Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

.اسلامی ریاست : دوغلی شہریت ، دوغلی وفاداریوں کی نفی اور بین الاقوامی معاہدات کی پابندی



قرآن  ”دستوری و سیاسی ولایت“ کو اسلامی ریاست کے ارضی حدود تک محدود کردیتا ہے، اور ان حدود سے باہر کے مسلمانوں کو اس مخصوص رشتہ سے خارج قرار دیتا ہے۔ (قرآن  8:72)

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهَاجَرُوۡا وَجَاهَدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالَّذِيۡنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰۤئِكَ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ‌ؕ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمۡ يُهَاجِرُوۡا مَا لَـكُمۡ مِّنۡ وَّلَايَتِهِمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ حَتّٰى يُهَاجِرُوۡا‌ ۚ وَاِنِ اسۡتَـنۡصَرُوۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ فَعَلَيۡكُمُ النَّصۡرُ اِلَّا عَلٰى قَوۡمٍۢ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهُمۡ مِّيۡثَاقٌ ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 8 الأنفال, آیت نمبر 72)
ترجمہ:
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے ، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگرہجرت کر کے (دارالاسلام میں) آنہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آجائیں۔ ہاں اگر وہ دین کےمعاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے دیکھتا ہے-
Indeed, those who have believed and emigrated and fought with their wealth and lives in the cause of Allah and those who gave shelter and aided - they are allies of one another. But those who believed and did not emigrate - for you there is no guardianship of them until they emigrate. And if they seek help of you for the religion, then you must help, except against a people between yourselves and whom is a treaty. And Allah is Seeing of what you do. [Quran 8:72] ... See explanation at end of this page ....
تفسیر:

اسلام کے دستوری قانون کی ایک اہم دفعہ آیت ( 8:72)  ہے۔ اس میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ ”ولایت“ کا تعلق صرف ان مسلمانوں کے درمیان ہوگا جو یا تو دارالاسلام کے باشندے ہوں، یا اگر باہر سے آئیں تو ہجرت کر کے آجائیں۔  ”ولایت“ کا لفظ عربی زبان میں حمایت، نصرت، مددگاری، پشتیبانی، دوستی قرابت، سرپرستی اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جاتا ہے۔
باقی رہے وہ مسلمان جو اسلامی ریاست کے حدود ارضی سے باہر ہوں، تو ان کے ساتھ مذہبی اخوت تو ضرور قائم رہے گی، لیکن ”ولایت“ کا تعلق نہ ہوگا،اور 
اسی طرح ان مسلمانوں سے بھی یہ تعلق ولایت نہ رہے گا جو ہجرت کر کے نہ آئیں بلکہ دارالکفر کی رعایا ہونے کی حیثیت سے دارالاسلام میں آئیں۔
”ولایت“ کا لفظ عربی زبان میں حمایت، نصرت، مددگاری، پشتیبانی، دوستی قرابت، سرپرستی اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جاتا ہے۔
 اور اس آیت( 8:72)  کے سیاق وسباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو:
 ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے، اور ----
شہریوں کا اپنی ریاست سے، اور ----
خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے۔

پس یہ آیت( 8:72)  ”دستوری و سیاسی ولایت“ کو اسلامی ریاست کے ارضی حدود تک محدود کردیتی ہے، اور ان حدود سے باہر کے مسلمانوں کو اس مخصوص رشتہ سے خارج قرار دیتی ہے۔
[ایرانی ولایت فقیہ کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے اپنی حثیت کا خود تعین کر سکتے ہیں ]

اس عدم ولایت کے قانونی نتائج بہت وسیع ہیں جن کی تفضیلات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے۔

مثال کے طور پر صرف اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ،

1۔اسی عدم ولایت کی بنا پر دارالکفر اور دارالا سلام کے مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے،
2۔ ایک دوسرے کے قانونی ولی (Guardian) نہیں بن سکتے،
3۔ باہم شادی بیاہ نہیں کرسکتے، اور
4۔ اسلامی حکومت کسی ایسے مسلمان کو اپنے ہاں ذمہ داری کا منصب نہیں دے سکتی جس نے دارالکفر سے شہریت کا تعلق نہ توڑا ہو۔

