Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

ربا ، سود حرام



اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕ وَ اَمۡرُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۷۵﴾

 سود خور  لوگ نہ کھڑے ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے   ، یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے  حالانکہ اللہ تعالٰی نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام ،  جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ تعالٰی کی نصیحت سُن کر رُک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا  اور اس کا معاملہ اللہ تعالٰی کی طرف ہے  اور جو پھر دوبارہ  ( حرام کی طرف )  لوٹا وہ جہنمی ہے ،  ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے ۔   [سورة البقرة 2  آیت: 275]


 Those who consume interest cannot stand [on the Day of Resurrection] except as one stands who is being beaten by Satan into insanity. That is because they say, "Trade is [just] like interest." But Allah has permitted trade and has forbidden interest. So whoever has received an admonition from his Lord and desists may have what is past, and his affair rests with Allah . But whoever returns to [dealing in interest or usury] - those are the companions of the Fire; they will abide eternally therein. [ Surat ul Baqara: 2 Verse: 275]


یہ دراصل سود خور یہودیوں کا قول ہے اور آج کل بہت سے مسلمان بھی اسی نظریہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سودی قرضے دراصل دو طرح کے ہوتے ہیں ذاتی قرضے یا مہاجنی قرضے یعنی وہ قرضے جو کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لئے کسی مہاجن یا بنک سے لیتا ہے اور دوسرے تجارتی قرضے جو تاجر یا صنعت کار اپنی کاروباری اغراض کے لئے بنکوں سے سود پر لیتے ہیں۔ اب جو مسلمان سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جس سود کو قرآن نے حرام کیا ہے وہ ذاتی یا مہاجنی قرضے ہیں جن کی شرح سود بڑی ظالمانہ ہوتی ہے اور جو تجارتی سود ہے وہ حرام نہیں۔ کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی قرضوں کا رواج ہی نہ تھا۔ نیز ایسے قرضے چونکہ رضا مندی سے لئے دیئے جاتے ہیں اور ان کی شرح سود بھی گوارا اور مناسب ہوتی ہے اور فریقین میں سے کسی پر ظلم بھی نہیں ہوتا، لہذا یہ تجارتی سود اس سود سے مستثنیٰ ہے جنہیں قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔ یہاں ہم مجوزین تجارتی سود کے تمام دلائل بیان کرنے اور ان کے جوابات دینے سے قاصر ہیں۔ (جس کو تفصیلات درکار ہوں وہ میری تصنیف تجارت اور لین دین کے مسائل و احکام میں سود سے متعلق دو ابو اب ملاحظہ کرسکتا ہے) لہذا چند مختصر دلائل پر ہی اکتفا کریں گے :
١۔ دور نبوی میں تجارتی سود موجود تھے اور سود کی حرمت سے پیشتر صحابہ (رض) میں سے حضرت عباس اور خالد بن ولید ایسے ہی تجارتی سود کا کاروبار کرتے تھے۔ اس دور میں عرب اور بالخصوص مکہ اور مدینہ میں لاکھوں کی تجارت ہوا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں ہمسایہ ممالک میں تجارتی سود کا رواج عام تھا۔ 
٢۔ قرآن میں ربوا کا لفظ علی الاطلاق استعمال ہوا ہے جو ذاتی اور تجارتی دونوں قسم کے قرضوں کو حاوی ہے۔ لہذا تجارتی سود کو اس علی الاطلاق حرمت سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ 
