Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

TRADE,BUSINESS کاروبار تجارت




وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ  فِی الۡاَرۡضِ  اِلَّا عَلَی اللّٰہِ  رِزۡقُہَا وَ یَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّہَا وَ مُسۡتَوۡدَعَہَا ؕ کُلٌّ  فِیۡ  کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۶﴾
زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالٰی پر ہیں  وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے  کی جگہ کو بھی ،  سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے ۔  [سورة هود 11  آیت: 6]
 And there is no creature on earth but that upon Allah is its provision, and He knows its place of dwelling and place of storage. All is in a clear register. [ Surat Hood: 11 Verse: 6]
تجارت کے رہنما اصول  :
  1. .رزق الله کے اختیار میں (11:6)
  2. رزق کی کمی بیشی الله کی طرف سے (17:30)
  3. رزق، دولت  میں بعض کو فضیلت (16:71)
  4. ناجائز کاروباراور رشوت کی ممانعت (2:188 )
  5. پورا ناپ تول (11:85, 17:35)
  6. ذخیرہ اندوزی کی ممانعت (,70:15,16,17)
  7. الله کا نفع (11:86)
  8. نفع نقصان الله کے اختیار میں (10:49)
  9. سود ممانعت (2:279, 2:278, 4:161)


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا ﴿۲۹﴾
اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ، مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خرید وفروخت، اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو  یقیناً اللہ تعالٰی تم پر نہایت مہربان ہے ۔  [سورة النساء 4  آیت: 29]

 O you who have believed, do not consume one another's wealth unjustly but only [in lawful] business by mutual consent. And do not kill yourselves [or one another]. Indeed, Allah is to you ever Merciful. [ Surat un Nissa: 4 Verse: 29]

باطل طریقے کون کون سے ہیں ؟
 باطل طریقوں سے مراد ہر وہ ذریعہ آمدنی ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہو۔ اور اس کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً :
١۔ ہر وہ کام جس سے دوسرے کا مالی نقصان ہو جیسے چوری، ڈاکہ، غصب، غبن وغیرہ۔
٢۔ سود اور اس کی تمام شکلیں، خواہ یہ سود مفرد ہو، مرکب ہو، ڈسکاؤنٹ ہو، مارک اپ اور مارک ڈاؤن ہو یا خواہ یہ ذاتی قرضے کا سود ہو اور خواہ یہ ربا النسیئہ (مدت کے عوض سود) ہو یا ربا الفضل (ایک ہی جنس میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ) ہو۔
٣۔ ہر ایسا کام جس میں تھوڑی سی محنت سے کثیر مال ہاتھ آتا ہو۔ جیسے جوا، لاٹری اور سٹہ بازی وغیرہ اور بعض حالتوں میں بیمہ پالیسی۔ ٤۔ اندھے سودے یا قسمت کے سودے جن میں صرف ایک ہی عوض مقرر ہوتا ہے دوسرا نہیں ہوتا۔ (عوضین یہ ہے کہ مثلاً ایک کتاب کی قیمت سو روپے ہے تو کتاب کا عوض سو روپے اور سو روپے کا عوض کتاب) جیسے غوطہ خور سے ایک غوطہ کی قیمت مقرر کرنا، بیع ملامسہ، منابذہ۔ بچوں کے کھیل کہ جس چیز پر بچے کا نشانہ لگے وہ اتنی قیمت میں اس کی۔ 
٥۔ ہر وہ لین دین جس میں کسی ایک فریق کا فائدہ یقینی ہو دوسرے کو خواہ فائدہ ہو یا نقصان جیسے سود اور ایسے تمام سودے اور معاملات جن میں یہ شرط پائی جاتی ہو۔
٦۔ ایسے سودے جو محض تخمینہ سے طے کیے جائیں اور ان میں دھوکہ کا احتمال موجود ہو جیسے کسی ڈھیر کا بالمقطع سودا کرنا یا مال خرید کر قبضہ کیے بغیر آگے چلا دینا یا غیر موجود مال کا سودا کرنا اور باغات وغیرہ کے پیشگی سودے (ان میں بیع سلم اور بیع عرایا کی رخصت ہے جو چھوٹے پیمانہ پر ہوتی ہے اور غریبوں کی سہولت کے لیے جائز کی گئی ہے۔ ) 
