Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

SOCIETY معاشرہ


معاشرہ افراد کے ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے کہ جسکی بنیادی ضروریات زندگی میں ایک دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں- انسانی معاشرہ افراد کے باہمی تعلقات اور روابط کا دوسرا نام ہے جو چند اصولوں اور ضوابط کے تحت استوار ہوتے ہیں ۔ حقوق الله اور حقوق العباد  کی ادائیگی اسلامی معاشرہ کی کامیابی کا راستہ ہے-  حقوق العباد بھی الله کے احکام ہیں- [2:177]
حقوق العباد قرآنی احکام کی نمایاں خصوصیت ہے ۔ اللہ اور بندے کے حقوق متعین کرنے کے بعد بندوں کے باہمی تعلقات کو حقوق العباد کی لڑی میں پرودیا گیا کہ ان پر کاربند ہونے سے ایک صحت مند اور امن و امان کا علمبردار معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔ قرآن حکیم میں والدین اور اولاد کے باہمی تعلقات کے بعد میاں بیوی کے تعلقات ایک صحت مند معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔ قرآن کریم نے اپنے مملوک سے بھی حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ۔ قرآن کریم ہمسائیوں سے بھی حسن سلوک کی توقع کرتا ہے ۔ مہمانوں کے بارے میں حکم ہے کہ ان سے محبت اور ایثار سے پیش آئو  یتیموں سے نیک سلوک کی بار بار تاکید کی گئی ۔ سائل کو بھی جھڑکنے سے منع فرمایا گیا غرضیکہ کوئی طبقہ بھی معاشرے میں ایسا نہیں جسے حسن سلوک کے بارے میں واضح احکامات نہ دئیے گئے ہوں. 
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ  اَنۡ خَلَقَکُمۡ  مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَاۤ   اَنۡتُمۡ  بَشَرٌ  تَنۡتَشِرُوۡنَ ﴿۲۰﴾
 اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر  ( چلتے پھرتے )  پھیل رہے ہو ۔ [سورة الروم 30  آیت: 20]
وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الۡمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ  نَسَبًا وَّ صِہۡرًا ؕ وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیۡرًا ﴿۵۴﴾
 وہ ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا  پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا  بلاشبہ آپ کا پروردگار  ( ہر چیز پر )  قادر ہے ۔  [سورة الفرقان 25  آیت: 54]
وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ بَنِیۡنَ وَ حَفَدَۃً  وَّ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ؕ اَفَبِالۡبَاطِلِ  یُؤۡمِنُوۡنَ وَ بِنِعۡمَتِ اللّٰہِ ہُمۡ یَکۡفُرُوۡنَ ﴿ۙ۷۲﴾
 اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لئےتمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں ۔  کیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں گے؟  اور اللہ تعالٰی کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے؟ [سورة النحل 16  آیت: 72]
And of His signs is that He created you from dust; then, suddenly you were human beings dispersing [throughout the earth]. [Surat ur Room: 30 Verse: 20]
And it is He who has created from water a human being and made him [a relative by] lineage and marriage. And ever is your Lord competent [concerning creation]. [ Surat ul Furqan: 25 Verse: 54]
And Allah has made for you from yourselves mates and has made for you from your mates sons and grandchildren and has provided for you from the good things. Then in falsehood do they believe and in the favor of Allah they disbelieve? [Surat un Nahal: 16 Verse: 72]..
