Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

احسان (وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ )



لفظِ احسان کا مادہ ’’ح - س - ن‘‘ ہے جس کے معنی ’’عمدہ و خوبصورت ہونا‘‘ کے ہیں۔ امام راغب اصفہانی لفظ حسن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا حسین ہونا ہے، جو ہر لحاظ سے پسندیدہ اور عمدہ ہو اور اس کا عمدہ ہونا عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی دل کو بھلا لگتا ہو اور یہ کہ حسی طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے بھی پرکشش ہو

احسان برائی کے مقابل میں آتا ہے اس کا اسم فاعل”مُحْسِنٌ“ہے اور امام سیبویہ کے نزدیک اس کا اسم فاعل”مِحْسَانٌ“ ہے۔ اعمال میں سےمَحَاسِنٌ (اچھائیاں) مَسَاوِيءِ (برائیوں)کےمدمقابل ہیں۔ اللہ تعالی کے فرمان: وَيَدْرَ‌ءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ‌ ﴿٢٢﴾ (الرعد) کا مطلب یہ ہے ان لوگوں سے اگر کوئی بری بات کرتا ہے تو یہ اچھی باتوں سے اس کا جواب دیتے ہیں۔ اور حَسَّنْتُ الشِّيْء تَحسِیناًکا معنی ہے :میں نے اس چیز کو خوبصورت اور حسین کر دیا اورأَحْسَنْتُ إِلَیْهِیاأَحْسَنْتُ بِهِ کا معنی ہے: میں نے اس سے احسان کیا-

ازھری نے ابو الہیشم سے نقل کیاہے کہ انہوں نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں اللہ کےاس فرمان : وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَ‌جَنِي مِنَ السِّجْنِ ۔۔۔ (یوسف 100)کے متعلق فرمایا کہ اس کا معنی ہے: یقینا میرے رب نے میرے ساتھ احسان کیا ۔ (بِی کا معنی إلىَّ کا ہے)۔

تھانوی کہتےہیں کہ: لفظ احسان کا اطلاق تین چیزوں میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے۔

(۱)کسی چیز کا طبیعت اور مزاج کے موافق ہونا ۔اس کے مقابل میں قبح ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کا طبیعت کے موافق نہ ہونا ۔

(۲)کسی چیز کا اپنے کمال تک پہنچنا ۔جس کا مقابل قبح نقصان کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ علم کمال ہے تو جہل نقصان ہے۔

(۳)کسی چیز کا قابل تعریف ہونا ۔اس کے مقابل میں قابل مذمت چیز ہوتی ہے۔امام مناوی کہتے ہیں: احسان ظاہری اسلام ہے جسے اندرونی ایمان سیدھا اور قائم رکھتا ہے اور اللہ کی نگہبانی پر یقین رکھنا اس کی تکمیل کرتا ہے۔

امام راغب اصفہانی کہتےہیں جس کا م کا کرنا مناسب ہوتا ہے اسے کرنے کو احسن کہتے ہیں۔

اسی سے باب افعال کا مصدر ’’احسان‘‘ ہے۔ گویا احسان ایسا عمل ہے، جس میں حسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حسن ہی حسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان تک نہ ہو۔ پس عمل کی اسی نہایت عمدہ اور خوبصورت ترین حالت کا نام ’’احسان‘‘ ہے اور اس کا دوسرا قرآنی نام ’’تزکیہ‘‘ ہے اور اس کے حصول کا طریقہ اور علم تصوف و سلوک کہلاتا ہے۔

احسان کے لغوی معانی ہیں : نیکی، اچھا سلوک، مہربانی کا برتاو، اچھے سلوک کا بار یا وہ جسے سلوک کرنے والا یا جس سے سلوک کیا گیا، محسوس کرے۔ 

قرآن مجید میں اکثر مقامات پر لفظ ’’احسان‘‘ کے ساتھ علم الاحسان کی اہمیت اور فضیلت کا بیان مذکور ہے۔

ارشاد باری تعالٰیٰ ہے :

ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنَوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا، وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ

’’پھر پرہیز کرتے رہے اور ایمان لائے پھر صاحبان تقویٰ ہوئے (بالآخر) صاحبان احسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکو کار بندے) بن گئے اور اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔ ‘‘(لقرآن 5:93)

مزید ایک جگہ فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ(قرآن: 9:119)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے, راست بازوں کے ساتھ رہو‘(قرآن: 9:119)

