Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

اکثریت اور گمراہی Majority



جو فرقے قلیل تعداد میں ہیں وہ قرآن کی آیت (٦:١١٦) کی حجت سے اپنے آپ کو درست قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں  کی  اکثریت  کو گمراہ - مسلمانوں کے  ایمان ، عقائد اور اعمال کا قرآن و سنت  کے مطابق ہونا حجت ہے یا تعداد ؟  اس کا جائزہ لیتے ہیں:
دنیا میں اکثریت کا مذہب محض وہم و قیاس پر ہے

وَ اِنۡ تُطِعۡ  اَکۡثَرَ مَنۡ  فِی الۡاَرۡضِ یُضِلُّوۡکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ  وَ اِنۡ  ہُمۡ  اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ ﴿۱۱۶﴾

 اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کر دیں وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں ۔  [سورة الأنعام 6  آیت: 116]


 And if you obey most of those upon the earth, they will mislead you from the way of Allah . They follow not except assumption, and they are not but falsifying. [ Surat ul Anaam: 6 Verse: 116] 

دنیا میں اکثریت کا مذہب محض وہم و قیاس پر ہے ، اسی لیے آپ  (ص ) کو اور مسلمانوں کو ان کے کہنے پر چلنے سے روک دیا گیا ہے:

یعنی بیشتر لوگ جو دنیا میں بستے ہیں علم کے بجائے قیاس و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور ان کے عقائد ، تخیلات ، فلسفے ، اصول زندگی اور قوانین عمل سب کے سب قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں ۔ بخلاف اس کے اللہ کے راستہ ، یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کا وہ طریقہ جو اللہ کی رضا کے مطابق ہے ، لازماً صرف وہی ایک ہے جس کا علم اللہ نے خود دیا ہے نہ کہ وہ جس کو لوگوں نے بطور خود اپنے قیاسات سے تجویز کر لیا ہے ۔ لہٰذا کسی طالب حق کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دنیا کے بیشتر انسان کس راستہ پر جا رہے ہیں بلکہ اسے پوری ثابت قدمی کے ساتھ اس راہ پر چلنا چاہیے جو اللہ نے بتائی ہے ، چاہے اس راستہ پر چلنے کے لیے وہ دنیا میں اکیلا ہی رہ جائے ۔ [تفہیم القرآن ]

تاریخ اور مشاہدہ دونوں اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ کسی بھی معاشرہ میں اہل خرد اور ذہین اور بااصول لوگ کم ہی ہوا کرتے ہیں۔ معاشرہ کی اکثریت جاہل عوام پر مشتمل ہوتی ہے۔ قرآن نے متعدد مقامات پر ایسی اکثریت کو جاہل، فاسق، ظالم اور مشرک قرار دیا ہے ان لوگوں کا اپنا کوئی اصول نہیں ہوتا۔ نہ انہیں کسی بات کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اپنے کھانے پینے کے سوا نہ کسی چیز کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے علاوہ وہ کوئی اور بات سوچنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ ان کے زندگی گزارنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس رخ لوگوں کی اکثریت جا رہی ہو ادھر ہی وہ بھی چل پڑتے ہیں۔ وہ کسی بات کی تحقیق نہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ کرسکتے ان کے عقائد اور ان کے اعمال سب کچھ وہم و قیاس پر مبنی ہوتے ہیں۔ پھر چونکہ اکثریت کی آراء مختلف بھی ہوتی ہیں اور بدلتی بھی رہتی ہیں۔ لہذا اکثریت کی اتباع ہمیشہ گمراہی پر منتج ہوا کرتی ہے اسی لیے آپ کو اور مسلمانوں کو ان کے کہنے پر چلنے سے روک دیا گیا ہے۔
اس کے برعکس اللہ کی ہدایت کا راستہ صرف ایک ہی ہے اور ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے اور ایک ہی رہے گا۔ سیدنا آدم سے لے کر نبی آخر الزماں تک تمام انبیاء کو اسی راستہ پر چلنے کی تاکید کی جاتی رہی ہے لہذا طالب حق کو ہرگز وہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دنیا کے لوگوں کی اکثریت کس راستہ پر چل رہی ہے بلکہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ اس راہ پر چلنا چاہیے جو اللہ نے بتائی ہے خواہ اس راہ پر چلنے والوں کی تعداد کتنی ہی قلیل ہو۔ 
اسی آیت سے موجودہ مغربی جمہوری نظام بھی باطل قرار پاتا ہے جس میں اکثریت کی رائے کو حق کا معیار قرار دیا گیا ہے نیز ہر کس و ناکس کی رائے کو مساوی حیثیت دی گئی ہے۔ اس نظام میں ایک عالم اور ایک جاہل کی رائے کو یکساں درجہ دیا جاتا ہے اور یہ دونوں باتیں قرآن کی صریح آیات کے خلاف ہیں۔ .[عبدلرحمان کیلانی ]

کچھ حضرات اس آیت کو مسلمانوں پر لگا دیتے ہیں اور جو فرقے قلیل تعداد میں ہیں وہ اس کی حجت سے اپنے آپ کو درست قرار دیتے ہیں - کفار کو مسلمانوں کے برابر قرار دینا مناسب نہ ہوگا .. اسلام میں بہت گمراہ لوگ قلیل تعداد میں ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جیسے قادیانی اور اس طرح کے لوگ … 