٧۔ وہ بیع جس میں مشتری دھوکہ دینے کی کوشش کرے مثلاً عیب چھپانا، جانور کا دودھ روک کر بیچنا، ناپ تول میں کمی بیشی کر جانا، دوسرے کو پھنسانے کے لیے بولی چڑھانا وغیرہ۔
٨۔ جو اشیاء حرام ہیں ان کی خریدو فروخت جیسے شراب کی سوداگری یا ان اشیاء کی جو شراب خانے میں استعمال ہوتی ہیں، مردار کا گوشت، تصویریں اور مجسمے، فحاشی پر مشتمل کتابیں اور تصویریں، کسی حرام کاروبار کے لیے دکان یا مکان کرایہ پر دینا، کاہن کی کمائی، فاحشہ کی کمائی، کتے کی قیمت وغیرہ۔ 
٩۔ حکومت کے ذریعہ دوسروں کے مال بٹورنا مثلاً لین دین کے جھوٹے مقدمات اور رشوت وغیرہ یا حکومت کا لوگوں کی زمین پر قبضہ کر کے ان کو اپنی مرضی کے مطابق لین دین پر مجبور کرنا۔ جیسے حکومت کے محکمہ ہائے ایل ڈی اے، کے ڈی اے وغیرہ دوسرے لوگوں کی زمینیں ان کی رضامندی کے بغیر حاصل (AQUIRE) کرلیتے ہیں۔ 
١٠۔ کتاب اللہ میں تحریف و تاویل اور غلط فتو وں سے مال بٹورنا اور یہ کام بالخصوص علماء سے مختص ہے۔ 
اب اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :
 ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ بائع اور مشتری صرف اسی حال میں جدا ہوں کہ وہ ایک دوسرے سے راضی ہوں۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب البیعان بالخیار مالم یتفرقا)
٢۔ آپ نے فرمایا بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں سودے کو پورا کرنے یا فسخ کرنے کا اس وقت تک اختیار رکھتے ہیں جب تک وہ جدا نہ ہوں سوائے بیع خیار کے (جس میں معین مدت کے اندر سودا فسخ کرنے کی شرط ہوتی ہے۔ ) (بخاری، کتاب البیوع، باب البیعان بالخیار مالم یتفرقا)
 ٣۔ ابو امامہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مار لیتا ہے اللہ اس کے لیے دوزخ واجب کردیتا ہے اور جنت اس کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ کسی نے آپ سے پوچھا اگرچہ یہ حق تلفی بالکل معمولی قسم کی ہو ؟ فرمایا اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو۔ (مسلم بحوالہ فقہ السنہ جلد ٢ صفحہ ١٤٩)
٤۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ عزوجل چار قسم کے آدمیوں سے دشمنی رکھتا ہے۔ ایک وہ جو قسمیں کھا کر سودا بازی کرتا ہو، دوسرے محتاج جو اکڑ باز ہو۔ تیسرے بوڑھے زانی سے اور چوتھے ظلم کرنے والے حاکم سے۔ (نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب الفقیر المحتال) ٥۔ سیدنا ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون ہیں ؟ وہ تو نامراد ہوگئے اور خسارہ میں رہے۔ فرمایا۔ ایک تہبند (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے والا۔ دوسرا احسان جتلانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچنے والا۔ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب غلظ تحریم تنفیق السلعۃ بالحلف)
٦۔ آپ نے فرمایا اے تاجروں کے گروہ ! سودے بازی میں بےہودہ باتیں اور قسمیں شامل ہوجاتی ہیں لہذا تم ان کے ساتھ صدقہ بھی ملا لیا کرو۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی التجار۔ نسائی، کتاب البیوع باب الحلف الواجب) 
٧۔ ناپ تول میں کمی سے متعلق آپ نے فرمایا بلاشبہ تم دو ایسے کاموں کے والی بنائے گئے ہو کہ تم سے پہلے کی قومیں اسی جرم کی پاداش میں ہلاک ہوئیں۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب فی المکیال والمیزان)
٨۔ ایک دفعہ آپ بازار تشریف لے گئے وہاں ایک تولنے والا کوئی جنس تول رہا تھا اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا تول اور کچھ جھکتا تول۔ (نسائی، کتاب البیوع، باب الرجحان فی الوزن)
 ٩۔ سیدنا عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ یہود کو غارت کرے، ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے پگھلایا پھر بیچ ڈالا۔ ، (بخاری، کتاب البیوع باب لایذاب شحم المیتۃ) 
