےکسی حدکی معافی کا ذکرنہیں فرمایا ماسوائے اخلاص کےساتھ توبہ کرنےسے،کہ جس کے نتیجے میں مسلمان آخرت کے عذاب سے بچ جاتا ہے لیکن دنیاوی سزا (حد) اس پرلازم ہوتی ہے۔الله سبحانه وتعالى فرماتاہے:۔
«قُلْ يَاعِبَادِي الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ»
"(اے نبیؐ) کہہ دوکہ اے میرے بندو،جنہوں نےاپنی جانوں پرزیادتی کی ہے،اللہ کی رحمت سےمایوس نہ ہوجاؤ،یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے،وہ توغفورورحیم ہے۔"
چنانچہ چوری ، زنا، ہم جنس پرستی ، شراب نوشی، ارتداد،قذف ، شاہراہوں پر ڈاکہ زنی، اسلامی ریاست کے خلاف بغاوت کی سزائیں حدود میں شمار ہیں جنہیں اسلامی ریاست نافذ کرتی ہے اور ان سزاؤں میں کسی معافی کی گنجائش نہیں۔
2۔ جنایات:
جہاں تک جنایات کا تعلق ہے تو شرع نے کچھ سزاؤں کو اس قسم میں اکھٹا کیا ہے۔ یہ سزائیں ان جرائم (حرام اعمال) کے نتیجے میں عائد ہوتی ہیں جن کا بدلا لینا انسان کا حق (right of indemnification or right of retaliation ) ہے۔ لہٰذا انسان جو اس جرم کے نتیجے میں متاثر ہو، وہ چاہے تو سزا کے ذریعے بدلہ لے لے یا مقررہ شرعی طریقے سے معاف کردے۔ کسی کو ناحق قتل کرنا یا کسی بھی طرح کا جسمانی نقصان پہنچانا ان جرائم میں شامل ہے اور ان کا بدلہ لینا واجب ہے۔ جیسا کہ الله سبحان هوتعالى فرماتا ہے:۔
«كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلْقِصَاصُ فِى ٱلْقَتْلَىۖ ٱلْحُرُّ بِٱلْحُرِّ وَٱلْعَبْدُ بِٱلْعَبْدِ وَٱلْأُنثَىٰ بِٱلْأُنثَىٰۚ»
"تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو توا س عورت ہی سے قصاص لیا جائیگا" (سورةالبقرة 178)۔
االبتہ مقتول کےلواحقین اگرقاتل کومعاف کرناچاہیں تودیت (خون بہا)دیکرمعاف کرسکتے ہیں جیسا کہ الله سبحانه وتعالى کا فرمان ہے:۔
«فَمَنْ عُفِىَ لَهُۥ مِنْ أَخِيهِ شَىْءٌ فَٱتِّبَاعٌۢ بِٱلْمَعْرُوفِ وَأَدَآءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَٰنٍۗ»
"اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، تو قاتل کو معروف طریقے کے مطابق خون بہا دینا چاہیے (سورةالبقرة 178)۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ قَتَلَ متعمداً دُفِعَ إلى أولياء المقتول، فإن شاءوا قتلوه، وإن شاءوا أخذوا الدية
"جسے قصداًقتل کر دیا جائے تو اس کے والی وارثوں کو دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے، یا تو وہ قاتل کو قصاص میں قتل کر دیں، یا دیت لے لیں۔" (ترمذی)۔
جنایات کی مثالوں میں قصاص ، خون بہا اور جسم کے کسی حصے کو نقصان پہنچنے پر دیت کی سزائیں شامل ہیں۔
3۔ تعزیر:
شرع نے تعزیر ان سزاؤں کو ٹھہرایا ہے جن کی قرآن وسنت میں کوئی مخصوص سزامقرر نہیں۔ جن جرائم کے کرنے سے ایک شخص حدود یا جنایات کا مرتکب ہوتا ہے وہ اسی جرم کے مطابق مخصوص سزا پاتا ہے اور اس پر تعزیر کا حکم نہیں لگتا۔ لیکن اگر جرم کی کوئی مخصوص سزا قرآن وسنت نے واضح نہ کی ہو، اس صورت میں مجرم پر تعزیر کا حکم لگے گا۔ تعزیر اس جرم کی سزا ہے جس کے لئے نہ تو مخصوص حد ہو اور نہ ہی کفارہ۔ مثال کے طور پر کسی شخص کو جسمانی نقصان پہنچانے کی مخصوص سزا شرع نے بتائی ہے، اسی لئے اس جرم پر مزید کسی سزا یعنی تعزیر کا حکم نہیں لگے گا۔ مزید یہ کہ تعزیر کا حکم قاضی جرم کی نوعیت کے مطابق اجتہاد کی بنیاد پر لگاتا ہے۔ لیکن خلیفہ یا قاضی اپنی مرضی کی کوئی بھی سزا تعزیر کے طور پر عائد نہیں کرسکتا کیونکہ شرع نے کچھ سزاؤں کو خصوصاً ممنوع قرار دیا ہےجیسا کہ آگ سے جلانا وغیرہ۔ البتہ مقررہ حدود اور جنایات کی سزاؤں کا کچھ حصہ تعزیر کے طور پر مقرر کرسکتا ہے۔
