جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت مستحب ہے -سورہ کہف قرآن کی ایک اہم سورہ ہے, جب کسی سورہ یا آیت کے متعلق کوئی خاص بات رسول ﷺ کی طرف سے منسوب ہو تو اس کو مکمل ترجمہ کے سآتھ پڑھنا چاہیے تاکہ اس کا مضمون، مطلب اچھی طرح سمجھ سکیں- بہتر ہے کوئی مستند تفسیر بھی پڑھیں تاکہ قرآن کی سورہ سے فیض اور ر ا ہنمائی حاصل کر سکتیں اگرچہ تلاوت کا بھی ثواب ہے مگر قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اسے سمجھنا بہت ضروری ہے- یہاں اس سورہ کے مضامین اور خلاصہ سے سمجنے کی کوشش کی گیئی ہے- مکمل سورہ کہف اس <لنک> پر تلاوت کر سکتے ہیں -
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قرأ سورةَ الكهفِ في يومِ الجمعةِ ، أضاء له من النورِ ما بين الجمُعتَينِ(صحيح الجامع:6470)
ترجمہ : جو جمعہ کے دن سور ة الکہف پڑھے،اس کیلئے دونوں جمعو ں(یعنی اگلے جمعے تک)کے درمیان ایک نور روشن کردیا جائے گا۔
من قرأ سورةَ الكهفِ يومَ الجمعةِ أضاء له النُّورُ ما بينَه و بين البيتِ العتيقِ(صحيح الجامع: 6471)
ترجمہ :جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نور کی روشنی ہو جاتی ہے۔
«مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ الْعَتِيقِ» [صحيح الترغيب للالبانی : 736]۔
ترجمہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نور کی روشنی ہو جاتی ہے۔
رات و دن کی دونوں روایات کے ملاک سورہ کہف پڑھنے کا وقت جمعرات کے سورج غروب ہونے سے لیکر جمعہ کے سورج غروب ہونے تک ہے- لہذا مسلمانوں کو اس عظیم سورت کی ہرجمعہ تلاوت کرنی چاہئے ۔ اس سورت کی عظمت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ فتنہ دجال سے نجات کا باعث ہے ۔ خروج دجال قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے اور فتنہ دجال زمانے کے شروفتن میں سب سے بڑا فتنہ ہے ۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے علاوہ دجال پوری دنیا کو روند ڈالے گا اوربے شمار لوگوں کو اپنے فتنوں کا شکار بنالے گا ۔اس فتنےکا مقابلہ مومنوں کے لئے ایک چیلنج کی طرح ہوگا ۔ نبی ﷺ نے اس فتنے سے بچنے کے متعدد طرق واسباب بیان کئے ہیں ۔ منجملہ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات کی قرات وحفظ بھی ہے-(محدث)
سورہ کہف (18) مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے۔
1.اصحاب کہف کون تھے؟
2.قصۂ خضر کی حقیقت کیا ہے؟
3. ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے؟
یہ تینوں قصے مسیحیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا، اسی لیے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے ان کا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کوئی غیبی ذریعۂ علم ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالٰیٰ نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا بلکہ ان کے اپنے پوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اُس صورت حال پر چسپاں بھی کر دیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان درپیش تھی:
1. اصحابِ کہف (People of The Cave) کے متعلق بتایا کہ وہ اُسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کر رہا ہے اور ان کا حال مکے کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویے سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ ہو اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جا رہی ہو، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہیے بلکہ اللہ کے بھروسے پر تن بتقدیر نکل جانا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ضمناً کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدۂ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے۔ جس طرح الله نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اٹھایا، اسی طرح اُس کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔
2. اصحاب کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کردی گئی جو مکے کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کے ساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلے میں ان بڑے بڑے لوگوں کو اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے چند روز عیشِ زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائیدار ہے۔
3. اسی سلسلۂ کلام میں قصۂ خضر و موسیٰ کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کے لیے سامان تسلی بھی۔ اس قصے میں دراصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لیے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ تو بڑا غضب ہوا! حالانکہ اگر پردہ اٹھا دیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہوجائے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے، آخر کار وہ بھی کسی نتیجۂ خیر ہی کے لیے ہوتی ہے۔
4. اس کے بعد قصۂ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سرِ تسلیم خم رکھتا تھا۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور باغیچوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوارِ تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار۔ اللہ کی مرضی جب تک یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہوگی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا۔
اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو انہی پر پوری طرف الٹ دینے کے بعد خاتمۂ کلام میں پھر انہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں، یعنی کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو، ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اوراللہ کے حضور اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہوگی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔ (wiki)
خلاصہ
۔سورۃ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید بشارت دیتا ہے۔ نیک عمل کرنے والے مسلمانوں کو کہ ان کے لیے بڑے اجر کو تیار کردیا گیا ہے۔ اس میں عیسائیوں اور یہودیوں کو ڈرایا گیا ہے‘ جو کہ عیسیٰ ؑ اور عزیر ؑ کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں نہ تو ان کے پاس علم ہے اور نہ ان کے آبائواجداد کے پاس علم تھا اور یہ بات گھڑی ہوئی ہے۔ پس‘ یہ جھوٹ بول رہے ہیں ۔
سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے بعض مومن نوجوانوں کا ذکر کیاہے ‘جو کہ وقت کے بے دین بادشاہ کے شر اور فتنے سے بچنے کے لیے ایک غار میں پناہ گزین ہو گئے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کے لیے انہیں 309 برس کے لیے سلا دیا اور اس کے بعد جب وہ بیدار ہوئے تو آپس میں بات چیت کرنے لگے کہ ہم کتنا سوئے ہوں گے تو ان کا خیال یہ تھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ سوئے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے واقعات بیان کر کے در حقیقت توجہ آخرت کی طرف مبذول کر وائی ہے کہ جو اللہ تین سو نو برس تک لوگوں کو سلا کر بیدار کر سکتا ہے کیا وہ قبروں سے مردہ وجودوں کو برآمد نہیں کر سکتا؟
اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کابھی ذکر کیا ۔ روایات کے مطابق ہوا کچھ یوں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے اجتماع میں موجود تھے کہ آپ سے سوال کیا گیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ اس وقت سب سے بڑا عالم میں ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بہت بڑ ا مقام عطا کیا تھا ‘لیکن یہ جواب اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق نہ تھا۔اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ ؑ کو کہا کہ دو دریائوں کے سنگم پر چلے جائیں ‘وہاں پر آپ کی ملاقات ایک ایسے بندے سے ہوگی ‘جن کو میں نے اپنی طرف سے علم اور رحمت عطا کی ہے۔جناب موسیٰ ؑ دو دریائوں کے سنگم پر پہنچے تو آپ کی ملاقات جناب خضرؑ علیہ السلام سے ہوئی ۔جناب موسیٰ علیہ السلام نے جناب خضرؑسے پوچھا کہ اگر میں آپ کے ہمراہ رہوں تو کیا آپ رشد وہدایت کی وہ باتیں جو آپ کے علم میں ہیں‘ مجھے بھی سکھلائیں گے۔ جناب خضرعلیہ السلام ؑنے جواب میں کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے اور آپ ان باتوں کی بابت کیونکر صبر کریں گے‘ جن کو آپ جانتے ہی نہیں ۔موسیٰ ؑ نے جناب خضرؑ کو صبر کی یقین دہانی کرائی تو دونوں اکٹھے چل پڑے ۔کچھ چلنے کے بعد آپ ایک کشتی میں سوار ہو گئے ۔جب اترنے لگے تو خضر ں نے کشتی میں سوراخ کر دیا جناب موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات پسند نہ آئی کہ جس کشتی میں سفر کیا اس میں سوراخ کر دیا۔ آپ نے کہا کہ آپ نے یہ کیا کام کر دیا۔ جناب خضر ؑ نے کہا کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ آپ میرے بھول جانے پر مواخذہ نہ کریں اور نہ ہی میرے سوالات پر تنگی محسوس کریں۔ جناب خضرؑ اور موسیٰ ؑ پھر چل دیئے‘ کچھ آگے جا کر ایک خوبصورت بچہ نظر آیا۔ جناب خضرؑ نے بچے کو قتل کر ڈالا‘ جناب موسیٰ علیہ السلام سے نہ رہا گیا آپ نے پھر جناب خضرؑ کے اس عمل پر اعتراض کیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جناب خضرعلیہ السلام کے کشتی میں سوراخ کرنے کے بعد ایک خوبصورت بچے کے قتل پر بھی بالکل مطمئن نہ تھے۔ اس لیے آپ نے اس پر بھی اعتراض کیا تھا ۔جناب خضر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب ‘اگر میں نے کوئی سوال کیا تو آپ مجھے اپنے سے علیحد ہ کردیجئے گا۔ جناب خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اکٹھے آگے بڑھتے ہیں؛ حتیٰ کہ ایک بستی میں جا پہنچتے ہیں۔ بستی کے لوگ بڑے بے مروت تھے‘ انہوں نے دو معزز مہمانوں کی کوئی خاطر تواضع نہ کی ۔ اس بستی میں ایک جگہ ایک دیوار گر چکی تھی۔ جناب خضر اس کی تعمیر نو شروع کر دیتے ہیں ۔جب دیوار مکمل ہو گئی اور جناب خضر نے وہاں سے چلنے کا ارادہ کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کا معاوضہ بھی وصول کر سکتے تھے۔ جناب خضر نے کہا کہ اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت آپہنچا ہے‘ میں آپ کو ان تمام کاموں کی تعبیر سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں‘ جن پر آپ صبر نہیں کر سکے ۔
حضرت خضرعلیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتلایا کہ کشتی میں میرے سوراخ کرنے کا سبب یہ تھا کہ جس ساحل پر جاکر کشتی رکی تھی‘ وہاں پر ایک غاصب بادشاہ کی حکومت تھی ‘جو ہر بے عیب کشتی پر جبراً قبضہ کیے جا رہا تھا۔ میں نے اس کشتی میں سوراخ کر دیا‘ تا کہ کشتی کے مسکین مالک‘ بادشاہ کے ظلم سے بچ جائیں-
جس خوبصورت بچے کو میں نے قتل کیا‘ وہ بڑا ہو کر اپنے والدین کے ایمان کے لیے خطرہ بننے والا تھا‘ اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے والدین کو ایک صالح بچہ عطا فرمانے والے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے ‘دیوار کی تعمیر نو کا‘ تو وہ دیوار ایک ایسے گھر کی تھی‘ جو بستی کے دو یتیم بچوں کی ملکیت تھا ‘ جن کا باپ نیک آدمی تھا اور ان کے گھر کے نیچے خزانہ دفن تھا اور مالک کائنات چاہتے تھے کہ بچے جوان ہو جائیں اور بڑے ہوکر اپنے خزانے کو نکال لیں اور
