کسی بستی پر عذاب استیصال کے نازل ہونے کا ایک اصول بتایا جا رہا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اس کا سبب وہاں کے دولت مند اور خوشحال لوگ بنتے ہیں۔ یہ لوگ علی الاعلان اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانیاں کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی دیدہ دلیری کے سبب ان کی رسی مزید دراز کی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی عیاشیوں اور من مانیوں میں تمام حدیں پھلانگ کر پوری طرح عذاب کے مستحق ہوجاتے ہیں عوام انہیں ان کے کرتوتوں سے باز رکھنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتے بلکہ ایک وقت آتا ہے جب وہ بھی ان کے ساتھ جرائم میں شریک ہوجاتے ہیں اور یوں ایسا معاشرہ اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ ایسے میں صرف وہی لوگ عذاب سے بچ پاتے ہیں جو نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہے ہوں۔ (بیان القران )
وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا۔ (17:16)
ترجمہ:
اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس کے خوش حالوں (اشرافیہ ) کو امر کردیتے ہیں تو وہ اس میں خوب اودھم مچاتے ہیں پس ان پر بات پوری ہوجاتی ہے پھر ہم اس کو یک قلم نیست و نابود کرکے رکھ دیتے ہیں
When We decide to destroy a town We warn the rich ones therein who commit evil. Thus it becomes deserving to destruction and We destroy its very foundations.[Quran 17:16]
Here a definite form of divine procedure for the destruction of a people has been stated. When the affluent people of a habitation become disobedient, it is a portent that it is doomed to destruction. After their persistent and continuous transgression, the affluent people become so obdurate in their disobedience that they begin to discard the instinctive dictates of their conscience. The same thing has been stated in this Ayat: And when We intend to destroy a town, We give commands to its affluent people and they show disobedience. This is because Allah has created conscience for the guidance of man. Therefore, the dictates of conscience are really the commands of Allah. Thus it has become quite obvious that by “And when We intend to destroy a town” is not meant that Allah intends to destroy it without any reason. It is destroyed because after their disobedience that habitation incurs Our just wrath and We totally exterminate it. The habitation deserves such a punishment because its common people follow the affluent people who are the factual leaders of a community and are mainly responsible for the corruption of the community. At first the affluent people commit acts of disobedience, wickedness, mischief, cruelty and tyranny and then the common people follow them and incur the torment of Allah. Incidentally, this is a warning for every community that it should be very discreet and prudent in choosing and electing its leaders and rulers, for if the latter are mean and wicked, they will inevitably lead the community to destruction. ..
اقوام کی تباہی میں اشرافیہ کا مرکزی کردار
" امر " کا مفہوم : " امر " صرف حکم دینے ہی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ بسا اوقات کسی کو ڈھیلا چھوڑ دینے ور مہلت دے دینے کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ آپ کسی شخص یا گروہ سے افہام و تفہیم کی کوشش کرنے کے بعد جب تنگ آجاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ " افعلوا ما بدا لکم " جاؤ، جو تمہارے جی میں آئے کرو۔ بظاہر یہ امر ہی کا صیغہ استعمال ہوتا ہے لیکن اس کا مفہوم امہال ہوتا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی سرکش لوگوں پر اپنی حجت تمام کرچکنے کے بعد ان کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اپنا پیمانہ اچھی طرح سے بھر لیں۔ " مترفین " کسی قوم کے کھاتے پیتے خوش حال طبقہ کو کہتے ہیں۔ چونکہ قوم کی باگ انہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس وجہ سے سنت الٰہی یہ رہی ہے کہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی دعوت اصلاح میں سب سے پہلے اسی طبقہ کو خطاب کیا ہے۔ پھر جب اس طبقہ نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے نہ صرف ان کو مایوس کردیا ہے بلکہ ان کے قتل کے درپے ہوگیا ہے تو نبی نے ہجرت فرمائی اور قوم عذاب الٰہی کی گرفت میں آگئی ہے۔ یہ عذاب کے معاملے میں سنت الٰہی کی مزید وضاحت ہے۔ فرمایا کہ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے خوش حالوں کو ڈھیلا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ اس میں خوب کھل کر خدا کی نافرمانیاں اور بدمستیاں کرتے تاآنکہ ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے اور ان کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ پھر خدا ان کو پکڑتا ہے اور اس بستی کو تہ وبالا کرکے رکھ دیتا ہے۔ (تدبر قرآن)
