کائنات کا نظام کچھ اندھی بہری طاقتیں نہیں چلا رہی ہیں، نہ یہ دنیا کسی چَوپَٹ راجا کی اندھیر نگری ہے ، بلکہ ایک فرمانروائے حکیم و دانا اس پر حکمرانی کر رہا ہے جس کی حکمت اور عدل کا یہ تقاضا خود اس دنیا میں انسانی تاریخ کے اندر مسلسل نظر آتا ہے۔ کہ عقل اور اخلاقی حِس دے کر جس مخلوق کو اس نے یہاں تصرَّف کے اختیارات دیے ہیں اس کا محاسبہ کرے اور اسے جزا اور سزا دے۔ آفات ، بیماریاں ، وبائیں الله کی طرف سے نافرمانوں کو سزا اور مومنین کا امتحان ہے ... ہم کو اپنا محاسبہ کرنا ہو گا تاکہ الله کے محاسبہ سے بچ سکیں -
سورة الفجر ١١ -٣٠ :٨٩ میں الله واضح کرتا ہے :
سورة الفجر ١١ -٣٠ :٨٩ میں الله واضح کرتا ہے :
سورة الفجر
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
وَالْفَجْرِ ﴿١﴾ وَلَيَالٍ عَشْرٍ ﴿٢﴾ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ ﴿٣﴾ وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ ﴿٤﴾ هَلْ فِي ذَٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِي حِجْرٍ ﴿٥﴾ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ﴿٦﴾ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ﴿٧﴾ الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ ﴿٨﴾ وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ ﴿٩﴾ وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ ﴿١١﴾ فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ ﴿١٢﴾ فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ ﴿١٣﴾ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ ﴿١٤﴾ فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ ﴿١٥﴾ وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ ﴿١٦﴾ كَلَّا ۖ بَل لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ ﴿١٧﴾ وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ﴿١٨﴾ وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا ﴿١٩﴾ وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿٢٠﴾ كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا ﴿٢١﴾ وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ﴿٢٢﴾ وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ ۚ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ وَأَنَّىٰ لَهُ الذِّكْرَىٰ ﴿٢٣﴾يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي ﴿٢٤﴾ فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ ﴿٢٥﴾ وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ ﴿٢٦﴾ يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ﴿٢٧﴾ ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ﴿٢٨﴾ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي ﴿٢٩﴾ وَادْخُلِي جَنَّتِي ﴿٣٠﴾ (سورة الفجر ٨٩ )
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا - (جو) ارم (کہلاتے تھے اتنے) دراز قد, کہ تمام ملک میں ایسے پیدا نہیں ہوئے تھے - اور ثمود کے ساتھ (کیا کیا) جو وادئِ (قریٰ) میں پتھر تراشتے تھے (اور گھر بناتے) تھے اور فرعون کے ساتھ (کیا کیا) جو خیمے اور میخیں رکھتا تھا -
یہ لوگ ملکوں میں سرکش ہو رہے تھے اور ان میں بہت سی خرابیاں کرتے تھے تو تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا نازل کیا بے شک تمہارا پروردگار تاک میں ہے -
مگر انسان (عجیب مخلوق ہے کہ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے تو اسے عزت دیتا اور نعمت بخشتا ہے۔ تو کہتا ہے کہ (آہا) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی اور جب (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے کہ (ہائے) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا-
- نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے اور
- نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو اور
- میراث کے مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور
- مال کو بہت ہی عزیز رکھتے ہو
تو جب زمین کی بلندی کوٹ کوٹ کو پست کر دی جائے گی اور تمہارا پروردگار (جلوہ فرما ہو گا) اور فرشتے قطار باندھ باندھ کر آ موجود ہوں گے اور دوزخ اس دن حاضر کی جائے گی تو
- انسان اس دن متنبہ ہو گا مگر تنبہ (سے) اسے (فائدہ) کہاں (مل سکے گا)
- کہے گا کاش میں نے اپنی زندگی (جاودانی کے لیے) کچھ آگے بھیجا ہوتا
- تو اس دن نہ کوئی خدا کے عذاب کی طرح کا (کسی کو) عذاب دے گا اور نہ کوئی ویسا جکڑنا جکڑے گا
- اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔
تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی ( تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا اور میری بہشت میں داخل ہو جا
لوگوں کا مادّہ پرستانہ نطقۂ نظر جس کی بنا پر وہ اخلاقی بھلائی اور برائی کو نظر انداز کر کے محض دنیا کی دولت اور جاہ و منزلت کے حصول یا فقدان کو عزّت و ذلّت کا معیار قرار دیے بیٹھے تھے اور اس بات کو بھول گئے تھے کہ نہ دولت مندی کوئی انعام ہے ، نہ رزق کی تنگی کوئی سزا، بلکہ اللہ تعالیٰ ان دونوں حالتوں میں انسان کا امتحان لے رہا ہے کہ دولت پا کر وہ کیا رویّہ اختیار کرتا ہے اور تنگد ستی میں مبتلا ہو کر کس روش پر چل پڑتا ہے۔
لوگوں کا یہ طرزِ عمل کہ یتیم بچہ باپ کے مرتے ہی ان کے ہاں کس مپرسی میں مبتلا ہو جاتا ہے، غریبوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا، جس کا بس چلتا ہے مُردے کی ساری میراث سمیٹ کر بیٹھ جاتا ہے اور کمزور حقداروں کو دَھتا بتا دیتا ہے، اور مال کی حِرص لوگوں کو ایک ایسی نہ بُجھنے والی پیاس کی طرح لگی ہوئی ہے کہ خواہ کتنا ہی مال مل جائے ان کا دل سیر نہیں ہوتا۔ اس تنقید سے مقصود لوگوں کو اس بات کا قائل کرنا ہے کہ دنیا کی زندگی میں جن انسانوں کا یہ طرزِ عمل ہے ان کا محاسبہ آخر کیوں کہ ہو۔
کلام کو اس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ محاسبہ ہو گا اور ضرور ہو گا اور وہ اس روز ہو گا جب اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہو گی۔ اس وقت جزا و سزا کا انکار کرنے والوں کی سمجھ وہ بات آجائے گی جسے آج وہ سمجھانے سے نہیں مان رہے ہیں، مگر اُس وقت سمجھنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ منکر انسان ہاتھ مَلتا رہ جائے گا کہ کاش میں نے دنیا میں اِس دن کے لیے کوئی سامان کیا ہوتا۔ مگر یہ ندامت اُسے خدا کی سزا سے نہ بچا سکے گی۔ البتہ جن انسانوں نے دنیا میں پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ اُس حق کو قبول کر لیا ہو گا جسے آسمانی صحیفے اور خدا کے انبیاء پیش کر رہے تھے، خدا اُن سے راضی ہوگا اور وہ خدا کے عطا کر دہ اجر سے راضی ہوں گے، انہیں دعوت دی جائے گی کہ وہ اپنے ربّ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہوں اور جنّت میں داخل ہو جائیں۔ [تفهيم القرآن ماخوذ ]
http://tanzil.net/#89:1
~~~~~~~~~
اسلام دین کامل کو واپسی ....
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے- وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی- ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ. اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے." (قرآن 4:26,27,28]
اسلام کی پہلی صدی، دین کامل کا عروج کا زمانہ تھا ، خلفاء راشدین اور اصحابہ اکرام الله کی رسی قرآن کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر کاربند تھے ... پہلی صدی حجرہ کے بعد جب صحابہ اکرام دنیا سے چلے گیے تو ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا ... الله کی رسی قرآن کو بتدریج پس پشت ڈال کر تلاوت تک محدود کر دیا ... ہمارے مسائل کا حل پہلی صدی کے اسلام دین کامل کو واپسی میں ہے .. مگر کیسے >>>>>>