١٠۔ جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بلاشبہ اللہ نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی سوداگری کو حرام کیا ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع المیتۃ والاصنام) 
١١۔ ابو مسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے کتے کی قیمت، فاحشہ کی کمائی اور نجومی کی اجرت سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب ثمن الکلب) 
١٢۔ سیدنا ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ نے فرمایا میں بھی ایک آدمی ہوں۔ تم میرے سامنے جھگڑا لیے آتے ہو۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی دلیل دوسرے فریق کی نسبت اچھی طرح بیان کرتا ہے اور میں جو سنتا ہوں اس پر فیصلہ کردیتا ہوں۔ پھر اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا حق دلا دوں تو وہ ہرگز نہ لے۔ میں اسے دوزخ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں۔ (بخاری، کتاب الحیل، باب بلاعنوان۔ بخاری، کتاب الاحکام، باب من قضی لہ من حق اخیہ فلا یا خذہ) 
١٣۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ جو شخص تصویریں بناتا ہے، قیامت کے دن اللہ اسے کہے گا کہ اب اس میں جان بھی ڈال اور وہ یہ کام کبھی نہ کرسکے گا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع التصاویر التی لیس فیہا الروح)
 ١٤۔ آپ نے فرمایا۔ بازار میں غلہ لانے والے کو رزق ملتا ہے اور ذخیرہ اندوز ملعون ہے۔ (ابن ماجہ، دارمی بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب الاحتکار، فصل ثانی)
١٥۔ واثلہ بن الاسقع کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا کہ جس شخص نے اپنی عیب دار چیز عیب بتائے بغیر بیچی وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہے گا اور فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔ (ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب المنہی عنہا من البیوع۔ فصل ثالث)
١٦۔ آپ نے فرمایا۔ بائع اور مشتری دونوں جب تک جدا نہ ہوں، مختار ہیں۔ پھر اگر انہوں نے سچ بولا اور صاف گوئی سے کام لیا تو ان کے سودے میں برکت دی جاتی ہے۔ اور وہ عیب وغیرہ چھپا گئے اور جھوٹ بولا تو ان کے سودے سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب اذابین البیعان نیز باب مایمحق الکذب والکتمان فی البیع)
١٧۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دفعہ) آپ کا ایک غلہ کے ڈھیر پر گزر ہوا۔ آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا تو انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپ نے پوچھا اے غلہ والے ! یہ کیا ؟ وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بارش ہوگئی تھی۔ آپ نے فرمایا تو تو نے (اس نمدار غلے کو) ڈھیر کے اوپر کیوں نہ کیا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔ پھر فرمایا جس نے دھوکا دیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبی من غشنا فلیس منا )
١٨۔ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اونٹنی یا بکری خریدے جس کا دودھ بڑھایا گیا ہو تو دودھ دوہنے کے بعد خریدنے والے کو دو باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے۔ چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو واپس کر دے اور ایک صاع کھجور بھی اس کے ساتھ دے۔ (مسلم، کتاب البیوع۔ باب حکم بیع المصراۃ) 
١٩۔ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ اختیار تین دن تک ہے۔ (حوالہ ایضاً )