تفسیر تفہیم القرآن
اس آیت میں حکم سے مراد حکم طبعی اور قانون فطری ہے۔ یعنی قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہوجاتے ہیں۔
ہلاک کرنے کے ارادے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یونہی بےقصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کا ظہور اس طریقے سے ہوتا ہے۔
دراصل حقیقت پر اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخرکار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے، خوشحال لوگوں اور اونچے طبقوں کا بگاڑ ہے۔
جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحب اقتدار لوگ فسق و فجور پر اتر آتے ہیں، ظلم و ستم اور بدکاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں، اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔
لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بداخلاقی لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں۔
کمنٹس
اج کے دور مین ووٹ کا درست استعمال حکمران منتخب کرنے کا ایک مروجہ طریقہ ہے ، فاسق و فاجر، کرپٹ حکمرانوں کے انتخاب کے نتیجہ میں قوم کی تباہی میں اب تمام لوگ شریک ہیں .
دعوی و تبلیغ کے لئیے اشرافیہ پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے لئیے اشرافیہ کی زبان (English language) اور اصطلاحات اور کمیونیکیشن کے ذرائع( modes of communication ) پر عبور ضروری ہے، جس کو مکمل طور پر ignore کیا جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
اقوام کی تباہی میں اشرافیہ کا کردار اور انفرادی ذمہ داری
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَكُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰهُ طٰۤئِرَهٗ فِىۡ عُنُقِهٖؕ وَنُخۡرِجُ لَهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلۡقٰٮهُ مَنۡشُوۡرًا ۞ اِقۡرَاۡ كِتٰبَك َؕ كَفٰى بِنَفۡسِكَ الۡيَوۡمَ عَلَيۡكَ حَسِيۡبًا ۞ مَنِ اهۡتَدٰى فَاِنَّمَا يَهۡتَدِىۡ لِنَفۡسِهٖ ۚ وَمَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيۡهَا ؕ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰى ؕ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيۡنَ حَتّٰى نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا ۞ وَاِذَاۤ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نُّهۡلِكَ قَرۡيَةً اَمَرۡنَا مُتۡرَفِيۡهَا فَفَسَقُوۡا فِيۡهَا فَحَقَّ عَلَيۡهَا الۡقَوۡلُ فَدَمَّرۡنٰهَا تَدۡمِيۡرًا ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 13-16)
ترجمہ:
ہر انسان کا شگون ہم نے اُس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے، اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اُس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا ۞ پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے ۞ جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغام بر نہ بھیج دیں ۞ *جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں* ۞
(القرآن - سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 13-16)
We have fastened every man's omen to his neck. On the Day of Resurrection We shall produce for him his scroll in the shape of a wide open book, (saying): ۞ Read your scroll; this Day you are sufficient to take account of yourself.' ۞ *He who follows the Right Way shall do so to his own advantage; and he who strays shall incur his own loss. No one shall bear another's burden.* And never do We punish any people until We send a Messenger (to make the Truth distinct from falsehood). ۞ *When We decide to destroy a town (due to their disobedience) We command the affluent among them, whereupon they commit sins in it, then the decree (of chastisement) becomes due against them and thereafter We destroy that town utterly.* ۞ (Quran 17:13-16)
https://Quransubjects.blogspot.com
#Quran #Muslims #Decline #History #Pakistan
https://youtu.be/hkJlBGydXLo
☆☆☆ 🌹🌹🌹📖 🕋 🕌🌹🌹🌹☆☆☆
وَذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(قرآن 51:55)
اور نصیحت کرتے رہوکہ نصیحت مسلمانوں کو نفع دیتی ہے
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن 36:17)
اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے
Our mission is only to convey the message clearly