Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

Enjoin good forbid evil امر معروف



 ۔ جس معاشرے سے نہی عن المنکر ختم ہوجائے گا ‘ وہ پورا معاشرہ سنڈاس بن جائے گا۔ یہ تو گویا انتظام صفائی ہے۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے ارد گرد نگاہ رکھے ‘ ایک دوسرے کو روکتا رہے کہ یہ کام غلط ہے ‘ یہ مت کرو ! جس معاشرے سے یہ تنقید اور احتساب ختم ہوجائے گا ‘ اس کے اندر لازماً خرابی پیدا ہوجائے گی ۔
امت محمدیہ میں نہی عن المنکر کا فقدان یہ نقص جو بنی اسرائیل میں تھا دور حاضر کے مسلمانوں میں بھی ہے گناہوں سے روکنے کی قدرت ہوتے ہوئے گناہوں پر نہیں ٹوکتے، گناہگاروں سے ملتے جلتے ہیں ان سے تعلق رکھتے ہیں اور تعلقات کشیدہ ہونے کے ڈر سے ان کو گناہ سے نہیں روکتے، خالق مالک جل مجدہ، کی ناراضگی کا خیال نہیں کرتے مخلوق کی ناراضگی کا خیال کرتے ہیں کہ اسے گناہ سے روک دیا تو یہ ناراض ہوجائیگا۔ بنی اسرائیل کے اسی طرز کو بیان فرما کر ارشاد فرمایا (لَبِءْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ) کہ برا ہے وہ عمل جو وہ کرتے تھے۔ بنی اسرائیل والے طریقے مدعیان اسلام نے بھی اپنا لئے اسی لئے دنیا میں عام عذاب اور عقاب میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔
 کسی معاشرہ میں جب کوئی برائی رواج پاتی ہے تو ابتدائ ً چند ہی لوگ اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں کا بروقت اور سختی سے محاسبہ کیا جائے تو وہ برائی رک بھی جاتی ہے لیکن اگر اس سلسلہ میں نرم گوشہ اختیار کیا جائے تو اس بدی کا ارتکاب کرنے والوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ اس بدی سے بچنے والے لوگ نہ صرف یہ کہ بدی کرنے والوں کو روکتے نہیں، بلکہ ان سے میل ملاپ رکھنے اور شیر و شکر بن کر رہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور بدی عام پھیل جاتی ہے یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے پھر اس عذاب سے نہ بدی کرنے والے بچتے ہیں اور نہ اس بدی سے اجتناب کرنے والے۔ اس آیت میں بتایا یہ گیا ہے کہ جس طرح بدی کا ارتکاب کرنا جرم ہے اسی طرح بدی سے نہ روکنا بھی جرم ہے اور جرم کے لحاظ سے دونوں برابر ہوتے ہیں اور اللہ کی لعنت یا عذاب الٰہی کا اثر اور نقصان دونوں کو یکساں پہنچتا ہے۔ خ برائی سے منع نہ کرنے والوں کی مثال :۔ ایسے تباہ ہونے والے معاشرہ کی مثال رسول اللہ نے یہ بیان فرمائی جیسے کچھ لوگوں نے جہاز میں سوار ہونے کے لیے قرعہ ڈالا اور قرعہ کی رو سے کچھ لوگ نچلی منزل میں بیٹھے اور کچھ اوپر والی منزل میں۔ نچلی منزل والوں کو پانی اوپر کی منزل سے حاصل کرنا پڑتا تھا جس سے اوپر کی منزل والے تنگ پڑتے تھے۔ اب نچلی منزل والوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ کیوں نہ جہاز کے نچلے تختہ میں سوراخ کر کے پانی نیچے سمندر سے حاصل کرلیا جائے۔ پھر اگر نچلی منزل والے اور اوپر کی منزل والے دونوں مل کر ان سوراخ کرنے والوں کا ہاتھ نہ روکیں گے تو نچلے اور اوپر والے سب غرق ہوجائیں گے۔ (بخاری۔ کتاب المظالم۔ ابو اب الشرکۃ ھل یقرع فی القسمۃ) اس حدیث کی رو سے بدی سے نہ روکنے والوں کا جرم بدی کرنے والے سے بھی زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ نیز سیدنا ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان پر عام عذاب نازل ہو۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ زیر آیت ٥ : ١٠١) 

صرف اپنے آپ میں مست ہونا اور نیکی کی تلقین اور بدی سے روکنے کی کوئی کوشش نہ کرنا- 
کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ عَنۡ مُّنۡکَرٍ فَعَلُوۡہُ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۷۹﴾
"آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وہ بہت برا تھا ۔" (قرآن : 5:79)
 برائی کو دیکھتے ہوئے برائی سے نہ روکنا، بہت بڑا جرم اور لعنت غضب الہی کا سبب ہے۔ حدیث میں بھی اس جرم پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " سب سے پہلا نقص جو بنی اسرائیل میں داخل ہوا یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو برائی کرتے ہوئے دیکھتا تو کہتا، اللہ سے ڈر اور یہ برائی چھوڑ دے، یہ تیرے لیے جائز نہیں۔ لیکن دوسرے روز پھر اسی کے ساتھ اسے کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے میں کوئی عار یا شرم محسوس نہ ہوتی، (یعنی اس کا ہم نوالہ وہ ہم پیالہ وہم نشین بن جاتا) درآں حالیکہ ایمان کا تقاضا اس سے نفرت اور ترک تعلق تھا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان آپس میں عداوت ڈال دی اور وہ لعنت الہی کے مستحق قرار پائے۔ پھر فرمایا کہ : 
 ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے، یا پھر قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنے ہاں سے عذاب بھیج دے، پھر تم اس سے دعا کرو گے تو وہ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا۔ “ [ أحمد : ٥؍٣٨٨، ح : ٢٣٣٦٣۔ ترمذی، : ٢١٦٩، وحسنہ الترمذی والألبانی ]
صدیوں سے قرآن  اور رسول اللہﷺ  کے احکام کی خلاف درزی کھلم کھلا جاری ہے اور کسی کو روکنے کی توفیق نہ ہوئی . کیوں؟
Quran Subjects قرآن - مضامین

Popular Books