 ٢٠۔ سیدنا جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے محاقلہ (کھیتی پکنے سے پہلے سود اچکا لینے) سے اور مزابنۃ (کھجور، انگور پکنے سے پہلے خشک کھجور یا انگور کا سودا چکا لینے) سے اور مخابرہ (زمین کو بٹائی پر دینا۔ جس کی بعد میں اجازت دے دی گئی) سے اور معاومہ (بیع سنین یعنی چند سالوں کی فصل کا پیشگی سودا چکا لینے) سے اور ثنیا (سودا چکاتے وقت چند درختوں یا کھیتی کا کچھ حصہ مستثنیٰ کرلینے) سے منع فرمایا اور بیع عرایا (چھوٹے پیمانے پر بیع مزابنۃ جس میں غریبوں کی ضرورت کا لحاظ رکھا گیا ہے، کی اجازت دی۔ (بخاری، کتاب المساقات، باب الرجل یکون لہ ممرٌّ او شرب فی الحائط، مسلم، کتاب البیوع۔ باب النہی عن المحاقلۃ) اور عرایا میں جو رخصت ہے وہ پانچ وسق (اندازاً بیس من) تک ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم الرطب بالتمر الا فی العرایا) 
٢١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں لوگ حبل الحبلہ تک اونٹ کے گوشت کی سودا بازی کرتے اور حبل الحبلہ یہ ہے کہ اونٹنی جنے پھر اس کا بچہ حاملہ ہو اور وہ جنے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قسم کی بیع سے منع فرما دیا۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الحبل الحبلۃ۔۔ بخاری کتاب البیوع، عنوان باب) ٢٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے ادھار کی ادھار سے (یعنی دونون طرف ادھار) بیع کرنے سے منع فرمایا (دار قطنی بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب البیوع۔ باب المنہی عنہا من البیوع۔ فصل ثانی )
٢٣۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے بیع الحصاۃ (کنکریاں پھینکنے کی بیع) اور دھوکے کی بیع سے منع فرمایا (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع الغرر۔۔ مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان بیع الحصاۃ والبیع الذی فیہ غرر)
٢٤۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں دو قسم کی بیع سے منع کیا گیا ایک ملامسہ اور دوسری منابذہ اور ملامسہ یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک بلا سوچے سمجھے دوسرے کا کپڑا چھوئے اور منابذہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنا کپڑا دوسرے کی طرف پھینک دے۔ اور کوئی دوسرے کا کپڑا نہ دیکھے (اور اس طرح یہ بیع لازم ہوجائے) (بخاری، کتاب البیوع، باب الملامسۃ والمنابذۃ۔۔ مسلم۔ کتاب البیوع۔ باب ابطال بیع الملامستہ والمنابذۃ) 
٢٥۔ سیدنا ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ فرماتے ہیں کہ آپ نے بیع نجش (بائع کی طرف سے مقررہ لوگ جو خریدار کو زیادہ قیمت ادا کرنے پر راغب کرسکیں۔ نیز چڑھی کی بولی) سے منع فرمایا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب النجش)
٢٦۔ سیدنا علی (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے لاچار آدمی کی سودا بازی سے فائدہ اٹھانے سے اور دھوکہ کی بیع سے اور پھلوں کے پکنے سے پہلے ان کی سودا بازی سے منع فرمایا۔ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب ماجاء فی بیع المضطر)
٢٧۔ سیدنا عمرو بن شعیبص اپنے باپ سے اپنے دادے سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں بیع عربان (بیعانہ کی ضبطی والے سودے) سے منع فرمایا۔ (مؤطا، کتاب البیوع، باب بیع العربان) 
٢٨۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو لوگ پھلوں کے ایک یا دو یا تین سال کے لیے پیشگی سودے کرلیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا جو کوئی کسی چیز کا پیشگی سودا کرے تو اسے چاہیے کہ مقررہ ناپ میں، مقررہ وزن میں اور مقررہ مدت تک سودا کرے (بخاری، کتاب السلم، باب السلم فی کیل معلوم۔۔ مسلم، کتاب المساقات، باب السلم)
٢٩۔ آپ نے فرمایا جو شخص بیع سلم کرے تو مال پر قبضہ کرنے سے پہلے کسی دوسرے کی طرف یہ سودا منتقل نہ کرے۔ (ابو داؤد۔ کتاب الاجارۃ، باب السلف لایحول)
اب ہم مختلف عنوانات کے تحت احادیث درج کرتے ہیں :