٣۔ قرآن نے تجارتی قرضوں کے مقابل یہ آیت پیش کی ہے۔ (وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ٢٧٥۔ ) 2 ۔ البقرة :275) اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام جبکہ ذاتی قرضوں کے مقابل یوں فرمایا ( يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ٢٧٦۔ ) 2 ۔ البقرة :276) اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے سود کے خاتمہ کے لئے ذاتی قرضوں کا حل صدقات تجویز فرمایا ہے اور تجارتی قرضوں کے لئے شراکت اور مضاربت کی راہ دکھلائی ہے جو حلال اور جائز ہے۔ 
٤۔ جہاں تک کم یا مناسب شرح سود کا تعلق ہے تو یہ بات آج تک طے نہیں ہوسکی کہ مناسب شرح سود کیا ہے ؟ کبھی تو ٢ فیصد بھی نامناسب شرح سمجھی جاتی ہے۔ جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے لگ بھگ زمانے میں ریزوبنک آف انڈیا ڈسکاؤنٹ ریٹ مقرر ہوا اور کبھی ٢٩ فیصد شرح سود بھی مناسب اور معقول سمجھی جاتی ہے (دیکھئے : اشتہار انوسٹمنٹ بنک مشتہرہ نوائے وقت مورخہ ١٩٧٧ ئ۔ ٨-١١) 
شرح سود کی مناسب تعیین نہ ہوسکنے کی غالباً وجہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد ہی متزلزل اور کمزور ہے۔ مناسب اور معقول شرح سود کی تعیین تو صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے جب یہ معلوم ہوسکے کہ قرض لینے والا اس سے کتنا یقینی فائدہ حاصل کرے گا اور اس میں سے قرض دینے والے کا معقول حصہ کتنا ہونا چاہئے۔ مگر ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ قرض لینے والے کو اس مقرر مدت میں کتنا فائدہ ہوگا، یا کچھ فائدہ ہوگا بھی یا نہیں۔ بلکہ الٹا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔
 ثانیاً ایک ہی ملک اور ایک ہی وقت میں مختلف بنکوں کی شرح سود میں انتہائی تفاوت پایا جاتا ہے اور اگر سب کچھ مناسب ہے تو پھر نامناسب کیا بات ہے ؟ 
ثالثاً اگر شرح سود انتہائی کم بھی ہو تو بھی یہ سود کو حلال نہیں بنا سکتی۔ کیونکہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ حرام چیز کی قلیل مقدار بھی حرام ہی ہوتی ہے۔ شراب تھوڑی بھی ایسے ہی حرام ہے جیسے زیادہ مقدار میں (ترمذی، ابو اب الاشربہ، باب ما سکر کثیرۃ فقلیلہ حرام) 
٥۔ جہاں تک باہمی رضا مندی کا تعلق ہے تو یہ شرط صرف حلال معاملات میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حلال اور جائز معاملات میں بھی اگر فریقین میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو وہ معاملہ حرام اور ناجائز ہوگا۔ جیسے تجارت میں مال بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کی رضا مندی ضروری ہے ورنہ بیع فاسد اور ناجائز ہوگی۔ 
اسی طرح نکاح میں بھی فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔ لیکن یہ رضا مندی حرام کاموں کو حلال نہیں بناسکتی۔ اگر ایک مرد اور ایک عورت باہمی رضا مندی سے زنا کریں تو وہ جائز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی باہمی رضا مندی سے جوا جائز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سود بھی باہمی رضا مندی سے حلال اور جائز نہیں بن سکتا۔ 
علاوہ ازیں سود لینے والا کبھی سود دینے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ خواہ شرح سود کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ بلکہ یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے کہیں سے قرض حسنہ مل جائے تو وہ کبھی سود پر رقم لینے کو تیار نہ تھا۔ 
٦۔ رہی یہ بات کہ تجارتی سود میں کسی فریق پر ظلم نہیں ہوتا۔ گویا یہ حضرات سود کی حرمت کی علت یا بنیادی سبب ظلم قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تصور ہی غلط ہے۔ آیت کے سیاق وسباق سے واضح ہے کہ یہ الفاظ سودی معاملات اور معاہدات کو ختم کرنے کی ایک احسن صورت پیش کرتے ہیں یعنی نہ تو مقروض قرض خواہ کی اصل رقم بھی دبا کر اس پر ظلم کرے اور نہ قرض خواہ مقروض پر اصل کے علاوہ سود کا بوجھ بھی لاد دے۔ ان الفاظ کا اطلاق ہمارے ہاں اس وقت ہوگا جب ہم اپنے معاشرہ کو سود سے کلیتاً پاک کرنا چاہیں گے، یا نجی طور پر قرضہ کے فریقین سود کی لعنت سے اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہوں گے۔ 
