دُنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے، حقیقت میں آخرت ہی کا مقام اُن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں، پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لوگے؟
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ مَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَهۡوٌ ؕ وَلَـلدَّارُ الۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ لِّـلَّذِيۡنَ يَتَّقُوۡنَؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ۞ (سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 32)
And the worldly life is not but amusement and diversion; but the home of the Hereafter is best for those who fear Allah , so will you not reason? (Quran 6:32) ....[......]
اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے اور یہ محض کھیل اور تماشے کے طور پر بنائی گئی ہے۔
دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کی مقابلہ میں یہ زندگی ایسی ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل اور تفریح میں دل بہلائے اور پھر اصل سنجیدہ کاروبار کی طرف واپس ہوجائے۔
نیز اسے کھیل اور تماشے سے تشبیہ اس لیے بھی دی گئی ہے کہ یہاں حقیقت کے مخفی ہونے کی وجہ سے بےبصیرت اور ظاہر پرست انسانوں کے لیے غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کے بہت سے اسباب موجود ہیں اور ان غلط فہمیوں میں پھنس کر لوگ حقیقت نفس الامری کے خلاف ایسے ایسے عجیب طرز عمل اختیار کرتے ہیں جن کی بدولت ان کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔
مثلاً جو شخص یہاں بادشاہ بن کر بیٹھتا ہے اس کی حیثیت حقیقت میں تھیئٹر کے اس مصنوعی بادشاہ سے مختلف نہیں ہوتی جو تاج پہن کر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اس طرح حکم چلاتا ہے گویا کہ وہ واقعی بادشا ہے۔ حالانکہ حقیقی بادشاہی کی اس کو ہوا تک نہیں لگی ہوتی۔ ڈائرکٹر کے ایک اشارے پر وہ معزول ہوجاتا ہے، قید کیا جاتا ہے اور اس کے قتل تک کا فیصلہ صادر ہوجاتا ہے۔
ایسے ہی تماشے اس دنیا میں ہر طرف ہو رہے ہیں۔
کہیں کسی ولی یا دیوی کے دربار سے حاجت روائیاں ہو رہی ہیں، حالانکہ وہاں حاجت روائی کی طاقت کا نام و نشان تک موجود نہیں۔ کہیں کوئی غیب دانی کے کمالات کا مظاہرہ کر رہا ہے، حالانکہ غیب کے علم کا وہاں شائبہ تک نہیں۔ کہیں کوئی لوگوں کا رزاق بنا ہوا ہے، حالانکہ بیچارہ خود اپنے رزق کے لیے کسی اور کا محتاج ہے۔
کہیں کوئی اپنے آپ کو عزت اور ذلت دینے والا، نفع اور نقصان پہنچانے والا سمجھے بیٹھا ہے اور یوں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجا رہا ہے گویا کہ وہی گردو پیش کی ساری مخلوق کا خدا ہے، حالانکہ بندگی کی ذلت کا داغ اس کی پیشانی پر لگا ہوا ہے اور قسمت کا ایک ذرا سا جھٹکا اسے کبریائی کے مقام سے گرا کر انہی لوگوں کے قدموں میں پامال کرا سکتا ہے جن پر وہ کل تک خدائی کر رہا تھا۔
یہ سب کھیل جو دینا کی چند روزہ زندگی میں کھیلے جارہے ہیں، موت کی ساعت آتے ہی یکلخت ختم ہوجائیں گے
اور اس سرحد سے پار ہوتے ہی انسان اس عالم میں پہنچ جائے گا جہاں سب کچھ عین مطابق حقیقت ہوگا اور جہاں دنیوی زندگی کی ساری غلط فہمیوں کے چھلکے اتار کر ہر انسان کو دکھا دیا جائے گا کہ وہ صداقت کا کتنا جوہر اپنے ساتھ لایا ہے جو میزان حق میں کسی وزن اور کسی قدر و قیمت کا حامل ہوسکتا ہو۔ (تفہیم القرآن )
~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects 🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25 آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن 4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام، الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام بھی دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ...اور مشرکوں کی طرح فرقہ واریت اختیار کرکہ دین کامل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے- ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کو واپسی میں ہے .. مگر کیسے >>>>>>