 (١) شرح منافع : محمد بن سیرین (تابعی فرماتے ہیں کہ دس کا مال گیارہ میں بیچنے میں کوئی قباحت نہیں اور جو خرچہ اس پر پڑا ہے اس پر بھی یہی منافع لے سکتا ہے (بخاری، کتاب البیوع، باب من اجری امرالامصار علی مایتعارفون)
(٢) واحد کلام : سیدنا قیلہ (رض) ام انمار کہتی ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں خریدو فروخت کیا کرتی ہوں اور جو چیز مجھے خریدنا ہوتی ہے اس کے کم دام لگاتی ہوں۔ پھر دام بڑھاتے بڑھاتے اس قیمت پر آجاتی ہوں جو میرا مقصود ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی چیز بیچنا ہو تو زیادہ دام کہتی ہوں اور پھر کم کرتے کرتے اپنے مقصود پر آجاتی ہوں۔ آپ نے فرمایا قیلہص ! یہ کام اچھا نہیں۔ جو چیز جتنے کو بیچنا چاہتی ہو اتنے ہی دام کہہ دو ۔ لینے والا چاہے گا تو لے لے گا ورنہ نہیں اور جو چیز خریدو اس کی بھی ایک ہی قیمت کہہ دو ، دینے والا چاہے تو لے لے ورنہ نہ لے۔ (ابن ماجہ، ابو اب التجارات، باب السوم)
(٣) السابق فالسابق : سیدنا سمرہ بن جندب (رض) اور عقبہ صبن عامر دونوں کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب دو صاحب اختیار ایک ہی چیز خریدیں تو وہ چیز اس کی ہوگی جس نے پہلے خریدی (ابن ماجہ۔ کتاب البیوع۔ باب السابق فالسابق)
(٤) قیمت بتانا : آپ نے فرمایا : مال کی قیمت صاحب مال ہی لگانے کا زیادہ حقدار ہے (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب صاحب السلعۃ احق بالسوم) 
(٥) غائب چیز کا سودا : آپ نے فرمایا جس نے کوئی ایسی چیز خریدی جسے اس نے دیکھا نہ ہو تو دیکھنے کے بعد اسے اختیار ہے کہ وہ سودا بحال رکھے یا فسخ کر دے۔ (دار قطنی بیہقی بحوالہ فقہ السنہ ج ٢ ص ١٣٦) 
(٦) قیمت میں اختلاف : آپ نے فرمایا جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہوجائے اور ان میں کوئی شہادت یا ثبوت موجود نہ ہو تو اس شخص کی بات معتبر ہوگی جو مال کا مالک ہے یا پھر وہ سودا چھوڑ دیں (ترمذی ابو اب البیوع، باب اذا اختلف البیعان)
(٧) ناپ تول کی مزدوری بائع پر ہے : سیدنا عثمان (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تو بیچے تو ناپ کر دے اور خریدے تو ناپ کرلے۔ (بخاری، کتاب البیوع۔ باب الکیل علی البائع والمعطی) 
(٨) خرید کردہ مال کا تاوان : سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ بیع کے وقت جو مال موجود تھا (اگر مشتری اسے بائع کے پاس چھوڑ جائے) اور وہ تلف ہوجائے تو تاوان خریدار پر پڑے گا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب من اشتری متاعا اودابۃ فوضعہ عندالبائع) 
(٩) کج بحث جھگڑالو : سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ شخص کج بحث جھگڑالو ہے (جو خواہ مخواہ جھگڑے کا پہلو پیدا کرلیتا ہے۔ ) (بخاری، کتاب المظالم۔ باب قول اللہ و ھوالد الخصام)
(١٠) ہبہ کردہ چیز کو خریدنا : سیدنا عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک گھوڑا مجاہد کو دیا۔ اس نے وہ گھوڑا کمزور کردیا اور بازار میں فروخت کرنے کے لیے لے آیا۔ میں نے چاہا کہ اب یہ سستے داموں مل رہا ہے تو خرید لوں۔ میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا۔ اسے مت خریدنا خواہ وہ تجھے ایک درہم میں دے دے کیونکہ اپنے صدقہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹ جاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الہبہ، باب لایحل لاحدان یرجع فی ھبتہ و صدقتہ) 
(١١) غیر موجود چیز کا سودا : حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے ایسی چیز بیچنے سے منع فرما دیا، جو میرے پاس موجود نہ ہو۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی الکراھیۃ مالیس عندہ ) 