نیکی کی اصل حقیقت اور ایمان  (2:177)

لَيۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡهَكُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَلٰـكِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَالۡمَلٰٓئِکَةِ وَالۡكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ‌ۚ وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِۙ وَالسَّآئِلِيۡنَ وَفِى الرِّقَابِ‌ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّکٰوةَ ‌ ۚ وَالۡمُوۡفُوۡنَ بِعَهۡدِهِمۡ اِذَا عٰهَدُوۡا ۚ وَالصّٰبِرِيۡنَ فِى الۡبَاۡسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيۡنَ الۡبَاۡسِؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ۞ 
ترجمہ:
نیکی بس یہی تو نہیں ہے کہ اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کرلو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر اور اللہ کی کتابوں اور اس کے نبیوں پر ایمان لائیں، اور اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں، اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خڑچ کریں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور جب کوئی عہد کرلیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے کے عادی ہوں، اور تنگی اور تکلیف میں نیز جنگ کے وقت صبر و استقلال کے خوگر ہوں۔ ایسے لوگ ہیں جو سچے (کہلانے کے مستحق) ہیں، اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں۔

Righteousness is not that you turn your faces toward the east or the west, but [true] righteousness is [in] one who believes in Allah , the Last Day, the angels, the Book, and the prophets and gives wealth, in spite of love for it, to relatives, orphans, the needy, the traveler, those who ask [for help], and for freeing slaves; [and who] establishes prayer and gives zakah; [those who] fulfill their promise when they promise; and [those who] are patient in poverty and hardship and during battle. Those are the ones who have been true, and it is those who are the righteous.[2:177]
سورہ البقرہ میں کئی ایسی عظیم آیات آئی ہیں جو حجم کے اعتبار سے بھی اور معنی و حکمت کے اعتبار سے بھی بہت عظیم ہیں ، یہ "آیت البر" ہے ‘ جس میں نیکی کی حقیقت واضح کی گئی ہے۔
لوگوں کے ذہنوں میں نیکی کے مختلف تصوّرات ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ وہ ہے جس کا نیکی کا تصور یہ ہے کہ بس سچ بولنا چاہیے ‘ کسی کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے ‘ کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے ‘ یہ نیکی ہے ‘ باقی کوئی نماز روزہ کی پابندی کرے یا نہ کرے ‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے !
ایک طبقہ وہ ہے جس میں چورّ اُچکے ‘ گرہ کٹ ‘ ڈاکو اور بدمعاش شامل ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کرتے ہیں اور یہ کام ان کے ہاں نیکی شمار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جسم فروش خواتین بھی اپنے ہاں نیکی کا ایک تصور رکھتی ہیں ‘ وہ خیرات بھی کرتی ہیں اور مسجدیں بھی تعمیر کراتی ہیں۔
ہمارے ہاں مذہبی طبقات میں ایک طبقہ وہ ہے جو مذہب کے ظاہر کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اس کی روح سے ناآشنا ہوتا ہے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ مچھر چھانتے ہیں اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہیں۔ ان کے اختلافات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ:
رفع یدین کے بغیر نماز ہوئی یا نہیں ؟ تراویح آٹھ ہیں یا بیس ہیں ؟ باقی یہ کہ سودی کاروبار تم بھی کرو اور ہم بھی ‘ اس سے کسی کی حنفیتّ یا اہل حدیثیّت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ 
نیکی کے یہ سارے تصورات مسخ شدہ perverted ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے اندھوں نے ایک ہاتھی کو دیکھ کر اندازہ کرنا چاہا تھا کہ وہ کیسا ہے۔ کسی نے اس کے پیر کو ٹٹول کر کہا کہ یہ تو ستون کی مانند ہے ‘ جس کا ہاتھ اس کے کان پر پڑگیا اس نے کہا یہ چھاج کی طرح ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں نیکی کا تصور تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ بقول اقبال : ؂
اڑائے کچھ ورق لالے نے ‘ کچھ نرگس نے کچھ گل نے 
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری !
یہ آیت اس اعتبار سے قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے کہ : 
  1. نیکی کی حقیقت کیا ہے؟
  2.  نیکی کی جڑ بنیاد کیا ہے؟
  3. نیکی کی روح کیا ہے؟
  4. نیکی  کے مظاہر کیا ہیں ؟ 
  5. پھر ان مظاہر میں اہم ترین کون سے ہیں اور ثانوی حیثیت کن کی ہے ؟
چناچہ اس ایک آیت کی روشنی میں قرآن کے علم الاخلاق پر ایک جامع کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ گویا اخلاقیات قرآنی Quranic Ethics کے لیے یہ آیت جڑ اور بنیاد ہے۔ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ یہ آیت یہاں کیونکر آئی ہے۔ اس کے پس منظر میں بھی وہی تحویل قبلہ ہے۔ تحویل قبلہ کے بارے میں چار رکوع ١٥ تا ١٨ تو مسلسل ہیں۔ اس سے پہلے چودھویں رکوع میں آیت آئی ہے : وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُق فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ط آیت ١١٥ ادھر بھی اٹھارہویں رکوع کے بعد اتنی آیتیں چھوڑ کر یہ آیت آرہی ہے۔ فرمایا :
آیت ١٧٧ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ  
اس عمل کے نیکی ہونے کی نفی نہیں کی گئی۔ یہ نہیں کہا گیا کہ یہ کوئی نیکی ہی نہیں ہے۔ یہ بھی نیکی ہے۔ نیکی کا جو ظاہر ہے وہ بھی نیکی ہے ‘ لیکن اصل شے اس کا باطن ہے۔ اگر باطن صحیح ہے تو حقیقت میں نیکی نیکی ہے ‘ ورنہ نہیں۔ 
وَلٰکِنَّ الْبِرَّ  
مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَآٰءِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج ۔ 
سب سے پہلے نیکی کی جڑ بنیاد بیان کردی گئی کہ یہ ایمان ہے ‘ تاکہ تصحیح نیت ہوجائے۔ 
1۔ایمانیات میں سب سے پہلے اللہ پر ایمان ہے۔ یعنی جو نیکی کر رہا ہے وہ صرف اللہ سے اجر کا طالب ہے۔
2۔پھر قیامت کے دن پر ایمان کا ذکر ہوا کہ اس نیکی کا اجر دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں مطلوب ہے۔ ورنہ تو یہ سوداگری ہوگئی۔ اور آدمی اگر سوداگری اور دکانداری کرے تو دنیا کی چیزیں بیچے ‘ دین تو نہ بیچے۔ دین کا کام کر رہا ہے تو اس کے لیے سوائے اخروی نجات کے اور اللہ کی رضا کے کوئی اور شے مقصود نہ ہو۔
3۔ یوم آخرت کے بعد فرشتوں ‘ کتابوں اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان کا ذکر کیا گیا۔
یہ تینوں مل کر ایک یونٹ بنتے ہیں۔ فرشتہ وحی کی صورت میں کتاب لے کر آیا ‘ جو انبیاء کرام  علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ ایمان بالرسالت کا تعلق نیکی کے ساتھ یہ ہے کہ نیکی کا ایکّ مجسمہ ‘ ایک ماڈل ‘ ایک آئیڈیل اسوۂ رسول ﷺ ‘ کی صورت میں انسانوں کے سامنے رہے۔ ایسا نہ ہو کہ اونچ نیچ ہوجائے۔ نیکیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی جذبات میں ایک طرف کو نکل گیا اور کوئی دوسری طرف کو نکل گیا۔ اس گمراہی سے بچنے کی ایک ہی شکل ہے کہ ایک مکمل اسوہ سامنے رہے ‘ جس میں تمام چیزیں معتدل ہوں اور وہ اسوہ ہمارے لیے ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت ہے۔ نیکی کے ظاہر کے لیے ہم آپ ﷺ ہی کو معیار سمجھیں گے۔ جو شے جتنی آپ ﷺ ‘ کی سیرت میں ہے ‘ اس سے زیادہ نہ ہو اور اس سے کم نہ ہو۔ کوشش یہ ہو کہ انسان بالکل رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ کاملہ کی پیروی کرے۔ 
وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ  
یعنی مال کی محبت کے علی الرغم۔ عَلٰی حُبِّہٖ میں ضمیر متصلّ اللہ کے لیے نہیں ہے بلکہ مال کے لیے ہے۔ مال اگرچہ محبوب ہے ‘ پھر بھی وہ خرچ کر رہا ہے۔ 
ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِلا والسَّآءِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ ج ۔ 
گویا نیکی کے مظاہر میں اوّلین مظہر انسانی ہمدردی ہے۔
اگر یہ نہیں ہے تو نیکی کا وجود نہیں ہے۔ عبادات کے انبار لگے ہوں مگر دل میں شقاوت ہو ‘ انسان کو حاجت میں دیکھ کر دل نہ پسیجے ‘ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تجوری کی طرف ہاتھ نہ بڑھے ‘ حالانکہ تجوری میں مال موجود ہو ‘ تو یہ طرز عمل دین کی روح سے بالکل خالی ہے۔ 