سود کی حرمت کا بنیادی سبب ظلم نہیں بلکہ بیٹھے بٹھائے اپنے مال میں اضافہ کی وہ ہوس ہے جس سے ایک سرمایہ دار اپنی فاضل دولت میں طے شدہ منافع کی ضمانت سے یقینی اضافہ چاہتا ہے اور جس سے زر پرستی، سنگ دلی اور بخل جیسے اخلاق رذیلہ جنم لیتے ہیں۔ 
اب ایک مسلمان کا کام تو یہی ہونا چاہئے کہ جب اللہ نے سود کو حرام کردیا تو اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ خواہ اسے سود اور تجارت کا فرق اور ان کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے تاہم جو لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ تجارت بھی سود ہی کی طرح ہے۔ اللہ نے انہیں انتہائی بدھو اور مخبوط الحواس قرار دیا ہے۔ جنہیں کسی جن نے آسیب زدہ بنادیا ہو اور وہ اپنی خود غرضی اور زر پرستی کی ہوس میں خبطی ہوگئے ہوں کہ انہیں تجارت اور سود کا فرق نظر ہی نہیں آرہا، چونکہ وہ اس زندگی میں باؤلے ہو رہے ہیں۔ لہذا وہ قیامت کے دن بھی اسی حالت میں اپنی قبروں سے اٹھیں گے۔ اب ہم ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے سود اور تجارت کا فرق بتلاتے ہیں : 
١۔ سود ایک طے شدہ شرح کے مطابق یقینی منافع ہوتا ہے۔ جبکہ تجارت میں منافع کے ساتھ نقصان کا احتمال بھی موجود ہوتا ہے۔ خواہ کوئی شخص اپنے ذاتی سرمایہ سے تجارت کرے یا یہ مضاربت یا شراکت کی شکل ہو۔
٢۔ مضاربت کی شکل میں فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی، مروت اور مل جل کر کاروبار چلانے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا مفاد مشترک ہوتا ہے اور اس کا قومی پیداوار پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ جبکہ تجارتی سود کی صورت میں سود خوار کو محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وہ ایسے نازک وقت میں سرمایہ کی واپسی کا تقاضا کرتا اور مزید فراہمی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے جبکہ کاروبار کو سرمایہ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح سود خوار تو اپنا سرمایہ بمعہ سود نکال دیتا ہے مگر مقروض کو سخت نقصان پہنچتا ہے اور قومی معیشت بھی سخت متاثر ہوتی ہے۔ 
٣۔ مضاربت اور سود میں تیسرا فرق یہ ہے کہ مضاربت سے اخلاق حسنہ پرورش پاتے ہیں۔ جس سے معاشرہ میں اخوت اور خیر و برکت پیدا ہوتی ہے اور طبقاتی تقسیم مٹتی ہے۔ جبکہ سود سے اخلاق رذیلہ مثلاً خود غرضی، مفاد پرستی، بخل اور سنگدلی پیدا ہوتے ہیں۔ سود کی حرمت کی علت یہی اخلاق رذیلہ اور ہوس زر پرستی ہے۔ سودی نظام معیشت نے صرف ایک ہی شائی لاک (ایک سنگ دل یہودی کا مثالی کردار جس نے بروقت ادائیگی نہ ہونے کی بنا پر اپنے مقروض کی ران سے بےدریغ گوشت کا ٹکڑا کاٹ لیا تھا) پیدا نہیں کیا بلکہ ہر دور میں ہزاروں شائی لاک پیدا ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ 
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو سود کھاچکا وہ معاف ہے بلکہ یوں فرمایا کہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو بخش دے، چاہے تو سزا دے۔ لہذا محتاط صورت یہی ہے کہ وہ سود کی حرام کمائی خود استعمال نہ کرے بلکہ جس سے سود لیا تھا اسے ہی واپس کردے تو یہ سب سے بہتر بات ہے ورنہ محتاجوں کو دے دے یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کر دے۔ اس طرح وہ سود کے گناہ سے تو شاید بچ جائے مگر ثواب نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ حرام مال کا صدقہ قبول نہیں کرتا۔  [ عبدل رحمان کیلانی ]