(١٢) راہ میں سودا نہ کیا جائے : سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا غلہ وغیرہ کے قافلوں کو آگے جا کر مت ملو۔ جو کوئی آگے جا کر مال خریدے اور بعد میں مال کا مالک منڈی میں آئے تو اسے سودا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم تلقی الجلب) 
(١٣) ناپ تول کے بغیر سودا نہ کیا جائے : سیدنا جابر (رض) کہتے ہیں کہ : آپ نے کھجور (یا کسی دوسرے غلہ) کے ڈھیر کی سودا بازی سے منع فرمایا جس کا اس کے معروف پیمانہ سے ناپ معلوم نہ ہو (مسلم۔ کتاب البیوع باب تحریم صبرالتمر) 
(١٤) قبضہ سے پہلے آگے سودا نہ کیا جائے : سیدنا ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ لوگ بازار کے بالائی حصہ میں سودا کرتے پھر وہیں بیچ دیتے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی مقام پر بیچنے سے منع فرمایا۔ یہاں تک کہ اس غلہ کو منتقل نہ کیا جائے (یعنی اپنے قبضہ میں نہ کرلیا جائے) بخاری کتاب البیوع، باب ما ذکر فی الاسواق۔۔ مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض) سیدنا عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جو لوگ بن ماپے تولے اناج کے ڈھیر خریدتے انہیں مار پڑتی تھی۔ اس لیے کہ جب تک وہ اپنے گھر نہ لے جائیں مال نہ بیچیں (بخاری کتاب البیوع، باب مایذکر فی بیع الطعام والحکرۃ) آپ نے فرمایا کہ جو شخص غلہ خریدے تو جب تک اس کے پورا ہونے کی تسلی نہ کرلے اسے فروخت نہ کرے۔ اور ابن عباس (رض) کی روایت میں ہے کہ جب تک اسے ناپ نہ لے (بخاری، کتاب البیوع، باب الکیل علی البائع والمعطی) 
(١٥) بائع اور مشتری کے درمیان تیسرا آدمی سودا نہ کرے : سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی کی بات کے درمیان منگنی کی بات کرے۔ ہاں اس کی اجازت سے ایسا کرسکتا ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الرجل علیٰ بیع اخیہ) 
(١٦) سودا خراب کرنا : سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کوئی مسلمان اپنے بھائی کے چکائے ہوئے سودے پر سودا نہ چکائے (یعنی زیادہ رقم کا لالچ دے کر سودا خراب نہ کرے۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الرجل علی بیع اخیہ و سومہ)
(١٧) قیمت کم کر کے دوسروں کو نقصان پہنچانا : سیدنا سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ سیدنا عمر (رض) بازار میں حاطب (رض) بن ابی بلتعہ کے پاس سے گزرے جو بازاری قیمت سے کم قیمت پر منقیٰ بیچ رہے تھے۔ آپ (رض) نے انہیں فرمایا یا تو نرخ زیادہ کرو یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔ (موطا، کتاب البیوع، باب الحکرۃ والتربص) تاہم بعض علماء کہتے ہیں کہ چیز کے مالک کو اپنی چیز کم داموں پر بیچنے کا اختیار ہے۔ (حوالہ ایضاً ) بشرطیکہ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔ 
(١٨) کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ظلم ہے : ابو حرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا خبردار ! ظلم نہ کرو، خبردار ! کسی کا مال دوسرے کے لیے اس کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں۔ (بیہقی، دارقطنی بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ۔ فصل ثانی) 
(١٩) قرض دینے کے بعد مقروض سے سودا بازی نہ کی جائے : 
(٢٠) جس مال پر قبضہ نہیں ہوا اس کا نفع جائز نہیں : سیدنا عمرو (رض) بن شعیب اپنے باپ سے، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (١) پیشگی دیا ہوا قرض اور بیع جائز نہیں (٢) ایک بیع میں دو صورتیں جائز نہیں (نقد قیمت کم ادھار زیادہ) (٣) جس مال پر قبضہ نہ ہوا ہو (نہ رقم ادا کی اس کا منافع مشتری کو) حلال نہیں (٤) اور جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا سودا نہ کرو۔ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ) 
