Featured Post

قرآن مضامین انڈیکس

"مضامین قرآن" انڈکس   Front Page أصول المعرفة الإسلامية Fundaments of Islamic Knowledge انڈکس#1 :  اسلام ،ایمانیات ، بنی...

صرف خود نیکی کرنا کافی نہیں بلکہ معاشرہ کو برائیوں سے بچانا اور نیکی کہ ترغیب بھی ضروری


کسی جرم کا براہ راست ارتکاب کرنا ہی صرف جرم نہیں ہے ‘ بلکہ کسی فرض کی عدم ادائیگی کا فعل بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ مثلاً ایک مسلمان ذاتی طور پر گناہوں سے بچ کر بھی رہتا ہے اور نیکی کے کاموں میں بھی حتی الوسع حصہ لیتا ہے۔ وہ صدقہ و خیرات بھی دیتا ہے اور نماز ‘ روزہ کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ یہ سب کچھ تو وہ کرتا ہے مگر دوسری طرف، معاشرہ میں برائیوں کو روکنے اور نیکی کی ترغیب کی کوشش نہیں کرتا، کہ کیا میں نے سب کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ یہ سنگین جرم ہے۔
 اللہ اور اس کے دین کی نصرت ‘ اقامت دین کی جدوجہد اور اس جدوجہد میں اپنے مال اور اپنے وقت کی قربانی جیسے فرائض سے پہلو تہی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے تو ایسا شخص بھی گویا مجرم ہے اور عذاب کی صورت میں وہ اس کی لپیٹ سے بچ نہیں پائے گا۔ اس لحاظ سے یہ دل دہلا دینے والی آیت ہے۔ امربالمعروف و نہی عن المنکر لازم ہے۔

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاتَّقُوۡا فِتۡنَةً لَّا تُصِيۡبَنَّ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡكُمۡ خَآصَّةً‌ ۚ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ۞ 
(القرآن - سورۃ نمبر 8 الأنفال , آیت نمبر 25)
ترجمہ:
اور ڈرو اس فتنے سے جو تم میں سے صرف گنہگاروں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا اور جان لو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے
 تفسیر:
وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّةً ۚوَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ
یہ خطاب پورے معاشرے سے عموما ان لوگوں سے خصوصاً ہے جن پر انفرادی اصلاح کا رجحان غالب ہوتا ہے اور اس رجحان کے سبب سے انہیں اس امر سے کچھ زیادہ تعلق خاطر نہیں رہتا کہ دوسرے لوگ کیا کرتے ہیں

ایسے لوگوں کو جھجنھوڑنے کے لیے فرمایا کہ اپنے معاشرے کے اندر ابھرنے والی خرابیوں سے بےتعلق نہ رہو بلکہ اپنے امکان اور اپنی صلاحیت کے حد تک اس کی اصلاح کی کوشش کرو اس لیے کہ معاشرے میں اگر کوئی خرابی جڑ پکڑ لے تو وہ بالتدریج ایک وبائے عا کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور جب وبائے عام کی صورت اختیار کرلیتی ہے تو اس کے برے اثرات و نتائج انہی لوگوں کی حد تک محدود نہیں رہتے جو بالفعل ان برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں بلکہ ان خرابیوں پر راضی یا خاموش رہنے والے بھی ان کی زد میں آجاتے ہیں اگرچہ وہ عملاً ان میں مبتلا نہ ہوں۔ 
اس حقیقت کو نبی ﷺ نے ایک کشتی کے مسافروں کی تمثیل سے سمجھایا ہے کہ اگر کچھ لوگ ایک کشتی میں سفر کریں، کچھ اس کے اوپر کے حصے میں، کچھ نیچے والے حصے میں، نیچے والے یہ محسو کر کے کہ انہیں پانی کے لیے اوپر جانے کی زحمت اٹھانی پڑتی ہے، یہ فیصلہ کریں کہ ہم کیوں نہ کشتی کے نیچے کے حصے میں سوراخ کرلیں اور اوپر والے یہ خیال کر کے کہ وہ اپنے حصے میں سوراخ کر رہے ہیں، ہمیں اس سے کیا سروکار، اس پر خاموش رہیں تو نیچے والوں کے اس فعل کے نتیجہ میں جشتی ڈوبے گی تو اوپر والوں اور نیچے والوں دونوں کو لے کر ڈوبے گی۔ 