 تقویٰ کیا ہے؟ 

ان آیات مبارکہ میں پہلے تقویٰ کا بیان ہے جو  دراصل شریعت کے تمام احکام، حلال و حرام پر سختی سے عمل کرنے کا نام ہے۔ اس سے پہلے ’امنوا‘ میں عقائد و ایمانیات کا ذکر بھی آ گیا یعنی ایمان و اسلام پر مبنی شریعت کے تمام احکام کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ’’احسان‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان نہ صرف شریعت کے ظاہری احکام پر عمل کر کے اپنے باطنی احوال کو تقوی کے نور سے آراستہ کریں بلکہ اگر ان کو ایمان، اسلام اور احکام شریعت کی بجاآوری اور تقوی کے کمزور پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو انہیں چاہیے کہ سچے بندوں کی سنگت اختیار کر لیں جو صادقین اور محسنین ہیں اور یہی صاحبان احسان درحقیقت احسان کی راہ پر چلنے والے اللہ کے نہایت نیک اور مقرب بندے ہوتے ہیں۔ یہی وہ انعام یافتہ بندے ہیں جن کی راہ کو اللہ نے صراط مستقیم قرار دیا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں سیدھے رستے کی نشان دہی کرتے ہوئے دعا کرنے کی تلقین فرمائی گئی۔ ارشاد ہوتا ہے۔

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ. 

’’(اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا جن پر تو نے اپنا انعام فرمایا۔ ‘‘(قرآن 1:5,6)

یہ انعام یافتہ بندے کون ہیں۔ اس کی وضاحت خود قرآن مجید نے یہ کہہ کر فرمائی ہے :

وَلَهَدَيْنَاهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ‎﴿٦٨﴾‏ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ‎﴿٦٩﴾‏

’’ اور انہیں سیدھا راستہ دکھا دیتے (68) جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا٫ اور صدیقین اور شہدا٫ اور صالحین کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں (قرآن : 4:69)

حدیثِ جبرائیل میں "احسان" کا مفہوم

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

الإحسان اَنْ تَعْبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاهُ، فإنْ لَمْ تَکنْ تَرَاهُ فَإنَّه يَرَاکَ۔

’’احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ ‘‘(بخاری ، مسلم / بخاری، الصحيح : 34، رقم : 50، کتاب الايمان، باب بيان الايمان والاسلام والاحسان و وجوب الايمان، مسلم، الصحيح : 65، رقم : 1، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی عن الايمان والاسلام ولإحسان و علم اشاعة)


 احسان ،عدل سے بہتر اوراعلیٰ ہے

احسان ،عدل سے بہتر اوراعلیٰ ہے اس لئے کہ عدل یہ ہے کہ انسان کا جو حق بنتا ہے وہ لے اور جو اس پر کسی کا حق بنتا ہے وہ دے ۔اور احسان یہ ہے کہ انسان کا جو حق بنتا ہے اس سے زیادہ دے تو احسان عدل سے بڑھ کر ہے ۔عدل کی کوشش کرنا فرض ہے تو احسان کی کوشش کرنا نفل اور افضل ہے دونوں کا حکم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں موجود ہے: إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ‌ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ۔۔۔﴿٩٠﴾(النحل: ) ترجمہ: یقینا اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے ۔

اس وجہ سے اللہ نے احسان کرنے والوں کا اجرو ثواب بھی زیادہ رکھا ہے۔اس کا مصداق یہ فرمان الہی ہے : هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ﴿٦٠﴾ (الرحمن) جو دنیا میں احسان کرتا ہے آخرت میں اس کا یہی بدلہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے-

 احسان کے تین درجے

امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں: جس کا خلاصہ یہ ہے کہ احسان کے تین درجے ہیں :

  1. پہلا درجہ- نیت اور قصد میں احسان کرنا: یعنی نیت کو علم کے ساتھ درست کرنا۔ اور عزم کے ساتھ مضبوط کرنا اور کیفیت کے لحاظ سے اسے صاف اور خالص رکھنا ۔