ربا ، سود پرعلماء کی  مختلف آراء 

اسلام میں حرمتِ سود کے تدریجی احکام

آپ صلی الله علیہ وسلم جس زمانے میں مبعوث ہوئے اس میں اہل عرب سودی معاملات میں پوری طرح دھنسے ہوئے تھے ،سود خور سرمایہ داروں نے سودی لین دین کو خرید وفروخت کی طرح کا لین دین قرار دے کر اسے رائج کر رکھا تھا، الله تعالیٰ نے شراب کی طرح سود کے بارے میں بھی اپنی حکمت سے تدریجی احکام نازل فرماکر بالآخر مطلق حرام قرار دیا۔

پہلا حکم:
سود کے متعلق نفرت اجاگر کرنے کے لیے پہلے بتایا گیا کہ یہ یہودیوں کی عادت ہے، جو لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں: ﴿وَأَخْذِہِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُہُواْ عَنْہُ وَأَکْلِہِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِل﴾․ (النسا:161) ”اور اس وجہ سے سود لیتے تھے اور ان کو اس کی ممانعت ہو چکی تھی او راس وجہ سے کہ لوگوں کا مال کھاتے تھے ناحق۔“

دوسرا حکم:
سود کی شرح نہایت بلند ہوتی تھی، مثلاً100روپے کا سالانہ سود بھی 100 لیا جاتا ، یعنی ایک سال میں سود راس المال کے برابر ہو جاتا ، مقروض دینے پر قادر نہ ہوتا تو تیسرے سال مزید 100 روپے شرح سود میں بڑھا دیے جاتے، اب سود اصل رقم سے دو گنا ہو جاتا، اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ وہ دوگنا پر دوگنا ہوتا چلا جاتا۔ چناں چہ مسلمانوں کو اس قدر گراں شرح سود سے روکا گیا :﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون﴾․(اٰل عمران:130)”اے ایمان والو! مت کھاؤ سود دونے پردونا اور ڈرو الله سے، تاکہ تمہارا بھلا ہو ۔“

اس آیت کے بعد بھی مسلمانوں میں سودی کاروبار کچھ نہ کچھ باقی رہا تھا کیوں کہ سود در سود سے روکا گیا تھا، نفس سود معمولی شرح کے ساتھ ممنوع نہ تھا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے طائف کے باشندوں سے جو معاہدہ طے فرمایا تھا اس سے بھی یہی معلوم ہو تا ہے کہ سودی کاروبار کی محدوداجازت تھی۔ (کتاب الأمْوال لأبی عبید القاسم بن سلام: ص:206)

تیسرا حکم:
پھر سورہٴ بقرة کی مذکورہ آیت سے ہر طرح کے سود کو حرام قرار دیا گیا، پھر نبوت کے آخری سال اگلی والی آیت اتری، جس میں سودی لین دین کرنے والوں کو الله اور رسول کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا، چناں چہ ابن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں آخر ی آیت جو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ آیت ربواتھی ۔ (جامع البیان، سورة البقرہ تحت آیة رقم:278)

یعنی جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن ایسے اٹھائے جائیں گے جیسے انہیں شیطان نے لپٹ کر بدحواس کر دیا ہو، ان کی دیگر سزاؤں کے ساتھ ساتھ سود خوری کی نحوست سے یہ خاص سزا انہیں اس لیے دی جائے گی کہ انہوں نے الله کے حکم حرمت سود پر”سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا“ کہہ کر قبول کرنے کے بجائے عقلی انداز میں کہا کہ خرید وفروخت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، لہٰذا جس طرح خرید وفروخت جائز ہے، اسی طرح سود بھی جائز ہونا چاہیے، اس عقلی دلیل کی وجہ سے آخرت میں سزا بھی مخبوط الحواسی کی صورت میں ملے گی، نیز سود اور خرید وفروخت کا فرق سب جانتے ہیں او رجب آیت نازل ہوئی عرب ان دونوں کی حقیقت سے واقف تھے، لیکن شیطان نے سود خور سرمایہ داروں کو تسلی دی کہ خرید وفروخت بھی سود ہی کی طرح ہوتی ہے۔ دونوں میں مقصود نفع کمانا ہوتا ہے، حالاں کہ خریدوفروخت میں نفع او رنقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے ۔ تاجر نفع کے حصول اور نقصان سے بچاؤ کے لیے صبح وشام کی بھاگ دوڑ اور ذہنی تدابیر اختیار کرتا ہے، اس کے مقابلے میں سود خور سود پر رقم دے کر مطمئن ہو جاتا ہے ۔ لینے والے کا فائدہ ہویا نقصان، سود خور کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی، اس کا نفع ہر لمحہ بغیر کسی نقصان کے اندیشے کے بڑھتا ہی رہتا ہے، کیوں کہ شریعت میں سود کہتے ہیں اصل قرضہ پر بلامعاوضہ زیادتی کو ۔ (روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:275)
-------------------------

سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں۔ ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت دی گئی ہے:

لغت میں ربا کا معنی زیادتی‘ بڑھوتری اور بلندی ہے۔ ابو القاسم الحسین بن محمد اصفہانی کہتے ہیں:

الربا الزیادة علی رأس المال لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دُون وجه۔

اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض ، دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے سود نہیں۔

أصفهاني، المفردات في غریب القرآن، 1: 187، دار المعرفة لبنان

ابو منصور محمد بن احمد الازہری، محمد بن مکرم بن منظور الافریقی اور محمد مرتضیٰ الحسینی الزبیدی فرماتے ہیں:

الرِّبا رَبَوان فالحرام کُلّ قَرْض یُؤْخذ به أکثر منه أو تجرُّ به مَنْفعة فحرام والذي لیس بحرام أن یَهبه الانسان یَسْتَدعي به ما هو أکثر أو یُهدي الهدِیَّة لِیُهدَی له ما هو أکثر منها۔

