Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

جہاد میدان جنگاور دشمن کی طاقت کا تناسب اور جنگی حکمت عملی؟


مسلمانوں کو جنگ میں دشمن کی طاقت کا تناسب مد نظر رکھنا ضروری ہے ، اگر دشمن بہت زیادہ طاقتور ہو تو خیال رکھیں- اگر دُشمن کی تعداد مسلمانوں سے دگنی ہو تو پیچھے ہٹنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر تعداد اس سے زیادہ ہو تو پیچھے ہٹنے کی گنجائش ہے۔ اس طرح اس آیت نے اس حکم کی تفصیل بیان فرمادی ہے جو آیت نمبر ۱۵و ۱۶ میں دیا گیا تھا۔ 


 يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴿٦٥﴾ الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ  (8:66) 
اے نبیؐ، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے (65) اچھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے، اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں (8:66) 
اس کا مطلب نہیں ہے کہ پہلے ایک اور دس کی نسبت تھی اور اب چونکہ تم میں کمزوری آگئی ہے اس لیے ایک اور دو کی نسبت قائم کر دی گئی ہے ۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اصولی اور معیاری حیثیت سے تو اہل ایمان اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت ہے ، لیکن چونکہ ابھی تم لوگوں کی اخلاقی تربیت مکمل نہیں ہوئی ہے اور ابھی تک تمہارا شعور اور تمہاری سمجھ بوجھ کا پیمانہ بلوغ کی حد کو نہیں پہنچا ہے اس لیے سردست برسبیلِ تنزل تم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے سے دوگنی طاقت سے ٹکرانے میں تو تمہیں کوئی تامل نہ ہونا چاہیے ۔ خیال رہے کہ یہ ارشادسن۲ ھجری کا ہے جب کہ مسلمانوں میں بہت سے لوگ ابھی تازہ تازہ ہی داخلِ اسلام ہوئے تھے اور ان کی تربیت ابتدائی حالت میں تھی ۔ بعد میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں یہ لوگ پختگی کو پہنچ گئے تو فی الواقع ان کے اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت قائم ہوگئی ، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر عہد اور خلفائے راشدین کے زمانہ کی لڑائیوں میں بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے ۔ (تفہیم القرآن )
دشمن کے شدید دباؤ پر مرتب پسیائی (Orderly retreat) ناجائز نہیں ہے جبکہ اس کا مقصود اپنے عقبی مرکز کی طرف پلٹنا یا اپنی ہی فوج کے کسی دوسرے حصہ سے جا ملنا ہو۔ البتہ جو چیز حرام کی گئی ہے وہ بھگدڑ (Rout) ہے جو کسی جنگی مقصد کے لیے نہیں بلکہ محض بزدلی و شکست خوردگی کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس لیے ہوا کرتی ہے کہ بھگوڑے آدمی کو اپنے مقصد کی بہ نسبت جان زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس فرار کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ چناچہ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ تین گناہ ایسے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی نیکی فائدہ نہیں دیتی۔ ایک شرک، دوسرے والدین کی حق تلفی، تیسرے میدان قتال فی سبیل اللہ سے فرار۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ نے سات بڑے گناہوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کے لیے تباہ کن اور اس کے انجام اخروی کے لیے غارتگر ہیں۔ ان میں سے ایک یہ گناہ بھی ہے کہ آدمی کفر و اسلام کی جنگ میں کفار کے آگے پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ اس فعل کو اتنا بڑا گناہ قرار دینے کی وجہ سے صرف یہی نہیں ہے کہ یہ ایک بزدلانہ فعل ہے، بلکہ اس کی وہ یہ ہے کہ ایک شخص کا بھگوڑا پن بسا اوقات ایک پوری پلٹن کو، اور ایک پلٹن کا بھگوڑا پن ایک پوری فوج کو بدحواس کرکے بھگا دیتا ہے۔ اور پھر جب ایک دفعہ کسی فوج میں بھگدڑ پڑجائے تو کہا نہیں جاسکتا کہ تباہی کس حد پر جا کر ٹھیرے گی۔ اس طرح کی بھگدڑ صرف فوج ہی کے لیے تباہ کن نہیں ہے بلکہ اس ملک کے لیے بھی تباہ کن ہے جس کی فوج ایسی شکست کھائے۔ (تفہیم القران )