جو کچھ بھی میں نے کیا اپنی مرضی سے نہیں‘ بلکہ اللہ کے حکم پر کیا ۔
یہ واقعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مکمل علم ‘اللہ کی ذات کے پاس ہے اور وہ جتنا کسی کو دینا چاہتا ہے‘ دے دیتا ہے؛ اگر چہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اولوالعزم رسول تھے ‘لیکن اللہ نے بعض معاملات کا علم ‘خضر کو عطا فرما دیا ‘جن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام واقف نہ تھے۔
سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توانائیوں کو دنیا کی زیب و زینت کے لیے وقف اور صرف کرنے والے لوگوں کے اعمال کو بدترین اعمال قرار دیا‘ جبکہ وہ گمان کرتے ہیںکہ ہ بہترین کاموں میں مشغول ہیں ۔اللہ تعالیٰ کہتے ہیں ایسے لوگ میری ملاقات اور نشانیوں کا انکار کرنے والے ہیں اور ایسے لوگوں کے اعمال برباد ہو جائیں گے۔ [ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس میں مذکور مضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔( آمین!) [ خلاصہ ، بشکریہ ، علامہ ابتسام الہی ظہیر]
جہاں تک تعلق ہے ‘دیوار کی تعمیر نو کا‘ تو وہ دیوار ایک ایسے گھر کی تھی‘ جو بستی کے دو یتیم بچوں کی ملکیت تھا ‘ جن کا باپ نیک آدمی تھا اور ان کے گھر کے نیچے خزانہ دفن تھا اور مالک کائنات چاہتے تھے کہ بچے جوان ہو جائیں اور بڑے ہوکر اپنے خزانے کو نکال لیں اور
جو کچھ بھی میں نے کیا اپنی مرضی سے نہیں‘ بلکہ اللہ کے حکم پر کیا ۔
یہ واقعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مکمل علم ‘اللہ کی ذات کے پاس ہے اور وہ جتنا کسی کو دینا چاہتا ہے‘ دے دیتا ہے؛ اگر چہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اولوالعزم رسول تھے ‘لیکن اللہ نے بعض معاملات کا علم ‘خضر کو عطا فرما دیا ‘جن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام واقف نہ تھے۔
سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توانائیوں کو دنیا کی زیب و زینت کے لیے وقف اور صرف کرنے والے لوگوں کے اعمال کو بدترین اعمال قرار دیا‘ جبکہ وہ گمان کرتے ہیںکہ ہ بہترین کاموں میں مشغول ہیں ۔اللہ تعالیٰ کہتے ہیں ایسے لوگ میری ملاقات اور نشانیوں کا انکار کرنے والے ہیں اور ایسے لوگوں کے اعمال برباد ہو جائیں گے۔ [ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس میں مذکور مضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔( آمین!) [ خلاصہ ، بشکریہ ، علامہ ابتسام الہی ظہیر]
~~~~~~ ~~~~~ ~~~ ~~~
منتخب آیات ترجمہ
القرآن - سورۃ نمبر 18 الكهف
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَ لۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰى عَبۡدِهِ الۡكِتٰبَ وَلَمۡ يَجۡعَلْ لَّهٗ عِوَجًا ؕ ۞ قَيِّمًا لِّيُنۡذِرَ بَاۡسًا شَدِيۡدًا مِّنۡ لَّدُنۡهُ وَيُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ الَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ اَجۡرًا حَسَا ۞
کل حمد و ثنا اور کل شکر اللہ ہی کے لیے ہے جس نے نازل کی اپنے بندے پر کتاب اور اس میں اس نے کوئی کجی نہیں رکھی ۞ (یہ کتاب) بالکل سیدھی ہے تاکہ وہ خبردار کرے ایک بہت بڑی آفت سے اس کی طرف سے اور (تاکہ) وہ بشارت دے ان اہل ایمان کو جو نیک عمل کرتے ہوں کہ ان کے لیے ہوگا بہت اچھا بدلہ ۞
ترجمہ ؛ القرآن - سورۃ نمبر 18 الكهف، آیت نمبر 1-110
شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
کل حمد و ثنا اور کل شکر اللہ ہی کے لیے ہے جس نے نازل کی اپنے بندے پر کتاب اور اس میں اس نے کوئی کجی نہیں رکھی ۞ (یہ کتاب) بالکل سیدھی ہے تاکہ وہ خبردار کرے ایک بہت بڑی آفت سے اس کی طرف سے اور (تاکہ) وہ بشارت دے ان اہل ایمان کو جو نیک عمل کرتے ہوں کہ ان کے لیے ہوگا بہت اچھا بدلہ ۞ وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ ہمیش ۞