(٢١) ملاوٹ والی چیز کو الگ کر کے بیچا جائے : فضالہ (رض) بن عبید کہتے ہیں کہ خیبر کے دن میں نے ایک ہار بارہ دینار میں خریدا۔ جس میں سونا اور نگینے تھے۔ میں نے انہیں الگ الگ کیا تو سونا ہی بارہ دینار سے زیادہ مالیت کا پایا۔ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ نے فرمایا کوئی چیز جب تک الگ الگ نہ کرلی جائے اس کی خریدو فروخت نہ کی جائے۔ (مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ باب الربا) 
(٢٢) چوری کے مال کی بیع : (١) آپ نے فرمایا۔ جس شخص نے اپنا مال بعینہ کسی کے پاس پا لیا وہ اس کا زیادہ حقدار ہے اور مسروقہ مال خریدنے والا اس شخص کو ڈھونڈے جس نے اس کے پاس مال بیچا تھا۔ (نسائی، ابو داؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی الرجل یجد عین مالہ عندر جل) (٢) نیز آپ نے فرمایا جس نے چوری کا مال خریدا اور وہ جانتا تھا کہ وہ چوری کا مال ہے تو وہ چوری کے گناہ اور اس کی سزا میں برابر کا شریک ہے۔ (بیہقی بحوالہ فقہ السنۃ ج ٣ ص ١٤٦)
(٢٣) سودا واپس موڑ لینا : عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا کہ بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں، مختار ہیں۔ الا یہ کہ خیار کی شرط کرلی جائے اور دونوں میں سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس خوف سے جلد جدا ہونے کی کوشش کرے کہ کہیں سودا واپس نہ ہوجائے۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب البیعان بالخیار) سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص سودا واپس موڑ لے (قیامت کے دن) اللہ اس کی لغزشیں واپس لے لے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الاجارۃ فی فضل الاقالۃ) 
(٢٤) مسجد میں خریدو فروخت کرنا : آپ نے فرمایا جب تم مسجد میں کسی کو کوئی چیز بیچتا یا خریدتا دیکھو تو اسے کہو۔ اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے۔ اور جب کسی کو مسجد میں کوئی گمشدہ چیز ڈھونڈتے دیکھو تو اسے کہو۔ اللہ کرے تمہیں وہ نہ ملے۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب النہی عن البیع فی المسجد) 
(٢٥) نمازوں کی اوقات میں خریدو فروخت : جمعہ کی اذان کے بعد لین دین یا دوسرے مشاغل حرام ہیں ( سورة جمعہ : ٩) یہی صورت عام نمازوں کے لیے بھی ہے۔ 
(٢٦) نیلام : سیدنا انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ بیچنا چاہا آپ نے پوچھا : کون یہ ٹاٹ اور پیالہ خریدتا ہے ؟ ایک شخص نے کہا : میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپ نے پوچھا : کوئی ایک درہم سے زیادہ دیتا ہے ؟ پھر ایک شخص نے ان چیزوں کے آپ کو دو درہم دیئے تو آپ نے یہ بیچ دیں۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی من یزید)
(٢٧) شراکت : سیدنا ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے۔ دو شریکوں کا تیسرا میں ہوتا ہوں جب تک کوئی ان میں سے خیانت نہ کرے۔ پھر جب ان میں سے کوئی خیانت کرتا ہے تو میں درمیان سے نکل جاتا ہوں۔ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب فی الشرکہ) ۔۔ اور رزین نے یہ اضافہ کیا اور (اللہ کی جگہ) شیطان آجاتا ہے (مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الشرکۃ والوکالۃ فصل ثالث)
بظاہر سود، جوا اور رشوت، ان تینوں میں باہمی رضامندی پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ رضامندی اضطراری ہوتی ہے مثلاً قرض لینے والے کو اگر قرض حسنہ مل سکتا ہو تو وہ کبھی سود پر قرضہ لینے پر آمادہ نہ ہوگا۔ جواری اس لیے رضامند ہوتا ہے کہ ہر ایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے۔ ورنہ اگر کسی کو ہارنے کا خطرہ ہو تو وہ کبھی جوا نہ کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہو کہ اسے رشوت دیئے بغیر بھی حق مل سکتا ہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ علاوہ ازیں سودے بازی میں اگر ایک فریق کی پوری رضامندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں اسے بیع خیار کہتے ہیں۔