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِيۡتُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡهُمُ الۡاَدۡبَارَ‌ۚ‏ ۞ وَمَنۡ يُّوَلِّهِمۡ يَوۡمَئِذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَيِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاۡوٰٮهُ جَهَـنَّمُ‌ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 8 الأنفال, آیت نمبر 15-16)
ترجمہ:
اے اہل ایمان جب تمہارا مقابلہ ہوجائے کافروں سے میدان جنگ میں تو تم ان سے پیٹھ مت پھیرنا۔ ۞ اور جو کوئی بھی ان سے اس دن اپنی پیٹھ پھیرے گا سوائے اس کے کہ وہ کوئی داؤ لگا رہا ہو جنگ کے لیے یا کسی (دوسری) جمعیت سے ملنا ہو تو وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ۞
بیان القرآن
 وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَءِذٍ دُبُرَہٗٓ 
یعنی اگر کوئی مسلمان میدان جنگ سے جان بچانے کے لیے بھاگے گا۔
اِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ 
جیسے دو آدمی دوبدو مقابلہ کر رہے ہوں اور لڑتے لڑتے کوئی دائیں ‘ بائیں یا پیچھے کو ہٹے ‘ بہتر داؤ کے لیے پینترا بدلے تو یہ بھاگنا نہیں ہے ‘ بلکہ یہ تو ایک تدبیراتی حرکت tactical move شمار ہوگی۔ اسی طرح جنگی حکمت عملی کے تحت کمانڈر کے حکم سے کوئی دستہ کسی جگہ سے پیچھے ہٹ جائے اور کوئی دوسرا دستہ اس کی جگہ لے لے تو یہ بھی پسپائی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِءَۃٍ 
یعنی لڑائی کے دوران اپنے لشکر کے کسی دوسرے حصے سے ملنے کے لیے منظم طریقے سے پیچھے ہٹنا orderly retreat بھی پیٹھ پھیرنے کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ ان دو استثنائی صورتوں کے علاوہ اگر کسی نے بزدلی دکھائی اور بھگڈر کے اندر جان بچا کر بھاگا :
فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْوٰٹہُ جَہَنَّمُط وَبِءْسَ الْمَصِیْرُ ۔
اب اگلی آیات میں یہ بات واضح تر انداز میں سامنے آرہی ہے کہ غزوۂ بدر دنیوی قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں ‘ بلکہ اللہ کی خاص مشیت کے تحت وقوع پذیر ہوا تھا۔ (بیان القران ، ڈاکٹر اسرار احمد رح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 آیت  (8:65-66 ) کی رو سے اب حکم یہ ہے کہ دشمن کی تعداد اگر دگنی یا اس سے کم ہو، تب تو میدان چھوڑنا حرام ہے ؛ لیکن اگر ان کی تعداد اس سے زیادہ ہو تو میدان چھوڑنے کی اجازت ہے، پھر جس وقت دشمن کو پیٹھ دکھانا ناجائز ہوتا ہے اس میں بھی اس آیت نے دو صورتوں کو مستثنی رکھا ہے، ایک یہ کہ بعض اوقات جنگ ہی کی کسی حکمت عملی کے طور پر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے مقصد میدان سے بھاگنا نہیں ہوتا ایسے میں پیچھے ہٹنا جائز ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ پیچھے ہٹ کر اپنی فوج کے پاس جانا اس سے مقصود ہو کہ ان کی مددلے کر دوبارہ حملہ کیا جائے، یہ صورت بھی جائز ہے۔ (آسان قران)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌹🌹🌹
🔰 *Quran Subjects*  🔰 *قرآن مضامین* 🔰

*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]*

*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*

*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*
🤷🏻‍♂️
*FB* - https://www.facebook.com/QuranSubject
*English*- https://QuranSubjects.wordpress.com  
*Urdu*- https://Quransubjects.blogspot.com 
https://flip.it/6zSSlW
The Last, lost Book: https://Quran1book.blogspot.com
#Quran #Islam #Muslims #Pakistan #PakArmy

Popular Books