۞ یقیناً ہم نے بنا دیا ہے جو کچھ زمین پر ہے اسے اس کا بناؤ سنگھار تاکہ انہیں ہم آزمائیں کہ ان میں کون بہتر ہے عمل میں ۞ اور یقیناً ہم بنا کر رکھ دیں گے جو کچھ اس (زمین) پر ہے اسے ایک چٹیل میدان ۞ کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور رقیم (تختی) والے اصحاب ہماری بہت عجیب نشانیوں میں سے تھے ۞ جبکہ ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی اور انہوں نے کہا : اے ہمارے رب ! تو ہمیں عطا فرما اپنے پاس سے رحمت اور آسان فرما دے ہمارے لیے ہمارے معاملات میں عافیت کا راستہ ۞ تو ہم نے تھپکی دے دی ان کے کانوں پر غار میں کئی سال کے لیے ۞ پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہم دیکھیں کہ دو گروہوں میں سے کس کو بہتر معلوم ہے کہ کتنا عرصہ وہ وہاں رہے تھے۞
ہم سنا رہے ہیں آپ کو ان کا قصہ حق کے ساتھ وہ چند نوجوان تھے جو ایمان لائے اپنے رب پر اور ہم نے خوب بڑھایا تھا انہیں ہدایت میں ۞
ہماری اس قوم نے بنالیے ہیں اس کے سوا دوسرے معبود تو کیوں نہیں پیش کرتے وہ ان کے بارے میں کوئی واضح دلیل تو اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ۞ اور اب جبکہ تم نے خود کو ان لوگوں سے اور جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں ان سے علیحدہ کرلیا ہے تو اب کسی غار میں پناہ لے لو تمہارا رب پھیلا دے گا تمہارے لیے اپنی رحمت اور تمہارے معاملے میں تمہارے لیے سہولت کا سامان پیدا فرمادے گا ۞
اور اس طرح ہم نے مطلع کردیا (لوگوں کو) ان پر تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کے بارے میں ہرگز کوئی شک نہیں جب وہ لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے ان کے معاملے میں چناچہ کچھ لوگوں نے کہا کہ تعمیر کر دو ان پر ایک عمارت (بطور یادگار) ان کا رب ان سے بہتر واقف ہے جو لوگ غالب آئے اپنی رائے کے اعتبار سے انہوں نے کہا کہ ہم بنائیں گے ان (کی غار) پر ایک مسجد ۞
اور کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کریں کہ میں یہ کام کل ضرور کر دوں گا ۞ مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کو یاد کرلیا کیجئے جب آپ بھول جائیں اور کہیے : ہوسکتا ہے کہ میرا رب میری راہنمائی کر دے اس سے بہتر بھلائی کی طرف ۞
اور (اے نبی !) آپ تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے آپ کے رب کی کتاب میں سے اس کی باتوں کو بدلنے والا کوئی نہیں ہے اور آپ نہیں پائیں گے اس کے سوا کوئی جائے پناہ ۞
اور اپنے آپ کو روکے رکھیے ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح وشام وہ اللہ کی رضا کے طالب ہیں اور آپ کی نگاہیں ان سے ہٹنے نہ پائیں (جس سے لوگوں کو یہ گمان ہونے لگے کہ) آپ دنیوی زندگی کی آرائش و زیبائش چاہتے ہیں اور مت کہنا مانیے ایسے شخص کا جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہے اور اس کا معاملہ حد سے متجاوز ہوچکا ہے ۞ اور آپ کہہ دیجیے کہ یہی حق ہے تمہارے رب کی طرف سے تو اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے اس کی قناتیں ان کا احاطہ کرلیں گی اور اگر وہ پانی کے لیے فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو (کھولتے ہوئے) تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا جو چہروں کو بھون ڈالے گا بہت ہی بری چیز ہوگی پینے کی اور وہ (جہنم) بہت ہی بری جگہ ہے آرام کی ۞
یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے تو ہم نہیں ضائع کریں گے اجر اس شخص کا جس نے اچھا عمل کیا ۞
اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشخبری دینے والے اور خبردار کرنے والے (بنا کر) اور یہ کافر لوگ جھگڑتے ہیں جھوٹ کی طرف سے تاکہ بچلا دیں اس کے ساتھ حق کو اور انہوں نے میری آیات کو اور (اس چیز کو) جس کے ساتھ انہیں خبردار کیا گیا تھا مذاق بنا لیا ہے ۞ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جسے نصیحت کی گئی ہو اس کے رب کی آیات کے ذریعے تو اس نے اعراض کیا ان سے اور وہ بھول گیا کہ کیا آگے بھیجا ہے اس کے دونوں ہاتھوں نے یقیناً ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ اس (قرآن) کو سمجھ نہ پائیں اور ان کے کانوں میں بوجھ (ڈال دیا ہے) اور اگرچہ آپ بلائیں انہیں ہدایت کی طرف تب بھی وہ کبھی ہدایت نہیں پائیں گے ۞ اور آپ کا رب بہت بخشنے والا بہت رحمت والا ہے اگر وہ مواخذہ کرتا ان کا بسبب ان کے اعمال کے تو بہت جلدی بھیج دیتا ان پر عذاب بلکہ ان کے لیے وعدے کا ایک وقت معین ہے اور وہ ہرگز نہیں پائیں گے اس کے سوا بچنے کی کوئی جگہ ۞
اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنے نوجوان (ساتھی) سے کہا کہ میں (چلنا) نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کے مقام پر پہنچ جاؤں یا میں برسوں چلتا ہی رہوں گا ۞
تو پایا انہوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو جسے ہم نے رحمت عطا کی تھی اپنی طرف سے اور اسے سکھایا تھا ایک علم خاص اپنے پاس سے ۞
اس نے کہا : اگر آپ میرے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے خود نہ پوچھنا یہاں تک کہ میں خود ہی آپ کو اس کے بارے میں بتادوں۞ ؏ پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ دونوں سوار ہوئے ایک کشتی میں تو اس نے اس (کشتی) میں شگاف ڈال دیا موسیٰ نے کہا کیا آپ نے اسے پھاڑ ڈالا ہے تاکہ غرق کردیں اس کے تمام سواروں کو ؟ یہ تو آپ نے بہت ہی غلط کام کیا ہے ۞
پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ ان کی ملاقات ہوئی ایک لڑکے سے تو اس (خضر) نے اس کو قتل کردیا موسیٰ نے کہا کیا آپ نے قتل کردیا ایک معصوم جان کو بغیر کسی جان کے (بدلے کے) یہ تو آپ نے بہت ہی نامعقول حرکت کی ہے ۞
پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب پہنچے ایک بستی کے لوگوں کے پاس تو انہوں نے کھانا مانگا بستی والوں سے تو انہوں نے انکار کردیا ان دونوں کی مہمان نوازی سے تو ان دونوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی تو اس (خضر) نے اسے سیدھا کردیا موسیٰ نے کہا : اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے ۞
جہاں تک اس کشتی کا معاملہ ہے تو وہ غریب لوگوں کی (ملکیت) تھی جو محنت کرتے تھے دریا میں تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو پکڑ رہا تھا ہر کشتی کو زبردستی ۞ رہا وہ لڑکا تو اس کے والدین دونوں مؤمن تھے تو ہمیں خدشہ ہوا کہ وہ سرکشی اور ناشکری سے ان پر تعدی کرے گا ۞ پس ہم نے چاہا کہ ان دونوں کو بدلے میں دے ان کا رب اس سے بہتر (اولاد) پاکیزگی میں اور قریب تر شفقت میں ۞ اور رہی وہ دیوار تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے خزانہ تھا ان دونوں کے لیے اور ان کا باپ نیک آدمی تھا لہٰذا آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور نکال لیں اپنا خزانہ (یہ سب امور) آپ کے رب کی رحمت سے (طے ہوئے) تھے اور میں نے اپنی رائے سے انہیں سر انجام نہیں دیا یہ ہے اصل حقیقت ان باتوں کی جن پر آپ صبر نہ کرسکے۞
اور یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہیے کہ ابھی میں آپ لوگوں کو اس کا حال بتاتا ہوں ۞ ہم نے اسے زمین میں تمکن عطا کیا تھا اور اسے ہر طرح کے اسباب و وسائل مہیا کیے تھے ۞