علاوہ بریں یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ 

اس آیت ( 8:72)  کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔

 یہی وہ بات ہے جو نبی ﷺ نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ؛
انا بری من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔
”میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو“۔
 اس طرح اسلامی قانون نے اس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔
 کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑجاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔
 
دارالاسلام سے باہر رہنے والے مسلمانوں کو ”سیاسی ولایت“ کے رشتہ سے خارج قرار دیا گیا تھا۔

مظلوم مسلمانوں کی مدد ، معاہدات کے  احترام سے مشروط

اب یہ آیت اس امر کی توضیح کرتی ہے کہ اس رشتہ سے خارج ہونے کے باوجود وہ ”دینی اخوت“ کے رشتہ سے خارج نہیں ہیں۔ اگر کہیں ان پر ظلم ہو رہا ہو اور وہ اسلامی برادری کے تعلق کی بنا پر دارالاسلام کی حکومت اور اس کے باشندوں سے مدد مانگیں تو ان کا فرض ہے کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کی مدد کریں۔
لیکن اس کے بعد مزید توضیح کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جاسکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دارالاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جاسکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔
 
آیت میں معاہدہ کے لیے ”میثاق“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا مادہ ”وثوق“ ہے جو عربی زبان کی طرح اردو زبان میں بھی بھروسے اور اعتماد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ میثاق ہر اس چیز کو کہیں گے جس کی بنا پر کوئی قوم بطریق معروف یہ اعتماد کرنے میں حق بجانب ہو کہ ہمارے اور اس کے درمیان جنگ نہیں ہے، قطع نظر اس سے کہ ہمارا اس کے ساتھ صریح طور پر عدم محاربہ کا عہد و پیمان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ 

پھر آیت میں بینکم و بینھم میثاق کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں، یعنی ”تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو“۔ اس سے یہ صاف مترشح ہوتا ہے کہ دارالاسلام کی حکومت نے جو معاہدانہ تعلقات کسی غیر مسلم حکومت سے قائم کیے ہوں وہ صرف دو حکومتوں کے تعلقات ہی نہیں ہیں بلکہ دو قوموں کے تعلقات بھی ہیں اور ان کی اخلاق ذمہ داریوں میں مسلمان حکومت کے ساتھ مسلمان قوم اور اس کے افراد بھی شریک ہیں۔

[موجودہ دور میں اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط ، مختلف ممالک سے  دو طرفہ عدم مداخلت کے معاہدات معاہدات ، سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کی تصدیق ، عمل درآمد وغیرہ میثاق میں شامل ہیں ]

 اسلامی شریعت اس بات کو قطعاً جائز نہیں رکھتی کہ مسلم حکومت جو معاملات کسی ملک یا قوم سے طے کرے ان کی اخلاقی ذمہ داریون سے مسلمان قوم یا اس کے افراد سبک دوش رہیں۔