زیادتی دو قسم پر ہے، حرام وہ قرض ہے جو زیادتی کے ساتھ وصول کیا جائے یا اس سے فائدہ (بطور شرط) حاصل کیا جائے، وہ حرام ہے اور جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم پر بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط دیدے۔

الأزہري، تہذیب اللغة، 15: 196، دار احیاء التراث العربي بیروتابن منظور، لسان العرب، 14: 304، دار صادر بیروتالزبیدي، تاج العروس، 38: 118، دار الہدایة

ابو السعادات المبارک بن محمد الجزری لکھتے ہیں:

هو في الشرع الزیادة علی أصل المال من غیر عقد تبایع۔

شریعت میں رباء کا مطلب تجارتی سودے کے بغیر اصل مال پر اضافی منافع وصول کرنا۔

ابن الأثیر الجزري، النهایة، 2: 192، المکتبة العلمیة بیروت

احمد بن علی الرازی الجصاص ابو بکر فرماتے ہیں:

هو القرض المشروط فیه الأجل و زیادة مال علی المستقرض۔

جس قرض میں مدت متعین کے ساتھ قرض لینے والے کو اضافی رقم دینا مشروط ہو۔

جصاص، أحکام القرآن، 2: 189، دار احیاء التراث العربي بیروت

لہٰذا قرض میں دئے ہوئے اصل مال پر جو اضافی رقم مدت کے مقابلہ میں شرط اور تعیین کے ساتھ لی جائے وہ سود ہے۔

آپ نے اپنے سوال میں بتایا ہے کہ کوئی کمپنی آپ کو اصل رقم پر تین (3) فیصد سالانہ اضافے کی بنیاد پر قرض دے رہی ہے، تو یہ سود ہے۔ اسلامی قوانینِ معیشت کے مطابق ایسا قرض لینے اور دینے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ جس قرض کے ساتھ بھی قرض خواہ متعین مدت کے ساتھ معین رقم کا مطالبہ کرے گا، وہ سوائے سود کے اور کچھ نہیں۔ کیونکہ یہ ضرورت مند کے ساتھ ظلم اور اس کا استحصال ہے، اور اسلام ایسے ظلم اور استحصال کے خاتمے کے لیے آیا ہے۔

اس کے مقابلے میں اسلام کا طرزِ معیشت خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہے، جس میں قرضِ حسنہ کو فروغ دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نفع و نقصان کی شراکت کی بنیاد پر مضاربہ کی صورت میں سرمایہ کاری کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ مضاربہ کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کے لیے ملاحظہ کیجیے:
بیع مضاربہ کیا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔ مفتی: عبدالقیوم ہزاروی
-------------------
 ’’قرض ادا کرتے وقت کسی پیشگی شرط کے بغیر اصل رقم سے زائد دینا قابلِ ستائش اور سنتِ رسولﷺ کے مطابق ہے۔ حضرت جابرؓ  کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ان کے مقروض تھے۔ آپﷺ نے مجھے ادائیگی کی اور اصل سے زیادہ رقم دی (مسلم، ۱۹۸۱، ۱۰م ص ۲۱۹، نسائی ص ۲۸۳، ۲۸۴، ابن قدامہ، ص ۳۲۰،۳۲۱)۔