  2. دوسرا درجہ - اپنی کیفیات میں احسان کرنا: یعنی اپنی کیفیات کا خیال رکھنا اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے انہیں چھپا کر رکھنا اور انہیں درست طریقے سے ثابت کرنا۔ ایمانی کیفیات کے خیال رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اصل ایمانی کیفیت کو بدلنے سے بچایاجائے ۔اس لئے کہ دل کی کیفیت بادل کے چلنے کی طرف بہت جلد بدل جاتی ہے۔ اور کیفیت ایمانی کی دیکھ بھال یہ ہے کہ انسان ہمیشہ وفاداری سے کام لے اور بے وفائی سے بچے۔

  3. تیسرا درجہ - اوقات میں احسان: اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نگرانی اور نگہبانی کو ہمیشہ مد نظر رکھا جائے اور کسی وقت بھی اس سے غفلت نہ برتی جائے ۔اور اپنے ارادے اور قصد میں اللہ کے سوا کسی اور کو نہ شامل کیا جائےیعنی ہمیشہ دل کا تعلق اللہ کے ساتھ رہے اس سے ہٹا کر کسی اور کے ساتھ دل نہ لگایا جائے

احسان کی جامع تعریف

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے، جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہو جا ئے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دے گا اور اس کے ظاہری ارکان آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا۔ الغرض عبادت کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کيفیت کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں-

 اللہ کن سے راضی ہوا  ( رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ )

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿التوبہ ۱۰۰﴾

وہ مہاجر اور انصارجنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے "احسن طریق" پر ان کی پیروی کی ، اللہ ان سب سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ا للہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیارکررکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے(قرآن 9:100)

اور وہ مہاجر اور ترک وطن کرنے والے اور مہاجرین کی مدد کرنے والے انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمانی کے قبول کرنے میں سبقت کی اور جنہوں نے اخلاص (احسان) کے ساتھ دعوت ایمانی کو قبول کرنے میں مہاجروں و انصار کا اتباع کیا اور مہاجرین و انصار کی پیروی کی اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے ایسے باغ تیارکررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ انعامات کا حصول سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یعنی وہ مہاجرین و انصار جو ایمان لانے میں مقدم اور سابق (سسبقت) ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نما ز پڑھی ہو خواہ وہ ہوں جو جنگِ بدر سے پہلے مسلمان ہوئے ہوں تمام امت میں یہی لوگ سابق اور قدیم ہیں اس کے بعد خواہ وہ صحابہ (رض) ہوں یعنی غیرمہاجرین و انصار یا تابعین اور تبع تابعین ہوں یا ان کے بعد کے لوگ ہوں علی فرقِ مراتب سب ہی کم و بیش اس بشارت میں شریک ہیں اگرچہ مراتب اور درجات کی نوعیت میں فرق ہوگا۔ جنگِ بدرتک جو مسلمان ہوئے وہ قدیم ہیں اور باقی ان کے تابع- الله نے سب مسلمانوں کو موقع دیا کہ وہ اس اعزاز سے محرومی کا شکوہ نہ کر سکیں مگر کسی کے عمل / اتباع میں "احسان" کی کیفیت کا باطنی علم صرف الله کو ہے- جو کوئی اس کا دعوی کرے وہ علم غیب کیسے جان سکتا ہے؟ >>>>>

(Tafseer;Kashf ur Rahman,by Ahmed Saeed Dehlvi) 

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ کا اتباع احسان  کے ساتھ مشروط ہےِ ۔۔۔۔۔۔

صحابہ اکرام : https://bit.ly/Sahabah

علم الحديث کے سات سنہرے اصول: https://bit.ly/Hadith-Basics

Verbal noun (form IV) (2:83:11) iḥ'sānan (be) good لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (2:178:25) bi-iḥ'sānin/with kindness/فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ (2:229:7) bi-iḥ'sānin with kindness الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (4:36:8) iḥ'sānan (do) good وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (4:62:15) iḥ'sānan good ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا (6:151:13) iḥ'sānan (be) good أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (9:100:8) bi-iḥ'sānin in righteousnessوَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (16:90:5) wal-iḥ'sāni and the good إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ (17:23:8) iḥ'sānan (be) good وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (46:15:4) iḥ'sānan kindness وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا (55:60:3) l-iḥ'sāni for the good هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ (55:60:5) l-iḥ'sānu good إِلَّا الْإِحْسَانُ


🌹🌹🌹

🔰 Quran Subjects  🔰 قرآن مضامین 🔰
"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]
The messenger said, "My Lord, my people have deserted this Quran." (Quran 25:30)
~~~~~~~~~

Popular Books