سورة آل عمران آیت ٩٢ میں الفاظ آئے ہیں : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط تم نیکی کے مقام کو پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ خرچ نہ کرو اس میں سے جو تمہیں محبوب ہے۔ یہ نہیں کہ جس شے سے طبیعت اکتا گئی ہو ‘ جو کپڑے بوسیدہ ہوگئے ہوں وہ کسی کو دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی جائے۔ جو شے خود کو پسند ہو ‘ عزیز ہو ‘ اگر اس میں سے نہیں دیتے تو تم نیکی کو پہنچ ہی نہیں سکتے۔ 
وَاَقَام الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ج اور قائم کرے نماز اور ادا کرے زکوٰۃ۔ 
حکمت دین ملاحظہ کیجیے کہ نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد آیا ہے۔ اس لیے کہ روح دین ایمان ہے اور نیکی کے مظاہر میں سے مظہر اوّل انسانی ہمدردی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیجیے کہ یہاں زکوٰۃ کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے ‘ جبکہ اس سے قبل ایتائے مال کا ذکر ہوچکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
 اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکَاۃِ  ٢٠
یقیناً مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔
یعنی اگر کچھ لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ بس ہم نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال دی تو پورا حق ادا ہوگیا ‘ تو یہ ان کی خام خیالی ہے ‘ مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے۔ اور آپ ﷺ نے یہی مذکورہ بالا آیت پڑھی۔
ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد نماز اور زکوٰۃ کا ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ایمان کو تروتازہ رکھنے کے لیے نماز ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ  طٰہٰ  نماز قائم کرو میری یاد کے لیے۔ اور انسانی ہمدردی میں مال خرچ کرنے کے جذبے کو پروان چڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے زکوٰۃ ہے کہ اتنا تو کم سے کم دینا ہوگا ‘ تاکہ بوتل کا منہ تو کھلے۔ اگر بوتل کا کارک نکل جائے گا تو امید ہے کہ اس میں سے کوئی شربت اور بھی نکل آئے گا۔ چناچہ اڑھائی فیصد تو فرض زکوٰۃ ہے۔ جو یہ بھی نہیں دیتا وہ مزید کیا دے گا ؟ 
وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْا ج ۔ 
انسان نے سب سے بڑا عہد اپنے پروردگار سے کیا تھا جو عہد الست کہلاتا ہے ‘ پھر شریعت کا عہد ہے جو ہم نے اللہ کے ساتھ کر رکھا ہے۔ پھر آپس میں جو بھی معاہدے ہوں ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ 
معاملات انسانی سارے کے سارے معاہدات کی شکل میں ہیں۔ شادی بھی شوہر اور بیوی کے مابین ایک سماجی معاہدہ social contract ہے۔ شوہر کی بھی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں اور بیوی کی بھی کچھّ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔
شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں ‘ بیوی کے شوہر پر حقوق ہیں۔ پھر آجر اور مستأجر کا جو باہمی تعلق ہے وہ بھی ایک معاہدہ ہے۔ تمام بڑے بڑے کاروبار معاہدوں پر ہی چلتے ہیں۔ پھر ہمارا جو سیاسی نظام ہے وہ بھی معاہدوں پر مبنی ہے۔ تو اگر لوگوں میں ایک چیز پیدا ہوجائے کہ جو عہد کرلیا ہے اسے پورا کرنا ہے تو تمام معاملات سدھر جائیں گے ‘ ان کی stream lining ہوجائے گی۔ 
وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط ۔ 
یہ نیکی بدھ مت کے بھکشوؤں کی نیکی سے مختلف ہے۔ 
یہ نیکی باطل کو چیلنج کرتی ہے۔
یہ نیکی خانقاہوں تک محدود نہیں ہوتی ‘ صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں رہتی ‘ بلکہ اللہ کو جو نیکی مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ۔
اور جب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ گے تو خود بھی تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی۔ اس راہ میں صحابہ کرام رض کو بھی تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں اور جانیں دینی پڑی ہیں۔ اللہ کا کلمہ سربلند کرنے کے لیے سینکڑوں صحابہ کرام رض نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ دنیا کے ہر نظام اخلاق میں خیراعلیٰ (summum bonum)کا ایک تصوّر ہوتا ہے کہ سب سے اونچی نیکی کیا ہے !