 اسی طرح رسول اللہﷺ نے ادھار میں لیے گئے ایک اونٹ کی ادائیگی کے لیے ایک بہتر اونٹ دینے کا حکم دیا کیونکہ ادائیگی کے وقت مطلوبہ عمر کا اونٹ دستیاب نہ تھا۔ ‘‘  (اسلامی مالیات، ص۔۲۱۸)۔
چونکہ تجارت میں فائدے کے لیے عربی میں ’ربا‘ (مادّہ رب و) کا لفظ موجود ہی نہیں اس لیے اس پر الف لام (ال) لگاکر قرض پر حاصل ہونے والی زیادتی کا خاص مفہوم پیدا کرنے کا تصوّر ہی بے معنی ہے۔ ’ربا‘ کے لفظ میں ہی قرض پر بڑھوتری و زیادتی تصوّر موجود تھا اور اہلِ عرب اس لفظ کو اسی معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ الف لام لگا کر البتہ قرآن نے اس قرض کو خاص کر دیا جس پر اضافہ کو حرام قرار دینا مقصود تھا۔ حضرت مفتی محمد شفیعؒ بہت حوالوں کے بعد لکھتے ہیں: ’’مذکورہ الصدر حوالوں سے یہ واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ لفظ ’ربا‘ ایک مخصوص معاملہ کے لیے عربی زبان میں نزولِ قرآن سے پہلے سے متعارف چلا آتا تھا، اور پورے عرب میں اس معاملہ کا رواج تھا وہ یہ کہ قرض دے کر اس پر کوئی نفع لیا جائے اور عرب صرف اسی کو ربا کہتے اور سمجھتے تھے۔‘‘ (مسئلہِ سود؛ ص۔۲۳)۔
ربا اور سود میں فرق ۔۔۔۔ محمد انور عباسی
اگر عرب لفظ ’ربا‘ کو ایک مخصوص معاملہ یعنی قرض پر بڑھوتری کے لیے استعمال کرتے تھے تو یہ کہنا کس طور درست ہو سکتا ہے کہ معاملات خریدوفروخت اور تجارت پر ہونے والے فائدے کے لیے ’ربا‘ کا اطلاق ہو سکتا ہے؟
خلاصہِ کلام:  بینک انٹرسٹ کو ذہن میں رکھ کر ’ربا‘ کی تمام تعریفیں نہ صرف متضاد ہیں بلکہ بسا اوقات ایک ہی مفکر کی تعریفیں آپس میں ٹکراتی ہیں۔  لُغوی لحاظ سے ’الربوٰ‘ کا اطلاق بینک انٹرسٹ پر درست نہیں۔  علمائے کرام کے بیان کردہ مفاسد کا اطلاق بینک انٹرسٹ پر نہیں ہوتا، بلکہ اہلِ حاجت یعنی غریب افرادکو قرض دے کر فائدہ اٹھانے پر ہوتا ہے۔  سیاق و سباق کا لحاظ رکھا جائے تو قرآن مجید میں ’الربوٰ‘ کا اطلاق اس بڑھوتری پر ہوتا ہے جو اہلِ حاجت کو قرض دے کر حاصل کیاجائے۔ بعض لوگ کرنسی، سونا چاندی، گندم، جو اور کھجور وغیرہ کو خلط مبحث کر کے بیچ میں لے آتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو اس پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔ ہم نے لوگوں کے تبصروں سے صرفِ نظر کر کے اپنا نقطہِ نظر پیش کر دیا ہے۔ اہلِ علم سے درخواست ہے کہ ان دلائل پر نقد کیا جائے۔ >>>> http://daanish.pk/21640


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا ﴿سورة النساء 4  آیت: 29

 اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ ، مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خرید وفروخت   ، اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو  یقیناً اللہ تعالٰی تم پر نہایت مہربان ہے ۔  (4:29)

 O you who have believed, do not consume one another's wealth unjustly but only [in lawful] business by mutual consent. And do not kill yourselves [or one another]. Indeed, Allah is to you ever Merciful. [ Surat un Nissa: 4 Verse: 29]

افراط زر اور جدید بنکنگ سسٹم :

 افراط زر بہت ہی اصل مسئلہ ہے ، جس کی وجہ سے کسی کے  transaction ٹرانزیکشن میں نقصان ہوئے بغیر کچھ عرصے کے لئے دوسرے کے پاس رقم بھیجنا مشکل ہوجاتا ہے۔ 
 یہ نہ صرف کسی دوسرے شخص کو دیئے گئے قرض پر ، بلکہ کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھے ہوئے پیسوں پر بھی لاگو ہوتا ہے ، جو سود نہیں دیتا ہے۔  کسی بھی قسم کی بچت جو ریٹرن نہیں دیتی ہے ، مہنگائی کی وجہ سے کھو جانے والی قیمت ہے۔  وہاں کوئی ناانصافی ، ظلم یا تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔  یہ خدائی حکم ہے جو قرآن میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

 "آپ کو ناانصافی نہیں کی جانی چاہئے اور کسی کو تکلیف نہیں پہنچنا چاہئے۔"

اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا اُس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں، مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا (84) اور اے برادران قوم، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو (11:85قران )

 اس سب کے لئے پوری طرح مطالعہ کی ضرورت ہے تاکہ اسکالرز موجودہ دور کے مسائل کے جوابات سامنے لائیں ، بجائے اس کے کہ بعد کے مسائل پر پہلے کے اسکالروں کے احکامات کا اطلاق کریں۔
 مولانا ، محترم۔  ۔۔  یہ حرام کیسے ہے؟
 افراط زر کی وجہ سے رقم کی قدر میں کمی کو دور کرنے کے لئے  زیادہ کا استعمال کچھ خاصی خوبی ہے۔  یہاں مقصد یہ ہے کہ انسان کے پاس جو ہے اس کی اصل قیمت کو برقرار رکھنا۔