 البتہ حکومت دارالاسلام کے معاہدات کی پابندیاں صرف ان مسلمانوں پر ہی عائد ہوں گی جو اس حکومت کے دائرہ عمل میں رہتے ہوں اس دائرے سے باہر دنیا کے باقی مسلمان کسی طرح بھی ان ذمہ داریوں میں شریک نہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیبیہ میں جو صلح نبی ﷺ نے کفار مکہ سے کی تھی اس کی بنا پر کوئی پابندی حضرت ابوبصیر اور ابوجندل اور ان دوسرے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوئی جو دارالاسلام کی رعایا نہ تھے۔ (ماخوز - تفہیم القرآن )
..............
تفسیر - عبدلرحمان کیلانی 
 ولی کا مفہوم۔۔ مواخات اور وراثت :۔ ولی کا لفظ عربی لغت میں بہت وسیع المعنی ہے اور اس کے معنی دوست، حمایتی، مددگار، سرپرست، وارث، پشتیبان اور قریبی رشتہ دار سب معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد عموماً ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی کی موت یا مصیبت کے وقت مدد یا دیت کی ادائیگی یا وراثت کے لحاظ سے سب سے قریب تر ہو۔ ان آیات میں دارالاسلام اور دارالحرب میں رہنے والے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کے متعلق احکام بیان کیے جا رہے ہیں۔
سورة انفال کی آخری چار آیات میں دارالاسلام کے مسلمانوں کے آپس میں تعلقات بیرونی مسلمانوں سے تعلقات اور حکومتوں کے باہمی معاہدات سے احکام دیئے گئے ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ 
دارالحرب اور دارالاسلام میں رہنے والے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی مختلف صورتیں اور اسلام کی خارجہ پالیسی :۔
 ١۔ انصار اور مہاجرین جو مدینہ آ چکے ہیں۔ یہ سب مواخات کی رو سے، ایک دوسرے کے ولی بھی ہیں اور وارث بھی جیسا کہ سورة نساء کی آیت نمبر ٣٣ سے بھی واضح ہوتا ہے۔ 
٢۔ اور جو مسلمان ہجرت کر کے مدینہ نہیں پہنچے۔ وہ نہ تمہارے ولی یا وارث ہیں اور نہ تم ان کے ولی یا وارث ہوسکتے ہو تاآنکہ وہ ہجرت کر کے تمہارے پاس نہ پہنچ جائیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دارالحرب میں رہنے والا مسلمان دارالاسلام میں رہنے والے مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا اور اس کے برعکس بھی۔ جیسا کہ ایک مسلمان کافر کا یا کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔ 
٣۔ دارالاسلام میں رہنے والے مسلمانوں یا ان کی حکومت پر دارالحرب میں رہنے والے مسلمانوں سے متعلق کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اس حکم کے مطابق ان تمام بین الاقوامی تنازعات کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ جہاں کوئی حکومت کسی دوسری حکومت میں بسنے والی اقلیت کی ذمہ داریاں اپنے سر لیتی ہے۔ 
٤۔ اگر دارالحرب میں بسنے والے مسلمانوں پر زیادتی اور ظلم روا رکھا جا رہا ہو اور وہ دارالاسلام کے مسلمانوں یا ان کی حکومت سے اس کے مقابلہ میں مدد طلب کریں تو دارالاسلام کے مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہوجاتا ہے۔

 ٥۔ اور اگر مدد طلب کرنے والے مسلمان کسی ایسے ملک میں بستے ہوں۔ جس کا اسلامی حکومت سے معاہدہ امن و آشتی طے پا چکا ہو تو اس صورت میں مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے بین الاقوامی معاہدہ کا پاس رکھنا زیادہ ضروری ہے اور مسلمانوں کی مدد مانگنے کے باوجود ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔ 

٦۔ البتہ ایسے مسلمان جو اس معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت کی حدود سے باہر رہتے ہیں۔ وہ اس اضافی پابندی کے ذمہ دار نہیں۔ وہ چاہیں تو ایسے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرسکتے ہیں اور جس طرح چاہیں کرسکتے ہیں۔ معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت ان کے بارے میں مسؤل نہیں ہوگی۔ ..
#Quran #Islam #Muslims
----------

Islamic State - Muslims in Non Muslim States and adherence to International Convents:

Indeed, those who have believed and emigrated and fought with their wealth and lives in the cause of Allah and those who gave shelter and aided - they are allies of one another. But those who believed and did not emigrate - for you there is no guardianship of them until they emigrate. And if they seek help of you for the religion, then you must help, except against a people between yourselves and whom is a treaty. And Allah is Seeing of what you do. [Quran 8:72] 
The above verse is an important provision in Islamic constitutional law. For it prescribes that any agreement on guardianship would be applicable exclusively to Muslims who are either the original inhabitants of the territory which has become Dar al-Islam (the Domain of Islam) or Muslims who have migrated to the Dar al-Islam. As to Muslims living outside the jurisdiction of the Islamic state, the bond of religious brotherhood would doubtlessly exist between them and Muslim residents of the Islamic state. The two groups, however, would not have the relationship of walayah (mutual alliance). Likewise, a walayah relationship would not exist between Muslims who do not migrate to Dar al-Islam but come to it as Muslim subjects of a non-Muslim state. The Arabic word walayah denotes the relationship of kinship, support, succour, protection, friendship, and guardianship. In the context of the present verse the word signifies the relationship of mutual support between the Islamic state and its citizens, and between the citizens themselves. Thus, this verse lays down that in a political and constitutional sense, only those Muslims who live within the territorial boundaries of the Islamic state will enjoy the privileges of walayah (guardianship) of the Islamic state. As for Muslims who are settled in a non-Islamic state, they are excluded from its political and constitutional guardianship. It is difficult to spell out in detail the implications of this rule. Just to give some idea of it. it should be pointed out that because they lack guardianship the Muslims of Dar al-Kufr (the Domain of Unbelief) cannot inherit the property of a deceased Muslim in the Islamic state. Nor may they act as guardians of Muslim citizens of an Islamic state. Nor is it lawful for a matrimonial contract to be made between Muslims, one of whom is living in an Islamic state and the other outside of it. Likewise, the Islamic state may not appoint to an office of authority those who have not surrendered their citizenship of the non-Islamic state. Above all, these provisions of Islamic law determine the foreign policy of the Islamic state. (Cf. Ibn Qudimah, al-Mughni, vol. 8, pp. 456-8 - Ed.) Since this clause restricts the role and control of the Islamic state over Muslims living within that state, the Islamic state is not obliged to look after the Muslims outside its domain. The following tradition embodies this point: 'I am acquit of every Muslim living among the polytheists.' (Abu Da'ud. 'Jihad', 'Bab al-Nahy'an, 'katl man i'tasama bi al-Sujud - Ed.) Islamic law, therefore, strikes at the root cause of the conflict which bedevils the relationship between different nations. For, whenever a state tries to champion the cause of the minority living outside its territory, it gives rise to intricate problems which cannot be resolved even by a succession of wars. 51. The above verse makes it clear that the Muslims living outside the Islamic state have no political bond with the Islamic state. This verse, however, does emphasize that those Muslims are not free of the bond of religious brotherhood. If Muslims living in a non-Islamic state are persecuted and seek help from the Islamic state or its citizens, it is incumbent upon the latter to help the persecuted Muslims. While helping one's brethren-in-faith the Muslims are expected to act scrupulously. This help should be rendered without iritermitional oblioations and with due regard to the requirements of rnoral propriety. If the Islamic state happens to be bound in a treaty relationship with a nation which inflicts wrong on Muslims, the oppressed Muslims will not be helped in a manner which is inconsistent with the moral obligations incumbent on the Islamic state as a result of that treaty . The Qur'an uses the word mithaq for treaty. This expression is a derivative of an Arahic word which stands for trust and confidence. The expression, therefore, implies that the two parties trust each other, that there is no difference between-them irrespective of whether a no-war agreement has been formally, concluded or not. The actual words of the verse "bainakum wa bainahum mithaq" ('[unless there be] a pact between you and them') make it plain that the treaty concluded by the Islamic state with a non-Muslim state does not merely bind the two governments. The moral obligations arising from that treaty are binding upon the Muslim nation as a whole including its individuals not to violate the obligations of the treaty into which an Islamic state has entered with some other state. However, it is only the Muslims of the Islamic state who are bound by the agreement signed by the Islamic state. Muslims living outside the Islamic state have no such obligations. This accounts for the fact that Abu Basir and Abu Jandal were not bound by the Hudaybiyah treaty concluded between the Prophet (peace he on him) and the Makkan unbelievers. ...  [Tafheem ul Quran]
 

🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~

Popular Books