قرآن کی رو سے سب سے اعلیٰ نیکی یہ ہے کہ حق کے غلبے کے لیے ‘ صداقت ‘ دیانت اور امانت کی بالادستی کے لیے اپنی گردن کٹا دی جائے۔ وہ آیت یاد کر لیجیے جو چند رکوع پہلے ہم پڑھ چکے ہیں : وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ  اور جو اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں جام شہادت نوش کرلیں انہیں مردہ مت کہو ‘ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعورحاصل نہیں ہے۔ 
اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط ۔ 
راست بازی اور نیکوکاری کا دعویٰ تو بہت سوں کو ہے ‘ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دعوے میں سچے ‘ ہیں۔ 
وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ  ۔ 
ہمارے ذہنوں میں نیکی اور تقویٰ کے کچھ اور نقشے بیٹھے ہوئے ہیں کہ شاید تقویٰ کسی مخصوص لباس اور خاص وضع قطع کا نام ہے۔ یہاں قرآن حکیم نے نیکی اور تقویٰ کی حامل انسانی شخصیت کا ایک ہیولا اور اس کے کردار کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے کہ اس کے باطن میں روح ایمان موجود ہے اور خارج میں اس ترتیب کے ساتھ دین کے یہ تقاضے اور نیکی کے یہ مظاہر موجود ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ آمین یا رب العالمین
اس کے بعد وہی جو انسانی معاملات ہیں ان پر بحث چلے گی۔ سورة البقرۃ کے نصف ثانی کے مضامین کے بارے میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ یہ گویا چار لڑیوں پر مشتمل ہیں ‘ جن میں سے دو لڑیاں عبادات اور احکام و شرائع کی ہیں۔ 
(بیان القران ، ڈاکٹر اسرار احمد)
..............

قرآن نے جس طرح فرد کی زندگی کو اہمیت دی ہے، اسے آزادی، مساوات اور عدل و انصاف سے نوازا ہے، وہیں اس نے اس کو معاشرے سے الگ بھی تصور نہیں کیا ہے۔ جس سے اس کی معاشرتی زندگی بنتی ہے اور اس کی نسل بڑھتی اور برقرار رہتی ہے- اسلام نے فرد کے مفادات اور حقوق کے خیال کے ساتھ ، اس کو وسیع ترین معاشرے کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے فرائض و واجبات بھی دیے ہیں۔ کسی نظام کے برخلاف ، اسلام کے معاشرتی نظام میں صالح اجتماعیت اور معاشرہ کا تحفظ و بقا فرد کے تحفظ و بقا کے مقابلے میں کہیں زیادہ ضروری ہے۔ اسلام نے ایسے صالح معاشرہ کی تشکیل کا خاکہ پیش کیا ہے اور اس کو عملی جامہ پہنایا ہے، جس میں خیر اور نیکی کو خوب پنپنے کا موقع ملے اور شر و برائی کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملے۔
 اسلام کا عمومی حکم ہے کہ معاشرے میں بھلائی اور خدا ترسی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے اور گناہ و ظلم کے کاموں میں کسی قسم کی کوئی مدد نہ کی جائے۔ ( سورة المائدة ۲:۵) بلکہ مستقل طور پر ایک دوسرے کو نیکی کی تلقین کرتے رہنے اور برائیوں سے روکنے کی ہمت افزائی کی گئی ۔(سورة التوبة ۷۱:۹) نیز، حدیث میں حکم ہوا کہ تم میں جو شخص برائی دیکھے اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس پر قادر نہ ہو تو زبان سے ، اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو دل سے اس کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ (صحیح مسلم ، جلد اول ، کتاب الایمان)