 سوال یہ ہے کہ کیا یہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ 

 یہ ایک بہت ہی مشکل سوال نہیں  ہے اور علماء اس نکتے پر قطعی فیصلہ نہیں لائے ہیں۔  یہ مسئلہ تب تک برقرار رہے گا جب تک کہ کسی قابل استحصال جواب کی تلاش نہیں کی جاسکتی ہے تاکہ بغیر کسی استحصال کے سرمایہ کاروں ، قرض دینے والوں اور قرض لینے والوں کے ساتھ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔  ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمنٹس 
بات سیدھی ہے ہمارے علماء ذمہ داری لینے سے گھبراتے ہیں علم کی کمی یا اعتماد کی ۔۔۔ مکھی پر مکھی مارنا آسان ہے ۔۔۔
قرآن کی آیت 11:85  واضح ہے ۔۔۔ ناپ تول میں کمی نہ کرو ۔۔۔
اب انفلیشن کا ریٹ چیک کریں ۔۔۔ جو منافع اسلامی بنک دے رہا ہے اسے انفلیشن سے منفی کریں ۔۔۔ وہ آپ کا جائیز مال ہے سود نہیں ۔۔۔ جو زیادہ ہو تو خیرات کر دو۔۔ 
مثال #1
۔۔۔ انفلیشن 12% ۔۔۔۔ منافع 13% ۔۔۔ 
13-12=1%۔۔۔۔۔۔ 1% ایکسٹرا 

1% خیرات کردو

مثال #2
منافع 12% ۔۔ انفلیشن 14% 
14-12= 2% نقصان 
جوب ظاہر ہے ۔۔
اسے کوئی غلط ثابت کرے ۔۔؟ قرآن سے دلیل کے ساتھ ۔۔۔من گھڑت تاویلون سے نہیں ۔۔ جزاک اللہ
-----------------

افراط زر 

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ کاغذی کرنسی کی قدر (Value)افراط زر کے باعث کم ہو جاتی ہے۔ جب قرض دینے والے کو ایک خاص مدت کے بعد اس کی رقم لوٹائی جاتی ہے تو اس وقت اس افراط زر کے باعث اسے نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس صورت میں قرض دینے والا اس نقصان کی تلافی کے لیے قرض لینے والے سے کچھ زائد رقم کا تقاضا کرے تو کیا یہ تقاضا بھی ''ربا''ہی شمار ہو گا ؟

اگر افراطِ زر کی صحیح شرح کے مطابققرض کی اصل رقم سے کچھ زائد رقم کا تقاضا کیا جائے تو وہ ''ربا''شمار نہیں ہو گا۔ اس صورت میں نہ قرض دینے والا قرض کے استعمال پر پہلے سے متعین شدہ زائد رقم کا تقاضا کرسکتا ہے اور نہ اس زائد رقم کو حقیقی طور پر نفع کہا جا سکتا ہے۔

افراطِ زر یا روپے کی حقیقی قدر میں کمی بیشی کے لحاظ سے قرضوں کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے عدل و قسط پر مبنی کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر:

۱۔ یہ معاملہ حکومت پاکستان کی طرف سے اعلان کی گئی افراطِ زر کی شرح کے مطابق کیا جائے۔

۲۔ یہ معاملہ ملک میں سب سے زیادہ صرف ہونے والی چند چیزوں کی اوسط قیمت کے مطابق کیا جائے۔

۳۔ یہ معاملہ ملک میں سونے کی قیمت میں جو اتار چڑھاؤ آتا ہے، اس کے مطابق کیا جائے۔ مثال کے طور پر قرض کے لین دین کے موقع پر دونوں فریقین اس وقت مارکیٹ میں سونے کی قیمت کے لحاظ سے معاہدے میں یہ شرط رکھ لیتے ہیں کہ قرض کی واپسی کے وقت مارکیٹ میں سونے کی جو قیمت ہو گی، اس کے مطابق ادائیگی کی جائے گی ۔ فرض کریں ، اسلم خاور کو ۱۰۰ روپے قرض دیتا ہے اور اس وقت مارکیٹ میں سونے کی قیمت ۱۰۰ روپے فی گرام ہے تو اس وقت یہ طے پائے گا کہ خاور نے اسلم سے ۰۰ ۱گرام سونا قرض لیا ہے۔ پھر جب خاور قرض اتارتا ہے اور اس وقت سونے کی قیمت ۱۵۰روپے فی گرام ہے تو اسے ۱۵۰ روپے واپس کرنا ہوں گے۔ اسی طرح اگرقرض لوٹاتے وقت سونے کی قیمت ۹۰ روپے فی گرام ہو تو خاور اسلم کو ۹۰ روپے واپس کرے گا۔

یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہمارے نزدیک قرض کے لین دین میں افراط زر کے مطابق ایڈجسٹمنٹ نہ صرف جائز، بلکہ مطلوب ہے، جس طرح ایک قرض دینے والا ''ربا''وصول کر کے قرض لینے والے پر ظلم کرتا ہے، اسی طرح قرض لینے والا قرض اتارتے وقت افراطِ زر کی حقیقت نظر انداز کر کے قرض دینے والے پر ظلم کرتا ہے۔ [لنک ]

..................

جمہور علماۓاسلام اور علماۓ الازہر کے نزدیک تعبیرات "الربا" سود


پچھلے  دنوں    "مولانا مودودی -ر ح- پر  صداۓ مسلم فورم پر ایک گفتگو ہوئی جس میں مولانا کے متعلق بات ہوتی رہی اور فیس بک کے دوستوں نے اس بات چیت میں حصہ لیا اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ، اس گفتگو میں شامل اسلامی معیشت کا موضوع بھی تھا ، اسی گفتگو سے ہم نےمندرجہ بالا  مباحث لیے ہیں اور معمولی حک و اضافہ سے قارئیں کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ اگر کوئی صاحب چاہے تو استفادہ کر سکتا ہے۔

سیونگ سرٹیفکیٹ اور سود ۔۔ الازہر کا فتوی؟

ڈاکٹر سید طنطا و ی ( سابق مفتی مصر) صاحب نے اپنی کتاب پر اٹھنے والے اعتراضات کے جواب میں ایک انٹرویو میں کہا. " یہ کہنا کہ مفتی مصر سود کی حلا ل سمجھتا ہے، بالکل غلط ہے. ایسی بات تو کوئی بھی صاحب دین و عقل کہہ نہیں سکتا. بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو شخص سودی لیں دین کو جائز کرے،وہ مرتد اور اسلام سے خارج ہے، کیونکہ اس نے اس چیز کو حلال کیا جو واضح طور پر حرام ہے. 

اب رہی یہ بات کہ میں نے بنکوں کے معاملات جیسے سیو نگ سر ٹیفکیٹ اور اس سے ملتے جلتے معاملات کو جائز قرار دیا ہے تو یہ الگ بات ہے، اور درست ہے.

 میں نے یہ یو نہی نہیں کہ دیا. بلکہ بڑے گہرے علمی مطا لعے ، بنکوں کے بارے میں اقتصادی اور شرعی ماہرین سے باہمی مشاورت کے بعد میں نے اسے جائز قرار دیا ہے جس کی تفصیل میری کتاب میں موجود ہے. 

ایسا کہنے میں اکیلا نہیں ہوں کہ سیو نگ سرٹیفکیٹ اور ایسے دیگر معاملات اور ان کا نفع حلال ہے، بلکہ مجھ سے پہلے جلیل ا القدر علماء کی بھی یہی را ئے ہے. جیسے عبدل الجلیل عیسی، یاسین سویلم ، عبدا للہ المشد ، محمد سلام مدکور، زکریا البری اور عبدل العظیم برکہ وغیرہ کتاب - الحلال و ا لحرام فی معاملات النبوک ، مصر :مارچ ١٩٩٢،س، ٤٢ ، بذریعہ تاج الدین ازہری [ نوٹ : اس پر تنقید بھی ہوئی ہے ..]
  1. http://halaleco.blogspot.com/2012/08/blog-post_13.html
  2. http://daanish.pk/21640
  3. ’’ربا‘‘ سے متعلق سپریم کورٹ کے سوالات : http://www.al-mawrid.org/index.php/articles_urdu/view/riba-say-mutaliq-supreme-court-kay-sawalaat
  4. http://salaamone.blogspot.com/2015/04/riba-usury.html
  5. Al Azhar University fatwa allows for fixed returns on Bank deposits: https://www.sukuk.com/education/al-azhar-university-fatwa-interest-bank-deposits-271/
  6. Criticism of Fatwa: https://gulfnews.com/uae/islamic-finance-al-azhars-fatwa-on-fixed-rate-of-return-1.351298
  7. https://www.independent.co.uk/news/obituaries/sheikh-mohamed-sayyid-tantawi-controversial-imam-who-preached-tolerance-1923670.html



..
بسم اللہ 

Popular Books