*اس بنیاد پر اسلام نے ہر شخص پر دوسروں کو برائی سے روکتے رہنے کی ذمہ داری ڈالی ہے۔*
 پیغمبر ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم میں سے جو شخص بھی کوئی برائی دیکھے، اگر ہاتھ سے اس کو روک سکتا ہو تو ہاتھ سے روکے، اگر ہاتھ سے نہ روک سکتا ہو تو زبان سے روکنے کی کوشش کرے، اگر اس کی بھی استعطاعت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا سمجھے۔ اس سے نیچے ایمان کا کوئی وجہ نہیں ہے۔

یہ آیت جس سیاق میں آئی ہے اگر اس سیاق پر نظر دالیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک گروہ تو ان لوگوں کا ہے جو حق کو ماننے کا زبان سے تو مدعی ہے لیکن اس کے مطالبات پورے کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ اس کو قرآن نے اس بات سے ڈرایا ہے کہ ایسے لوگ اگر اپنے رویے کی اصلاح نہیں کرتے تو خدا کا قانون ان کے اور ان کے دلوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو حق کو مانتے ہیں لیکن اس حق سے انہیں اتنا لگاؤ نہیں ہوگا کہ وہ اس کی خاطر دوسروں کی ناراضگی مول لینے کے لیے تیار ہوں، ان لوگوں کو اس بات سے ڈرایا کہ *اگر معاشرے میں کوئی برائی پھیل گئی تو اس کے نتائج بد سے یہ لوگ بھی حفوظ نہ رہ سکیں گے* ۔ محفوط صرف وہ لوگ رہیں گے جو اپنی صلاحیت کی حد تک اپنا حق نصیحت ادا کرتے رہیں گے۔
*قطع نظر اس سے کہ کوئی ان کی بات سنتا ہے یا نہیں اور خوش ہوتا ہے یا نا خوش*
 وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۔ 
یہ پاداش عمل کے قانون کے بےلچک اور بےرو رعایت ہونے کی تعبیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ 
*خدا کے قوانین جس طرح جسمانیات و مادیات میں بےلچک ہیں اسی طرح اخلاقیات میں بھی بےلچک ہیں۔*

 فاسد آب و ہوا میں سانس لینے والا جس طرح آب و ہوا کے فساد سے لازماً متاثر ہوتا ہے اگر وہ ضروری احتیاطیں نہ کرے۔ اسی طرح برے ماحول میں زندگی گزارنے والا اس کے برے عواقب کی زد میں آجاتا ہے۔ اگر وہ شرطیں وہ ملحوط نہ رکھے جو اوپر مذکور ہوئیں۔ اس معاملے میں قانون الٰہی کسی کی رعایت اور کسی کی جانبدار نہیں کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌹🌹🌹
🔰 *Quran Subjects*  🔰 *قرآن مضامین* 🔰
*"اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا" [ الفرقان 25  آیت: 30]*
*کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر ّنہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑچکے ہیں[47:24]*
*قرآن کے پیغام کوپھیلانا "جہاد کبیرہ" ہے(25:52)*
🤷🏻‍♂️
*FB* - https://www.facebook.com/QuranSubject
*English*- https://QuranSubjects.wordpress.com  
*Urdu*- https://Quransubjects.blogspot.com 
https://flip.it/6zSSlW
The Last, lost Book: https://Quran1book.blogspot.com
#Quran #Islam #Muslims #Pakistan #Society

Popular Books