 خود کشی کی حرمت :۔
اس جملہ کے تین مطلب ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ اسے سابقہ مضمون سے متعلق سمجھا جائے۔ اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ باطل طریقوں سے دوسروں کا مال ہضم کر کے اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ اور اگر اسے الگ جملہ سمجھا جائے تو پھر اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو یعنی قتل ناحق، جو حقوق العباد میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور قیامت کو حقوق العباد میں سب سے پہلے قتل ناحق کے مقدمات کا ہی فیصلہ ہوگا۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ خودکشی نہ کرو۔ کیونکہ انسان کی اپنی جان پر بھی اس کا اپنا تصرف ممنوع اور ودکشی گناہ کبیرہ ہے۔ چناچہ حسن بصری فرماتے ہیں کہ تم سے پہلے لوگوں میں سے کسی کو ایک پھوڑا نکلا۔ جب اسے تکلیف زیادہ ہوئی تو اس نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور پھوڑے کو چیر دیا۔ پھر اس سے خون بند نہ ہوا یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس پر جنت کو حرام کردیا۔ (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) حسن نے اپنا ہاتھ مسجد کی طرف بڑھایا اور کہا اللہ کی قسم مجھ سے یہ حدیث جندب (بن عبداللہ بجلی) نے بیان کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس مسجد میں۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ)[عبدالرحمان کیلانی]
.

اسلام نہ صرف روحانیت ہے اور نہ صرف مادیت؛ بلکہ دونوں کا حسین سنگم ہے۔ اسلام نے مادہ سے احتراز کی تاکید نہیں کہ ہے کہ انسان جوگ اور رہبانیت اختیار کرلے جیسا کہ ہندوازم ، بدھ ازم اور عیسائیت وغیرہ میں ہوا ، اور نہ انسانی معاشرہ کو مکمل طور پر مادیت کے حوالہ کیا گیا کہ انسان اپنی مادی خواہشات کے سامنے اپنی روحانی تقاضوں سے غافل ہو کر اپنی دنیا اور آخرت دونوں خراب کر لے، جیسا کہ آج کل مغرب کے ساتھ ہورہا ہے۔ اسلام نے انسان کی دنیوی زندگی فلاح و ترقی میں  مادیت کے کردار کو نہ صرف تسلیم کیا ہے؛بلکہ اسلامی نظام میں مادیت کو نہایت اعتدال و توازن کے ساتھ جگہ بھی دی ہے۔ اسلام نے کسبِ حلال کو اہم ترین فریضہ قرار دیا ہے اور تجارت، زراعت، صنعت اور ملازمت وغیرہ کے ذریعہ اپنی روزی خودکمانے کی تاکید کی ہے 

اسلامی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی اصول بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مال صرف مال داروں میں ہی گھومتا رہے، مال دار کا مال دن بدن بڑھتا رہے اور غریب روز بروز کنگال ہوتا جائے۔معاش کے سلسلے میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ سرمایہ کی گردش ہے۔ سرمایہ کی گردش اگر اس طرح ہو کہ وہ ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچتا رہے تو سب لوگ خوش حال ہوں گے اور اگر وہ صرف چند لوگوں کے درمیان گھومے تو خوش حالی بھی چند لوگوں کے حصے میں آئے گی اور بقیہ لوگ بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ سرمایہ کی گردش معاشرہ کے جتنے زیادہ افراد کے درمیان ہوگا...>>>>>>

ECONOMICS/ TRADE/ BUSINESS

  • be fair in dealings, 6:15217:35 
  • Contract Law
    • contract must be in writing, 2:282
    • during journey a person’s “word” is acceptable, 2:283
    • when things go wrong don’t punish scribe or witness, 2:282
    • witnesses told to be truthful, 2:2835:825:72
    • witnessing (two men, or one man and two women), 2:282
  • Corruption, 5:328:7330:41

Popular Books