تعزیر باقی سزاؤں (حدود اور جنایات) سے اس طرح بھی مختلف ہے کہ اس میں ریاست کی طرف سے معافی کی گنجائش ہوتی ہے جو کہ حدود اور جنایات میں نہیں ہوتی۔ کیونکہ حدود اور جنایات الله سبحانه وتعالى اوربندوں کےحقوق کی براہِ راست خلاف ورزی کی وجہ سےعائدہوتی ہیں اورریاست کہ پاس یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ خالق یابندوں کے طرف سے معاف کردے لہٰذا ان جرائم کے نتیجے میں سزائیں لازم ہوتی ہیں۔البتہ تعزیرالگ معاملات کے لئے عائدہوتی ہےتوریاست اس کی سزاکوکم کرسکتی ہے یا مجرم کو معاف بھی کرسکتی ہے، جیسے حکمران پر جھوٹا الزام عائد کرنا۔
دراصل تعزیر کی سزائیں جرم کی نوعیت کے مطابق قیاس کی جاتی ہیں چنانچہ اس کے لئے شارع کا اشارہ (قرینہ) ہی بتاتا ہے کہ جرم (یعنی نا پسندیدہ یا حرام عمل) کی شدت intensity)) کتنی ہے کہ جس کے مطابق سزا دی جائے۔ مزید یہ کہ ان سزاؤں کی تبنی اور نفاذ کے لئے حقیقت کی مکمل آگاہی کی ضرورت ہوتی ہے اور شرعی علت "(حرام سے) روکنے" (prevention) کی بنا پر ان سزاؤں (تعزیر) کی تبنی کی جاتی ہے۔ چند تعزیری سزائیں مثال کے طور پر درج ذیل ہیں:
1۔ اگر کوئی شخص زنا بالجبر (rape) کی کوشش کرتا ہے لیکن کسی رکاوٹ کی وجہ سے وہ اس عمل کو سرانجام نہیں دے پاتا کہ اس پر حد نافذ ہو، اس صورت میں مجرم کو تعزیر کی شکل میں تین سال قید، کچھ حصہ کوڑے کی سزا اور جلاوطن کیا جائے گا۔ یہ اس وجہ سے کہ جو عمل وہ اس رکاوٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے کرتا وہ صریحاًحرام عمل ہے اور جس جرم کی شرع میں خاص سزا بھی مقرر ہے۔ لیکن چونکہ وہ حرام عمل مکمل نہیں ہوا لہٰذا سزا (حد) بھی پوری نہیں لگے گی۔
2۔ فحش لٹریچر، آڈیو، ویڈیو یا اس طرح کی سروسز بیچنے پر چھ مہینے قیدکی سزا۔
3۔ اگر کوئی شخص نشہ (چرس، ہیروئن وغیرہ علاوہ شراب) لیتا ہے تو اس پر کوڑے، پانچ سال قید، اور جرمانے کی سزا۔
4۔ اگر کوئی شخص، باوجود اس بات کا علم ہونے کے، ایسی زمین، اشیاء وغیرہ خریدتا ہے جو چوری کی گئی ہوں تو اس کو تین مہینے سے دو سال تک کی قید کی سزا اور یہ کہ وہ متاثرہ شخص کا ازالہ compensate)) بھی کرے۔
5۔ جو شخص اسلامی ریاست کو توڑنے کے لئے یا کسی اور مقصد سے وطنیت (عصبية) ک یدعوت دیتا ہے یااس کوپھیلاتا ہے تواس کوجرمکینوعیت (intensity) کے مطابق پانچ سال سے پچاس سال تک قید کی سزا ۔
4۔ مخالفات:
مخالفات شرع نےان سزاؤں کوکہا ہے جو امام یاخلیفہ کی نافرمانی کی وجہ سے عائد ہوتی ہیں۔ شرع نے مباح معاملات مثلاً ٹریفک کنٹرول جیسے ریاستی انتظامات وغیرہ میں خلیفہ کو مشاورت اور قابلیت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے اور قانون سازی کا اختیار دیا ہے۔ لہذٰا ان انتظامی قوانین کی خلاف ورزی خلیفہ کی نافرمانی ہی ہوگی۔ اسی طرح خلیفہ کے معاونین اور والی کی نافرمانی بھی خلیفہ کی اطاعت کی خلاف ورزی ہوگی۔ الله سبحانه وتعالى نےخلیفہ (سلطان) کی اطاعت کوفرض کہا ہے، فرمایا:
«يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا أَطِيعُوا ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا ٱلرَّسُولَ وَأُولِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْۖ»
"اے ایمان والوں، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول ﷺکی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں" (سورةالنساء 59)۔
یعنی اطاعت کروان کی جنہیں امت نےمنتخب کر کے صاحبِ امر بنایاہے۔
اسی طرح خلیفہ کے مقرر کیے ہوئے امیر کی اطاعت بھی فرض ہے، رسول اللهﷺنےفرمایا:۔
((من أطاعني فقد أطاع الله، ومن عصاني فقد عصى الله، ومن يطع الأمير فقد أطاعني، ومن يعص الأمير فقد عصاني))
"جس نےمیری اطاعت کی اس نےالله کی اطاعت کی،جس نےمیری نافرمانی کی اس نے الله کی نافرمانی کی۔ جس نےامیرکی اطاعت کی اس نےمیری اطاعت کی،جس نےامیرکی نافرمانی کی اس نےمیری نافرمانی کی" (بخاری)
البتہ اطاعت صرف معروف میں جائزہے یعنی کہ اگرخلیفہ یاامام کسی گناہ کاحکم دے تو اس صورت میں کوئی اطاعت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:۔
«إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوف»
"اطاعت صرف خیر کے کاموں میں ہے" (صحيح بخاری 7145)
اس سے واضح ہوا کہ امیر کی نافرمانی گناہ ہے، لیکن چونکہ شرع نے اس جرم کی سزا مقرر نہیں کی لہٰذا اسلامی ریاست کا قاضی ایسے کسی جرم کی سزا عائد کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے فقہاء نے ان سزاؤں کو الگ سے نہیں بلکہ تعزیر میں ہی شامل کیا ہے۔ لیکن زیادہ صحیح رائے یہی ہے کہ مخالفات اورتعزیرالگ قسم کی سزائیں ہیں: تعزیران سزاؤں کوکہا گیا جوبراہ راست الله سبحانه وتعالى کےاحکامات کی خلاف ورزی کےنتیجےمیں عائدہوتی ہیں جبکہ مخالفات وہ سزائیں ہیں جوحکمران کی نافرمانی کی وجہ سےعائد ہوتی ہیں۔
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ خلیفہ کا کسی حکم کو نافذ کرنا خالص احکام شریعت کی تبنی ہے نہ کہ اپنی طرف سے کوئی حکم لگانا اور جہاں شرع نے خلیفہ کو اختیار دیا ہے وہاں بھی خلیفہ کسی حکم شرعی کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ جہاں تک مباح معاملات جیسے بیت المال کے تحفظ کے لیے اقدامات، شہروں کی تعمیر، اور افواج کی درجہ بندی وغیرہ کا تعلق ہے تو ان کے لئے شرع نے خلیفہ کو حکم لگانے کا اختیار دیا ہے۔ نبیکریم ﷺ نے کچھ اصحاب کوکھجوروںمیں گابھہ لگانے سے متعلق اپنی رائے پیش کی لیکن پھر فرمایا،
«أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ»
"تم اپنے دنیا کے معاملا ت کو زیادہ جاننے والے ہو" (صحیح مسلم 6128)۔
یعنی ان مباح معاملات میں جہاں دنیاوی ہنر کی ضروری ہوتی ہے انسان خود اپنی عقل سے فیصلہ کرسکتا ہے۔ اسی طرح انتظامات (administration) سے متعلق خلیفہ قوانین کی تبنی کر سکتا ہے اور ان معاملات کے لئے سزائیں بھی مقرر کرسکتا ہے۔
مزید ...