اسلام نے ان تمام سرچشموں کو بند کردیا ہے جن سے صنفی برائیاں معاشرہ میں پھیلتی ہیں۔ شرم و حیا کی سخت تاکید کی گئی اور اسے ایمان کا جز قرار دیا گیا۔ (الحیاءُ شعبةٌ مِنَ الایمانِ ، صحیح بخاری جلد اول باب امور الایمان)مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہوا کہ جب ان کی نظر مقابل صنف پر پڑے تو اپنی نظریں نیچی کرلیں۔ (سورة النور ۳۱-۳۰)
زنا کو بدترین برائیوں میں شمار کیا گیا اور اس کے خلاف معاشرے میں شدید ترین نفرت و حقارت کے جذبات پیدا کردیے گئے اور زنا کے مرتکب افراد کے لیے نہایت سخت سزاؤں کا اعلان کیا گیا۔ (دیکھیے قرآن کریم ۳۲:۱۷ و ۳:۲۴) مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل جول سخت ممنوع قرار دیا گیا۔ عام حالات میں عورتوں کا دائرہٴ کار گھر کی چہاردیواری تک محدود کردیا گیا اور انھیں بلا ضرورت باہر نکلنے سے روک دیا گیا۔ (وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیة الاولی: سورة الاحزاب ۳۳:۳۳)
اسلام نے نکاح کوآسان بنایا اور اس کی خاص تاکید و ترغیب دی۔بہت ہی قریب کے چند رشتوں کوچھوڑ کر باقی تمام لوگوں سے نکاح جائز قرار دیا گیا۔ اسی طرح ذات پات اور طبقاتی فرق بھی نکاح میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ جوانوں کو مجرد رہنے کو خاص طور پر ناپسند کیا گیا۔ بیوہ عورتوں اور رنڈووں کو پھر سے ازدواجی زندگی اختیار کرلینے کی ہدایت کی گئی۔ اسلام کا حکم ہے کہ لڑکی جب جوانی کی عمر کو پہنچ جائے اور اس کے لیے مناسب رشتہ میسرآجائے تو فوراً اس کا نکاح کردو!
اسلام نے فرد کی آزادی، حقوق اور احترامِ نفس کو نہ صرف قبول کیا؛ بلکہ اسے بڑھاوا دیا؛ لیکن ساتھ ہی معاشرے کو فرد سے زیادہ اہمیت دی؛ اسی لیے فرد کو ایسے کاموں کی اجازت نہیں دی گئی جس سے معاشرے کے مجموعی اخلاقی و فکری ماحول میں کوئی منفی اثر پیدا ہوتا ہو۔ انھیں اسباب کی بنیاد پر اسلام نے زنا، بے حیائی، بے پردگی اور اخلاق باختگی کو کسی صورت میں برداشت نہیں کیا ہے؛ جب کہ اس کے دوسرے معاشرہ میں فرد کو مرکزیت و اہمیت دینے کی روش سے سماج کو بے شمار اخلاقی و سماجی برائیوں سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ 

غرض اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد کے ادوار میں انسانی حقوق، انسانی اخوت و مساوات اور معاشرتی اصلاحات میں واضح طور پر فرق محسوس ہوگا- آج انسانی معاشرہ ایک بار پھر انھیں تاریک ادوار میں واپس جارہا ہے، جہاں صرف نفس و شیطان کی حکمرانی تھی؛ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو ربانی ہدایات کے مطابق ڈھالیں؛ تاکہ پھر وہی خالص اخلاقی و روحانی سکون ہمیں حاصل ہوسکے۔
قرآن میں کامیاب اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور مختلف سماجی تعلقات میں ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی نشان دہی کی گئی ہے … 

موضوع / عنوانات کی فہرست ایک انسانی کوشش ہونے کی وجہ سے ، کامل یا حتمی نہیں ہوسکتی ہے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ قرآن پر تدبر، غور کرنے میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے قارئین کی حوصلہ افزائی میں مددگار ہو ... 

The subject/topic lists  being a human effort, cannot be perfect or final. However it may encourage the reader to develop interest in pondering on Quran...


SOCIety / معاشرہ 

Popular Books