قرانی آیات کو مجمعوی طور پر دیکھنا ہو گا  سیاق وثبات کےساتھ: 
ترجمہ: سورة الأنعام  ١١١-١١٨

"اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مُردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے، الا یہ کہ مشیت الٰہی یہی ہو کہ وہ ایمان لائیں، مگر اکثر لوگ نادانی کی باتیں کرتے ہیں (111) اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں اگر تمہارے رب کی مشیت یہ ہوتی کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کرتے پس تم اُنہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ اپنی افترا پردازیاں کرتے رہیں (112) (یہ سب کچھ ہم انہیں اسی لیے کرنے دے رہے ہیں کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اُن کے دل اِس (خوشنما دھوکے) کی طرف مائل ہوں اور وہ اس سے راضی ہو جائیں اور اُن برائیوں کا اکتساب کریں جن کا اکتساب وہ کرنا چاہتے ہیں (113) پھر جب حال یہ ہے تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں، حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کر دی ہے؟ اور جن لوگوں کو ہم نے (تم سے پہلے) کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہٰذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو (114) تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (115) 
اور اے محمدؐ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں (6:116)
 در حقیقت تمہارا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے (117) پھر اگر تم لوگ اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اُس کا گوشت کھاؤ (118)

سیاق وثبات سے واضح ہے کہ آیت  (٦:١١٦) کفار اور اہل کتاب کے متعلق ہے نہ کہ مسلمانوں کے 

اجماع (فقہی اصطلاح)

فقہ اسلام کی ایک اصطلاح اور اسلامی شریعت کا تیسرا اہم مآخد جس سے مراد علمائے امت کا یا ان کی بڑی اکثریت کا، ہر زمانے میں کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح حکم موجود ہو۔

حجیتِ اجماع قرآن مجید سے

جمہور مسلمین اجماع کی حجیت کے قائل ہیں، اجماع کی حجیت کتاب وسنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالٰیٰ ہے :

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا [4:59]
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے لوٹاؤ اللہ (تعالٰیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔(سورہ-النساء:٥٩)

اس آیات میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے : اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے، اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد "سنّت" ہے اور اُولِي الْاَمْرِ سے مراد "علما و فقہا" ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے "اجماع_فقہاء" کہتے ہیں .(یعنی اجماع_فقہاء کو بھی مانو). اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علما و فقہا) میں اختلاف ہو تو ہر ایک"مجتہد" کے اجتہاد و استنباط کو "قیاس_شرعی" کہتے ہیں .

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَاتَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا"۔ (النساء:115)
ترجمہ:جو شخص رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی مخالفت کرے گا اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہوچکی ہو اور اہلِ ایمان کے راستے کے علاوہ دوسرے راستہ کی پیروی کرے گا تو ہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھرگیا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے۔  (النساء:115)

آیت بال میں باری تعالٰیٰ نے رسول (صلى الله عليه وسلم) کی مخالفت اور سبیل مؤمنین کے علاوہ دوسروں کے سبیل کی اتباع پر وعید بیان فرمائی ہے اور جس چیز پر وعید بیان کی جائے وہ حرام ہوتی ہے ؛ لہٰذا رسول کی مخالفت اور غیر سبیل مؤمنین کی اتباع دونوں حرام ہوں گی اور جب یہ دونوں حرام ہیں تو ان کی ضد یعنی رسول کی موافقت اور سبیل مؤمنین کی اتباع واجب ہوگی اور مؤمنین کی سبیل اور اختیار کردہ راستہ کا نام ہی اجماع ہے ؛ لہٰذا اجماع کی اتباع کا واجب ہونا ثابت ہو گیا اور جب اجماع کا اتباع واجب ہے تو اس کا حجت ہونا بھی ثابت ہو گیا، قاضی ابویعلیؒ (متوفی:458ھ) اور علامہ آمدی نے اس آیت سے اجماع کی حجیت کے ثبوت پر بڑی نفیس بحث کی ہے جو لائقِ مطالعہ ہے۔ (الاحکام آمدی:1/287۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:161۔ ارشاد الفحول:113)

حجیت اجماع احادیث سے:

آپ (صلى الله عليہ وسلم) کا ارشاد ہے : "عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ"۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:2093)

ترجمہ:حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:اللہ تعالٰیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔

نیز آپ (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے : "فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ"۔ (مسندِاحمد، حدیث نمبر3600)

ترجمہ:جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالٰیٰ کے نزدیک بھی بری ہے۔

ایک اور موقع سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: "مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ"(مشکوٰۃ:31)

ترجمہ:جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔

ایک جگہ ارشاد ہے : "مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةِ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً"۔ (مصنف عبد الرزاق، كتاب الصلاة، باب الأمراء يؤخرون الصلاة، حدیث نمبر:3779)

ترجمہ:جو جماعت سے الگ ہو جائے تواس کی موت جاہلیت کے طرز پر ہوگی۔

یہ تمام احادیث قدرے مشترک اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ امت اجتماعی طور پر خطا سے محفوظ ہے، یعنی پوری امت خطا اور ضلالت پر اتفاق کرے ایسا نہیں ہو سکتا ہے اور جب ایسا ہو تو اجماع امت کے ماننے اور اس کے حجتِ شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔


Popular Books