تو اس نے ایک (مہم کا) سروسامان کیا ۞ یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچا اس نے اسے غروب ہوتے ہوئے پایا ایک گدلے چشمے میں اور اس نے پایا وہاں ایک قوم کو ہم نے کہا : اے ذوالقرنین ! تم چاہو تو انہیں سزا دو اور چاہو تو ان (کے بارے) میں حسن سلوک کا معاملہ کرو ۞ اس نے کہا جس نے ظلم کیا ہم اسے سزا دیں گے پھر وہ لوٹایا جائے گا اپنے رب کی طرف اور وہ اسے بہت سخت عذاب دے گا ۞ اور جو کوئی ایمان لایا اور اس نے نیک اعمال کیے تو اس کے لیے ہے اچھی جزا اور اس سے ہم بات کریں گے اپنے معاملے میں نرمی سے ۞
انہوں نے کہا اے ذوالقرنین ! یا جوج اور ماجوج زمین میں بہت فساد مچانے والے لوگ ہیں تو کیا ہم آپ کو کچھ خراج ادا کریں کہ اس کے عوض آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں ۞ اس نے کہا جو کچھ مجھے دے رکھا ہے اس میں میرے رب نے وہ بہت بہتر ہے البتہ تم لوگ میری مدد کرو قوت (محنت) کے ذریعے سے میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا ۞
اور ہم چھوڑ دیں گے ان کو اس دن وہ ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہوجائیں گے اور صور میں پھونکا جائے گا پس ہم ان سب کو جمع کرلیں گے ۞ اور اس روز ہم جہنم کو کافروں کے سامنے لے آئیں گے ۞ وہ لوگ جن کی نگاہیں پردے میں تھیں میرے ذکر سے اور وہ سن بھی نہیں سکتے تھے۞ ؏ کیا کافروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ میرے ہی بندوں کو میرے مقابلے میں اپنے حمایتی بنا لیں گے یقیناً ہم نے تیار کر رکھا ہے جہنم کو ایسے کافروں کی مہمانی کے لیے ۞
آپ کہیے : کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں ۞ وہ لوگ جن کی سعی و جہد دنیا ہی کی زندگی میں گم ہو کر رہ گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۞ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا تو برباد ہوگئے ان کے اعمال اور ہم قائم نہیں کریں گے ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن ۞ ان کا بدلہ جہنم ہے بسبب اس کے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑایا ۞ اس کے برعکس) وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ان کی مہمانی کے لیے فردوس کے باغات ہوں گے ۞ وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے وہاں سے وہ جگہ بدلنا نہیں چاہیں گے ۞
(اے نبی) آپ کہیے کہ اگر سمندر روشنائی بن جائے میرے رب (کے کلمات کو لکھنے) کے لیے تو یقیناً سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں اگرچہ اسی کی طرح اور (سمندر) بھی ہم (اس کی) مدد کے لیے لے آئیں ۞
(اے نبی) آپ کہہ دیجیے کہ میں تو بس تمہاری ہی طرح کا ایک انسان ہوں مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی بھی امید رکھتا ہو اپنے رب سے ملاقات کی تو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۞
https://tanzil.net/#18:1 ( لنک سورہ کہف عربی)
☆ 📗 ☆ 🕋 ☆
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ
اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو
Obey Allah and obey The Messenger ﷺ
Tejdeed WhatsApp Group "تجدید- وہاٹس ایپ گروپ"
《《《 https://bit.ly/WhatsApp-Tejdeed 》》》
~~~~~~~~~
🌹🌹🌹
🔰 Quran Subjects 🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25 آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
- Quran Subjects Mag قرآن مضامین : https://bit.ly/3cqpfW3
- English-Web: https://QuranSubjects.wordpress.com
- Urdu-Web: https://Quransubjects.blogspot.com
- English Translation of this Urdu website.... [........]
- FB - https://www.facebook.com/QuranSubject
- Twitter: https://twitter.com/QSubjects
- قرآن آخری کتاب https://Quran1book.blogspot.com/
~~~~~~~~~